آیا سوفیا ۔ تحریر: محمد دین جوہر
آیا سوفیا کے ترک فیصلے پر ہمارے ہاں بھی پایاب متن کی طغیانی رہی۔ زیادہ تر آرا قانونی، شرعی اور مذہبی نوعیت کی رہیں اور جو واقعاتی سیاسی اور تہذیبی ’صورت حال‘ تھی وہ کہیں بھی تجزیے کا موضوع نہ بن سکی۔ اس پر سب سے اچھی ویڈیو جناب معید پیرزادہ کی تھی جس میں انہوں نے موجودہ صورت حال کو ایک تاریخی تناظر دینے کی کوشش کی لیکن ان کی گفتگو بھی آخر میں دوگونگی (ambivalence) کی نذر ہو گئی۔ موجودہ گہما تانی میں ایک امر قابل توجہ ہے کہ ہر سیاسی صورت حال کا قانونی اور شرعی تجزیہ ہمیں ازحد مرغوب ہے۔ اس سے شریعت کی سربلندی کی سرشاری، ہم عصر سیاست سے مکمل اغماض، تاریخ سے مکمل فراموشگاری اور مذہبی جذبے کو صراحت بیک وقت حاصل ہو جاتی ہے۔ تو اس سے اچھی چیز بھلا کیا ہو سکتی ہے؟
گزارش ہے رجب طیب اردوآن کا موجودہ فیصلہ مکمل طور پر سیاسی ہے، اور اسے اولاً قومی اور بین الاقوامی سیاسی طاقت کی حرکیات ہی میں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس فیصلے کا سیاسی اور تاریخی پس منظر مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں ظاہر ہونے والی ترک قوم کی غیرمعمولی مزاحمت ہے، اور جو جدید مسلم تاریخ کے محیر العقول واقعات میں سے ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ موجودہ ترکی ایک ملک اور ریاست کے طور پر اتاترک کی مرہون منت ہے۔ اور یہ امر بھی بلاشک ہے کہ اتاترک کو اسلام سے اتنی ہی محبت تھی جتنی کہ ٹرمپ کو ہے۔ اتاترک کی مزاحمت بیک وقت دو پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی: عسکری مزاحمت اور تہذیبی مداہنت۔ اتاترک نے عسکری مزاحمت کو منظم کیا، استنبول سے دُور قلبِ اناطولیہ میں پارلیمنٹ قائم کر کے اپنی سیاسی طاقت کو آئینی جواز بخشا، طاقتور ہم عصر ممالک کو ترکی سے بےدخل کر دیا، ترک سرزمین پر قابض یونانیوں کو شکست فاش دی، اور تہذیبی طور پر عین انہی قوتوں کے آگے وہ مکمل طور سپرانداز ہو گئے۔ مابعد حالات سے یہ امر قطعی واضح ہے کہ ان کا منصوبہ ترکی کی modernization سے کہیں زیادہ اصلاً ترک معاشرے کی Westernization کا تھا، کیونکہ اتاترک معاشرے کو سیکولر بنانے کے کوئی خانہ زاد وسائل نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے فرمانروا طبقے کو فرانسیسی انقلاب میں سامنے آنے والے متشددانہ جیکوبن سیکولرزم یا لائسٹے کو بھاڑے پر اٹھانا پڑا۔ ان سیاسی تصورات اور ان کی بنیاد پر بننے والی ریاستی حکمت عملی سے آخرکار ترکی اسی سنگ آستاں پر پہنچا جہاں پوری امت دیدہ و دل بچھائے دھونی رمائے پہلے سے معتکف تھی۔ لیکن یورپ ترکی کی عسکری مزاحمت سے باخبر تھا، اس لیے اسے دہلیز سے اندر آنے کی اجازت ملی، اور بعض اوقات اسے ساتھ بھی بٹھایا گیا کہ نیٹو کو مشرق وسطیٰ اور روس کے حوالے سے ترکی کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔
ریپبلکن ترکی کے گزشتہ ستر اَسّی سال اتاترک مزاحمت کو اس کی کلیت میں دروں کاری (internalization) کرنے کی جدوجہد اور اس میں ناکامی کی تاریخ ہے۔ اسی باعث ترک سیاست کی داخلی جدلیات کا محور اتاترک کی مزاحمت اور اس کی معنویت رہی ہے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہےکہ مغرب ترک عسکری مزاحمت کو بالکل نظرانداز کر کے نہ صرف تہذیبی مداہنت کے علمبردار طبقے کی پشت پر کھڑا رہا ہے بلکہ دیگر مسلم ممالک کی طرح وہ ترکی کو ایک مکمل client state بنا لینے اور اسے اپنے تہذیبی منصوبوں میں بھرتی کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ عدنان مندریس اور ان کے دو وزرا کی شہادت سے لے کر نجم الدین اربکان سے ہوتے ہوئے رجب طیب اردوآن تک سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد اس وقت ہی درست طور پر سمجھی جا سکتی ہے اگر اس کو اتاترک کی عسکری مزاحمت اور تہذیبی مداہنت کے پس منظر میں دیکھا جائے۔
رجب طیب اردوآن کی سیاست عسکری مزاحمت کو مضبوط بناتے ہوئے تہذیبی مداہنت کو پھیر دینے کی کوشش سے عبارت ہے۔ سیاسی مزاحمت پر مسلم سیاسی فکر کا کوئی تناظر چونکہ موجود ہی نہیں ہے، اس لیے ہمارے اہل علم قانونی موشگافیوں سے اپنا اور امت کا دل بہلاتے اور مبارک پاتے ہیں۔ سیاسی مزاحمت کے تعینات صرف عالمگیر نظامِ سرمایہ و طاقت کے تناظر میں زیربحث لائے جا سکتے ہیں۔ مزاحمت کا مقصود طاقت کا حصول ہے، اور اس میں اہم ترین ذرائع پیداوار اور آرگنائزیشن کا قیام ہے، اور یہ امور ہماری مذہبی قانونی متخیلہ سے آگے کی چیزیں ہیں۔ مذہبی قانون کی بات صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب ایسی سیاسی قوت نافذہ بہم ہو جائے جو آزاد کرنسی، سود سے پاک معاشی نظام، زکٰوۃ کا نظام اور اسلامی قانون کی عملداری قائم کرنے کی استعداد رکھتی ہو۔ چین ہی کی مثال کو دیکھا جا سکتا ہے کہ اتنی بڑی معیشت اور عسکری طاقت کے باوجود وہ ڈالر سے ابھی تک نجات حاصل نہیں کر سکا۔ ہمارے ہاں جب مذہبی قانون میں کسی سیاسی صورت حال کو زیربحث لایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدمی دو مربع کلومیٹر سمندر کو میٹھا بنانے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔
اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ اردوآن کے لیے داخلی طور پر کچھ سودمند ہو، اور انہیں متجددین اور صوفیائے مغربین کے مقابلے میں شاید نئی کمک مل سکے۔ لیکن میرے خیال میں اس کا امکان کم ہے۔ سنہ ۲۰۱۶ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد مغرب کے روبرو ترکی کی مزاحمت کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے اور داخلی سیاست میں اب سیکولر طبقات اردوآن کے خلاف ہراولی کردار سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ان کی مخالفت کی قیادت اب ایسے مذہبی لوگوں کے پاس چلی گئی ہے جن کے مذہب کو امریکی اور مغربی آشیرباد حاصل ہے، اور سیکولر طبقات بھی انہیں کے پیچھے کھڑے ہونے کو سیاسی طور پر زیادہ مفید پاتے ہیں۔ یہ ترکی کے اندر سیاسی جدلیات کا بہت بڑا تحول (transformation) ہے۔ پیوٹن کی طرح، طیب اردوآن پاور گیم کے بڑے کھلاڑی ہیں، اور آئیڈیالوجی کی بھی غیرمعمولی بصیرت رکھتے ہیں۔ مغربی اور اسرائیلی سرپرستی، عرب سرمائے اور فقہی اور صوفی متجددین کی غیرملکی سرپرستی کی وجہ سے اردوآن کے خلاف قوتیں اب زور پکڑ رہی ہیں اور یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ اپنے دور رس مزاحمتی سیاسی منصوبے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں۔ بحیرہ روم، باسفورس، شام اور لیبیا کے بارے میں ترک پالیسی مغربی برداشت کی ریڈ لائن پر تو پہنچ ہی چکی ہے، ساتھ ہی ساتھ امارات اور سعودیہ کی نیند بھی اڑی ہوئی ہے جو اردوآن کے ساتھ صدام والا سلوک کرنے کے لیے سرمایہ کاری اور منصوبے فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اردوآن کی غیرمعمولی سیاسی فہم کی وجہ سے مغرب کو ترکی پر براہ راست دست دراز کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔
آیا سوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے پیچھے مغرب کے خلاف مزاحمت کو ایک نئی سطح اور علامتیت (symbolism) دینے کا ایجنڈا کام کر رہا ہے۔ سادہ لفظوں میں اردوآن مغربی دنیا سے کہہ رہا ہے:
Go to hell! This is what we are!
اہل یورپ کی طرف سے یورپین یونین میں ترکی کی شرکت کو جس طریقے سے سبوتاژ کیا گیا، اور اسرائیل، امریکہ اور اس کے گماشتہ عربوں نے شام میں جس طرح ترکی کو فنا کرنے اور ایک کرد مملکت کو بحیرہ روم تک قائم کرنے کی کوشش کی اور ترکی نے جس طرح وہ منصوبہ خاک میں ملا دیا، اس پر مغرب کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ترکی لیبیا میں بھی جا پہنچا۔ اس وقت مغرب کی خوشنودی سے کہیں زیادہ ترک سیاسی اور ریاستی طاقت کو ایک ایسے symbolism کی ضرورت تھی جو نئی ترک شناخت کے بارے میں ابہامات کو ختم کر دے، یعنی ترک ساورنٹی کے جاری محکم عمل کو علامت کی معنویت فراہم کر سکے۔ رجب طیب اردوآن اور ان کی پارٹی اپنے اقتدار کے اول روز سے مزاحمت میں ہے اور ہاتھ دستہء شمشیر پر ہے۔ لیکن ان کی مزاحمت کا کوئی عَلم نہیں تھا، اور آیا سوفیا کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ عَلم کی ایک تہہ کھل چکی ہے۔
ترک فیصلے سے عالمگیر سطح پر مایوسی، خوشی اور خوف کے جذبات سامنے آئے ہیں۔ مغرب میں بالعموم مایوسی پیدا ہوئی ہے کہ ترکی ہاتھوں سے نکلا جاتا ہے۔ روس نے بے بسی محسوس کی ہے۔ ہم جیسے سادہ لوح مسلمانوں کو اس فیصلے سے بہت راحت پہنچی ہے۔ جب کہ ہمارے خانہ زاد اور دنیا بھر کے متجددین خوف میں ہیں کہ ”مغرب چیں بجبین ہے تو اب کیا بنے گا؟“ باقی فقہی اور عالمی قانون کی موشگافیاں ہیں، وہ اگر وقت گزاری کے لیے چلتی بھی رہیں تو دل لگا رہتا ہے۔