مرا کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔ زاہد نبی

 In غزل

مرا کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

یہ دنیا دار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

دیے کی لو سے بھی اب آنکھ میں جنبش نہیں ہوتی

سو شب بیدار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

بہت عجلت میں تھا آغاز سے قصہ محبت کا

دوانہ وار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

میں دریا برد کر آیا ہوں اپنے بیکراں آنسو

زرِبیکار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

جسے موجود ہونا چاہیے موجود ہوتا ہے

مرا درکار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

پلٹ کر آ گیا ہوں پہلی تنہائی کی صحبت میں

میں آخر کار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

 

ابھرتا ڈوبتا رہتا تھا دل خورشید کی صورت

میں کتنی بار اپنے منطقی انجام کو پہنچا

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search