ان صحبتوں میں آخر۔۔۔ افسانہ: شمس الرحمن فاروقی (تاثرات: سردار عماد رازق)
شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم کے تاریخی افسانے اردو فکشن کا ایک اہم حصہ ہیں۔ فاروقی صاحب اپنی مسلم الثبوت زبان دانی اور ہمہ جہت مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان دونوں خصائص کا کما حقہ مصرف و اطلاق بھی جانتے تھے۔ زبان دانی اور مطالعے کو صحیح جگہ پر کھپانا از خود ایک استاذانہ وصف ہے وگرنہ بہت سوں کو زبان بھی آتی ہے اور اذہان پر بارِ معلومات کی گٹھڑیاں بھی بکثرت دھری ہوتی ہیں، لیکن ناہنجاروں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس سرمایۂ بے بہا کا استعمال کہاں ہو۔ فاروقی صاحب نے جن عظیم شخصیات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے، انھیں اپنے قلم معجز بیاں سے ان کے تاریخی حالات سمیت گویا صفحۂ قرطاس پہ مجسم کر دیا ہے۔ ان کے افسانوں کا اعجاز یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں یا ان سے متعلقہ زمان و مکاں کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے کہیں بھی عجزِ اظہار یا قلتِ معلوماتِ متعلقہ کا شکار نظر نہیں آتے، اور نہ ہی (چاہے افسانہ کتنا ہی طویل ہو) کسی جگہ قلم ڈھیلا پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے ان کے ہاں جس طرز کی زبان کا استعمال آغاز افسانہ میں ہوتا ہے، اختتام تک اسی کا التزام رہتا ہے۔ جیسا اچھا شعری انتخاب ابتداء میں ہو، ویسا ہی معیار تا آخر رہتا ہے۔ ایک ایسے اسلوب میں لمبی سانس کی متقاضی لکھت، جو بداہتاً آپ کا نہ ہو بلکہ کہانی کی ضرورت کے تحت اپنایا گیا ہو، کو جس طرح فاروقی صاحب نے نبھایا ہے یہ انھی کا خاصہ ہے۔
مندرجہ بالا اوصافِ عالیہ فاروقی صاحب کے دیگر فکشن کی طرح ان کے میر تقی میر پر لکھے گئے افسانے ”ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔“ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ میر صاحب بلا شرکتِ غیرے اردو کے عظیم ترین شاعر ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سخن فہم پر نہ صرف لازم ہے، بلکہ اس کی سخن فہمی کی صحت کا پیمانہ بھی ہے۔ میر کی بڑائی تسلیم کیے بغیر اردو شاعری کی کوئی سمت رہتی ہے اور نہ ہی منزل۔ ریختہ اگر کوئی زمینی قافلہ ہے تو میر اس کا قافلہ سالار ہے، اگر یہ ناؤ ہے تو میر اسکا ناخدا ہےاور اگر یہ غولِ طائرانِ بلند پرواز ہے تو میر اس کا سرکردہ شہباز ! عظمتِ میر اردو شاعری کا وہ سمت نما ہے کہ جہاں اس کی صحیح پیروی کسی کو منزل کمال تک پہنچاتی ہے وہیں عدم پیروی گم کردہ راہ کر دیتی ہے۔ میر صاحب نے اردو کو قریب قریب تمام شعری اصناف سے روشناس کرایا، اسے ایک عظیم بحر دی جو آج تک مستعمل ہے، اور دیگر زبانوں کو اس طرز سے ریختہ میں کھپایا کہ ان کے الفاظ ازل سے اسی میں گندھے ہوئےمحسوس ہونے لگے۔ گویا میر نے اردو کو آغازِ ارتقاء میں ہی، جب ہر سو فارسی و عربی کا طوطی بولتا تھا، اس قدر مالا مال کر دیا کہ وہ کم از کم شاعری میں ان موقر و تونگر زبانوں کی ہمسری کے لائق ہو گئی۔ خیر، خدائے سخن کی عظمت اپنے آپ میں ایک مستقل بابِ کلام ہے جس بابت بہت کچھ کہا گیا اور میر کی آفاقیت کو مد نظر رکھ کر یہ دعویٰ باآسانی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ بھی بہت کچھ کہا جائے گا۔ سر دست ہمارے پیش نظر فاروقی صاحب کا متذکرہ افسانہ ہے جس کا عنوان حضرتِ میر کے درج ذیل شعر سے لیا گیا ہے: ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں نے عشق کو ہے صرفہ ‘نے حسن کو محابا
افسانہ اپنی کہانی اور بندش، ہر دو میں کلاسیکی ہے۔ کردار اپنے زمان و مکاں میں یکسر گندھے ہوئے ہیں۔ یوں کہ ان میں اور تاریخ کے اس عہد کے معلوم معروضی حالات میں سوائے افسانوی ضرورت کے، کوئی مغائرت محسوس نہیں ہوتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب کا قلم دمِ تحریر روزنِ حال سے غرفۂ ماضی میں برابر جھانکتا رہتا ہے جس سے اسے تحریر کے لیے درکار نظری کمک پہنچتی رہتی ہے۔ ایسی پختہ منظر کشی استشہادِ چشم کے سوا کہاں ممکن لگتی ہے!
فاروقی صاحب کے ناول اور افسانوں کا ایک اختصاصی پہلو انتخابِ اشعار ہے جو ان کے دیگر کاموں کی طرح مذکورہ افسانے میں بھی حدِ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اس باب میں اردو کا کوئی دوسرا ادیب فاروقی صاحب کی ہمسری کا دعویٰ تک نہیں کر سکتا، اس کی صحت کا تو سوال ہی کیا ہے! یہ اشعار درج کرنے کا محل نہیں کہ وہ تحائفِ بیش قیمت خوگرانِ مطالعہ واسطے مناسب مقامات پر دھرے گئے ہیں۔ البتہ یہ جان رکھیے کہ انتخاب شعر بابت فاروقی صاحب کا ذوقِ سلیم بمنزلہ سند ہے۔ اور یہاں بھی درسیوں کی مانند بے طرح اشعار در اشعار کا ڈھیر نہیں لگایا گیا بلکہ ایک ایک مصرع اپنے گرد و پیش بیان سے متصل اور مجموعی کہانی میں جمالیاتی اضافے کا سبب ہے۔
افسانے کا ایک جزو لا ینفک، یعنی مرکزی کردار کا دیگر کرداروں سے اس قدر ممتاز اور توانا ہونا کہ اس کی مرکزیت لابدی معلوم ہو، اس افسانے میں مسدود ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کردار کی مرکزیت کا لازمی نیتجہ افسانے کے حجم کے فیصدی تناسب میں سے اس کردار کا سب سے بڑا حصہ نہیں ہے۔ البتہ کردار سازی میں یہ التزام بہرحال لازمی ہے کہ افسانے کا کوئی دوسرا کردار اس سے بڑھا ہوا نہ لگے۔ فاروقی صاحب نے اس افسانے میں لبیبہ خانم کے کردار کو جس عمدگی کیساتھ از بچپن تا پیری نبھایا ہے، حق یہ ہے کہ اس کے سامنے دیگر تمام کردار ہیچ ہیں۔ اول تو میر صاحب کی زندگی کے بہت ہی محدود حصے کو مضمونِ افسانہ بنایا گیا، پھر وہ اس حصے کی افسانوی کائنات کے بھی روح رواں کے طور پر سامنے نہیں لائے گئے۔ یہ درست ہے کہ میر صاحب کی حیات کے اتنے متنوع پہلو ہیں کہ اگر سب کو مشمولات افسانہ بنایا جاتا تو ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کی ضخامت ایسا کوئی ناول لکھنا پڑتا، اور یہ بھی افسانہ نگار کی صواب دید ہے کہ اس نے افسانے کیلیے میر کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو چنا۔ لیکن ایسے میں لبیبہ خانم ایسا مضبوط کردار کسی اور افسانے کیلیے اٹھا رکھا جاتا یا اس افسانے کو میر سے نسبت نہ دی جاتی تو انسب تھا۔ ایسے میں افسانے کی طوالت اور اٹھارویں صدی کی عراقی و ارمینی معاشرت کے بیان کی قربانی ضرور ہوتی لیکن میر صاحب کی مرکزیت قائم رہتی۔
افسانہ بہت عمدہ ہے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اسے ضرور پڑھیے!