چوہدری، کھجور، نثار: ذوالقرنین سرور

 In تاثرات

ورلڈ اٹلس کے مطابق پاکستان کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ہمارے ملکی اداروں کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان اوسطاً  پانچ سو چھتیس ہزار ٹن کے قریب کھجور پیدا کرتا ہے۔ اور پاکستانی برآمدات میں یہ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ نیشنل بینک آف  پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق انداز  دو سو تیتیس اعشاریہ اٹھاسی ہزار ایکڑ رقبے پر کھجور کاشت ہے۔ نامیاتی کھجور کی پیداوار کے لیے پاکستان کی زمین اور آب و ہوا بہت سازگار ہےاور پاکستان کے چاروں صوبوں میں اس کی پیداوار موجود ہے۔ تاہم سندھ اور بلوچستان اس پیداوار میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود ہیں۔ کھجور کی معیاری پیداوار اور برآمدات میں اضافے کے حوالے سے پاکستان نیشنل بینک نے ایک باقاعدہ رپورٹ شائع کی تھی ۔ جس میں انہوں نے کھجور کی برآمد میں حائل مشکلات، جیسے ذخیرہ گوداموں کی کمی، ترسیل کےلیے نامناسب سہولیات، پیکنگ کے لیے ناکافی اورمعیاری سہولیات کی کمی، برآمد کرنے والی کمپنیوں کی اس طرف سے غفلت اورسرکار کی طرف سے  مناسب پالیسیز کا نہ ہونا تھا۔ اس رپورٹ کا مقصد ایک طرف تو کھجور جیسے قیمتی پھل کی اہمیت اور قدروقیمت باور کروانا تھا، اور دوسری جانب کھجور کے لیے باقاعدہ پروسیسنگ پلانٹس لگانے سے متعلق ابتدائی رہنمائی اور خرچہ جات کی تفصیل فراہم کرنا تھا تاکہ لوگوں کو اس جانب راغب کر کے نئے کاروبار کے مواقع کھولے جا سکیں۔

خیر یہ تو  کھجور  کی  پیداوار اور پاکستان میں اس کی اہمیت سے متعلق ایک طائرانہ جائزہ تھا۔ اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ مجھے ان ساری باتوں کی ضرورت کیوں پڑی۔ چند دن قبل ایک بہت پرانے کالم پر نظرپڑی۔ جس میں ملک کی ایک مانی تانی شخصیت کو قریباً ولی اللہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ شانِ نزول اس کالم کی یہ تھی کہ باوجود اس کے وہ جیسے بھی ہیں، ان کو جب دل کا درد ہوا تو انہوں نے اپنا علاج عجوہ کھجور سے کیا۔ سو اس کے بعد تو ان کے سارے گناہ دھل گئے، جس کے سبب ان  کو  نوجوانوں کے لیے  سرچشمہ ہدایت قرار دیتے ہوئے ان کے نقش پا کی پیروی  کی تلقین کی گئی تھی۔ اب جو علمیت کا یہ سمندر بہا،  تو یقینی طور پر کئی ایک دانشورانہ حلقوں میں کھجور زیر بحث رہی ہوگی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جن کے لیے زبان بولنے کا کام تو کرتی ہے لیکن دماغ کسی منطقی بات کو سمجھنے سے معذور ہے، انہوں نے  بغض نکالنا  اپنا فرض سمجھا۔ اور پھر فتویٰ کیا جاری کیا! کہ چونکہ کھجور اہل عرب سے منسوب ہے سو ہمیں اس پھل کو نہیں کھانا چاہیے۔ میں ان عقلمندوں کے فہم و ادراک کا احاطہ تو نہیں کر سکتا جوملکی معیشت کے ایک بڑے ستون کو محض اس لیے بیک جنبش لب مسترد کر دیں کہ اس سے بوئے رز نہیں آتی۔ لیکن ان کی پستیوں کی بلندی کا معترف ضرور ہوگیا ہوں۔ کیوں کہ کسی چیز کو رد یا قبول کرنے کا عمل  جتنا بھی مشکل یا منطقی ہو، اس میں قبول و رد کرنے والوں کی ذاتی خواہش کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات اور تجربات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ کئی ایک چیزیں ہمیں ناپسند ہوتی ہیں، لیکن ہم ان کو رد نہیں کرتے۔ کیوں کہ معاشی اور سماجی طور پر ان چیزوں کی اہمیت مسلم ہوتی ہے۔ کجا یہ کہ کسی ایک چیز کے تمام طبی و معاشی فوائد سے صرف نظر کر کے اس بنیاد پر رد   کر دیا جائے کہ وہ  سینکڑوں سال قبل کسی ایک خاص گروہ یا قوم سے منسوب تھی۔ میرے ذاتی خیال میں تنسیخ  کا اس سے مبتذل معیار شاید ہی کبھی  رہا ہو۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search