محمد عمر میمن (2018-1939)۔ تحریر: محمد سلیم الرحمان
یاد نہیں آتا کہ محمد عمر میمن کو علی گڑھ میں کبھی دیکھا ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ابھی سکول میں تھا اور میں یونیورسٹی میں۔ البتہ اس کے والد عبدالعزیز میمن کو بارہا دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا اور ان کا بطور عالم شہرہ بھی سنا۔ ان کے علم و فضل کی کوئی صحیح تصویر اس وقت میرے ذہن میں نہ تھی۔ البتہ دوسروں کی طرح ان کی خست کے بارے میں مشہور جھوٹے سچے قصے بڑی دلچسپی سے سنتا تھا۔ اپنی کم فہمی کا احساس بہت بعد میں ہوا۔ خیال یہ ہے کہ وہ اصل میں کنجوس نہیں جزرس تھے۔ البتہ کبھی کبھار ان کی جزرسی معقولیت کے دائرے سے باہر نکل جاتی تھی۔ یہ بھی بہت بعد میں پتا چلا کہ عربی زبان و ادب پر علامہ میمن کو کس کمال کا عبور حاصل تھا اور عرب دنیا میں ان کی کس قدر تکریم کی جاتی تھی۔
والد گرامی کے علم و فضل کا کچھ نہ کچھ اثر محمد عمر میمن پر پڑنا تھا۔ گویہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ کتنے ہی اکابرینِ علم و ادب کی اولاد کو اپنے والد کے علمی کمالات سے محروم اور متنفر ہی دیکھا ہے۔ جو بلند مقام علامہ صاحب کو حاصل تھا، اس تک پہنچنا محمد عمر میمن کے لیے مشکل تھا۔ پھر بھی اس کی علمی و ادبی خدمات ایسی نہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا سکے۔
محمد عمر میمن سے پہلی بار بے تکلفانہ ملاقات غالباً 1959ء میں ہوئی، جب وہ کراچی سے لاہور آیا۔ یاد ہے کہ صلاح الدین محمود اور میں اسے مکتبۂ جدید اور نیا ادارہ لے گئے تھے۔ پرانی اور نئی انارکلی سے ہم پیدل ہی گزرے کہ ان دنوں لاہور میں پیدل گھومنا پھرنا خوشگوار تجربہ تھا۔ راستے بھر میمن چپ نہ ہوا اور ان افسانوں کے پلاٹ ہمیں سناتا رہا، جن پر طبع آزمائی کا ارادہ رکھتا تھا۔ دو تین پلاٹ تو معمولی سے تھے، لیکن ایک پُر لطف تھا۔ اسے درج کیا جاتا ہے۔ کسی چھوٹے سے شہر میں حکومت نے فائر سٹیشن بنا کر فائر بریگیڈ کا عملہ متعین کر دیا۔ دو مہینے گزر گئے، عملے کو تاش کھیلنے اور گپ بازی کے سوا کوئی کام نہ تھا کہ آگ لگنے کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ آخر کار عملہ بیکار بیٹھے رہنے سے اکتا گیا۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ شہر کے فلاں حصے میں آگ تیزی سے بھڑک سکتی ہے۔ کیوں نہ چوری چھپے وہاں آگ لگا دی جائے۔ پھر آگ بجھانے دوڑے جائیں گے، ذرا ہنگامہ رہے گا اور آگ پر کامیابی سے قابو پانے کی وجہ سے نیک نامی حاصل ہو گی۔ اس منصوبے پر عمل کیا گیا۔ بد قسمتی سے آگ اس تیزی سے بھڑکی کہ فائر بریگیڈ کے قابو سے باہر ہو گئی۔ پورا شہر جل گیا۔
صلاح الدین محمود اور میں نے پلاٹ کو سراہا اور کہا کہ لکھتے وقت اگر سلیقے کا ثبوت دیا گیا تو اچھا بھلا افسانہ سامنے آ جائے گا۔ معلوم نہیں یہ افسانہ محمد عمر میمن نے لکھا یا نہیں۔ کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ موصوف کی بے تحاشا گفتگو سے تنگ آ کر صلاح الدین محمود نے بعد میں مجھ سے کہا، ’’یار، یہ میمن تو فل سٹاپ لگانے کا قائل معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
چار زبانوں میں طاق محمد عمر میمن اچھا سکالر کیوں نہ ثابت ہوتا۔ عربی گویا ورثے میں ملی تھی۔ اُردو، فارسی اور انگریزی کی سمجھ بوجھ خاصی تھی۔ امریکا میں طویل قیام کے باعث انگریزی کا تفہم اور نکھر گیا۔ فل برائٹ سکالر شپ پر امریکا جانے کا موقع ملا تھا۔ وہیں پی ایچ ڈی کی۔ مقالے کا عنوان ’’مقبولِ عوام مذہب کے خلاف ابن تیمیہ کی جدوجہد‘‘ تھا۔ مقالہ کتابی صورت میں جرمنی سے شائع ہوا۔ پاکستان میں کم یاب ہے۔ کسی کتب خانے میں شاید کوئی نسخہ محفوظ ہو۔
بعدازاں میمن وسکانسن یونیورسٹی سے منسلک ہو گیا۔ استاد کے فرائض انجام دیتا رہا اور وہیں سے ریٹائر ہوا۔ وہ کیسا استاد تھا، یہ بتانے سے قاصر ہوں۔ اس کے شاگرد ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
میمن کی مدرسانہ سرگرمیوں سے ہمیں سروکار نہیں۔ اس کی ادبی خدمات اہم ہیں اور اگر اسے یاد رکھا جائے گا تو انہیں کے سبب۔ اس کا ایک وقیع کارنامہ ’’اینول آف اُردو سٹڈیز‘‘ کی سالہا سال باقاعدہ اشاعت ہے۔ یہ گویا انگریزی خواں طبقے کے لیے ایک دریچہ تھا، جو اُردو دنیا کی طرف کھلتا تھا۔ افسانے ہوں یا تنقید، یادداشتیں ہوں یا شاعری یا سال بھر میں ہونے والے اُردو سے متعلق میلے جھمیلے، سب اس میں موجود ہوتا تھا۔ افسوس کہ یہ سالنامہ ہمیشہ مالی مشکلات کا شکار رہا اور اس کے بند ہونے کا بڑا سبب بھی یہی تھا۔ کچھ دخل میمن کی گرتی ہوئی صحت کا بھی ہو گا۔ پاکستان کی حکومت یا وزارتِ خارجہ کو جو بڑی دیدہ دلیری سے کروڑوں ڈالر اللوں تللوں میں اڑا دیتی ہے، کبھی توفیق نہ ہوئی کہ تیس چالیس ہزار ڈالر کی گرانٹ سالنامے کے لیے دے ڈالتی۔ ان پڑھ، کتاب اور ادب سے بیگانہ، مطلب پرست نمائندوں سے اور توقع بھی کیا رکھی جا سکتی ہے۔
بطور مترجم میمن کو زیادہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے اُردو سے انگریزی اور انگریزی سے اُردو میں بہت تراجم کیے۔ سچ پوچھیے تو انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نیر مسعود کو باہر کی دنیا سے متعارف کرانے میں میمن کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاں تک مجھے علم ہے، انتظار حسین اور عبداللہ حسین نے کبھی ممنونیت کا کوئی خاص اظہار نہیں کیا۔ اس کا تھوڑا سا رنج میمن کو تھا بھی۔ اگر پچھلے برس اس نے کہا کہ اب انتظار اور میلان کنڈیرا (جو کبھی اس کا پسندیدہ رائٹر تھا) اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے تو شاید اس میں شکایت کا پہلو بھی ہو لیکن گمان یہ ہے کہ یہ رائے بدلتے ہوئے ادبی ذوق کی غماز ہو۔ جن اصحاب کا میں نے نام لیا، ان سے میمن نے زیادہ اعتنا کیا لیکن کتنے ہی اور لکھنے والوں کے کام کو انگریزی میں منتقل کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر ہے۔ یہ تو ہوا انگریزی جاننے والوں کو اُردو کے افسانوی سرمایے سے شناسائی کا موقع فراہم کرنے کا معاملہ۔ اس سے زیادہ اہم کام وہ ہے، جو اس نے یورپی اور عرب ادیبوں کے فکشن سے اُردو قارئین کو روشناس کرانے کے ضمن میں انجام دیا۔ اگر ان لوگوں کے نام گنانے شروع کیے جائیں، جن کا اس نے ترجمہ کیا تو فہرست طویل ہو جائے گی۔ فکشن کے علاوہ مغربی ادب کے سربر آوردہ ادیبوں سے انٹرویوز کے ترجمے بھی موجود ہیں۔ یہ تین جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ کئی اور ناول اس نے ترجمہ کر رکھے تھے، لیکن اسے ناشر تلاش کرنے میں ہمیشہ ہی دشواری ہوئی۔ اس میں کچھ دخل نثر کی غرابت کا بھی تھا جس کی لفظیات اور نحوی ترکیب میں الجھن میں ڈالنے والی پیچیدگی موجود ہے۔ زیادہ قصور، بہر حال، ہمارے ناشروں کا تھا۔ پروف خوانی پر جتنی کم توجہ دی جاتی ہے، اس پر میمن کو بہت جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ ناشروں کی وعدہ خلافیاں اور بے پروائیاں اس پر مستزاد تھیں۔
میمن کی ادبی شخصیت کا ایک پہلو رہا جاتا ہے۔ اس نے افسانے بھی لکھے۔ افسانوں کا ایک مجموعہ ’’تاریک گلی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ افسانے تعداد میں کم ہیں، لیکن ان بہت سے نام نہاد افسانہ نگاروں کی کاوشوں سے بہتر ہیں، جن کا بلاوجہ چرچا ہوتا رہتا ہے۔ اعلیٰ ترین ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کو پڑھ کر میمن نے بہت کچھ سیکھا اور اسے اپنے افسانوں میں برتنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔
مثلاً ’’واپسی‘‘ نامی افسانے میں ان مفروضات پر، جو روایتی ہوں یا عقائد پر مبنی، غیر اطمینان ظاہر کیا گیا ہے اور اشارتاً یہ کہا گیا ہے کہ کسی نقطۂ نظر کو حتمی یا اتمام حجت قرار دینے کا مطلب ان متناقضات سے اغماض برتنا ہے، جن سے زندگی فطری طور پر بھری پڑی ہے۔ اگر ان مفروضات سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو ہیرو لازمی طور پر ہیرو اور ولن لازمی طور پر ولن نہیں رہتے۔ ’’حصار‘‘ میں نہایت مہارت سے خارجی حقائق کو مرکزی کردار کے داخلی کرب کے اردگرد اس طرح لپیٹ دیا گیا ہے کہ وجود کی ایک دل دوز تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اگر مجموعے کے افسانوں میں کوئی کسر رہ گئی ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی سے کم اور ادب اور ادبی بحثوں سے زیادہ اثر قبول کیا ہے اور دانشورانہ اندازِ فکر سے بچا نہیں جا سکا ہے۔ اگر میمن نے زیادہ افسانے نہیں لکھے یا ناول نگاری پر توجہ نہیں دی، تو شاید اس بات کو خود اعتمادی کی کمی پر محمول کرنا ممکن ہو۔ یہ معاملات صاحبِ فن کے ضمیر اور ذہنی افتاد اور نفسیاتی پیچ و خم میں اس طرح پیوست ہیں کہ کوئی دوسرا ان پر منصفانہ محاکمہ نہیں دے سکتا، بلکہ شاید خود فکشن نگار بھی ایسی نفسیاتی روک ٹوک کی توجیہہ کرنے میں ناکام رہے، جو اس کے باطن میں کارفرما ہو۔
میمن کی زود رنجی بھی قابل ذکر ہے۔ ذرا ذرا سی بات سے دل میں بل آ جاتا۔ آج روٹھنے اور کل من جانے میں موصوف کو کمال حاصل تھا۔ زود رنجی کی دائرہ وار گردش کچھ اس طرح کی تھی۔ آج اجمل کمال اور مجھ سے خوش، آصف فرخی سے خفا۔ چھ مہینے بعد آصف فرخی اور مجھ سے خوش، اجمل سے خفا۔ چھ مہینے بعد آصف اور اجمل سے خوش، مجھ سے ناراض۔ چھ مہینے بعد تینوں سے ناراض ۔ چھ مہینے بعد تینوں سے خوش، علیٰ ہذا القیاس ۔ زود رنجی میں لطافتوں کی اتنی تہیں تھیں کہ ستم رسیدگان کو پتا نہیں چلتا تھا کہ آخر ان سے کیا خطا ہوئی ہے۔ جو بھی سہی، یہ کیفیات وقتی تھیں، جیسے آندھی آئے اور گزر جائے۔ محمد عمر میمن میں کینہ نہیں تھا۔ یہ شکوہ ضرور تھا کہ اس کی مساعی کی داد نہیں ملی۔ ادبی دنیا کے شناور ہونے کے سبب اسے اتنی سمجھ ہونی چاہیے تھی کہ داد ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو کام آپ کر جائیں اسی کی اصابت بامعنی ہے۔
بہرحال، اب وہ زود رنجی یا شکوے یا ملال یا خیالی کامرانیوں اور ناکامیوں سے دور جا چکا ہے۔ ہمیں اس بات کی قدر کرنی چاہیے کہ کسی صلے یا داد کے بغیر اس نے پوری زندگی، بڑے اخلاص سے ادب سے نباہ کیا۔
ماخذ: ہم سب