ایک دوست۔ تحریر: ذوالقرنین سرور

 In تاثرات

چند دن قبل ایک دوست کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ ایک اور دوست کی سرجری متوقع ہے۔ اس خبر نے ہمیں جہاں پریشانی کی دہلیز پر لا چھوڑا وہیں پر ورطہ حیرت میں بھی ڈال دیا کہ اللہ خیر کرے۔ چند دن قبل کی ملاقات میں تو صحت کے معاملات بارے کوئی ایسی بات سننے کو نہ ملی، پھر ایکا ایکی سرجری۔ دوست کو فون کیا، اور سرجری بارے تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ مختصر جواب یہی ملا کہ اپنڈکس کا معاملہ ہے۔ اس سے ہماری پریشانی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ ارادہ یہی تھا کہ ہسپتال کا چکر لگا لیں گے۔ عالم مدہوشی میں مریض کی ایک دو تصاویر کھینچیں گے۔ بڑبڑاتے ہوئے کی کوئی ویڈیو بنا لیں گے اور پھر اس پر گالیاں ڈب کر کے سوشل میڈیا پر کارِ خیر کی صورت میں چلا دیں گے۔ لیکن ان کی قسمت کا ستارہ عروج پر تھا، کہ ہم عیادت کو نہ جا سکے۔ خیر، آج عیادت کے لیے ان کے گھر جا پہنچے۔ 
اس سے پہلے میں کہ عیادت کا بیان کروں، جو لوگ مجھے جانتے ہیں، وہ میرے اندر موجود عیادت دار کی شدت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔عیادت کے لیے میں مریض ہو، جیسا ہو تک کی بنیاد پر چلا جاتا ہوں۔ ممکن ہو تو میں ان مریضوں کی بھی عیادت کر گزروں، جو صرف اقتدار سے دور ہونے پر بیمار ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ واپس آتے ہیں اپنے محکوم مریض کی طرف۔ 
آج عیادت کے لیے گئے تو پہلی خوشی جو ہوئی وہ یہ مریض لیٹا ہوا تھا۔ اس سے ہمارے اندر کے تیماردار کو حوصلہ ملا۔دوران گفتگو مریض ہنسنے کے دوران پیٹ پر ہاتھ رکھ لیتا تھا، اور بسا اوقات اشارے سے بھی لطیف بات کرنے سے منع کرتا رہا۔ اس سے دل میں حوصلہ بلند ہوا۔ مریض نے ہمارے ساتھ جوس بھی نوش نہ کیا۔ اس سے دل میں اس کی قدر اور بھی بڑھ گئی۔ بےارادہ ہی آئندہ بھی ہمیشہ اس کی عیادت کا تہیہ کر لیا ۔ مدت سے ایسے مریض کی راہ تک رہے تھے، جو آداب مریضاں سے کما حقہ واقف ہو ۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ایسی بیماریاں ان کے عزائم کو تہہ و بالا نہیں کر سکتیں، وہ حق اور سچ کا چراغ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ بلند کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر میں بیمار ہو گیا ہوں، لیکن میرا دل جوان ہوگیا ہے، اور اس بیماری نے مجھے روزمرہ سے ایک چھٹی سی دے دی ہے، جس کے سبب میں معاملات پر زیادہ گہری نظر ڈالنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ انہوں نے عصری سیاسی اور معاشی مسائل کے متعلق فقیر کے علم پر افسوس کا اظہار کیا، اور روبصحت ہونے کے بعد فقیر کے لیے چند دروس کے اہتمام کا بھی خیال ظاہر کیا۔ جس پر راقم نے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ 
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوست کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ مستقرہ عطا کرے، اور وہ صحتیاب ہو کر اپنے روزمرہ کے معاملات تندہی سے سرانجام دے سکیں۔ آمین یا رب العالمین


شانِ نزول:

دیروز دورانِ مجلس ایک خبر نما افسانے پر تبصرہ فرماتے ہوئے میرے ایک دوست شدید جذباتی ہوگئے۔ عمومی دنوں میں وہ انتہائی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں، لیکن کمزور لمحے سبھی انسانوں پر آتے ہیں۔ اسی جذباتی گفتگو کے دوران انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے بیان دیا کہ انسان اگر ٹماٹر خریدنے کی بھی کہانی بیان کرے، تو اس میں ایسا کچھ خاص ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے ذہن میں رہ جائے۔ کہا تو انہوں نے اور بھی بہت کچھ، مگر ہمارے کند ذہن میں ٹماٹر اٹک کر رہ گئے۔ آخر کیسے ٹماٹروں کی خریداری میں فلمی رنگ گھولے جائیں۔۔۔ ساری رات عجیب و غریب خواب آتے رہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سڑک پر چلے جا رہے ہیں۔ ہاتھ میں ٹماٹر کا تھیلا ہے۔ ایکا ایکی ایک سائیکل والا ٹکراتا ہے، سارے ٹماٹر سڑک پر بکھر جاتے ہیں۔ کچھ سڑک کنارے نالی میں جا گرتے ہیں۔جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو اور ٹماٹر خریدنے کے روپے نہیں ہیں۔ ایسے حقیقت بھرے خواب۔ اٹھ کر خود کو کوستے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں۔ کہ کہاں فلمی خواب۔ جہاں ایک حسینہ آتی ہے۔ آنچل لہراتی ہے۔ ہیرو کے ہاتھ سے ٹماٹروں کا تھیلا چھوٹ کر زمین پر جا گرتا ہے۔ اور وہ لہراتا ڈولتا اس حسینہ مہ جبینہ کے پیچھے پیچھے میکانکی انداز میں چلتا چلا جاتا ہے۔ اور کہاں۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔ اور وہ بھی سائیکل پر سوار۔۔۔ خواب میں بھی کوئی گاڑی نہ آکر ٹکرائی۔۔۔۔ ڈر کے مارے بقیہ رات نیند نہیں آئی کہ کہیں دوسرا سائیکل سوار ٹماٹروں کا وہ تھیلا بھی نہ گرا دے جو دوست سے روپے ادھار مانگ کر لیا ہے۔ تف ہے ایسے بےرونق اور بدسلیقہ خوابوں پر۔


دو کلو ٹماٹر:

اس کے رخسار سے خون ایک پتلی سی لکیر کی صورت بہہ کر گردن تک جا کر جم گیا تھا۔ بظاہر یہ کسی تیز دھار آلے کی ہلکی سی کھرونچ معلوم ہوتی تھی۔ گریبان کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے، اور سامنے کی جیب آدھی ادھڑ کر ہوا میں جھول رہی تھی۔ پیشانی کے پاس ایک چھوٹا سا گومڑ ابھرا ہوا تھا، اور کان کے پیچھے ایک گہرا نیل معلوم ہوتا تھا۔ بایاں کف پھٹا ہوا تھا۔ اس سب کے باوجود اس کی چال میں ایک وقار تھا۔ہر شخص اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور اِس حلیے کے متعلق قسم قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ لیکن وہ ان سب سے بے پروا تیز تیز قدموں سے گلی کے اختتام پر موجود چھوٹی سی مارکیٹ کی طرف جا رہا تھا۔سبزی کے ٹھیلے کے سامنے آ کر اس کے قدم رک گئے۔ ٹھیلے پر پہلے سے چند مرد و خواتین سبزیوں کی خریداری میں مصروف تھے۔ وہ ان کے پیچھے ٹھہر گیا۔ سبزی والے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہا۔ سبھی لوگ سبزی فروش کے چونکنے پر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ دو کلو ٹماٹر دے دو۔ اس نے تمکنت بھرے لہجے میں سبزی فروش سے کہا۔

یہ ایک متوسط طبقے کا نمائندہ گھر تھا۔ داخلی دروازے کے ساتھ ہی ٹی وی لاونج اور بائیں طرف ڈرائنگ روم کا دروازہ۔ ٹی وی لاونج سے گزر ایک بیڈ روم ۔ لیکن اِس بیڈ روم اور ٹی وی لاونج کے درمیان میں دیوارِگریہ تھی۔ یعنی مطبخ۔ ٹی وی پر اس وقت فٹبال کا میچ جاری تھا، اور صاحبِ خانہ ٹی وی کے سامنے رکھے صوفے پر ٹانگیں پھیلائے، ساتھ اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ رکھے، دنیا و مافیہا سے بے خبر ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ گویا انہیں یہ خطرہ ہے کہ اگر پلک بھی جھپکی تو پورا میچ دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔ بیگم صاحبہ نے ایک نظر صاحب پر ڈالی اور کہا۔جوتے اتار دیتے۔ اتار دیتا ہوں۔ صاحب نے ٹی وی پر نظریں گاڑے گاڑے گھمبیر آواز میں جواب دیا۔ کپڑے بدل لیں، جب سے دفتر سے لوٹے ہیں، یہیں بیٹھے ہیں، گویا کسی نے گوند سے چپکا دیا ہے۔ صاحب نے پہلی بار ٹی وی سے نظریں ہٹا کر ایک غصیلی نظر بیگم پر ڈالی، مگر خاموش رہے اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئے۔ بیگم صاحبہ کچن کے اندر چلی گئیں، لیکن ان کی آواز پہلے سے زیادہ واضح اور بلند سنائی دینے لگی۔ کس عذاب میں پھنس گئی ہوں۔ پورا دن کام کرو۔ ان کے نخرے اٹھاؤ۔ ان کے بچوں کے نخرے اٹھاؤ۔ سبزی چھیلتے چھیلتے بیگم صاحبہ پر یکلخت راز کھلا کہ ٹماٹر نہیں ہیں۔ دن میں جب سبزی والا گلی میں آیا تھا تو وہ ٹماٹر لینا بھول گئی تھیں۔ نہیں! وہ بھولی نہیں تھیں، انہیں لگا کہ ایک دو ٹماٹر پڑے ہیں، چنانچہ آج ٹماٹر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ کیا! گھر میں تو ٹماٹر ہی نہیں ہے۔ انہوں نے وہیں سے پھنکارتے ہوئے لہجے میں آواز دی۔ سنتے ہیں؟ اِدھر آئیں! میاں صاحب چاروناچار صوفے سے اٹھے اور باورچی خانہ میں آگئے۔ جی! انہوں نے خشونت بھرے لہجے میں کہا۔ بیگم جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھیں۔ یہ کیسے بول رہے ہیں آپ؟ جائیں ٹماٹر لے کر آئیں ابھی کہ ابھی! وگرنہ مجھ سے کچھ مت مانگیے گا کھانے کو۔ انہوں نے گھی کے اندر چمچہ ہلاتے ہوئے تقریبا چیختے ہوئے کہا۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ صاحب کے لہجے میں تلخی عو د کر آئی۔ جانے کس لمحےڈوئی خود ہی اڑتی ہوئی صاحب کی پیشانی سے جا ٹکرائی۔ غیر مرئی قوتوں نے بیگم کے دائیں ہاتھ پر قبضہ کر لیا اور صاحب کا گریبان کھینچ لیا۔ گریبان چھڑایا تو بایاں ہاتھ کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر رخسار پر پڑا اورلمبے ناخن نے اپنے نقوش میاں کے چہرے پر چھوڑ دیے۔ صاحب نے پلٹنے کی کوشش کی تو اسی نادیدہ قوت نے، جو اب بیگم صاحبہ کے مکمل وجود پر قابض ہوچکی تھی، کھینچنے کی کوشش کی، جس سے جیب جاتی رہی اور سٹیل کا گلاس کان کے نیچے اپنے رنگ چھوڑ گیا۔ زمین پر لیٹے لیٹے صاحب نے صلح کی سفید جھنڈی بلند کی، جو ان کا اپنا ہی کف تھا۔ اور گھر سے نکل گئے۔ پیچھے سے بیگم صاحبہ کی آواز آ رہی تھی۔ رکیے۔ سنیے! حلیہ تو درست کرتے جائیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟

سبزی فروش کی دکان پر ہر آنکھ سوالیہ انداز میں اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ سب سے بےپروا اپنا وقار بحال رکھے، بغیر کسی سے بات کیے ایسے ظاہر کرتا رہا جیسے یہ لوگ کچھ ایسا دیکھ رہے ہیں، جو اُسے نہیں پتا۔ ٹماٹر کا تھیلا لے کر پلٹتے وقت، اسے وہ وقت یاد آرہا تھا، جب وہ قومی باکسنگ فاتح کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ تمام دوست اس کے عشق پر ہنستے تھے۔ اور پھر جس دن وہ اظہار کے لیے گیا، تو اس کے دوستوں نے اسے بار بار منع کیا۔ اور پھر جاتے وقت اسے اپنے دوست کی آواز آ رہی تھی۔ ”پِٹے گا سالا!“۔ اس نے گھر کی طرف مُڑتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ اور دل میں سوچا۔ کاش! اسی دن پِٹ گیا ہوتا۔


چالیس برس بعد ۔۔۔
ہمارے ایک دوست ہیں، بہت سیدھے اور شریف الطبع۔ یوں سمجھیے کہ یوسفی کی تحریر ”نیک چلنی کا سائن بورڈ“ کی عملی مثال ہیں۔ لوگوں کی دل آزاری کے معاملات میں اس درجہ احتیاط پسند ہیں، کہ سخت بات کہنی ہو تو اس آدمی کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں، جانے کب وہ اس دنیا سے جائے اور یہ اس کی قبر پر جا کر کہیں کہ فلاں دن تو نے اچھا نہیں کیا تھا۔ میرا دل تھا تیرا منہ توڑ دوں، لیکن آج تو مر گیا ہے تو دشمنی ختم کرنے کو تیری قبر کی ایک اینٹ ڈھیلی کر کے جا رہا ہوں۔ ہمارا حساب برابر ہوگیا۔ ہم ان کی اس دشمن دار طبعیت سے بہت نالاں ہیں۔
ابھی آج ہی کی بات لیجیے۔ کسی مصنف پر غصہ تھے۔ فرمانے لگے کہ میرا دل کرتا ہے چالیس برس بعد جب یہ مصنف بوڑھا ہوجائے تو میں اس سے پوچھوں کہ اب بتا! تیری کہانی میں کتنا دم تھا۔ کیا اب بھی تم اپنی کہانی میں بیان کردہ موضوعات پر قائم ہو، کہ جذباتی وابستگی غیر منطقی ہوتی ہے اور کمزور فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ اب جب تم بوڑھے ہو کر تنہائی کا شکار ہو چکے ہو، اور تمہارے عزیز و اقارب جن سے زندگی بھر کوئی تعلق نہ بنا پائے، ان میں اب کوئی بھی تمہارے پاس نہیں ہے۔ کیا اس وحشت ناک تنہائی میں تمہیں اپنے کیے گئے ان فیصلوں پر ندامت ہے، جن کو تم نے زندگی بھر سودوزیاں کی تگڑی میں تولا ہے؟ جب کھڑکی کے باہر پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے ہو، تو کیا تمہیں موسیقی سنائی دیتی ہے یا کسی کرب کا احساس جاگ اٹھتا ہے کہ کاش اس وقت وہ پیارے پاس ہوتے، جن کی میری لاتعلقی نے مجھ سے دور کر دیا۔ کیا کھانے میں وہ ذائقہ ہے جو تمہیں تمہاری بیوی کے ہاتھوں سے بنے کھانے میں محسوس ہوتا تھا، کہ یہ بےذائقہ کھانا صرف جسم کو گھسیٹنے کے کام آ رہا ہے۔ ان کی باتیں سن کر ہمیں بھی شدید غصہ آگیا، اور دل کیا کہ فوراً سے پیشتر ایسے مصنف کو اس کا مستقبل دکھا دیں، جہاں وہ ایک المناک تنہائی کا شکار ہو کر پلنگ پر لیٹا باہر ساکت درختوں کو دیکھ رہا ہے، اور کوئی عزیز جاں اس کی دیکھ بھال کو نہیں۔ دن کے کسی پہر ایک نرس آتی ہے۔ دوائیاں دے جاتی ہے ۔ گھر کے کام کاج کو ایک نوکرانی ہے جو دن میں ایک وقت آ کر کھانا بنا جاتی ہے اور گھر صاف کر جاتی ہے۔ باقی کا دن اور رات بستر سے کھڑکی تک اور کھڑکی سے بستر تک کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بیچ میں پرندوں کی چہچہاہٹ پر نوحوں کا گمان ہوتا ہے۔ گاڑیوں کا شور خواب بہاراں کو پریشان کرتا ہے اور ہوا سے پتوں کے ہلنے کی سرسراہٹ ملک الموت کے قدموں کی چاپ معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے دل میں تھا کہ اس مصنف کو کہیں کہ دیواری ساعت کو دیکھو، وہ بھی تمہاری تنہائی کی طرح ٹھہرا ہوا ہے اور تم اس میں نئے برقی سیل ڈالنے میں خود کو اسی طرح بے بس پاتے ہو جیسے اس پرملال تنہائی کے علاج میں۔ دل میں سو سو طرح کی مثالیں تھیں، کہ تنہائی اور ندامت کا ایسا نقشہ کھینچیں گے کہ وہ رو اٹھے گا۔ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے گا اور پکا رکر کہے گا، بخدا! یہاں سے چلے جاؤ۔ میں پہلے ہی اپنی زندگی کے بدترین ایام گزار رہا ہوں۔
لیکن پھر ایکا ایکی کہیں سے ساحر لدھیانوی ٹپک پڑے، اور کہا کہ ”مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے“۔ کیسا عالم! ہم نے کسی پرانی فلمی دوشیزہ کی طرح انگلیاں دانتوں میں دبا کر استعجابیہ انداز میں پوچھا؟ دو باتیں، ایک تو وہ مصنف پہلے ہی بوڑھا تھا، تم نے تحریر چالیس برس بعد پڑھی ہے، دوسرا یہ کہ وہ کافی عرصہ قبل ہی تنہائی کا شکار ہوئے بغیر اس دنیا سے سدھار گیا ہے، اور مرتے دم تک اسی بات پر قائم رہا کہ جذباتی وابستگی کمزور فیصلوں پر مجبور کرتی ہے۔ اس خبر کے ملنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ جب بھی وقت ملا اِسے سو کر گزاریں گے، کسی سے نہ ملیں گے۔ فارغ وقت میں فارغ رہیں گے، کچھ نہ لکھیں گے اور سب سے اہم۔ کسی کو برا کہنے کے لیے چالیس برس انتظار تو ہرگز نہ کریں گے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search