محمد عمر میمن سے گفتگو: شاہد اقبال کامران (مرتب: حسین احمد)
مشہور افسانہ نگار اور رأس المترجمین محترم ڈاکٹر محمد عمر میمن صاحب کے حوالے سے ایک اور اہم چیز جائزہ کے قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ یہ اُن کے اسلام آباد میں واقع علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں لیے گئے انٹرویو کی تحریری صورت ہے۔ تحریر میں گفت گو کو منتقل کرنا کچھ محنت طلب کام ہے۔ میں نے کوشش کی ہے ان کی بات کو مکمل پیش کروں۔ بہت جگہ پر اپنی طرف سے بات کو سمجھنے کے لیے اضافۂ الفاظ کیا مگر اس کو ممتاز کرنے کے لیے بریکٹ کا استعمال کیا ہے۔ کیونکہ بالمشافہ گفت گو میں بہت بار الفاظ کے ساتھ ہاتھوں اور چہرے کے اشارات سے بھی گفت گو کو مکمل کرنے کی سعی کی جاتی ہے اور ایسی گفت گو بصورتِ تحریر کافی الجھن پیدا کرتی ہے۔ ان شاء اللہ تعالی امید ہے کہ میرا اضافۂ الفاظ کوئی نئی الجھن پیدا نہیں کرے گا۔
تمہیدی گفت گو
شاہد اقبال کامران: بسم الله الرحمن الرحیم
ناظرین! علامه اقبال اوپن یونیورسٹی کی ایک مضبوط روایت رہی ہے کہ ہماری یونیورسٹی میں جو مہمانِ گرامی تشریف لاتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ ایک گفت گو، ایک نشست، ایک انٹرویو یا جس کو کہ آج کل مصاحبہ کہتے ہیں، اس کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ ہماری خوش بختی یہ ہے کہ آج ہمارے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر میمن تشریف رکھتے ہیں۔
تعارفِ
ڈاکٹر محمد عمر میمن ونسکانسن یونیورسٹی USA امریکہ میں اردو، اسلامک سٹڈیز اور ایشین کلچر کے پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر عمر میمن کی زندگی اردو، عربی، فارسی اور انگریزی، تو وہ جانتے ہی ہیں، کی ادبیات کے مطالعے اور تدریس میں گزری ہے۔ اردو کا استاد ہونے کے حوالے سے ہم ڈاکٹرصاحب سے یہ جاننا چاہیں گے، ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھیں گے، کہ امریکہ میں بالخصوص اور بالعموم پاکستان سے باہر جو لوگ اردو پڑھتے ہیں، غیر ملکی، اس {اردو تعلیم } کی سطح کیا ہے؟ اُس {حصولِ تعلیم} کے مقاصد کیا ہیں؟ اور اُس کا مستقبل کیا ہے؟ اِس کے ساتھ ہی ڈْاکٹر صاحب سے ہم یہ بھی پوچھیں گے کہ {حافظ} ابن تیمیه {علیه الرحمة} پر جو انہوں نے تحقیق کی تھی، وہ عام لوگوں، ہمارے عام طالب علموں کے لیے، {جو}عام ریسرچر ہیں، اُن کی دلچسپی کے لیے ڈاکٹر صاحب ہمیں کیا اشارے کریں گے؟ تو یہ ساری بات چیت رہے گی، ڈاکٹر صاحب سے ان کی نجی زندگی کے بارے میں بھی اُن سے استفسار کریں گے، یہ چیزیں پوچھنے کی کوشش کریں گے ١۔ ان کی دلچسپیوں کے بارے میں ،٢۔ ان کی hobbies کے بارے میں ، ٣۔ اُن کے شوق کے بارے میں اور۴۔ سب سے زیادہ اُن کی پسند اور اگر وہ مناسب سمجھیں تو، ٥۔ اُن کی ناپسند کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں گے۔
باقاعدہ انٹرویو کا آغاز
ڈاکٹر محمد عمر میمن صاحب! ہم آپ کو اپنے سٹوڈیوز میں ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سٹوڈیوز میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
عمرمیمن صاحب : شکریہ!
میزبان : آپ سے جو بات چیت رہی اور آئندہ جو بات چلے گی اُس نے مجھے حوصلہ اور اعتماد دیا کہ آپ وہ پروفیسر ہیں جن کے ساتھ بڑی ہی بے تکلُفی سے بات کی جا سکتی ہے اور جن سے کوئی سوال بھی کرتے ہوئے آپ کو ہچکچاہٹ اور جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب شروع کرتے ہیں اِس بات سے کہ آپ کے والدِ گرامی علامہ عبدالعزیز میمن{رحمه اللہ} برِصغیر کے نام ور عربی اور فارسی کے سکالر اور استاد رہے ہیں، ایک بہت بڑے باپ کا بیٹا ہونے کی شناخت بھی آپ کی ہے اور اس شناخت سے بھی آپ اپنے آپ کو باہر نکالنے میں بھی کسی حد تک کامیاب رہے۔ لیکن {بہر حال} وہ حوالہ آپ کے تعارف کا حصہ رہتا ہے، کس طرح سے آپ نے اِس کو manage کیا؟ کس طرح سے آپ نے اپنی راہ بنائی، اپنے نام ور باپ کے علاوہ؟
عمرمیمن صاحب : یہ کوئی شعوری کوشش نہیں تھی لیکن یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات {یا} ہمیشہ {کہہ لیجیے} ہند و پاک میں جب بھی لوگ بات کرتے ہیں میرے بارے میں تو وہ میرے والد سے شروع کرتے ہیں اور اصل میں اُنہیں اس کا احساس نہیں ہے کہ میرے لیے اتنی بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ جس کو نبھانا میرے بس کی بات نہیں۔ تو میں چاہتا ہوں والد کو لوگ اُن کی حیثیت سے سمجھنے کی کوشش کریں اور میں جو اُن کا عُشرِعشِیر نہیں ہوں، مجھے میری حیثیت میں جاننے کی کوشش کی جائے۔ بہر حال یہ مسئلہ وہاں تو نہیں، امریکہ میں، جہاں میں نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔ وہاں لوگ والد کے کام سے نابلد ہیں۔ عربی سے متعلق جس قسم کی تحقیق وہاں ہورہی ہے اُس میں اتنی باریک بینی اور جُز رسی کے ساتھ کلاسیکل عربی میں کام کم سے کم امریکہ میں اتنا زیادہ نہیں ہورہا جتنا یورپ میں ہوا ہے۔ تو اس لیے میرے لیے یہ مسئلہ پیدا نہیں ہواکہ وہاں کے لوگوں نے ہمیشہ مجھے متعارف کراتے وقت بات میرے والد سے شروع کی ہو۔ یہ صرف یہییں ہوتا ہے، ہندوستان اور پاکستان میں، تو اِسے manage کرنے کا سوال تواُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب میں یہاں آ جاتا ہوں یا یہاں کسی رسالے میں، میرے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے تو وہاں بھی ذکر کر دیا جاتا ہے اِس چیز کا، بہر حال manage کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ابھی تک وہاں۔
میزبان:ڈاکٹر صاحب! اردو زبان کے آپ پروفیسر ہیں اور اس {اردو اہل زبان } ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں اور اردو کی جو اساس ہیں عربی، فارسی اور جو ہماری {بھی} زبانیں ہیں، اُن پر آپ کی نظر اور تحقیق اور دسترس وہ بھی معلوم ہے۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آج ہمارے جو نوجوان پاکستان میں اردو بولتے اور لکھتے اور جانتے ہیں، اُن کی وہ بنیاد کمزور ہے یعنی فارسی کی اور عربی کی۔ تو آپ کیا تجویز کرتے ہیں ایسے نوجوان، اردو بولنے والے جن کی اساس عربی اور فارسی پر نہ ہو لیکن وہ اردو بولتے ہیں۔ اُن کو ہم {اردو} کس طرح پڑھا سکتے ہیں؟
میمن: بڑا عجیب سوال کیا ہے آپ نے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اردو میں اگر کچھ کیا ہے تو وہ شعوری طور پر اس لیے نہیں کیا کہ میں نے بالاستیعاب عربی اور فارسی پڑھ کے شعوری طور پر اس سے متاثر ہونے کی کوشش کی ہو، اردو {کے معاملے} میں اصل بات یہ ہے کہ یہ چیزیں کسی بھی آدمی کے کلچر کا حصہ ہوتی ہیں۔ تو جس طرح اور جس ماحول میں میری پرورش ہوئی وہاں پر یہ جو چیزیں ہیں شعوری طور پر نہیں کی جاتیں تھیں کہ اردو اگر اچھی سمجھنی ہے، اردو میں اچھا کام کرنا ہے تو پہلے فارسی اور عربی کا علم ہو۔ اِس لیے کہ یہ {پہلے پہل فارسی و عربی کا سیکھنا} تو ہمارے ہاں پہلے، پرانے {لوگ جو تھے ان میں} نہیں تھا۔ اب میں ڈپٹی نذیر احمد کی بات نہیں کررہا ہوں لیکن اب یہ کہ آپ یہ کہیں کہ رام لعل جو تھے انہوں نے عربی اور فارسی پڑھی تھی۔ شاید {پڑھی ہو} لیکن یہ کہ اس سے جو اُن کو اردو میں فائدہ ہوا ہوگا وہ یہ {وجہ سے} نہیں کہ انہوں نے {عربی و فارسی} پڑھی ہے اس لیے ہوا ہے۔ اس لیے کہ اردو کا جو معیار تھا اُس زمانے کا اس میں یہ چیزیں ایک طرح سے naturalise ہوچکی تھیں۔ اور ادب میں تویہ {بات} سب سے زیادہ {موجود تھی} اس لیے کہ میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ اردو زبان کا جو ذخیرہ ہے الفاظ کا، اس میں عربی اور فارسی کے {الفاظ} ہیں {بھی} تو وہ بہت کم ہیں اور وہ بیشتر جو ہیں، ادب میں استعمال ہوتے ہیں۔ تو عام آدمی کی speech ہے یا گفت گو جو ہے اس میں کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ عربی و فارسی کے لفظ استعمال کرتا ہو۔ تو پہلے تو یہ طے کر لیں کہ ہم کن لوگوں کے بارے گفت گو کررہے ہیں۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کی بنیاد کمزور ہو گئی ہے تو وہ اس وجہ سے کمزور نہیں ہوئی کہ اُسے عربی اور فارسی نہیں آتی۔ اُس کی { زبان کی بنیاد} اس لیے کمزور ہے کہ اُسے تو کچھ بھی نہیں آتا ٹھیک سے۔ وہ تو انگریزی کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ اور آج کل جو اردو بولی جارہی ہے اس میں زیادہ تر تو آپ لوگ انگریزی کے لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تو یہ مسئلہ {تو} ہے لیکن اس {کی وجہ} سے پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ معاشی جبر ہے اور آپ کتنے بھی مقتدرہ کھول لیں اس سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ اس کی اپنی ایک منطق ہے اور وہ معاشی منطق جس طرف بھی لے جائے گی اُس میں پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور پرانے دور کو حسرت سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سارا معاملہ آپ کے ادیب ہیں، اگر وہ بالکل اپنی، کلچرل moorings جسے کہتے ہیں یعنی جو بنیادیں ہیں یا لنگر جو ہے، اُس سے علیحدہ ہو گئے ہیں تو شاید اس {کلچرل مورنگز کی ادب میں بازیابی} سے کچھ اثر پڑ جائے۔ وہاں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اردو زبان جو ہے وہ بنتے بنتے بنی تھی اور اب کوئی نئی زبان بھی بن سکتی ہے اردو کے ڈھانچے پر جس میں چیزیں جو ہوں گی پچاس سال پہلے شاید رائج نہیں تھیں اور اب ہوگئی ہیں۔ اگر یہی آپ کی standard currency بن جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر امریکی انگریزی جوہے اُس میں ایسی { تبدیلی ہونے پر } کوئی بات نہیں مثلا، آخر اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اختلاف کہ ایک لفظ آپ استعمال کرتے ہیں دوسرا لفظ امریکی استعمال کرتے ہیں دونوں انگریزی کے لفظ ہیں لیکن ایک اُن کو پسند ہے، ایک خاص مقصد، مفہوم کی ادائیگی کے لیے اور دوسرا جو ہے برطانیہ کے لوگوں کو پسند ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی کچھ اردو ہے آپ اسے قائم کیسے رکھتے ہیں؟ چاہے کوئی نئی زبان ہی آپ بنا لیں {یا اگر} نئی زبان تو نہیں لیکن یہ کہ اُس کے جو اجزائے ترکیبی ہیں، اُن میں رد و بدل تو ہو سکتا ہے اور اِس میں کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔
میزبان:اردو کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے اور اردو سے ایک محبت کرنے والے کی حیثیت سے میرا یہ تاثر رہا ہے کہ یہ، وہ زبان ہے جس کا رخ مستقبل کی طرف ہے اور اس کی ترتیب میں آپ کہہ لیں کچھ ایسی چیزہے کہ کسی نئے لفظ کو ، نئے ماحول ، نئے تصور یا خیال کو {اپنے اندر سمو لیتی ہے}، creative writer یعنی تخلیقی ادیب کے طور پر چونکہ آپ افسانہ نگاری بھی آپ نے کی ہے۔ {اب میں اس حوالے سے} دو سوال پوچھوں گا، ایک تو یہ کہ اس زبان میں یہ تاثر کہاں تک درست ہے کہ کوئی بھی نیا خیال، کوئی بھی نئی چیز ادا کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، تبدیلی کو اپنانے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ ایک {حصہ سوال کا یہ ہے} اور دوسرا حصہ {میرے سوال کا} یہ ہوگا، جو میرے لیے تھوڑا زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ تخلیقی ادیب کے طور پہ آپ نے افسانہ نگاری کا میدان کیوں چنا؟
میمن: یہ آپ نے بہت سارے سوال کردیے مجھے تو یاد بھی نہیں {رہے } کہ کس کا جواب دوں۔ تو آپ ایسا کیجیے کہ ایک سوال کر لیجیے اور اس کے بعد دوسرا۔
میزبان: خود کو منظم کرتے ہوئے پہلے ہم یہ بات کرتے ہیں کہ اردو میں نیا پن اپنانے کی، اس کے اندر جو طاقت اور صلاحیت ہے اور نئے خیال کو ادا کرنے کی جو طاقت ہے۔ اس کے بارے میں {آپ کیا کہتے ہیں؟}
میمن : دیکھیے، آپ کی اس بات میں مجھے کچھ تھوڑا سا تامل ہےاور وہ یہ کہ یہ {نئے پن کو قبول کرنے اور نئے خیال کو ادا کرنے کی} صلاحیت ہر زبان میں ہوتی ہے اس لیے کہ اگر وہ زبان آگے نہیں بڑھ سکتی تو وہ ٹھپ ہوکر رہ جائے گی۔ اور اس کے اور دوسرے عوامل {بھی} ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ ہوتا ہے۔ تو یہ اگر کسی زبان کی ضرورت ہے تو پانی کے بہاؤ کی طرح اپنا راستہ خود بنا لے گی۔ تو اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن چونکہ ادب سے میرا کام {متعلق} ہے اور ادب میں جس قسم کا اظہار ہوتا ہے یا جن situations کا {اظہار ہوتا ہے} اگر آپ میری بات مانیں یا مجھ سے {رائے طلب کریں} خدا لگتی کہنے کے لیے کہوں تو میں آپ سے کہوں گا، آپ کی زبان میں صلاحیت تو ہوگی لیکن آپ نے اس صلاحیت کی تربیت نہیں کی ہے اور آپ کے جو ادارے ہیں وہ ان چیزوں کو اردو میں لانے کی کوشش بھی نہیں کررہے۔ پہلی چیز یہ کہ، چونکہ میرا تعلق فکشن سے ہے، میں فکشن کی حدود میں رہ کر اپنی بات کروں گا کہ اگر آپ اردو میں غیر ملکی فکشن کا ترجمہ کرتے ہیں اور فکشن کو آپ جس طرح برت رہے ہیں یہ {فقط} سو سال پرانی بات ہے اور یہ نوآبادیاتی راج کی دین ہے۔ ہمارے ہاں چاہے انتظار حسین یا ان کے ہم خیال یہ کہتے پھریں کہ مغرب نے تو ہم سے فکشن سیکھا ہے۔ اور وہ پنج تنترا کو یا الف لیلة کو {اس لفظ کا تلفظ اَلفْ لَیْلَة} ہے وہ، اَلفْ لِیله نہیں ہے، {ان چیزوں} کو لے آئیں تو ٹھیک ہے اپنے آپ کو خوش کر لیں۔ {یہ فکشن} اچھی ہے یا بری، خدا جانے، لیکن بہر حال یہ آپ کی طرف مغرب سے {آئی} ہے۔ تو اس میں ایمان داری سے اِس بات کو مان لینا چاہیے۔ آپ بالکل مبتدی ہیں اس چیز میں۔ وہ لوگ، اُن کے ہاں بھی زیادہ پرانا نہیں ہے بہر حال آپ سے {تو} پرانا ہے اور اس کے ساتھ ان کا جو انداز ہے وہ اُنہی کی دریافت ہے یا انہی کی ایجاد ہے۔ تو اب ہوتا یہ ہے کہ جب آپ لا رہے ہیں تو ایک بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ آپ اپنی کلچرل حدود میں فکشن کے جو سارے لوازمات ہیں وہ پورے نہیں کر سکتے، لیکن بہت ساری چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی فکشن کا نامیاتی حصہ بن جائیں گی اس کے باوجود یہ کہ وہ اظہار کے پیرائے وہ ابھی تک آپ کے پاس نہیں ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی تکلیف اور دکھ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں عربوں اور ایرانیوں نے کر لی ہیں۔ میں نے عربی سے بھی ترجمے کیے ہیں اور ترجمہ کرتے وقت میں نے انگریزی ترجمہ بھی سامنے رکھا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا ہے کہ کسی انگریزی تحریر کا جب عربی میں ترجمہ ہوا ہے اور اب میں بھی {اس عربی تحریر کا} ترجمہ کررہا ہوں تو{میں محسوس کررہا ہوں کہ} اردو میں مجھے بڑی دقت پیش آرہی ہے۔ لیکن عربوں نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔ {اگر اپنے ہاں} لفظ نہیں ہے تو براہ راست طور پر اس کو اپنی زبان کا جز بنا لیا ہے۔ یا یہ ہے کہ عربی میں اتنی وسعت ہے کہ وہ {اُس کی جگہ اپنا لفظ} استعمال کر لیتے ہیں۔ پھر میں نے فارسی میں یہ دیکھا ہے کہ فارسی میں بے شمار عربی کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ جو آپ نہیں کرتے ہیں۔ بات سمجھے ناں {آپ}! تو یہ جیسے آپ نے وسعت اور صلاحیت کی بات کی ہے، اس میں یہ ہے کہ ہماری یہاں خواہش تو ہے بہر حال مجھ میں ہے اور میری طرح بہت سے لوگوں میں، آپ کے اس شہر{اسلام آباد} میں بہت سے لوگوں کو دلچسپی ہے، جو پڑھتے ہیں۔ لیکن ترجمہ کرنے کے بعد میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کامیابی کس حد تک ہوئی ہے۔ یہاں تو ہر {قسم کے لوگ} ترجمہ پڑھ کر تعریف کردیتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس میں جو میری ناکامیاں اور محرومیاں ہیں اُن کا انکو کوئی پتا نہیں ہے اس لیے کہ اُن کے لیے یہی اردو ترجمہ حقیقت ہے۔ میرے سامنے جو اصل ہے، اور میں اپنے ترجمے کو دیکھ رہا ہوں {تو} مجھے پتا چل رہا ہے کہ { کمزوری ہے} اس لیے بعض { دفعہ} مجھے بہت وقت لگتا ہے ترجمے میں اور بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جو ڈکشنریاں بنی ہیں اِس دور میں، وہ جن لوگوں نے بنائی ہیں، انہوں نے اپنی مجلسِ ادارت یا مشاورت یا جو کچھ {ایسا شعبہ} ہے اس میں ایسے لوگوں کو شامل نہیں کیا ہے جو فکشن کا اردو سے انگریزی ترجمہ کرتے ہوں۔ اور یہ بات میں نے بار بار کہی ہے کہ بھئی حقی صاحب کی ہو، اُس سے کسی حد تک کام چلتا ہے۔ اِسی طرح مقتدرہ کی ڈکشنری سے بھی بس تھوڑی {سی مدد ملتی ہے} لیکن مقتدرہ {کی لغت میں} کچھ خوبیاں بھی ہیں مثلا یہ کہ وہاں پر مجھے کھوئی ہوئی چیزیں، جو یاد سے محو ہو گئیں ہیں، یاد آجاتی ہیں۔ تو بازیافت ہو جاتی ہے بعض کھوئے ہوئے لفظوں کی، بھولے ہوئے لفظوں کی۔ لیکن یہ ہے کہ اب ایک چھوٹی سی مثال ہے جو میں نے یہاں بھی دی۔ اور بھی سینکڑوں مثالیں {ہیں}، مجھے تو یاد نہیں رہتیں، ترجمہ کرتے وقت یہ دقتیں پیش آتی ہیں۔ {جیسے} کہ There was a sense of urgency in her tone کیجیے ترجمہ اردو میں، sense of urgency ، اچھا، اب میری مصیبت یہ ہوتی ہے کہ لفظ تو ملتا نہیں تو میں {صورت حال کو منتقل کرنے کی} کوشش کرتا ہوں، situation تو بہر حال ہمارے ہاں بھی ہوتی ہے، تو اب اس کے لیے کیا لفظ استعمال {کریں} ” تشویش“، اب urgency جو ہے اس میں ایک immediacy ہے، ایک فورس ہے، وہ {اس لفظِ} تشویش میں نہیں آتی۔ تو یہ بڑے مسائل کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اور میرا یہ خیال تھا کہ کچھ ایسے لوگوں شامل ہوتے جو یہ کام کرتے ہی {رہتے} ہیں۔ تو اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر شاید کچھ کر لیتے جن لوگوں میں یہ تخلیقی مادہ ہے کہ وہ الفاظ ایجاد کر سکیں۔ لیکن اُن {الفاظ} کے رائج ہونے کی guarantee نہیں لی جا سکتی اور {نہ ہی} دی جا سکتی ہے۔ وہ تو عوام کے استعمال یا ادیبوں کے استعمال پر ہے یا دس/ پندرہ سال کے بعد کوئی چیز رائج ہوجاتی ہے تو بڑے اطمینان سے زبان کا حصہ بن جائے گی۔ لیکن یہ ہے کہ آپ انگریزی زبان کی یا فرانسیسی زبان کی کسی چیز یا لفظ کو ہی اپنا لیں تو اُس کو اپنانے میں وہاں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اگر آپ اُس کو اُسی طرح رکھیں جیسا کہ وہ فرانسیسی میں بولا جاتا ہے تو وہ دقتیں پیدا کرے گا۔ آپ کو فورا اندازہ ہو جائے گا کہ {جملے میں کوئی مسئلہ ہے} جہاں یہ لفظ آئے گا آپ کو ایک قسم کی رکاوٹ محسوس ہوگی۔ تو یہ زبان کے بہاؤ سے کہیں لگَّا ہی نہیں کھا رہا ہو گا۔ تو اس میں ضرورت یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات آپ لفظ کو اپناتے وقت، اگر کچھ ضمنی چیزیں آپ کی زبان میں موجود ہوں، لاحقے یا سابقے، تو اس کے استعمال سے آپ اس کی اجنبیت کم کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ہر جگہ کام نہیں آئے گا۔ تو، ایک تو یہ آپ کر سکتے ہیں۔ دوسری چیز ہے آپ کی زبان کی phonetics یعنی صوتیات، تو اب یہ ہے کہ اُس کے اصول مرتب نہیں کیے ہیں {آپ نے} جس کا جو جی چاہتا ہے ترجمہ کردیتا ہے، اُس کا تلفظ جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ تو اپنانے کے لیے بھی ایک standard ہونا چاہیے کہ بھئی، اب ہم اسے یہ کہیں گے۔ ہیں ناں! میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ جیسے ایک بہت عام سا نام ہے Andrew، تو Andrew وہی ایک نام ہے جو آندرے ہو جائے گا فرانسیسی میں، Hungarian میں آندراش ہوجاتا ہے اور اسی طرح چیک میں تھوڑا سا کچھ اور ہوگا۔ لاطینی زبانیں جو ہیں {جیسے} Italian ہے، Spanish ہے، اس میں {اگرچہ} مجھے ٹھیک سے نہیں پتا {مگر تقریبا} Antonio ہو جائے گا مثلا، تو مطلب یہ ہے کہ وہ لفظ، نام تو ایک ہی ہے۔ لیکن ہر زبان نے اُس کو { اپنے طور پر ڈھال لیا ہے} حالانکہ {یہ زبانیں} اتنی قریب ہیں، اس کے باوجود اپناتے وقت اپنی زبان کے phonetics کا انتظام رکھا ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں کسی کو بیٹھ کے، ایک آدمی کا تو کام نہیں ہے یہ، لیکن چند لوگوں کو بیٹھ کے بہت ہی شعوری طور {کرنا ہوگا} اور یہ اُسی وقت کر سکتے ہیں جب وہ چیز جو آپ کو نظر آ رہی ہو، {ویسی} ہو {یعنی اردو زبان کا رخ مستقبل کی طرف ہو}۔ میں نہیں دیکھتا ہوں کہ یہ future کی طرف ہے۔ اردو زبان کا رخ future کی طرف ہوگا لیکن پاکستان میں بیشتر لوگ جو اردو سے متعلق کام کررہے ہیں اُن کا رخ تو ماضی کی طرف ہے۔ معاف کیجئے گا، لیکن میرا ایک ذاتی سا خیال ہے۔ تو اگر وہ { اردو ادب سے متعلق کام کرنے والے لوگ} دیکھنا بھی شروع کردیں مستقبل کی طرف تو شاید آپ کی نیا پار لگ جائے۔
میزبان: ڈاکٹر صاحب، تخلیقی ادیب کے طور پہ، جیسا کہ ہم نے سوال کو تقسیم کیا، افسانہ نگاری کا میدان آپ نے پسند کیا، اور یقینا جو آپ کی اُفتادِ طبع سے مطابقت بھی رکھتا ہو گا۔ تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ افسانہ نگاری کا آغاز آپ نے کب کیا؟ کتنے افسانے لکھے؟ اور آپ کا کون کون سا مجموعہ اس میں شائع ہوا؟
میمن : یہاں بھی بہت سی دقتیں ہیں۔ مثلا یہ {دقت} ہے کہ میں افسانے لکھتا تھا اور میں تائب بھی ہوچکا ہوں۔ تو تائب ہوئے، ہوئے مجھے اُس مدت سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے جس میں، میں نے افسانے لکھے۔ لیکن بہر حال میری شناخت اس ملک میں اور ہندوستان میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ مجھے اس سے کوئی تعرض نہیں ہے، خوشی بھی ہوتی ہے اور ایک افسوس بھی ہوتا ہے کہ بھئی جس چیز کی وجہ سے لوگ مجھے جانتے ہیں، میں چھوڑ بیٹھا ہوں۔ بہرحال آغاز{ کا } جو{ وقت} ہے { اُس کے حوالے سے بات یوں ہے کہ } ایک وجدان ہمیشہ سے تھا۔ اور وہ کچھ والد صاحب سے ایک قسم کا جو کہتے ہیں ناں بچوں کو والدین {سے } ایک قسم کی tension رہتی ہے، {اُسی طرح کی } ایک tension بھی تھی۔ بچپن سے ہی مجھے آرٹ وغیرہ کی چیزیں بہت پسند تھیں، پینٹنگ، یہ ہے، وہ ہے، ہمارے والد صاحب مصِر تھے کہ تم عربی پڑھو تو ہم نے نہ پڑھنے کی ٹھانی {ہوئی تھی } جب تک وہ پڑھاتے رہے۔ {اور} جب ہم نے پڑھی تو اُن کے ایک شاگرد سے پڑھی، اُن کا بہت ہی دل نشین انداز تھا اور انہوں نے ہمیں دنیا کی چیزیں عربی میں دکھائیں تو بات دوسری تھی۔ تو رجحان جو تھا وہ یوں سمجھیے کہ تہہ آب آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اور وہ جہاں وقت ملا کچھ کر لیا۔ تو یہ وجہ { ہے } جب طالب علم تھا افسانے لکھا کرتا تھا، پہلے بچوں کے کالموں میں چھپتا رہا یہاں جنگ ونگ میں، حالانکہ میں اُس وقت بچہ بھی نہیں تھا۔ {وہ افسانے } اچھے اچھے رسالوں میں چھپے۔ اگر آپ تعداد پوچھیں گے تو مجھے تو یاد نہیں ہے لیکن سو کے قریب تو لکھے ہی ہوں گے اور اس کے بعد جب میں سندھ یونیورسٹی میں ملازم ہوا تو پھر رفتار اتنی کم ہوئی کہ شاید اگلے چار سال جو تھے -٦٠سے ٦٤ء تک – شاید ایک دو افسانے ہی لکھے ہوں گے۔ پھر میں امریکہ چلا آیا اور وہاں پہ تو وقت ہی نہیں تھا افسانے وغیرہ لکھنے کا پھر ماحول سے بھی آپ کٹے ہوئے تھے تو سلسلہ بند ہوگیا تو {اب بھی } وہ بند ہی ہے۔ {اگر لکھا بھی ہوگا تو} ایک آدھ چیز بیچ میں لکھی ہوگی، تو بس۔
میزبان: مجموعے کی صورت میں { کیا کچھ چھپا }
میمن: مجموعے کی صورت میں ٨٨ء میں، میں نے چھ سات افسانے چن کر وہ سنگ میل کو دیے تھے، انہوں نے چھاپ دیا۔ اُس کتاب کا نام کیا ہے؟ میں نے {تقریبا} حصار رکھا تو انہوں نے، پبلشر صاحب نے، کہا کہ حصار نام کا ایک اور مجموعہ ہے تو اس کا بدل دیجیے۔ ”تاریک گلی “ میں نے اُس کا {نام} رکھا۔ {تاریک گلی اس مجموعے میں موجود} ایک افسانے کا نام ہے۔ تو وہ تاریک گلی کے نام سے چھپا ہے۔ رفت و گزشت ہوگیا وہ، ایک بار جو تھا وہ میرے کندھوں سے اُتر گیا۔
میزبان: جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا کہ آپ نے سو کے لگ بھگ افسانے لکھے۔ {ان چھ سات کے علاوہ} ابھی باقی ہیں۔ اُن کو {شائع نہیں کیا}
میمن: نہیں تو، یہ …. دیکھیے وہ جو افسانے ہیں میں اُن سے مطمئن نہیں ہوں۔ سارے افسانوں سے اور افسانہ نہ لکھنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ میں وہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتا۔ اول تو افسانہ لکھنا مجھے کوئی {اب پسند نہیں اور} اگر میں نے کبھی کچھ لکھا تو ناول لکھوں گا۔ لیکن {بہر حال} ناول ہو یا افسانہ اس کو جس طرح میں سمجھتا ہوں۔ اس کے لیے جس دردِزہ کی ضرورت ہے وہ میرے بس کا نہیں۔ یعنی جو ذمہ داری آدمی کے اوپر اچھا لکھنے کا خیال عائد کرتی ہے، اس سے عہدہ برآ ہونا میری دسترس سے باہر ہے۔ تو اس لیے میں نے {افسانہ} لکھنا چھوڑ دیا۔ اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں۔ اس لیے کہ ایک زندگی کی حیثیت اس پوری کائنات میں بہت زیادہ نہیں ہے۔ اور اگر وہ زندگی اپنے {آپ} سے مطمئن ہے تو اُسے اس کا غم نہیں ہونا چاہیے کہ اور کتنے مطمئن ہیں اُس سے۔ تو وہ مسئلہ میں نے بہت زمانہ پہلے حل کر لیا تھا۔ تو جو سو افسانے لکھے تھے لاعلمی میں لکھے تھے۔ جب مجھے بہت کم آتا تھا، اس لیے لکھنا بھی آسان تھا۔ اس لیے کہ کوئی standard ہی نہیں تھا سامنے، کوئی معیار ہی نہیں تھا بس ایک خودنمائی کا جذبہ تھا غالبا، وہ {اگرچہ اتنا قطعیت سے} میں کہہ نہیں سکتا لیکن مجھے لگتا یہ ہے کہ سب کچھ خودنمائی کے لیے ہورہا تھا۔ تو بہر حال وہ دور گزر گیا۔ اس لیے نہ اب وہ غم ہے خودنمائی کا نہ اس کی خواہش ہے۔ اور مجھے پتا چلا ہے کہ لکھنا کتنا مشکل ہے۔ تو اس وجہ سے { میں نے افسانہ نویسی ترک کردی} اگر میں نے سو میں سے چھ سات افسانے منتخب کیے تھے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں {کہ} باقی جو ہیں، میں اُن سے مطمئن نہیں ہوں۔ لیکن وہ یہاں کے لحاظ سے تو اچھے خاصے تھے۔
میزبان: آپ کا کوئی افسانہ یا کوئی اور چیز اُن دنوں کسی ادبی بحث کا عنوان بنی؟
میمن: نہیں صاحب! مجھے پتا نہیں کہ کوئی ادبی بحث ہمارے ہاں اس قسم کی {ہوتی تھی } لیکن وہ حلقۂ اربابِ ذوق ہے، ایک اور ہے کراچی میں ” آرٹ کونسل“، میں کوئی حلقہ ولقہ ہوتا تھا۔ جمیل جالبی، ن م راشد جب وہ ملک میں ہوتے تھے تو وہ بھی کبھی کبھی آ جاتے تھے۔ اور کراچی کے جو ہیں، ادیبوں اور شاعروں میں سے اکثر {وہاں آتے تھے} تو وہاں افسانے پڑھے، تو وہاں بحثیں ہوئی ہوں گی، اب وہ کسے یاد ہیں۔ لیکن یہ {بھی ہے} کہ میں کوئی اتنی بڑی توپ تو تھا نہیں کہ اُس کے بارے بحثیں ہوں گی۔
(جاری ہے)
ماخذ: یوٹیوب