سنگ پر سایہ (تحریر: محمد حامد زمان)
سنگِ سفید کے دو زینے، اور ان پر ایک پرچھائیں۔ یہ سیاہ سایہ وقت نے منجمد کر دیا تھا۔ قدرت کی سِل پر انسان کے سیاہ کردار کی مانند۔ یہ سایہ اس شخص کا تھا جو ۵ اگست ۱۹۴۵ء کی صبح کو اپنے گھر کے سامنے، پتھر کی ایک سیڑھی پر بیٹھا نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ شاید اخبار پڑھ رہا ہو، یا شاید صبح کی چائے لے کر باہر نکل آیا ہو۔ یا شاید ۔۔۔
پھر ٹھیک سوا آٹھ بجے ایک ہوائی جہاز کے بطن سے دھات کے صندوق میں مُقفل عذاب اس نامعلوم شخص اور اس کے پورے شہر پر ٹوٹ پڑا۔ اس قہر کی شدت اس قدر تھی کہ لاکھوں لمس منٹ بھر میں بخارات کی مانند فنا ہوگئے۔ حِدت سے پتھر کی سیڑھی سفید ہو گئی، ماسوائے ڈیڑھ فٹ کے اس حصے کے جہاں پر یہ شخص براجمان تھا۔ وہ حصہ اس شخص کے جھلسنے کے باعث ہمیشہ کے لئے سیاہ ہو گیا۔
سنگِ سفید کے یہ دو زینے اور ان پر موجود سیاہ پرچھائیں آج ہیروشیما کے میوزیم کا حصہ ہیں۔ میوزیم کا وہ حصہ جہاں پر عام شہریوں کے آثار رکھے گئے تھے، یہاں پر اُس ننھے بچے کی سائیکل بھی ہے جو لقمہ اجل تو بن گیا، مگر اس کے والدین اس بات پر فکر مند تھے کہ کہیں اگلے جہان میں وہ اکیلا نہ محسوس کرے، اور اس کے اکیلے پن کو دور کرنے کے لئے والدین اس بات پر مصر تھے کہ اس بچے کے ساتھ اس کی سائیکل کو بھی دفن کر دیا جائے۔ اعلیٰ حکمرانوں نےغم رسیدہ والدین کی یہ خواہش نہ مانی، اور وہ سائیکل اب اس میوزیم کا حصہ ہے۔
ہیروشیما انسانی تاریخ کے ان تاریک آئینوں کا نام ہے جن سے آنکھ چرانا بھی ممکن نہیں اور جن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا بھی آسان نہیں۔ یہاں کا میوزیم ٹرین سٹیشن سے تقریباً پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ میوزیم کے باہر ہیروشیما کی ایک عمارت کا بچا کھچا ڈھانچہ ہے، جوایک زمانے میں اپنے جاہ وجلال کا بشیر تھا، مگر لمحے بھر میں یہ پر شکوہ عمارت پگھلتے لوہے اور سریے کی ٹیڑھی ترچھی لکیروں میں بدل گئی۔
میوزیم کے کئی حصے ہیں۔ ایک حصے میں دھماکے سے قبل کی تصاویر ہیں۔ اگر غور کیجئے تو ان تصویروں میں ایک دنیا آباد ہے، اس دنیا میں بچوں کی کھلکھلاہٹ بھی ہے اور رموزِ زندگانی کی پکار بھی۔ ناامیدی کی کڑواہٹ بھی اور ساعتِ وصل کی مٹھاس بھی۔ جوں جوں میوزیم کے اگلے حصوں کے دروازے وا ہوتے ہیں، توں توں تاریکی غالب آنے لگتی ہے۔ میوزیم کا اگلا حصہ بیک وقت ایک لمحے کی داستان بھی ہے، اور تاریخِ انسانی کی تصویر بھی۔ اگر زوالِ انسانیت کو ایک لمحے میں بیان کیا جائے تو شاید وہ لمحہ ۵ اگست ۱۹۴۵ء کو آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر آیا تھا۔
میوزیم کے اگلے حصے میں کرب بھی ہے اور انسانیت بھی۔ ان لوگوں کا کرب جو رستے زخموں کو عمر بھر سہلانے کی خواہش میں اس عالم میں رہے کہ نہ تو وہ زندہ تھے اور نہ مردہ۔ ان لوگوں کا کرب جو اپنوں کو اس حالت میں دیکھتے اور کچھ بھی نہ کرپاتے۔ مگر یہاں پر ان لوگوں کی عظمت کی داستان بھی رقم ہے جنہوں نے رستے زخموں پر مرحم رکھا۔ میوزیم کی تاریک راہ داریوں میں مجھے ایک کرن دکھائی دی۔
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کا ایٹمی بم استعمال کرنا، اور پہلے ہیروشیما اور پھر ناگاساکی پر ہلاکت کا فیصلہ صادر کرنا، جارحیت کے آخری اقدام نہیں تھے۔ جہاں ایک طرف عالمی جنگ کے بعد دنیا سے نوآبادیاتی نظام کے کسی حد تک خاتمے کی صورتحال پیدا ہو رہی تھی، وہاں ایک نئے نوآبادیاتی نظام کی داغ بیل بھی ڈالی جا رہی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جاپان میں ایک قہر برپا ہو چلا تھا، اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ امریکہ اس طرز کے مزید حملے کرے۔ جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے سر تسلیم خم کر دیا تھا اور امریکہ کے آگے ہتھیار ڈال دئے تھے۔ یوں ایک طرف تو وہ شہنشاہ جو اکثر جاپانیوں کے لئے ایک معبود کی حیثیت رکھتا تھا، یکایک محض مٹی کا ایک پتلا بن گیا، اور دوسری طرف امریکی عسکری قیادت اس جزیرے کی حاکم اعلی بن گئی۔ اس نئے حاکم سے نہ تو کوئی سوال کر سکتا تھا، اور نہ ہی کوئی جواب طلب کرسکتا تھا۔ وہ جاپانی جو اگست میں مر نہ سکے، وہ قطرہ قطرہ موت کا مزہ ہر روز چکھنے پر مجبور تھے۔
دوسری جانب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نہ صرف جیت کا جشن منایا جا رہا تھا، بلکہ قوم اس بات پر بھی نازاں تھی کہ اس قوم کے فوجی جوان اور حکومت حریت، رحم اور راست بازی کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ حب الوطنی اور اپنی افواج پر فخر آسمان کو چھو رہا تھا۔
کرہِ ارض کی دوسری جانب یتیم جاپانی بچے رو رو کر اپنے آپ کو لوری دیتے اور پھر زخموں کے کرب سے بیدار ہو جاتے۔
یہ سلسلہ شاید اک عرصے تک چلتا رہتا۔ امریکی افواج کے حکام نے صحافیوں کی آمدورفت پر پابندی لگا رکھی تھی، اور جاپان میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے ہونے والی تباہ کاریوں سے امریکی عوام مکمل طور پر لاعلم تھی۔ افواج پر تنقید کرنا بغاوت کا دوسرا نام تھا۔ امریکی راوی ہر جگہ چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
مگر پھر کاتبِ تقدیر نے قلم کے ایک مزدور، جان ہرسی، کو تاریخ کا رخ بدلنے کے لئے چن لیا۔
جان ہرسی امریکی جریدے نیویارکر سے منسلک تھے، اور اپنے قلم کی قوت کا لوہا منوا چکے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کے ایک قصبے میں پگھلائے جانے والی جرس کی داستان ایک ناول میں ہرسی نے یوں ڈھالی کہ عام قارئین سے لے کر ناقدینِ ادب تک عش عش کر اٹھے۔ اس شاہکار پر انہیں امریکی ادب کا اعلی ترین انعام پلیٹزر پرائز ملا۔ مگر ہرسی کے قلم کی اصل قوت ابھی مظہر ہونا باقی تھی۔
۱۹۴۶ء میں جان ہرسی جاپان پہنچے۔ ان کی آمد سے قبل ہیروشیما پر ایک آدھ مضامین منظرِعام پر آ چکے تھے جن میں جاپان کی زبوں حالی کا تذکرہ تھا۔ مگر ان مضامین میں تذکرہ غربت، افلاس اور ایک شکست خوردہ ریاست کے ہارے ہوئے باسیوں کا ہوتا۔ ایٹم بم سے نیم مردہ اشکال کا تصور امریکی عوام کے جشنِ فتح سے بہت دور تھا۔ کچھ رفقاء کی امداد، کچھ اپنی صلاحیت اور کچھ فوج کی پالیسی میں نرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہرسی کو مئی ۱۹۴۶ء میں ہیروشیما جانے کی اجازت مل گئی۔ ایٹمی بم کے برسنے کے واقعے کو تقرییاً ایک برس گزر چکا تھا، مگر کرب زدہ شہر کی اندوہ ناک تکلیف ایسے تازہ تھی کہ جیسے بم ایک لمحہ پہلے ہی زمیں بوس ہوا ہو۔ ہرسی نے ہیروشیما میں کرب کی ایک نئی صورت دیکھی۔ گرمی کے دنوں کے باوجود مریض اپنی بیماری کے باعث تھر تھر کانپ رہے تھے، پانی میسر تھا مگر پیاس بجھنے کو نہ تھی، زخمیوں کے کسی ناسور پر کوئی مرہم کارگر نہ ہو رہا تھا۔ اس قہر زدہ شہر میں سانس کی ڈوری تو باقی تھی، مگر اس ڈوری میں اس قدر تناؤ تھا کہ ہر سانس کے آنے کے بعد اگلی سانس کے کھینچنے کے لئے ہمت باقی نہ رہتی۔ ایسے میں ہرسی نے اپنےاعصاب پر نہ جانے کیسے قابو کیا، اور چھ ایسے لوگوں کی داستان لکھنے کا ارادہ کیا جو اس جوہری دھماکے سے بچ نکلے۔ ہرسی کے مضمون کی پہلی سطور ہر قاری کو منجمد کر دیتی ہے۔
”چھ اگست ۱۹۴۵ء کی صبح ٹھیک آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر، جس وقت ہیروشیما کے عین اوپر ایٹمی بم کی روشنی جگمگائی، عین اسی وقت مشرقی ایشیا کی کمپنی کی ایک کلرک ٹوشیکو ساساکی اپنے میز پر آ کر بیٹھی تھیں۔ عین اسی لمحے ٹوشیکو نے اپنا سر موڑا اور وہ اپنے برابر کام کرنے والی لڑکی سے بات کرنے کوتھیں۔ یہ وہی لمحہ تھا جب ڈاکٹر ماسازوکی آلتی پالتی مار کر اپنے ہسپتال کے برآمدے میں اخبار پڑھنے کو تھے۔ ایک درزی کی بیوہ ہاٹسویو ناکامورہ اپنے گھر کی کھڑکی سے اپنے ہمسایے کو اپنے گھر کی مرمت کرتا دیکھ رہی تھیں، جرمن پادری ولیم کلائنسورج اپنی لنگی میں اپنے گھر کی تیسری منزل پر ایک چارپائی پر ایک رسالہ پڑھنے میں مصروف تھے، ریڈ کراس کے نوجوان ڈاکٹر ٹروفومی ساساکی ہسپتال کی راہداری سے گزر رہے تھے، اورعین اسی وقت پادری کیوشو ٹانیموٹو، شہر کے ایک رئیس کے گھر کے سامنے کچھ سامان اس لئے بطور امانت چھوڑنے پہنچے تھے کہ کہیں آنے والی امریکی بمباری میں یہ ضائع نہ ہو جائے۔ ایٹم بم سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ چھ ان میں سے ہیں جو بچ گئے۔ یہ چھ آج بھی سوال کرتے ہیں کہ ان میں اور باقی لوگوں کی تقدیر میں اتنا فرق کیونکر؟“
۲۴ اگست ۱۹۴۶ء کو نیویارکر میگزین نے کئی دہایئوں پر محیط اپنی روش توڑ دی۔ اس سے پہلے نیویارکر میگزین میں ہمیشہ متفرق موضوعات پر مضامین چھپا کرتے تھے۔ مگر اگست ۱۹۴۶ء کے شمارے میں پورے جریدے میں تیس ہزار الفاظ پر مشتمل صرف ایک مضمون تھا۔ ”ہیروشیما“ ۔
مضمون کے چھپتے ہی نہ صرف اخباری دنیا میں، بلکہ پورے امریکہ کے قارئین کی زندگیوں میں ایک بھونچال آ گیا۔ یکایک امریکی عوام کا یہ زعم ٹوٹ گیا کہ ان کی فوج اخلاق کی اعلی کردار کی غماز ہے، یا یہ کہ جنگ میں امریکی فوج کی اعلی قیادت اور ان کی قوتِ کردار نے برتری دلائی ہے۔ جان ہرسی کی کہانی ایک داستانِ کوہ قاف نہ تھی، بلکہ جیتے جاتے لوگوں کے کرب کی بپتا تھی۔ ایٹمی بم ایک معمولی ہتھیار کا نام ہی نہ تھا، یہ ایک ایسی مہلک لعنت تھی کہ جس کی جہنم میں جو لوگ جھونکے گئے وہ نہ جینے کے قابل تھے اور نہ موت ان کو تسلیم کرنے کو تیار۔
یکایک امریکی مرد و زن اپنے خوابوں میں ان بھیانک شکلوں کو دیکھنے لگے جو اس بم سے مسخ ہو گئیں۔ لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ اگر یہ بم امریکہ جاپان پر گرا سکتا ہے تو کوئی اور امریکہ پر بھی تو گرا سکتا ہے، اگر جاپانی بچے جھلس سکتے ہیں تو ہمارے بچے بھی ۔۔۔ اور شاید کچھ دل والوں نے سوچا جو شاید کبھی پہلے نہ سوچا تھا اور وہ یہ کہ جاپانی بھی انسان ہیں۔ کچھ میں ضمیر جاگا اور کچھ میں خوف، کچھ کو اپنی حکومت سے کراہت ہوئی اور کچھ کو اپنے مستقبل کی فکرلگی۔
یکایک عوامی دباؤ بڑھنا شروع ہوا، یہاں تک کہ امریکی فوج بھی اس بم کے دوررس نتائج کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا، جس میں نامور سائنسدان، محققین، سیاست دان، اور عام شہری سبھی نے اس عزم کو اپنا نصب العین بنا لیا کہ دنیا کبھی دوبارہ ایٹم بم کی شعاعیں کرہِ ارض کے کسی حصے پر نہ پڑنے دے گی۔
میں یہ سب کچھ سوچتے ہوئے میوزیم کے آخری حصے میں آ نکلا۔ شاید ہرسی کی ایک تحریر، جسے امریکی صحافی بیسویں صدی کی مؤثر ترین صحافتی تحریر تصور کرتے ہیں، نے اپنا کام دکھا دیا۔ مگر میوزیم کا آخری حصہ انسان، اور ہماری حکومتوں کی منافقت کی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ اس حصے میں ان کوششوں کا بھی تذکرہ تھا جن کی بدولت دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی خرید وفروخت پر پابندیاں عائد کی گئیں، مگر ساتھ ہی ساتھ ان ہتھکنڈوں کا بھی احوال بیان کیا گیا تھا جو ایک نئے نوآبادیاتی نظام کی شاہد تھیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں امن کے راگ الاپنے والی اقوام پسِ پشت بحرِاوقیانوس کے دور دراز جزائر میں اپنے دھماکے اور تجربات جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ان جزائر کے بے نام عوام، اور بے زبان جانور ان تجربات کے اثرات کا قرض ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر دوغلے ہونے کا سہرا صرف سیاست دانوں کے سر ہی نہیں، ہمارے پسندیدہ سائنسدان بھی اسی خمیر کے بنے ہیں۔ میوزیم کے اس حصے میں مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا وہ خط بھی موجود ہے جو انہوں نے امریکی صدر روزویلٹ کو ۱۹۳۹ء میں لکھا۔ اس خط میں آئن سٹائن نے صدر روزویلٹ کو مشورہ دیا کہ چونکہ جرمنی میں ”شاید“ کچھ سائنسدان ایٹمی اور جوہری توانائی کی تحقیق میں سرگرم ہیں، اس لئے امریکہ کے لئے اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنی عسکری سرگرمی تیز تر کر دے۔ اس خط کے نتیجے میں صدر روزویلٹ نے امریکی جوہری پروگرام کی داغ بیل ڈالی، وہی پروگرام جو بعد میں مین ہیٹن پروجیکٹ کے نام سے جانا گیا، مگر اس کی اصلی تصویر ہیروشیما کے شہریوں کی لاکھوں لاشوں اور جھلسے، رستے زخموں سے داغدار مگر جیتے جسموں کی شکل میں نظر آئی۔ جنگ کے بعد کی دستاویزات نے یہ امر ثابت کر دیا کہ آئن سٹائن کی پیشن گوئی غلط تھی۔ جرمنی میں ایٹمی بم بنانے کا کوئی باقاعدہ پروگرام نہ تھا، اور ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی جس کی آڑ میں آئن سٹائن نے صدر روزویلٹ کو امریکی جوہری پروگرام شروع کرنے پر آمادہ کیا۔ کہا جاتا ہے بم کے دھماکے، اور اس کے نتائج کے سامنے آنے کے بعد آئن سٹائن اپنے خط پر شدید پشیمان تھے۔ یہ پشیمانی بھی عجب شے ہے، میری سمجھ سے باہر۔ کیا امریکی حکام کو اپنے کئے پر پشیمانی ہوئی؟ اگر ۱۹۴۵ء میں نہیں ہوئی تو پھر کیا ۲۰۰۳ء میں ہوئی جب ناقص معلومات کی آڑ میں، اور ”جمہوریت پھیلانے“ کے عزم میں امریکی فوج نے عراق کے عوام کے آشیانوں کو آگ لگا دی۔ شاید کبھی کوئی شخص ایک انٹرویو میں کہہ دے کہ ہاں میں پشیمان ہوں اور خون کے دھبوں کو دھونے کی کوشش کرے۔ کاش سب پشیمانی جادو کی ایک ایسی چھڑی ہوتی کہ گھمائی اور زندگی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ واپس آ جاتی، کاش پشیمانی کا ایک جملہ وہ مرہم ہوتا جو ان گنت دکھوں کا مداوا کرسکتا، اپنوں کو واپس لا سکتا۔ میوزیم کے پچھلے حصے میں دیکھی گئی زنگ آلود سائیکل کو اپنے نو عمر سوار سے ملا سکتا۔
میں مزید آگے بڑھ آیا۔ میوزیم کا یہ آخری حصہ تصاویر اور دستاویزات پر مشتمل تھا۔ کچھ تصاویر بین الاقوامی مذاکرات اور نئے ضابطوں پر دستخط کرنے کے بعد مسکراتے سفیروں کی تھیں۔ مگر یکایک میں ایک ایسی تصویر کے سامنے آ گیا جس نے ان سب ضابطوں کی قلعی کھول دی۔ تصویر میں سفید بالوں والا ایک شخص بھورے رنگ کا سوٹ پہنے، چشمہ لگائے، کیمرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تصویر سے یہ واضح تھا کہ یہ کسی ٹی وی انٹرویو یا تقریر کی تصویر ہے۔ تصویر ۴ فروری ۲۰۰۴ء کی تھی۔ جاپانی اور انگریزی زبان میں اس تصویر کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ کچھ ممالک اور افراد پیسوں کے عوض، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، دوسرے ممالک کو جوہری ہتھیار اور ان سے منسلک ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں۔ تصویر وطنِ عزیز کے ایک نامور سائنسدان، اور ان کے ٹی وی پر آ کر اقبالِ جرم کی تھی۔
میرے ذہن میں بے شمار سوالوں نے جنم لیا، کچھ سوال وہ تھے جو عرصہٗ دراز سے چبھ رہے تھے، جن کا تعلق اقرا ر کرنے والے اور اقرار کرانے والوں سے تھا۔ کون کون ملوث تھا، کیوں، کب اور کس نے کیا کیا، ان سوالات کے جواب میں، اور میرے جیسے نہ جانے کتنے پچھلے کئی برسوں سے ڈھونڈ رہے تھے۔ کاروبارِ زیست اور غمِ دنیا نے ان پر وقت کی تہیں بچھا دیں، اور میں نے لاجواب سوالوں کی چبھن کے ساتھ جینا سیکھ لیا، مگر اس تصویر نے اس نظام کی بنیادوں، جو میں نے اپنے لئے منتخب کر رکھا تھا، دراڑیں ڈال دیں، اور میں اپنے جان ہرسی کے ظہور کے لئے دعا کرنے لگا۔