’عمارتِ یعقوبیان‘: علاء الاسوانی، ترجمہ: محمد عمر میمن (تبصرہ: بلال حسن بھٹی)
علاء الاسوانی قاہرہ، مصر میں 1957 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈینٹسٹری کی تعلیم حاصل کی اور دورانِ تعلیم ہی وہ مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز، دی گارجین اور انڈیپینڈنٹ کے لیے سیاست، ثقافت اور دیگر موضوعات پر کالم لکھے۔ اب تک ان کے پانچ ناول اور چار افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ علاء الاسوانی مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کا خود انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کا پہلا ناول ”اوراقِ عصام عبد العاطی“ (دی پیپرز آف عصام عبدالعطا) کے نام سے 1990 میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا ناول ”عمارتِ یعقوبیان“ تھا جو 2002 میں شائع ہوا۔ ”شکاگو“ 2007 میں، ”دی آٹو موبائل کلب آف ایجیپٹ“ 2013 میں اور ”دی سو کالڈ جمہوریتہ“ 2018 میں شائع ہوا۔ علاء الاسوانی ناول نگار، افسانہ نگار اور لکھاری ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بہت متحرک کردار کی حامل شخصیت ہیں۔ وہ ایک سیاسی پارٹی ”کیفایة“ کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ علاءالاسوانی دی فارن پالیسی میگزین کے ٹاپ ہنڈرڈ گلوبل تھنکرز کی 2011 فہرست میں پہلے نمبر پر تھے۔ اس کے علاوہ وہ کئی ملکی اور بین الاقوامی ادبی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔
”عمارتِ یعقوبیان“ جب شائع ہوا تو اسے عربی ادب میں ایک اہم سنگ میل سمجھا گیا۔ اس ناول میں ان موضوعات پر بات کی گئی جو عرب دنیا میں عموماً ممنوع سمجھے جاتے تھے۔ اس وجہ سے شائع ہوتے ہی اس ناول کو بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ 2004 میں ہوا۔ محمد عمر میمن صاحب نے 2015 میں اس کو اردو کے قالب میں ڈھالا جسے مثال پبلشر نے شائع کیا۔ ”عمارتِ یعقوبیان“ اب تک اکتیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ عربی زبان کا بیسٹ سیلر ناول ہے۔ اسرائیلْْ فلسطین سینٹر فار ریسرچ اینڈ انفارمیشن نے اس ناول کا ترجمہ عبرانی زبان میں کرنا چاہا۔ علاء الاسوانی نے جب اجازت دینے سے انکار کیا تو اس نے بغیر اجازت کے ”عمارتِ یعقوبیان“ کا عبرانی زبان میں ترجمہ کر دیا۔ اس کا ماننا تھا کہ یہ کتاب مصری تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو سمجھنے کے لیے بہت اہم دستاویز ہے۔ علاء الاسوانی نے بین الاقوامی پبلشر ایسوسی ایشن میں اس پر پائریسی اور چوری کا الزام لگا دیا۔ دی یعقوبیان بلڈنگ کے نام سے اس ناول پر 2006 میں فلم بھی بنائی گئی ہے جو مصری سینما کی اب تک کی مہنگی ترین فلم تھی۔ فلم کی شہرت کو دیکھتے ہوئے اسی نام سے2007 میں ایک ٹی وی سیریز بھی بنائی گئی۔
ناول کا موضوع جمال عبدالناصر کے بعد مصری معاشرے میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔ جس میں مذہبی عدم برداشت، اقلیتوں کا ملک سے انخلا، نئی نسل کا حکمران طبقے سے تنفر، کرپشن کا اعلی سطح تک سرایت کر جانا، فوجی مظالم، غربت، جنسی بے راہ روی، غریبوں کا معاشی اور جذباتی استحصال، ہم جنس پرستی اور مصریوں کی نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ”عمارتِ یعقوبیان ایک ایسی عمارت ہے جسے مصر میں آرمینی جماعت کے سرکردہ لکھ پتی ہاجوب یعقوب نے 1934 میں تعمیر کیا تھا۔ اُس وقت یہ عمارت قاہرہ کے پوش علاقوں میں شامل تھی۔ عمارتِ یعقوبیان کی لوکیل کو اس اقتباس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ”مصر کے ممتاز طبقے کے لوگوں نے ڈاؤن ٹاؤن کو قاہرہ کے یورپی محلے کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ یہاں تک کے اس کی سڑکیں بھی آپ کو یورپ کے بڑے بڑے شہروں سے مشابہ نظر آئیں گی، ویسا ہی طرز تعمیر اور ویسا ہی قابل تعظیم تاریخی ٹیپ ٹاپ۔ جہاں اتوار کو ساری دکانیں بند رہتیں اور مسیحی کیتھولک تہواروں جیسے کرسمس، نیو ائیر کے موقعے پر سارے ڈاؤن ٹاؤن کو خوب سجایا جاتا، یوں لگتا جیسے یہ کوئی بڑا غیر ملکی شہر ہے“۔ جمال عبدالناصر کی حکومت کے بعد نہ صرف اس عمارت میں رہنے والے کاروباری حضرات اور دیگر لوگ بیرون ملک چلے گئے بلکہ اس عمارت پر لمبے عرصے تک فوجیوں کا قبضہ ہو گیا۔ جس کے بعد اب یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق مزدور طبقے اور مضافاتی علاقوں سے ہے۔ ناصر کی آمریت نے مصر کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس آمرانہ طرز حکمرانی کو نجیب محفوظ نے پیرس ریویو کے ایک انٹرویو میں یوں بیان کیا: ”ناصر کے دور میں تو آدمی کو دیواروں سے بھی خوف آتا تھا۔ ہر شخص متخیّف رہتا تھا۔ ہم لوگ کیفے میں بیٹھتے لیکن ڈر کے مارے گفتگو کرنے سے احتراز کرتے۔ گھر میں ہوتے تو وہاں بھی زباں گنگ بیٹھے رہتے۔ میں اپنے بچوں تک سے کسی ایسی چیز کے بارے میں کچھ کہنے سے احتراز کرتا جو انقلاب سے پہلے رونما ہوئی ہو، اس اندیشے کے مارے کہ اگر وہ سکول میں کہیں اس کا ذکر کریں تو اس کا غلط مطلب نہ نکالا جائے (صدر ناصر کے مداحوں سے معذرت۔ وہ یہ کہہ کر جی خوش کر سکتے ہیں کہ نجیب محفوظ کو نوبیل انعام نہیں ملنا چاہیے تھا)“۔ یہ عمارت اب بھی ناول میں دیے گئے پتے پر موجود ہے۔ لیکن علاء الاسوانی نے اپنے تخیل کی پرواز کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقت اور فکشن کا ایک ایسا خمیر تیار کیا جس نے عربوں کی ادبی دنیا میں تحلکہ مچا دیا۔
ناول میں جس بھی موضوع پر بات کی ہے اسے مصری لوگوں کی نفسیات، مصری تہزیب، تاریخ اور بدلتے منظر نامے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مصر میں بڑھتی شدت پسندی اور اس کے مصری معاشرے پر اثرات ناول کا سب سے اہم موضوع ہے۔ اس شدت پسندی کو ہوا دوسری گلف وار کے دوران ملی۔ عرب اسرائیل جنگ نے خلیج ممالک کے لوگوں میں سیاسی اور مذہبی فکر کو بہت تیزی سے تبدیل کیا۔ اخوان المسلمین جیسی بنیاد پرست لیکن متحرک مصری تنظیم نے اس دوران پوری عرب دنیا میں اپنے نظریاتی حامی پیدا کیے۔ یہی جہادی فکر آگے چل کر افغانستان میں روسیوں کے خلاف استعمال ہوئی۔ ابوالاعلی المودودی، سید قطب، یوسف القرضاوی اور ابوحامد الغزالی کی پیروی کرنے والوں کی ایک پوری لہر اٹھی جس نے مسلم ممالک میں روشن خیالی کی جگہ مذہبی بنیاد پرستی کو ہوا دی اور پورا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا۔ جس کے نتیجے میں گذشتہ پانچ دہائیوں میں عرب نیشنلزم، افغان وار، جہاد اور عرب بہار کے نام پر مسلم ممالک اور خاص کر خلیج کی عوام کو معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور نفسیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے حکم پر ملکی حکومتیں نہ صرف ایک خاص قسم کی جہادی فکر کو پروان چڑھانے لگیں بلکہ معاشی، سماجی، فکری اور معاشرتی طور پر انہیں ایک خاص قسم کی مذہبی سوچ رکھنے والے لوگوں کے سامنے سر بھی جھکانا پڑا۔ یہی وجہ ہے 1970 کے بعد ڈاون ٹائون جیسا قاہرہ کا علاقہ اپنی حقیقی چکاچوند کھو بیٹھا۔ ڈاون ٹائون کی تمام رنگینیاں گہری تاریکی میں بدل گئیں۔ ” مذہبیت کی ایک موج تند تیز مصری معاشرے کو بہا کر لے گئی۔ شراب نوشی سماجی طور پر قابل قبول نہ رہی۔ مصری حکومت کو ایک کے بعد ایک مذہبی دباو کے تحت سر جھکانا پڑا۔ لوگوں کے کاروبار بند کروا دیے گئے“۔ اس کے ساتھ اخوان المسلمین کا پھیلاؤ اور اثر و رسوخ بڑھنے لگا جس نے بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ طہ جیسے یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم نے جب شیخ کا خطاب سنا تو وہ سب اس کے لیے نئی معلومات تھیں۔ ”اسے پہلی بار علم ہوا کہ اِس وقت مصری معاشرہ دورِ جاہلیت کا معاشرہ ہے، اسلامی معاشرہ نہیں، کیونکہ حکمران نے خدا کی شریعت کو معطل کر رکھا ہے۔ تحریماتِ خدا کی کھلم کھلا توہین کی جا رہی ہے اور ملکی قانون نے شراب نوشی، زنا کاری اور سود خوری کی اجازت دے رکھی ہے۔ اسے اشتراکیت کے معنی بھی یہیں آ کر معلوم ہوئے جو خلافِ دین تھے“۔
مذہبیت کی تلوار کے زیر سایہ جب ایک بڑے طبقے کو مصر چھوڑنا پڑا تو متمول طبقے میں ایک نیا طبقہ پروان چڑھا۔ ناول میں متمول طبقے، سیاستدانوں کے دوہرے معیار اور کردار کو بہت گہرائی سے دکھایا گیا ہے۔ حاجی عزام اور الفولی کے کردار سیاسی کردار اور سیاستدانوں کی سچی نمائندگی کرتے ہیں، جہاں اسمبلی کی نشست جیتنے کے لیے آپ کو طے شدہ رقم دس لاکھ ڈالر دینا پڑتی ہے۔ پھر چاہے آپ سیاست سے بالکل نا بلد ہوں، مقامی سطح پر آپ کا لوگوں سے تعلق کم ہو، آپ کی انتخابی مہم کمزور ہو، تو بھی آپ اپنی نشست جیت سکتے ہیں۔ الفولی کے یہ الفاظ مصر کی عوامی نفسیات اور سیاسی شعور کا احاطہ کرتے ہیں۔ ”ہمارے رب نے مصری کی سرشت میں حکومت کے احکام کی بجا آوری رکھ دی ہے۔ کوئی مصری اپنی حکومت کے خلاف نہیں جا سکتا۔ بعض لوگ طبعاً زود خیز اور سرکش ہوتے ہیں، لیکن مصری ساری عمر سر جھکائے رکھتا ہے تاکہ روٹی کھا سکے۔ ہماری تاریخ کی کتابیں یہی بتاتی ہیں۔ ساری دنیا میں بس مصری ہی ایسے ہوتے ہیں جن پر باآسانی حکومت کی جا سکے۔ آپ کے ہاتھ میں طاقت آتے ہی یہ آپ کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، فروتن ہو جاتے ہیں، پھر آپ جو چاہیں ان کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ ہر حکومت کرتی ہوئی مصری پارٹی انتخابات لڑے تو اس کا جیت جانا ناگزیر ہے کیونکہ حکومت کی حمایت کرنا مصری کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ بس خدا نے اسے اسی طرح بنایا ہے“۔ طاقتور طبقے میں بھی سب برابر نہیں ہوتے۔ الفولی اور اس کے بڑے صاحب کے کردار پوری دنیا کے مافیا اور طاقتور ترین لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ الفولی جب حاجی عزام کو جاپانی کار تاسو کی ایجنسی ملنے پر حصہ مانگتا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں۔ ” میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں ایک بڑے صاحب کے نائب کے طور پر بول رہا ہوں۔ وہ بڑا صاحب ایجنسی میں تمہارا شریک اور ایک چوتھائی منافع کا حقدار بننا چاہتا ہے۔ اور یہ تم خوب جانتے ہو کہ بڑا صاحب جو چاہتا ہے اسے مل کر رہتا ہے“۔ جس طرح مصری عوام کی نفسیات ناول میں ابھر کر سامنے آتی ہے وہ کئی حوالوں سے ہماری قومی نفسیات سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہی شدت پسندی ضیا الحق کی آمرانہ حکومت کے آتے ہی ہمارے ملک میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ ”عمارتِ یعقوبیان“ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی تباہ کاریوں اور اثرات پر لکھے گئے ناولوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔
زکی، طہ، حاجی عزام، بثینہ، سعاد ناول کے اہم کردار ہیں۔ طہ اخوان المسلمین اور گلف وار کے دوران مصر میں پھیلنے والی مذہبی شدت پسندی کا نمائندہ بن کر دہشت گردی کے بین الاقوامی کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ناول کی کہانی کئی سطحوں پر جاری رہتی ہے۔ تمام کردار اپنی اصلیت میں ذومعنی اور پرتوں میں چھپے ہوئے ہیں سوائے طہ کے کردار کے۔ اس کا کردار ایک بین الاقوامی جہادی کردار کی تصویر پیش کرتا ہے، جو اسلام، جہاد اور اس تحریک کا وفادار ہے جسے وہ اسلامی انقلاب کے لیے لازم سمجھتا ہے۔ ایک غریب والدین کا بیٹا جو اپنی محنت سے سپاہی بننے کا خواب دیکھتا ہے۔ جسے اس لیے نوکری سے محروم رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک چوکیدار کا بیٹا ہے۔ اس مایوسی اور ناکامی کے بعد جب وہ یونیورسٹی میں شیخ سے متعارف ہوتا ہے تو اس کے سامنے ایک نیا جہان ہوتا ہے۔ حاجی عزام ایک سیاستدان اور طاقت کا بے تاج بادشاہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک تاجر بھی ہے۔ اپنے سرمائے کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنی دوسری بیوی بثینہ پر ہر طرح کا ظلم کرنا جائز سمجھتا ہے۔ بثینہ جس سے اسے راحت ملتی ہے، جو اس کے سکون کا باعث بنتی ہے، لیکن جب وہ اسے اپنی دولت میں حصہ دار نظر آتی ہے تو وہ اسے چھوڑنے میں ایک لمحہ بھی نہیں جھجھکتا۔ وہ فلاحی کام کرتا ہے اور لوگوں کے لیے ایک رحم دل انسان ہے لیکن یہ اس کا بہت سے بہروپوں میں سے ایک بہروپ ہے جیسے سیاست، تجارت اور طاقت کی بھیک مانگنے جیسے دیگر مواقعوں پر وہ اپنے مختلف بہروپ ظاہر کرتا ہے۔
زکی الدسوقی ناول کا مرکزی کردار ہے۔ وہ عمارتِ یعقوبیان کا سب سے پرانا رہائشی ہے اور اس عمارت میں رہنے والے ہر شخص کو جانتا ہے۔ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اس نے یہیں گزارا ہے۔ وہ ایک کاروباری شخص اور عورتوں کا رسیا ہے۔ جس طرح طہ کے کردار کو دہشت گردی کا نمونہ بنایا گیا ویسے ہی زکی کے کردار کو جمال عبدالناصر کے مخالفین کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ مصر کی تہذیب اور حسن و جمال کو گہنا دینے کا الزام انقلاب پر لگاتا ہے۔ زکی کہتا ہے کہ ”مصر کی ساری تاریخ میں ناصر بدترین حکمران تھا۔ اس نے ملک کو تباہ کر دیا اور ہمیں شکست و غربت سے دوچار کیا۔ اس نے مصری کردار کو جس طرح پامال کیا ہے اسے درست ہونے کے لیے برس ہا برس درکار ہوں گے۔ ناصر نے مصریوں کو بزدلی، ابن الوقتی اور منافقت کا سبق پڑھایا“۔ اس کے نزدیک ناصر کو وہی چاہ سکتا ہے جو یا جاہل ہے یا جس نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے“۔ ایسے سیاسی شعور کے باوجود عورتیں اس کی کمزوری ہیں۔ زکی کے کردار کا المیہ اس کی بہن سے ہونے والی تذلیل ہے۔ اس قدر سخت دل اور کینہ پرور بہن کا کردار غیر یقینی سا معلوم ہوتا ہے۔
باقی تمام کرداروں کے مقابلے میں حاتم شید کا کردار توانا اور متنازعہ رہا۔ عربی ادب اور خاص طور پر مصری ادب میں ہم جنس پرستی ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھی جاتی تھی۔ اس کردار کے ذریعے ناول نگار نے اس متنازع موضوع پر بہت کھل کر بات کی ہے۔ علاء الاسوانی نے حاتم رشید کا کردار اس قدر مضبوط اور جاندار بنایا ہے کہ نہ اس پر ترس آتا ہے اور نہ ہی اس سے کراہت محسوس ہوتی ہے، بلکہ پورے ناول میں وہ سب سے زیادہ متوجہ کر لینے والا کردار ہے۔ حاتم رشید کے کردار سے ایسا المیہ جنم لیتا ہے کہ قاری خود کو اس سے ہمدردی محسوس کرنے پر مجبور پاتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے نہ صرف ہم جنس پرستی جیسے موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے بلکہ متمول طبقے کے ان والدین پر حاتم کے ذریعے شدید تنقید کی گئی ہے جو اپنی دعوتوں اور سماجی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو گورنس اور نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حاتم رشید پیشے کے اعتبار سے صحافی ہے۔ کم عمری میں ہی وہ مقامی فرانسیسی اخبار کا مدیر اعلی بن جاتا ہے۔ وہ دلجمعی اور استقلال سے کام کرنے والا صحافی ہے جو سب سے زیادہ اپنے کام سے وفادار ہے۔ انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی اور عربی روانی میں بولتا ہے۔ بچپن میں اسے اپنے نوکر ادریس سے انسیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے درمیان گہرا جذباتی تعلق بن جاتا ہے۔ ادریس کے ملازمت چھوڑ جانے کے بعد وہ ہم جنس پرستوں کے ہر اڈے پر اسے تلاش کرتا ہے۔ اس کے نہ ملنے کے بعد وہ عبداللہ کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی کے بارے میں اس کا نظریہ ہے کہ ”وہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ دنیا میں بیشتر لوگوں کے اپنے مخصوص مشاغل ہوتے ہیں جن سے وہ زندگی کے دباؤوں کو کم کرتے ہیں۔ شراب، حشیش، عورت یا جوئے کی رسیا وہ اعلی منصب شخصیتیں، جیسے مشیر، ڈاکٹر، یونیورسٹی کے اساتذہ، اپنے ان شوقوں کے باعث کم کامیاب نہیں ہوتیں اور نہ ان کی عزت نفس کم ہو جاتی ہے۔ ہم جنس پرستی اس قسم کی چیز ہے۔ بس اس کا اپنا الگ ذائقہ ہے“۔ مخنس ہونے کے باوجود وہ اپنا وقار برقرار رکھتا ہے۔ وہ ہم جنس پرستوں کے لباس، عادات اور اطوار نہیں اپناتا۔ حاتم کے کردار سے ہی ناول کا المیہ جنم لیتا ہے۔
ناول میں راوی کئی جگہوں پر ظاہر ہو کر مصریوں کی نفسیات، تاریخ، طرزِ تعمیر، اور ہم جنس پرستوں کی زندگیوں کے مختلف گوشوں کو دکھاتا ہے۔ ابتدائی تعارف اور تفصیل سے لے کر اختتام تک کہانی پوری کامیابی کے ساتھ قاری کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ کس بھی فن پارے کو دوسری زبان میں ڈھالنا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے زبان و بیان کے ساتھ ساتھ تاثرات کو کاملیت کے ساتھ ادا کرنا دشوار طلب کام ہے۔ لیکن جب مترجم محمد عمر میمن ہوں تو یہ مشکل ترین کام بھی اس طرح سرانجام پاتا ہے کہ مذکورہ تحریر کو پڑھنے میں ایک نیا لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ عمر میمن عربی زبان بہت اچھے سے جانتے تھے لہذا اس ناول کا ترجمہ عربی زبان سے براہ راست کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کی قرات میں ایک روانی پائی جاتی ہے۔ یہ ان کی ترجمہ نگاری کا کمال ہے کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی دوسری زبان سے ترجمہ شدہ فن پارے کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کہانی آغاز سے اختتام تک ایک روانی سے جاری رہتی ہے لیکن اختتام تک پہنچتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی حقیقی واقعے پر فلمائی گئی فلم کے اختتام پر زندہ بچ جانے والے کرداروں کے مستقبل کے بارے میں محض جھلکیاں دکھائی گئی ہوں یا پھر بس تھوڑی سی تفصیل بیان کر دی گئی ہو۔ ناول کے اس اچانک اختتام سے ابسخرون اور مالک جیسے کرداروں کا انجام دکھانا ممکن نہیں رہا جسے شاید بہتر کیا جا سکتا تھا۔
ناشر: مثال پبلشر، فیصل آباد۔ 03006668284، 0412615359
قیمت: 400 روپے