جبر و اختیار کا مخمصہ اور دینی موقف: محمد بھٹی
کیا حضرتِ انسان اپنے ارادہ و عمل میں مکمل آزادی کا حامل ہے یا پھر آفتاب و ماہ تاب اور آتش و آب کی طرح محفلِ کون و مکان کا یہ صدر نشین بھی سلاسلِ جبر سے پا بہ جولاں قیدی ہے؟اگر ازل سے ہی قلمِ سرنوشت نے لوح محفوظ میں سب کچھ رقم کر دیا ہے تو پھر کرنی پہ بھرنی کیسی اور خیر و زشت پہ نرک و بہشت کیسی؟یہ اور اس جیسے کئی سوالات خارزارِ غور و فکر میں گم گشتہ و سرگرداں راہی کو کسی خارِ نوک دار کی طرح چبھتے ہیں اور شاید میر بھی ایسے ہی ژولیدہ سوالات اور تلخی حیات سے گھبرا کر پکار اٹھا ہوگا:
منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ
کہنے کو اختیار سا ہے کچھ
جبر و اختیار کے اکھاڑے میں فرق اسلامیہ کی داخلی علمی مڈبھیڑ طویل عرصہ جاری رہی جسے متکلمین نے کمال جانفشانی سے لڑا اور اعلی بصیرت سے نبھایا۔بنا بریں یہ علمی کشا کشی دبستانِ اعتزال کی تاریخی ہزیمت کے تقدیری اعلان پر اختتام پذیر ہوئی۔تاہم آج کل اس اور اس جیسے کئی ایک طے شدہ مباحث کے تار پھر سے چھیڑے جا رہے ہیں اور ایسے بے ہنگم انداز میں چھیڑے جا رہے ہیں کہ ان سے پھوٹتی بھدی سُریں مسلسل بارِ سماعت ہیں۔چنانچہ ایسی ہبڑ دھبڑ میں ٹھیٹھ اور متوازن دینی موقف منصہ شہود پر لانا تقاضائے وقت ہے۔
گزارش ہے کہ تقدیر انسانی کی اصل علم و ارادہ الہیہ ہیں یعنی زمان و مکان کے کواڑ میں موجود و واقع ہر شے اور ہر فعل نہ صرف باری تعالی کے علم ازلی میں معلوم ہے بلکہ کارگہ ہستی میں وجود پذیر ہونے والی ہر شے اور وقوع پذیر ہونے والا ہر فعل ارادہ و مشیت ایزدی کا دست نگر بھی ہے۔بہ ایں ہمہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مجبور محض اور مسلوب الاختیار ہے کیونکہ ’’وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے‘‘سے مراد یہی ہوتا ہے کہ اختیارِ انسانی،اپنی ذات میں مستقل نہیں ہے بلکہ اختیار و ارادہِ الہیہ سے وابستہ و پیوستہ ہے اور اپنے وجود و بقا میں ہر پل و ہر لمحہ اذنِ حق اور تخلیقِ ربی کا حاجت مند ہے۔اگر حق تعالی چاہے تو ہمارے اس اختیارِ عارضی کو بقا بخشے اور چاہے تو سلب کر لے۔محشّیِ ’’خیالی‘‘ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:
’’ان العبد مجبور فی الاختیار،لکنه غیر مجبور فی الافعال‘‘
ترجمہ:بندہ اپنے اختیار میں مجبور جبکہ افعال میں آزاد ہے۔
گزارش ہے کہ یہی جبرا فراہم کردہ اختیار ہمارے آزادانہ افعال کا باعث ہے۔چمنِ عمل کے گلہائے رنگا رنگ اسی کی بوقلموں کارفرمائیوں کے انتاجات ہیں۔حق تعالی چاہے تو اس جبری اختیار کو آن کی آن میں سلب کر لے لیکن اس نے نہ ایسا کیا ہے اور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے اور ایسا ہو بھی کیونکر سکتا ہے جب اس قادر مطلق نے نظامِ جزا و سزا کی اساس ہی اس اختیار انسانی کو بنایا ہے۔ارشاد باری ہے:
فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیكفر اِنا اعتدنا للظالمين نارا احاط بھم سرادقھا وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی الوجوہ بئس الشراب وساءت مرتفقا ﴿الکهف ۲۹﴾
ترجمہ: سو جس کا جی چاہے ایمان لے آوے اور جس کا جی چاہے کافر رہے۔ بے شک ہم نے ایسے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس آگ کی قناتیں اس کو گھیرے ہوں گی اور اگر (پیاس سے) فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا مونہوں کو بھون ڈالے گا کیا ہی برا پانی ہوگا اور دوزخ (بھی) کیا ہی بری جگہ ہوگی۔
مذکورہ آیت میں جہاں تہدی آمیز انداز میں مخالفتِ حق کے انجام بد سے آگاہ کیا گیا ہے وہیں انسانی ارادہ و اختیار اور اسی ارادہ و اختیار پر جزاء و سزا کے مبنی ہونے کی بھی صراحت کی گئی ہے۔گزارش ہے کہ اختیار انسانی کی فعلیت ایک سامنے کی چیز ہے جو روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ کا بدیہی حصہ ہے،اس کا انکار نرا سفسطہ ہے۔حضرت تھانوی علیہ الرحمة رقم طراز ہیں:
’’جو افعال اختیاری کہلاتے ہیں ان کے صدور کے وقت اختیار بمعنی {ان شاء فعل وان شاء لم یفعل} کا وجود تو وجدانا و فطرة ایسا بدیہی بلکہ محسوس و مشاہد ہے کہ اگر کسی دلیل کی اعانت سے بھی کوئی اسکے علم کا زائل اور دفع کرنا چاہے تو اس پر قادر نہیں‘‘
(بوادر النواد)
اختیارِ انسانی کی فعلیت کی اسی بداہت و پیش پا افتادگی کو مولانا گیلانی رح نے نہایت لطیف پیرائے میں سپرد قلم فرمایا ہے:
’’انسان مجبور ہے یا مختار؟ان دو پہلووں میں سے کسی پہلو کی ترجیح یا انتخاب خود اپنی قوت فیصلہ سے(کرنا)، اختیار (ہی) کا کیا اقرار نہیں ہے؟‘‘
(الدین القیم)
مسئلہ جبر و قدر میں بے جا کی خردہ گیری اور جز رسی نے جبریہ و قدریہ کو قعرِ ضلالت میں گرا دیا۔ایک فریق نے محض انسان کے اختیارِ عارضی کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے تقدیر الہی کا انکار کیا جبکہ فریق ثانی نے ارادہ و علم الہی کی غلط تفہیم کی بنا پر بدیہی و تجربی اختیار پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے یہ موقف ’اختیار‘ کیا کہ انسان تو مجبور محض اور مسلوب الاختیار ہے۔حضرت تھانوی رح مشیتِ باری تعالی کو انسانی افعال کی علت بعیدہ(ultimate cause) جبکہ اختیارِ انسانی کو افعال کی علت قریبہ(proximal cause) قرار دیتے ہوئے اس رخنہ کی طرف کہ جہاں سے جبریہ و قدریہ کی کج روی نے سر اٹھایا،اشارہ فرماتے ہیں:
’’جس شخص نے افعال مذکورہ کی صرف علتِ قریبہ پر نظر کی وہ قدری ہو گیا اور جس نے صرف علتِ بعیدہ پر نظر کی وہ جبری ہو گیا اور جس نے دونوں پر نظر کی وہ کہہ کر کہ : ’’لا جبر ای محضا و لا قدر ای محضا ولکن الامر بین بین‘‘ سنی ہو گیا۔‘‘
تقدیر الہی کی اصلِ اول ’علم الہی‘ کے حوالے سے اکثر یہ شبہہ ذہن کی دہلیز پر دستک دیتا ہے کہ اگر انسان کے گزشتہ و آئندہ احوال ازل سے ہی حق تعالی کے علم میں ہیں اور اس علم کا غلطی سے داغ دار ہونا شان خداوندی سے مستبعد اور عقلا خارج از امکان ہے تو تاریخ کے دھاروں کے درمیان ہچکولے لیتا انسان تو یوں بھی مسلوب الاختیار ہی ٹھہرا لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جو پیش قیاسی مفروضہ اس شبہہ کی بنیاد میں بطور گارا استعمال کیا گیا ہے وہ نہایت بودا ہے۔مذکورہ شبہ کا منشاء علم الہی کو مستلزمِ جبر ٹھہرانا ہے جبکہ حقیقت اس کے سراسر برعکس ہے۔صاحب نبراس نے اس شبہہ کے جواب میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمة کا کلام معنیً روایت کیا ہے۔شیخ فرماتے ہیں کہ یہ اعتبار(جس سے جبر کا سوال پیدا ہوتا ہے)بالکل غلط ہے کہ واقعہ یا فعل انسانی کا علم ازلی کے مطابق ہونا ضروری ہے بلکہ درست بات یہ ہے کہ علم ازلی کا واقعہ کے مطابق ہونا لازم ہے ۔شیخ اکبر رح کا موقف اپنے دامن میں صاحبان تدبر و تفکر کے لئے فوائد کثیر سمیٹے ہوئے ہے،آپ فرماتے ہیں کہ علم کا معلوم اس علم کے لئے اصل کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ علم اس معلوم کے محض ادراک و حکایت سے عبارت ہے کیونکہ علم شے کماھی کے راست ادراک کا نام ہے۔الغرض علم ازلی وجود پذیر ہوتی اشیاء یا وقوع پذیر ہوتے افعال ’جیسے کے وہ ہیں‘ کا راست ادراک ہے،واقعات کی وقوع پذیری یا افعال کے جبری و اختیاری ہونے میں علم ازلی کی کوئی اثر آفرینی نہیں شامل نہیں ہے۔ہمارے افعال کی نوعیت خواہ اختیاری ہو خواہ جبری(لفظ جبری بغرضِ تفہیم ہے،پیش ازیں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ ہمارے افعال کی نوعیت اختیاری ہے) علم ازلی ’اسی نوعیت‘ کے ساتھ ان افعال کا ازلی ادراک ہے۔شیخ اکبر رح کے کلام ہدایت التیام سے علم الہی اور معلوم(فعل انسانی) کی باہمی نسبت کا عقدہ کشا ہو جانے کے بعد مذکور الصدر اشکال کی دھول آپ کے آپ چھٹ جاتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب
Recommended Posts