خالدہ حسین کی دریافت: عامر حسین (ترجمہ: اسد فاطمی)
پچھلی گرمیاں، 1991 میں، مدرسۂ مشرقی و افریقی علوم (SOAS) میں اپنی تدریسی کلاسوں کے درمیانی وقفے میں، مجھے پلٹ کے آئی کتابوں کا ایک چھکڑا راہ میں پڑا اور میں نے ایک کتاب اٹھا لی – پاکستان سے منتخب افسانے، جس کی تدوین احمد علی نے کی تھی۔ جدید اردو شاعری سے تو میری کافی شناسائی تھی ، لیکن اردو کے معاصر افسانوی ادب کی ذرّہ برابر بھی خبر نہ تھی ۔ عملیت اور کسی قدر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر، میں وہ کتاب اجراء کروا کے گھر لے آیا۔ احمد علی کے شامل کردہ کچھ نام– اس کا اپنا نام، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین – جانے پہچانے تھے؛ دوسرے نام میرے لیے نئے تھے۔ 14 لکھنے والوں میں چار خواتین جو تھیں، ان میں صرف جمیلہ ہاشمی کا نام میں جانتا تھا، جس کے بارے میں میں نے ہان سُویین کے پاکستان میں گزارے وقت کی یادداشتوں سے کبھی پڑھا تھا؛ اس مجموعے میں شامل اس کی کہانی ’بَن باس‘ کمال کی تھی اور میں نے اس کے مزید کام کے مطالعے کے لیے ایک الگ سے نوٹ بنا لیا۔
لیکن جس افسانہ نگار اور افسانے نے سب سے زیادہ مجھے اپنی طرف مائل کیا وہ ایک اور تھا: خالدہ حسین کا افسانہ ’ایک نام کی کہانی‘۔ یہ ایسے افسانوں میں سے تھا جن میں کسی مہا بیانیے کی کمان آپ کے سر کے اوپر نہیں تنی ہوئی ہوتی، جو آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، جو چھوٹی چھوٹی جزویات کی مدد سے اپنا اثر قائم کرتے جاتے ہیں ۔ اس میں، ایک موٹاپے کی ماری، خود نفرینی کا شکار عورت اپنے عکس اور میلے تاریک آسمان تلے کھیلتے بچوں کی ایک تیرتی سی تصویر کے درمیان اٹک کے رہ گئی ہے؛ شاید بچوں کے کسی نغمے سے، ایک گیت کے بول، مرکزی کردار کے نیستی پسند خیالات کے ساتھ بُنے جاتی ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے افسانہ اردو میں پڑھنا چاہیے کیونکہ اس کی ترجمہ شدہ سطح سے صاف ظاہر تھا کہ سینۂ قرطاس پر نظر آ رہے نپے تلے انگریزی الفاظ سے کہیں زیادہ نغمگی سے معمور اور بے چین کر دینے والی کوئی بات ہے اس میں۔
ایک دو دن بعد مجھے پاس کی عوامی لائبریری سے ’پہچان‘ مل گیا، یعنی وہ مجموعہ جس میں یہ افسانہ چھپا تھا، اور یونیورسٹی کے قریب کے کتاب فروش سے ایک اور جلد، ’دروازہ‘ بھی مل گئی۔ دونوں دیدہ زیب ایڈیشن 1982ء میں سنگ میل نے شائع کیے تھے۔ میں اس میں کھو سا گیا۔ یہ افسانے بوالعجب، فراواقعی (surreal)، آبلہ خیز، دل کو چھو لینے والے اور اپنی جگہ شاعرانہ تھے۔ اپنے قرب و جوار سے کٹے ہوئے جوان پُررمز سی صورتحالوں میں پڑے ہوئے ہیں: سمندر کے پاس ایک پراسرار عورت کی ہمراہی میں کسی اٹھتی ہوئی موجِ طغیان میں گھرنے کو ہیں، ایک مکان میں اپنی گزشتہ محبت کے ہمراہ جو بڑے ناموں کے بارے میں حکیمانہ مقولے سناتی ہے، ایک ایسے شہر کے دروازے پر جس کے آگے لکھا ہوا ہے کہ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ایک عورت جس کا ہاتھ عطر کی شیشیاں چرانے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ہے لیکن رات کے وقت وہ اپنے بازو سے جڑنے کے لیے سرکنے لگتا ہے ۔ ایک اور عورت کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے باغیچے کا کِرم خوردہ درخت شاید کسی قبر سے پھوٹ رہا ہے ۔ خالدہ حسین، عام طور پر اپنے بے زمام سے اسلوب میں، مغربی دیوپری کی داستانوں کا دستور بھی نبھاتی ہے: اس کی زبانی، مینڈک شہزادہ اپنے کنویں میں رہتا ہے اور، ایک راویانہ مداخلت میں، ایک بِلی شہزادی کی دُم/داستان کے ساتھ ابھی تک ایک جھاڑن بندھا ہوا ہے۔
کہانیوں کی ساخت نے اردو افسانوی ادب کے بارے میں میرے ان جملہ تعصبات کو للکار دیا، جو کہ میرے یونیورسٹی کے دنوں میں نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور مٹھی بھر ترقی پسند ادیبوں کے مطالعے پر مبنی تھے، اور جو حال ہی میں عصمت چغتائی کے ادبی کاموں کو پڑھ کے بدل گئے تھے۔
خالدہ حسین کا زبان کا برتاؤ بھی، نادر طرح کا رہا، جیسے وہ اردو داستان کا اپنا سا حصہ ایک تواتر اور معمول سے اندراج میں رکھتی ہو، اور گاہے گاہے وہ بدیسی زیرو بم بھی ملے گا جو فرانز کافکا، ورجینیا وولف اور ژاں پال سارتر کی یاد دلا دیتا ہے۔ مجھے جدید افسانے کی غیر مغربی بنت نے مسحور کر دیا تھا اور بالآخر مجھے ایسے لگا کہ میں ایک ایسی لکھاری کو پڑھ رہا ہوں جس نے دراصل کچھ ایسا تخلیق کر دیا ہے جو پوری طرح سے طبعزاد ہے۔ میں اگر اس کا کسی سے موازنہ کر سکتا تھا تو وہ صرف انتظار حسین تھے – مثلاًدونوں لکھاریوں پر لوک داستانوں کا فسوں چلا ہوا ہے، لیکن حتمی طور پر دونوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا، ان کے طرز فکر کی آپسی مشابہتوں کی نسبت زیادہ منہ بولتا امر ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ مجھے کسی افسانے کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی ترغیب ہوئی – چند سال بعد میرے شائع کردہ پاکستانی افسانوی ادب کے ایک انتخاب کا سرنامہ افسانہ ’ Hoops of Fire ‘ – خالدہ حسین کے افسانے ’ الاؤ ‘ کی میری اپنی سی ترجمانی ہے، جو راوی کی پیش کی گئی سرکس کے کسی جانور کی طرح اس تسمیہی الاؤ سے پھلانگنے والی واہماتی تجلی پر ختم ہوتا ہے۔
ایک سال بعد، خالدہ کا نیا مجموعہ، مصروف عورت، SOAS کی لائبریری میں تھا۔ اگرچہ اس نے خالدہ کے ادبی ترکے میں کسی نمایاں افسانے کا اضافہ نہیں کیا، لیکن اس نے اس کی اپنی مابعدالطبیعیات کی اس کی اپنی تفتیش کو گہرائی اور نکھار بخشا۔ پہلا افسانہ شعوری طور پر قصہ گوئی کے فن کے بارے میں ہے، اور آخری کہانی آئزک بشیویس سنگر کی ’ مارکیٹ اسٹریٹ کا اسپینوزا ‘ کا ترجمہ ہے جو مصنفہ نے کیا ہے۔
1996 میں، جب میں اپنے انتخاب کے لیے تحقیق میں مگن تھا، میں ایک ربع صدی بعد پہلی بار کراچی لوٹا۔ میرے تعجب کے لیے بہت تھا کہ فہمیدہ ریاض نے مجھے خالدہ حسین کے ساتھ اس کے افسانوی ادب پر بات کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ اس مابعد ضیا الحق زمانے میں، میں نے اس غیرسیاسی سمجھی جانے والی ادیبہ سے اس بارے میں پوچھا جسےمیں سیاسی تلمیحات سمجھتا ہوں: سُولیاں، پھانسی گھاٹ اور قبرستان، کٹے ہوئے اعضاء، کپڑوں میں لپیٹی ہوئی عورتیں۔ مجھے اس کے ردعمل کے الفاظ بعینہٖ تو یاد نہیں لیکن کچھ ایسا تاثر تھا: ’میں نے دیوار کو تکنا شروع کیا، پھر میں اپنی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔ ‘
اس رات ایک انڈونیشیائی عشائیے پر، میں نے ادیبہ سے پوچھا کہ آج کل کیا زیرِ مطالعہ ہے۔ پتہ چلا کہ وہ البیر کامیو کا پھر سے دریافت ہوا ناول، اور میلان کنڈیرا کا تازہ ترین والا ناول پڑھ رہی ہے۔ میرے چہرے پر ذرا مایوسی کا تاثر دیکھ کر مستزاد لگایا: ”اہاں، اور میں جس صبح کچھ لکھنے لگتی ہوں طلسمِ ہوشرُبا کے کچھ صفحے پڑھ لیتی ہوں۔“
کافی بعد میں، 2016 میں، جب میں اس کے ادبی کاموں پر لکچر دینے کے لیے – اب کے اردو میں، انجمن ترقئ اردو کے ہاں – بلایا گیا تو خالدہ خود تو نہیں لیکن اس کا خیال ہمارے ہمراہ تھا، یا پھر سکرین پر اس کا ساتھ شامل حال تھا (میری گفتگو کے ساتھ ہی ادیبہ سے کیا گیا ایک طویل فلمبند انٹرویو بھی شامل تھا جو کئی برس سے عوامی طور پہ نظر نہیں آ رہی تھیں)۔ اس برس، مجھے پھر سے خالدہ کی یاد آئی جب اس کی 18 عمدہ ترین کہانیوں پر مشتمل نیا ضخیم انتخاب شائع ہوا جسے آصف فرّخی نے مرتب کیا تھا؛ انتخاب: خالدہ حسین (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس)۔ میں نے کچھ کہانیوں کو کامل یادآوری کے ساتھ دوبارہ پڑھا، اور کچھ کو پہچان کی جھلمل میں؛ کئی ایک مجھے بھول گئی تھیں اور انھیں میں نے سحر زدہ انداز سے پڑھا۔ انتخاب زیادہ تر اس کی پہلی دو کتابوں میں سے ہے ، کچھ کہانیاں تیسری کتاب میں سے لی گئی ہیں ، اور چوتھی کتاب میں سے ایک بھی کہانی شامل نہیں کی گئی۔ لیکن فرّخی نے انتخاب کو خالدہ کی تازہ ترین شائع ہونے والی کہانی پر ختم کر کے بارے انصاف کیا ہے، ’دادی آج چھٹی پر ہیں‘، جو ایک انتھک، اور نت پھلتی پھولتی فطانت کی ایک نئی حقیقت پسندانہ جہت کو سامنے لاتا ہے۔
کالم نگار لندن میں مقیم افسانہ و ناول نویس ہیں۔
ماخذ: DAWN.com