حافظ محمد یوسف سدیدی شخصیت، احوال و آثار اور فکر و فن: انجم رحمانی (تبصرہ: سجاد خالد)
حافظ محمد یوسف سدیدی رحمۃ اللہ علیہ یادگارِ زمانہ شخصیت تھے۔ شوق، فن، انسانیت، فقر اور حسنِ ظاہر کا غیر معمولی مرقع تھے۔ ملنے والے ان کی شخصیت کا نقش کبھی دل سے مٹا نہ سکے اور محض ان کا کام دیکھنے والے بھی مجبور ہوئے کہ بار بار دیکھیں، آنکھوں میں بسا لیں اور سینے میں گہرا نقش کر لیں۔ میرے استادِ گرامی صوفی خورشید عالم رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حافظ صاحب یک جان دو قالب تھے۔ محبت، احترام اور ایثار میں ایک دوسرے ہی کی مثال دی جا سکتی تھی ۔معروف خطاط جناب سید انور حسین نفیس رقم بھی حافظ صاحب اور صوفی صاحب سے زندگی بھر قریب رہے۔ تینوں اساتذہ نے تاج الدین زریں رقم کی رہنمائی میں نستعلیق میں بلند مقام حاصل کیا اور ایک دوسرے کی معیت سے بھی زندگی بھر استفادہ کیا۔ ابتدائی دور میں تینوں کے خط میں ایسی مماثلت پائی جاتی تھی کہ عمیق رمز آشنائی کے بغیر امتیاز مشکل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تینوں کا امتیازی اسلوب بھی بن گیا اور قدر شناس ان کے کام کو بغیر دستخط پہچاننے لگے۔ حافظ صاحب اور نفیس شاہ صاحب میں عام خوشنویسوں کے مقابلے میں عالمِ اسلام میں رائج دیگر اہم خطوط سیکھنے کا جذبہ دیدنی تھا چنانچہ کسی اسلامی ملک سے شائع کردہ کوئی کتبہ یا کتاب ہاتھ آ جاتی تو یہ خزانہ ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے کو بیتاب ہو جاتے۔ حافظ صاحب سے استفادہ کرنے والوں کا شمار ممکن نہیں البتہ ان کے باقاعدہ شاگرد بھی تعداد میں کم نہیں۔ نمایاں ترین شاگردوں میں جناب اکرام الحق، جنام غلام رسول منظر رقم، جناب خالد جاوید یوسفی، جناب یوسف چودہری، جناب علی احمد صابر چشتی، جناب رشید بٹ، جناب خورشید عالم گوہر قلم، جناب احمد علی بُھٹہ، جناب عبدالرحمٰن، جناب واجد محمود، جناب ذوالفقار محمود وغیرہم شامل ہیں۔
تین دہائیوں سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس نابغۂ روزگار فنکار کی زندگی پر کوئی کتاب شائع ہو۔ اس سلسلے میں ہونے والی کچھ کوششوں کا چشم دید گواہ میں خود ہوں لیکن یہ اعتراف بھی کرتاچلوں کہ اس کتاب کی اشاعت سے کچھ عرصہ پہلے تک مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ رحمانی صاحب یہ اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ حافظ صاحب کے چاہنے والوں کو ان کے آثار میں سے کچھ بھی ہاتھ آتا تو اسے سینے سے لگا کر رکھتے۔ یوں ان کے کام کی تصاویر، ان کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین اور محبت میں کہی جانے والی نظمیں میں بھی جمع کرتا رہا ہوں۔ کتاب دیکھی تو یوں محسوس ہؤا کہ میری اب تک کی محنت سے کہیں زیادہ مواد مرتب نے جمع کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں حافظ صاحب کے ہمدمِ دیرینہ جناب ملک نواز احمد اعوان کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔ ملک صاحب ایسی کوششوں کے سچے قدر دان ہیں اور ہر طرح کے تعاون کے لیے خود کو پیش کر دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ خدا ان کو صحت کے ساتھ لمبی عمر عطاء فرمائے ۔ آمین
سرورق کے رنگ خوشنما ہیں، لے آؤٹ سادہ ہے اور اس پر خطِ کوفی میں لکھا گیاحافظ صاحب کا ایک فنپارہ ’اللہ اکبر‘ شائع کیا گیا ہے۔ ٹائیٹل کی خطاطی حافظ صاحب کے قابل شاگرد جناب عبدالرحمٰن معروف بہ عبدُہٗ کے قلم کا شہکار ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 379 صفحات پر مشتمل پہلے حصے میں پیش لفظ اور مقدمے کے بعد حافظ صاحب کی آپ بیتی ،خطوط، ان کے بارے میں کالم، مشاہیر کی آراء اور شاعری ہے جبکہ دوسرا حصہ حافظ صاحب کے فنپاروں کے لیے خاص ہے جس میں 48 رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ صفحات شامل ہیں۔پہلے حصے کو عمدہ آفسٹ پیپر پر اور دوسرے حصے کو آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے تاکہ شائقین فنپاروں کی طباعت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس حصے میں کچھ فنپاروں کو درست طریقے سے پیش نہیں کیا جا سکا یعنی انہیں افقی یا عمودی اطراف سے کھینچ کر لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے فنپارے اپنی دلنشینی سے محروم ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کچھ فنپاروں کو کمپیوٹر کی مدد سے ٹریس کیا گیا ہے جس سے ان کا معیار گر کر صاحبِ فن کے شایانِ شان نہیں رہا۔ اس کے باوجود کچھ کام اصل صورت میں شائع ہو گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں یہ حصہ بھی اغلاط سے پاک ہو گا۔ کتاب کی قیمت بارہ سو روپے رکھی گئی ہے جو بظاہر معمول سے زیادہ لگتی ہے لیکن معیار اوراس پر لگنے والی محنت کو ہمدردی سے دیکھیں تو قیمت کچھ زیادہ نہیں لگتی۔ ایسی کتابیں نفع کے لئے تو ویسے بھی شائع نہیں کی جاتیں۔ خدا اس پر وقت اور وسائل پیش کرنے والوں کو اجر عطاء فرمائے۔ قیمت زیادہ ہونے کا احساس بھی دراصل اس کتاب کے ممکنہ خریداروں کی مالی حالت کے پیشِ نظر ہوتا ہے کیونکہ ان میں کم آمدنی والے خوشنویس اور پینٹر حضرات کی کثرت ہے جو حافظ یوسف سدیدی رحمہ اللہ کے سچے عاشق اور نستعلیق لاہوری کے اچھے پارکھ بھی ہیں۔
اسلامک پبلیکیشنز جماعتِ اسلامی پاکستان کا ذیلی اشاعتی ادارہ ہے جس نے مذہبی اور سماجی موضوعات پر بیشمار کتب شائع کی ہیں لیکن اسلامی فنون کی ترویج کے حوالے سے اس کی یہ کاوش امتیازی حیثیت رکھتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادارے کو اس نوع کے مزید کام کرنے چاہئیں تاکہ امت کےعلمی کام کے ساتھ ساتھ ہمارے اہلِ فن کی میراث بھی تاریخ کا حصہ بنتی رہے۔
انتساب بجا طور پر حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کے لیے کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی یوسف سدیدی صاحب سے اپنے ابتدائی تعارف اور وجہِ عقیدت کا مختصر مگر جامع احوال بیان کرتے ہیں۔
کتاب کے مرتب انجم رحمانی صاحب ایک زمانے میں عجائب گھر کے ڈائریکٹر رہے۔ اس زمانے میں استادِ گرامی صوفی خورشید عالم خورشید رقم رحمہ اللہ جانشین تاج الدین زریں رقم کے ہمراہ رحمانی صاحب سے کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔ آپ استاد اور محقق ہیں۔ حافظ صاحب کے طفیل دیگر خوش نویسوں سے قریبی مراسم رکھتے تھے۔ یہ کتاب اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ حافظ صاحب کو وہ کس درجہ اہم سمجھتے ہیں ’ چند خوشگوار یادیں‘ کے عنوان کے تحت رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اقلیمِ خط اور دنیائے مخطوطات سے ان کی واقفیت اور مہارت میں حافظ صاحب کی تربیت ومعیت کا کردار بنیادی ہے۔ رحمانی صاحب بتدریج حافظ صاحب کی محبت میں گرفتار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور جب ان کا قلم حافظ صاحب کا خاکہ کھینچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جذبات نے انگلی پکڑ لی ہے۔ اس حال میں وہ قاری کو معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنی محبت اور عقیدت کا بیمثال مظاہرہ کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے کچھ باتیں دہراتے بھی ہیں جو بسا اوقات قاری پر گراں گزرتی ہیں۔
اگلے باب میں حافظ صاحب کی زبانی ان کی زندگی میں خطاطی اور دیگر علوم کی تحصیل کی داستان درج کی گئی ہے۔ اس حصے میں حصولِ فن کے لیے ہندوستان، افغانستان اور سعودی عرب کے مختلف شہروں کی جانب کیے جانے والے سفر کی روداد بھی درج ہے۔ حافظ صاحب کو قدرت نے بیقرار دل عطاء فرمایا تھا جو انہیں فن کے حصول کے کسی درجے پر بھی مطمئن نہیں رہنے دیتا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حافظ صاحب نے کن اساتذہ سے کن کن خطوط کی تعلیم پائی، کن افراد اور اداروں کے لئے پیشہ ورانہ اور رضاکارانہ خدمات پیش کیں اور کون سے کاموں کا زندگی بھر معاوضہ نہیں لیا۔حافظ صاحب کے قلم سے لکھی گئی اخباری شہ سُرخیوں، کتب کے سرورق، مکمل کتب، پوسٹرز، کیلنڈرز، سائن بورڈز اور عمارتی خطاطی کی جس قدر تفصیل میسر ہو سکی مرتب نے ہم تک پہنچائی ہے۔ میرے خیال میں یہ حصہ اس کتاب کا عرق ہے جس کو پڑھ کر شوق کو مہمیز ملتی ہے اور دل حافظ صاحب کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے۔
دعا گو ہوں کہ یہ کتاب حافظ صاحب کے حوالے سے مزید کام کا پیش خیمہ ثابت ہو اور اس کے بعد وہ کام بھی منظرِ عام پر آئیں جن کا آغاز ایک مدت سے ہو چکا ہے۔ اسی طرح دوسرے اساتذہ کی شخصیت اور فن پر کتابیں سامنے آئیں۔ یہ خواہش بھی ہے کہ اس کتاب کا دوسری اہم زبانوں میں ترجمہ ہو تاکہ دنیا اس خطے کے اہل ہنر سے آشنا ہو جس نے صدیوں علوم و فنون کی آبیاری کی ہے۔