نوآبادیاتی اسلام: محمد بلال محمد (ترجمہ: عبدالرحمن قدیر)
مسلم دنیا میں سامراجی منصوبے کی تفہیم کے واسطے، مصر کی برطانوی نوآبادکاری کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
لارڈ کریمر کے نام سے معروف ، ایورلین بارنگ 1877 ء تا 1907 ء (لگ بھگ تین دہائیوں) تک تاجِ برطانیہ کی جانب سے مقبوضہ مصر کا قونصل جنرل تھا۔ اس نے ’’جدید مصر‘‘ (1916ء) نامی اپنی کتاب کے اندر اپنے ایامِ حکومت کے بارے میں لکھا۔ اس کی کتاب میں پیش کردہ بعض نتائج درج ذیل ہیں :
1۔ مغرب کسی بھی صورت ایک اسلامی حکومت برداشت نہیں کرے گا۔
(لارڈ کریمر ) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 565 پر کہتا ہے ، یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہوگی کہ یورپ کوئی بھی ایسی حکومت برداشت کرے گا ’’جو کہ خالص محمدی اصولوں یا فرسودہ مشرقی خیالات پر مبنی ہو‘‘ ۔
2۔ مسلمانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ مغربی تہذیب کے اصولوں کو اپنائیں۔
(لارڈ کریمر ) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 538 پر کہتا ہے ، مصر کو ’’مغربی تہذیب کی حقیقی روح کو اپنے اندر سمو نے پر مجبور کیا جائے‘‘۔
3۔ مغربیت کو لازمی طور پر حقوق نسواں کے بہروپ میں متعارف کرایا جائے۔
لارڈ کریمر صفحہ 539 پہ کہتا ہے ، مسلمان ملکوں میں ’’خواتین کا مقام و مرتبہ‘‘ نوآبادیاتی اقدار کے راستے میں ایک ’’مہلک رکاوٹ‘‘ تھی۔
4۔ مغرب کو چاہیے کہ نوجوان سیکولر مسلمانوں کی ایک جماعت کو خصوصی طور پر حکمرانی کے لیے تیار کرے۔
صفحہ 230 کے مطابق کریمر پر امید تھا کہ مصر میں یورپی طرز کے نظام تعلیم کی بدولت ایک مصری ’’اپنی اسلامیت پسندی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا‘‘ کیونکہ ’’اس بات پر یقین یا توجہ ختم کر دی جائے گی کہ وہ ہمیشہ حضوری کی حالت میں ہے‘‘ نیز صرف اور صرف ’’اپنے مذہب کے انتہائی غیر اہم پہلوؤں‘‘ سے منسلک رہے گا ۔
5۔ مغرب کو اسلام کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
صفحہ 228تا 229 کے مطابق ، مرکزی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو اسلام سے دور ہٹایا جائے (Demoslemized Moslems ) یعنی ایسے معاشرے کی تخلیق کی جائے جہاں لوگ نام کے مسلمان ہیں مگر درحقیقت متشکک ہوں۔ آخرکار کریمر کہتا ہے کہ ’’اسلام کی اصلاح نہیں کی جا سکتی ۔۔۔ (کیونکہ) ایک اصلاح شدہ اسلام، بلاشبہ اسلام نہیں ہے‘‘۔
6۔ مسلمان مصلحین ، یورپیوں کے مقابلے میں اسلامی علمی روایت سے زیادہ نفرت کریں گے ۔
مغرب زدہ مسلمان ایک عالم کو معاشرتی طور پر حقیر سمجھیں گے، مناسب موقع پر اس کا استعمال کریں گے لیکن اس کے علاوہ اس کی جانب تحقیری رویہ اختیار کریں گے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک یورپی عیسائی دانشور ایک عالم کو کم از کم ہمدردی کے جذبہ سے دیکھے گا، ایک قدیم مذہب کے نمائندہ کی حیثیت سے۔ (صفحہ 299-300)
7۔ جدید مسلمان الہیٰت پرست (Deists) ہو جائیں گے۔
قرینِ قیاس ہے کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ مسلمان ایک مخصوص مذہب کو تشکیل دیں گے، جو کہ شاید خالص الہٰیت پسندی یا رہبانہ صفات کا حامل دین ہوگا نیز جو کہ کلی طور پر ماضی یا حال کی اسلامیت سے بعید تر ہوگا، اور وہ محمد(ﷺ) کی تعلیمات کو یکسر ترک کر دیں گے، تاہم ایک خاص ضابطہ قائم کریں گے جو کہ معاشرے کو ذاتی مفادات کے علاوہ ایک باہمی بندھن میں جوڑ کے رکھ پائے (صفحہ 234)۔
چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام میں اصلاحات کی ابتداء ایک نوآبادیاتی منصوبہ کے تحت ہوئی۔ ایک گھناؤنا منصوبہ جس کا مقصد علماء کی حیثیت کو سبوتاژ کرنا، سیکولر اداروں کی تشکیل ، اور بتدریج غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کو اپنی روایت کے مرکزی ستونوں سے دور کرتے ہوئے منقطع کر دینا تھا۔ وہ (اہل مغرب ) واقف تھے کہ اصلاح یافتہ اور لبرل مسلمان،اپنے اسلامی تشخص کو چھوڑ کے یورپ کےبل بوتے پہ زندگی گزارنے والے پیر تسمہ پا کے وجود کی صورت میں زندہ رہے گا جو کہ مذہب کو فقط اپنی ضروریات کی خاطر اور مطابق ڈھالنے اور استعمال کرنے کے جتن میں مصروف رہے گا ۔
سات نکات پر مشتمل یہ منصوبہ ہی دراصل اس عالمی مظہر کی بنیاد ہے جو مسلم دنیا کے نوجوانوں میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو رضاکارانہ بنیادوں پر سیکولر علمیت اور پاپولر کلچر کے حوالے کر چکے ہیں نیز حقیقی معنوں میں اسلامی اندازِ جہاں بینی اور اسلامی علمیات سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ اور ان حالات میں وہ خود کو اسلام کے مصلح، اعتدال پسند یا لبرل مسلمان کہلوا نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ حالاں کہ ان کے روحانی (نوآبادیاتی) پیشوا بھی اس بات کو بہ خوبی مانتے ہیں کہ یہ اصطلاحات بذات خود باہم متناقض ہیں۔
زمانہ بدلتا رہتا ہے، لیکن صحیح ہمیشہ صحیح کے طور پر پہچانا جائے گا، اور غلط ہمیشہ غلط رہے گا۔
اگر آپ بذات خود کتاب پڑھنا چاہیں تو مندرجہ ذیل لنک پر پڑھ سکتے ہیں:
اصل لکھاری کا فیسبوک اکاؤنٹ: https://www.facebook.com/mr.bilal.muhammad