انتہاؤں کا اتصال، مترجم ڈاکٹر تحسین فراقی

 In ترجمہ

نوٹ: یہ مضمون مارٹن لنگز (ابوبکر سراج الدین)  کی معرکہ آرا کتاب Ancient   Beliefs   and   Modern   Superstitions کا چھٹا اور آخری باب ہے جس کا عنوان ہے The   Meeting   of   Extremes۔ چوں کہ جائزہ ویب گاہ  پر مارٹن لنگز کے ایک اہم مضمون کا اردو ترجمہ پہلے ہی سے موجود ہے لہٰذا اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی غرض سے ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے  زیرِنظر اردو ترجمے کو بھی پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس ترجمے کی اولین اشاعت  محترم مبین مرزا صاحب کے زیر ِ ادارت شائع ہونے والے معروف کتابی سلسلے مکالمہ کے  45 ویں شمارے (سال نامہ 2019)  میں ہوئی تھی ۔

مغرب میں کئی صدیوں سے برسرِ کار منفی رجحانات اس صدی کے آغاز سے مزید جڑ پکڑ گئے ہیں اور مزید زور پکڑتے جا رہے ہیں اور اُسی وقت سے یہ دنیا میں ہر طرف بڑی تیزی سے پھیلتے جا رہے ہیں ، لیکن اُس وقت اور موجودہ صورتِ حال میں ایک فر ق البتہ نمایاں ہے  کہ جو نقطۂ نظر ان منفی رجحانات کا محرک اور باعث رہا اور جو اپنی جگہ مکمل اور غلطی سے پاک نقطۂ نظر سمجھا جاتا رہا ،  اب  اس میں لڑکھڑاہٹ کے آثار پیدا ہو چلے ہیں ، لیکن اس نئی صورتِ حال کے باوجود بھی لوگ پہلے کی طرح ٹھیک اسی سمت پیش قدمی کر رہے ہیں اور جوں جوں وہ یہ رستہ طے کرتے چلے جا رہے ہیں ، معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ان کی یہ پیش قدمی مشتاق جوشیلوں کے بجائے بے بس مشینوں کی سی ہے اور اس اعتبار سے اب افراد کے لیے اس عام نقطۂ نظر سے انحراف ماضی کی نسبت آسان ہو گیا ہے ۔ جدید دنیا کی عظیم  پُرشکوہ عمارت میں اب دراڑیں پڑنے لگی ہیں اور اب ان دراڑوں نے ایک ایسے نقطۂ نظر کے ظہور کی گنجائش پیدا کر دی ہے جو عہدِ جدید کے مزعومہ نقطۂ نظر کے کلیتاً مخالف ہے ۔

اب کئی ایسی مختلف علامتیں اور آثار نمایاں ہو رہے ہیں جن سے یہ صاف پتا چل رہا ہے کہ موجودہ عہد اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ایک ایسے  اختتام کو جو بہ ذاتِ خود کئی انتہاؤں کی مفاہمت اور اتصال کا سبب بنے گا اور اِن ’’آثارِ وقت‘‘ میں  نسبتاً کم تر درجے میں انتہاؤں کا اتصال تو ہونے بھی لگا ہے جن کا تجربہ کم وبیش ہر دائرہ کار میں کیا جا سکتا ہے ۔ جس عہد میں ہم آپ سانس لے رہے ہیں اس کا ایک کھلا ہوا تضاد تو اس حیران کن صورت میں نمایاں ہے کہ دُنیا کے کسی بھی عہد میں جعلی مذاہب اور بدعات کا وہ دَور  دَورہ نہیں رہا ہے  جیسا کہ اس عہد میں ہے اور اگرچہ اس کے نتیجے میں گمراہی کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مذہب کے نام پر جمع ہونے والے اس خس و خاشاک میں ٹھیک ٹھیک سچے مذہب کا کھوج لگانا نسبتاً آسان بھی ہو گیا ہے ۔ بابیت ، بہائیت ، عیسوی سائنس ، تھیوصوفی ، ایتھروصوفی ، ازسرنو اخلاقی مسلح کاری (Moral   Rearmament) اور سبد (Subud) وغیرہ چند مسالک و مذاہب کے بنجر میدانوں سے پرے دُنیا کے عظیم مذاہب سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ جب کے نام گنانے کی ضرورت نہیں ۔ ان میں سے ہر مذہب پہاڑوں کے ایک وسیع و بسیط سلسلے کی مانند پھیلا ہوا ہے اور ان کی آسمان کو چھوتی رشد و احسان کی چوٹیاں ، سفید براق برف سے ڈھکی ، دعوتِ فکر دیتی ہیں ۔ ان کے پس منظر میں جہاں تہاں قبل از تاریخ کے ان چند مذاہب کی دھندلی چوٹیاں بھی دکھائی پڑتی ہیں  جن کو نئے مذاہب کے لیے یا تو جگہ خالی کرنا پڑی یا اپنی تجدید و توثیق کرنا پڑی کہ ان کے ماننے والے انہیں بھول چکے تھے ، لیکن جہاں تک آج کسی نئے مذہب کی ضرورت کا تعلق ہے تو واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں کسی ایک بھی نئے  مذہب کی گنجائش نہیں ، کیوں کہ اب دنیا میں کہیں بھی کسی ایسی قوم کا وجود نہیں جس کی حالت کا قبل ِ مسیح  کے یونانیوں ، رومیوں ، جرمنوں یا پھر قبل از اسلام کے عربوں، ایرانیوں اور ہندوستان کے غیر ہندوؤں سے تقابل کیا جا سکے ۔ اب دُنیا یں موجود ہر گروہ کے لیے نفسیاتی اور جغرافیائی ہر اعتبار سے کم از کم کسی ایک سچے مذہب تک رسائی حاصل کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے (1) ۔ ایک ایسا مذہب جو اپنے اردگرد بدعات کے جھاڑ جھنکاڑ کے اُگ آنے کے باوجود پوری طرح محفوظ و مصون اور لائقِ اعتماد ہے اور جس کے ہوتے ہوئے کسی اضافی مذہب کا تصور بھی محال ہے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے وقت کی شدید ضرورت کے باعث ایک دوسرے کے بارے میں معروضی علم کے مہیا ہو جانے کے باعث ان مذاہب کی ایسی تجدید اور تشکیلِ نو ہو گئی ہے جیسی ماضی میں کبھی نہ ہوئی تھی ۔

اس بات کا سبھی کو علم ہے کہ ہمارے آبا و اجداد اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے وجود سے بے خبر نہ تھے ، لیکن چوں کہ ان کے اپنے مذہب کا خیرہ کن آفتاب عین ان کے سروں پر چمک رہا تھا ، اس لیے کہیں دُور بہت دُور آفاق پر چمکنے والے اجرام ان کے لیے نہ تو کسی مثبت دل چسپی کا باعث بن سکے اور نہ کسی طرح کے مسائل پیدا کر سکے ، لیکن آج وہ آفاق ہم سے زیادہ دُور نہیں رہے ۔ اگرچہ اس بڑی برائی کے بیچ جس کے نتیجے میں مذاہب ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں ، کسی قدر خیر نے بھی ناگزیر طور پر اپنی جگہ پیدا کر لی ہے ۔

یہ سچ ہے کہ دیگر مذاہب میں عہدِ جدید کی دل چسپی یا ان کے ساتھ رواداری کی اگر ساری کی ساری نہیں تو کم از کم بڑی وجہ باہمی افہام و تفہیم ہرگز نہیں ، بلکہ یہ نتیجہ ہے  مدرسانہ تفتیش کا یا پھر اس مذہبی بے حسی و بے نیازی کا جس میں نام نہاد ’’آزادی ‘‘  کے عناصر شامل ہو گئے ہیں ۔ بلاشبہ چند ایسے  سچے عیسائی ضرور موجود ہیں جنھیں یہ جاننے کی ضرورت ہے اور جن کے مذہبِ عیسوی کو اس بات سے بڑی  تقویت ملتی ہے کہ بدھ مت بھی اتنا ہی اہم مذہب ہے جتنی کہ خود عیسائیت اور جس نے پچھلے دو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے ایشیائیوں کے روحانی مطالبات کی عیسائیت سے کہیں زیادہ تشفی کی ہے ۔ انہیں یہ جاننے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اپنے عہدِ موجود میں دیگر مذاہب سے خاصی آگاہی کی فضا میں ، ان کا اس کے برعکس سوچنا دراصل ربِّ رحیم کے باب میں غلط سوچنے کے مترادف ہے اور یوں نتیجتاً خود عیسائیت کے بارے میں جو ا پنی عظمت کے لیے کلیتاً اللہ کی عظمت پر منحصر ہے ، غلط سوچنے کے مترادف ہے ۔

زیادہ سہولت کے ساتھ بات کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ا س سے پہلے کہ ان کے دل کسی ایک مذہب پر جم جائیں ، انہیں یہ جاننے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ خدا کا صفاتی نام ’’ الرحیم ‘‘ کوئی خالی خولی نہیں ہے اور یہ کہ صرف ایک قوم یا افراد کا ایک گروہ ہی خدا کا منتخب نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ یہ نکتہ ان لوگوں کے لیے تو کبھی مخفی نہیں رہا جنہوں نے اسے جاننے کی ضرورت محسوس کی ، لیکن عہدِ جدید میں یہ صداقت غالباً  پہلے سے کہیں زیادہ آسانی سے رسائی کے قابل ہے ۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ہمارے عہد کے پوپ پائس یازدہم کے ایک اسلامی ملک کو ایک وفد بھیجتے ہوئے یہ کہا تھا ،  ’’ یہ مت سمجھنا کہ تم کفار کے ملک میں جا رہے ہو ۔ مسلمان نجات پاتے ہیں اور خدا کی سنت لامحدود ہے‘‘ (2) ۔

اُن لوگوں کے لیے جو اپنے مذہب سے دُور ہو کر مکمل یا نیم گمراہی کے حادثے سے دوچار ہو چکے ہیں ، اپنے مذہب کی طرف مراجعت کا ایک ہی راستہ ہے یا ہو سکتا ہے ، یعنی دوسرے مذاہب کی مدد کے ذریعے رجعت کا ، کیوں کہ عام طور پر اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کا مطالعہ بغیر تعصب کے زیادہ معروضی انداز میں کیا جا سکتا ہے اور وہ شخص جو آسانی سے کسی بھی مذہب میں حنیفیت (Orthodoxy)  کے تصور کا صاف صاف ادراک کرنے کے قابل ہو وہ آسانی سے اس لائق ہو سکتا ہے کہ بہ شمول  اپنے مذہب کے دوسرے مذاہب میں بھی اس تصور کا کھوج لگا سکے ، کیوں کہ حنیفیت کا عمومی کے ساتھ ایک خصوصی پہلو بھی ہوتا ہے ۔ جہاں تک خاص پہلوؤں کا تعلق ہے ، یہ جاننا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا کہ عبادات کی مختلف شکلیں کیسے ایک دوسرے سے مماثل ہیں (3) ، لیکن اپنے عمومی پہلوؤں کے حوالے سے حنیفیت بنیادی طور پر ایک ہی ہے اور اس کی ایک نہایت اہم طور پر واضح اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دُور رس خصوصیت اس کا کمال ہے ، یعنی یہ کہ یہ ہر میدان میں اور روحانی استعداد کے تمام مختلف درجات میں انسان کی مذہبی ضروریات کی تشفی کرتی ہے ۔ یہی سب سے بڑا سبب اس سوال کا جواب مہیا کرتا ہے کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ مذاہب کو اپنانے کا تصور کیوں نہیں کر سکتا ۔ اصل میں ہر مذہب فی نفسہ ایک ہمہ جہت کلیت ہوتا ہے اور اس حوالے سے وہ کُلی اتباع کا مطالبہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں وجود ِ انسانی کا کوئی  حصہ بھی کسی اور شے سے منسلک نہیں ہو سکتا ۔

حنیفیت کی ہمہ گیریت کا اسلامی تصور خاص طور پر بالکل واضح ہے اور اس سے ہم ایک عمومی تعریف اخذ کر سکتے ہیں جس کی شکل کچھ یوں ہو گی : مذہب ایک سہ سطحی الوہی کشف و الہام ہے ، اوّل یہ کہ اپنی ذات اور کائنات سے اپنے تعلق کے حوالے سے مطلق، لامحدود اور جاوداں صداقت پر ایمان لانے یا نہ لانے کے متعلق اس کے پاس ایک اُصول یا کلّیہ موجود ہوتا ہے اور اس کا تعلق محدود، اضافی اور فانی سے بھی ہے خصوصاً انسان سے ۔ دوم یہ کہ اس کے پاس ایک قانون ہوتا ہے جو اوامر و نواہی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس قانون کے مثبت پہلوؤں میں طریقِ عبادت کی وسیع اور متنوع شکل بھی شامل ہوتی ہے تاکہ اس مذہب کے تمام ماننے والوں کا احاطہ ہو سکے ۔ سوم یہ کہ انسانوں کے مابین روحانی انعامات و ثمرات کے حصول کے لیے کھلی آزادی دینے کے لیے اس کے پاس ایک قسم کی سریت یا باطنیت موجود ہوتی ہے ۔ عقائد پر ایمان اور قانون کا اتباع  تمام انسانوں پر لازم ہوتا ہے تاکہ نجات و بخشش ممکن ہو ، جب کہ مذہب کے صوفیانہ  پہلو کا لزوم صرف لوگوں پر ہے جن میں خاص سطح کی اہلیت پائی جاتی ہو اور یہ عبادات و ایمان کی ایک زائد جہت ہے ، کیوں کہ اس کا مطلب ہے عقیدے یا اُصول کی ہمہ گیر اور دُور رس گرفت اور رسوم و عبادات کی ادائی میں گہرے خلوص اور ارتکاز کی کارفرمائی ۔ نجات سے قطعِ نظر ، اس کی پیش کش تو اسی زندگی میں حصولِ تقدیس کے امکان کی ہے اور اس سے ماورا صول الی الحق کے امکان کی ۔

ان عمومی اصطلاحات میں اظہار پا کر ، اسلام کی حنیفیت کی سہ ابعادی کاملیت  بدیہی طور پر اس قدر آفاقی ہے کہ اس کا اطلاق دوسرے مذاہب پر بخوبی ہوتا ہے  ، کیوں کہ اس کا تعلق ناقابل ِ انکار انسانی حقائق سے ہے ۔ اس سے کوئی بھی کم تر وسعت زمانۂ حال کی نسلِ انسانی کی جغرافیائی یا نسلی آبادی کی روحانی ضرورتوں کی تشفی کرنے سے قاصر تھی  اور ایسا ہی ماضی کے تاریخی ادوار میں رہا ہے (4) اور اگرچہ مذکورہ بالا تعریف حنیفیت کے خاص پہلوؤں سے بحث نہیں کرتی ۔۔۔ جس کے تعلق سے ہر مذہب کو الگ الگ دیکھا جانا چاہیے ، ایسا عمل ہمیں بہرحال اس قابل ضرور کر دیتا ہے کہ ہم تفصیل میں جائے بغیر ایک نظر میں یہ دیکھ سکیں کہ مثلاً  عیسوی کلیسے  ان محرومیوں اور مفلسیوں سے مستثنیٰ رہے جو مسلّم کلیسائی عقیدے کے خلاف جانے والوں کی بڑی خصوصیت رہی ہے  (5) ۔۔۔ یعنی رسوم اور عقائد کا افلاس جو سریت کے کم و بیش خاتمے کے مترادف ہے ، جب کہ سریت رسوم و عقائد کو باثروت اور شرف مند کرنے کے مترادف ہے او رایسا ہونا ایک لحاظ سے انحراف (Heresy) کا متضاد ہے ۔ اسی صداقت کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ سریت کامل ترین سمجھ بوجھ کے ساتھ ان تمام امور کا ادراک کر لیتی ہے جنھیں انحراف ناکافی فہم کے ساتھ رد کر دیتا ہے ۔

اپنے خارجی اور ظاہری پہلوؤں کے حوالے سے مذاہب کو کسی دائرے کے محیط پر موجود مختلف نقطوں سے مماثل ٹھہرایا جا سکتاہے اور اپنے  داخلی اور باطنی راستوں کے حوالے سے ان حلقوں یا نیم قطروں (Radii) سے جو ان لفظوں سے ایک اور واحد مرکز کی جانب سفر کرتے ہیں جو الوہی صداقت کی علامت ہے ۔ یہ تمثال ظاہر کرتی ہے کہ خارجیت (Exoterism ) ، باطنیت ، سریت یا تصوف کا ضروری نقطۂ آغاز ہے اور اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں مختلف خارجی مظاہر و شرائع ایک دوسرے سے نسبتاً دُور ہوتے ہیں وہیں تمام باطنی سلاسل جوں جوں نزدیک آتے جاتے ہیں ایک دوسرے سے مماثل ہوتے ہوتے ایک ہی نقطے پر مرتکز ہو جاتے ہیں ۔

انسانوں کو نہ صرف الوہی صداقت پر ایمان لانے والوں ہی کے حوالے سے ہمیشہ گواہی ملی ہے ، بلکہ ان چشم دید گواہوں کے ذریعے سے بھی ، یعنی اپنے مذہب کے صوفیا کے توسط سے ، لیکن اس عہد میں ، خدا کے ساتھ ایک ہونے کے براہِ راست تجربے کے ذریعے ، مطلق ، دائمی  اور لامحدود کی توثیق ان لوگوں کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پر کشش ہو گئی  ہے جو لوگ اس گواہی کو سننے کے خواہاں ہیں ، کیوں کہ اس کی توثیق ہر افق پر پھیلی ہوئی ان متعدد آوازوں سے ہو رہی ہے ۔ دیگر مذاہب کے صوفیوں کے ذریعے سے جن کا کلیہ یہ ہے کہ اس کائنات کی جملہ اشیا ارفع تر  حقائق کا محض ظل ہیں ۔۔۔ یہ انسان کے عظیم ترین امکان کی گواہی ہے ۔

اگر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ من حیث الجماعت انسان ’’ حقیقتِ مطلق ‘‘ سے پہلو تہی کر رہا ہے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر چہار اطراف سے ’’ حقیقتِ مطلق‘‘ انسان کے نزدیک تر ہوتی جا رہی ہے ۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس حقیقت کا لمس حاصل کرنے کے لیے عہدِ ماضی کے انسان کو زندگی بھر کاوش اور مجاہدہ کرنا پڑتا تھا ، لیکن اب اس کے لیے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے حقیقت سے پہلو تہی نہ کرنا ، لیکن اس کے باوجود یہ کام کس قدر مشکل ہے ۔

تمام مذاہب نے واضح طور پر ’’عہدِ ظلمات‘‘ میں خدا کی طرف سے کی جانے والی رعایات اور تلافیوں کی نشان دہی کی ہے اور یہ تلافیاں اور زیادہ واضح ہوتی چلی جائیں گی جوں جوں یہ عہد قیامت کے قریب ہوتا چلا جائے گا ۔ اس ذیل میں تاکستان میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی تمثیل پیش کی جا سکتی ہے جو سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے کام کرنے کے لیے آئے ، لیکن انہیں بھی اتنی ہی مزدوری ملی جتنی ان لوگوں کو جنہوں نے دن بھر کی تپش میں جان توڑ کر مزدوری کی ۔ اور پیغمبر اسلام (ﷺ) نے فرمایا ، تحقیق کہ تم ایسے عہد میں پیدا کیے گئے ہو کہ اگر تم احکامِ ربانی کے دسویں حصے سے بھی غفلت برتو تو تم جہنم کا ایندھن بنو گے ۔ اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اُس عہد کے لوگ موجودہ احکام کا دسواں حصہ بھی بجا لائیں گے تو ان کی نجات ہو جائے گی ۔

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاملیت سے کم تر کوئی شے بہشت کے دروازے سے گزر جائے گی ۔ ہندومت میں وشنو پُران یہ نہیں کہتا کہ آج کل کے انسانوں سے کم نیکی مطلوب ہے ، بلکہ یہ کہتا ہے کہ ’’ عہدِ ظلمات میں انسان معمولی کاوش سے ارفع ترین نیکی حاصل کر سکتے ہیں ‘‘۔ اسی طرح رسولِ اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ مسلمانوں کی پانچ فرض نمازیں کافی  ہیں ، اپنے طور پر نہیں،  بلکہ اس وجہ سے کہ  اللہ کے نزدیک یہ عہدِ قدیم کے انسانوں کی پچاس نمازوں کے برابر ہیں۔

جدید عہد میں جو چیز مثبت ہے ، یہ ہے کہ دورِ کامل کے حوالے سے یہ عہد کاملیت اور نہایت کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہ دور صرف اسی وقت اپنے اختتام کو پہنچے گا جب یہ اپنے اندر موجود تمام مختلف امکانات کو جو اس کے آغاز کے وقت اس میں موجود تھے ، اپنی انتہا تک لے جائے گا ۔ صرف اُسی وقت یہ عالمِ اکبر ، یہ خارجی دنیا  ’’ ایک لکھے ہوئے قرطاس کی طرح لپیٹ دی جائے گی ‘‘ تاکہ یہ ایک نئے آسمان اور نئی زمین کے لیے جگہ خالی کر سکے ۔ عالم ِ اصغر کے حوالے سے بھی اصل سچائی یہی ہے —  عالمِ اصغر جو نفسِ انسانی کی ننھی دُنیا ہے ۔ جب  انسانی نفس اپنے اندر موجود تمام عناصر کو مربوط و منضبط  کرنے پر حاوی ہو جائے گا  تو تبھی یہ ’’مرنے‘‘ اور ایک نئے اور مکمل نفس یعنی (روح) کو جنم دینے کے قابل ہو سکے گا ۔ اس ’’موت‘‘ اور اس ’’ حیاتِ نو‘‘ کا حصول خواہ جسم کی موت سے پہلے ہو یا بعد میں —  یہی تمام روحانی ریاضت کا مقصدِ اولیٰ ہے ، کیوں کہ بہ حوالہ  سینٹ جان ، جب تک انسان حیاتِ نو سے ہم کنار نہیں ہو گا وہ خدائی بادشاہت کی دید سے مشرف نہیں ہو سکتا ، لیکن ہر سچے نظامِ کون کا ایک مرکز ہوتا ہے اور یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ آج کم و بیش سبھی انسانی روحیں اس قدر منتشر ہو چکی ہیں اور اپنے اندر موجود مرکز سے اس قدر غافل ہو چکی ہیں  کہ انہیں ’’ عوالمِ اصغر‘‘ نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ اپنی پہچان کھو چکی ہیں ، کیوں کہ انہیں وہ عالمِ اکبر  نگل گیا ہے جہاں ان کا فرض محض انسانی زوال کے مختلف امکانات کی نمائندگی کرتا ہے ، لیکن اگر کوئی نفس عالمِ اکبر کے بوجھل پاٹوں سے خود کو باہر نکال سکے اور اسے ایک دفعہ پھر مذہب کے ذریعے عالمِ اصغر میں ڈھال سکے تو یہ اسے اس کے مرکز کے ساتھ رابطے کے واقعی قابل بنا دے گا یا بالفاظِ دیگر اگر کوئی نفس خود کو عالمِ اکبر کے دوش بہ دوش عالمِ اصغر کے طور پر مستحکم کر کے کھڑا کر سکے تو پھر وہ اسی طرح عالمِ اکبر کے مثبت عناصر سے فیض یاب ہو سکے گا جیسے کہ عملِ انعطاف کے ذریعے ممکن ہوتا ہے  ۔ ایک عالمِ اکبر کی نہایت اور کاملیت ، جو اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ، عالمِ اصغر کو بھی جلد از جلد نہایت اور کاملیت کی جانب لے آئے گی اور نفس کی افزائش ِ عاجلہ کا باعث بنے گی اور چوں کہ یہ بھی رسوماتِ مقدسہ کا کرشمہ ہے جن کا مقصد روح کو اس کی اکملیت سے بارور کرنا ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ رسوم‘‘ کی اہمیت اب کہیں بڑھ گئی ہے ، کیوں کہ ان میں جو قوت موجود ہے ، وقت کی رفتار اس کی خدمت پر مامور ہے ۔ اگر تاکستان میں تمام کام کرنے والوں کو ایک سی مزدوری ملی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دیر سے آنے والے بفضلِ تعالیٰ واقعی اس قابل تھے کہ وہ کم وقت میں اتنا ہی پھل چن سکیں جتنا وہ لوگ جو پورے دن کی تمازت میں کام پر جتے رہے ۔

حواشی

1۔ آسمانی بادشاہت کے اس پیغام کی تمام دنیا میں تبلیغ ہو گی اور یہ تمام قوموں کے مابین شہادت کا درجہ رکھے گا — اور پھر قیامت قائم ہو گی ۔ سینٹ میتھیو: 14 تا 24 ۔

2۔ پوپ یائس یاز دہم  نے یہ  الفاظ کارڈینل فشی نیٹی کو لیبیا میں پیغام رساں مندوب (Apostolic   Delegate) متعین کرتے ہوئے اسے اعتماد میں  لیتے ہوئے کہے تھے ۔ ان الفاظ کو صرف پچھلے دس برس کے دوران عام کیا گیا (ر۔ ک La   Ultima ، Anno ، 1954، ص 75 تا 76) ۔

3۔ ہر مذہب کا کم از کم ایک ماورائی عنصر ہوتا ہے — الوہی کا انسانی مرتبۂ وجود کی سطح پر نزول — مگر یہ عنصر مختلف شکلیں اختیار کر سکتا ہے جس طرح مثلاً عیسائیت میں کلمۂ الہٰی  کے محسوساتی اظہار سے انکار اور وجودِ الہٰی  کی عشائے ربانی (Eucharist) میں تطویل ایک بہت بڑے انحراف کے مترادف ہے ، اسی طرح اسلام میں قرآن کی ابدیت کا انکار ایک بہت بڑے انحراف کے مترادف ہے ۔

4۔ صرف ان ادوار میں جب سریت ایک مسلّمہ ضابطے کی حیثیت رکھتی تھی ، یہ کہا جا سکتا تھا کہ مذہب دو جہتی تھا  جو عقائد اور عبادات پر مشتمل تھا ۔

5۔ دوسری ویٹی کن کونسل کے انعقاد کے بعد سے جن افلاس مندیوں کا رومی کیتھولک ازم  میں ظہور ہو چکا ہے (اور) جن کی چند وفادار افراد نے مزاحمت کی ہے ، ان حقائق کا جو اپنی اصل میں جس طرح  ہیں بیان کرنا کافی ہو گا ۔ ان افلاس مندیوں میں سے ایک یہ ہے کہ کلیسا کے سربراہوں نے اچانک روایتی اجتماعی دعاؤں کے عمل (Liturgy) کو ممنوع قرار دے ڈالا جن کے سائے میں کلیسا کے ہر فرد کی تربیت ہوئی تھی اور جو لاکھوں عورتوں مردوں کو روحانی بنیاد فراہم کرتی تھیں ۔ اس صورتِ حال پر کسی رائے کا اظہار غیر ضروری ہے ، لیکن وہ لوگ جو متقابل حقائق جاننے اور اس حادثے کے اسباب سے آگاہ ہونے کے متمنی ہیں ، انہیں رام پی کمار سوامی کی کتاب The   Destruction   of   Christian   Tradition (طابع پیرنئیل  بکس لندن ، 1980ء) سے رجوع کرنا چاہیے ۔ نیز زیرِنظر کتاب کا ضمیمہ نمبر 2 بھی ملاحظہ کرنا چاہیے ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search