خالدہ حسین سے ایک یادگار انٹرویو۔ مصاحبہ کار: نجیبہ عارف

 In یاد نگاری

خالدہ حسین ہمیشہ میرے لیے ایک اساطیری کردار کی طرح رہی ہیں، جس کے بارے میں یقین نہیں ہوتا کہ سچ مچ ہے بھی یا نہیں! زندگی کے عمومی حجم سے کچھ بڑا کردار، جو وقت اور فاصلے کے حجاب چیر کر پار اتر سکتا ہے، ذہن کی خشک پپڑیوں کے اندر تک رِس کر انھیں سرسبز کر سکتا ہے اور عقبی بصری پردوں پر ایسے مناظر منعکس کر سکتا ہے جو کبھی نظر کے سامنے سے نہ گزرے ہوں۔ ان کی کہانیوں میں معانی کی ایسی تہیں ہوتی ہیں جنھیں کھولنا دلچسپ، تحیر زا اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو ہر پہلو سے چھو چھو کر دیکھتی ہیں اور اس کا لمس اپنی تحریر میں زندہ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ زندگی پڑھنے والے کے اندر جذب ہوجاتی ہے۔ بڑی خاموشی اور دھیمے پن سے۔ شور مچا کر، زور اور قوت سے نہیں، مدھم مدھم، ہولے ہولے، بے آواز بارش کی طرح، بے رنگ پانی کی طرح، جو نظروں میں آئے بغیر اپنا کام کر گزرتا ہے۔ خالدہ حسین کی تحریر میں ویسا ہی اسرار ہے جیسا زندگی کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں سوچنے، اچھے اور برے، خیر اور شر، نیک اور بد کے باہم مل جانے کے مقام کو سمجھنے اور اس سے آگے نکل جانے کی تگ و دو میں ہوتا ہے۔

اسرار کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی طرف بلاتا ہے۔ ایسے معنی خیز اشارے کرتا ہے، جن پر لبیک کہے بنا چارہ نہیں رہتا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں اس کاسہم بھی رہتا ہے۔ پتا نہیں سمجھ میں آئے یا نہیں، پتا نہیں ٹھیک ہو یا غلط۔ سمجھ بھی جائیں تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں ٹھیک سمجھا ہے یا نہیں۔

خالدہ حسین کی تحریروں میں بھی ایسی ہی کشش ہے، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ڈر وابستہ ہے۔ ان کی تفہیم و تعبیر کرتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ پتا نہیں یہ بات ان کی تحریر میں تھی، یا خود ہمارے اندر کہیں موجود تھی جو چپکے سے باہر نکل آئی ہے، بوتل کے جن کی طرح۔

اسی لیے جی چاہتا تھا کہ کسی روز انھیں اچھی طرح چھو کر ٹٹول کر دیکھوں کہ وہ سچ مچ کی ہیں یا کوئی اساطیری کردار ہیں۔ تخیل کا تراشا ہوا، وہم و گمان کا زائیدہ۔

کئی برس سے میں انھیں ملنے اور ان سے تفصیلی گفتگو کرنے کے پروگرام بنا رہی تھی مگر نجانے کیا حجاب تھا جو بار بار حائل ہو جاتا تھا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے میں پچیس برس تک ان سے نہ مل پائی اور جب ملی تو ایسا لگا کہ کئی پچیس برسوں سے ملتی چلی آ رہی ہوں۔

میں نے ان کی گوشہ نشینی کے بارے میں، ان کی مردم گزیدگی اور تنہائی پسندی کے بارے میں، ان کی خود مکتفی بے نیازی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔
وہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتیں۔
وہ محفلوں میں نہیں جاتیں۔
انھیں انٹرویو وغیرہ دینے سے چڑ ہے۔

یہ سب باتیں مجھے روک دیتی تھیں مگر اس روز جب میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کے ساتھ پہلی بار ان سے ملنے گئی تو وہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے گزر رہی تھیں۔ یوں تو زندگی کا ہر صدمہ ہی بڑا لگتا ہے لیکن ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میں سمجھ سکتی ہوں کہ جوان اکلوتے بیٹے کی موت دل پر کیسا وار کر سکتی ہے۔ وہ بالکل نڈھال تھیں مگرخود کو سنبھالنے کی تگ و دو میں لگی تھیں۔ میں بھی چاہتی تھی کہ تھوڑی دیر کو سہی مگر وہ اس احساسِ زیاں کو ذرا سا بھول جائیں۔ میں نے ان سے اس خواہش کا اظہار کر دیاکہ کسی روز میں ان سے تفصیلی گفتگو کے لیے آنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے شاید مروتاً انکار نہیں کیا لیکن اس خواہش کو عمل میں ڈھالنے میں مزید نجانے کتنا وقت لگ جاتا اگر ڈاکٹر فاطمہ حسن یہ فرمائش نہ کرتیں کہ خالدہ حسین سے کچھ باتیں ریکارڈ کر کے انھیں بھیجی جائیں۔ لہٰذا میری اس دیرینہ خواہش کی فوری تکمیل اگر ہوئی تو اس میں بہت ہاتھ ڈاکٹر فاطمہ حسن کا بھی ہے۔

۶ دسمبر، ۲۰۱۶ء کی شام، اپنی عزیز شاگرد اور اب ہم کار امینہ کے ساتھ ساز و سامان سے لیس ہو کرجب میں ان کے ہاں پہنچی تو وہ بالکل تیار تھیں۔ صدمے نے انھیں کمزور ضرور کر دیا تھا مگر ذہنی طور پر وہ بالکل چست وتوانا تھیں۔ امینہ نے کیمرہ اور ریکارڈنگ کا سامان تیار کر لیا تو میں نے ان سے باتیں چھیڑ دیں۔ کسی رسمی باقاعدہ انٹرویو کی طرح نہیں، بالکل غیر رسمی اور بے قاعدہ انداز میں۔ خالدہ آپا کی گفتگو سننا آرٹ فلم دیکھنے جیسا تجربہ تھا۔ وہ بار بار اپنے اندر اتر جاتی تھیں۔ ان کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس میں لمبے وقفے آتے تھے۔ دھیمے دھیمے لب و لہجے میں، کبھی ہلکے ہلکے قہقہے لگاتے ہوئے، کبھی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے، کبھی گلوگیر ہو کر، وہ ہر سوال کا جواب دیتی رہیں۔ یہاں تک کہ میں بھول ہی گئی کہ میں کوئی رسمی انٹرویو لینے آئی تھی اور ان سے اپنی باتیں کرنے لگی۔ اس لیے اس انٹرویو کا کوئی باقاعدہ اختتامی جملہ نہیں ہے۔ بس بات یکا یک مڑ گئی اور انٹرویو کے دائرے سے نکل کر پھیل گئی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کے لب و لہجے کوجوں کا توں پیش کر دوں اس لیے اس مکالمے میں گفتگو کا آہنگ ہے، تحریر کا نظم و ضبط اور دم خم نہیں ہے۔


سوال: تو خالدہ آپا! پاکستان میں رہتے ہوئے، ایک خاتون ادیب ہونا کیسا تجربہ ہے؟
خالدہ حسین: خاتون ادیب ہونا۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں پر کچھ Exceptional چیزیں ہیں۔ مثلاً اگر ہم شمار کریں تو بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کہ قابلِ ذکر ہیں ہمارے ہاں فنونِ لطیفہ میں اور اس کے مقابلے میں میرا خیال ہے مردوں کی تعداد شاید برابر ہو، برابر نہیں تو شاید کم ہو۔ تو یہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک کے لیے ایک بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔

سوال: اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہی جو لوگ کہتے ہیں کہ فنون کا تعلق چونکہ Sensitivity سے ہے اور Sensitivity مردوں کی نسبت خواتین کے ہاں زیادہ ہے؟
خالدہ حسین: لیکن اس کے لیے آپ دیکھیں کہ وہ Opportunities بھی چاہییں اس کو باہر لانے کے لیے۔ وہ ساری جو اس کی Sensitivity ہے اور یا اگر اس کے اندر کوئی ٹیلنٹ ہےhidden، تو اس کوبھی باہر لانے کے لیے کوئی ماحول چاہیے، کوئی encouragement چاہیے جوکہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ پر اس کے باوجود آپ دیکھیں کہ خواتین کی ایک خاصی تعداد ہے جو کہ فنونِ لطیفہ میں اپنا نام پیدا کر رہی ہے۔

سوال: اچھا خالدہ آپا! اپنے بارے میں بتائیے کہ زندگی کیسی گزری؟
خالدہ حسین: زندگی کیسی گزری؟؟ بہت مشکل سوال ہے۔ ۔ ۔ بہت اچھی گزری۔ شاید اسے اسی طرح ہی گزرنا تھا اور میرا یہ خیال ہے کہ جس چیز کو جس طرح ہونا ہوتا ہے وہ اسی طرح ہوتی ہے اور کسی طرح سے نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ تو اس زندگی کو اسی طرح ہی ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوگئی۔ شاید اس کو آپ تقدیر کا تصور کہہ لیں یا pre determination، جس طرح بھی آپ سمجھ لیں لیکن میرا یہ خیال ہے کہ پہلے سے مقرر ہوتا ہے کہ کیا ہوگا اور کس طرح ہوگا۔

سوال: وہ کیا چیز یں ہیں جو یہ سب مقرر کرتی ہیں؟ جو یہ طے کرتی ہیں کہ اس طرح ہوگا؟
خالدہ حسین: یہاں پر آکر تو مجھے تقدیر ہی کا قائل ہونا پڑتا ہے اب دیکھیں نا کہ کسی ایک خاص گھر میں پیدا ہونا۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ تو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کسی گھر میں ہم پیدا ہو گئے وہاں پہ جو ہمارے والدین ہیں جو شروع میں ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، وہ کس طرح کے ہیں، ان کے تصورات کیا ہیں اور زندگی کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں، ان کے کیا رویے ہیں تو وہ سب چیزیں بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ وہ پہلے سے ہو چکی ہیں اورہم اس میں آکے داخل ہو جاتے ہیں۔

سوال: یعنی کہ ہمارے والدین، ہمارا عرصۂ حیات، جس زمانے میں ہم پیدا ہوئے، یہی چیزیں ہیں جو ہماری شخصیت کو متعین کرتی ہیں؟
خالدہ حسین: ہاں بالکل، وہی کاؤنٹ کرتی ہیں وہی بناتی ہیں اور اس پر تو یہی ہے کہ جیسے کہ مقدر کیا گیا ہے کہ کس وقت میں ہمیں آنا ہے اور۔۔۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ بعد میں جو ہم اپنی تعلیم کے ذریعے یا ہمارے جو آئیڈیلز ہوتے ہیں اور اس کے لیے ہم جو کوشش کرتے ہیں، وہ بھی بہت بڑی بات ہے، وہ بھی ہماری شخصیت میں بہت اہم ہے، لیکن basic چیزیں جو ہیں نا، وہ جوزمین فراہم کرتی ہیں اور جو کھاد ہم جس کو کہیں، وہ پہلے سے ہوتی ہیں؛ ان کو ہم نہیں بدلتے۔

سوال: خالدہ آپا آپ کب پیدا ہوئیں؟
خالدہ حسین: جی میں ۱۸ جولائی ۱۹۳۸ ء کو لاہور میں پیدا ہوئی۔

سوال: آپ نے تعلیم کہاں سے پائی؟

خالدہ حسین: لاہور ہی میں پرائمری تک ایک ہندو اسکول، سوہن لال ہائی اسکول میں، میں نے پڑھا۔ کے۔ جی سے لے کر کلاس فائیو تک۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جہاں بعد میں مدرسۃ البنات بن گیا۔ وہاں پر میرے ابا کے دوستوں کی اولادیں بھی پڑھتی تھیں۔ وہاں پہ پانچ سال جو گزارے تو اس کا مجھ پہ بہت زیادہ گہرا اثر رہا ہے۔ اس وقت تو مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن پھر بھی ہمارے اسکول کا جو ماحول تھا اس میں ہندو مذہب کا کافی دخل تھا۔ ہماری صبح کی prayer جو ہوتی تھی وہ بھی سنسکرت میں ہوتی تھی جس کی آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن میں بھی بولتی تھی۔ مجھے بھی پتہ تھا کہ کیا بولنا ہے اور باقی اٹھنا، بیٹھنا اور وہاں پر ہماری ٹیچر کے لباس، ساڑھیاں وغیرہ اور ہمارے اسکول کے جو مالک تھے رائے بہادر سوہن لال۔ ہمارے اسکول کے ساتھ ہی ان کا گھر تھا۔ وہ بڑے امیر کبیر آدمی تھے۔ انھوں نے بہت بڑا institution کھولا تھا لیکن وہ بذاتِ خود اتنی سادگی کی حالت میں رہتے تھے کہ گھر کے دھلے ہوئے کپڑے، ٹخنوں سے اونچی پینٹ پہنی ہوئی اور چُڑ مُڑ قمیصیں اورکوئی استری وغیرہ نہیں اور بالکل وہ اس طرح کے آدمی تھے۔ وہ اپنے گھر سے نکلتے تھے تو ہم دور سے انھیں دیکھتے تھے کہ وہ آرہے ہیں رائے بہادر۔ ہم سب بھاگے جاتے تھے اور جاکے ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم ان سے کہتے رائے بہادر جی، نمستے!تو وہ بڑے پیار سے ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ نمشتے نمشتے کرتے تھے۔ تو وہ باتیں مجھے بہت……اس وقت تک اتنا پتہ نہیں تھا کہ کیا ہے لیکن رفتہ رفتہ پھر احساس ہو گیا کہ نہیں ہم الگ ہیں یہ لوگ الگ ہیں۔ ایک مسلمان ہوتے ہیں، ایک ہندو ہوتے ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہاں پر کافی consciousness آگئی تھی۔

سوال: تو فکری طور پر بھی ہندو مت کے کچھ اثرات ہوئے؟
خالدہ حسین: نہیں فکری طور پر نہیں۔ اس میں صرف یہ ہے کہ مجھے ان کے لباس میں بڑا interest تھا۔ ساڑھیاں واڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں شروع سے ہی؛ اور باقی ان کا اٹھنا، بیٹھنا۔ یہ باتیں مجھے اچھی لگا کرتی تھیں اپنی ٹیچرز کی۔ دس سال کی عمر ہوگی میری تب شاید۔ ۔ ۔ لیکن پاکستان کا جوش بہت تھا، بہت زیادہ۔

سوال: ’’کاغذی گھاٹ‘‘ میں آپ نے یہ سارا ماحول پیش کیا ہے نا؟
خالدہ حسین: جی۔ ۔ ۔ ۔ تبھی سے ہمارے اندر پیدا ہوگئی تھی پاکستان کے لیے محبت اور نعرہ بازی اور یہ وہ۔ بڑے جلسے جلوس بھی کرتے تھے بچپن میں۔

سوال: آپ نے لکھا ہے کہ وہ جو آپ کی دو سہیلیاں تھیں عائشہ اور افروز، تو ان کے سامنے آپ کو کچھ ایسی شرمندگی سی محسوس ہوتی تھی کہ ہمارے ہاں تو سب لوگ شاید establishment کے حامی ہیں اور وہ لوگ بڑے باغیانہ خیالات کے مالک ہیں۔

خالدہ حسین: جی بڑے انقلابی لوگ تھے۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ لوگ وسیع تر دنیاسے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ وہ مہاجر تھے۔ میں یہ بہت مرعوب ہو کر اور خوف زدہ ہو کر سوچتی تھی کہ یہ ایک میرے جیسا ہی گھر چھوڑ کے آئے ہیں اور ان کا اتنا بڑا شہر ہوگا اور وہاں کی عمارتیں ہوں گی اور وہاں کی زندگی ہوگی۔ یہ کتنے بہادر لوگ ہیں کہ اس کو چھوڑ کے یہاں آگئے اور یہاں پہ اتنے خوش ہیں یہ اور اتنی محبت کرتے ہیں ہمارے ساتھ۔ تو اس کا میرے اوپر بہت رعب تھا اور میں دبتی تھی بہت زیادہ۔ اور کبھی کبھی مجھے بہت احساس جرم بھی ہوتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ جیسے میں نے انھیں تکلیفیں دی ہیں بہت۔ بعد میں آہستہ آہستہ بڑے ہوگئے پھر یہ ہٹ گئیں باتیں ساری۔

سوال: خالدہ آپا یہ کب معلوم ہوا کہ آپ کو افسانے لکھنے ہیں؟

خالدہ حسین: کہانیاں سننے کا شوق تو شروع سے تھا۔ بہت سنتی تھی اور imaginative بھی بہت تھی۔ اپنے ساتھ باتیں بھی کیا کرتی تھی۔ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ پانچ بھائی بہنیں ہیں ہم۔ دو بہنیں ہیں اور تین بھائی۔ میری بہن سب سے بڑی ہیں، بیچ میں تین بھائی ہیں، میں سب سے چھوٹی ہوں۔ تو چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں بہت زیادہ attached تھی اپنی ماں کے ساتھ اور dependent بھی بہت تھی۔ کبھی کام نہیں کیا تھا۔ سب لوگ میرے کام کرتے تھے اور بہت مجھے لاڈ پیار میں رکھا۔ گو کہ میں ہمیشہ شکایت کرتی تھی کہ مجھے کوئی نہیں پیار کرتا۔ کبھی لڑائی ہو جاتی تو میں سوچتی کہ اچھا میں گھر سے چلی جاؤں گی۔ یہ لوگ مجھے پیار نہیں کرتے۔ پھر ایک دن میں فقیر بن جاؤں گی۔ اور پھر بھکارن بن کر آؤں گی اور انھی کے گھر پر آؤں گی۔ یہاں آکے ان کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔ پھر وہ باہر نکلیں گے۔ مجھے پہچانیں گے۔ پھر میں ان سے کہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ تو اس بات پہ آکے تو میں خود ہی رونے لگتی تھی۔ یہ میں imagine کرتی رہتی تھی بیٹھ کے۔ دوسرے مجھے ایک خوف تھا۔ سب سے زیادہ basic خوف جو مجھے زندگی میں تھا وہ ماں سے جدا ہونے کا۔ مجھے لگتا تھا کہ کہیں میں اپنی ماں سے جدا نہ ہو جاؤں۔ بہت زیادہ تھا۔ شروع سے ہمیشہ سے، یہ خوف رہا تھا۔ تو اس کا میری شخصیت پر بہت اثر ہوا، مجھے لگتا ہے۔ میرے دل کے اندر جدائی کی اور اپنے پیاروں کے بچھڑنے کی بہت دہشت ہے، بہت زیادہ۔ یہ چیزیں بس زندگی میں اسی طرح ہوتی ہیں۔ پھر یہ کہ ہمارا بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن بہت اچھا گزرا۔ بہت ایک دوسرے کے قریب تھے۔ بہت کھیلتے تھے۔ اتنا کھیلے ہیں میں اور میرے بھائی۔ میری بڑی بہن تو ددھیال میں رہتی تھیں۔ وہ ذرا ہم سے کچھ دور رہیں۔ لیکن ہم چاروں، میں اور میرے بھائی، بہت کھیلتے رہے، بہت کھیلا ہم نے۔ تو بہت زیادہ یگانگت ہماری تھی۔ بچپن کے تاثرات بہت زیادہ گہرے رہے اور اب تک یاد آتی ہیں تب کی باتیں۔

سوال: آپ کی جو تحریریں میں نے پڑھی ہیں ان میں آپ کی یاد داشت کا تعلق داخل سے زیادہ ہے۔ یعنی تاثرات اور محسوسات جو ہیں وہ آپ کو اتنی وضاحت سے یاد ہیں۔ چیزوں کی نسبت تاثرات زیادہ گہرے ہیں آپ کی تحریروں میں۔ مثلاََ آپ کوئی خارجی واقعہ بھی بیان کرتی ہیں تو اس میں اس کے معروضی حقائق کم نظر آتے ہیں اور اس پہ جو آپ کی feelings ہیں یا جس طرح وہ آپ کو نظر آرہا ہے، آپ کی نظر اس میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ اس بات پر مرزا اطہر بیگ بھی آپ کے بہت قائل ہیں آپ کو معلوم ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ خالدہ حسین میری پسندیدہ رائٹر ہیں کیوں کہ وہ اتنی deep      space      create کرتی ہیں اپنے افسانوں کے اندر کہ ایک اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔ تو آپ کو معلوم ہے یہ بات؟ آپ ایسا شعوری طور پر کرتی ہیں یا لاشعوری طور پر؟

خالدہ حسین: نہیں یہ شعوری طور پر نہیں ہوتی۔ میں تو صرف اپنے احساسات بیان کرتی ہوں۔ یہی چیزیں مجھے متاثر کرتی ہیں تو اسی طرح بیان کر دیتی ہوں۔ تو یہ میرا خیال ہے کہ شاید یہ بھی ہو، جوکہتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کی کوئی انفرادیت ہوتی ہے تو شاید یہی میرے تجربے کی انفرادیت ہے کہ اتنی وضاحت کے ساتھ اور اتنی تفصیل کے ساتھ اور ماحول اور مکان اور جگہیں، مقامات، یہ مجھے بہت متاثر کرتے ہیں، بہت زیادہ۔ بہت haunt کرتے ہیں، بہت زیادہ۔ تو یہ میرا خیال ہے پیدائشی طور پر لوگ ہوتے ہوں گے ایسے۔ لوگوں کو ہوتا ہے۔

سوال: لیکن آپ کو یہ کب پتہ چلا کہ آپ کو افسانے لکھنے ہیں؟

خالدہ حسین: دراصل شوق تو تھا۔ کہانیاں پہلے سنتی تھی۔ اس کے بعد جب کوئی چھٹی ساتویں جماعت میں آئی تو اسکول کی لائبریری سے کتابیں لینی شروع کیں۔ تبھی میری دوستی کچھ ایسی لڑکیوں سے ہو گئی جو ادھر سے آئی تھیں۔ بہت زیادہ ادبی ذوق تھا ان لوگوں میں۔ ایک تو میری دوست بہت گہری ہیں وہ زاہد ڈار کی بہن، ریحانہ ڈار۔ وہ لدھیانہ سے ہجرت کر کے ادھر آئے تھے تو میری اور ان کی بہت دوستی ہو گئی۔ اب تو وہ لندن میں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بہت پڑھنے لکھنے والے تھے، بہت زیادہ۔ ان کے گھر میں کتابوں کا بہت چرچا تھا اور بہت کتابیں ہوتی تھیں۔ تو میں ان سے کتابیں لے کے پڑھتی تھی۔ ان کے ذریعے مجھے latest ادب کا پتہ رہتا تھا کہ آج یہ ہو رہا ہے۔ آج وہ ہو رہا ہے۔ ہر کتاب ان کے گھر آتی تھی۔ ریحانہ کے پاس آتی، ریحانہ سے میرے پاس آتی۔ باقی ہم اسکول کی لائبریری سے لیتے۔ توپڑھنے کا خبط ہو گیا تھا بس۔ وہ پڑھتے اور تب یہ کہ ترقی پسند ادب بہت فیشن میں تھا تو وہ بھی پڑھتے۔ عصمت چغتائی کو بہت پڑھا ہم لوگوں نے مل کے۔ پھر قرۃ العین کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی طرح پڑھنے کے ساتھ ہی پھر مجھے کچھ احساس ہوا کہ چلو میں بھی لکھتی ہوں۔ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے لکھنا شروع کیا تو وہ پھر اپنے دوستوں کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ ہاں ہاں، لکھو لکھو، چلو پورا کرو۔ پوری کرو کہانی۔ اس طرح بس شروع ہو گیا لکھنا۔

سوال: تو آپ نے پہلی کہانی کب لکھی اور وہ کب چھپی؟
خالدہ حسین: میں نے میٹرک میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور میٹرک میں ہی تھی جب میری پہلی کہانی چھپی ہے اور وہ بڑے چھوٹے سے رسالے میں چھپی تھی۔ اس کے بعد پھر دو تین کہانیاں اور میں نے اس طرح لکھیں، اسی میں چھپیں لیکن میں فوراََ اس کے بعد خبردار ہوگئی کہ نہیں مجھے اس type کی کہانیاں نہیں لکھنیں۔ اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے یا یہ میری فطرت کے مطابق نہیں ہے۔ بہت ترقی پسند کہانیاں لکھتی تھی کچھ اس طرح کی۔ بہت غریب لوگ ہیں اورکوئی بیوہ ہے، کوئی بیمار ہے۔ اس طرح کی دو تین کہانیاں لکھیں۔ پھر مجھے لگا کہ نہیں یہ میری اصل فطرت نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب میں نے زیادہ پڑھنا شروع کیا تو مجھے پتا چلا کہ ادب تو بہت وسیع چیز ہے اور مجھے اس سے بہتر لکھنا چاہیے اور وہ لکھنا چاہیے جو میں خود محسوس کرتی ہوں۔ پھر ترقی پسندی کو میں نے چھوڑ دیا۔

سوال: تو وہ کن رسالوں میں چھپی تھیں؟
خالدہ حسین: تھا ایک رسالہ۔ میں ویسے بتایا نہیں کرتی لوگوں کو۔ میری ایک کلاس فیلو ہوتی تھی اس کا نام حامدہ تھا۔ اس کی واقفیت کسی سے تھی جو رسالہ’’حرم ‘‘ چھاپتے تھے۔ ’’حرم‘‘ ہی میرا خیال ہے نام اس کا۔ وہ کہانیاں لکھتی تھی اور اس میں بھیجا کرتی تھی۔ اس نے پھر مجھ سے کہا کہ خالدہ تم بھی لکھو، میں تمھاری کہا نیاں چھپواؤں گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں وہ لکھ کے اس کو دے دیتی تھی تو وہ حرم میں چھپواتی تھی۔ پھر بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ تو کوئی خاص ادبی رسالہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے کہیں پہ ایک reference پڑھا تھا کہ کسی نے یہ حوالہ دیا تھا کہ یہ بتاتی نہیں ہیں، ان کی کہانیاں ’’حرم‘‘ میں چھپنا شروع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بڑی پتے کی، بہت دور کی بات لے کے آیا ہے۔

سوال: خالدہ اصغر کے نام سے آپ لکھتی تھیں؟
خالدہ حسین: ہاں خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھی۔ بس اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر ’’ادبِ لطیف‘‘ میں میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تب مرزا ادیب تھے اس کے ایڈیٹر۔ تب سے میں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔

سوال: آپ نے تعلیم کہاں تک پائی؟
خالدہ حسین: ایم اے۔ اردو۔

سوال: کب ؟ کس یونی ورسٹی سے کیا؟
خالدہ حسین: ۱۹۶۲ء میں، پنجاب یونی ورسٹی اوریئنٹل کالج سے۔

سوال: تو کون سے اساتذہ سے پڑھا آپ نے؟
خالدہ حسین: ہمارے ہیڈ تو ڈاکٹر سید عبداللہ تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تھے۔ وحید قریشی تھے اور ڈاکٹر صادق۔ ۔ ۔ ۔ بہت اچھے اچھے لوگ تھے۔

سوال: اس کے بعد پھر آپ نے ملازمت کی؟
خالدہ حسین: جی بالکل ملازمت کی۔ لیکچرار بننے کے بعد میں نے لاہور کالج میں ملازمت کی دو تین سال۔ بس اس کے بعد۲۷ نومبر ۶۵ء کو میری شادی ہو گئی تو ملازمت چھوڑ دی۔ پھر بہت عرصے کے بعد میں نے کراچی میں جاکے ۸۰ء یا غالباََ ۷۹ء میں شروع کی دوبارہ۔ وہاں پہ PAF شاہین کالج میں۔ پھر اس کے بعد میں باقاعدہ ملازمت کرتی رہی۔ ۹۷ء میں پھر میں ریٹائر ہوئی اسلام آباد سے۔

سوال: تو یہ تجربہ کیسا رہا ملازمت کا؟

خالدہ حسین: ملازمت کا۔ ۔ ۔ اچھا رہا۔ ۔ ۔ ۔ اچھا لگا مجھے۔ ۔ ۔ لیکن یہ تھا کہ کراچی میں میں بہت خوش تھی کیوں کہ کراچی کے ماحول میں اور اسلام آباد کے ماحول میں بہت فرق تھا۔ کراچی میں یہ تھا کہ ہمارے کالج میں بھی؛ حالانکہ چھوٹا سا کالج تھا، PAF شاہین کالج، بہت چھوٹا تھا صرف سیکنڈ ایئر تک تھا۔ بیرکس تھیں کوئی، اس میں انھوں نے کھولا ہوا تھا۔ تھوڑے سے کلاس رومز تھے اور تھوڑا سا اسٹاف تھا لیکن وہ اتنے اچھے لوگ تھے اتنے زیادہ genuine لوگ تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ سب لوگ مخلص اور اپنے کام کے ساتھ بھی مخلص تھے۔ وہاں پر ہمارا بہت ادبی ماحول ہوتا تھا۔ یہ یاد ہے کہ میری ساری دوستیاں جو تھیں وہ ان ٹیچرز کے ساتھ تھیں جو سائنس پڑھاتی تھیں۔ وہ سائنس پڑھاتی تھیں لیکن ادب کو اتنا اچھا سمجھتی تھیں وہ اور اتنا ان میں شعور تھا کہ بڑی حیرت ہوتی تھی۔ ایک میری دوست تھی اب تو پتہ نہیں وہ مجھے یاد کرتی ہوگی کہ نہیں، وہ بیالوجی کی ٹیچرتھی، شہناز۔ وہ میری کہانیاں پڑھتی تھی اور اتنا اچھا تجزیہ ان کا کرتی تھی اور اتنی اچھی تنقید کرتی تھی کہ میں حیران ہو جاتی تھی اس کی بصیرت پہ۔ اسی طرح اور تھیں۔ ایک کیمسٹری پڑھاتی تھیں، روحی۔ پھر بعد میں وہ پرنسپل بھی ہو گئیں۔ ان کا بھی بہت ادبی ذوق تھا۔ ایک صاحب ہمارے ساتھ تھے جو اسلامیات پڑھاتے تھے۔ بہت highly      intellectual آدمی تھے، طارق۔ وہ بھی اتنے زبردست سمجھنے والے ادب کو۔ ۔ ۔ ۔ تو وہاں پہ میں بہت خوش تھی۔ ہم لوگ بہت ادب کی باتیں کرتے۔ ۔ ۔ ہم باتیں نہ بھی کرتے ادب کی تو آپس میں ہماری گفتگو بہت اچھی ہوتی تھی۔ وہاں سے میں یہاں آئی تو مجھے لگتا تھا میرا دماغ اڑ جائے گا۔ یہاں پہ تو میں حیران ہو گئی۔ کوئی کتاب کی بات نہیں کرتا تھا، کوئی پڑھنے لکھنے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ جب میں نے لوگوں کو بولتے ہوئے سنا، ان کا لہجہ سنا، تو میرا دل بیٹھ گیا۔ وہاں کراچی سے میں اتنی شستہ زبان اور لہجہ سنتی ہوئی آئی اور یہاں آکے۔ ۔ ۔ ۔ بہت مشکل سے میں نے اپنے کانوں کومانوس کیا ان کے لہجوں سے۔ اور اس کے بعد پھر یہ تھا کہ ایک آدھ بندہ ہوتا تھا جو کتاب کی بات کرتا تھا۔ اس لیے میں یہاں پر اپنے آپ کو مِس فٹ ہی محسوس کرتی رہی۔ کیوں کہ یہاں پر ذہنی طور پر وہ ماحول نہیں ملا مجھے، جو کراچی میں تھا۔

سوال: لکھناکس زمانے میں شروع کیا؟
خالدہ حسین: میری کہانیاں تو ۶۰ء کی دہائی میں چھپنا شروع ہوئیں۔

سوال: ’’ادبِ لطیف‘‘ میں کب چھپیں؟
خالدہ حسین: جی ۶۰ کی دہائی میں۔

سوال: اور پہلی کتاب ’’پہچان‘‘ کب آئی؟
خالدہ حسین: مجموعہ میرا خیال ہے ۸۰ء میں آیا تھا۔ ۸۰ء یا ۷۹ء۔ بہت دیر میں آیا وہ مجموعہ’’پہچان‘‘۔ اس کے بعد ’’دروازہ‘‘ پھرجلدی آگئی تھی۔ پھر باقی جلدی آتی رہیں لیکن پہلے مجموعے میں بہت دیر لگی۔

سوال: تو ابھی تک آپ کے پانچ مجموعے آچکے ہیں؟
خالدہ حسین: جی ہاں پانچ اور ایک یہ جو آپ کے سامنے ہے کلیات۔ لیکن اب ایک اور مجموعہ میرا تیار ہو گیا ہے۔ آصف فرخی شاید چھاپ دیں۔ دو سال تو ہو گئے ہیں وہاں پڑے ہوئے مسودہ۔

سوال: اس کے بعد بھی تو آپ نے کئی افسانے لکھے ہیں۔
خالدہ حسین: ہاں! وہی افسانے ان کو میں بھجواتی رہتی ہوں۔ کچھ میرے پاس پڑے ہیں، کچھ تراجم کیے ہوئے ہیں میں نے، وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں۔

سوال: تراجم کون سے کیے ہیں آپ نے؟
خالدہ حسین: تراجم۔ ۔ ۔ ۔ جو کہانیاں مجھے اچھی لگتی تھیں انگلش میں، تو وہ ترجمہ کر دیتی تھی۔ چار پانچ ہیں تراجم۔

سوال: ۶۰ء کی دہائی میں جب آپ نے لکھنا شروع کیا تو آپ لاہور میں تھیں اس وقت لاہورمیں بڑی زبردست ادبی سرگرمیاں تھیں۔ بہت جان دارفضا تھی، اہم لوگ تھے۔ اس شہر میں آپ کے تجربات کیسے رہے؟
خالدہ حسین: سب بہت اچھے تھے لیکن مسئلہ وہی تھاکہ ہمارے خاندان میں، ہماری تہذیب کا جزو نہیں تھا ادب اور ادبی لوگ۔ ہم ادب پڑھتے تھے۔ میرے والد تو بہت زیادہ باذوق آدمی تھے۔ شاعری میں اور ہر چیز میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ کہیں مشاعرے ہوتے تو مجھے لے کے جاتے؛ سناتے سب۔ لیکن اپنے گھر میں یہ چرچا نہیں تھا۔ یہ نہیں تھا کہ بھئی آپ ادب لکھتی ہیں تو ادیبوں کو بلائیں یا ملیں جلیں یابے تکلفی سے باہر چلی جائیں یا آپ جلسوں ولسوں میں جائیں، وہ اٹینڈ کریں سارے۔ یہ ہمارے ہاں نہیں تھا۔

سوال: اجازت بھی نہیں تھی؟

خالدہ حسین: نہیں۔ اب اجازت کا مطلب یہ کہ understood تھا کہ نہیں جائیں گے۔ لہٰذا ہم پوچھتے ہی نہیں تھے۔ پوچھا ہی نہیں تھا کبھی۔ مشاعرے وشاعرے سننے چلے جاتے تھے لیکن خود بولنے کا نہیں تھا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ۶۵ء یا ۶۴ء تھا کہ پہلی دفعہ میں نے ہمت کر کے حلقۂ اربابِ ذوق میں پڑھی کہانی۔ وہ کہانی ’’سواری‘‘ تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ اب بہت مسئلہ تھا کہ کیسے جائیں؟ میرے والد صاحب مجھے لے کے گئے وہاں۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ اب بھی میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ میرے والد جو تھے بہت ادبی ذوق کے آدمی تھے۔ ۔ ۔ بہت زیادہ۔ تھے تو سائنٹسٹ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی تھے کیمسٹری میں اور وائس چانسلر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور میں۔ تو ساری زندگی انھوں نے سائنس پڑھی ہے۔ لیکن ان کے دوست بھی بڑے باذوق تھے۔ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ چلو میں تمھیں لے کے چلتا ہوں۔ تو کہاں وہ اتنے بڑے آدمی، سفید بال اور کہاں وہ حلقۂ اربابِ ذوق، آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ کیسی بے تکلف سی جگہ ہوتی ہے، وہ لکڑی کی کرسیاں اور دھواں دھواں، وہ سگریٹ، ماحول بھی ویسا؛ لیکن وہ مجھے لے کرگئے تھے۔ اب بھی میں یاد کرتی ہوں تو کہتی ہوں کہ دیکھو ان کا کتنا بڑا دل تھا کہ انھوں نے یہ سوچا ……وہ بہت قدر کرتے تھے میرے ٹیلنٹ کی۔ وہ پھر مجھے لے کے گئے۔ میں نے کہانی پڑھی۔ وہاں پسند کی گئی تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ بڑے بڑے لوگ وہاں پہ آئے ہوئے تھے۔

سوال: تو اس زمانے میں آپ اپنی کس ہم عصر ادیب خاتون کے قریب رہیں؟ مثلاََ بانو قدسیہ تھیں اس زمانے میں۔
خالدہ حسین: ہاں قدسیہ آپا جو تھیں وہ میری بڑی بہن کی بہت دوست تھیں۔

سوال: انھوں نے کہیں ذکر بھی کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ آپ کے سائیکل چلانے کا ذکر کیا ہے۔
خالدہ حسین: ہاں ان کے ساتھ یہ تھا کہ بہت دوستی تھی۔ ہم لوگ بہت خوش رہتے تھے، ملتے جلتے آپس میں، بڑے ڈرامے ورامے ہوا کرتے تھے اور انھوں نے ڈرامے بڑے اسٹیج کیے تھے۔ میری بہن نے بھی کام کیا اور وہ (بانو قدسیہ) انار کلی بنیں اور میری بہن کو شہزادہ سلیم بنایا۔ تو ہم بہت مزے کیا کرتے تھے۔ بہت ہی lively خاتون ہیں بانو قدسیہ، بلکہ تھیں اب تو وہ بہت سنجیدہ ہو گئی ہیں۔ بہت talented، بہت محبت کرنے والی۔ پھر خواتین میں میں الطاف فاطمہ سے ملتی تھی۔ بہت اچھی خاتون ہیں وہ۔ کشور سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ باقی یہ تھا کہ کسی محفل میں جو لوگ مل جاتے تھے۔ اب اگر میں کسی کا نام بھول گئی تو بہت مسئلہ ہو جائے گا۔

سوال: الطاف فاطمہ کی بہن نشاط فاطمہ بھی بہت اچھا لکھتی ہیں۔
خالدہ حسین: جی! بہت اچھا لیکن ان سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔

سوال: پھر جمیلہ ہاشمی تھیں لکھنے والوں میں۔
خالدہ حسین: جمیلہ ہاشمی سے ملی۔ وہ خود بہت اچھی تھیں۔ میرے گھر بھی آئی تھیں اورمیں تو کہیں جاتی نہیں تھی۔

سوال: قرۃ العین حیدر سے کبھی ہوئی ملاقات؟
خالدہ حسین: نہیں۔ سنا تھا کہ وہ ذکر بھی کرتی تھیں میرا، جب پاکستان آئی تھیں تو۔ لیکن میں نہیں جا سکی۔

سوال: اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر بہت بڑا نام ہے۔ ان کے بعد اردو فکشن میں جن لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے، ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ آپ نے بہت گہرائی سے فکشن پر اپنا ایک نقش بنایا ہے۔

خالدہ حسین: بہت شکریہ لیکن مجھے بہت خوشی ہے اس بات کی کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا ہوا ہے۔ وہ مجھے جانتی تھیں بلکہ میرا نام بھی انھیں معلوم تھا۔ انھوں نے مجھے پڑھا بھی تھا۔ انھوں نے میری ایک کہانی بھی translate کی تھی۔ Illustrated      Weekly      of      India میں چھپی تھی۔ جانتی تھیں وہ مجھے؛ اور جب پاکستان آئی تھیں تو انھوں نے میرے بارے میں پوچھا بھی تھا۔ لیکن بس میں کچھ وجوہات سے نہیں جا سکی۔ تو اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے۔ پچھلے دنوں پتہ نہیں کس کی کتاب تھی، اس کے پیش لفظ میں یہ باتیں لکھی ہوئی تھیں کہ قرۃ العین نے میرا ذکر کیا تھا، پوچھا تھا۔ کہا تھا کہ میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ تو بس میرے ایسے حالات تھے کہ میں نہیں جا سکی۔

سوال: کیوں ؟ اتنی گوشہ نشینی کیوں آپ کی زندگی میں رہی؟
خالدہ حسین: بس ایسا ہے کہ میرا گھرانہ جو ہے نا، دیکھنے میں تو ہم بڑے پڑھے لکھے اور بڑے enlightened قسم کے لوگ ہیں، بڑی تعلیم ہے اور سب کچھ ہے لیکن ہمارے ہاں تھوڑی سی رکاوٹیں بھی ہیں۔ تھوڑی سی reservations ہیں۔ اس طرح نہیں کہ بس اُٹھے اور چلے گئے کہیں پر یا زیادہ ملنا جلنا۔ ملنا جلنا تو پتہ نہیں، مجھے نہیں سمجھ کچھ، ہوتا ہے کہ ہاں بھئی! کہاں جا رہی ہو؟ کیوں جا رہی ہو؟ کس سلسلے میں جا رہی ہو؟ یہ بھی بتانا پڑتا ہے۔ اب تو خیر نہیں اب تو کیا پوچھنا کسی نے۔ اب تو میں اٹھوں اور چلی جاؤں۔ وہ زمانہ تھا اس میں ہوتا تھا۔

سوال: لیکن اب بھی تو نہیں جاتیں آپ۔
خالدہ حسین: ہاں اب یہ ہے کہ اب عادت ہو گئی ہے۔ اب میں کہتی ہوں کہ میرے ساتھ کوئی ہو تو مجھے لے جائے۔ اکیلے نہیں جا سکتی اور یہاں پہ ایسا کوئی ہے نہیں جو مجھے لے کے جائے گھر سے۔

سوال: ویسے آپ کا جی چاہتا تھا؟ آپ کو یہ جبر نہیں محسوس ہوتا تھا؟
خالدہ حسین: شروع میں تو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بس پھر عادت ہو گئی کہ یہ بس اسی طرح ہی ہے۔ پھر عادت ہوگئی۔ بس پھر اخبار پڑھتے تھے، لوگوں سے سنتے تھے کہ کیا ہوا کیا ہوا؟ اچھا! ادھر سے رپورٹ پڑھ لی۔ ادھر سے پڑھ لی۔ تو بس۔ ۔ ۔ ویسے میں جاتی بھی رہی ہوں یہاں فیسٹیولز میں کافی عرصہ گئی ہوں۔ لیکن بس وہ لوگوں کے موڈ پر depend کرتا تھا۔ کبھی ہوتا تھا کہ ہاں بھئی جاؤ۔ کبھی ہوتا تھا کہ نہیں ِکیا کرنا ہے؟

سوال: شوہر کی طرف سے پابندیاں رہیں؟
خالدہ حسین: پابندی تو خیر ایسی نہیں تھی لیکن ایک چیز ہوتی ہے نا کہ بندہ sense کر لیتا ہے کہ پسند نہیں کرتے اس چیز کو۔ پھر مجھے وہ بہت برا لگتا۔ دل میرا خفا ہو جاتا۔ میں کہتی کیا فائدہ؟ جب کوئی چیز کوئی پسند نہیں کر رہا تو میں نہیں کرتی۔ امن پسند بہت ہوں۔ ۔ ۔ شروع سے۔

سوال: خالدہ آپا آپ کس ادیب سے متاثر ہوئیں؟ کسی بھی زبان کے؟

خالدہ حسین: ہاں۔ ۔ ۔ اب یہ بات ہے کہ۔ ۔ ۔ یہ ویسے سوال ہے بڑا مشکل۔ ایک توقرۃ العین حیدر ہیں۔ پھر انتظار حسین کو بہت شوق سے پڑھا اور باقی جو مغربی ادیب ہیں زیادہ۔ غالباََ ۶۰ ء کی دہائی میں ہی میں ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھا کرتی تھی، چھوٹے چھوٹے افسانے۔ تو وہاں پر لوگ میری کہانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ پھر کسی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو چند رائٹرز کے نام بتاتا ہوں آپ انھیں ضرور پڑھیں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے مزاج کے ساتھ مطابقت ہے۔ انھوں نے مجھ کو existentialist رائٹرز کے نام suggest کیے۔ تب میں نہیں جانتی تھی existentialism کیا ہوتا ہے۔ حالانکہ میں نے فلاسفی وغیرہ پڑھی تھی۔ سب کچھ تھا، لیکن میں نے لٹریچرexistentialism کا نہیں پڑھا تھا۔ وہ انھوں نے مجھے کہا۔ میں نے لائبریری سے اور کہیں ادھر ادھر سے کتابیں لیں۔ سب سے پہلے جو میں نے کہانی پڑھی existentialism کی، وہ سارتر کی تھی “The      Wall”۔ وہ کہانی جب میں نے پڑھی تو مجھے لگا کہ جیسے ایک بالکل نئی دنیا میں پہنچ گئی ہوں۔ مجھ پر اتنا اس کا اثر ہوا، بہت شدید اثر۔ آج تک کسی چیز کا، کسی تحریر کا مجھ پہ اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا جتنا اس کہانی کا ہوا تھا۔ مجھے بالکل یوں لگے کہ جیسے ایک نئی دنیا کا دروازہ مجھ پر کھل گیا ہے اور یہی تو میں سوچ رہی تھی۔ یہی تو میں محسوس کرتی آئی ہوں جو مجھے کسی نے آج تک بتایا ہی نہیں تھا اور یہ ہے وہ چیز۔ اور اس کا مجھ پہ اتنا زیادہ شدید اثر ہوا کہ بہت عرصے تک میں اس کے spell میں رہی۔ پھر میں نے سارتر کو پورا پڑھا۔ لے کے ساری اس کی کتابیں وتابیں۔ گو کہ اس کے بعد باقی چیزوں کا مجھ پہ اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ اس کیshort      storyکا ہوا تھا۔ پھر میں نے باقی لوگوں کو پڑھا۔ جتنے بھی existentialist تھے۔ کامیو کو پڑھا۔ اس کو پڑھا، اِس کو پڑھا۔ سارے لوگوں کو۔ تو یہ جو باہر کے لکھنے والے ہیں ان میں تو یہ لوگ زیادہ ہیں جن کا مجھ پہ اثر ہوا۔ اپنے لکھنے والوں میں قرۃ العین ہیں۔ اور باقی داستانوی ادب پھر پڑھنا شروع کیا دوبارہ سے؛ کہ کبھی بچپن میں دیکھا تھا لیکن اب دوبارہ پڑھا تو اچھا لگا۔ کتاب جو بھی اچھی آئے پڑھ لیتی ہوں۔

سوال: آپ کو یہ خیال کیوں آیا کہ آپ افسانے لکھیں؟ مثلاََ آپ شعر بھی کہہ سکتی تھیں۔
خالدہ حسین: ہاں! میرا خیال ہے کہ ایک تو میری طبیعت کہانی کی طرف مائل تھی۔ دوسرا یہ کہ مجھے لگتا تھا کہ ہمارے ماحول میں شاعری پر زیادہ پابندی ہے بہ نسبت نثر نگاری کے۔

سوال: اچھا؟
خالدہ حسین: ہوں… کیوں کہ شاعری یہ ہے نا کہ آپ جائیں لوگوں میں، مشاعروں میں جائیں، کلام پڑھیں، واہ واہ ہو، آنا جانا، یہ، وہ۔ سوشل لائف ہے اس میں بہت زیادہ۔ ہمارے گھر میں نہیں تھا ایسا دستور۔ تو مجھے پتہ تھا یہ نہیں چلے گی۔ اس لیے میں اس طرف نہیں گئی۔ ویسے بھی میرا یہ خیال تھا کہ شاعری میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور میں اس کی تکنیک نہیں سیکھ سکتی۔ کیوں کہ میں یہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ بغیر تکنیک کے بھی شاعری ہوتی ہے۔ وہ تو اب ہو نے لگی ہے۔ تو مجھے تو یہی پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے اور ہمارے گھر میں بھی لوگ کہتے تھے کہ جی اس کے تو بڑے عروض ہوتے ہیں اوروہ یاد کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ تو مجھے پتہ تھا کہ یہ بہت مشکل چیز ہے۔ تو اس طرف اسی لیے نہیں گئی لیکن پڑھی بہت۔ شروع میں میراجو craze تھا، وہ شاعری تھی۔ اتنی اتنی بیاضیں بنائیں میں نے۔

سوال: اچھا؟ وہ سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں؟
خالدہ حسین: نہیں۔ وہ بڑی tragic باتیں ہیں۔ میں نے اتنی اچھی بیاض بنائی تھی۔ پھر وہ میں شادی کے بعد اپنے ساتھ بھی لے آئی تھی۔ رکھی ہوئی تھی اپنے پاس۔ پھر کسی دن کسی بات پہ غصہ آیا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے وہ چاک کر دی۔ پھینک دی۔ اس کا مجھے بہت رنج ہے، اب تک ہے کہ کاش وہ میں نے سنبھال کے رکھی ہوتی۔ اتنی زیادہ اچھی collection تھی وہ۔ خاصی موٹی، ضخیم تھی وہ۔ تب تو ابھی ان لوگوں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا۔ ضیا جالندھری اور احمد فراز وغیرہ کی نئی نئی چیزیں آتی تھیں۔ تو ان کے مجموعے تو تھے نہیں میں رسالوں میں سے دیکھ کے ان کی نقل کیا کرتی تھی اپنی بیاض میں اور بہت میں نے collection کی ہوئی تھی لیکن بس وہ غصے میں آکے کر دیا۔ پھر نہیں کبھی بیاض بنائی۔ بس ایسے ہی ہوتی رہتی ہیں باتیں۔

سوال: خالدہ آپا محبت کی زندگی میں کبھی؟
خالدہ حسین: (خاموشی کے ایک مختصر وقفے کے بعد) کتابوں سے ہی کی ہے اور تو کچھ نہیں۔

سوال: اور انسانوں سے؟
خالدہ حسین: باقی تو… یا یہ ہے آئیڈیاز، تصورات …یہ چیزیں ہیں جو زندگی میں ہیں۔

سوال: آپ کو کبھی کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جس سے محبت کی جا سکے؟ ہو جائے؟
خالدہ حسین: کبھی خیال نہیں آیا اس طرف۔ ایک یہ کہ گھر میں ماحول ہی ایسا نہیں تھا۔ ہمارے گھر میں بڑے ضابطے اور قوانین کے لوگ ہیں اور ہمارے میکے میں بھی۔ بہت زیادہ شروع سے۔ پڑھنے لکھنے کی آزادی ہر طرح کی تھی لیکن ویسے بڑے ضابطے اور قوانین تھے۔ تو کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا۔

سوال: شادی کس عمر میں ہوئی؟
خالدہ حسین: میں۲۷ سال کی تھی۔

سوال: گھر والوں کی مرضی سے ہوئی تھی شادی؟
خالدہ حسین: ہاں بالکل۔ گھر والوں کی مرضی سے۔

سوال: آپ نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا؟
خالدہ حسین: نہیں۔

سوال: فیملی میں یا باہر ہوئی؟
خالدہ حسین: نہیں، باہر ہوئی۔ ہم لوگ تو شیخ ہیں۔ شیخ قانون گو اور وہ جو ہیں ذات کے برہمن۔ ٹوڈر مل سے جا کے ہمارا شجرۂ نسب ملتا ہے لیکن یہ لوگ تو خواجہ ہیں کشمیری جن کے گھر میں میں آئی۔ بالکل دو مختلف فیملیز تھیں۔

سوال: جوائنٹ فیملی میں جا کے رہیں آپ شادی کے بعد؟ سسرال میں؟
خالدہ حسین: ہاں رہی لیکن بہت کم۔ پھر ان کی پوسٹنگ باہر ہوگئی لیکن یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسی دشواری پیش نہیں آئی کیوں کہ جو ان کی والدہ تھیں وہ بہت ہی اچھی خاتون تھیں، بے حد۔ بے انتہا اچھی تھیں اور میرے سسر جو تھے وہ بڑے سخت طبیعت کے آدمی تھے۔ تو وہی حال تھا… آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں…جب کبھی ہماری کوئی لڑائی ہوتی تو میری ساس مجھے گلے سے لگا کے اتنا پیار کرتیں، اتنا روتیں بیٹھ کے۔ اتنی پیاری تھیں وہ… کیا بتاؤں۔ بہت مجھے پیار کرتی تھیں۔ کبھی ہو جاتی تھی لڑائی وڑائی۔ آ لینے دو اس کو، میں اس کو سیدھا کرتی ہوں، آئے سہی آج۔ بہت پیاری خاتون تھیں۔

سوال: کیا کرتے تھے آپ کے میاں؟
خالدہ حسین: میرے میاں mechanical      engineering میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ جب میری شادی ہوئی ہے تو یہ ریڈر تھے انجینئرنگ یونی ورسٹی میں۔ بعد میں پھر یہ داؤد کالج، کراچی کے پرنسپل ہو گئے۔ وہاں سے یہ جوائنٹ سیکرٹری ہو کر ادھر اسلام آباد آگئے۔ بس پھر اسی پوسٹ پہ ریٹائر ہوئے۔

سوال: ذہنی ہم آہنگی تھی آپ دونوں کے درمیان؟
خالدہ حسین: ذہنی ہم آہنگی؟ ذہنی ہم آہنگی اتنی ہوسکتی ہے جتنی زمین اور آسمان میں ہے۔ وہ تو بالکل سائنٹفک آدمی ہیں۔ پکے۔ انتہائی intelligent، انتہائی objective معروضی طور پر سوچنے والے، practical اور میں جو ہوں imaginative، تصوراتی، idealist۔ لیکن یہ ہے کہ بس پہچان لیا ایک دوسرے کی طبیعت کو؛ کہ یہ difference تو چلنا ہی ہے لیکن ایک بات ہے کہ یہ میرے لکھنے کے بڑے اچھے نقاد ہیں۔

سوال: اچھا؟ پڑھتے ہیں؟
خالدہ حسین: ہاں ہاں پڑھ لیتے ہیں۔ میرے سامنے نہیں پڑھتے۔ چھپ چھپا کے پڑھ لیتے ہیں اور پھر encourage بھی کرتے ہیں۔ شروع میں نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں کرنے لگے کہ ہاں لکھو اور یہ وہ۔

سوال: تو کوئی پابندیاں تو نہیں لگائیں آپ پر کبھی؟
خالدہ حسین: پابندیاں۔ ۔ ۔ لکھنے پہ نہیں۔ پڑھنے لکھنے سے نہیں روکا لیکن آنے جانے پر۔ باہر، محفلوں میں آنا جانا۔ وہ تو میرے میکے میں بھی تھیں کہ اتنی زیادہ آزادی نہیں تھی۔ یہاں بھی شروع میں نہیں تھی لیکن اب تو انھوں نے… جا چھوڑ دیا حافظِ قرآن سمجھ کر… مایوس ہو کے چھوڑ دیا۔

سوال: آپ کو ایک دوسرے کی رفاقت محسوس ہوتی ہے؟
خالدہ حسین: رفاقت… کس سلسلے میں؟ کیسی؟

سوال: مطلب یہ کہ ذہنی ہم آہنگی نہ بھی ہو، مختلف ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی انسان ایک دوسرے کی رفاقت اور ساتھ کو محسوس کرسکتا ہے؟
خالدہ حسین: ایک یہ ہے بہت زیادہ مخلص، بہت زیادہ سچے، بہت زیادہ محبت کرنے والے اور بہت زیادہ فیملی کے آدمی ہیں۔

سوال: آپ سے محبت کرتے ہیں؟
خالدہ حسین: بہت زیادہ۔

سوال: آپ کرتی ہیں؟
خالدہ حسین: میں بھی کرتی ہوں۔ میں بھی کرتی ہوں۔ بہت زیادہ کرتی ہوں۔

سوال: تو آپ کو گھٹن تو محسوس نہیں ہوتی تھی جب کہ آپ اتنی زیادہ imaginative ہیں۔ عام لوگوں سے کہیں زیادہ۔ آپ کے تصور کی جو وسعت ہے، اس کا کچھ کچھ اظہار ہوتا ہے آپ کی کتابوں میں، مگر یہ ساری وسعت تو ان میں بھی نہیں سما سکتی۔

خالدہ حسین: ہاں ہوتی ہے کبھی کبھی۔ تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھا اگر میں یہ بات کروں گی تو مجھے بے وقوف سمجھیں گے، پاگل کہیں گے کہ یہ کیا باتیں ہیں۔ بس میں کبھی کرتی بھی نہیں ہوں ان کے ساتھ ایسی بات۔ تو ہوتی ہے کبھی کبھی لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ زندگی بھر کوئی نہ کوئی ایک اچھی فرینڈ ضرور رہی ہے۔ تو اس کے ساتھ پھر میں بات کر لیتی ہوں۔ کوشش کرتی ہوں کہ بات ہو جائے۔ آج کل میری عطیہ سید کے ساتھ بہت دوستی ہے۔ اس کے ساتھ میری بہت understanding ہے۔ وہ فلاسفی کی ہے۔ ویسے تو کولیگ بھی رہے ہیں۔ ہم لوگ اکٹھا پڑھاتے رہے ہیں۔ تو بہت زیادہ اس کے ساتھ ہے۔ اب تک ہے۔ بات وات کرتے ہیں، ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کولیگز میں بھی مل جاتی تھی کوئی نہ کوئی۔ ایک آدھ دوست ایسی رہی ہے جو کہ بات سمجھتی تھی پھر اتنا نہیں محسوس ہوتا۔ پھر میرے بچے بہت سمجھتے ہیں۔

سوال: بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔

خالدہ حسین: بچے میرے بہت sensitive اور creative طبیعت کے ہیں۔ (بھرائی ہوئی آواز میں) بیٹا میرا بہت زیادہ تھا۔ بہت ہی creative      mind کا اور اس نے بھی لکھنا شروع کیا تھا لیکن پھر چھوڑ دیا۔ پہلے وہ انگلش میں لکھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا اور ایک دم سے ساری چیزیں چھوڑ کے دین کی طرف آگیا۔ وہ بھی میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ ہے کیوں کہ بڑا بیٹا تھا میرا۔ وہ بہت زیادہ میرے ساتھ attached تھا۔ highly      intellectual,      highly      sensitive پھر جب وہ دین کے راستے پر گیا تو اس طرف بھی وہ پھر اتنی ہی زیادہ لگن کے ساتھ گیا اور اس نے ایک دم سے اپنی زندگی بدل دی۔ تو شروع میں تو ہم لوگ برداشت ہی نہیں کر سکے۔ ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ ہم نے اس کی بہت مخالفت کی۔ اب مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ شروع میں اس نے بڑی تکلیفیں سہی ہیں اپنے آئیڈیل کے لیے اور اپنے ایمان کے لیے۔ کیوں کہ دیکھیں نا گھر میں ایک دم سے اجنبی ہو جانا۔ اس کی ہر بات ہمیں عجیب لگتی تھی۔ اس نے لباس بدل دیا اپنا۔ پینٹ شرٹ ختم کر دی۔ شلوار قمیص پہنی۔ عمامہ پہن لیا اور بالکل خاکسارانہ زندگی۔ کم کھانا، کم سونا، عبادت کرنی۔ ہر چیز میں شرع کی پابندی۔ یہ ہمارے لیے شروع میں اتنا بڑا انقلاب تھا۔ اس کی بہت مخالفت کی لیکن وہ اتنا ثابت قدم تھا۔

سوال: کیوں یہ تبدیلی آگئی اچانک؟
خالدہ حسین: یہ جو ہمارا RMC ہے نا راولپنڈی میڈیکل کالج، اس میں ماحول تھا تبلیغ کا۔

سوال: آپ پر بھی انھوں نے کوئی پابندیاں لگائی تھیں؟
خالدہ حسین: نہیں، پابندی نہیں لگاتا تھا، بس صرف کہتا تھا۔ ہمیں کبھی اس نے یہ نہیں کہا۔ وہ ایسا کرتا تھا۔ ۔ ۔ بہت مہذب بچہ تھا۔ کبھی وہ یہ کرتا تھا کہ خود ہی انتظام کر لیتا تھا ادھر، کسی عالم کو لے آتا تھا کہ امی آج یہاں وعظ ہوگا۔ میں نے کہا، اچھا ٹھیک ہے۔ پھر وہ راستے میں پردہ لگا دیتا تھا اور مجھے کہتا تھا امی آپ ادھر بیٹھ جائیں۔ تو وعظ ہوتا تھا اور لوگ آتے تھے سننے کے لیے۔ یہ لوگ بہت اچھا وعظ کرتے ہیں لیکن آخر میں یہ کہتے ہیں کہ تبلیغ کے لیے نکلیں۔

سوال: اچھا یہ تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے؟
خالدہ حسین: ہاں تبلیغی جماعت سے۔

سوال: کتنے بچے ہیں خالدہ آپا ؟
خالدہ حسین: ایک بیٹا تھا۔ تین بیٹیاں ہیں۔ ہما ہے بڑی، وہ تو آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ دوسری فاطمہ ہے وہ یہیں پر ہوتی ہے ادھر Headstart میں اور یاسرہ سب سے چھوٹی ہے۔ بچوں کے ساتھ بھی میری بڑی دوستی رہتی ہے۔ سب بچوں کے ساتھ۔ یہ میرا نواسا ہے، یاسرہ کا بیٹا، اب یہ بعد میں مذاق کرے گا، نانو! آپ اتنا بول رہی تھیں وہاں پہ۔ یہ کہہ رہی تھیں، وہ کہہ رہی تھیں۔

سوال: خالدہ آپا! آپ لکھنے پڑھنے کا کام کب کرتی ہیں؟ دن کے کس وقت میں؟
خالدہ حسین: کسی بھی وقت، جب بھی، یا تو موڈ ہو جائے، چلتے پھرتے بھی کر لیتے ہیں، کہیں بھی بیٹھ جاتی ہوں۔ اسی لیے میں نے کوئی اتنا زیادہ کام نہیں کیا۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ بہت کم لکھا ہے۔ جیسے لوگوں کا آفس ہوتا ہے ان کی روٹین ہوتی ہے، بیٹھتے ہیں، روزانہ کی چیزیں ہوتی ہیں، میں نے ویسے نہیں کیا۔

سوال: کیوں؟
خالدہ حسین: کچھ حالات ہی ایسے نہیں تھے۔ بچے پالے، بچوں کے ساتھ رہے۔ لوگ پسند نہیں کرتے نا کہ کتاب لے کے بیٹھ جاؤ۔ کہتے ہیں کہ ہم آئے اور آپ کتاب لے کے بیٹھ گئیں۔ اب تو ٹائم ہی نہیں رہا۔

سوال: لیکن ماشا ء اللہ آپ کے پانچ افسانوی مجموعے ہیں اور ایک ناول ہے۔ کوئی اور ناول کیوں نہیں لکھا؟
خالدہ حسین: ناول لکھنے کو جی تو چاہتا ہے لیکن اس کے لیے وہی نا concentration چاہیے اور ٹائم بہت چاہیے اور اس میں لگ کے لکھنا پڑتا ہے نا بیٹھ کے۔

سوال: خالدہ آپا! یہ کہانی کہاں سے آتی ہے؟
خالدہ حسین: کہانی تو نجیبہ اسی طرح ہوتا ہے کہ کوئی چیز متاثر کر دیتی ہے ایک دم سے۔ کوئی چھوٹا سا واقعہ۔ عام طور پر مجھے چھوٹے چھوٹے واقعات کبھی۔۔۔۔ مجھے خوشبوؤں کا بہت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ناچلتے پھرتے کوئی ایسی خوشبو آتی ہے مجھے بہت دور لے جاتی ہے۔ تو پھر مجھے وہ پرانے زمانے یاد آجاتے ہیں۔ associations کا پورا دفتر کھل جاتا ہے۔ اس سے بھی ہوتا ہے، آوازوں سے بھی ہوتا ہے اور images ہوتی ہیں۔ آئیڈیاز نہیں ہوتے، خیالات نہیں ہوتے کہ ہاں بھئی اس واقعے پر کہانی لکھی، یہ نہیں۔ یہ یا تو تصویریں ہوتی ہیںimages یا کوئی آوازیں ہوتی ہیں یاکوئی خوشبو ئیں ہوتی ہیں اس سے پھر وہ ساراسلسلہ ہوتا ہے۔

سوال: تو ساری کہانی آپ پر اترتی ہے؟
خالدہ حسین: ساری کہانی تقریباََ اتر جاتی ہے۔ اس میں تبدیلیاں بھی آجاتی ہیں۔ اتر تو آتی ہے ساری۔ پھر لکھتے لکھتے میں بدل بھی دیتی ہوں۔

سوال: تصوف سے بھی کبھی دلچسپی رہی؟
خالدہ حسین: تصوف میں دلچسپی رہی ہے بہت۔ لیکن میں نے باقاعدہ پڑھا وڑھا کوئی نہیں۔ موقع ہی نہیں ملا۔ ویسے ہے کہ صوفیانہ شاعری میں بہت دلچسپی رہی، پڑھتی رہی اور سنتی رہی۔ وہ ہے نا کہ جتنی بھی روحانیت ہے جس چیز میں وہ مجھے بہت attract کرتی ہے۔ لیکن باقاعدہ جو technical تصوف ہوتا ہے اس کا نہیں مجھے پتہ۔ مجھے شوق تو بہت ہے لیکن وہ کافی مشکل چیز ہے۔ پڑھنا اور سمجھنا۔

سوال: لیکن تصوف کو technically سمجھنا اور چیز ہے اور اس سے گزرنا اور چیز ہے۔
خالدہ حسین: ہاں۔ ۔ ۔ گزر تو سکتے ہیں پڑھنا ذرا مشکل ہے۔

سوال: تو پھر گزریں آپ کبھی اس راستے سے؟
خالدہ حسین: ہاںexperience تو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی کیفیت ہوجاتی ہے۔

سوال: آپ نے کبھی کوشش نہیں کی کہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی مل جائے؟

خالدہ حسین: دراصل کبھی کوئی نظر نہیں آیا۔ جتنے آس پاس کے لوگ ہیں یا جن کو ہم دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ زندہ لوگوں میں تو مجھے کبھی کسی پر بھروسہ نہیں ہوا۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ گئے ہوئے لوگوں میں سے آپ کسی کو مان لیں تو ٹھیک ہے۔ علامہ اقبال کے ساتھ مجھے بہت زیادہ لگاؤہے۔ ان کے ساتھ ہے میری روحانی وابستگی۔ کئی لوگ تو ان کو بڑا وہ سمجھتے ہیں نا کہ بڑے اصلاحی شاعر تھے ؛لیکن ان کی جو روحانیت کا پہلو ہے اس کے ساتھ مجھے بہت لگاؤہے۔ ان کے لیکچرز کا مجھ پر بہت اثر ہوا تھا۔ وہ جو سات لیکچرز ہیں، Reconstruction      of      Religious      Thought پر، وہ بھی بہت پڑھے، غور و فکر سے۔ ان کی روحانیت کا جو پہلو ہے وہ مجھے بہت متاثر کرتا ہے۔

سوال: شاعری پڑھی؟
خالدہ حسین: شاعری میں بھی کلاسیکی شاعری بہت پڑھی اور اساتذہ کو بہت پڑھا۔ بس پھر چھوڑ دیا۔ پھر ایک زمانے میں قرآنِ پاک کے ساتھ بھی لگاؤ تھا، پڑھتی تھی ترجمے کے ساتھ۔ اس میں سے بھی مجھے بہت سی چیزیں ایسی مل جاتی تھیں۔ یوں ہوتا تھا کہ میں سوال کر رہی ہوں مجھے جواب مل رہے ہیں۔ کبھی کبھی۔ لیکن وہ بھی ایک کیفیت ہوتی ہے جو گزر جاتی ہے۔ رہتی نہیں ہے، بہت مختصر سی ہوتی ہے، جھلک سی ہوتی ہے لیکن بالکل یہی لگتا ہے کہ ہم سوال کر رہے ہیں اور قرآن جواب دے رہا ہے۔ جب ایسی کیفیت ہوتی تھی، اس کے بعد پھر جب میں اپنا ادب پڑھتی تھی، لٹریچر پڑھتی تھی، جو رائٹرز بھی مجھے پسند ہیں یاجن کو میں سمجھتی تھی کہ اچھا لکھتے ہیں، ان کے ہاں مجھے ایسی باتیں ملتی تھیں جو کہ قرآن کے منافی ہوتی تھیں، یا یہ کہ جو مجھے لگتا تھا کہ میرے عقیدے سے مختلف ہیں؛تومجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بہت زیادہ میرا دل دکھتا تھا کہ یہ کیوں ایسا محسوس کرتے ہیں؟ یہ کیوں ایسا کہتے ہیں۔ پھر میں تنگ آکے چھوڑ دیتی تھی۔ تب بس جذباتی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اب نہیں اتنا ہوتا مجھے۔ اب مجھے پتہ ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہے۔ جو کسی کا عقیدہ ہے وہ ٹھیک ہے۔ میرا بیٹا بہت ناراض ہوتا تھا اس بات پہ۔ کہتا تھا، نہیں امی! بالکل نہیں!عقیدہ ایک ہی ہے۔ کہتا تھا، یہی تو بری بات ہے آپ رائٹرز کی۔

سوال: وہ آپ کی تحریریں پڑھتے تھے؟
خالدہ حسین: ہاں وہ پڑھتا تھا پھر اس نے چھوڑ دیا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ آخر آخر میں نہیں پسند کرتا تھا میرا لکھنا۔ کیوں کہ وہ یہ چاہتا تھا اور برملا کہتا تھا کہ راستہ بس ایک ہی ہے۔ اس راستے پہ آپ آجائیں۔ بس اس کا عقیدہ ایسا تھا۔ بہت پختہ عقیدہ تھا اس کا۔ بڑی بات ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میرے میاں، ویسے دل کے تو بہت پکے مسلمان ہیں لیکن وہ نمازی وغیرہ نہیں ہیں۔ میں حیران ہوتی ہوں۔ کہتی ہوں، اللہ! کیسے ہوگیا یہ؟ پھر میں کہتی ہوں شاید تھوڑا سا میرا اثر ہو۔ میرے اپنے خاندان میں بہت لوگ تھے اس طرح کے عابد و زاہد۔ بہت زیادہ۔ کئی تو ایسے ہیں میرے آباؤاجداد میں کہ جن کے باقاعدہ حجرے یا مزار وغیرہ بھی ہیں۔ مجھے اب پتہ چلتا ہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ جیسے میرے بیٹے نے بھی inherit کیا تھا کسی طرح۔ ورنہ کوئی ایسا ماحول نہیں تھا۔ میرے میاں بہت lively ہیں، بہت خوش دل، تفریح کرنے والے، ٹی وی دیکھو، movies دیکھو، گھومو پھرو، سیریں کرو۔

سوال: ابتدائی زندگی ایسی ہی گزری بچوں کے ساتھ؟
خالدہ حسین: ہاں بالکل بچوں کے ساتھ گھمانا پھرانا، سیریں کروانا، ادھر لے کے جانا، کلب چلو، اُدھر چلو، یہ کرو، وہ کرو۔ ہر نئی چیز دکھانی، اس پہ لے کے جانا، سیر تماشا، ہائیکنگ پہ لے کے جا رہے ہیں۔ کیا کچھ کرتے رہے۔ بہت زیادہ۔ بس کوئی ایک روحانی پہلو جو تھا وہ بچوں میں آگیا۔

سوال: باقی بچوں میں بھی ہے؟
خالدہ حسین: باقی میری بڑی بچی میں بڑی intuition ہے۔ intuitive بہت ہے وہ۔ اس کو اکثر چیزوں کا پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ یا تو وہ کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور پھر مجھے فون کر دیتی ہے۔ ہمیشہ کہتی ہے امی صدقہ دیں، تو میں دیتی رہتی ہوں۔ جب بھی خواب ہو، اس کا فون آتا ہے تو میں کہتی ہوں ہما! تم نے میرا بہت نقصان کروانا ہے۔ پھر صدقہ؟کہتی ہے امی آپ تھوڑا بہت نکال دیں صدقہ۔ کہتی ہوں اچھا۔ اس میں ہے روحانیت۔

سوال: آپ نمازیں پڑھتی ہیں؟
خالدہ حسین: ہاں۔

سوال: باقاعدگی سے؟ شروع سے؟
خالدہ حسین: جی، شروع سے۔

سوال: اللہ سے communication رہتی ہے؟
خالدہ حسین: بہت زیادہ۔

سوال: تو کوئی جواب ملتا ہے؟
خالدہ حسین: ہاں ملتا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے جب دل بہت صاف ہو۔ دل نہیں صاف ہوتا۔ پتہ نہیں کیا شور بھرا رہتا ہے۔ یہ بھی بڑا conflict ہوتا ہے جب میں لکھتی ہوں میں کہتی ہوں اس وقت مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جو کام بھی میں کرتی ہوں؛ میں کہتی ہوں نہیں، اس وقت مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ جب میں لکھتی ہوں تو میں کہتی ہوں، نہیں نہیں مجھے لکھنا نہیں چاہیے تھا؛ مجھے گھر کا کوئی کام کرنا چاہیے تھا۔ گھر کا کام کرتی ہوں تو کہتی ہوں، نہیں نہیں مجھے تو لکھنا چاہیے تھا۔ بڑا مسئلہ ہے یہ۔ میں نے ایک کہانی بھی لکھی تھی ’’مصروف عورت‘‘ تو اس میں بھی یہی تھا۔ بہت مسئلہ ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کام ہے جو مجھے کرنا تھا میں نے نہیں کیا ابھی تک۔ بس یہ ہے نجیبہ! میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ میں بس ایسے ہی بے کار سی عورت ہوں۔ آپ جیسے لوگ مجھے importance دے دیتے ہیں۔ میں تو ایسے ہی خواہ مخواہ باتیں کرتی رہتی ہوں۔

سوال: خالدہ آپا! شاید آپ کے ایسا سمجھنے میں ہم ہی لوگوں کا قصور ہے۔ آپ نے گوشہ نشینی اختیار کی تو ہم نے کرنے دی اور ہم نے آپ کو چھپنے دیا ورنہ ہم آپ کو نہ چھپنے دیتے ہم آپ کو پہلے ہی لے جاتے لیکن شاید لے جاتے تو ہوسکتا ہے کہ جو کچھ آپ نے لکھا وہ اس طرح نہ لکھا جاتا۔
خالدہ حسین: ہاں اس طرح کا نہ لکھا جاتا۔ یہی ہوتا ہے۔

سوال: اب اگر آپ پیچھے مڑ کے دیکھیں تو کیا لگتا ہے کہ ز ندگی میں کیا چیز کم رہی؟ کوئی ایسی چیز، جس کی آپ کو ہمیشہ تلاش رہی ہو اور وہ نہ ملی ہو؟
خالدہ حسین: جو کم رہی ہو… (سوچ کر) یہی کہ میں لکھ نہیں سکی۔ جتنا میں چاہتی تھی اتنا میں لکھ نہیں سکی۔ میرا صرف ایک passion تھا، لکھنا۔ لوگ تو حیران ہوں گے سن کے؛ کہ لو دیکھو جی! یہ عورت کیا بات کر رہی ہے؟ دو کہانیاں لکھیں اور کہتی ہے کہ میرا بڑا passion تھا لکھنے کا، لیکن واقعی تھا۔ ایک یہی کام کرنا چاہتی تھی پر نہیں کر سکی۔ لیکن پھر میں سوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ اگر میں زیادہ لکھتی تو trash لکھنے لگتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

سوال: trash ہوتا یا نہ ہوتا لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ نے جتنا بھی لکھا ہے، وہ جذبے اور احساس کے ساتھ اتنا بھرا ہوا ہے، ایک ایک لفظ میں اتنی شدت ہے، اور اس کی اتنی پرتیں ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں تو اس کے معانی نکلتے چلے آتے ہیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ سیاست سے بھی کبھی لگاؤ رہا آپ کو؟

خالدہ حسین: سیاست سے لگاؤ نہیں ہے۔ کوئی دور کا بھی نہیں واسطہ۔ مجھے لگتا ہے سیاست دوسروں کے لیے ہے۔ یہ ہوتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے یا ایسا نہیں ہونا چاہیے یا یہ غلط ہو رہا ہے، یہ نا انصافی ہو رہی ہے۔ یہ باتیں تو ہوتی ہیں لیکن یہ ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ اس بارے میں دوسرے مجھ سے بہتر لکھتے ہیں۔

سوال: جس وقت آپ نے لکھنا شروع کیا اس وقت تو آپ نے خود ہی بتایا کہ ترقی پسند ادب کا بہت چرچا تھا اور شروع میں شاید آپ نے کچھ اس طرح کا لکھا بھی پھر آپ ہٹ گئیں اس سے؟
خالدہ حسین: ہاں، پھر مجھے پتہ چلا کہ یہ میرا سبجیکٹ نہیں ہے میں ایسا نہیں لکھ سکتی۔

سوال: کبھی یہ احساس تو نہیں ہوا کہ اس وجہ سے شاید لوگوں نے آپ کو نظر انداز کیا ہوکہ آپ کسی گروپ میں شامل نہیں ہوئیں؟
خالدہ حسین: ہاں مجھے احساس ہوا تھا کہ میں پاپولر لوگوں میں تو نہیں آسکی نا۔ اس لیے کم لوگ پڑھتے ہیں مجھے۔ مجھے پتا تھا لیکن میں اپنی فطرت کے خلاف نہیں لکھ سکتی۔ ویسے میں نے غربت پہ اور ظلم پہ اور جبر پہ کہانیاں لکھی ہیں۔ اپنے اسٹائل سے لکھی ہیں۔ مثلاََ وہ جو ’’یارِ من بیا‘‘ ہے وہ وہی ہے؛ عورت کی مجبوری اور جو کچھ اس کے اوپر زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن اپنے انداز سے، جیسے میں نے محسوس کیا لکھ لیا۔ اسے کم لوگ سمجھتے ہیں۔ لیکن جو سمجھتے ہیں وہ پھر بہت پسند کرتے ہیں۔

سوال: اصل میں جو آپ نے لکھا ہے اس میں یک رخا پن اور سطحیت نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی پیغام ہو جو بالکل سامنے پڑا ہوبلکہ تاثر ہے جو پڑھنے والے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن یہ اپنی اپنی توفیق کی بات ہے۔ اس زمانے میں ترقی پسند تنقید نے جو ایک معیار سا بنالیا تھا، اس سے باہر اگر کچھ ہوتا تھا تو اسے نظر انداز کر دیتے تھے، شاید اس وجہ سے؟

خالدہ حسین: ہاں، بالکل نظر انداز کر دیتے تھے اور کافی عرصے تک یہ ہوا۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ جب میری پہلی کتاب ’’پہچان‘‘ چھپی تھی اور کراچی میں اس کی ceremony ہوئی تھی۔ میں نے کبھی بھی تقریب نہیں کی، اسی کی ہوئی تھی شاید۔ اس میں کسی نے مضمون پڑھا تھا۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں اپنی خوبیٔ قسمت پہ ناز کرنا چاہیے کہ اتنے کم عرصے میں، اتنا کم لکھنے پر ان کا اتنا نام ہو گیا ہے۔ کیوں کہ لوگ تو زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں۔ تو اس وقت مجھے کچھ احساس ہوا تھا کہ بغیر کسی ترقی پسندانہ پروپیگنڈا کے اور ساری چیزوں کے۔۔۔۔ تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا تو لوگوں نے اس کی طرف توجہ ضرور دی۔ اس پر بھی میں شرمسار ہی ہوتی رہی ہوں۔ مجھے یہ نہیں ہوا کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ مجھے شرم ہی آتی رہی کہ میں نے اتنا کم کام کیا ہے اور لوگوں کی بڑی مہربانیاں ہیں۔ یہ لوگ بہت اچھے ہیں جو میری طرف اتنی مہربانی سے توجہ کرتے ہیں۔ جب انھوں نے یہ کہا تو میں نے سوچا انھیں خود بہت تکلیف ہو رہی ہوگی یہ کہتے ہوئے۔ بہت میرا دل دکھا تھا۔

سوال: خالدہ آپا آپ فیمینسٹ ہیں؟
خالدہ حسین: سچی بات یہ ہے کہ مجھے فیمینزم کی تعریف کا ہی نہیں پتہ کہ کیا ہے وہ۔ فیمینسٹ ان معنوں میں ہوں کہ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے اوراس کو پورے حقوق ملنے چاہییں اور یہی ہے فیمینزم۔ یہ تو ہر انسان کہتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں ہر انسان کو حقوق ملنے چاہییں، عورت ہے یا مرد ہے اور جو احترام ہے وہ ہر ایک کو ملنا چاہیے۔ احترام ِ انسانیت انسان کا basic حق ہے۔ ہر ایک کا؛ عورت ہے یا مرد ہے۔

سوال: آپ کی کہانیوں کے بہت تانیثی مطالعے ہوتے ہیں۔ ان میں، آپ نے شعوری طور پر نہ بھی لکھا ہو تو بھی، جبر کا احساس ملتا ہے کہ عورت کے اندر جو تخلیقی وفور ہے اور جو اس کے شعور کی نشو و نما ہے اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ مرد کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر جو امکانات ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو پوری طرح develop کر سکتا ہے۔ عورت اپنے امکانات کو دبا کر بیٹھ جاتی ہے، اس کو بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ بات بار بار آپ کے افسانوں میں آتی ہے۔

خالدہ حسین: تو یہ تو ہونا چاہیے نا کہ ہمارا ماحول اب بدلنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ اب کافی تبدیلی تو آرہی ہے لیکن مجموعی طور پہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ کوئی عورت اپنا پورا ٹیلنٹ ظاہر نہیں کر سکتی۔

سوال: اچھا ایک بات مجھے محسوس ہوتی ہے آپ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے کہ کوئی بھی تجربہ ہو وہ اپنی تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ کہانی کی بات نہیں کر رہی۔ کہانی میں جس تجربے کو پیش کیا ہے اس میں ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ وہ پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ کیاایسا ہے؟
خالدہ حسین: ہاں۔

سوال: یہ کیسے ہوتا ہے؟ خود بخود یا جان بوجھ کر؟
خالدہ حسین: نہیں یہ خود بخود نہیں آتا۔ یہ میں نے consciously بھی شروع سے کوشش کی تھی اس طرح سے رکھنے کی۔

سوال: کیوں؟
خالدہ حسین: مجھے لگتا تھا کہ اس طرح زیادہ اثر ہوتا ہے۔ تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ اپنا تاثر بڑھانے کے لیے۔ کیوں کہ میں یہ کہتی تھی کہ میں اپنا کوئی فیصلہ نہیں دوں گی پڑھنے والے کو۔ اس پہ میں اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کروں گی۔ اس لیے میں وہ چیز روک دیا کرتی تھی کہ نہیں بس اتنی ہی ٹھیک ہے۔ اب آگے جو وہ محسوس کرنا چاہیں کریں۔ اسی لیے بیچ میں ادھوری چیزیں رہ جاتی تھیں۔ کیوں کہ میں نے کچھ چیزیں ایسی پڑھی تھیں جو ادھوری تھیں تو مجھ پر بہت زیادہ اثر ہوتا تھا ان کا۔

سوال: خالدہ آپا! یہ جو افسانے کی کرافٹ کے بنیادی فیصلے ہوتے ہیں جو کوئی مصنف کرتا ہے یعنی کہ اگر کوئی بھی خیال ہے چاہے وہ امیجز ہی کیوں نہ ہوں، اس کو پیش کرنا ہے تو کردار کون ہوں گے؟ مرد ہوگا، عورت ہوگی؟ راوی کون ہوگا؟ سیٹنگ کیا ہو گی؟یہ آپ کیسے کرتی ہیں؟

خالدہ حسین: اول تو نجیبہ، یوں ہوتا ہے کہ کہانی خود ہی ذہن میں آتی ہے اسی طرح، پوری کیفیت کے ساتھ کہ یہ first person میں لکھی جائے گی۔ یہsecond person میں لکھی جائے گی۔ بالکل اسی طرح آتی ہے۔ بنی بنائی، ڈھلی ڈھلائی کہانی آتی ہے ذہن میں۔

سوال: تو کہانی آپ کو نظر آتی ہے یا سنائی دیتی ہے یا محسوس ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے کہانی؟
خالدہ حسین: ذہن کے اندر ایک ہیولیٰ سا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے لفظ لگتے ہیں۔ جیسے صفحے کے اوپر لفظ لکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ یہ پوری کہانی لکھی ہوئی ہے۔ پھر کبھی ہوتا ہے کچھ مجھے تومیں کر لیتی ہوں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں نا کہ ناول لکھتے ہوئے مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ اس میں توintuition پہ اتنا بھروسہ نہیں کر سکتے آپ۔ اس میں تو ٹھوس معلومات اور تکنیک اور بڑا مواد چاہیے اس کے لیے۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا تھا کہ کیوں نا میں ان سب باتوں سے ہٹ کے اپنی مرضی سے لکھوں۔ دیکھوں کہ کیا لکھتی ہوں؟کیوں میں نہ لکھوں آخر میرے پہ کیا پابندی ہے؟سوچا تھا ایسا لیکن پھر ہمت نہیں پڑی۔ میں نے کہا، پتا نہیں۔

سوال: تو لکھیں نا۔
خالدہ حسین: ہاں لکھ لینا چاہیے۔

سوال: ابھی بھی لکھیں نا۔
خالدہ حسین: کوئی ضروری تو نہیں نا کہ میں نے ان سب باتوں کی پابندی کرنی ہے۔

سوال: ہاں بالکل نہیں ضروری۔ بلکہ وہ تو ایک نئی چیز ہو گی۔ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اچھا ’’کاغذی گھاٹ‘‘ جو آپ نے لکھا، آپ کو معلوم تھا کہ آپ ناول لکھ رہی ہیں؟ یا آپ اپنی یاد داشتیں لکھ رہی تھیں؟

خالدہ حسین: نہیں یہ یاد داشت کے طور پر شروع کیا تھا۔ پھر کیریکٹرز نکلتے گئے۔ بس پھر میں نے شروع کر لیا کہ چلو اب میں پورا کر لوں۔ وہ مختصر رہ گیا ہے، نا مکمل۔ ۔ ۔ بہر حال……

سوال: ماضی کیوں اچھا لگتا ہے ہمیشہ؟
خالدہ حسین: ہاں دیکھیں نا! کل ہی میں سوچ رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اچھا لگتا ہے۔

سوال: اس لیے کہ ہمیں ماضی کی تکلیفیں اس وقت محسوس نہیں ہو رہی ہوتیں؟کانٹے نہیں چبھ رہے ہوتے؟
خالدہ حسین: ہاں۔ ہم اپنے آپ کو شاید محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ماضی چوں کہ ہمیں مزید نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس لیے شاید۔

سوال: known ہوتا ہے نا؟
خالدہ حسین: ہاں اور حال جو ہے اس میں تو خدشات ہوتے ہیں اورجو مستقبل ہے وہ تو سراپا خوف ہے۔ اس لیے ماضی جو ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔

سوال: آپ کو نقادوں سے کوئی شکایت رہی ہے؟

خالدہ حسین: نقادوں سے…… اول تو یہ ہے کہ کسی نے مجھ پہ لکھا ہی نہیں۔ کم لوگوں نے لکھا ہے۔ زیادہ لوگوں نے تو نہیں لکھا۔ وہ بھی بہت عرصے کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ جب لکھتی رہی لکھتی رہی پھر کہیں جا کے لوگوں کو پتہ چلا اور میرے بارے میں انھوں نے لکھا اور پھر یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو سمجھ کے لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (خاموشی) میں نے شادی کے بعد لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ لکھنا اس طرح نہیں چھوڑا تھا بس چھپواتی نہیں تھی۔ دس بارہ سالوں تک۔ مجھے لگتا تھا کہ بس ختم ہو گیا ہے اب لکھنا، کیا لکھنا۔ ایک دن ایسے ہی میں بیٹھی ہوئی تھی تو یہ ریڈیو چل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے۔ یہ بھی تقدیر کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہاں میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک دم سے نا۔ ۔ ۔ کوئی تقریر ہو رہی تھی ادب کے بارے میں۔ سراج منیر بول رہے تھے۔ وہ ادب کا کوئی جائزہ وائزہ لے رہے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے میرا ذکر کیا اور انھوں نے بہت حسرت کے ساتھ کہا کہ وہ پتہ نہیں کہاں گم ہو گئیں اور انھوں نے یہ یہ چیزیں بہت اچھی لکھی تھیں اور انھوں نے میرا اتنا اچھا تجزیہ کیا کہ اسے سن کے بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں میں نے انھیں نہیں بتایا کہ آپ کی اس تقریر کی وجہ سے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد پھر میں نے وہ قلم اُٹھایا۔ آہستہ آہستہ اور پھر لڑکھڑاتے ہوئے میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ ورنہ میں تو بھول گئی تھی۔ لکھنا چھوڑ دیا تھا بالکل۔ تو یہ دیکھیں نا یہ بھی تقدیر تھی۔ اب میں ہو سکتا تھا ریڈیو نہ سنتی، نہ لگاتی یا اس وقت وہ تقریر نہ ہو رہی ہوتی یا وہ بول میں نہ سنتی۔ لیکن ایسا تھا تقدیر میں کہ انھوں نے بتایا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کا مقام ہے ہمارے ادب میں۔ اس طرح کی بات تھی پھر میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد پھر میری ہمت بندھتی گئی۔

سوال: تو دیکھیں بعض اوقات ایک چھوٹا سا جملہ بھی کسی چیز کو کیسے مہمیز کر سکتا ہے۔ اس کے لیے محرک ثابت ہو سکتا ہے۔
خالدہ حسین: بہت زیادہ۔ بڑی بات ہے۔ ویسے بھی بڑے اچھے آدمی تھے وہ۔ اللہ میاں نے شاید ان کی قسمت میں یہ نیکی بھی لکھی ہوئی تھی کہ کسی کو کام پہ لگائیں گے دوبارہ۔

سوال: جب آپ لکھ رہی ہوتی ہیں تو آپ کسی سے مخاطب ہوتی ہیں، کوئی قاری یا کوئی پڑھنے والا یا کوئی خیال یا اپنا آپ؟
خالدہ حسین: نہیں، میں بس اسی میں مشغول ہوتی ہوں جو میں لکھ رہی ہوتی ہوں۔ یہ نہیں ہوتا کہ فلاں بندہ ہے، اِس کے لیے لکھ رہی ہوں یااُس کے لیے۔ جو ہوتا ہے کہتی ہوں بس کاغذ پر آجائے، جو کچھ میں نے سوچا ہے۔

سوال: پھر جب کاغذ پر آجاتا ہے دوبارہ اس کوre write کرتی ہیں؟ کاٹ چھانٹ کرتی ہیں؟
خالدہ حسین: ہاں بہت کرتی ہوں، بہت دفعہ پڑھتی ہوں، جملے درست کرتی ہوں، لفظ بدلتی ہوں، گو کہ کہانی وہی رہتی ہے۔ نثر کے بارے میں میں بہت زیادہ محتاط رہتی ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ اچھی نثر لکھوں۔ دیکھتی ہوں کہ غلطیاں نہ ہوں، یا جہاں پہ تاثر ہو، وہاں ہوسکے تو اچھا جملہ لکھ دیتی ہوں۔

سوال: وہ جو کردار ہوتے ہیں یہ آپ کے دیکھے بھالے ہوتے ہیں یا اندر سے ہی کہیں سے آتے ہیں؟
خالدہ حسین: دیکھے بھالے ہوتے ہیں اکثر۔ مطلب تھوڑے تھوڑے دیکھے بھالے ہوتے ہیں باقی وہ زیب ِ داستاں کے لیے بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر کا تو تعلق میرے بچپن سے ہوتا ہے دور دراز کے لوگ۔

سوال: خالدہ آپا! اب کیا جی چاہتا ہے؟ اگر آپ کے پاس ہر طرح کا اختیار ہو تو آپ کیا کریں گی؟

خالدہ حسین: میرے پاس اگر اختیار ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سوچ کر) میں ایک کتاب لکھوں۔ وہ کچھ لکھوں جو میں نہیں لکھ سکی۔ بہت دل ہے میرا اس میں، خوشی بھی ہے، اطمینان بھی۔ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔

سوال: وہ کیا تھا جو آپ نہیں لکھ سکیں؟
خالدہ حسین: (بہت دیر سوچنے کے بعد) ایسی تو کوئی چیز دیکھنے میں تو نہیں ہے لیکن ایک حسرت سی ہے کہ مجھے اور لکھنا چاہیے تھا۔ اگر میں لکھنا شروع کردوں تو چیزیں نکل آئیں گی بہت سی۔

سوال: تو آپ ابھی شروع کر دیں نا۔
خالدہ حسین: ہاں کوئی ناول۔ ویسے میں دعا بھی مانگتی ہوں نماز کے بعدکہ کوئی اچھی سی چیز لکھ سکوں۔ کوئی ایسی چیز لکھ سکوں جو زندہ رہ جائے۔

سوال: کوئی فیملی ساگا؟ یا ایسی کوئی چیزاپنی زندگی کے بارے میں؟
خالدہ حسین: نہیں ناول۔ جس میں اپنے تمام نظریات، جو کچھ میں سوچتی ہوں فکری سطح پہ، وہ سب لا سکوں۔ اب تک میں ایسی کوئی چیز نہیں لکھ سکی۔

سوال: تو اسے لکھنے میں کیا چیز مانع ہے؟
خالدہ حسین: کاہلی۔ بہت کاہلی ہے۔ بس ایک یہ ہوتا ہے لکھتے ہوئے کہ لگتا ہے کہ کیا لکھ رہے ہیں، فضول لکھ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو مجبور بھی کیا تھاکہ چلو فضول ہی لکھوں، لکھوں تو سہی۔ لکھنا تو چاہیے۔ بس یہ عادت ہو جائے نا کہ روز۔ پہلے میں لکھتی تھی روزانہ۔ میرے روزنامچے دس بارہ پڑے ہوئے ہیں میرے پاس۔

سوال: لکھا کرتی تھیں آپ؟
خالدہ حسین: ہاں اب بھی لکھتی ہوں۔ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن وہ ذاتی نوعیت کے ہیں۔ ویسے ادبی باتیں بھی بہت ہیں اس میں۔ جلے دل کے پھپھولے بھی ہیں۔ (قہقہہ) شبنم کے ساتھ میری بڑی دوستی تھی تو میں نے اس کو کہا تھا کہ دیکھو میں تمھیں اپنی ساری ڈائریاں دے دوں گی، تم اس میں سے کاٹ چھانٹ کر کے اور اس کو edit کرو۔ اور جو ادبی باتیں ہیں ان کو علیحدہ کر دو۔ تو وہ کہتی تھی کہ ہاں بالکل۔ پھر میں کہتی کہ نہیں نہیں اس میں تو میں نے بڑا کچھ لکھا ہوا ہے۔ تمھیں پتہ چل جائے گاکہ کس کس کے بارے میں میں نے لکھا ہے۔ لیکن بہرحال وہ ہیں بہت ساری۔ اب پتہ نہیں پیچھے یہ لوگ کیا کریں گے۔ کسی دن میں سوچتی ہوں کہ یاسرہ سے کہوں کہ یہ ضائع کر دو۔

سوال: نہیں نہیں یہ نہ کریں۔
خالدہ حسین: تو کیا کروں اس میں پتہ نہیں کیا کچھ لکھا ہوا ہے۔

سوال: ویسے فکری اور نظری اعتبار سے آپ کس رخ پہ چلتی ہیں؟
خالدہ حسین: فکری اور نظری لحاظ سے۔ ۔ ۔ دیکھیں ایک یہ ہے کہ روحانیت اور مادیت کی جنگ، اس نے مجھے بہت تنگ کیا ہے۔ شروع ہی سے یہ conflict میرے دماغ میں ہے۔ ہمارے پورے گھرانے کی اساس روحانیت پہ ہے۔ پھر یہ ہے کہ مادیت بھی بہت ضروری چیز ہے۔ تو وہ آپس میں جب ٹکراتی رہتی ہیں ہر وقت، یہ بہت پریشان کرتی ہیں۔ جگہ جگہ پہ تضادات آتے ہیں۔ روحانیت کچھ کہتی ہے، دنیا کا تقاضا کچھ کہتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایک مسلسل احساس جرم ہے اندر۔ کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ اگر میں کوئی کام نہیں کرتی تو سارا دن خلش ہوتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ نہیں مجھے۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے جو روحانی تقاضے ہیں، ان کو پورا کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ میں مادی تقاضوں کے پیچھے ہوں لیکن پھر وہ مادی تقاضے اتنے زیادہ ضروری ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی۔ آپس میں ٹکراتے ہیں یہ۔ لوگوں کو ایسے مسائل نہیں ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو ایسی باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں وہ صحیح الدماغ نہیں ہیں یعنی بیکار لوگ ہیں۔ یعنی ایبسٹریکٹ چیزوں کے بارے میں سوچنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ آپ کشور سے بات کریں گی نا، وہ کہے گی تم لوگ پاگل ہو، پریکٹیکل باتیں کرو، دنیا کی باتیں کرو، محنت کرو، لوگوں کا بھلا کرو، صحیح بات کہتی ہے وہ۔ پازیٹولی ایکٹو ہو جاؤ، ماحول میں تبدیلی لاؤ، یہ کیا کہ دل میں یہ ہو رہا ہے دماغ میں یہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب کیا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا دماغ دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ کاہلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسمانی کام کریں ورنہ پھر ہم بیمار ہی رہیں گے۔

( پھر باتوں کا رخ مشترکہ احساسات اور تجربات کی طرف مڑ گیا اور میں اور خالدہ آپا انٹرویو کو بھول بھال کر دیر تک دکھ سکھ کرتے رہے۔)

ماخذ: daanish.pk
Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search