حرصہ علی الوقت (وقت کی اہمیت)۔ مصنف: عرفان یلماز (مترجمہ: حفصہ عبدالغفار)

 In ترجمہ
نوٹ: علم حیاتیات کے ترکی نژاد پروفیسر ڈاکٹر عرفان یلماز نے 2009ء میں صلاح الدین ایوبی کی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف ترکی نژاد جرمن محقق  فواد سیزگین کے حوالے سے ایک کتاب تالیف فرمائی جس کا عربی ترجمہ ’’المکتشف الکنز المفقود: فؤاد سزكين‘‘ (گم شدہ دفینوں کا کھوجی: فواد سیزگین) کے عنوان سے ہوا۔ اسی عربی ترجمہ کے ایک منتخب حصہ ’’حرصہ علی الوقت‘‘ (وقت کی اہمیت)  کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔ سلاست بیان اور روانی کو کسی حد تک برقرار رکھنے کی غرض سے آزاد ترجمہ  کو ترجیح دی گئی ہے۔

فواد سزگین اور وقت کی اہمیت

وقت کے حوالے سے پروفیسر فواد سزگین حیران کن حد تک حساس ہیں۔ اس حد تک  کہ آج بہت سے لوگ اسے مبالغہ آرائی سے تعبیر کریں گے۔  جبکہ یہ حساسیت ایک مسلمان کے حقیقی اخلاق کی نشاندہی کرتی ہے۔  دوسروں کی حق تلفی نہ  کرنا اور ان کے وقت کا ، جو کہ ان کی سب سے بڑی متاع ہے،  ضیاع نہ کرنا مسلمان کے سچے اخلاق کاحصہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اس منہج و اخلاق سے دورہو چکے ہیں۔ جبکہ  جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں وقت کے احترام  کو ایک اہم قدر سمجھا جا جاتا ہے اور پروفیسر فواد سزگین ہمیں احترام وقت کے  تئیں ایک عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول ،

جب میں اپنے استادریٹر کے ہاں طالبعلم تھا، تو ان کے لیکچرز میں حاضر ہوتا تھا۔ جب ہمارا تعارف ہو گیا تو ان کے اگلے لیکچر میں تین منٹ تاخیر سے پہنچا۔ انہوں نے اپنی جیب سے سونے کی گھڑی نکالی، اور میری طرف یہ کہتے ہوئے متوجہ ہوئے :  ’’تم تین منٹ دیر سے آئے ہو۔  آئندہ،  ایسا نہ ہو‘‘۔ میں نے ان کو جواب دیا:  ’’بہتر‘‘۔  پھر میں نے اس حوالے سے بہت محنت کی  کہ مجھ میں بھی اس حوالے سے حساسیت پیدا ہو۔ اور اس دن سے ہی میں اس بات کاخیال رکھنے لگا کہ  اپنے مقررہ اوقات میں تاخیر نہ کروں۔

اس وقت سے لے کر چالیس سال کے دورانیے میں ،  فقط تین موقعوں پر مقررہ وقت سے دیر  ہوئی ، مگرآج تک میرا ضمیر اس تاخیر پرمجھے سرزنش کرتا ہے۔ پہلا واقعہ تب ہوا جب میری اور میری بیوی کی نئی نئی نسبت طے پائی تھی۔ہم نے طے کیا کہ اکٹھے شاپنگ پر جائیں گے۔ لیکن میں اس دن بھول گیا۔ میں اکیلا رہتاتھا، تو مجھے  نیند آگئی اور وعدے کے مطابق اس سے ملاقات کے لیے  نہ پہنچ سکا ۔  میری بیوی سٹیشن پر میرا انتظار کرتی رہی۔ جب میں نہ پہنچا تو اس نے کال کی اور پوچھا ، ’’تم کہاں ہو؟‘‘۔ اس لمحے مجھے سخت شرمندگی محسوس ہوئی ۔

دوسرا واقعہ تب ہوا جب مجھے جرمنی کے شہر بون میں عراق کے سفیر سے ملنا تھا۔ میں اپنی سستی کی وجہ سے مقررہ وقت پر نہ پہنچ پایا۔ جب میرا انتظار کرکے اس شخص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے ناراضگی کا  اظہار کیا۔  وہ اس معاملے  میں حق پر تھا۔

 تیسرا واقعہ بھی  زوجہ محترمہ کے ساتھ ہوا جب میں نے ان سے ملاقات کا وعدہ کیاتھا۔  ان  تینوں مواقع  پر، اپنے عہد کو  پورانہ کرسکنے کے حوالے سے، ہنوز میرا ضمیر اس حد تک  سرزنش کرتا  ہے کہ جب بھی مجھے ان میں سے کوئی واقعہ یاد آتا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے۔

ہمیں آج عالم اسلام میں وقت کے مفہوم اور اس کی اہمیت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ آج وقت کے استعمال اور اس سے فائدہ اٹھانے کی سمجھ بہت کم ہے۔ عہدوپیمان کی ذمہ داری جیسی اخلاقی قدر لوگوں کے اندرسے معدوم ہو رہی ہے۔ لا حول ولا قوة إلا بالله۔

یورپی  لوگ ہم سے زیادہ اس بات کا خیال کرتے ہیں، اور مجھے یہ اعتراف کرنا چاہیے  کہ  نوجوانی کے زمانے میں میرے اندر بھی یہ فہم نہیں تھا۔ لیکن میں نے جرمنی میں رہنے کے بعد دیکھا کہ وقت کی قدر سے آگہی ان اہم بنیادوں میں سے ہے جن پر مغربی تہذیب کھڑی ہے۔

 زندگی کے جن اوقات میں انسان کو غور و فکر اور اپنی سوچ کی تعمیر  کرنی چاہیے ، ان کو بہت سے مسلمان گھومنے پھرنے میں ضائع کردیتے ہیں۔ ان کو کسی حد تک اپنی ذات کی  نفی کرنا بھی سیکھنا چاہیے وگرنہ وہ بڑے کام نہیں کر سکتے۔ میں کبھی کبھار اپنی لائبریری میں تحریروتالیف کاکام کرتے ہوئے تھک جاتا ہوں۔مجھےکچھ آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پھر فوری طور پر میں سوچتا ہوں کہ وقت گزر رہاہے۔ اس وقت کا دوبارہ حصول ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پیسے سے خریدا جا سکتا ہے۔ میں اپنے آپ پر غصہ ہوتا ہوں اور خود سے کہتا ہوں کہ تم وقت کے اس ضیاع پر کیسے راضی ہو؟

لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان کی زندگی بہت مختصرہے۔ وہ اپنے اوقات کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی آگاہی نہیں رکھتے کہ وقت اللہ کا عطیہ ہے، جو اس نے ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا ہے۔ میں میوزیم کی بنیاد رکھنے سے متعلقہ کاموں کی وجہ سے اکثر ترکی جایا کرتا تھا۔ اور چوں کہ زیادہ تر ہفتہ وار چھٹی پر جاتا تھا، توجب بھی میں دوست و احباب سے رابطہ کرتا مجھے جواب ملتا ،’’اس چھٹی  پر نہ آنا، ہمارے ہاں شادی ہے‘‘۔ ٹھیک ہے، شادی کریں لیکن ان کو اس پر  محنت و مال  کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بھی بڑھ کر وقت کا ضیاع ہے۔ یہ بہت ہی عظیم خسارہ ہے۔ آج دعوتوں کی کثرت میں لوگوں کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ شادی کی مناسبت سے دعوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر دعوتیں بھی ہوتی ہیں مثلا عقیقہ، ختنہ وغیرہ۔

شدید افسوس  کی بات ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سے محفوظ  نہیں ہے ۔ ایک مرتبہ ترکی میں ایک محبوب دوست سے اس لئے ملاقات نہیں ہوئی کہ اس کے خاندان میں کوئی دعوت  تھی۔ ایک دوسرا دوست میرے ٹیلیویژ ن پروگرام باقاعدگی سے سنتا تھا۔  اس نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ وہ میری گفتگو نہیں سن پائے گا کیونکہ وہ شادی پرجا رہا ہے۔ یہ اس دوست کی بات ہے جو میری بہت قدر کرتا ہے۔ تو باقیوں کا کیا  حال ہوگا؟  مجھے ایسی  بات کسی جرمن شخص سے سننے کو نہیں ملتی ۔ جب میں نے شادی کی،تو ہمارے معاملات صرف دو گواہوں کی موجودگی میں طے پاگئے۔ ان میں سے ایک میری زوجہ کے بھائی اور دوسرے میرے دوست تھے جو تاریخ علوم کے شعبےمیں کام کرتے تھے۔ کھانے کے بعد میرے دوست نے ہمیں فرینکفرٹ ہمارے گھر چھوڑا اور اس طرح نکاح مکمل ہوگیا۔ میں لوگوں کے قیمتی اوقات  کو صرف اس وجہ سے نہیں چھین  سکتا کہ میں شادی کر رہا ہوں۔  ہم ہمیشہ اس بات کو  فراموش کر دیتے ہیں کہ وقت اللہ کی بڑی نعمت ہے اسی لئے اس کو فالتو امور میں ضائع کر دیتے ہیں۔ میرے لئے چھٹی کا کوئی دن نہیں ہے۔ سال کے تین سو پینسٹھ دن میرے لئے کام کے اوقات ہیں۔ میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے جسے میں یوں ہی ضائع کردوں۔ میں نے خود کوپابندکررکھا ہے کہ میں روزانہ بشمول ہفتہ و اتوار صبح ساڑھے سات بجے اپنے ادارے میں  موجود ہوں۔ جو لوگ اہل علم میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کو اپنے کام کے لئے اس سے ملتا جلتا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ جب تک ہم یہ نہیں کریں گے ہم اپنے ممالک کو ترقی یافتہ نہیں بناسکتے۔ لہذا ہمیں اپنے اوقات کو منظم کرنا ہوگا۔ اور ترک قوم ، خاص طور پر سیاست دان  بہت زیادہ سیر وتفریح کرتے ہیں۔ میں ان سے یہ نہیں کہتا کہ مت گھومواور اپنے گھروں اور دفاتر میں بیٹھو۔ انہیں لوگوں سے ملنے جلنے کا حق ہے، لیکن اسی دوران  ان کو مطالعہ وتخلیق کی غرض سے اپنے دفاتر میں بھی  بیٹھنا چاہیے۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search