کرونا تحریری مذاکرہ۔ مبصر: عثمان سہیل
[کرونا وائرس کی وبا پچھلے کئی مہینوں سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے اثرات کی ہمہ گیری کے سبب ہماری ویب سائٹ جائزہ نے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے ایک تحریری مذاکرے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک سوالنامہ مختلف اہلِ علم کو بھیجا گیا جو اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مذاکرے کا چوتھا جواب جناب عثمان سہیل کی جانب سے موصول ہوا جو ان کے شکریے کے ساتھ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر]
۱۔ سیاسی/معاشی نظام اب تک جس ڈھرے پر چل رہا تھا کیا مابعد کرونا بھی اسی طرح چلتا نظر آتا ہے یا آپ کوئی شدید (ریڈیکل) تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟
۲۔کرونا کے خلاف جنگ اصلاً سیاسی بنیادوں پر لڑی جا رہی ہے اور لامحالہ اس کے اثرات بھی سیاسی ہوں گے۔ اس جنگ میں کمزورسیاسی ڈھانچوں (خصوصاً تھرڈ ورلڈ) کے مستقبل کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ؟
جواب: ریاست اور معیشت آج کے دور میں لازم و ملزوم ہوچکے ہیں اور ان کو کسی مخصوص تناظر میں الگ الگ برتنا کم از کم راقم الحروف کے لیے مشکل معاملہ ہے۔ دوم تھرڈ ورلڈ کی اصطلاح اب معدوم ہوچکی ہے۔ جدید معیشتی لٹریچر میں اب ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ایک قضیہ ہے کہ ہماری تمام سوچ بشری نقطہ نگاہ سے ہے۔ سو انسان کو مرکز مان کر مادیت پرستی پر مبنی نظام فکر میں کوئی بھی اقدار چاہے سیاسی ہوں، اخلاقی ہوں یا معاشرتی ہوں وہ نظام معیشت ہی کے تابع ہو چُکی ہیں ۔ سیاسی یا معاشی نظام میں کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے موجودہ نظام کا انہدام یا کم از کم بنیادی ڈھانچے کا شکستہ ہوجانا اہم ہے۔ پہلے ایک نگہ (جو بظاہر نگاہ سے کم ہے) اعداد و شمار پر ڈال لیتے ہیں۔ عالمی بینک کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق امسال عالمی معیشت میں جی ڈی پی کی شرح نمو گذشتہ برس سے قریب منفی پانچ فیصد سے زائد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ شرح نمو منفی سات فیصد جبکہ نموپذیر معیشتوں میں یہ اوسطا اڑھائی فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق عالمی تجارت کے حجم میں ساڑھے تیرہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان شرحوں سے یقینا معاشی سرگرمیوں میں قابل ذکر کمی نظر آتی ہے ۔ تاہم اگلے برس یعنی 2021 کے تخمینوں میں یہ اعشارئیے مثبت ہو کر کرونا سے پہلے کی سطح پر بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے معاشی نظام میں قابل ذکر شکستگی یا بڑے شگاف کی پیشنگوئی کرنا قبل ا ز وقت ہے۔
کمزور معیشت کے گرتے ہوئے اعشاریوں کے علاوہ، اس وبا کے بڑھتے ہوئے دورانیہ کی وجہ سے عوامی سطح پر پائے جانے والی بے چینی، نفسیاتی خوف، کاروبار کی بندش سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ بھی کسی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ حالیہ دہائی کے آغاز میں سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف وال سٹریٹ پر قبضہ مہم ہو یا فرانس، پرتگال اور یونان میں مہنگائی اور معاشی مسائل پر تشدد سے لبریز عوامی تحاریک سبھی ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں کیونکہ ان میں سے کسی تحریک کو بھی مؤثر سیاسی قیادت میسر نہیں تھی۔اس تناظر میں یہ بات قابل فہم نظر نہیں آتی کہ دور جدید میں عالمی منظر نامے پر مقبول عام عالمی رہنمائوں کے بغیر بھی کوئی بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کے جبر سے نکلنے کی ابھی تک کوئی صورت تو نظر نہیں آتی۔مثلاً چین کی مثال کو ہی سامنے رکھئے، چین کی موجودہ ریاست تو اشتراکی اور انقلابی تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی لیکن یہاں کی حیرت انگیز معاشی ترقی اس وقت سامنےآئی جب اشتراکی معیشت کو سرمایہ دارانہ منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت سے بدل دیا گیا۔چین میں اب اشتراکیت صرف اس حد تک باقی ہے کہ حکمران جماعت کا نام ’’کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ‘‘ ہے یا طرز سیاست ابھی تک پرانی ڈگر پر قائم ہے ورنہ اسی جماعت کے زیر سایہ شاہراہ معیشت کی تعمیر کا سب مواد و مسالہ تو سرمایہ دارانہ نظام سے ہی لیا گیا ہے ۔اسی طرح روس بھی نوے کی دہائی کے اختتام پر ہی کمیونزم کو ترک کرکے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا چکا ہے ،اسلامی دنیا میں تُرکی اور ملیشیا کے جن کامیاب معاشی ماڈلز کی مثالیں دی جاتی ہیں وہ بھی سرمایہ دارانہ معیشت ہی کے ماڈلز ہیں اور ان پر عمل درآمد کرکے بہتر نتائج کا حصول بھی شخصی اقتدار میں ہی ممکن ہوا ہے ۔پاکستان میں بھی وہی ماڈلز اپنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کے کثیر الجماعتی سیاسی ماحول میں ویسے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے اس لئے یہاں بھی کچھ طبقات شخصی اقتدار کے رومان میں مبتلا نظر آتےہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چین نے جس سرعت کے ساتھ کرونا کی تباہ کاریوں پر قابو پاتے ہوئے انہیں محدود کردیا ہے یہ اس کے سیاسی نظام کی کامیابی کی دلیل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر چین کے پاس وہ معاشی وسائل نہ ہوتے جو اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا کر حاصل کئے ہیں تو کیا چین محض اشتراکی طرز سیاست سے ان تباہ کاریوں پر قابو پاسکتا تھا ؟ ایک جماعتی سیاسی نظام کے ماتحت، سخت انتظامی ڈھانچہ میں کرونا یااس جیسی کسی وبا کے نقصانات کو تو چھپایا جا سکتا ہے لیکن مالی وسائل کے بغیر اس پر مؤثر طور پرقابو پانا کیسے ممکن ہے؟
امروز انقلاب کے معنی متعین کرنا ایک سر دردی کا باعث ہوگا ازبسکہ فرانسیسی، روسی اور چینی انقلاب اب صرف تاریخ کے پنوں پر پائے جاتے ہیں۔آج کمیون پر مبنی روسی و چینی اور کڑے حکومتی انصرام پر مبنی بھارت کی معیشت بھی شاہراہ ِ سرمایہ داری پر بگٹٹ بھاگ رہی ہیں ۔ سیاسی و معاشی انقلاب یا تبدیلی کے نام پر کسی بھی نئی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آنا جیسا کہ وطن عزیز ہو ، یونان ہو یا فرانس میں ہوایک اوپری اصلاحی ایجنڈے سے زیادہ کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ انقلاب کا رومان حقیقت کے روپ میں ڈھلتا نظر نہیں آتا ہے۔ مرور ایام کے ساتھ انقلا ب کے معنی بدل چُکے ہیں یا شاید یہ کہنا مُناسب ہوگا کہ تاریخ کے اس مقام پر انقلاب ایک قصہ پارینہ بن چکاہے اور آج کے دور میں یہ ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ جوہری تبدیلی خارج الامکان ہے ۔ بظاہر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ حکومتیں پیداوار اور ذرائع پیدوار کی ترتیب و تقسیم میں کوئی جوہری تبدیلی کریں جیسا کہ منڈی کی کھلی معیشت (free market)سے زیادہ حکومتی عملداری (planned economy)کی طرف پیش رفت جس سے عالمی تجارت میں رسد و فراہمی کے باہمی انحصارات کا امتزاج بدل جائے۔ ہلکے پُھلکے اقدامات جیسا کہ پیداواری حکمت عملیوں میں تنوع کے ساتھ کاروبار حیات اسی ڈگر پر چلتا رہے گا۔ ترقی پذیر ملک اسی سورج کے مدار میں گردش کرتے رہیں گے جیسا کہ کرتے آئے ہیں۔
۳۔ کرونا کی وجہ سے معاشی اور سیاسی تباہ کاریوں کومغرب میں بہت سے لوگ فطرت کے انتقام (ماحولیاتی آلودگی) کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ کیا مشرق میں کسی بیانئے مثلاً قدرت کا انصاف (مغرب کے نوآبادیاتی مظالم پر قدر کی پکڑ )کی علمی تشکیل کی جا سکتی ہے ؟
جواب: مغرب کے اس قماش کے لوگوں سے راقم الحروف کو رسم و راہ نہیں ہے۔ اہل مشرق میں عوامی سطح پر کرونا وائرس کے ہونے، نہ ہونے اور آغاز پر سازشی نظریات کی بحث چلتی ہے۔ اہل علم کی سرگرمیاں اس ضمن میں تحقیقی جرائد اور پرچوں میں چھپ جائیں گی اور وہ آپس میں پڑھ پڑھا لیں گے۔ ایسے کسی بیانیے کا سماج میں نامیاتی تصور کے طور پر پنپنا نظر نہیں آتا ہے۔
۴۔کرونا سے نبٹنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں نے آمرانہ طرزِ حکومت اپنایا، لبرل اقدار اور انسانی حقوق معطل ہو کر رہ گئے۔کیا اس امر سے انسانی حقوق کے آفاقی ہونے پر کوئی زد پڑتی ہے؟
جواب: انسانی حقوق کے جدید نظریات کے ماتحت بظاہر اجتماعی سے زیادہ انفرادی آزادیوں کو تیزی سے تقدیم حاصل ہو رہی تھی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو وبا سے مقابلہ کیلیے مختلف ممالک میں مختلف نوعیت کی حکمت عملیاں نظر آئی ہیں۔کم و بیش ہر جگہ انفرادی آزادیوں پر اجتماعی مفاد کے نام پر سمجھوتے کیے گئے ہیں۔ بظاہر ایسے اقدامات کی نوعیت وبا کے دورانیہ تک محدود وقتی نوعیت کی معلوم ہوتی ہے ۔ تاہم ان اقدامات سے اجتماعی مفاد کی عملی زندگی میں برتری مسلّم ہوگئی ہے ۔ کیا فرد اپنے حق میں خود بہتر فیصلہ کر سکتا ہے یا کس حد تک اپنے لیے فیصلہ کرنے کا مجاز ہے وغیرہ سے متعلق مباحث کا دروازہ اہل مغرب کے ہاں بھی دوبارہ کُھل جائے گا۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جدید سماج میں بھی ریاستی قوانین کی موجودگی بذات خود اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ انفرادی آزادی کے دائرے غیر متعین نہیں ہیں۔
۵۔ ۔ چین نے کرونا سے نبٹنےکے لیے بڑی موثر حکمت عملی اپنائی لہٰذا بہت سے تجزیہ کار مغرب کے نیو لبرل معاشی ماڈل کے بجائے چینی ماڈل کے بارے میں رطب اللسان ہیں اور بعض تو نیو لبرل ماڈل کے خاتمے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟
جواب: وبا سے نبٹنے میں چین کی حکمت عملی کو مؤثر سمجھا گیا ہے جس نے بہت سے تجزیہ کاروں کو پرجوش کر دیا ہے۔ ایک جماعت پر مشتمل سیاسی نظام نے انتظامی ڈھانچہ کو یکسوئی سے بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن چینی اشتراکی جماعت کو ہمارے ہاں کی ایک خاندان یا شخصیت کے گرد استوار سیاسی جماعتوں کے مماثل سمجھنا سادگی پر مبنی ہوگا۔ وہاں پارٹی کا رکن بننے سے لے کر بلند تریں سطح تک پہنچنے کا ایک نہایت پیچیدہ نظام ہے۔ آجکل پارٹی کی رکنیت کے لیے نظریاتی سے زیادہ پیشہ ورانہ اور تعلیمی قابلیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ اشتراکی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ معلومات کی کمیابی کے باعث چینی سماج کے اندر کی لہریں جانچنا ممکن نہیں ہے تاہم راقم کا خیال ہے کہ ماؤ کے بعد اشتراکی نظام میں بھی معیشت کی بنیادیں بدلنے سے پڑنے والے شگاف کی رفتار وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ابن خلدون نے مقدمہ میں موضوعات کی ترتیب میں روزگار کے امور کے بعد فکر و فلسفہ کو رکھنے کی توجیہہ انسانی ترجیحات کو بتایا ہے۔ سو یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ اشتراکی پارٹی کے اندر اور باہر اختلافی آوازیں نہ اُبھریں۔ چین کے صدر پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے سب سے طاقتور شخصیت ہیں بذات خود ثقافتی انقلاب کی بھٹی سے گذرے ہیں ۔ وہ پرانے تجربات کو دہرانا نہیں چاہیں گے۔
ہمیں یہ ہرگز نہ بھولنا چاہیے کہ چینی انتظامی ڈھانچہ کو بروئے کار آنے کے لیے وسائل اشتراکی معیشت نے فراہم نہیں کیے ہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ معیشت کے منڈی کے نظام کے تصور کو بروئے کار لا کر پیدا کیے گئے ہیں۔ ستر کی دہائی کے وسط میں عالمی معیشت کے ساتھ معاملہ کرنے کیلیے ڈینگ زیاؤپنگ نے سوشلسٹ ملک کے منڈی کی معیشت اپنانے کی وکالت کی تھی۔ یہ اسے دھیرے دھیرے کھلی منڈی کی معیشت کی طرف تیزی سے لے جارہی ہے۔کھلی منڈی کے ساتھ کھلے نظریات بھی آتے ہیں چنانچہ صورتحال سوال میں پیش کیے گئے مفروضہ کے برخلاف ہے۔ فی الحال نیولبرل سیاسی ماڈل کو للکار نے والا منظر پر نہیں ہے۔
۶۔ کیا کرونا نے پوسٹ ماڈرن کنڈیشن کو چیلنج کیا ہے؟
جواب: بظاہر ایسا نہیں لگ رہا ہے۔ہمہ گیر وبا نے ہمہ گیر اقدامات کی اہمیت تو یقیناً واضح کر دی ہے لیکن وبا کا خوف انسانی ذہن کی موجودہ صورتحال کو کسی آفاقی، ہمہ گیر نظریہ حیات کی جانب ضرور مائل کرے گا اسکے بارے میں وثوق سےکچھ نہیں کہا جا سکتا۔بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وبا کے خوف میں مبتلا وجود اس کا حل بھی اسی دنیا کی رنگا رنگی میں تلاش کرے گا اور بقا کی تلاش کے سارے ہتھکنڈے وہی ہیں جو قریب ایک صدی سے رائج ہیں۔ زندگی کو برتنے، برقرار رکھنے کیلیے بنیاد بشری نقطہ نگاہ human centric ہی رہے گا جو آج نوع انسانی کو عظیم انتشار، ایک نفسا نفسی کی کیفیت پر لا چکا ہے۔ وجودی بحران سے نبٹنے کیلیے مسرت کی تلاش میں سرگرداں انفرادیت کی مدد کو ایک عظیم کاروباری طلسم قائم ہوچکا ہے۔ چنانچہ وبا کی بے سکونی کو ماربھگانے کے لیے ہم سوشل میڈیا پر موجودگی بڑھتا لیتے ہیں ، نیٹ فلکس کھول کر وہ فلمیں دیکھتے ہیں جن میں بےہنگم انفرادیت کو اولین ترجیح دکھاکر مسرت کے حصول کے ذرائع تجویز کیے جاتے ہیں۔بہت کم ہوں گے جو اس وبا کے خوف کا کسی ارفع حیات بعد ازمرگ تصور پر یقین سے سامنا کریں گے۔
۷۔عوامی آگاہی کے تمام ذرائع (مثلاً صحت کے عالمی ادارے، تھنک ٹینکس، ہمہ قسم ریسرچ انسٹی ٹیوٹس، میڈیا وغیرہ) اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے زیرِ اثر ہیں۔ وبا کے بارے میں یہ تمام ذرائع کسی قسم کا تناظر فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔آپ اس صورتِ حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: قوسین میں دئیے گئے اداروں میں آخری ادارہ میڈیا بقیہ اداروں کی آراءہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ فی زمانہ تما م امور کاروباری ہیں اور عوامی آگاہی کے ذرائع tools اخبارات و نشریاتی اداروں کا اولین مقصد بھی روپیہ کمانا ہے دیگر مقاصد ثانوی ہیں۔ اس لیے ان کی توجہ ناظرین کی توجہ لینے کے لیے کسی بھی ہنگامی صورتحال پر فی الفور کچھ نہ کچھ مواد اور تجزیہ پیش کرنے پر ہوتی ہے۔ وبا کا ناگہانی ہونا اورعالم گیر پھیلاؤ میں سُرعت کے باعث اس کے اثرات کا ادراک کرنے، مقابلہ کرنے اور اس سے نبٹنے کی حکمت عملی وضع کرنے میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ چنانچہ نشریاتی اداروں و اخبارات نے بھی کسی چھان بین کے علاوہ جو ہاتھ لگا پیش کر دیا ۔ رائے یا تحقیق کا مستند و متفق علیہ ہونا کون دیکھتا ہے۔
راقم کی نظر میں عالمی ادارہ صحت ، تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینکس وبا کے خطرناک ہونے کے علاوہ معاملہ کی دیگر پیچیدگیوں اور مضمرات کا فوری ادراک نہ کرسکے۔لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے کوئی تناظر قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ فی الوقت وبا سے نبٹنے کے لیے تدبیر کا وقت ہے اور ہر ملک بساط بھر کر رہا ہے۔ اس پر سیاسی، معاشی اور سماجی تناظرات debriefing کے طریقہ کار سے سامنے آئیں گے۔