نسیم طالب کا سلسلہ ہائے کتب انسرٹو۔ مختصر ’سا‘ تعارف: عثمان سہیل

 In تنقید

چند ہفتے ہوئے ہیں کہ نسیم نکولس طالب کے مذکورہ بالا سلسلہ کا مطالعہ مکمل ہوا۔ موضوع دلچسپ ہے، استدلال علمی، اسلوب کاٹ دار اور زبان لذیذ ہے۔ بہ سبب موضوع اگرچہ یہ مانند ایک خشک اور سنگلاخ میدان کے سفر کے ہے لیکن طالب کا اسلوب ایسا ہے کہ  قاری یہ تحریری سفر ہنسی خوشی طے کر لیتا ہے۔ آپ ان کے تحقیقی اور علمی نوعیت کے  کام کی عملی زندگی کے کئی پہلوؤں سے تطبیق کر سکتے ہیں، اور لکھی گئی امثال کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ عملی زندگی سے  تعلق اور برمحل ہونا ہی انسرٹو کی اس تعارفی تحریر کا باعث تحریرآنکہ ہوا ہے۔  تاہم جو اصحاب مصطفٰے زیدی کے کہنے میں آ جاویں اور  پتھروں پر چلنے کی خود اذیتی سے لذت کشید کرنے کے خواہاں ہو جاویں یعنی اپنے ہی درپے ہو جائیں وہ کتب کے اختتام پر دئیے گئے تکنیکی ضمیمے نیز حوالہ جات میں درج ریاضیاتی  نوعیت کے تحقیقی مقالہ جات پڑھ کر اپنی تسکین پا سکتے ہیں۔ ہمیں اچھا لگے گا۔

اخبارات کے بے رُوح ادارئیے اور ٹی وی پر تجزئیے سننے اور لغو کالموں کے مجموعے پڑھنے کے بڑی عمر کے شائقین کی بہ نسبت نوجوانوں سے امید کرتا ہوں وہ ان کتب پر توجہ کریں اور نفع اٹھائیں۔ ازبسکہ طالب کے نظریات، خیالات اور اطلاقات عملی زندگی میں کثیر جہاتی نوعیت کے ہیں۔

زیر نظر، سلسلہ ہائے کتب کے عنوان ‎انسرٹو کے معنی غیر یقینی اور مشکوک کے ہیں۔ پہلی دو کتب فُولڈ بائے رینڈم نیس اور بلیک سوان میں بے قاعدگی، غیر یقینیت اوراحتمالیت کے مظاہر پر بحث ہے اور اس کی مختلف صورتوں پر تفصیلی بیانات ہیں۔ بلیک سوان، طالب کا مرکزی نکتہ ہے۔ ایسے واقعات جن کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ اس کے اثرات و عواقب گھمبیر اور انتہائی حد درجہ کے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی کوئی بھی تعبیر  وقوع پذیر ہونےکے بعد معکوس رُخ پر ہی ممکن ہے۔ ایسے  احتمالی واقعات جن کا ہونا آج کی پیچیدہ دنیا کی معیشت، کاروبار، سیاسی اور سماجی زندگیوں کا مقدر ہے۔

تیسری  کتاب اقوال پر مشتمل دی بیڈ اوف پروکرسٹیز ہے۔ یونانی اساطیر میں ایک دیو صاحب پائے گئے ہیں جو ایتھنز کو جانے والے راستے میں سکونت پذیر تھے۔ یہ جناب راہ گیروں کو گھیرگھار کر اپنے مکان میں سونے کیلیے بستر پیش کرتے۔ بچارے راہ گیر کی ٹانگیں اگر بستر سے چھوٹی ہوتیں تو کھینچ کھانچ کر لمبی کرتے چاہے اس عمل میں راہ گیر کا جسم دولخت ہو جائے۔ لخت سے ناقص کو بے اختیار اور حسب عادت بے محل غالب کا ایک شعر یاد آ رہا ہے؂

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو

عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے

 ہاں تو بات ہو رہی تھی دیو صاحب کی۔ اگر شکار کی ٹانگیں لمبی ہونے کی وجہ سے بستر سے باہر نکل جاتیں تو کتربیونت سے کام لیتے۔ دونوں صورتوں میں راہگیر کا نصیب ابدی سفر کی راہ پر ہی گامزن ہوتا۔ یہ کتاب اسی نوعیت کی کتربیونت سے کام چلانے والے  پیشوں جیسا  کہ کنسلٹینسی، معیشت، صحافت اور یونیورسٹی پروفیسری ہیں سے منسلک  کاریگر خواتین و حضرات کے متعلق دلچسپ اقوال کا مجموعہ ہے۔ یہ ماہرین فن اپنی پٹاری میں بہت سے حل (solutions) لیے گھومتے ہیں اور جس کسی پر دام میں آنے کا ذرا سا بھی شبہ ہو جائے اس کے اُمور کا باریک بینی سے  جائزہ لیکر ریڈی میڈ حل سے مطابقت رکھنے والا مسئلہ دریافت کر لیتے ہیں۔ کاروباری زبان میں اس عمل کو problem    identify کرتے ہوئے tailor    made    solution مہیا کرنا کے متاثر کن بارعب الفاظ سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اس سے اگلی کتاب اینٹی فریجائل میں احتمالیت کے مضمرات اور اطلاقات ہیں اور اس سے نبٹنے نیز اس سے بچے رہنے کی حکمت عملیاں پیش کی گئی ہیں۔ نسیم طالب یہاں غیریقینی حالات اور غیر یقینیت کی صورت فیصلہ سازی کیسے کی جائے کے ضمن میں اہم نکات بتاتے ہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ سرمایہ کاری کرتے وقت سرمایہ کا بڑا حصہ ایسے کام میں لگائیے جو نقصان کا کم سے کم احتمال رکھتا ہو جبکہ زیادہ پُرخطر کام میں ایک مختصر سرمایہ کاری کی جائے۔

سکن اِن دی گیم احتمالیت کی تہہ میں کارفرما عدم تناسب کی کار گذاریوں اور اس کے اخلاقی، سیاسی، تاریخی اور سماجی اطلاقات پر گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں بات سے بات نکلتی ہے۔ اسے بجا طور پر طالب کے کام کا نچوڑ اور ماحصل  کہا جا سکتا ہے۔ سکن اِن دی گیم کا مرکزی نقطہ ہے کہ ایک صورتحال میں عملی اقدام کا تجویز کنندہ یا خود سے عملی قدم لینے والے کا ذاتی حیثیت کیا داؤ پر ہے۔ یہاں داؤ کے مشمولات میں مالی نقصان، جسمانی ضرر یا ساکھ میں سے کوئی ایک، دو یا تینوں نتائج کا امکان ہوگا۔ سکن اِن دی  گیم کے تصور کے مطابق کسی کام میں جس (سمجھدار) شخص کا کچھ مفاد یا نقصان داؤ پر لگا ہوگا وہ ایسی حکمت عملی اپنائے گا جس سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹے جبکہ نقصان کا خدشہ کم سے کم ہو۔ آپ کاروباری فیصلہ کر رہے ہوں، گاڑی لے رہے ہوں یا گھر خرید رہے ہوں، آپ کے مدنظر زیادہ سے زیادہ فائدہ اور نقصان کو کم سے کم رکھنا ہوگا بہ الفاظ دیگر نفع و نقصان میں نسبت معکوس ہو۔

اس کے برعکس پبلک لائف میں طالب کے نقطہ نظر سے  ایسا آدمی  جو دولت، کیرئر اور سیاسی ثمرات کے انفرادی حصول کیلیے پبلک کے وسائل پر داؤ پیچ کرے جبکہ ذاتی نقصان کا احتمال کم سے کم ہو کا طرز عمل اینٹی فریجائل ہونے کے باوصف منفی نوعیت کا ہے جو کہ اس کھیل میں اُس آدمی کی سکن اِن دی گیم نہ ہونے کے سبب ہے۔ معیشت میں دور رس اقدامات تجویز کرنے والے ایک پیشہ ور ماہر معیشت، ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ کی مثال دیکھیے۔ اس کی حکمت عملی اورفیصلہ سازی جیسا کہ ٹیکس پالیسی اپنے اندر ایک خاص طبقہ کیلیے بہترین فوائد جبکہ عامتہ الناس  کیلیے بدترین ہونے  کے امکانات رکھتی ہے۔ غور کیجیے یہاں فریقین کیلیے فائدہ و نقصان میں نسبت غیر معمولی اور معکوس ہے۔ لیکن یہی صاحب  سبکدوش ہونے کے بعد کسی بین القوامی مالیاتی ادارہ میں یا کسی کارپوریشن کے مشیر  کی حیثیت سے ”اکھاڑ لو میرا جو اکھاڑ سکتے ہو“ کی مجسم صورت بیٹھے پائے جائیں گے۔ نہ کسی قسم کی جوابدہی اور نہ ہی کوئی مالی نقصان۔ ان حضرت کو تو اگلی بار ووٹ مانگتے شرمندہ صورت بنانے کا تردد بھی نہیں کرنا۔

ملاحظہ ہو یہاں طالب اپنے تحقیقی حاصلات کو اخلاقیات عامہ کے باب میں بھی برت رہے ہیں۔

طالب کے خیالات بہ ظاہر چونکا دیتے ہیں اور غیر روایتی نظر آتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کا غیر روایتی ہونا ماضی قریب کی حالیہ روایت سے انحراف ہے۔ اس تاثر کے برعکس وہ پُرکھوں سے چلی آتی روایتی دانش کو اہمیت اور قدر و منزلت دیتے ہیں جو ان کے بقول تہذیب کے دامن میں پلتی ہے اور کامیاب ہے۔ جیسا کہ، وہ مثال دیتے ہیں کہ صدیوں سے بچے ماں کا دودھ پیتے چلے آ رہے تھے لیکن گذشتہ صدی کے چند سائنسدانوں کو کسی بہ ظاہر گہری تحقیق جو درحقیقت اتنی  گہری نہیں تھی سے علم ہوا کہ ماں کے دودھ میں ایسے خواص نہیں ہیں جو ڈبے کے دودھ میں نہ ہوں۔ اس بات کو بہت سی ماؤں نے سنجیدہ لے لیا۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ انسانی علم کی محدودیت ہے۔ ہم بہت معمولی جانتے ہیں جبکہ نہ جاننے جانا والا منطقہ لامتناہیت کو چھونے کی حد تک بسیط ہے۔ نیز ہر تحقیق  کی بھی چھان پھٹک درکار رہتی ہے۔ دور جدید میں باوسائل افراد، گروہ اور ادارے ایسی سطحی تحقیق جو ان کیلیے مفید ہو، کو بڑھاتے اور جسے اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، کو دبائے رکھتے ہیں۔

(یہاں تک پہنچ کر محرر تھک گیا ہے، جنہیں زیادہ جاننے کا لالچ ہے وہ خود سے پڑھ لیں۔ اس سے زیادہ ہم سے نہ ہو پائے گا۔)

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search