اروندھتی رائے سے مصاحبہ۔ مصاحبہ کار: شوہِنی گھوش۔ ترجمہ: کبیر علی

 In ترجمہ

[نوٹ: اروندھتی رائے کا یہ انٹرویو  ”اپَرچر“  رسالے کی ویب گاہ پر 11 جون 2021ء کو شائع ہوا تھا۔ انگریزی متن کے لیے یہاں کلک کریں۔ ہندو پاک کی سیاسی-سماجی صورتحال میں  بہت سی  مشابہتوں کے  باعث   رائے کا نقطہء نظر پاکستانی قاری کے لیے خاص طور پہ بصیرت افروز ہے۔ اس   اردو ترجمے میں  مصنفہ کے دوسرے ناول   یعنی   The               Ministry               of               Utmost               Happiness  کے سرنامے   اور  دو مختصر اقتباسات کا ترجمہ ارجمند آراء کے ترجمے سے لیا گیا  ہے جو  ”آج “، سٹی بک پریس، کراچی  سے شائع ہوا تھا۔ مترجم]

”ایک ناول  لکھاری کو   آزادی  فراہم کرتا ہے کہ وہ جتنا پیچیدہ ہونا چاہے ہو لے-  سفر کرے دنیاؤں کا، زبانوں کا، اور وقت کا،  معاشروں کا، طبقوں کا، اور سیاستوں کا“، اروندھتی رائے نے حال ہی میں یہ لکھا۔ بُکر  انعام یافتہ ناول   ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز(1997ء)’  سے بین الاقوامی شہرت پانے والی   رائے  ہم عصر ادب میں ایک یکتا آواز ہے، جو   فکشن میں مسحور کن  چیزیں سامنے لا رہی ہے،  ساتھ ہی ساتھ  وہ   قابلِ لحاظ   مضامین بھی لکھ رہی  ہے جن میں  کلاس، جنس، اور   سیاست  کو  ایک اخلاقی  شستگی اور   پھرتی سے موضوع بنایا جاتا ہے جس سے  بطور ایک     پُر عزم سماجی کارکن اس   کا کردار سامنے آتا ہے۔

شمال مشرقی بھارت میں  پیدا ہونے والی رائے  فنِ تعمیر  پڑھنے کے لیے  دہلی  منتقل  ہو گئی،  ایک ایسا پس منظر جو  بطور لکھاری اس کے کام  کی صورت گری کرنے والا تھا۔  یہاں،  فلم ساز اور  مضمون نگار شوہِنی گھوش   رائے کے ساتھ  ناول  کی فضا اور   شہر  کے تعمیریاتی  ماحول کے باہمی تعلق کے  بارے میں بات چیت کرتی ہیں نیز  سیاسی بحران اور  کسانوں کے وسیع پیمانے کے احتجا ج پر گفتگو کرتی ہیں  جس نے دہلی کو ہلا ڈالا ہے اور  جس کی گونج دنیا  بھر میں  پہنچی ہے۔  (یہ گفتگو  بھارت میں کرونا وبا کی دوسری لہر سے قبل   ہوئی تھی۔)

شوہِنی گھوش:   دہلی آنے کا فیصلہ آپ نے کیسے کیا؟

اروندھتی رائے: یہ کیرالہ کے اس گاؤں اور اس  کے قریبی قصبے سے فرار کا    خوب سوچا سمجھا منصوبہ تھا  جہاں میں  بڑی ہوئی تھی۔ایک بچی کے طور پہ، میں   خوف و   ہراس کی دبیز  لہروں  میں گھری ہوئی تھی جو  میرے گھر اور میرے خاندان کے ساتھ ساتھ  میری کمیونٹی سے آتی تھیں۔ میری ماں نے  اپنی کمیونٹی- کیرالہ کی بہت ہی    بند، ذاتیاتی،   قریب المرگ، اور    بالائی طبقے کی  شامی عیسائی   کمیونٹی- سے  ”باہر“ شادی  کی تھی اور پھر دہرا جرم انھوں نے  یہ کیا کہ  طلاق  بھی  لے لی۔ لہذا مجھے اور میرے بھائی کو، جبکہ ہم کسی  سماجاً پسی ہوئی ذات  یا کمیونٹی سے بھی تعلق نہیں رکھتے تھے،  باور کروا دیا گیا،  لاکھوں مختلف  طریقوں سے    کنایتاً اور کھلم کھلا  ہر دو رنگ کے، کہ ہم  اس گھر سے تعلق  نہیں رکھتے جس میں ہم رہتے ہیں    اور ہم اس سماج سے تعلق  نہیں رکھتے  جس سے ہماری ماں کا خاندان  تعلق  رکھتا تھا۔ میرے لیےپیغام بالکل واضح تھا: ” کوئی تم سے شادی  نہیں کرے گا “ ۔  اس سے  مجھے محسوس ہونے لگا، بہت ہی چھوٹی عمر سے،  او بھئی میں   تعلق رکھنا ہی کیوں چاہوں گی؟ میں  ‘تم’ میں  سے کسی سے شادی کرنا ہی کیوں چاہوں گی؟ مجھے فرار ہو جانے کی شدید آرزو تھی۔

گھوش: آپ کی عمر کتنی تھی؟

رائے: میں 1976ء میں  بھاگ کھڑی ہوئی، تب میں  سولہ برس کی تھی۔  میں جانتی تھی کہ مجھے  ایسی تعلیم کی ضرورت ہے  جو  مجھے معاشی طور پہ آزادی  فراہم کر دے۔ میں نے فنِ تعمیر کے مطالعے کا انتخاب کیا۔ میں  ماہرِ تعمیرات لوری بیکر کے  تصورات سے  بہت زیادہ  متاثر تھی،  جنھوں نے وہ سکول تعمیر کیا تھا جس کی بانی میری ماں تھیں اور ابھی تک اسے چلا رہی ہیں۔ میں نے وہاں  کئی برس تک پڑھا تھا۔ ”بے لاگت تعمیرات“ وہ   الفاظ تھے  جن کے ذریعے بیکر   اپنے کام کو بیان کیا کرتے تھے- نہایت خوبصورت عمارتیں جو  اتنی کم لاگت سے بنائی گئی تھیں کہ انھوں نے تعمیرات کی انڈسٹری کو   خوفزدہ کر دیا۔  پس سولہ برس  کی عمر میں، یعنی جیسے ہی میں نے  ثانوی  اسکول کی تعلیم  مکمل کی،  میں دہلی جانے والی ریل میں بیٹھی تھی  تاکہ   SPA   (دہلی اسکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر) میں  داخلے  کا امتحان دے سکوں۔   یہ سفر تین دنوں اور  دو راتوں پہ محیط تھا۔۔۔ اور میں ایک  مختلف دنیا میں آ پہنچی۔ جب میں سترہ سال کی ہوئی  اور    بارھویں جماعت میں پہنچی تو میں نے گھر جانا  ترک کر دیا۔ میں کئی برس تک نہ گئی۔ میں نے کالج میں   گزارہ کیا- ظاہر ہے، میں اس وقت یہ  کر سکتی تھی۔ اب تو   حالات   بدل گئے ہیں۔ اب ،  اعلیٰ تعلیم  اپنے دروازے ان  لوگوں کے لیے بند کر رہی ہے جن کے پاس  پیسے نہیں ہیں۔ ہر روز، میں اِس شہر کے لیے  شکرگزاری محسوس کرتی ہوں جس نے مجھے  آزاد کیا۔  اب  میں  کیرالہ اپنے گھر جاتی رہتی ہوں۔ وہ پرانے زخم مندمل ہو گئے ہیں، لیکن   اب بھی وہ میری  جلد کی سطح کے قریب ہی کہیں پائے جاتے ہیں۔

گھوش: اُس وقت کے شہر کے وہ کونسے مناظر ہیں جو  آپ کو سب سے زیادہ یاد  آتے ہیں؟

رائے: مجھے  ریلوے اسٹیشن  پہنچنے کی سرخوشی  یاد ہے۔ آزادی کی مہک اور  گمنامی کی مسرت۔ بھارت کے دیہاتوں  اور چھوٹے قصبوں میں تو  گمنامی ناممکن ہے۔ میرے لیے، یہ وہ سب سے بڑا  تحفہ تھا جو کوئی مجھے دے سکتا تھا۔  شرارتی پن کے  لامحدود امکانات۔  لیکن میں  بہت بے وقوف تھی ۔  جب میں پہلی بار  یہاں پہنچی تو مجھے    ایک بڑے شہر   کی وسعت  اور  پھیلاؤ کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ تو بس میں ریلوے اسٹیشن  کے  آٹو-رکشہ    والوں کی جانب  گئی اور  ایک ڈرائیور سے کہا کہ   کیا وہ مجھے  مسز جوزف کے گھر  پہنچا  دے گا۔ آج بھی میں یہ یاد کروں تو  میرا قہقہہ چھوٹ جاتا ہے۔ مسز جوزف  میری خالہ تھیں-ایک اچھی  اور نفیس  عیسائی- جو  اُن دنوں دہلی  میں رہتی تھیں۔ مجھے ان کے پاس رہنا تھا۔       نخالص نسب   بھانجی کی آمد پر         انھوں نے کچھ  ایسا جوش محسوس نہ کیا اور یہ بات   مجھ تک پہنچا بھی دی۔ پس میں نے   اس امر کو ان   کے ساتھ غیر شائستہ سلوک کا، جب  جب موقع ملے، بہانہ  بنا لیا۔

میں شہر سے بہت زیادہ خوفزدہ بھی تھی۔ اس کا باعث وہ فلمیں تھیں جنھیں دیکھتے دیکھتے  میں بڑی ہوئی تھی۔ ان دنوں،  حرفاً ہر ملیالم  فلم میں ہیروئن  کا ریپ ہوتا تھا۔  یہ ریپ ہمیشہ نہایت   محبتی انداز سے  تشکیل دیا جاتا تھا،   کنایتی  طریقوں سے۔۔۔ عرشی  پنکھے میں عکس دکھا کر، پھولوں کو   ٹہنیوں سے ٹوٹتا دکھا کر، یا  کسی اور طریقے سے۔ حد درجہ  اجڑی ہوئی  خواتین۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اس یقین کے ساتھ بڑی ہوئی کہ  ہر عورت کا ریپ ہوتا ہے۔  سوال بس  یہ بچتا ہے کہ  کہاں اور کب۔ لہذا  اس آٹو رکشہ میں،   دہلی مسز جوزف کے گھر جاتے ہوئے،  میں  نے اپنے  بیگ میں  چھپا ہوا ایک چاقو  پکڑ رکھا تھا۔  میں اپنی نسوانی تقدیر   کا سامنا کرنے کو بالکل تیار  تھی۔ شہر میں ابتدائی کچھ دن     خوفزدگی کے تھے۔۔۔لیکن پھر۔۔۔اسکول آف  آرکیٹکچر۔    انارکی پسندوں کی جنت!  مجھے معلوم تھا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے   چھٹکارہ حاصل کر لیا ہے۔   میں ایک خطرناک طرز پہ محفوظ رہوں گی۔

گھوش: دی گاڈ آف سمال تھنگز لکھنے سے قبل آپ نے دو اسکرین پلے لکھے: In               which               Annie               gives               it               those               ones (1988)  اور دوسرا  Electric               Moon (1992)۔  کیا   شہر نے  بطور لکھاری آپ کی تشکیل میں کوئی کردار ادا کیا؟

رائے: پہلا اسکرین پلے  آرٹیکچر اسکول کے طلبا کے بارے میں  ہے- نشہ چڑھائے  ہوئے، بیل-باٹم  لباس پہننے والے  1970ء کی دہائی کے  ہپی نوجوان۔  اینی دراصل ایک مرد ہے، آنند گروور، جو   اپنا آخری سال چوتھی بار  دہرا رہا ہے،  اور  پروفیسر  کے انتقام کا شکار ہے۔  اینی تھوڑا سا ہلا ہوا ہے ،   قدرے شکست خوردہ۔ وہ ہاسٹل کے کمرے میں  چوزوں اور خرگوشوں کی دیکھ بھال میں لگا  رہتا ہے اور اسے اس شے سے معاملہ کرنے کا  خبط ہے جسے وہ ”دیہات-شہر  نقل مکانی” کہتا ہے۔ اگرچہ میں نے  شعبہ تعمیر کو اس لیے چنا تھا کیونکہ میری شدید خواہش تھی کہ میں پیسے کمانا شروع کر دوں،  لیکن  وہاں گزارے پانچ  برسوں نے   میرے  طرزِ دید اور طرزِ فکر کی بنیادیں  قائم کیں۔

جب میں آخری سال میں پہنچی تو    مطالعہء شہریات میں  بھی مجھے اتنی ہی دلچسپی ہو گئی تھی جتنی کہ فنِ تعمیر میں تھی۔ میرا تھیسز بھی ڈیزائن تھیسز نہ تھا۔  یہ شہر  کے بارے میں تھا، مابعد نوآبادیاتی دہلی کے  بارے میں،  یہ وہ کیسے بنا جو یہ  ہے، یہ اپنے اندر بسنے والوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔  شہر اور  غیر شہر۔ شہری جسے خوش آمدید کہا جاتا ہے  اور  جس کے لیے  یہ شہر اور اس کے قوانین بنائے گئے ہیں۔

غیر شہری  جو بن بلایا ہے اور  اداروں کے بیچ کے رخنوں میں رہتا ہے، جو قوانین  اور  شہری  نقشہ ساز کی تخییل  دونوں کو توڑ پھوڑ دیتاہے۔  جو  نکاسی آب کے نظام کے سر پر اجابت کرتا ہے۔ یہ  عدسہ، ہمارے شہروں کو دیکھنے  کا یہ  طریقہ،  میرے اسکرین پلیز اور  میرے ناولوں میں میرے ساتھ رہا ہے۔ میرے لیے،  شہر ایک مسحور کن اور کبھی نہ ختم ہونے والے  کہانی تھا اور ہے۔  یہ ایک ناول ہے جس میں کردار  ابھرتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں ،  اپنے گر د کی  مادی فضا کی صورت گری کرتے رہتے ہیں۔

گھوش:جب  آپ نے ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز’ لکھا تو آپ دہلی میں رہائش پذیر تھیں اور ایک ایسی جگہ  کے بارے میں لکھ رہی تھیں جو زمانی اور مکانی لحاظ سے  بہت دور تھی۔ یہ  سارا کام کیسے  نبھا پھر؟

رائے:  مجھے اس میں شمہ بھر بھی مشکل  محسوس نہ  ہوئی ۔گاؤں جس میں مَیں  بڑی ہوئی،  اچار کا کارخانہ، وہ  ارضی منظر، لوگ،  سبز دریا،   اس میں جھکے ہوئے  ناریل کے درخت،  اس میں جھلکتا  ٹوٹا ہوا  زرد چاند،   مچھلی  کی چمک- میں ان سب سےبنی ہوں۔ میں ہوں ہی یہی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ میں کدھر جاتی ہوں۔ میں ہر  پودے اور  کیڑے اور مچھلی اور   حشر ہ کو جانتی ہوں؛ وہ میرے زندگی کے  کردار تھے۔جب میں بڑی ہو رہی  تھی تو جتنے  میرے گرد کے انسان ظالم تھے اتنے ہی یہ  دریا، یہ حشرات الارض، یہ بارش اور یہ کیچڑ میرے دوست تھے۔  لیکن کیرالہ کا یہ منظرِ ارضی  ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز ‘ میں شاید زیادہ  نمایاں طریقے سے   نظر آیا  کیونکہ  یہ اُس  جگہ  سے حددرجہ  مختلف تھا جہاں  میں رہائش پذیر تھی اور  لکھ رہی تھی۔

گھوش: میرے لیے تو  ‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’ پڑھنا کچھ ایسا تجربہ تھا گویا کسی  بھرپور   ارضی منظر میں  سفر کرنا۔  کتاب کے ایک باب میں،  خدیجہ نام کا ایک کردار ناول کے مرکزی کردار، ایس ٹلوٹوما(یا ٹِلو)، کو کشمیر کے ایک شہر میں  سفر کے لیے لے جاتا ہے۔  وہ سفر کرتے ہیں، اور میں ایک اقتباس پیش کرتی ہوں، تنگ اور چکردار گلیوں کے جال سے، شہر کے ایک ایسے حصے میں  جو کئی اعتبار سے باہم منسلک تھا-انڈر گراؤنڈ اور اووَر گراؤنڈ، افقی اور آڑا ترچھا، گلیوں کے ذریعے اور چھتوں کے ذریعے اور خفیہ راستوں سے ، جیسے  وہ کوئی نامیاتی وحدت ہو۔کوئی دیو پیکر  کورل، یا چیونٹیوں کی  بامبی۔ یہ    اس  ازدحامی  دِگج شہر کی جزیات  بھی  ہو سکتی ہیں جو  ‘بے پناہ  شادمانی’ ہے، جس کی   تنگ گزرگاہوں   میں ناول کے بہت سے باہم جڑے ہوئے بیانیے  کھلتے ہیں۔ کیا  تعمیرات اور   شہری منصوبہ سازی  کی ماہر کے طور پہ آپ کی تربیت نے ناول   کی  بنت پہ کوئی اثر ڈالا ؟

رائے:    جی بالکل۔ شہر بطور ناول- ناول بطور شہر۔ سچ میں، میں تو  ایسا   ہی سمجھتی ہوں۔ اور میری مراد شہروں اور ناولوں کے صرف  مادی لینڈ اسکیپ سے نہیں ہے۔ میری مراد  وہ وسیع تر صورتحال ہے  کہ  کیسے کوئی شے  تشکیل پاتی ہے، پھر  اس تشکیل پہ تخریب، دھاوے، لپیٹے کا  حملہ ہوتا ہے  اور یہ  کچھ اور ہی بن کے رہ جاتی ہے اور پھر  یہ  سب ایک نئی تشکیل کا حصہ بن جاتے ہیں، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔  یعنی یہ کچھ ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ کس طرح  زمین کی سطح پہ  شہروں  کی صورتیں  خود کو ابھارتی  ہیں جو کہ  ان کے گرد موجود  بے نقشہ  مضافات  سے  بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ ان کی ایک شکل ہوتی ہے، ایک منطق ہوتی ہے  جو فوری طور پہ  نظر نہیں آتی ، سوائے ان سامراجی  شہروں کے جو   باقاعدہ حکم اور فرمان کے بعد قائم کیے گئے تھے۔  لیکن ان کی بھی تخریب ہو چکی ہے۔ ناول میں ، بھی،  بیانیے کے ساتھ یہ اکثر ہوتا ہے۔  لیکن ہاں، جیسے ہی آپ  ناول کے شہر  ‘بے پناہ شادمانی’ میں رہنے لگتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ  یہ بظاہر  انتشار دراصل    تشکیل شدہ ہے۔ اس کی ،بھی،  زیرِزمین،  بالائے زمین، اور   وتری   گزرگاہیں ہیں جو  باہم منسلک ہیں۔ اس کی اپنی   ایک پیچیدہ منطق ہے۔

اگر آپ کو یاد ہوتو ایک ٹکڑا ہے  جس میں ٹِلو شہر کے متعلق سوچتی ہے۔۔ یہ ایک طرز کی    دن خوابی ہے۔وہ    شہروں کو    ستارہ روشنی  باور کرتی ہے جو   ستاروں  کے فنا ہو جانے کے  مدتوں بعد تک کائنات میں   محوِ سفر رہتی ہے- ”سنسناتے، جگمگاتے، واہمہء حیات میں مبتلا کرتے ہوئے شہر، جب کہ وہ دنیا جسے وہ تاراج کرتے ہیں ان کے گرد مر چکی ہوتی ہے۔“ پس   صرف شہر ہی  کا شعور نہیں ہے بلکہ شہر کی معنویت کا بھی  ہے۔  آج کل دہلی میں شہر-سیاسی اور معاشی طاقت کے مرکز- اور   دور دراز علاقوں کے مابین   کشمکش جاری ہے،  اور   کھسوٹ  شدہ سیارہ بالکل حرفاً  اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔  عین اس وقت جب ہم یہ باتیں کر رہے ہیں،  لاکھوں  کسان ان   تین نئے کسان قوانین  کے خلاف  احتجاج   کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو بھارتی زراعت کی باگ ڈور بڑی کارپوریشنز کے ہاتھ میں دے دیں گے۔ پچھلے بیس سال میں ، قرض میں جکڑے ہزاروں کسان خودکشی کر چکے ہیں،  بہت سوں نے تو    وہی کیڑے مار دوا   پی کر خود کشی کی جو   فصلیں اگانے کے لیے  ان پر  مارکیٹ کی جانب سے تھوپی جا رہی تھی لیکن جس سے ان کی   زمین  مناسبت نہیں رکھتی تھی۔ اور اب، ان نئے قوانین کے بعد،   انھیں زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کسان  دہلی کے  کناروں  پہ پہنچ چکے ہیں۔ اسے  انسانی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کہا جا رہا ہے۔ حکومت نے  پختہ رکاوٹوں،  کانٹے دار تاروں  اور   لوہے کے بڑے کیلوں  کی مدد سے شہر  کے گرد حصار قائم کر دیا ہے  اور  سارے علاقے میں    ہزاروں پولیس اہلکار   اور  نیم فوجی  اہلکار گشت کر رہے ہیں۔   یہ سرحدیں اب مزید   صوبائی  سرحدیں نہیں  رہیں۔ نئی نئی جنگوں کا سامنا ہے۔  ‘بے پنا ہ شادمانی ‘ میں  سب  ٹکراؤ ایک دوسرے میں   لپٹے ہوئے ہیں- کشمیری کی جدوجہدِ آزادی، بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی، اور بہت سے  دیگر  ماحولیاتی اور سیاسی ٹنٹے جو  عام لوگوں کو ہزاروں طریقوں سے   اکھاڑ اور  پچھاڑ رہے ہیں۔ یہ سب  شہر کی گلیوں کے جال کی طرح ایک دوسرے سے  جڑے ہوئے ہیں۔

گھوش: ‘بے پناہ شادمانی’ میں  لوگوں (زندہ و مردہ  )،  مخلوقات (پرندوں،  میملز،  پتنگوں)، اور جگہوں  (کھنڈرات سے لے کر جنت نما جگہوں تک) کے شاندار ملاپ  سے ایک ایسی  دنیا کا تخیل باندھا گیا ہے  جہاں غیر انسان ناگزیر ہے۔  بلکہ   ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز’ میں بھی وہ دنیا جس میں  بیانیہ کھلتا ہے  اتنی ہی اہم  ہے جتنے کہ  خود مرکزی کردار۔ آپ کی کائنات میں، مجھے یوں لگتا ہے کہ، انسانی سمیسا  ایک  لاینحل طریقے سے  دیگرِ انسان سے   الجھی ہوئی ہے۔

رائے:   ہر کوئی یہ   پہلو  نوٹ نہیں کر تا، واقعی۔  مجھے یاد ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ اسے یوں لگا گویا   ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز’ میں  حشرات اور  دیگر  مخلوقات  کی بھنبھناہٹ اور   اچھل کود  ایک طرح  کی پسِ پردہ موسیقی  ہے۔  وہ انھیں سن سکتی ہے۔   میں دنیا کو ا س انداز سے  دیکھنے سے قاصر ہوں، بلکہ   ایسا  تصور بھی نہیں کر سکتی، کہ  گویا انسان   ہی اس کا مرکز ہے۔  ہم کسی بھی شے- کسی کلامیے، کسی  نظریے،  حتی کہ کسی مذہب-  کو  سنجیدگی  سے کیسے تسلیم کر سکتے ہیں  جو    محض انسانوں  کے  بارے میں ہو؟ یہ تو ایک طرز کا تشدد ہے۔  ایک  بے مصرف،  اندھا ، احمقانہ  تشدد۔

یقیناً  ‘دی گاڈ آف سمال تھنگز’ میں  لینڈ اسکیپ اور اس کی  دیگرِ انسان آبادی  مرکزی انسانی کرداروں  کو گھیرے رکھتی ہے۔ لیکن  ‘بے پناہ شادمانی’ میں بھی  دیگرِ انسان مخلوقات  زندگی کا جزوِلاینفک ہیں۔ ہمارے  بے  ہنگم آبادی والے   دگج  شہروں  تک میں  دیگرِ انسان سرگرمی بے پناہ ہے، اور یہ  محض     قلادوں والے  پالتو جانوروں کی بات نہیں ہے۔   بلکہ  کووں کی کانفرنسیں ہیں،  آوارہ کتوں کی  انجمنیں ہیں،  گھوڑوں  کی گپ بازیاں  ہیں،  بندروں کا سنکی پن ہے۔   بس آپ کو اتنا کرنا ہے کہ  اپنی آنکھیں اور اپنے کان-اور ہاں اپنے دل بھی- کھلے رکھنے ہیں اور بالکل ہی الگ  شہر اور   شہر کی کہانیوں  کا انکشاف ہوگا۔

گھوش: کرونا وبا اور مارچ 2020ء کے کامل  لاک ڈاؤن نے  شہر کی صورت اور تخییل دونوں کو  بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب شہریوں کی اکثریت نے خود کو  محدود کر لیا تھا تو آپ  گلیوں  میں نکل آئی تھیں۔ آپ نے کیا دیکھا؟

رائے:   میں نے وہی دیکھا جو باقی دنیا نے دیکھا، فرق بس اتنا تھا کہ میں نے صرف  موبائل کی اسکرین پہ ہی نہیں  دیکھا۔  جب مودی نے دنیا کے سخت ترین اور سب سے ظالمانہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا  ، جس میں   ایک ارب تیس کروڑ کی آباد ی  کو محض چار گھنٹوں کا نوٹس دیا گیا تھا ، تو  یہ بات  بالکل واضح ہو گئی تھی کہ   وہ اس ملک کے بارے میں  کچھ نہیں جانتا جس کا وہ وزیرِ اعظم ہے۔  وہ محض  اس کی نقل کر رہا تھا جو  امریکہ اور یورپ میں  کیا جا رہا تھا لیکن  زیادہ  حاکمانہ   اور زیادہ  آمرانہ انداز میں۔  پچھلے ہفتے  اس نے  لوگوں  سے کہا کہ وہ  اپنی   بالکونیوں پہ آئیں  اور اپنے  برتن اور تھالیاں   پیٹیں اور گھنٹیاں بجائیں۔ جیسا کہ یورپ میں لوگوں نے کیا۔  مگر بھارت میں  کتنے لوگوں کے ہاں بالکونیاں ہیں؟ یہ نہایت شرمناک تھا۔  متمول مغربی ممالک میں لاک ڈاؤن کا مقصد  جسمانی   فاصلے کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن یہاں بھارت میں، بے پناہ   ازدحامی جھگیوں اور جھونپڑ پٹیوں  میں،  اس عمل کا عین الٹ نتیجہ ہوا- یعنی جسمانی فاصلے سمٹ کے رہ گئے۔  اعلانِ لاک ڈاؤن کے اگلے ہی دن، بھارت نے  اپنے  خوفناک  راز  دنیا کے سامنے اگل ڈالے۔   بڑے شہروں  کے کونوں کھدروں  میں  موجود مزدور طبقے کے کروڑوں  لوگوں  نے- میرے فنِ تعمیر والے تھیسز کے غیرِ شہری-  جو معمولی  معاوضے پر   چھوٹی موٹی، بے ضابطہ نوکریاں کرتے ہیں خود کو بے روزگار پایا اور ان کے پاس ان مختصر   یک کمرہ رہائشوں کا کرایہ تک نہیں تھا جن میں وہ رہتے تھے۔ ایک بہت بڑی ہجرت کا آغاز ہوا جس کی وسعت   یومِ حشر کی سی تھی ۔ لاکھوں  مزدور  اور ان کے گھر والوں نے  ہزاروں میل  دور واقع اپنے دیہاتوں کی جانب   پیدل سفر کا آغاز کیا۔ راستے میں انھیں پولیس نے  پیٹا،  ان پہ آبدھارے  مارے گئے ،  ریلوے ٹریک پہ  سفر کرنے والے کئی لوگ ریل  کے نیچے کچلے گئے،    اور  بہت سوں کو  زندانی کیمپوں میں   بھیج دیا گیا۔  جیسے ہی میں نے   اپنے شہر کی گلیوں  کو کرونا  کے پناہ گیروں کے سمندر   میں بدلتے دیکھا ، میں باہر نکل آئی۔ میں نے دہلی-اترپردیش  سرحد  کے مناظر دیکھے۔ میں   نے ان پیدل چلنے والوں کے ساتھ بھی   کچھ  سفر کیا۔

گھوش: ایک سال سے اوپر وقت بیت چکا ،   شہر پہ کیا اثرات مرتسم ہوئے؟

رائے: اس لاک ڈاون کا نتیجہ،  جو   لاک ڈاؤن  تھا ہی نہیں،  یہ نکلا کہ   ہندوستان میں وائرس پھیل گیا۔  خوش قسمتی سے،یہ اتنا   تباہ کن  یا مہلک ثابت نہیں ہوا  جتنا کہ یہ بہت سے    امیر ملکوں میں ثابت ہوا –اور ابھی تک   ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن نے پہلے  ہی سے شدید  مندی کا شکار معیشت کو تباہ کر ڈالا۔ شہری معیشت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔  ہندوستان کی شرح نمو بہت زیادہ  منفی  نمو  دِکھا رہی ہے۔ اس سب تباہی کے دوران، جبکہ  زراعت ایک عمومی بحران کا بھی شکار ہے،  کرونا وبا  کے دوران کسانوں  نے  کھیتوں میں اپنی محنت جاری رکھی، تاکہ ہمیں  خوراک کی پیداوار کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن  ان سب مصائب کو  گویا    ناکافی سمجھا گیا  اور اب کسانوں  کو بھی ایسا دھچکا پہنچایا گیا ہے  جس سے  ممکن ہے وہ  سنبھل نہ سکیں۔ اِلا یہ کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور   قوت کے ساتھ ان نئے قوانین  کو  لوٹا دیں۔ تو یہ ہے   داستانِ شہر اور شہرِ داستان کا نیا باب۔  پچھلے سال لاکھوں  مزدوروں کو  شہر چھوڑنے پہ  مجبور کر دیا گیا تھا۔  اس سال  لاکھوں کسان اس کی دہلیز  پہ آ پہنچے ہیں۔ ان دو واقعات کے بیچ ایک  رزمیہ داستان  موجود ہے۔ ہمارے وقتوں کی داستان!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search