جدید ریاست، اور ہماری مذہبی خوش فہمیاں۔ محمد دین جوہر

 In تنقید

گزشتہ تین سو سال میں انسانی زندگی کو تبدیل کرنے اور اسے نئی شکل دینے میں سب سے بڑا رول جدید ریاست کا ہے جو سرمایہ داری نظام کا توام اور جدیدیت کے علم اور عمل کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ ”جدیدیت کا سب بڑا مظہر ہے“ کہنے سے مراد یہ ہے کہ جدید ریاست کا منشا (origin) مغرب ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی جدید ریاست قائم ہے اور یہاں رہتے ہوئے اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ ”جدید ریاست کیا ہے؟“ تو دستیاب خانہ زاد علمی اور نظری وسائل سے اس کا جواب دینا کسی طور ممکن نہیں۔ جدید ریاست کے تاریخی اور سماجی مظہر کی تفہیم کے لیے ہم مشاہدے اور مصاحبے کی بجائے اس موضوع پر علمی متون کی تلاش کریں گے، اور جو ہماری علمی روایت میں کلیتاً ناپید ہیں۔ جدید ریاست آرگنائزیشنل ہے اور سیاسی طاقت کی ایک بالکل ہی نئی تشکیل ہے۔ مشین کی طرح، جو سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہے، مَیں جدید آرگنائزیشنل ریاست کو ارتقا وغیرہ کا نتیجہ نہیں سمجھتا۔ مشین اور آرگنائزیشن مغربی معاشرے میں اچانک سے کچھ دریافتوں اور ایجادوں کے نتیجے کے طور پر وجود میں آنے والی چیزیں ہیں۔ یہ دریافتیں اور ایجادیں عہد ماسبق سے ایک ایسا فتق اور انقطاع پیدا کرتی ہیں، جس کو نظرانداز کر کے ہم جدید عہد کی کوئی بامعنی تفہیم حاصل نہیں کر سکتے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ماقبلِ جدید عہد میں بھی انسانی معاشرے طاقت کی ایک تشکیل رکھتے تھے، لیکن قدیم تشکیل کی یہ گفتگو جدید آرگنائزیشنل ریاست کی درست تفہیم میں ایک رکاوٹ پیدا کرتی ہے کیونکہ اس میں مماثلتوں کو زیربحث لایا جاتا ہے جبکہ جدید ریاست بطور وجود اور بطور اصول اس تشکیل سے قطعی مختلف اور غیرمتعلق ہے۔ فوکو نے درست ہی کہا تھا کہ ماقبل جدید طاقت موت پر اختیار رکھتی تھی جبکہ جدید طاقت/ریاست زندگی پر (جس میں شعور شامل ہے) اختیار رکھتی ہے۔

اس امر کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ ہماری علمی روایت میں جدید ریاست کی تفہیم کے ذرائع ناپید ہیں۔ اسی باعث جدید ریاست کی مغربی تہذیب کے سیاق و سباق میں اور مغرب سے باہر مغرب ہی کی قائم کردہ ریاست کی استعماری تناظر میں علمی تفہیم چند در چند مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔  یہ ضرور ہےکہ جدید ریاست کے انتظامی افعال اور قانونی پہلوؤں پر ہمارے ہاں لٹریچر مل جاتا ہے لیکن وہ ریاست کو بطور وجود اور بطور اصول سمجھنے میں معاون نہیں، اور صرف جگاڑی نوعیت کا ہے۔ جدید ریاست کی تفہیم سے ہماری مراد وہ علم ہے جو اس پر What               is کا سوال وارد کرنے کے جواب میں حاصل ہو۔ ہم یہاں اس احمقانہ سوال کہ ”جدید ریاست کی تفہیم کیوں کی جائے؟“ کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ ضروری سوال اٹھائیں گے کہ جدید ریاست کی تفہیم کے ذرائع کیا ہیں؟ یہاں دیانت داری سے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست کی تفہیم کے بنیادی ذرائع مغربی علوم سے ہی حاصل ہوتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہی نہیں ہے، لیکن اس تفہیم میں ہم وہ سیاسی، معاشی، تعلیمی، علمی اور تہذیبی تجربہ بھی داخل کریں گے جو ہمیں استعماری ریاست کے زیرِ اقتدار حاصل ہوا ہے۔ مغرب کی فلسفیانہ فکر میں جدید ریاست کے وجودی اور اصولی پہلؤوں کو علمی بیان میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ سیاسی فکر میں جدید ریاست کے تاریخی اور قانونی پہلوؤں کو زیربحث لایا جاتا ہے۔

گزارش ہے کہ میں جدید علوم کی طرح جدید ریاست پر بھی گاہے گاہے اپنی معروضات پیش کرتا رہتا ہوں۔ میرا موقف یہ ہے کہ ہم ابھی تک سائنسی علوم اور ایمانیات کی فکری نسبتیں علماً طے نہیں کر پائے، اور عمل صالحہ اور جدید ریاست کے باہمی تلازمات بھی ثقہ علمی بنیادوں پر سامنے نہیں لا سکے، اور تین سو سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے علوم میں زندہ مسائل کے طور پر بنیادی موضوعات کا تعین نہیں کیا جا سکا، اور جو کرنے کے کام ہیں ان کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ سائنسی علوم کے روبرو ایمانیات؛ اور جدید ریاست اور معاشی نظام کے بالمقابل عمل صالح کے امکانات کی اولاً ثقہ علمی تصریحات ضروری ہیں۔ اطلاق اور عمل کا مسئلہ یقیناً بہت اہم ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ میری گزارشات عموماً انہی موضوعات تک محدود رہتی ہیں۔

ان دنوں مذہبی تعلیم کے حوالے سے پاکستانی ریاست کے چند اقدامات زیربحث ہیں۔ ان پر میں نے بھی اپنی گزارشات پیش کیں تو سخت ردعمل سامنے آیا جس کی بنیاد یہ اعتراض تھا کہ میری تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میں جدید ریاست کا مخالف ہوں لیکن پاکستانی ریاست کا حامی ہوں۔ یہ بہت بڑا تضاد ہے اور چونکہ میں اس تضاد کے علی الرغم پاکستان کی حمایت کرتا ہوں اس لیے میں پاکستانی ریاست، قیامیہ اور ایجنسیوں کا ایجنٹ ہوں۔ کچھ احباب نے یہ الزام براہ راست عائد کیا جبکہ بہت سے لوگ مختلف ذرائع سے یہ بات مجھ تک پہنچا چکے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو میں سخت نااہل قسم کا ایجنٹ ہوں کہ سب کو ہی پتہ چل گیا اور میری حیثیت عرفی بھی جاتی رہی۔ یعنی ”نااہلیت“ کی وجہ سے میری ”نوکری“ خطرے میں پڑ گئی اور اگر ”نوکری“ نہیں تھی تو نااہلیت کی وجہ سے آئندہ نوکری کی ”امید“ ہی ختم ہو گئی۔ پیداشدہ اس صورت حال میں جو اصل موضوع تھا وہ غائب ہو گیا اور بات صفائیاں دینے تک آ پہنچی۔ موضوع یہ تھا کہ elephant               in               the               room یعنی جدید ریاست کی موجودگی میں بچوں کو تعلیم یا مذہبی تعلیم دینے کی کیا معنویت ہو سکتی ہے؟ یہاں room سے مراد مدرسہ، سکول یا یونیورسٹی ہے جہاں سب سے بڑی presence جدید ریاست ہے، اور یہ ادراک تب ہوتا ہے جب آدمی سنسنی یا سناٹے میں نہ ہو۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ room سے باہر کی دنیا پر فیل بانوں اور مہاوتوں کا قبضہ مکمل ہے، اور اس کے کارندے ہر آلے سے لیس پوری دنیا پر نگاہ جمائے ہیں۔ کچھ احباب نے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کروں۔ ذیل کی گزارشات اسی ضمن میں کی جا رہی ہیں۔

میری گزارشات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ میں جدید ریاست کا حامی یا مخالف ہوں، بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی دریائے سندھ کا مخالف ہونے کا دعوی کرے اور مجھ پر اس کی حمایت کا الزام رکھے یا کہے کہ میں تو کوہِ کے ٹو  کی حمایت کر رہا ہوں اور تم اس کی مخالفت پر کمربستہ کیوں ہو؟ یہ تو معلوم ہے کہ دینی تناظر میں جدیدیت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اس کو مجموعی طور پر رد کرتا ہوں۔ لیکن اس کا یہ نتیجہ کیونکر نکالا جا سکتا ہے کہ آدمی چلتی گاڑی کو زور سے ٹکر بھی مارے؟ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں بطور مسلمان انفرادی اور اجتماعی سطح پر دینی زندگی کے امکانات اور ان کی عملی صورتیں تلاش کی جائیں۔ اور یہ مذہبی اور علمی طور پر ایک جائز کام ہے کیونکہ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر دینی زندگی گزارنے کے امکانات مکمل طور پر مخدوش ہیں یا مسدود ہیں۔

میں پاکستان مخالف یا پاکستان دشمن بیانیوں سے بہت اچھی طرح باخبر ہوں اور انہیں سیاسی، علمی، فکری اور مذہبی طور پر بالکل بے بنیاد اور قطعی ردی سمجھتا ہوں بھلے ان کی بنیاد مذہبی سیاسی فکر ہو یا سیکولر تصورات ہوں۔

مجھ پر بنیادی الزام یہ ہے کہ میں جدید ریاست کا مخالف ہوتے ہوئے بھی پاکستانی ریاست کا حامی ہوں۔ یہ الزام ایک وجودی نادانی اور بےذہنی سے پیدا ہوتا ہے اور میں ابھی اس کا جواب عرض کروں گا۔ میں پاکستان مخالف یا پاکستان دشمن بیانیوں سے بہت اچھی طرح باخبر ہوں اور انہیں سیاسی، علمی، فکری اور مذہبی طور پر بالکل بے بنیاد اور قطعی ردی سمجھتا ہوں بھلے ان کی بنیاد مذہبی سیاسی فکر ہو یا سیکولر تصورات ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میرے لیے ایک non-negotiable               idea               and               reality کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس کا مطلب گفتگو کو روکنا نہیں بلکہ دعوت دینا ہے۔ پاکستان کی واقعیت پر یقیناً بات ہو سکتی ہے کہ جدید کتنا ہے یا اسلامی کتنا ہے یا انسانی کتنا ہے۔ یہ بحث تو چلتی رہتی ہے اور میں بھی اس میں بساط بھر شامل رہتا ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ خوارج کا عقیدہ تھا کہ اگر آدمی گناہ کبیرہ کرے تو کافر اور واجب القتل ہے۔ اسی طرح ہمارے کثیر دانشور (بوجوہ) یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی ملک یا معاشرے میں مسائل ہوں، اور اس ملک کا نام پاکستان ہو تو اس کا وجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ مجھے ”ایجنٹ“ کہتے ہیں، ان کا دعویٰ یہ ہےکہ پاکستان پر قیامیہ قابض ہے اس لیے وہ پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ اولاً اور بوجوہ پاکستان سے دستبردار، لاتعلق اور مخالف ہوئے ہیں اور پھر اپنے موقف کے جواز میں اس طرح کے جھوٹ بولتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف کیس دو بنیادوں پر بنایا گیا ہے کہ یہ مغربی ممالک کی طرح جدید نہیں ہے اور بعض مذہبی مواقف کے مطابق یہ اسلامی نہیں ہے۔ پاکستان کی موجودہ ثقافتی فضا میں یہ دونوں موقف اب باہم مل گئے ہیں۔ یہ دونوں موقف نہ صرف غیرعلمی ہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہیں۔ میں ان کی حقیقت سے باخبر ہوں اور ان کا سامنا بھی کرتا ہوں۔ لیکن اس میں اہلِ نظر کے لیے جو بات غور طلب ہے وہ باعث تشویش بھی ہے۔ پڑھے لکھے حلقوں میں اب یہ تاثر عام ہے کہ اگر کوئی پاکستان کی حمایت کرتا ہے تو یقیناً وہ پیسے لے کر ہی ایسا کرتا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ پاکستان کی مخالفت بغیر پیسے کے خیراتی طور پر کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ موقف فکری اور ادبی لحاظ سے خاصا دلچسپ بھی ہے۔ ایسے لوگوں کے خیال میں پاکستان اب ناقابل دفاع ہے، اور کسی کے لیے اپنے ضمیر کے ساتھ یا اپنی وجودی پوزیشن پر کھڑے ہو کر پاکستان کی بات کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ موقف پاکستان میں جاری تہذیبی بحران کا آئینہ دار ہے اور ہماری بقا کے لیے گہرے مضمرات رکھتا ہے۔ ایسے افکار کو کھلی فضا میں علمی گفتگو کا موضوع بنانا اس وقت ہماری بڑی ملی ضرورت ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مذہب سے مؤید پاکستان دشمن فکر جو برصغیر کے مسلم معاشرے میں بہت گہری جڑیں رکھتی ہے اب سیکولر افکار سے بھی تقویت پاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی تہذیب کی فکری سرحدیں بہت تیزی سے سونی ہوئی ہیں، اور فکر کی روشنائی کا پیاسا قلم اب ریگزار معانی میں سرافگندہ ہے۔

گزارش ہے کہ جدیدیت کی تہذیبی فکر کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اور بطور مسلمان میں جدیدیت کو کل اور جز میں باطل سمجھتا ہوں۔ باطل کے مظہر کے طور پر جدیدیت علم بھی ہے اور وجود بھی۔ زیادہ بڑا خلط مبحث جدیدیت اور اسلام کے interface پر ہوا ہے اور جو متوقع بھی تھا کیونکہ فکری مباحث کی عدم موجودگی میں ابلاغ کے مسائل دو چند ہو جاتے ہیں۔ ہمارا قومی ذہن الفاظ معنی سے آگے جاتا ہی نہیں اور فکری اور علمی تصورات کی موجودگی، ان کی اثرانگیزی اور ان کے اسلوب ابلاغ سے ہمیشہ حالتِ انکار ہی میں رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جدیدیت کی علمی تفہیم بھی نہایت خام ہے  اور بالعموم مغربی علوم کی داخلی تنقید کے ثانوی بیانیوں سے اٹھائی گئی ہے۔ ہمارے مذہبی دانشوروں کو اس کے سرپیر کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ ادھر ادھر سے انہیں اتنا پتہ چلا ہے کہ ریاست نام کی کوئی چیز ہے جو اچھی نہیں ہوتی۔ پاکستان مخالف تو وہ پہلے ہی تھے، اب یہ ریاست کا ”علم“ بھی انہیں حاصل ہو گیا اور گویا ان کی عید ہو گئی۔ ہماری پاکستان دشمن مذہبی دانش نے جدیدیت کی اس خام تفہیم کو اپنے موقف میں کھپانے میں بڑی عجلت سے کام لیا ہے۔ اس میں بنیادی اصول پاکستان دشمنی ہی رہا ہے، اور عملی اصول یہ ہے کہ جو کچرہ جہاں سے ملے پاکستان کے خلاف چلا دو۔ بزعم خویش اس طبقے نے کوئی سنہری اصول دریافت کر لیا تھا جس کی میں نے خلاف ورزی کی ہے یا جس کی میں پاسداری نہیں کر رہا، اس لیے اعتراضات وارد کیے جا رہے ہیں، اور الزامات چپکائے جا رہے ہیں۔ خیر وہ کوئی مسئلہ نہیں۔

گزارش ہے کہ میں جدیدیت کے تمام علمی اور وجودی مواقف کو باطل سمجھتا ہوں۔ مثلاً خدا کا انکار، مذہب سے بغاوت، فطری سلسلۂ وجود کی غارت اور نئے سلسلۂ وجود کا قیام، عقل محض کی ’دریافت‘، تنویری منصوبے سے عقل محض کو وجودی اختیارات کی تفویض، اضافی اخلاقیات، خیروشر کے تناظر کا خاتمہ، شرِ مستتر پر انسانی شخصیت کی تشکیل، عمل انسانی کی violence میں تکمیل و تحدید، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں دو پہلو ہیں۔ جدیدیت نے اپنے بنیادی مواقف کو صرف علم میں بیان نہیں کیا بلکہ وجود میں بھی قائم کیا ہے اور وہ عملاً فعال ہیں۔ جدیدیت کے علمی قضایا، مواقف یا بیانات کے روبرو ہم یہ فوری پوزیشن لے سکتے ہیں کہ ”ہم انہیں نہیں مانتے“ اور یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ جدیدیت ایسے حالات پیدا نہیں کر سکتی جن میں یہ ناممکن ہو جائے۔ لیکن اس سے آگے جدیدیت نے ایک پورا سلسلۂ وجود بھی پیدا کیا ہے اور جو فطرت کی جگہ لے چکا ہے، اس کا کیا کریں گے؟  جدیدیت کے اس پہلو کے سامنے اقرار و انکار بے معنی ہے۔ مثلاً مشین اور آرگنائزیشن وغیرہ کی ”حمایت، مخالفت“ ایک بالکل بے معنی بات ہے، اور اتنا ہی بےمعنی انکار و اقرار کو ان پر لاگو کرنا ہے۔ جدیدیت کا پیدا کردہ سلسلۂ وجود چپکے سے، عملاً اور بتدریج انسانوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈھال رہا ہے، اور یہ انکار سے ساقط اور اقرار سے فعال نہیں ہوتا بلکہ اس پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ بطور مسلمان ہماری اول ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس وجودی صورت حال اور اس کے پس پردہ کام کرنے والی فکر کو سمجھیں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ ذیل میں جدید ریاست کو اسی تسلسل میں زیربحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ میں جدیدیت کو کل اور جز میں باطل سمجھتا ہوں۔ اول اس کی وضاحت ضروری ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑی مشین ہے یعنی ایک فیکٹری ہے جو مثلاً کمپوٹر بناتی ہے۔ کیا وہ بھی باطل ہے؟ بطور مسلمان میں سمجھتا ہوں کہ وہ باطل ہے۔ تو کیا اقرار و انکار کا موقف مسلمان کو اس سے بچا سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں، یہ موقف ہی بےمعنی ہے۔ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ باطل کیوں ہے؟ اس لیے باطل ہے کہ وہ ایجادی وجود ہے فطری وجود نہیں ہے۔ بطور ایجادی وجود وہ ہدایت کے خلاف نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی سروکار رکھتا ہے، بلکہ وہ طبعی فطرت سے متضاد، اس کا غارت کنندہ اور بالآخر اس کا ہادم ہے۔ بطور حق اسلام ہدایت اور فطرت دونوں کا داعی ہے۔ ایجادی وجود اپنے محض ہونے سے دین کے ایک پہلو کی نفی کر دیتا ہے، کیونکہ وہ فطرت کو غارت کر کے اس کو displace اور replace کر دیتا ہے۔ یہ ایجادی وجود واقعاتی طور پر قائم ہے، اور ہم عصر دنیا میں پیداوار اور طاقت کے اصول کی واقعاتی تشکیل ہے۔ فطری وجود مثلاً دریائے سندھ یا کوہِ کے ٹو کی طرح، ایجادی وجود کی مخالفت، حمایت، انکار اور اقرار سب یکساں بے معنی ہیں۔ یہ انتہائی غیرمعمولی صورت حال ہے جو ہمیں درپیش ہے اور ہمارا سیاست بازی کا ہوکا ہی نہیں ختم ہوتا کہ اس پر کچھ غور بھی کر سکیں۔ عین اسی صورت حال کا دوسرا اور بیک آن پہلو یہ ہے کہ طاقت اور پیداوار کا حصول آفاقی اور عالمگیر سطح پر ایجادی وجود سے منسلک ہو گیا ہے اور اس میں مسلمان اور غیرمسلم کی کوئی تخصیص باقی نہیں رہی۔ ہر انسانی معاشرہ خود فطرت کا مظہر ہے، لیکن طبعی فطرت کی طرح نہایت ہی ریڈیکل تبدیلی سے گزرے بغیر اس ایجادی وجود کے سامنے یا ساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔ ایجادی وجود کے عالمگیر ظہور سے انسان کو تاریخی صورت حال سے آگے ایک تقدیری صورت حال کا سامنا ہے۔ تاریخی صورت حال میں انسانی اختیار باقی رہتا ہے جبکہ تقدیری صورت حال میں یہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایجادی وجود کے روبرو انسانی معاشرہ اپنی پرانی فطرت پر باقی ہی نہیں رہ سکتا، اور طبعی فطرت کی طرح اس کا خام مال بن جاتا ہے یا ناقابل تصور حد تک محکوم ہو جاتا ہے یا بالکل ہی مٹ جاتا ہے۔ اس کی مثالیں تاریخ میں ظاہر ہیں۔ ہم مثالوں کے بہت شوقین ہیں لیکن اس طرح کی مثالیں ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ پہلے مرحلے میں ایجادی وجود طبعی فطرت اور معاشرے کی تاریخی فطرت دونوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ایجادی وجود کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو سسٹم میں تشکیل دیے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ پوری انسانیت اس کی لپیٹ میں آئے گی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ اسلام ہدایت اور فطرت دونوں کا داعی ہے۔ ایجادی وجود اور سسٹم کے باعث انہدام فطرت اب ایک امر عام ہے، لیکن اس کے سامنے مسلمان حالتِ انکار میں رہنا پسند کرتے ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں۔ ایجادی وجود کے پیدا کردہ سسٹم کے سامنے مسلمانوں کی تخصیص نہیں ہے بلکہ علی الاطلاق انسانیت کے پاس کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا کہ وہ اس سے نکل سکیں، یا اس سے الگ رہ سکیں یا اس کے متبادل کی بات کر سکیں۔ مسلمانوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ یہ سسٹم ان کو حاملِ ہدایت ہونے کی وجہ سے کچھ خصوصی مراعات دے گا اور وہ اس کی مدد سے اسلام نافذ کریں گے۔ اس سسٹم نے مسلمانوں کو گزشتہ تین سو سال سے جو ”خصوصی مراعات“ دی ہوئی ہیں ان پر کوئی بات کرنے کا روادار نہیں ہے، اور وہ یہ ہیں کہ مسلمانوں کو بیوقوف، پسماندہ، جاہل، محکوم، مقہور اور بے حمیت رہنے کی مکمل آزادی حاصل ہے تاکہ مغرب ان کے وسائل کی لوٹ مار کرتا رہے اور مسلمان ایسی دینی تعبیرات میں مشغول رہیں جو نہ صرف انسانیت کے لیے بالکل بے معنی ہوں، بلکہ خود دین ہی کو بے معنی بنا دیں اور خود ان کے کام کی بھی نہ رہیں۔

اب تک میں نے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت ایجادِ وجودی کے ایک عالمگیر سسٹم میں ملفوف اور اس پر مکمل منحصر ہے، اور جو واقعاتی طور پر قائم ہے، اور جسے اس وقت کوئی بھی undo نہیں کر سکتا، اور یہ طبعی اور تاریخی فطرت دونوں کا ہادم اور غارت گر ہے۔ اسلام جس فطرت کا داعی ہے، سسٹم عین اسی سطحِ وجود پر اس کی مکمل اور عملی نفی پر قائم ہے۔ پوری انسانیت کے لیے اس سسٹم کی حیثیت ایک new               human               condition جیسی ہے یعنی تقدیری ہے اور جسے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اور مسلمان یہ صورت حال پیدا کرنے یا اس کے پیدا ہونے کا نہ ذمہ دار ہے، نہ اس کے لیے جوابدہ ہے۔ وہ حاملِ حق ہونے کی حیثیت سے اس بات کا جوابدہ ضرور ہے کہ اس نے حق کو علم و عمل میں کہاں تک سربلند رکھا اور یہ امر بھی تاریخی جبر سے مشروط ہے۔

اب ہم دوسرے مرحلے کی طرف آتے ہیں کہ اس ایجادی وجود کو جو ایک عالمگیر سسٹم کی صورت میں خود کو منظم کر چکا ہے، چلنے اور جاری رہنے کے لیے خام مال کی ضرورت ہے اور جو دو طرح کا ہے: ایک یہ طبعی فطرت سے حاصل کرتا ہے اور ایک تاریخ (معاشرے) سے حاصل کرتا ہے۔ یعنی اسے مادی اور انسانی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ جس طرح طبعی وسائل فیکٹری میں پروسث ہونے کے بعد اپنی طبعی فطرت سے خالی ہو کر قطعی بدل جاتے ہیں، اسی طرح انسان بھی اس میں پروسث ہوتا ہے اور ایک نئی تقویم سے گزر کر، اپنی انسانی نہاد سے خالی ہو کر مکمل تبدیل ہو جاتا ہے۔ human               resource  سے انسان مراد نہیں ہے، انسان کے مخصوص اعمال، رویے اور ذہانت مراد ہے۔  ہر فیکٹری ایک چھوٹا سسٹم ہے جس کی بنیاد دو چیزیں ہیں: صنعتی منہج پیداوار اور تقسیم محنت، جس کو خام مال، سرمایہ، آرگنائزیشن اور انتظام سے ممکن بنایا جاتا ہے، اور جو انسانی وسائل (human               resource) کے بغیر قابلِ قیام اور قابل عمل نہیں ہے۔ صنعتی منہج پیداوار (mode               of               production               ) انسانی معاشرے کے سارے رشتوں کو بدل کر انہیں ایک نئی اور مکمل طور پر مادی تقویم پر استوار کر دیتا ہے، اور ان رشتوں کو کسی معنی میں بھی اخلاقی اور انسانی نہیں رہنے دیتا۔ دوسری طرف یہ کہ آرگنائزیشن میں داخل ہوتے ہی انسان کی اخلاقی خودی (moral               self) تحلیل ہو جاتی ہے (ان دونوں کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں)۔ یہ انسانی معاشروں کی نہایت ریڈیکل صورت حال ہے اور میں نے اس کا جو خلاصہ پیش کیا ہے وہ جدید علوم میں عام ہے اور کوئی راز نہیں، کشف نہیں۔  مسلمانوں کی طرح ساری دنیا اس کو live کر رہی ہے لیکن ہم اپنی حالتِ انکار کی وجہ سے اس کی آگہی سے محروم ہیں۔ بہت سے مذہبی اہل دانش جدیدیت کے ”اسلامی“ حل بھی تجویز فرماتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ اس صورت حال کے سامنے ہمارے پاس تین ممکنہ ”حل“ ہیں:

(۱) کسی طرح یہ سسٹم ہی ختم ہو جائے اور ہمارا مسئلہ حل ہونے کی بجائے ختم ہی ہو جائے۔ میری دانست میں موجودہ عالمگیر صورت حال تقدیری ہے اور ہر تقدیری صورت حال کی طرح یہ ایک متعین انجام کی طرف تیز تر بڑھ رہی ہے اور جس کے بارے میں پیش بینی جزواً ممکن ہے اور عملی طور پر دنیا کے سارے انسان مل کر بھی اس صورت حال کو undo نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کا تو ارادہ بھی ڈھے چکا ہے، وہ اس کو کیا تبدیل کریں گے اور پھر انہیں اس کی کوئی فہم بھی نہیں ہے۔ شاید اس کا علاج دعا سے ہو سکتا ہو اور دعا کر کے ایک آدھ صدی مزید انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔  

(۲) ایک حل یہ ہے کہ ہم طاقت اور سرمائے کے جدید ذرائع پیدائش سے کوئی تعلق ہی نہ رکھیں۔ اس سے یہ ہو گا کہ ہم سوچنے اور مسئلے کے حل کی زحمت سے بچ جائیں گے اور ایک منفعل خام مال کی طرح اس سسٹم کے کام آتے رہیں گے، اور اہلِ سسٹم کو آگاہ کرتے رہیں گے کہ یہ سب غیراسلامی ہے، اور جو بھیک ہمیں ملے اس کو اسلامی قرار دے کر کھاتے رہیں گے۔ سسٹم کو ٹاکی مارنے کے کام شاید ہمیں ملتے رہیں اور ہم جس پستی میں جا چکے ہیں، ہو سکتا ہے پوچا ٹاکی مارنے ہی کو اپنا تہذیبی اور دینی کارنامہ خیال کرتے رہیں۔

(۳)  ایک اور حل یہ ہے کہ باحمیت لوگوں کی طرح طاقت اور سرمائے کے جدید ذرائع پیدائش کو اختیار کر لیں اور اتنی طاقت حاصل کر لیں کہ ہم اپنی کرنسی بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور قانون الہٰی نافذ کرنے کی سیاسی قوت پیدا کر لیں۔ اور یہ حقیقی خودمختاری (sovereignty) کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ خودمختاری کوئی مذہبی یا روحانی تصور نہیں ہے محض ایک سیاسی تصور ہے۔ سیاسی اور اخلاقی خودمختاری کے بغیر فرد اور انسانی اجتماع کو مکلف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس دورانیے میں ایجادی وجود کے انسان کو بدل دینے والے اثرات اور تاثیرات سے بچنے کے لیے استعینوا بالصبر و الصلاۃ، یعنی عبادات اور مکارم الاخلاق پر کاربند ہو جائیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اتنی قوت بہم ہو جائے کہ ہم دین کی اجتماعی مرادات کو بھی نافذ کر سکیں۔ اگر ہم یہ سوال اٹھائیں کہ سیاسی طاقت کھو جانے کے بعد اس کے حصول کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب جہاد کے علاوہ کچھ اور نہیں، اور جہاد ہم عصر دنیا کے وسائل کو استعمال میں لائے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اور حصول طاقت کا جدید طریقہ کیا ہے؟ وہ ہے صنعتی منہج پیداوار اور آرگنائزیشن کو اختیار کرنا۔ لیکن ہمارا شوق ترکِ شریعت ہے، ہماری فکر تعبیرات دین سے اس کی تباہی ہے اور کل وقتی مشغلہ تاریخ سے فرمائشیں کرتے رہنا ہے۔ ہم باحمیت انسانوں کی طرح تاریخی عمل میں شریک ہونے سے انکاری ہیں۔

گزارش ہے کہ  ہر وجود مبدائے آثار ہے، لیکن ایجادی وجود مبدائے آثار ہونے کے ساتھ ساتھ مبدائے تاثیرات بھی ہے۔ آثار حسی ہوتے ہیں اور تاثیرات نظری۔ سسٹم یا ایجادی وجود کے ان پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے نظری علوم ضروری ہیں تاکہ اس کے پیدا کردہ نئے شبستانِ وجود کے اثرات اور تاثیرات کا ممکنہ انسانی حد تک سد باب کیا جا سکے، اور راستوں کی درست نشاندہی کی جا سکے۔ جدیدیت نے جو تاریخی اور تقدیری صورت حال پیدا کر دی ہے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے لیے جوابدہ نہیں ہیں، ہم اس میں اپنے اعمال کے لیے یقیناً جوابدہ ہیں۔ اور جدید ریاست بھی جدیدیت کا پیدا کردہ مظہر ہے، ایک سسٹم ہے، اور ایجادی وجود ہے،  اور وہی آثار اور تاثیرات اس پر بھی مرتب ہیں جن کا ابھی ہم نے ذکر کیا۔ ہم عصر دنیا میں کوئی انسانی معاشرہ صنعتی منہج پیداوار اور آرگنائزیشن کے بغیر قابل تصور بھی نہیں ہے، اور ان دونوں کے قیام میں بنیادی اور ناگزیر عامل ریاست ہے، اس لیے ہر انسانی معاشرہ اپنی بقا کے لیے جدید ریاست پر مکمل منحصر ہے۔ کسی بھی ملک میں قائم ریاست کو ختم کرنا اصلاً معاشرے کو ختم کرنا ہے۔ مغرب کی بدلِ سرکار  (regime               change) کی استعماری پالیسی اصلاً کمزور معاشروں کی تباہی کے لیے حرفِ ملائم  (euphemism) ہے۔ اب جدید ریاست کا ایجادی وجود ہونا تو ظاہر ہے لیکن یہ کہ وہ ایک آلاتی چیز ہے یا کسی وجودی فکر کا مظہر ہے، اس کا فیصلہ ہر معاشرہ اپنی تہذیبی ترجیحات کے مطابق کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یعنی جدید ریاست کو خدا کی جگہ دی جائے یا اسے مختار وجود مان کر اس کی تحدیدات قائم کی جائیں، اس کا فیصلہ انسانی معاشروں کی تہذیبی ترجیحات کے مطابق ہو گا۔ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی فکر میں رہتے ہوئے جدید ریاست کے بارے میں جو فیصلے ہوئے ہیں وہ ہمارے دین اور تہذیبی تقدیر کے لیے سخت تباہ کن رہے ہیں۔ جدید ریاست کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے اس کو طاقت اور سرمائے کے ذریعہ پیدائش کے طور پر کام میں لاتے ہوئے اس کے انسان کو بدل دینے والے اثرات اور تاثیرات کا سدباب بھی کیا جا سکے تاکہ انسان اور مسلمان رہنے کی ذمہ داری فراموش نہ ہو جائے۔

و اللہ اعلم بالصواب۔

Recommended Posts
Comments
  • عدنان عالم
    جواب دیں

    بطورِ انسان نہایت دلچسپ ۔ اور بطور مسلمان موجودہ دور میں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے ایک مضبوط مثبت گائیڈ لائن ۔ سلامت رہیں آباد رہیں آمین

عدنان عالم کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search