آسمانِ موسیقی کا نیا ستارہ: اکبر علی (مترجم: کبیر علی)
’’یہ بات درست ہے کہ کلاسیکی موسیقی کی جڑیں فوک اور پاپولر موسیقی میں ہیں‘‘ اکبر علی کا کہنا ہے :’’تاہم صدیوں کے عملِ ارتقاء سے دونوں نے الگ الگ اصنافِ موسیقی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کلاسیکی موسیقی بنیادی طور پہ مہارت، قواعد، علم، تجربے اور تکنیک پہ توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ پاپولر موسیقی آواز کی خوبصورتی، اشعار کی خوبی اور عوامی مقبولیت پہ زور دیتی ہے۔ کلاسیکی گائیک ، سامعین کے اذہان کو مخاطب بناتے ہیں جبکہ پاپولر فنکار ، عوام کے دل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ موسیقی کے ان دونوں مکاتبِ فکر کے اپنے اپنے تقاضے ہیں؛ مگر قوالی وہ واحد صنف ہے جو دونوں طرح کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور کلاسیکل موسیقی کے پریمیوں کے ساتھ ساتھ پاپولر موسیقی کے شائقین کو بھی لُبھاتی ہے‘‘۔
پاکستان کے نوجوان اور باصلاحیت گائیک اکبر علی کے پاس قوالی سے محبت کی ایک وجہ موجود ہے۔ وہ جالندھر کے صدیوں پرانے قوالی کے ’’نالاں گھرانہ‘‘ کے وارث ہیں۔اکبر علی بتاتے ہیں کہ ’’میرے دادا ،استاد فضل محمد خاں ہندوستان کے ایک معروف اور بلند مقام قوال تھے۔ میرے والد بشیر احمد خاں اپنے رنگ کے ایک باصلاحیت قوال تھے اور میرے پہلے استاد بھی۔ میرے نانا استاد غضنفر علی خاں اعلیٰ پائے کے کلاسیکی گائیک تھے۔ میرا تعلق شام چوراسی کے بعض عظیم اساتذہ سے بھی بنتا ہے۔ استاد سلامت علی خاں میرے چچا تھے۔ ہمارے گھر میں موسیقی زندگی کا ایک جزو تھی۔ سارا خاندان گاتا تھا۔ میرے سفر کا آغاز میرے بچپن ہی سے ہو گیا۔ مجھے نعت شریف پڑھنے میں بڑا مزا آتا تھا اور برسوں تک میں رسول کریمﷺ کی شان میں لکھے گئے کلام ہی پڑھتا رہا۔ آج بھی مجھے نعت شریف پڑھ کر سب سے بڑی خوشی ملتی ہےـ‘‘
سترہ برس کی عمر میں اکبر علی باقاعدہ طور پہ اپنے چچا استاد مبارک علی خاں کے شاگرد ہو گئے جو شام چوراسی گھرانے کے گائیک ہیں اور استاد امیر خاں کے گانے سے بہت متاثر ہیں۔ اکبر علی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ ” میرے خیال میں وہ آج پاکستان کے سب سے بڑے کلاسیکی گائیک ہیں۔ یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے استاد ہیں۔ وہ ایمان دار، صابر اور شفیق ہیں۔ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ موسیقی کا بے پناہ علم، تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں اور ایک مثالی استاد ہیں۔ مجھے ان سے تعلیم لیتے ہوئے سولہ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ ابھی تو میں نے ان سے بہت تھوڑا سیکھا ہے۔ ان کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے اور میرے پاس سیکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے‘‘۔
اکبر علی کی گائیکی پر ہندوستانی سنگیت کے تین دیو قامت فنکاروں کا بہت اثر ہے۔ استاد سلامت علی خاں، استاد بڑے غلام علی خاں اور استاد امیر خاں۔ وہ نہایت کامیابی کے ساتھ ان تینوں اساتذہ کی خوبیوں کو سمیٹ کر ایک اپنا انداز بناتے ہیں جو بڑے اساتذہ کی یاد دلاتا ہے۔
اکبر علی کہتے ہیں ’’استاد امیر خاں سے میں نے یہ سیکھا کہ آواز کی خوبی، اس کے خالص پن اور ترنم پہ کس طرح توجہ دینی ہے۔ امیر خاں جی اکثر اوقات محض ایک طبلے اور تانپورے کے ساتھ گاتے تھے۔ انھیں کسی دوسرے ساز کی سنگت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘‘. اکبر علی استاد امیر خاں کی موسیقی پہ ہمیشہ ایک نپی تلی توجہ مرکوز رکھتے ہیں یعنی مُرکی ( سُروں کے ایک گروہ کو تیزی کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ میں گانا) کا ماہرانہ استعمال، النکاروں ( زیوراتِ موسیقی) کا کم کم استعمال، راگ کی پرسکون سلسلے وار بڑھت اور طرح طرح کی تانوں (،موسیقی کی اڑانیں) کا امتزاج،۔ یہ سب خوبیاں استاد امیر خاں کے گانے کی میں ہیں۔ اکبر علی خاں نہایت وثوق سے کہتے ہیں کہ ’’استاد امیر خاں کو دھیان میں رکھے بغیر اچھا خیال گانا مشکل ہے‘‘۔
اکبر علی کہتے ہیں ’’استاد بڑے غلام علی خاں معلوم تاریخ کے شاید سب سے بڑے گائیک ہیں۔ میں گھنٹوں تک ان کا گانا سنتا ہوں۔ ان کی آواز میں بڑا رَس ہے اور ان کی طرح سہولت سے کوئی بھی نہیں گاتا‘‘۔ بڑے غلام علی خاں کے گانے کا اثر اکبر علی کے گانے پہ صاف نظر آتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اکبر ایک فطری گائیک ہے ۔ وہ نہایت سہولت کے ساتھ ولمبت (دھیمی)، مدھ (درمیانی) اور درُت (تیز) لے میں گاتے ہیں اور بڑے اساتذہ کی طرح تینوں سپتکوں میں اپنی آواز کی خوبی کو برقرار رکھتے ہیں۔
استاد سلامت علی خاں کے ساتھ قریبی تعلق نے اکبر علی کو لے کاری پر غیر معمولی مہارت حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ وہ ہمارے زمانے کے ان چند گائیکوں میں سے ہیں جو پچاس سے زائد تالوں میں گا سکتے ہیں جن میں مٹتے ہوئے تال مثلا اصول ِفاختہ (پانچ ماترے)، پشتو (سات ماترے)، فرودَست (تیرہ اور چودہ ماترے)، آڑا چوتالہ (چودہ ماترے)، جھومرا (چودہ ماترے)، اِکوائی (سولہ ماترے)، سرسوَتی (اٹھارہ ماترے) اور تلواڑا (بتیس ماترے) شامل ہیں۔ اکبر علی اعتراف کرتے ہیں کہ” سلامت علی خاں نے لَے اور تال کی باریکیاں سمجھنے میں میری بڑی مدد کی ہے۔ مجھے ان سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ سَرگم کا موثر استعمال کس طرح کرنا چاہیے۔استاد سلامت علی خاں کی طرح کافی کوئی نہیں گاتا۔ میں جب کبھی کافی گاتا ہوں تو ان کے انداز کو دھیان میں رکھتا ہوں۔ وہ کافی کے ماسٹر تھے‘‘۔
طبلہ اور بانسری اکبر علی کے پسندیدہ ساز ہیں۔ اس بارے میں اکبر علی بتاتے ہیں کہ ’’اگر میں ایک گائیک نہ ہوتا تو میں طبلہ نواز یا بانسری نواز ہوتا۔ طبلے کے میدان میں استاد تاری خاں میرے آئیڈیل ہیں۔ ان کی شاندار صوت، لَے کاری کا علم، روایت کا لحاظ اور گائیک کی پرفارمنس کو تقویت پہنچانے کی صلاحیت انھیں ہمارے زمانے کا عظیم ترین طبلہ نواز بناتی ہے۔ یہ تاری خاں کا طبلہ ہی تھا جس نے مجھے اس ساز کی جانب کھینچا اور اتنا مجبور کیا کہ میں کچھ برسوں تک طبلے کی باقاعدہ تعلیم لیتا رہا۔ بدقسمتی سے ایک زندگی تو گائیکی سیکھنے کے لیے ہی ناکافی ہے لہذا طبلہ نواز اور بانسری نواز بننے کے میرے خواب تشنہء تعبیر ہی رہیں گے۔ تاہم میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب مجھے تاری خاں اور پنڈت ہری پرساد چوراسیہ کو ان کے فنی سفر کے عروج کے زمانے میں سننے کا موقع ملا۔ میں پنڈت جی کو بہت مانتا ہوں۔ وہ ان عظیم فنکاروں میں سے ہیں جن کے پاس راگ اور تال دونوں کا پورا علم ہے اور جو سُر اور لَے دونوں پہ بہ یک وقت عبور رکھتے ہیں‘‘۔
اکبر علی اَسی کے دہائی کے آخری برسوں سے گا رہے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ انھیں شہرت تب ملی جب ہندوستان کے این۔ڈی۔ٹی۔وی کے ایک مقابلے ’’جنوں کچھ کر دکھانے کا‘‘ میں انھیں گانے کا موقع ملا۔ اکبر علی اس بابت بتاتے ہیں کہ ’’اس مقابلے کے پروڈیوسر نے یوٹیوب پہ میری ایک ویڈیو دیکھی اور مجھے شو میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ کوئی آڈیشن اور کوئی امتحان نہیں ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں پروگرام میں صوفی گانے گاؤں‘‘۔ اس پروگرام میں شرکت سے اکبر علی پہ بہت سے دروازے کھل گئے اور اب وہ دنیا بھر میں گاتے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے ہندوستانی فلموں کے لیے بھی گانے ریکارڈ کروائے ہیں۔ اس بارے میں اکبر علی کہتے ہیں ’’انڈیا میں وقت گزارنے سے مجھے بہ طور فرد اور بہ طور فنکار نمو کا موقع ملا۔ انڈیا میں بڑے محبت کرنے والے، مہمان نواز اور گرم جوش لوگ رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنا سمجھا۔ لہذا جو کامیابی میں تاحال حاصل کر سکا ہوں اور جو آئندہ حاصل کرنے کی امید رکھتا ہوں اس میں انڈیا کا بڑا ہاتھ ہے‘‘۔
اکبر علی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کلاسیکی موسیقی کے لحاظ سے پاکستان سے بہت آگے ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہندوستان میں کلاسیکل گائیکوں کی بڑی تعداد، باذوق سامعین اور موسیقی کو فروغ دینے والے ادارے موجود ہیں۔ میں اپنے جذبہ حب الوطنی کی آڑ میں یہ کہہ کر سچ کو نہیں چھپا سکتا کہ موسیقی کے میدان میں ہندوستان اور پاکستان ایک ہی درجے پہ ہیں۔ پاکستان نے ہندوستانی سنگیت کے بعض بڑے اساتذہ پیدا کیے ہیں لیکن اب بہت کچھ دہشت گردی، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، مستقل غربت، حکومت کی بے نیازی اور اسلام کی لایعنی تشریحات کی نذر ہو چکا ہے۔ مجھے یوٹیوب کی مدد سے دریافت کیا گیا۔ اب یہ ویب سائٹ پاکستان میں بند کر دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ تھا جسے نئے موسیقار اپنے فن کو پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ بدقسمتی سے فنکاروں کو اپنی مہارت دکھانے کا موقع دینے والا مفت کا فورم بند کر دیا گیا ہے۔ یہ بڑا غیر مناسب اور ناقابلِ معافی ہے‘‘۔
اکبر پاکستان کی صورتحال پہ افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’غربت، عدم تحفظ، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور بدعنوانی کی ماری ہوئی قوم موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ پہ توجہ نہیں دے سکتی۔ لیکن ہم بڑے حوصلے والے لوگ ہیں اور باصلاحیت فنکاروں کو پیدا کرتے رہتے ہیں۔ پھر پاکستان میں بعض بڑے پُر عزم شائقینِ موسیقی موجود ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے میں محبت کرتا ہوں، ان کو داد اور احترام دیتا ہوں۔ وہ موسیقی سننے اور اس کی سرپرستی کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا وقت ، سرمایہ اور قوت صرف کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ میں آل پاکستان میوزک کانفرنس، لاہور میوز ک فورم، ناپا اور ’کچھ خاص‘ایسے اداروں اور موسیقی کی خدمت کرنے والے افرادکو سلام پیش کرتا ہوں۔ پاکستان ٹی۔وی اور ریڈیو پاکستان نے اَسی کی دہائی تک کلاسیکی موسیقی کو بڑی تقویت بخشی ہے لیکن پچھلے تین عشروں میں ان دونوں اداروں نے اپنی توجہ کہیں اور مرکوز کر لی ہے۔ آج صرف پُر عزم افراد اور نجی ادارے ہیں جنھوں نے پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی ہمارے ورثہء موسیقی کو محفوظ رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا‘‘۔
پاکستان میں موسیقی کی صورتحال کے بارے میں اکبر علی افسردہ ضرور ہیں مگر ناامید نہیں۔ وہ اس میدان میں ترقی کے سفر پر گامزن ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اپنے بھائی کے البم کے لیے دو نہایت کامیاب گانے ریکارڈ کروائے ہیں جسے ہندوستان میں ٹائمز میوزک نے ریلیز کیا ہے۔ اکبر اب ہندوستان اور پاکستان میں فلموں کے لیے گانے ریکارڈ کروانے میں مصروف ہیں اور پوری دنیا میں مظاہرہء فن کے لیے جاتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ ہندوستان کے دورے پہ ہیں جہاں وہ کلاسیکی موسیقی پیش کرنے پر کلماتِ تحسین سے نوازے جا رہے ہیں۔
ماخذ: فرائیڈے ٹائمز