روایت و جدیدیت، سرسید اور معتزلی افکار۔ تحریر: سید احمر نعمان

 In تاثرات
کمپیوٹر سائنس کے شعبہ سے وابستہ سید احمر نعمان فلسفہ اور اس کے مذہبی اطلاق کے علم کے حصول میں کوشاں ہیں۔ ان کی دیگر سرگرمیوں میں چاند کی تاریخوں کے حساب سے کبھی نثر اور کبھی شاعری میں طبع آزمائی کرنا ہے۔

سرسید ہمہ جہتی شخصیت ہیں، انکی خدمات ہمہ  جہتی اور نتیجتاً ان پر اعتراضات بھی ہفت جہتی ہوئے۔ انگریزوں کی خدمت گزاری سے لے کر عورتوں کی تعلیم کے خلاف یا ان(عورتوں )کے پردہ کے حق میں ہونے سے، اسباب بغاوت ہند یا آپ کی اشرافیہ پسندی تک  بہت سی چیزوں پر معترضین ڈیڑھ صدی سے بولتے آ رہے ہیں۔ تازہ ترین تنقید ان پر محمد دین جوہر صاحب نے اپنے مضمون میں کی جسکا مخصوص مذہبی تناظر تھا۔ موضوع کتاب کا متقاضی ہو مگر دو صفحات پر محیط ہو اور پھر کچھ ژولیدہ بیانی؛ تو ہر حلقہ میں ترسیل نہ ہو پائی، یوں بھی وہ سب کے لیے لکھا بھی نہیں گیا تھا۔ کچھ معترضین آدھی بات لے اڑے، دوسری جانب بھی منظر مختلف نہ تھا۔

اب ہمارا بحیثیت مجموعی مزاج یہ ہے کہ ہمارے پاس دلائل یا رد دلائل کے بہ جائے پہلے سے بنے بنائے جوابات کے ڈھیر ہوتے ہیں، بات سمجھنے یا مدلل اعتراض کا جواب دینے کے بہ جائے ہم وہ اعتراض ڈھونڈتے ہیں جسکا گھڑا ہوا جواب ہمارے پاس پڑا ہو، وہی دے کر شادیانے بجانا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ مقصد سیکھنا کم اور علمی برتری ثابت کرنا زیادہ نظر آتا ہے ۔

مجھ طالب علم کی شکایت یہ  ہےکہ سرسید سا  نابغہ   اور ایسا خرد افروز مضمون، مگر مضمون پر تنقید بھی ڈھنگ کی نظر نہ آئے، نہ  ہی سرسید کا دفاع تو کہاں جایا جائے؟ ناکردہ باتوں کے جواب نظر آئے،  بقول فیض،

وہ بات سارے فسانے میں جسکا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

عبد الحلیم شرر کی بات یاد آتی ہے جو انہوں نے سرسید کے (مذہبی) حوالہ سے کہی تھی کہ جیسے آجکل کے معتزلہ کا معیار ہوا ویسا ہی انکے مخالفین کا علمی معیار بھی ہے۔ راقم کا دانشمندی سے علاقہ نہیں، عقائد میں بھی   تہی دامنی ہے،  بقول جمال احسانی،

‏عقیدے کا نہیں ہونا بھی اِک عقیدہ ہے

مجھے الگ ہی سمجھ باعقیدہ لوگوں سے

اپنے عقیدہ کی وضاحت کا واحد مقصد یہی  ہےکہ  مقصد نہ سرسید پر تنقید ہے نہ دفاع، نہ ہی کسی لکھاری پر تنقید، نہ جوہر صاحب کے مضمون کا دفاع کہ اتنے بڑے لوگوں کا نام لینے کی اوقات ہے نہ علم ۔ محض چند نکتوں کی نشاندہی کی خاکسارانہ کاوش ہے، جو مختلف سوشل میڈیا   پرمباحث میں نظرآئے ۔ امید ہے طرفین کے جملہ دانشوران کی جانب سے کوئی اچھی بحث پڑھنے کو ملے گی جو کنفیوژن کے بجائے علم پھیلانے کا باعث ہو۔

ایک صاحب نے لکھا، جن سے سوال پوچھا بھی گیا  کہ فرض کیجیے کہ جدیدیت (ماڈرن ازم)، روایت یا ٹریڈیشن کی ضد ہے تو کیا وہ خود یہ کہہ پائیں گے کہ وہ ایک قدیم جدت بھری سوچ رکھتے ہیں، یا اس کے برعکس کہ ’میں جدید دقیانوسی سوچ کا حامل ہوں‘؟ ۔ پھر اپنی جدید مذہبیت پر غور ضرور کیجیے گا۔ جو گمان تھا وہی ہوا کہ جواب ندارد۔

سو یہاں بنیادی مقدمہ یہ ہے  کہ روایت اور جدیدیت دو متضاد افکار (یا نظام ہائے فکر) ہیں۔ جدیدیت وہ مزاج، نظام فکر،طرز زندگی، جس میں عقل امام ہے، وحی بھی عقل کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ علم کا سرچشمہ صرف عقل ہے جس میں وحی یا وجدان کی بھی حیثیت نہیں۔ حدیث و آیت عقل کے خلاف ہو تو رد ہے۔ جبکہ روایت، عقائد والا مذہب ہوا۔ یاد رہے جوہر صاحب کی روایت کی تعریف اس سے یقیناً ہٹ کر ہے جس کے ماخذات میں قرآن و حدیث، فقہ بھی شامل ہیں مگر فی الوقت تفصیلات میں جائے بغیر بھی مقدمہ سمجھنا مشکل نہیں۔

ایک اور دل چسپ بات جو محسوس ہوئی کہ سرسید کو یہی تنقید نگار حضرات جدیدیت بمعنی ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم ( مابعد از جدیدیت ) کی رُو سے بھی دیکھتے ہیں، ان احباب  کی خدمت میں عرض ہے کہ جدیدیت بیسویں صدی خصوصاً جنگ عظیم اول کے زمانہ کا فلسفہ تھا اور پوسٹ ماڈن ازم دوسری جنگ عظیم کے بعد کا فلسفہ ہے جو ابھی بھی  ماننے والوں کی حد تک کافی حد تک متعلق ہے، مگر سرسید کی وفات انیسویں صدی کے آخر (1898) کی ہے، سو مجھے یقین ہے آپ اتفاق کریں گے کہ سرسید کا براہ راست جدیدیت یا مابعد جدیدیت سے کوئی علاقہ نہیں ۔ ان پر الزام صرف اس حد تک درست ہو سکتا ہے کہ انکی فکر یا انکے لگائے پودے زمانہ جدیدیت میں تن آور درخت بن چکے تھے اور پھل دینے لگے جیسے غلام احمد (قادیان والے) یا غلام احمد (پرویز) مگر سرسید جدیدیت بمعنی ماڈرن ازم کی مقبولیت سے برسوں قبل رخصت ہو چکے تھے۔ ہاں انکا نام جدت پسندی  یا تحریک تنویر ، تحریک روشن خیالی  کے ساتھ لیا جا سکتا ہے یا عمومی طور پر تعقل پسندی یا ریشنل ازم  بھی درست ہے۔

ایک ضمنی اعتراض یہ بھی رہا کہ سرسید ابتدا میں روایت پسندی کی ایک انتہا پر تھے پھر جب وہ مغرب اور اہل مغرب کی طرف ملتفت ہوئے(جو الگ داستان ہے) تو انہوں نے اپنا روایت کا چولا اتار پھینکا۔ کہاں تو وہ سرسید جو آم کی شباہت کی بنیاد پر انہیں مکروہ گردانتے تھے، اور آم نہ کھانے والوں کو نوید دیتے کہ آخرت میں آم نہ کھانے سے پرہیزکرنے پر ان کے پاؤں چومے جائیں گے اور کہاں ’جدت پسند‘ سرسید جو انگلستان سے لوٹنے کے بعد نہ صرف ’اہل کتاب‘ کے ساتھ جھٹکے والا گوشت کھاتے بلکہ اس پر ایک معذرت خواہانہ کتاب طعام با اہل کتاب بھی آپ کے قلم سے لکھی گئی۔

تبدیلی کے محرکات  بہت سے رہے اور اس میں جناب سرسید کا ایک عقلی سفر بھی موجود ہے  جو آئین اکبری سے ہوتا کرامت جونپوری تک نکلتا ہے ، اس کو دیکھنے سے پہلے  تاریخ میں جانا ازحد ضروری ہے کہ کیونکہ سرسید کی تفسیر القران اہل روایت و مذہب کے بہ جائے بنیادی طور پر معتزلی افکار پہ مشتمل تھی ۔ اب سرسید کا دفاع یا تنقید  ایک طرف ، انکو سمجنے کے لیے ہی پہلے معتزلی افکار کو دیکھنا پڑتا ہے اور پھر تقابلی جائزہ لیا جائے تو دل چسپ انکشافات ہونے کے علاوہ ممکن ہے آپ اپنی آرا تبدیل کرنے کا سوچنے لگیں۔

معتزلی عقائد (نقل بمقابلہ عقل)

معتزلہ شروعات میں ایک سیاسی تحریک تھی۔ انکا اول مقدمہ مذہب کی نقل کرنے کی جگہ عقل یا تعقل پرستی (ریشنل ازم)  کا استعمال تھا۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ ہارون الرشید کے دور میں یونانی فلسفہ مسلم دنیا میں آیا ، مگر یہ درست نہیں۔ اموی  دور میں  ہی امیر معاویہ کے پوتے خالد بن یزید بن معاویہ حجاز میں دار الترجمہ قائم کر چکے تھے جہاں یونانی علوم کے سریانی سے عربی میں باقاعدہ تراجم ہوا کرتے۔ جب اموی ریاست نے جبر کو بطور پالیسی استعمال شروع کیا، تو اہل مذہب دو خانوں میں بٹ گئے، اہل مذہب نے حکمرانوں کو خدا کا نائب کہا اور روایتی بیانیہ بنایا گیا کہ انسان مجبور محض   ہے، ہر چیز میں خدا کی مرضی ہے، ہر چیز لوح محفوظ پر پہلے سے ہی درج ہے وغیرہ۔ جس گروہ نے اسکے حق میں عقلی دلائل دیے وہ سرکاری جبر کو جواز دینے والوں کے علاوہ یقیناً دیمقراطیس کے فلسفہ جبریت سے بھی متاثر رہے ہوں گے، سو اس مناسبت سے انہیں جبریہ کہا گیا۔

انکے مخالف گروہ، جسکا سربراہ معبد جہنی تھا، نے حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور خلیفہ وقت سے موت کی سزا پائی۔ اس کا نعرہ تھا کہ انسان اپنے اعمال میں قادر و خود مختار ہے اور اپنے آپ پر قادر ہے یا قدرت رکھتا ہے، اسی مناسبت سے قدریہ (فری ول ) کہلائے۔ معبد کے ساتھ غیلان دمشقی دوسرا بڑا عالم تھا جسکے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے باقاعدہ تحریری مناظرے بھی چلے، مگر اسکا انجام بھی مختلف نہ ہوا۔ جناب عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد خلیفہ ہشام بن مالک نے اسے دھوکے سے مناظرہ کے بہانے قتل کرا دیا۔ کچھ عرصے کے لیے دونوں توانا آوازیں بند ہو گئیں۔ اس وقت تک قدریہ اپنے آپ کو ’اہل قدر و التوحید‘ کہلاتے تھے۔
ان کا اگلا نمایاں لیڈر واصل بن عطا تھا جو خواجہ حسن بصری کا شاگرد تھا، جس نے سوال اٹھایا کہ کبیرہ گناہوں والے کافر ہوتے ہیں یا نہیں ، پھر ازخود اسکا جواب تجویز کیا کہ نہ وہ کافر ہے نہ مومن، حضرت حسن نے انہیں اعتزل عنا (ہم سے الگ ہوئے) کہا۔ اس نے اپنی الگ مسجد بنا لی، جہاں تدریس وغیرہ کرتا تھا۔ حضرت امام زین العابدین کے صاحبزادے زید واصل بن عطا کے شاگرد ہوئے۔   واصل نے علم کلام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یعنی فلسفہ اور مذہب کی تطبیق یا عقل و نقل کی ہم آہنگی کہہ لیجیے۔ مقصد بہرحال عقائد کی صداقت کو منطق اور دلائل سے ثابت کرنا تھا۔

معتزلہ کی رد میں انکا ایک اہم کارنامہ اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ انکا تنہا، پرانے ابراہیمی مذاہب یہودیوں، نصرانیوں کے علاؤہ صابیوں ، مجوسیوں ،مزدکیوں اور مانوی علما سے بذریعہ معقولات (فلسفہ و منطق ) مقابلہ تھا۔ اہل روایت (نقل پر ایمان رکھنے والے) اپنے نظریات کی بنا پر یہ کر ہی نہیں سکتے تھے، سو بڑی حد تک اسلام کو عربی توہمات اور نومسلم عجمی خرافات سے پاک کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش تھی۔ واصل کے بعد عمرو بن عبید معروف ہوئے جو عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے قریب تھے اور شاید مسلم تاریخ کی واحد مثال گزری ہے کہ کسی عالم کے وصال پر خلیفہ وقت نے اسکا مرثیہ لکھا ہو(ہمارے ہاں شاعرمشرق بھی استعمار کے قصیدے اور ملکہ برطانیہ کی مرثیہ گوئی کرتے نظر آتے ہیں)۔
ابتدائی معتزلہ کا زیادہ تعلق بصرہ اور دمشق سے تھا، سرکاری عقائد اہل سنت کے مطابق ہونے کے سبب معتزلی عقائد کی رسائی سرکار تک نہ تھی۔ عمرو بن عبید نے عباسی خلیفہ منصور کے باوجود اصرار کے دربار سے وابستگی سے پرہیز کیے رکھی مگر انکے جانے کے بعد بغداد کے معتزلی علما نے خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں حکومت سے قربت اختیار کی اور مامون الرشید کے دور میں تو انکے افکار سرکاری مذہب قرار پائے ۔ سرکاری سرپرستی پاتے ہی حریت فکر اور آزادی رائے، عقلی استدلال کی بنیاد پر ’لڑائی‘ جو انکا بنیادی مدعا تھا وہی جاتا رہا۔ بہ جائے عقلیت یا ریشنلزم کے، بربریت اور دلائل کے بجائے جبرو استبداد کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ نتیجتاً متوکل باللہ  تک آتے سرکاری سرپرستی کم ہوتے ہوتے ختم ہوئی تو ان کا نام اور کردار کم ہوتا گیا۔ اگر یہ جبر نہ کرتے تو شاید عوامی حمایت برقرار رکھتے۔ اتنی تاریخ کا بیان ضروری تھا اب  انکے افکار و عقائد پر ایک نظر دوڑاتے  ہیں۔  
ابوالحسن الخیاط ایک نمایاں معتزلی عالم تھے، انہوں نے معتزلہ ہونے کے لیے پانچ لازمی عقائد /افکار بتائے۔   انہی پانچ شرائط کا ذکر الشھرستانی نے کتاب الملل و النحل میں بھی کیا ہے۔
1- الوہی توحید
جیسا کہ معبد کے بیان میں بتایا کہ معتزلہ خود کو اہل قدر و التوحید کہلاتے تھے ، انکے توحید کے بارے میں افکار کافی سخت اور اہل سنت و روایت سے فاصلہ پر تھے، جیسے  روایتی حلقوں میں انہیں منکر صفات مانا جاتا تھا۔ قرآن جب کہتا ہے کہ خدا علیم ہے، قادر ہے ، حرکت میں ہے، تو اہل روایت/سنت/حدیث/تشیع کا ماننا ہے کہ یہ لغوی طور پر درست ہے مگر بقول معتزلی عالم النظام، صفات خداوندی ، ذات خداوندی کے جوہر میں موجود نہیں۔  خدا ایک بنا صفات ، مطلق وحدت ہے اور اس ذات میں صفات شامل کرنا وحدانیت کی نفی یا شرک کے مترادف ہے۔ (آپ گویا یوں کریں تو صفات کا ذات میں اضافہ کر رہے ہیں۔)
خدا کا ناراض ہونا یا خوش ہونا ممکن نہیں ۔ خدا کو حرکت میں تصور کرنا ،اس کا کسی زمان مکان سے منسلک ہونا، اس کے سماعت، بصارت کا تصور، سبھی شرک ہے۔ خدا کائینات سے ماورا ایک غیر مجسم ہستی ہے جو شکل صورت سے مبرہ ہے۔

اسی طرح جن آیات میں خدا کا ذکر شخصیت کے طور پر کیا گیا ہے مثلاً وہ (خدا) جسکے ہاتھ میں ہر شے کی بادشاہت ہے۔ یا خدا عرش پہ جلوہ گر ہو گا یا یہ کہ  پروردگارجو صاحب جلال و عظمت ہے وغیرہ۔ معتزلہ ان باتوں کو استعاری معنوں میں لیا کرتے ۔
علم کلام پر ساٹھ کتابیں لکھنے والے مامون کے استاد اور معروف معتزلی عالم ابولہذیل علاف کا کہنا تھا کہ ہم خدا کو صرف ذہن کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ انسان دیدار الٰہی کا نہ اس جہاں میں قابل ہے اور نہ ہی کبھی آخرت میں دیکھنے کے قابل ہو گا۔
اسی لیے معراج شریف پہ نبی پاک کا جانا یا خدا سے ملنا جسمانی نہیں بلکہ روحانی امور ہیں۔
اسکا  اہم ضمنی مسئلہ خلق قرآن  ہوا۔  مسلمانوں  کا ایمان تھا کہ قرآن غیر مخلوق ہے جو ازل سے خدا کے ساتھ ہے البتہ پیغمبر پر نزول ایک خاص وقت میں بہ طور واقعہ ہوا۔ معتزلہ کے نزدیک  قرآن بھی پھر قدیم ہوا ، جو انکی منطق کے تحت شرک کے مترادف ہے جیسے صفات خداوندی شرک ہیں یا یہ کہ خدا کے علاؤہ بھی کوئی چیز(جیسے کلام ) ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔

الوہی عدل  
اہل روایت/سنت/حدیث /تشیع سب کا تقریباً ماننا ہے کہ خدا اپنے ارادے اور عمل میں آزاد ہے؛ جسے چاہے جزا دے، جسے چاہے سزا دے۔ عام مسلمان شفاعت و رحمت کے سہارے زندگی گزارتا ہے مگر معتزلہ کا دوسرا اہم اور بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خدا ناگزیر طور پر عادل ہے  اورعدل و انصاف  خدا کی فطرت ہے۔

(یہیں امام ابو الحسن اشعری کا اختلاف معتزلی فکر سے ہوا تو انہوں نے اشعریہ کی بنیاد رکھی، جو جاننا چاہتے ہوں وہ  تلاش کریں تین بھائیوں کا معروف  قصہ جو جدید الحاد کے تاحال بنیادی مسائل میں سے ہے۔
معتزلی نظریہ کے مطابق عدل کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انسان اعمال میں آزاد و خودمختار ہے ، لہذا برے کاموں پر عذاب ملنا عدل ہے۔ اسی کا ایک اہم ضمنی  مسئلہ حسن و قبح آگے علیحدہ بیان کیا  جائے گا۔

3– وعدہ اور وعید
یہ بھی میزانِ عدل سے ہی مربوط نظریہ ہے جسکی رو سے گناہ گار کو ہمیشہ سزا کی وعید اور نیکو کار کو ہمیشہ جزا کا وعدہ ہے۔ روز محشر ہر شخص کو تول تول کر حساب کتاب جوڑنا ممکن نہیں۔  نیکی بدی کے دفتر ، کراما کاتبین وغیرہ سب استعاراتی معنوں میں ہیں ، انکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ آخرت میں چیزوں کا وزن ہو رہا ہو اور اسکی بنا پر فیصلہ سنایا جا رہا ہو۔

4– المنزلہ بین المنزلین  
یہ وہ معروف نظریہ ہے جسکی بنا پر واصل بن عطا جیسے عالم خواجہ حسن بصری(اور اہل سنت) سے الگ ہوئے۔ اسکا تناظر جنگ جمل ، صفین ، حضرت عثمان کی شہادت کے واقعات تھے۔ خوارج کا ماننا تھا کہ گناہ کبیرہ جنہوں نے کیا یا جو صحابی حق کے خلاف لڑے وہ کافر ہوئے۔ مرجیہ کا ماننا تھا کہ انکا معاملہ خدا کے سپرد ہے ،ہمارے لیے وہ بھی مومن ہیں، حسن بصری(اہل سنت) کہتے تھے کہ وہ منافق تھے ، جب کہ واصل کا ماننا تھا کہ وہ فاسق ہیں ، جنکا مقام کفر و ایماں کے درمیان کہیں ہے۔ (جیسے ان میں سے جنہوں نے توبہ نہ کی تو وہ جہنمی ہوئے۔ مگر ان پر عذاب کا درجہ کافروں سے کم ہو گا)

5-امر بالمعروف و نہی عن المنکر
معتزلہ کے مطابق یہ فرض عین ہے یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ برائی کو ہاتھ سے روکے اور اس ضمن میں طاقت کا استعمال بھی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں اختیار ملا تو انہوں نے اختلافی آراء رکھنے والے علما اور محدثین کو خلق قرآن کے معاملہ پر مامون کے عہد میں کوڑے لگائے اور ایک ادارہ (منہہ) قائم کیا جو اختلافی رائے رکھنے والوں کو پکڑ کے زندان خانے میں ڈالتا تھا۔ امام احمد بن حنبل بھی  اسی مسئلہ  کی بنا پر  اسی دور میں قید ہوئے تھے۔ دراصل یہی ظلم اور سختی وہ وجہ بنی جسکی بنا پر جب ان پر سرکار کی جانب سے دوبارہ سخت حالات آئے تو عوامی حمایت کم ہو چکی تھی۔ بعد ازاں انہی میں سے امام ابوالحسن اشعری اٹھے اور انہوں نے انکے بچے کھچے کردار کا بھی تقریباً عقلی دلائل سے خاتمہ کر ڈالا۔
اب کچھ انہی پانچ سے نکلتے ضمنی افکار اور کچھ ایسے جو معروف ہوئے ؛
مسلہ حسن و قبح :  حسن (اچھائی /خیر/نیکی) قبح (برائی ،شر)

معتزلہ کی نظر میں خدا صرف خیر(یا حسن) کا خالق ہے اور (قبح) بدی و شر کا نہیں۔ معتزلہ کا ماننا تھا کہ انسانی عقل کو اچھائی برائی کی تمیز یا اخلاقیات کا ادراک حاصل ہے نیز اخلاقیات کسی وحی کی محتاج نہیں۔ (اشاعرہ، ماتریدہ، ابن تیمیہ وغیرہ تفصیلات سے جزوی اتفاق رکھنے کے باوجود وحی کے جھٹلانے پہ کبھی متفق نہ ہو پائے۔

کچھ مزید پیچھے جا کر تاریخ دیکھی جائے تو زرتشت نے خیر اور شر کے الگ خدا بیان کیے (اہورا اور اہرمن)۔ اس کے بعد  ابراہیمی مذاہب میں شیطان کے کردار کی بات کی گئی جس سے  ابراہیی مذاہب شر کا تعلق بیان کرتے ہیں ، مگر معتزلی افکار میں انسان ہی شر کا خالق ہے۔ (ناگزیر عادل ہونے کے باعث خدا شر کا خالق نہیں اوراسی طرح سے   ابلیس یا  شیطان نامی کوئی کردار وجود ہی نہیں رکھتا)۔
ابتدائی معتزلی علما کا ماننا تھا کہ خدا نے شر نہیں بنایا مگر ابن سیار( النظام) ، جو علاف کے بعد کا عالم ہے، نے کہا کہ خدا کا شر یا بدی پر اختیار بھی نہیں۔  یعنی نہ تو اس نے شر بنایا اور نہ ہی اسکا ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ شر میں مداخلت بھی کر سکے۔

اسی سے معتزلہ نے بھی یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ نہ تو کسی شیطان کا وجود ہے اور نہ ہی جنات کا کوئی وجود ہے، یہ محض وحشی انسانوں کے قبائل ہیں۔

اسی طرح معتزلی ،جنت دوزخ کے وجود سے بھی منکر تھے ، ایک گروہ انہیں کیفیات گردانتا تھا تو کچھ کے خیال میں یہ استعارتی معاملہ ہے۔ بعض معتزلہ نے خدا کی خوشی یا ناراضی کو  خدا کا سٹیٹس گردانا جس سے صفات کا انکار بھی ہو گیا اور انہی کیفیات  کو ہی  جنت جہنم بھی مان  لیا گیا تاکہ ہر شے عقل کی کسوٹی پر پوری اترتی رہے۔

قرآن اور تمام خدائی صفات مخلوق ہیں۔ جو الفاظ نبی پاک پر نازل ہوئے تھے وہ مخلوق و حادث تھے(یعنی نئی چیز تھے)۔ انکا مقدمہ یہ تھا کہ قرآن کو بھی ازل سے ہونے یا قدیم ماننے سے دو ہستیاں قدیم اور ازلی ہوجائیں گی، ایک خدا اور دوسرا قرآن، لہٰذا یہ سمجھنا بھی شرک ہے۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس کے نہ ماننے پر مامون کے دور میں علما بشمول امام احمد بن حنبل کو سخت سزائیں دی گئیں۔ ایک اور دلچسپ گمان ان کا کہ یہ فرشتے(جیسے جبرائیل) کے درجات پیغمبروں سے بلند ہیں۔
گو کہ معتزلی عقائد خالصتاً علم کلام کے دائرہ میں آتے ہیں مگر ایک دلچسپ امر کہ موجودہ صدی (اور شاید پچھلی ایک آدھ صدی میں ’دریافت‘) ہونے والے چند مباحث جیسے، علم دلالت سے متعلقہ ارسطو سے متعلق رسمی  نظریہ یا ساختیات  بھی معتزلہ کلام میں ایسا عام ملتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے انکا ریفارمر انہی کو کیوں نہیں مانا گیا؟

مثال کے طور پر قرانی متن کی جہات یا تمام کلام کو ایک کلیت پر مبنی عرب معاشرت کے ساتھ لینا یا اخلاقیات کا ماخذ وحی کے بغیر عقل کو لینا جو کانٹ سے منسوب ہے، معتزلہ کا بھی یہی عقیدہ تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ انہیں کافر نہیں تو بدعتی ایسا ہی گردانا گیا جن سے نکاح بھی جائز نہ ہو سکے۔
چوتھی ہجری میں مدرسہ اعتزال سے ہی امام ابوالحسن اشعری نکلے، چونکہ آپ کئی دہائیوں تک خود معتزلی عقائد رکھتے تھے سو گھر کے بھیدی کی طرح انہوں نے انہی دلائل پر ہی معتزلہ کی لنکا ڈھا دی۔ امام اشعری کا نمایاں کارنامہ محدثین کو عقل کی اہمیت کا احساس دلانا تھا۔ معتزلہ کے  بقول اہل روایت انکے معقولات پر تنقید کے قابل ہی نہیں تھے۔ عقلی دلائل کی رد دلائل سے ہی  ہوئی تو وہ ٹھہر نہ سکے، امام اشعری کی معروف کتاب مقالات الاسلامین سے پہنچائی گئی ہزیمت ایسی تھی پھر یہ دوبارہ طاقت نہ پکڑ سکے۔  
آپ ہی کے شاگرد امام ابوالمنصور البغدادی کی پانچویں ہجری میں لکھی معرکتہ الآرا کتاب ’الفرق بین الفرق‘ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور یوں یہ تاریخ کے اوراق میں  گم ہوتے گئے۔

سرسید جب روایت پسندی کے خول سے باہر نکلےتو آغاز  میں   انہیں آئین اکبری  سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ آپ نے چند حواشی کے اضافہ کے ساتھ اس کی تالیف و تدوین کی اور تقریظ  (منظوم تعریف) لکھوانے غالب کے پاس لے گئے مگر ان کی توقعات کے برخلاف غالب  نے یہ لکھا کہ اس کی تعریف کوئی ریا کار ہی کر سکتا ہے۔غالب کے  دیگر اشعار سائینس اور  مادیت کی تعریف ضرور کرتے نظر آتے ہیں  مگر جس آئین اکبری کی تعریف کرانا مقصود تھی، وہ غالب کے خیال میں کسی پرانی جنتری کی طرح بیکار ہو چکا تھا۔   آئین تو اب کلکتہ میں بنتا ہے،   مردہ پرستی کے بہ جائے  اب تعریف سائینس اور ایجادات کی ہونا چاہیے۔ سرسید اور غالب  کے تعلقات  میں اس واقعہ کی بنا پر وقتی تعطل بھی آیا اور سرسید نے یہ  تقریظ اپنی تالیف میں شامل بھی نہیں کی مگر شاید اس سفر کا آغاز شروع ضرور کر دیا جس کا غالب نے ذکر فرمایا تھا۔ دین الہی اور آئین اکبری سے ہوتا یہ سفر سید احمد بریلوی اور کرامت جونپوری سے گزرتے معتزلی عقلی افکار تک جا کر رکا۔  

سرسید نے معتزلہ کی طرح عقل کو کسوٹی بنایا، معتزلہ کے برخلاف آپ علم کلام اور کلامی مسائل سے زیادہ آگاہی نہ رکھتے تھے لہٰذا دلالت کے اعتبار سے کمزور تھے۔ معتزلہ اور سرسید کے درمیان کم و بیش ہزار سال حائل ہیں جس دوران امام اشعری، ابن سینا، غزالی، رازی، ابن رشد، ابن عربی سے قد آور نام موجود ہیں۔ جن معتزلی مباحث کا پہلے ذکر کیا گیا، اس دوران کسی نہ کسی صورت چلتے بھی رہے تھے، مگر حیران کن طور پر ان مباحث اور انکے نتائیج کا سرسید کے افکار میں کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ جس کام میں معتزلہ باوجود علمی اعتبار سے سرسید سے کہیں آگے ہونے کے ناکام رہے تھے، سرسید اپنے معاشرتی، تعلیمی اور قومی کردار کے باعث کامیاب رہے۔

افکار سرسید

سرسید کے چند  مذہبی افکار و عقائد پر نظر دوڑاتے ہیں جو بنیادی طور پر نیچری  تھے۔

آپ نے قرآنی آیات میں متشابہات کو معتزلہ ہی کی طرح لیا جن کے مفہوم میں تعقلی بنیاد پر رد و بدل کرنا عین ممکن رہے اور تاویل کی گنجائش باقی رہے۔ مگرعقل سے مذہب کی توجیہہ کا مسئلہ ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ سا ئینس کی ہر تبدیلی کے ساتھ مذہب کی کھینچ تان کر نئی تشریح کرنا پڑتی ہے۔
دوسرا اہم  مسئلہ کتاب (قران) اور صاحب  کتاب کا  تھا۔ معتزلہ ایک اعتبار سے قرآن کو کلام اللہ اور کلام الرسول دونوں مانتے تھے۔ سرسید کے جلائے ایک چراغ، اسم بامسمیٰ محترم چراغ علی صاحب نے فرمایا؛ ’تعدد ازواج کے انسداد کے لیے محمدؐ نے اقدام اٹھایا جب انہوں نے قرآن میں اعلان کیا۔۔۔‘

جمال احسانی ایک بار پھر یاد آتے ہیں؛

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا         

لیجیے الہامی مذہب ایک ہی وار میں گویا خدائی سے شخصی ہو گیا، مشرکین مکہ سے لے کر یہودی ،نصرانی  یہی تو کہا کرتے تھے۔ کلام الہی کے بہ جائے  کلام محمدؐ۔
آیات نسخ کے ضمن میں سرسید کی رائے بھی معتزلہ کی طرح ہی تھی کہ نسخ صرف بین المذاھب ہوا ہے جیسے اسلام نے عیسائیت کا کیا اور عیسائیت نے یہودیت کا نہ کہ ایک قرآنی آیت نے دوسری آیت کا کبھی نسخ کیا۔

کلام کے حادث و قدیم ہونے کے مسئلہ کا  ذکر  پہلے کیا گیا تھا ، مگر یہاں ایک  اور وجہ  بھی تھی کہ معتزلہ و سرسید وحی کے علاوہ حضرت جبرائیل کا وجود بھی نہیں مانتے تھے۔ سرسید کی نظر میں  دیگر ملائکہ یا فرشتے بھی زمینی قوتیں  ہی تھیں جیسے انہوں نے پانی کی روانی یعنی سیلاب یا آسمانی بجلی کی طاقت اور کڑک، کشش ثقل وغیرہ کو ملائکہ سے ملایا  ہے۔

فطرتی یا نیچری ہونے کا بنیادی مسئلہ  پھرچلتا ہی ہےازبسکہ غیر عقلی احکام یا واقعات تو عقل کی کسوٹی پر پورا کبھی نہیں اتر سکتے، لہذا سرسید معجزوں پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے۔ واقعہ معراج تو روحانی واقعہ ہوا ہی مگر باقی تمام قرانی آیات اور  احادیث بھی تبدیل ہوتی گئیں، جیسے حضرت موسیٰ کے واقعہ میں سرسید کی تاویل تھی کہ کسی دریا پر عصا نہیں ماری گئی تھی  جو دو حصوں میں تقسیم ہوا ہو بلکہ کسی پہاڑ پر ضرب لگائی  گئی جس سے چشمہ  یا  دریا  نکل پڑا  تھا-

حضرت موسی کے عصا کا اژدہا بننا، ابر کا سایہ کرنا یا من و سلوی کا اترنا ، عیسی علیہ اسلام کے معجزات وغیرہ سب عقلی بنیاد پر مسترد ہو گئے اور انکی مختلف توجیہات یا تاویلات سے کام چلانا پڑا۔

اصحاب فیل کے واقعہ کی توجیہہ سرسید نے دی کہ ابرہہ کے لشکر میں چیچک کی وبا پھیلی تھی۔ معتزلہ ہی کی طرح قرآن میں بیان کردہ شیطان کا قصہ آپ نے تمثیلی معنوں میں لیا، اور اس کردار سے انہی کی طرح منحرف ہو گئے۔

جنات و دیگر شیاطین بھی عقلی وجود نہ ہونے کے باعث انسان ہی قرار پائے، جیسے جنات کا آپ نے بیان کیا کہ وہ وحشی /جنگلی انسانوں کے قبائل تھے اور شیاطین ستاروں کا علم رکھنے والے نجومی جادوگر۔ برسبیل تذکرہ ان کے بعد کے دور میں غلام احمد پرویز صاحب کی سورہ نمل کا ترجمہ بھی اسی قسم کا تھا جس میں جنات کو وحشی قبائل اور چیونٹی کو کمزور انسانوں سے ملایا گیا تھا۔ یاجوج ماجوج، سرسید نے چینی منگول بنا ڈالے، ذوالقرنین کو بھی چینی بادشاہ بیان فرمایا۔

جنت دوزخ بھی کیفیات بن گئیں بالکل جیسا ہم نے معتزلی افکار میں دیکھا تھا ۔ اسی طرح سے قرآن شریف میں درج چھ دن میں زمین و آسماں بنانے کے واقعہ کا مقصد، وہ واقعہ بیان کرنا نہیں تھا بلکہ یہودیوں کے ساتویں دن آرام والے عقیدہ کا جواب تھا جو مانتے تھےکہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے اور ساتویں روز آرام کیا تھا۔
درشنی ہنڈی (پرامیسری نوٹ) کا نفع بھی آپ نے جائز قرار دیا، سرکاری بینکوں سے لیا گیا سود بھی حلال قرار پایا جسے آج کے عقلیت پسند علما بھی شاید من و عن قبول نہ کر پائیں۔
البتہ جہاد پر معذرت خواہانہ رویہ انگریزوں کی وجہ سے معتزلی فکر سے یکسر الگ تھا ،معتزلی امر بالمعروف کے داعی تھے اور بزور تلوار برائی روکنے کے حق میں تھے۔ مگر یہاں انگریزوں کی اطاعت بہتر ٹھہری۔
سرسید ہی کے  معتقد مرزا غلام احمد (قادیان والے) فرماتے ہیں کہ سرسید سے انہوں نے سمجھا کہ حضرت عیسیٰ بنا باپ کے نہیں تھے۔ سرسید نے خود شاید یہ عقیدہ  بہائیوں سے لیا ہو یا شاید  عیسائیوں  کا ایک گروہ بھی  حضرت عیسی کی پیدائش کا  الگ قسم کا واقعہ سناتا ہے۔ البتہ معتزلہ کی طرح سرسید عیسی کے زندہ اٹھائے جانے کے انکاری ضرور رہے۔
یہاں افکار سرسید کا جناب احمد جاوید صاحب کے  سرسید کے بارے میں کہے الفاظ پر اختتام کرنا چاہوں گا کہ  یہ مذہبی  ترقی ایسی ہوئی اور جناب سرسید نے ایسا کام کیا ،گویا ایک اعلی شے دے کر آپ معمولی چیز اٹھا لائیں اور سرسید کی اس میدان میں کامیابی پر انہوں نے تشبیہہ دی کہ یوں ہوا جیسے ذوالفقار کا سبزی کاٹنے والی چھری سے مقابلہ کیا جائے اور کمال یہ کہ جیت بھی لیا جائے۔

اس دور کے دیگر مسلم عقلیت پسندوں کو دیکھا جائے تو سرسید کے علاہ دو اہم نام نظر آتے ہیں ،جمال الدین افغانی مسلم امت کے تصور کو مسترد کر کے پان اسلام ازم کے نام پر قومیت کے تصور کو مضبوط بنیاد فراہم کر رہے تھے۔ مفتی عبدہ ہربرٹ سپنسر سے متاثر تھے، پارلیمان کو اجماع کے لیے مناسب سمجھتے تھے۔ عرفان خداوندی کے حصول کا ذریعہ معقولات کے بجائے فطرت کے مطالعہ کو قرار دیتے، ان کا کہنا تھا کہ خدا نے دو کتب نازل کی ہیں، پہلی قران اور دوسری فطرت۔ سرسید کی نیچریت کے بھی کم و بیش  یہی تصورات تھے جسے وہ خدا کے الفاظ اور خدا کا کام کہتے تھے۔
Word      of      God,      Work      of      God
دیکھا جائے تو ان ممتاز مفکرین میں شاید  یہی مشترک چیز تھی کہ  باوجود اس کے کہ تینوں دردمندی سے اپنی اقوام کو ترقی دلانا چاہتے تھے، اور تقلید سے نکل کر جدید اصولوں کی بنیاد پر  مذہب کا احیا چاہتے تھا، مگر تینوں اپنی اپنی جگہ  یہ سمجھ نہ پائے کہ اس کے لیے ایک بنیادی دائرہ کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی جاسکتی ہے، نہ تو جدیدیت کے نام پر ہر روایت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے نہ ہی اجتہاد اس طرح ممکن ہے جس طرح خاص کر سرسید نے چاہا کہ ہر شخص جو چاہے  مذہب، نصوص اور مذہبی فلسفہ کی مبادیات بھی نہ جانتا ہو اپنی محدود عقل  سے  اپنا  مجتہد  آپ بن سکے ۔

اب یہ دیکھنا چاہیے کہ ذکر سرسید  ان کی وفات کے ایک سو تئیس برس  بعد بھی کیوں ضروری ہے۔

سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، آپ نے  جوہری تعلیمی اصلاحات بھی کیں، مگر ان سب کارناموں کے ساتھ ہی سرسید نے عقائد کا بنیادی ڈھانچہ بھی تبدیل کر دیا  جس کے ساتھ  مسلم برصغیر کی مذہبی روایات کا بنیادی پیرا ڈائم ہی بدل گیا۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے گزر جانے کے بعد بھی ان کے تلامذہ جیسے چراغ علی، جسٹس  امیر علی سے لے کر  آئندہ نسلوں میں آتے غلام احمد (قادیان والے) اور غلام احمد (پرویز ) سے غامدی تک اسی پیراڈائم کے اندر تشریحات کرتے نظر آتے ہیں، ان میں فروعی معاملات میں  اختلافات ضرور ملیں گے مگر بنیادی طور پر وہ اس پیراڈائم سے باہر نکلتے نظر نہیں آتے ہیں۔

اس ’جدید پیراڈائم‘ کو اگرمسلم تاریخ اور بعد ازاں اس دور کے فلسفیانہ مباحث  سے ملا کر دیکھا جائے تو دل چسپ انکشافات ہوتے ہیں۔

مسلم تاریخ

امام اشعری کے بعد دیگر علما، جیسے امام غزالی نے صراحت کے ساتھ اگلے ہزار برس کے لیے گویا ایک لکیر کھینچ ڈالی کہ دین روایتی راسخ العقیدگی کا نام ہے جس میں اخلاقیات کا نظام ، محض عقل کی بنیاد پہ استوار کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ دین کی بنیاد وحی اور وجدان پر ہے جو انسانی یا عقلی فیصلہ نہیں، لہٰذا اس کی تبدیلی کا کوئی جواز و اختیار بھی کسی انسان کے پاس موجود نہیں۔ عقل کی بنیاد پر مذہب کی جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی، ریت پہ قائم ہو گی اور ناپائیدار ہو گی۔غزالی کے بقول علوم نقل کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں اور فنون بذریعہ عقل۔ آپ کی  علم کی تعریف میں رضائے الٰہی کا حصول  اور خشیت الٰہی  شامل ہیں، جب کہ فنون سے ان کی مراد  رقص و  موسیقی کے بہ جائے ایسے فنون جو معاش کے علاوہ خوف خدا اور رضائے الہی کے دائرہ کار میں آتے ہوں ۔

دور سرسید
دور سرسید کی روشن خیالی یا ’جدیدیت‘ کو دیکھا جائے تو اسکی بنیاد عقل ہے؛ ڈیکارٹ سے کانٹ اور انیسویں صدی کے وسط تک آتے جدیدیت نے حصول علم کے تین ذرائع بتائے؛ 
بدیہی، نظری اور تجرباتی  ۔
 a      priori,      a      posteriori,      empirical   

چوتھا ذریعہ جو اس سے قبل ’وحی‘ یا وجدان گنا جاتا تھا، اسے جدیدیت نے نکال دیا اور اہل مذہب میں مارٹن لوتھر کنگ کی پروٹسٹنٹ تحریک کی بدولت کسی حد تک شرف قبولیت بھی مل گیا۔ اہل روایت کی نظر میں جس فریم آف ریفرنس میں یہ تینوں  ذرائع استعمال ہوتے ہیں، اس کی بنیاد عقل نہیں بلکہ وحی ہے۔  کیتھولک اور یہودیوں کو نکال کر اب صرف اسلام کی بات کی جائے  تو  جدید اسلام کی اصطلاح سننے/پڑھنے میں جس قدر دل فریب یا خوش نما لگتی ہے،وحی کی بنیاد  کے بغیر آکسی مورن یا تضادات کے مجموعہ کے سوا کچھ اور ہو نہیں سکتی۔
اہل روایت  کے مطابق خدا، کائنات اور انسان ،  تینوں  جس طرح سے ہم آہنگ ہیں ، اس  ہم آہنگی کو توڑنا ممکن نہیں۔  خدا  اگر کائینات کا مرکز ہے تو احیا کے نام پر فرد (انسان) جو اسکی تخلیق  ہے، کبھی کائنات کا مرکز نہیں بنایا جا  سکتا اور نہ ہی نیچر یا فطرت  کو خدائی احکامات سے بلند درجہ دیا جا سکتا ہے ۔  یہ  بنیادی نکتہ سرسید خاص  طور پر سمجھ نہ پائے کہ  ڈیوڈ ہیوم سے کانٹ تک  اور احیا،  روشن خیالی، نشاط ثانیہ، ریفارمیشن سے جدیدیت  تک ، نام کچھ بھی دیا جائے جدید انسان/فرد مذہب سے بغاوت کر کے  خودمختار  اور آزاد  حیثیت میں مرکز کائینات بنا ہے  ، جو عقل کو آفاقی سمجھتا ہے اور اخلاقیات کے تعین کے لیے اسے کسی خدا یا خدائی حکم کی ضرورت نہیں ہے ۔ جدیدیت جس شے  (وحی/ہدایت /وجدان ) کو روایت کے نام پر ختم کر رہی تھی وہ  یوں تو تمام ابراہیمی مذاہب کی  ہی اساس تھی  مگراسلام خاص طور پر اس کے بنا اور صرف عقلی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہودیت و عیسائیت کے ایک چربے سے زیادہ  حیثیت کبھی رکھ بھی نہ پا سکتا تھا۔

سرسید کے پیراڈائم میں اس عقلی فریم آف ریفریس (جو روایت کے رد پر قائم ہے) کے علاوہ اپنی اقدار پر معذرت خواہانہ رویہ اور مغرب سے مرعوب بھی نظر آتے ہیں۔ آج بھی برصغیر کا کوئی عقلیت پسند مسلم مفکر احیا کا نعرہ بلند کرتا ہے تو اسکی دانستہ یا نادانستہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس کی بیان کردہ تعبیر مغرب کے لیے کم از کم ناقابل قبول نہ ہو، ایک حد تک کی قبولیت یا انڈورسمنٹ ملنا بنیادی شرط سمجھ لیا گیا ہے۔

جدیدیت کے بعد  آنے والا وقت مزید مشکلات سمیٹے  ہوئے ہے۔ جدیدیت اور روشن خیالی پروجیکٹ آئے اور  گزر  بھی گئے مگر ہمارے علما  کو آنے کا تو  کسی طور علم ہو ہی گیا مگر جانے کی  شاید خبر نہ ہوئی- پوسٹ ماڈرن ازم یا مابعد جدیدیت کے مسائل پر ابھی عقلیت پسند علما پہنچ نہیں پائے ورنہ دور نہیں جب مہا بیانیہ کی ڈی کنسٹرکشن مذہب پر عقلی و نظریاتی اعتبار سے لاگو ہوتی  نظر آ رہی ہوگی یا دریدا کے رد تشکیل سے الہامی متن کے معین معنی کو ہی رد کیا جا رہا ہوگا۔

 ہمارے ہاں مگر علماء مابعد جدیدیت سے جنم لیتے ان مسائل سے بے بہر نظر آتے  ہیں، جب تک وہاں پہنچیں گے، دنیا شاید اس کے آگے کہیں جا چکی ہو گی۔ فی الوقت تو ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کیا، ان مسائل کا ادراک بھی اہل روایت کے ہاں موجود نہیں۔

Recommended Posts
Comments

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search