ایک فرضی شعری مجموعے پر نیم فارمولائی تبصرہ۔ تحریر: سردار عماد رازق

 In مزاح

احباب! حال ہی میں میرے دوست ”بالائے فہم“، جو عرصہ نامعلوم سے سرعتِ شعری کا شکار ہے، کا نیا شعری مجموعہ ”دھرتی پہ بوجھ“ منظر عام پر آیا ہے۔ مجموعہ کیا ہے گویا ہیرے کی کنی ہے: چاہیں تو اس کے طفیل بے بہا علمی دولت کمائیں اور چاہیں تو چاٹ کر مر جائیں! بالائے فہم کا شعری سفر اس کے سفرِ حیات کے متوازی—بلکہ کچھ حوالوں سے اس سے بھی تجاوز کرتا ہوا—چل رہا ہے۔ اس نے اپنی شاعری میں انسانی نفسیات کی انتہائی گہری (پاتالی) بصیرت کھپائی ہے۔ اتنی گہری کہ اگر اس کے کلام پر خورد بینی نگاہ (اور کچھ مٹی) ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کا جذبہ کس قدر سچا اور اظہار کس درجہ پختہ ہے۔

بالائے فہم ایک اسلوب ساز شاعر ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ حضرات کیلئے شاید یہ بات زیادہ حیرانی کا باعث نہ ہو لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ میرا ہر دوست اپنی ذات میں انجمنِ اسالیب ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس کا اسلوب ہنوز عالمِ شہود پر (یا خود اس کی اپنی ذات پر بھی) ظاہر نہ ہوا ہو۔ اگر آپ میں سے کوئی ”صاحبِ اسلوب یا اسلوب ساز شاعر کون ہوتا ہے “ کے گرد گھومتے سوالات پوچھنے کا ارادہ رکھتا ہے تو گزارش ہے کہ ایسا کوئی ارادہ ترک کر دے۔ بس ذہن میں اتنا رکھ لیں کہ اسلوب ساز شاعر وہی ہوتا ہے جو ہمارا تعلق دار ہو اور کسی نا کسی طور سیاہی اور بھلے بھدے کاغذ کا بندو بست کر کے اپنے رشحاتِ (بے) فکر چھپوا دے۔ 

اس مجموعے کے اثرات کی بات کروں تو ہماری ادبی فضا جو عرصہ دراز سے بنجر چلی آتی تھی (اگر کسی کو یہ تشویش لاحق ہو کہ بنجر زمین ہوتی ہے، فضا نہیں؛ تو میرا مشورہ ہے کہ وہ فوری طور پر میرے دوست کا مجموعہ دیکھے جو اس قبیل کے ’روایت شکن‘ تلازمات سے رچا بسا ہے) ”دھرتی پہ بوجھ“ کے ذریعے گویا از سر نو زرخیز ہو گئی ہے۔ بالائے فہم نے اپنی شاعری کی اثر ابگیزی کو دوچند کرنے کیلئے نہ صرف متقدمین اردو شعراء، بلکہ فارسی، ہندی، سنسکرت، عربی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، لاطینی، یونانی، وغیرہ ایسی عالمی زبانوں کی ارفع ترین شعری روایت جبکہ برصغیر میں بولی جانے والی تمام مقامی زبانوں کی شاعری سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مزید برآں کچھ افواہیں یہ بھی ہیں کہ اس نے اسم بامسمی ہونے کیلیے چرند پرند کی بولیاں سیکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ گو ان کی شاعری میں اس امر کے مسّلم شواہد ملتے ہیں لیکن چونکہ ابھی تک ہمارے دوست نے اس حوالے سے اپنے موقف کا حتمی اظہار نہیں کیا تو ہم سر دست ان چہ میگوئیوں پر زیادہ کان نہیں دھرتے! 

خالص فنی حوالے سے بات کی جائے ہمارے دوست نے اس تازہ مجموعے میں محاورہ، روزمرہ ، استعارہ ، تشبیہ، کنایہ، اصنافِ غریبہ، حسنِ تعلیل، صنائع، اور دیگر لطائفِ سخن کو اس چابک دستی اور استادانہ نہاں سازی سے برتا ہے کہ کہیں کسی کا نام و نشاں تک نہیں ملتا۔ بالائے فہم چونکہ عام آدمی کا شاعر ہے ، پس وہ خاص تکلفات میں کم پڑتا ہے۔ اس کا مجموعہ از اول تا آخر دیکھ جائیے،میں شرطیہ کہتا ہوں کہ آپ طغیانیِ سخن کے بحرِ بے کنار میں ڈبکیاں کھاتے کہیں ٹھہر نہیں پائیں گے۔ بہت ہوا تو شاید چند بار سر کھجانے کی فرصت بہم آئے وگرنہ فاضل دوست نے قاری کو فہمِ شعر کی سر کھپائی سے بچانے کے لیے خود بھی حتی المقدور کارِ ذہنی سے بے اعتنائی ہی برتی ہے۔ 

آخر میں گزارش ہے کہ آپ یہ کتاب خرید کر خود بھی پڑھیے اور ہر سخن (نا) فہم کو بھی پڑھائیے۔ امید ہے یہ مجموعہ شاعری کی ”دھرتی پہ بوجھ“ میں اضافے کا باعث بنے گا! 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search