خالدہ حسین کا سیاسی فکشن۔ تحریر: حیدر شہباز (ترجمہ: اسد فاطمی)

 In ترجمہ, یاد نگاری

ایک مکھی کی موت واقع ہو گئی ہے۔ لیمپ تلے جنازہ ہے۔ سوگوار جمع ہیں۔ بَین ہو رہے ہیں۔ لکھاری – ایک عورت جو اپنے لکھنے پڑھنے کی میز پر مکھی کے جنازے کا تماشا کر رہی ہے – اس منظر پر ہنسے بنا نہیں رہ پاتی۔

پھر کیا ہوتا ہے؟ وہ اپنے الفاظ مکمل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ حروفِ  ابجد میں بھٹک گئی ہے۔ اشیاء اسے بھٹکا کر نئی شکلوں میں ڈھل رہی ہیں۔ نتیجۃً – وہ اپنا آپ گنوا بیٹھتی ہے اور وہ دُوجا ہو جاتی ہے۔ دوجا کون؟

دن، ہفتے، مہینے، شاید سالوں، وہ  ہاتھ میں قلم لیے سرگرداں پھرتی ہے۔ وہ اپنی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہے۔ اسے بجلی کی تاروں پر تین چڑیاں اکٹھی بیٹھی نظر آتی ہیں۔ وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اگر ان میں سے ایک چڑیا اڑ گئی تو وہ لکھنا شروع کر دے گی۔

ایک چڑیا اڑ جاتی ہے۔ اب تو اسے لکھنا ہو گا۔

لیکن ساتھ ہی ایک مکھی اڑ کر کاغذ پر آن بیٹھتی ہے۔ وہ کاغذ کو درست کرتی ہے۔ مکھی کاغذ پر سے اڑ کر اس کے ہاتھ پر آ بیٹھتی ہے۔ وہ اپنا ہاتھ جھٹکتی ہے۔ مکھی اڑتی بھنبھناتی ہوئی لیمپ کے نیچے پڑی ایک کتاب پر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

لکھارن ایک  مُڑا ہوا  اخبار پارہ ہاتھ میں  لیتی ہے، مکھی کا نشانہ لیتی ہے، اور ایک ہی جھپٹ میں مکھی کا کام تمام کر دیتی ہے۔ یوں مکھی کی موت واقع ہوئی۔ یوں کہانی شروع ہوئی۔

لکھارن ہنس پڑتی ہے۔ لیکن اسے خود اپنی ہی ہنسی میں ایک بھنبھناہٹ سی معلوم پڑتی ہے۔ اب مزید وہ نہیں جان پا رہی کہ وہ تماشا ہے کہ تماشائی، موضوع ہے کہ معروض، لکھاری ہے کہ مکھی۔

کوئی دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ایک سرکاری اہلکار اسے گرفتار کرنے آیا ہے۔ ایک قومی بحران کے ایام  میں بھی  وہ ایک مکھی کے بارے میں لکھنے کی مرتکب ہوئی ہے۔

یہ وہ ماجرا ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ، غیرماجرا ہے، جو خالدہ حسین کے افسانے ’زوال پسند عورت‘ میں ہوا ہے۔

یہ افسانہ اس بحث کے قلب تک جا پہنچا ہے جو اردو ادب اور، غالباً،  پورے مابعد نوآبادیاتی ادب میں سب سے زیادہ پرجوش مباحث میں سے ایک ہے: سیاسی تحریر کیا ہوتی ہے؟ کسی ’قومی بحران کے وقتوں‘ میں لکھنے والوں کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

ہم اکثر سیاسی لِکھت اور جمالیاتی لکھت کے درمیان امتیازات قائم کرتے رہتے ہیں –  لکھت جو اپنے وقت کی سیاست کا سامنا کرتی اور لکھت جو زبان، ہیئت، لب و لہجے، اسلوب وغیرہم کے مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہے۔

کچھ ایسے  لکھاری ہیں جنہیں آمروں کے آگے مزاحمت، ظلم کے خلاف جہاد، طبقاتی، نسل پرستانہ، اور جنسیتی نظاموں کے اجارے کے رد کرنے کی وجہ سے یاد رکھا  جاتا  ہے۔ کچھ دوسرے لکھاری ’ادب برائے ادب‘، مگھم (esoteric) غنائیت، اور تجرباتی نثر کے ابہامی پانیوں  کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔

خالدہ حسین نے اپنے افسانوں میں پورے تحمل، احتیاط اور بے رحمی سے ان امتیازات کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ وہ بہت سے تجرباتی لکھاریوں کے برعکس، محض سیاسی مباحث کے مشمولات کی صوری اور صوتی بغاوتوں کے ساتھ آمیزشیں نہیں بناتی۔

وہ اپنی ان بغاوتوں کی جمالیاتی قوت کو عین اس سیاسی کی جڑ پر آزماتی ہے۔ ۔ میں یہ کہوں گا کہ ہو سکتا ہے کہ خالدہ حسین کا فکشن ’سیاست‘ میں دلچسپی کا حامل نہ ہو، لیکن وہ ’سیاسی‘ میں گہری دلچسپی (اور کھپت) کا حامل ہے۔

دوسرے لفظوں میں، وہ سیاست میں ان معنوں میں تو دلچسپی نہیں رکھتی جن معنوں میں یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے یا خبری میڈیا – منتخب نمائندوں، افسرشاہی، قانون، حالات حاضرہ، قلمرووں یا خارجہ پالیسی کے ہاں دکھایا جاتا ہے۔ تاہم، وہ اس بنیاد کی تفتیش میں گہری دلچسپی رکھتی ہے جس پر تمامتر سیاست کھڑی ہوتی ہے – اخلاقیات، مابعد الطبیعیات، جمالیات۔

یا، چلیے اسے اس طرح سے دیکھتے ہیں، وہ ہماری اپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے درمیان ، ہمارے اپنے اور دوسرے ذی روحوں کے درمیان، خود اپنے اور دنیا کے درمیان، ہمارے اپنے اور زبان کے درمیان، اور سب سے اہم یہ کہ ہمارے اپنے اور ہمارے اپنے ہی درمیان کے رشتے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

اس کا افسانہ اس ادراک میں تربہ تر ہے کہ   علامات (سیاست) سے تب تک افاقہ نہیں ہو گا جب تک اس کا سبب بننے والے سیاسی اضطراب کو سامنے نہ رکھا جائے۔ اور ہاں، اس حسیت کے باب  میں ایک مکھی کی موت بہت فیصلہ کن ہے۔

یہ  حسیت  کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ نکولو میکیاولی سے لے کر آدرے لورد تک سیاسی مفکرین کو اس بات کا ادراک رہا ہے کہ سیاست، علم کے دیگر  منطقوں  پر انحصار کرتی ہے۔

خالدہ حسین کی  عظمت   یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی تفتیشات کو اپنے کرداروں کی مخصوص، روزمرہ زندگیوں میں جاگزین  دکھانے کی صلاحیت رکھتی   ہے۔ ایک عورت مکھی کو دیکھتی ہے۔ ایک عورت ایک مکھی کو مار ڈالتی ہے۔ پھر ایک عورت   ایک مکھی سے اٹوٹ ہو جاتی ہے۔  

یہ مغربی فلسفے  کی تجریدات  نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارے ساتھ ہیں – یہاں ہمارے پاس، روزمرہ زندگی کی مخصوص، چھوٹی چھوٹی،  باریک اور پراسرار جزویات کے اندر – جہاں کہ حقیقت کی، خودی کی سرحدیں تحلیل ہونے لگتی ہیں اور ہمیں اپنی زندگیوں کی   سیاسی حالتوں کی تہہ میں جھانکنے کا  موقع فراہم کرتی ہیں۔

اس کے فکشن کے ایک پہلو کو ہی لے لیں: وقت کا برتاؤ۔ اس کے کردار سونے اور جاگنے   کی کیفیت کے درمیان، اور جینے اور مرنے کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جب وقت کی گرفت اس چیز سے ڈھیلی پڑنے اور اکھڑنے لگتی ہے، جسے ہم حقیقت کہتے ہیں۔

زوال پسند عورت میں،   لکھارن مکھی کو مردہ پا کر مکھی کے زمانی تجربے پر حیران ہے۔ وہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہم جسے ایک لمحہ کہتے ہیں – – ایک مہین سا لمحہ – – لکھاری کی زندگی میں وہ مکھی کی زندگی کے سال ہا سال ہو سکتے ہیں۔

بازو اور ہاتھ کی  ایک  جھپٹ سے مکھی مارنے میں محض  چند ثانیے لگے ہوں گے  ، لیکن یہ کچھ ثانیے مکھی کے تجربے کا ایک وسیع، ناقابل پیمائش دورانیہ ہوں گے ۔ کیا وقت کا انسانی ادراک درست ہے؟ یا پھر مکھی کا وقت کا ادراک درست ہے؟

وقت کے بارے میں ، یا بلکہ، وقت کا ہمارے ادراک کے بارے میں، ایک سادہ سا استفسار ہمیں ایک اخلاقی مشاہدے تک لے آتا ہے: کیا میں ایک مکھی کی جگہ ہو سکتا تھا؟ کیا ایک مکھی میری جگہ ہو سکتی تھی؟ کیا میں مار رہا ہوں یا مارا جا رہا ہوں؟ کیا میں شاہد ہوں یا میں مشہود ہوں؟

بجا طور پر، وقت کا ایسا لچکدار ادراک ہمارے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہیے ۔ بہرحال یہ صنعتی گھڑیال کے زمینی-حقیقی گھڑیال کے وقت سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔

وقت کی یہ لچک ہمارے روزمرہ تجربے میں آتی ہے۔ کبھی   وقت تیزی سے گزرتا ہے، اور کبھی بہت دھیرج۔

وقت کی حرکت کا یہ روزمرہ مشاہدہ خالدہ حسین کے افسانوں میں ایک غیر معمولی پھیلاؤ   کا اخلاقی، مابعد الطبیعیاتی اور جمالیاتی مخمصہ بن جاتا ہے۔ یہ سیاسی طور پر مخربانہ بلکہ مجرمانہ امر بن جاتا ہے۔

یہ مقام کے ایک غیر متعین پن  تک لے آتا ہے -– کیا میں مار رہی ہوں یا ماری جا رہی ہوں؟ – جو، نتیجتاً،  کسی ’قومی بحران‘ نامی شے ہی کو  ہلا ڈالتا ہے۔ قوم کون ہے؟ عوام کون ہیں؟ دشمن کون ہے؟

ایسے مشاہدات اختلافی سیاست – وہ بمقابلہ ہم – کے مقصد کو آگے نہیں بڑھاتے، بلکہ ایسے غیرصحیح اختلافات کی بنیادوں ہی  کو بے نقاب کردیتے ہیں۔ حکومت لکھاری کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔

بیسویں صدی کے کچھ اہم ترین لکھاریوں اور ادبی تحریکوں نے سیاست اور جمالیات کے درمیان کے اس قابلِ لحاظ ربط کو خوب سمجھا ہے۔

پیرس کے سریئلسٹوں کا یہ ماننا تھا کہ اپنے خوابوں کو ضبط تحریر میں لانا مزدور طبقے کو آزادی بخش سکتا ہے۔ مارکسیت کے عمدہ ترین مفکرین میں سے ایک، والٹر بنجمن نے سریئلسٹوں کے سیاسی عزائم کا دفاع کیا تھا: ”برائے ادب کو شاذ ہی سنجیدہ لیا جاتا ؛ یہ ایک پرچم تھا جس کے نیچے ایک ایسا بیڑا تیر رہا تھا جسے کوچ کا فرمان نہیں تھا کیونکہ اس کے پاس ابھی تک کوئی نام نہیں تھا۔“

جب رالف والڈو ایمرسن نے امریکہ میں سیاہ فام تجربے کی حد درجہ مرئیت \غیرمرئیت کے بارے میں  لکھنے کی ٹھانی تو اسے اندازہ ہوا کہ اسے حقیقت کی سیّال نوعیت سے جوجھنا   ہو گا۔ اسے اس ادراک سے پیدا ہونے والے ناول، غیر مرئی آدمی (Invisible      Man) پر نیشنل بُک ایوارڑ سے نوازا گیا۔

انعام قبول کرنے کی تقریب میں، اس نے کہا؛ ”جب میں نے حقیقت کے چند سخت گیر تصورات کا جائزہ لیا۔۔۔ میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو گیا کہ میرے اور لاکھوں امریکیوں کے لیے، حقیقت کہیں زیادہ پراسرار اور غیر یقینی تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کہیں پرانبساط تھی، اور پھر بھی، اپنے خام تشدد اور سیلانی پن کے باوجود، کہیں زیادہ امکانات سے لبریز تھی۔“

اسی طرح، جب گابریل گارشیا مارکیز ’تنہائی کے سو سال‘ میں لاطینی امریکہ کی سیاسی اور تاریخی حقیقتوں کا احاطہ کرنے چلا، اس نے وقت کے سیّال پنے اور حقیقت کی موضوعیت پر زور دیا۔

ان تمام مصنفین کے لیے، وقت اور حقیقت کے ساتھ ان کے تجربوں نے ان کے سیاسی دعووں کو دبایا نہیں بلکہ انہیں سہارا دیا۔ ہم بیسویں صدی کے ادب سے اور بھی بہت سی مثالیں لے سکتے ہیں، لیکن میں خود خالدہ حسین کی طرف آؤں گا:

”لکھاری کوئی مبلغ، سماجی کارکن، یا سیاسی منتظم نہیں ہے۔ وہ صحافت اور صحافتی لکھت سے بھی بالاتر ہے۔ لیکن اس کا اثر سب سے وسیع اور سب سے دیرپا ہے کیونکہ وہ براہ راست لوگوں کے دلوں کے اندر کی بات کرتا ہے۔ لکھاری ان کی  سرخوشیوں، دکھوں، امیدوں اور خواہشوں میں شریک ہوتا  ہے۔ وہ موسموں، پرندوں، ہواؤں، خوشبوؤں کو سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ حقیقی ہدف باہر کی دنیا، دکھوں، امیدوں اور خوشیوں کا حال سناتا ہے۔ وہ موسموں، پرندوں، ہواؤں، خوشبؤوں کو سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ حیا کی محض عکاسی نہیں ہے، بلکہ اپنے من کی دنیا کے بے پایاں دشت کو پار کرنا ہے۔ اسی لیے، آرٹ کا اساسی مقام اس تاریکی کو جلا بخشنا اور اپنی باطنی دنیا کے وسیع جنگل میں راستے ڈھونڈنا ہے، پس ہم زندگی کی مصروفیتوں میں یہ نہیں بھلاتے کہ ہمارا اصل مقصد اس دنیا کو انسانیت کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا ہے۔ “ (دنیا زاد، شمارہ 15، ترجمۂ ترجمہ)

مجھے یہ دلچسپی سے خالی نہیں لگتا کہ خالدہ ایک لکھاری کو سیاسی منتظم سے ممیز کرتی ہے۔ تاہم، وہ  لکھنے والوں کو یہ بھی ذہن نشین کراتی ہے کہ ”اصل مقصد اس دنیا کو انسانیت کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا ہے۔“

کیا دنیا کو ایک بہتر اور زیادہ عدل والی جگہ بنانے سے بڑھ کر کوئی سیاسی ہدف ہو سکتا ہے؟

خالدہ کو معلوم ہے کہ اس کے مقاصد سیاسی ہیں۔ وہ ہمیں بارے یاد دلاتی ہے کہ سیاسی تنظیم ان تک پہنچنے کا محض ایک راستہ ہے۔ لکھاری کی باہر اور اندر کی دنیا کی عکاسی کرنے کی جدوجہد اس ہدف تک پہنچنے میں اتنے ہی اہم ہیں۔

خالدہ کی تحریر سیاسی یا جمالیاتی، فیمینسٹ یا آفاقی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سیاسی اور جمالیاتی، اور فیمینسٹ اور آفاقی ہے۔ وہ یہ سب بیک وقت ہے۔

یہ زمروں کو، زمروں کے درمیان کی حدوں کو تار تار کرنے جیسا ہے، تاکہ ہم یہ نہ بھولیں کہ جس چیز کو ہم حقیقت کہتے ہیں وہ حقیقت اور خودی کی کلاسیکی تعریفوں سے حاصل ہونے والے تخیل سے کہیں زیادہ سیال، کہیں زیادہ مسحور کن اور، ہاں کہیں زیادہ انقلابی ہے۔

حقیقتوں، ذاتوں اور علوم کی کثرت اور باہم انحصار کی یہ تفہیم خالدہ کی طرف سے ہمیں ملنے والا ایک تحفہ ہے۔ اور یہ کسی لکھاری کی طرف سے اس کے پڑھنے والوں کو ملنے والا بہترین تحفہ ہے۔

11 جنوری کو خالدہ حسین چل بسی۔ اگر اس وقت وہ ہمارے درمیان ہوتی تو وہ ہم سے ضرور پوچھتی: کیا میں زندہ ہوں؟ کیا تم مردہ ہو؟ کیا اس سب میں سے کچھ  بھی حقیقی ہے؟

مجھے امید ہے کہ اس نے فکشن میں جو سوال اٹھائے آپ وہ سوال اٹھاتے رہیں گے۔ امید ہے آپ اس کے لیے دعا کریں گے اور اس کے ادبی کاموں کو پڑھتے رہیں گے۔

حیدر شہباز ییل یونیورسٹی سے تاریخ میں سند یافتہ ہیں۔ وہ لاہور میں مقیم اور ایف۔سی کالج میں مدرس ہیں۔ ان کے تبصرے لاس اینجلس ریویو آف بکس، جدلیّہ، ہِمال ساؤتھ ایشین وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کا کیا ہوا مرزا اطہر بیگ کے ناول حسن کی صورتحال کا انگریزی ترجمہ ہارپرکولنز انڈیا سے شائع ہو چکا ہے۔

ماخذ: DAWN.com

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search