تو میرا جانُو ہے۔ تحریر: عثمان سہیل
” جانُو، جان جاناں جانُو “ کی مترنم آواز کانوں سے ٹکرائی اور مجہول ٹھٹک گئے ۔ بعدازتعاقبِ مختصر معلوم پڑا کہ منبع و مخرج جہاں کار پارک کی تھی اس کے قریب واقع میوزک شاپ ہے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں، ایک گانا ہی تو ہے جبکہ بموجب کلیہ رئیسانی خاص و عام سبھی جانتے ہیں گانا، گانا ہوتا ہے ، گوری تیری چٹیاں کلائیاں ہو یا بےبی ڈال سونے دی۔ پر مجہول ٹھہرے مجہول بلکہ مطلق مجہول۔ سوچ میں پڑگئے میموری فلیش بیک ہوا ایک اور گانا جس میں ھیروئین اپنے محبوب کو جانُو، دلبر اور ھیرو کے القاب سے نوازتے جبکہ ھیرو پریم گرنتھ کے پنوں پر تقدیر کے زیرو ہونےکی اطلاع دیتے پائے جاتے ہیں۔ زیرو سم گیم، یو نو گائز! جانُو، جانُو آخیر یہ کیا ہے بھئی، کس جانور کا نام ہے۔ استاد ذوق کا کہنا ہے کہ ”اے ذوق یہ اٹھا نہ سکے گا کھکھیڑ تو“ پر جنابِ من مجہول استادوں کا کہا کہاں مانتے ہیں، اسی کھد بد میں گھر آئے اور لگے گوجہل (گوگل اور جہل کا مرکب) کرنے۔ تلاش بسیار کے بعد گوجہل سے ہوتے ہوئے بات پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہا جوانی تک! جی نہیں صاحب خوامخواہ بہکنے کی نہیں ٹھہری۔ بات جہل پیڈیا تک پہنچی تھی۔ زیر عنوان جانُو مندرج تھا کہ یہ مملکتِ عشق آباد میں پایا جانے والا ایک چوپایہ جانور ہے، تاہم کنگرو کی مانند اگلی دو ٹانگیں چھوٹی ہونے کے سبب دکھنے میں دو پایہ، جیسا کہ فیس بکی مخلوق۔ آگے چل کر عادات و خصائل اور رہن سہن بارے مفصل و کماحقہ بیانات مرقوم تھے۔ مندرجات کے مطابق جانُو نامی یہ جانور رومانوی فلموں اور داستانوں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے کام آتا ہے۔ مانند چکور کے اسکا واحد مقصدِ حیات اپنے چاند سے معشوق کی توقعات پر پورا اترنا سمجھئے عائد کردیا گیا۔ جانُو کی زندگی کا بیشتر وقت معشوق کے دشمنوں یعنی جانُو کے اپنے والدین، اپنے دشمنوں یعنی معشوق کے والدین اور دشمنی کے آخری درجوں پر فائز ہر دو طرف کے چچاؤں، ماموؤں اور پھپھیوں سے عشق نامی متاع گراں مایہ کا تحفظ کرنے کےعلاوہ استغنا کے آخری درجے پر فائز خود معشوق سے چومکھی لڑائی میں گزرتا ہے- کسی گھسے ہوئے، تجربہ کار لیکن سالخوردہ جانُو کا یہ قول بھی درج پایا گیا جوکچھ یوں تھا کہ اگر آپ کسی کے ایک عدد پیارے سے جانُو ہیں تو کبھی بھی، کسی بھی مرحلہ پر معشوق پر شک نہ کریں ازبسکہ شک پیار محبت کی قینچی ہے ۔ یہ ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح پیار میں ”کو چئرپرسن“ کی طرح ”کو جانُو“ والا تصورنہیں پایا جاتا اگرچہ ایک عدد دلبر اور ایک عدد دلدار برآمد ہونے کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔ یاں پر ختم ہوا قصہ مجہول اور ان کی گوجہل پرمٹرگشت یعنی سرفنگ کا۔ پاک سرزمین وطن عزیز میں وزارت عظمٰی بھی ایک طرحدار، پرتمکنت اور ہوشربا معشوق سے کم نہیں ہے۔ عشوہ طراز ایسی کہ ہر سیاستدان کے ہوش اڑائے اورجیسا کہ خسروکہہ گزرے ‘نہ نیند نینا، نہ انگ چینا’ اس کے پیچھے کچھ بھی کرنے اور کر گزرنے کوہمہ وقت تیار۔ صاحبو اس بت طناز کیلئے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا۔ صاحبان من، ایک سوقیانہ سا لیکن برمحل شعر یاد آگیا ؎ تعویز، نقش، چلہ کشی اور ٹوٹکے ، ملنے کو ہم نے تیرے ہزاروں جتن کئے
سسرے سام کی ڈو مور پر کی فرمائش ہو کہ سالے انڈیا سے خفیہ وعدے یا سعودی ماموں سسر کو بوقت ضرورت کام آنے کی یقین دہانیاں کرانی ہوں، اپنے جانُو جی کسی بھی، کتنے بھی مشکل بلکہ ناممکن العمل عہد وپیمان پربسرو چشم تیارپائے جائیں گے۔ بجا طور پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر ایک ” شریف “ آدمی کو کیا پڑی ہے یہ سب ٹنٹے کرے اور اس پر اپنے گھر والوں مطلب عوام کی گالیاں بےمزہ ہوئے بغیر کھائے۔ ذرا سوچئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ساتھ اس عقدہ کے ایک چونچل مگر آوارہ اور معاف کیجئے گا، کہ کہے بنا بات نہیں بنتی، ایک عدد بدچلن، غمزہ باز، ہمہ وقت آمادہ فلرٹ کہ حیا جس کی محض بندِ حیا کھلنے تک، سالی کرپشن بھی تو ہووے ہے۔ کچھ حاسدین مائل بہ مبالغہ آرائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سارا پریم کا چکر دراصل سالی کے چکر میں ہی ہووے ہے۔ حاسدین تو آخر حاسدین ہوتے ہیں ان کا اعتبار کیونکر کیا جاوے۔ سلسلہ ہائے سسرال یہیں تک محدود ہوتا تو کچھ عجب نہ تھا کہ جانُو ہمراہ محبوبہ پرتمکنت، لئے سہارا چونچل سالی کا شاہراہِ بے دستور کے سبھی سپیڈ بریکرپھلانگتے ہر سنگ میل کو یاد گار بنا دیتے۔ لیکن ایک آفت پھپھی نامی بھی ہووے، وہی پھپھی جو بوقت عقد غیرناگہانی، خموش اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑی تھیں۔ ازبسکہ یہ پھپھی جو کہ ”حساس“ ہے، مونہہ سے کچھ نہیں کہتی، پر دل میں جانُو کے ایک ایک کرتوت کا حساب رکھتی ہے۔ کچھ لوگ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے، یہ جان لیوا بھی انہیی میں سے ہے اور گاہے بگاہے رنگ رلیوں کے دستاویزی ثبوت دکھا کر جانو، جانُو کی جان نکال دیتی ہے۔ الغرض یہ نہایت حساس ہوتی ہے اور کبھی بھی جانُو کا دھڑن تختہ کرنے پر قادر۔
مجہول اس وقت اقبال بانو کی سی ڈی لگائے ‘ تو لاکھ چلے رے گوری تھم تھم کے’ سن رہے ہیں۔