فاؤسٹ (ابتدائیہ)
تاریکی کے دروازے کھلے اور ابلیس نے ان میں سے دنیا پر نظر ڈالی ۔ اس کے سر پر سینگ تھے اور وہ بھیانک تھا۔ اور اس نے دنیا اور دنیا کے سرمایۂ آب پر اپنا ایک لمبا سانس چھوڑا۔ نسلِ آدم خوف سے اس کے آگے سرنگوں ہو گئی ۔ کیونکہ اس کا سانس عذاب تھا ، موت اور تباہی تھی ۔ اور اس نے اپنے کارنامے کو دیکھا اور قہقہہ لگایا ۔
اور پھر ایک زور کی سرسراہٹ سنائی دی اور خیرہ کن چمک پیدا ہو گئی ۔ اور لو! ایک سحابِ منور پر ایک فرشتہ نور کھڑا تھا ۔ اس کا چہرہ دیکھنے سے خوف آتا تھا ۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک دہکتی ہوئی تلوار تھی ۔ اور تلوار پر ایک لفظ لکھا تھا — ’’صدق‘‘ ۔
اور فرشتہ نور نے اپنے لب وا کیے اور اس طرح بولا جیسے بانسریاں بجتی ہوں :- ’’دنیا کے باشندوں پر تُو جنگ ، طاعون اور قحط کا عذاب کیوں ناز ل کر رہا ہے؟‘‘
اور ابلیس نے جواب دیا : ’’دنیا میری ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ہنسا اور اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے پیتلی ڈھالوں کے ٹکرانے سے جھنکار پیدا ہوتی ہے ۔
اس کے بعد فرشتہ نور پھر بولا ۔ ’’ اس وقت تک دنیا تیری کبھی نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان تلاشِ صدق ترک نہ کر دے ۔ نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کی قوت ہر انسان کو بخشی گئی تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا کو فراموش کر بیٹھے اور تُو دنیا پر چھا جائے‘‘۔
پھر ابلیس نے اونچی آواز میں کہا۔ ’’ سب انسان بد ہوتے ہیں اور ہوائے نفس کے غلام ہوتے ہیں‘‘۔
فرشتہ نور نے اس کے جواب میں کہا ۔ ’’فاؤسٹ معلم کو دیکھ اور اس کی بات سن‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے اپنی دہکتی ہوئی تلوار کی ایک ضرب لگائی اور لو ! ان کی آنکھوں کے سامنے فاؤسٹ آ گیا ۔ جو بیٹھا دنیا کے جوانوں کو عقل کی باتیں سکھا رہا تھا۔
پھر ابلیس چیخ کر بولا ۔ ’’فاؤسٹ بھی سب کی طرح بدکردار ہے وہ اپنے لبوں سے نیکی کا درس دیتا ہے مگر اس کے ہاتھ بدی میں مشغول رہتے ہیں ۔ اس کے دل میں مال و دولت کی ہوس ہے ۔ اسے پارس پتھر کی تلاش ہے جو ہر چیز کو سو نا بنا دیتا ہے ۔ میری سنو! میں قسم کھاتا ہوں کہ فاؤسٹ کی روح خدا سے چھین کر رہوں گا‘‘۔ یہ کہتے کہتے غور سے اس کا سر اونچا ہو گیا ، ایک ہاتھ آگے بڑھا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں خوفناک طور پر چمک رہی تھیں ۔
پھر فرشتہ نور نے اپنی تلوار کی ایک اور ضرب لگائی اور اس سے ایک تیز سفید روشنی کا بڑا سا شعلہ نکلا اور ابلیس نے اپنی آنکھیں چھپا لیں کیونکہ وہ اس شعلے کو دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا تھا ۔
اور فرشہ بولا ۔ ’’ اس مقدس چنگاری کو جو فاؤسٹ میں چمکتی ہے اگر تو غارت کر دے تو دنیا تیری ہو جائے گی‘‘۔
پھر ابلیس نے اپنا ایک ہاتھ اوپر اٹھایا جو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تاریکی کا ایک مینار ہے اور زور سے چیخ کر بولا ۔ ’’ابلیس کی تابِ مقاومت (مقابلے کی قوت) کوئی نہیں لا سکتا ۔ اپنے قول پر قائم رہنا‘‘۔
اور فرشتہ نور رخصت ہوا اور اس کے جانے میں ایسی آواز پیدا ہوئی جیسے پیچ و تاب کھاتے پانی کی گڑگڑاہٹ ، اور روشنی کی چمک اس کے ساتھ معدوم ہوئی ۔اور تاریکی کے دروازے پیتل سی جھنکار کے ساتھ بند ہوئے۔ اور دروازوں کی دوسری طرف سے شیاطین کے قہقہوں کی آواز گونجتی سنائی دی ۔