محمدعمر میمن سے ایک غیر رسمی گفتگو: نجیبہ عارف
تعارف: محمد عمر میمن (۱۹۳۹۔ ۲۰۱۸) گزشتہ برسوں کے دوران، جب بھی اسلام آباد آتے، ہمارے ہاں قیام کرتے۔ ان دنوں ان سے مختلف موضوعات پر خوب باتیں ہوتیں۔ ان نشستوں کی گفتگو جب دلچسپ یا فکر انگیز موضوعات کی طرف مڑ جاتی تو میں فون پر ریکارڈ کا بٹن دبا کر ان کے سامنے رکھ دیتی۔ پتا نہیں، انھیں علم ہوپاتا یا نہیں، لیکن نہ انھوں نے کبھی پوچھا، نہ روکا۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ اس ریکارڈنگ کے لیے ان سے باضابطہ اجازت نہیں لی جاتی تھی۔ اجازت نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ میں جانتی تھی وہ اس بات سے بے آرام ہوں گے اور ان کی گفتگو کی روانی اور بہاؤ میں خلل پڑے گا۔ میرا خیال یہ تھا کہ جب کبھی فرصت ملے گی تو اس گفتگو کو ضبط تحریر میں لا کر میمن صاحب کو بھیج دوں گی اور اگر کسی بات کی اشاعت وہ مناسب نہیں سمجھیں گے تو اسے حذف کر دیا جائےگا۔ افسوس یہ مہلت ان کی زندگی میں نہ مل سکی۔
یہاں ایسی ہی ایک طویل نشست کے دوران کی جانے والی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔ ۱۳ نومبر، ۲۰۱۴ کو، ان کے پاکستان کے آخری دورے کے دوران، ہونے والی اس گفتگو کی ریکارڈنگ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل تھی اور اس کا محل وقوع ہمارے گھر کا مہمان خانہ تھا، جہاں ان کا قیام تھا۔ چوں کہ یہ تحریرمیمن صاحب کی اجازت اور منظوری حاصل نہ کر سکی، اس لیے میں نے اپنے طور پر اس گفتگو کے آخری حصے کو ، جس میں انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کی زندگی کے بارے میں بات کی ہے، اس تحریر کا حصہ نہیں بنایا۔ ہوسکتا ہے کہ میمن صاحب ہوتے تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہ کرتے کیوں کہ اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تھی ۔ لیکن اب چوں کہ وہ نہیں ہیں تو محض ان کی نجی زندگی کے احترام میں یہ حصہ حذف کیا جا رہا ہے۔ باقی کی گفتگو، جو کل ریکارڈنگ کے تقریباً اسّی فی صد حصے پر مشتمل ہے، ان کے والد،عربی کے معروف اور بےبدل عالم، علامہ عبد العزیز میمنی (۱۸۸۸؟۔ ۱۹۷۸) کی زندگی اور دیگر خاندانی معلومات پر مبنی ہے۔
میمن صاحب نے یہ گفتگو یادداشت کے سہارے کی ہے اور عین ممکن ہے کہ اس میں کہیں انھیں تسامح بھی ہوا ہو۔ لیکن یہ گفتگو ایک بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کی ہے۔ بیٹا بھی وہ جو چالیس برس سے زائد مدت تک امریکہ میں عربی، اردو اور فارسی کی تدریس و ترویج میں مصروف رہا اور اپنے تراجم اور مقالات کے ذریعے علمی و ادبی دنیا میں اپنے لیے ایک منفرد مقام حاصل کیا اورباپ وہ کہ جسے عربی کے جید عالم کے طور پر پہچانا اور سراہا جاتا ہے، جس کی عربی دانی کا لوہا خود عرب دنیا نے مانا اور جسے اپنی زندگی ہی میں غیر معمولی تعظیم و توقیر سے نوازا گیا۔ لیکن آج ان کی قبر کا نشان تک باقی نہیں ہے۔
خاندان کے بارے میں میمن صاحب نے جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ شاید ہی کہیں اور ملتی ہوں۔ ددھیال اور ننھیال دونوں کے پیشے، طرز زندگی اور حالات کے بارے میں میمن صاحب نے اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔
اِن دنوں جب میں تحریر کرنے کے لیے اس گفتگو کو بار بار سن رہی تھی، تو میرے دل پر کئی کیفیتیں طاری ہوتی رہیں۔ کبھی کبھی تو اپنے کچھ سوالات کی حماقت اور انداز پر ہنسی کا دورہ سا پڑ جاتا تھا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں نے میمن صاحب سے اس قدر زچ کرنے والے سوالات کیے تھے۔ لیکن یہ مجھے ضرور یاد ہے کہ ایسا کرنے کی دو تین واضح وجوہ تھیں۔ پہلی تو یہ کہ میں چاہتی تھی میمن صاحب اس موضوع کو تفصیل سے بیان کریں اور ان کی گفتگو کا رخ ادھر سے ادھر نہ پھر جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض اوقات مجھے لگتا تھا، کہ ارد گرد کے شور اور توجہ کے بھٹک جانے کے امکان کے باعث شاید کچھ باتیں واضح آواز میں محفوظ نہ ہو سکی ہوں، اس لیے میں انھیں دوبارہ پوچھ کر محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری خواہش تھی کہ سو برس پہلے کی معاشرت، طرز بودوباش، رہن سہن معلوم ہوجائے۔ آخر یہ چشم دید گواہیاں اب اور کتنی دیر باقی رہیں گی۔ لیکن سب سے اہم اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں چاہتی تھی کہ میمن صاحب کو مسلسل اس بات کا احساس اور یقین رہے کہ میں ان کی زندگی کے واقعات و حالات پوری دلچسپی سے سن رہی ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ کم از کم اس آخری مقصد میں میں ضرور کامیاب رہی تھی۔ میمن صاحب کو خود بھی اپنے ماضی کو کریدنے میں لطف آ رہا تھا۔ وہ نہایت صبر و سکون سے اپنی یادوں کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں، میرے غبی پن کو محسوس کر کے، اپنی عادت کے موافق چڑ بھی جاتے تھے اور مجھے ڈانٹ بھی پلا دیتے تھے۔ لیکن زیادہ ترانھوں نے درگزر ہی سے کام لیا۔
ریکارڈنگ کو سنتے ہوئے کئی دلچسپ واقعات بھی یاد میں روشن ہو گئے۔ مثلاً ایک بار میری والدہ کہیں باہر سے آئیں تو مہمان خانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی داستان سنانے لگیں۔ میمن صاحب اس مداخلت سے بہت جزبز ہورہے تھے، تھوڑی دیر تک تو انھوں نے انتظار کیا، پھر اپنی بات شروع کر دی۔ ادھر امی نے بھی کوئی رعایت نہ دینے کا تہیہ کررکھا تھا۔ لہٰذا یہ دونوں بزرگ اپنی اپنی بات کیے جا رہے تھے اور میں کبھی ایک کا منھ دیکھتی، کبھی دوسرے کا۔ میرا بیٹا محمد ان دنوں ابھی چھوٹا تھا۔ ایک بار یوں ہوا کہ اس نے جب دیکھا کہ ماں مصروف ہے تو دروازے پر کھڑے ہو کر ان باتوں کی اجازت طلب کرنے کی کوشش کرنے لگا جن کی میں نے مناہی کر رکھی تھی۔ میمن صاحب نے اسے بھی کوئی گھاس نہ ڈالی۔ اب میں اسے منع کروں تو میمن صاحب کی بات نہیں سن سکتی اور نہ کروں تو بعد میں نتائج بھگتوں۔ شام ڈھلے عارف دفتر سے آئے تو میمن صاحب کی پسندیدہ مچھلی لے آئے۔ ان کا اصرار تھا کہ پہلے گرما گرم مچھلی کھائی جائے اور میمن صاحب چاہتے تھے کہ گفتگو جاری رہے مگر انھیں عارف کی دلداری بھی منظور تھی تو دونوں کے درمیان دلچسپ مکالمے ہوئے۔ حاجی صاحب خانساماں کو رات کے کھانے کی ہدایات دیتے ہوئے میمن صاحب کی احتیاط پسندی کا مظاہرہ الگ تھا۔
میمن صاحب جب بھی آتے تھے، ایک الگ طرح کی رونق گھر میں ہو جاتی تھی۔ ایک ایسی روشنی، جس میں خلوص کی گرمی بھی شامل تھی اور علم کا نور بھی۔ یہ گفتگو سن کر وہ تمام کیفیات از سر نو تازہ ہو گئیں۔ اب اتنی سچائی اور کھرے پن سے بات کرنے والا کم کم ہی ملتا ہے۔
اس گفتگو کو تحریری صورت دیتے ہوئے مجھے مسلسل اس بات کا احساس رہا کہ کا ش ان کا لہجہ بھی ان کے لفظوں میں سمویا جا سکتا۔ یوں تو تحریری زبان کا بھی اپنا ایک لہجہ ہوتا ہے لیکن جو تقویت اور تاثر اسے آواز سے ملتے ہیں، اس کا کوئی بدل نہیں۔ وہ کبھی آہستگی اور نرمی سے بات کرتے، تو کبھی طنزیہ اسلوب میں۔ کبھی کھوئے کھوئے لہجے میں کچھ یاد کرتے تو کبھی ایک دم جوش میں آجاتے اور تیز و تند لہجہ اختیار کر لیتے۔ تحریر میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے دو کام کیے ہیں۔ ایک تو ان کی گفتگو کو حتی الامکان اسی لب و لہجے میں لکھنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بات کر رہے تھے۔ کہیں کہیں، کچھ ایسے الفاظ حذف کیے ہیں، جن کا کوئی معنی نہیں تھا، بس وہ اپنی یادداشت کریدتے ہوئے بڑبڑاتے تھے اور دوسرا، خطوط ِوحدانی میں ان کے لہجے کے اتارچڑھاؤ اور بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارے کر دیے ہیں۔
چوں کہ یہ سراسر غیر رسمی بات چیت ہے اس لیے اس کا کوئی باقاعدہ آغاز یا اختتام تلاش کرنے کی کوشش عبث ہوگی۔ میں اپنی شاگرد اور تحقیقی معاون وجیہہ کی شکر گزار ہوں جنھوں نے اس گفتگو کو ضبط تحریر میں لانے میں میری مدد کی۔
نجیبہ عارف: آپ کے والد ۱۹۷۳میں فوت ہوئے؟
محمد عمر میمن: نہیں ۱۹۷۸میں۔
نجیبہ عارف: اچھا یہ راجکوٹ کوئی چھوٹا سا علاقہ تھا؟ کیسا شہر تھا؟
محمد عمر میمن: نہیں، مشہور جگہ تھی ۔یہ گاندھی کا علاقہ تھا۔
نجیبہ عارف: یہ کس صوبے میں ہے؟
محمد عمر میمن: ارے بھئی یہ کاٹھیاواڑ میں ہے، سوراشٹر جسے آپ کہتی ہیں۔
نجیبہ عارف: گجرات میں ؟
محمد عمر میمن: ہاں، یہ جو کراچی جو ہے اس کے بعد یوں کر کے، یوں کر کے، [ہاتھ کے اشارے سے] بمبئی کی طرف جاتا ہے نقشے میں اور یہ جو ہے کچ کہلاتا ہے ۔
نجیبہ عارف: کچ کہلاتا ہے؟
محمد عمر میمن: ہاں ۔
نجیبہ عارف: اچھا یہ بتائیے کہ یہ کسی زمانے میں سندھ کا حصہ تھا؟
محمد عمر میمن: ہو گا، مطلب اب مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ یہ سندھیوں کا ۔۔۔۔ مگر وہاں سندھی نہیں بولی جاتی۔
نجیبہ عارف: قائد اعظم کا خاندان بھی تو کاٹھیاواڑ کا تھا نا۔
محمد عمر میمن: سورت کے ہوں گے، نہیں بمبئی کے تھے وہ تو۔
نجیبہ عارف: ویسے تو کاٹھیاواڑ کے تھے نا وہ؟
محمد عمر میمن: ہوں گے لیکن یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ کاٹھیاواڑ میں کہاں کے تھے۔ وہاں تو بہت سے شہر ہیں جونا گڑھ ہے، گونڈل ہے، مال نگر ہے، جام نگر ہے۔ تو۔۔۔۔ کہا نہیں جا سکتا۔
نجیبہ عارف: آپ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ آپ اپنے والد سے ساٹھ سال چھوٹے تھے۔
محمد عمر میمن: ساٹھ سال؟ بھئی وہ یوں سمجھیے ۔۔۔ یار ایک تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ میں پیدا ہوا تھا ۳۹ میں۔
نجیبہ عارف: کب؟
محمد عمر میمن: ۳۹ میں۔ تو چالیس میں۔۔۔۔ پچاس سے۔۔۔ میرا خیال ہے پچاس سے پچپن میں ہوگی ان کی عمر، جب میں پیدا ہوا۔ پچاس سال غالباً۔
نجیبہ عارف: آپ بھی راجکوٹ میں پیدا ہوئے؟
محمد عمر میمن: نہیں میں تو علی گڑھ میں پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں راجکوٹ میں پتا نہیں کون پیدا ہوا تھا، مجھے تو یہ بھی نہیں پتا۔ لیکن یہ ہے کہ ہاں بڑے بھائی اور پتا نہیں کون۔ اصل میں والدہ کہا کرتی تھیں کہ جب والد پڑھا رہے تھے یہاں، پنجاب یونی ورسٹی اوریئنٹل کالج میں تو بڑی محبت ہو گئی تھی، جو وہاں پنجابی ہمسائے تھے ان سے۔ بھائی کو کچھ معلوم ہے یہ زمانہ، کیونکہ یہ تو پیدا ہو چکے تھے۔ بڑے بھائی [سوچتے ہوئے] ہاں بڑے بھائی ۱۹۱۴میں غالباً پیدا ہوئے تھے۔ والد آئے ہیں کیا نام ہے، ۱۹۲۵ میں علی گڑھ۔ پہلی نوکری ان کی ایڈورڈز کالج پشاور میں تھی والد کی۔ آٹھ سال۔ اس کے بعد پانچ سال انھوں نے پڑھایا اورئینٹل کالج لاہور میں۔ تو ظاہر ہے کہ بھائی تو پیدا ہو چکے تھے بلکہ کچھ اور بھی پیدا ہو گئے ہوں گے دو دوسال کے فرق سے۔ بڑی بہن بھی شاید اورمنجھلے بھائی بھی۔ تو ہوسکتا ہے ۔۔۔ بانو کا پتا نہیں کہ وہاں پیدا ہوئی ہوگی یا نہیں لیکن صفیہ اور میں تو وہیں علی گڑھ میں ہی پیدا ہوئے۔ میں تو یقیناً علی گڑھ میں پیدا ہوا ہوں کیونکہ 39 میں تو تھے ہی ہم لوگ علی گڑھ میں۔ والد اور گھر والے، بہنیں بھی وہیں تھیں۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو سب لوگ جا چکے تھے، بڑی بہن کی شادی ہو گئی تھی اور بڑے بھائی پڑھا رہے تھے کہیں، دیرہ دون میں یا اجمیر میں۔ اور منجھلے بھائی بھی ان کے ساتھ ہی تھے اجمیر۔
نجیبہ عارف: آپ کے دادا کیا کرتے تھے؟
محمد عمر میمن: کھیتی۔ زمینیں تھیں ان کی، ان پر وہ کاشت کیا کرتے تھے۔
نجیبہ عارف: ماشااللہ! ان کی اولاد میں کس قدرعلم آیا ہے۔
محمد عمر میمن: نہیں وہ صرف ایک میں۔ اور وہ بھی اس لیے آیا کہ کوئی آدمی ٹہلتا ٹہلتا۔۔۔ مشنری کوئی ۔۔۔ پہنچ گیا تھا وہاں۔ اس نے بنا دیا ان کو اہل حدیث یا جسے کہتے ہیں وہابی۔ ہمارے دادا کو۔ تو انھوں نے منت مانی تھی کہ میں اپنی پہلی اولاد کو بھیجوں گا عربی پڑھنے کے لیے۔ تو ہمارے والد سب سے بڑے تھے۔ بچے ان کے۔۔۔ ایک دو۔۔ ۔تین۔۔۔ پانچ لڑکے تھے ان کے اور ایک لڑکی، دادا کے۔ اب جو مرمرا گئے ہوں گے ان کا مجھے پتا نہیں۔ مگر جو پانچ لڑکے تھے۔ والد سب سے بڑے تھے۔ تو ایک دفعہ ایک نوجوان آیا وہاں تبلیغ کرنے تو یہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور ان سے پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو؟ اور کہاں جا رہے ہو؟ تو معلوم ہوا کہ وہ تبلیغ کرتا کرتا دہلی جائے گا۔ توانھوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اسے لے جاؤ، وہاں کہیں داخل کروا دینا۔ اب دیکھیے کیا ہے کہ کوئی خوف نہیں ہے، کچھ نہیں ہے۔
نجیبہ عارف: اچھا، منت انھوں نے پہلے مانی تھی؟
محمد عمر میمن: ہاں وہ جب ہوئے تھے نا، جب بنے تھے وہابی۔ جب مانی تھی۔ اب جب بیٹا پیدا ہوا تو۔۔۔ مجھے نہیں پتا کہ کتنا وقت گزر گیا ان ددنوں باتوں میں۔ لیکن جو والد کہتےتھے وہ یہی تھا۔
نجیبہ عارف: وہابی منتیں مانتے تھے؟
محمد عمر میمن: نہیں، نہیں بھائی وہ۔ اب مجھے پتہ نہیں ہے ۔۔۔ جب ہوئے تھے تو انھوں نے ۔۔۔ [غصے سے] منت مانی سے مراد یہ ہے کہ میں اپنے بچے کو اسلامی تعلیم دوں گا۔ عربی پڑھاؤں گا۔ یہ مقصد ہوگا۔ یہ تو نہیں ہے کہ کسی مزار پر جا کر کوئی منت مانی ہو۔ اس لیے کہ یہ سب لوگ ہمارے والد تک، یہ بہت Simple لوگ تھے۔ مذہب کے معاملے میں کوئی غلو نہیں تھا ۔ کسی قسم کا غلو نہیں تھا۔ بلکہ سیدھا سیدھا سا جو مذہب تھا، اسی کو Follow کرتے تھے۔ یعنی بہت ساری چیزیں جو ہمارے ہاں خواہ مخواہ داخل ہو گئی ہیں، اس کی Practice کوئی نہیں کرتے تھے۔ میرا خیال ہے۔۔۔ پتا نہیں سنت بھی پڑھتے تھے یا نہیں۔لیکن پنج وقتہ نمازی تھے سب۔ خیر یہ تو جو ہوا سو ہوا، یہ وہاں پہنچ گئے مگر تین مہینے کے بعد پہنچے دلی۔ کیونکہ وہ گھومتا گھومتا پہنچا ۔
نجیبہ عارف: کتنی عمر تھی ؟
محمد عمر میمن: یہی کوئی Teenager ہوں گے۔ بہت ہی Young۔ اور انھوں نے کہا یہ کہ تین سال کے بعد، کنوئیں کے پاس میں کھڑا ہوا تھا کہ میرا پیر پھسل گیا تو میں نے جو جملہ بولا، وہ یہ تھا کہ ’میرا پگ لپھس گیا‘۔ یعنی اردو بھی ٹھیک سے نہیں آئی تھی تین سال میں والد صاحب کو۔ پھرکیا ہوا کہ ایک دفعہ وہی آدمی، جو مسجد میں راجکوٹ، آیا تھا اور جو ان کو لے کے آیا تھا دہلی، وہ پھر گھومتا پھرتا پہنچا، کئی سالوں کے بعد۔ تو یہ دونوں پھر باتیں واتیں کرنے لگے آپس میں۔۔۔
نجیبہ عارف: نہیں، پہلے تو یہ بتائیے کہ اس نے لڑکے کو دہلی میں لا کر چھوڑ دیا؟
محمد عمر میمن: [غصے سے] بھئی تو یہ آج کا دن تو نہیں ہے جس طرح آپ سمجھتی ہیں۔ وہ لے گیا ایک مدرسے میں اور داخل کر دیا، بات ختم۔ وہاں کوئی بدمعاش لوگ تو ہوتے نہیں تھے۔ اور وہاں دال روٹی مل جاتی تھی موٹی جھوٹی۔ [ان کے والد کی سوانح میں عموماً لکھا جاتا ہے کہ انھوں نے دہلی میں ڈپٹی نذیر احمد سے تعلیم حاصل کی تھی مگر میمن صاحب نے اس بات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ واللہ اعلم بالصواب] اب جناب کمال یہ، کہ جب یہ باتیں کرنے لگے نا، تو اس نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا کیا پڑھا ہے؟ انھوں نے لائین لگا دی کہ یہ یہ پڑھا ہے۔ اب والد صاحب نے بھی پوچھا کہ آپ نے کیا پڑھا ہے؟ تو اس کا تو مطالعہ بہت کم تھا۔ اس نے ہمارے والد صاحب سے ایک سوال کیا کہ بھئی یہ بتانا۔ کوئی گرامر ورامر کا مسئلہ۔ والد صاحب سے جواب ہی نہ دیا گیا تو اس نے کہا، میاں ایسے پڑھنے سے کیا فائدہ! پس وہ لگ گئی ان کوبات۔ سب چھوڑ چھاڑ کے خود ہی پڑھا اس کے بعد۔ کہتے تھے کہ اٹھارہ سال کی عمرمیں میرا عالم یہ تھا کہ بنگال سے جو پڑھنے آتے تھے مولوی، وہ مجھ سے پڑھتے تھے وہاں۔ اور کہتے تھے، ’’استاد ہم آپ کی کیا خدمت کریں؟‘‘ تو مجھے اتنی شرم آتی تھی کہ میں لونڈا اور یہ داڑھی والے لوگ جو ہیں مجھ سے کہہ رہے ہیں، استاد اور کیا خدمت کریں؟ تویہ کہتے، ’’نہیں نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔‘‘ تو وہ پیچھے پڑ جاتے تھے تو کہنے لگے پھر میں ان سے کہہ دیتا تھا کہ میرے سر میں مالش کر دیں اور پھر وہ مالش کر دیا کرتے تھے۔
نجیبہ عارف: میمن صاحب، یہ اندازاً کس زمانے کی بات ہو گی؟
محمد عمر میمن: بھئی یہ ہوگی یوں سمجھیے کہ صدی کے آخر یا بالکل شروع کی بات۔
نجیبہ عارف : یعنی ۱۹۰۰ کی ابتدا؟
محمد عمر میمن: ہاں، [کچھ یاد کرتے ہوئے غیر یقینی انداز میں] یعنی 1895ء سے لے کریہ جو ہے ۔۔۔ اچھا پھر یہ ہوا کہ کہنے لگے کہ۔۔۔ اورانھوں نے کسی سے پڑھا نہیں اس کے بعد۔۔۔ جو کیا خود ہی کیا۔
نجیبہ عارف: اور رہے مدرسے ہی میں؟
محمد عمر میمن: ہاں مدرسے میں رہے ۔بھئی اور کیا ان کا تھا۔ پھر یہ کہنے لگے کہ جب میں آیا وہاں پہ، مولوی فاضل کا امتحان دینے لاہور، تو میرے کان میں اس قدر سخت درد تھا اور بے چین تھا میں ۔خیر میں نے آ کر امتحان دے دیا۔ اور مجھے۔۔۔۔
نجیبہ عارف: [دخل درمعقولات کرتے ہوئے] منشی فاضل کیا ہوتا تھا؟
محمد عمر میمن: نہیں نہیں، ’’مولوی فاضل‘‘ یار۔ منشی فاضل تو فارسی کا ہوتا ہے۔ مولوی فاضل عربی کا ہوتا ہے۔
نجیبہ عارف: کیا ہوتا ہے؟
محمد عمر میمن: [سخت چڑ کر] بھئی امتحان ہوتا ہے۔
نجیبہ عارف: کس کے برابر؟
محمد عمر میمن: یہ میں نہیں کہہ سکتا۔
نجیبہ عارف: میٹرک کے برابر؟
محمد عمر میمن: اب یہ میں نہیں کہہ سکتا۔
نجیبہ عارف: میراخیال ہے مائنس انگریزی میٹرک کے برابر ہوتا ہے؟
محمد عمر میمن: [سخت غصے سے] بھئی وہ توآپ نے بعد میں بنا لیا ہے۔ ہمیں کون سی سالی انگریزی اور انگریزوں کی ضرورت تھی۔ ہمارا یہ سسٹم تھا مولوی فاضل، منشی فاضل۔ بات ختم ہوئی۔
نجیبہ عارف: اس زمانےمیں مدرسے میں یہ امتحان ہوتے تھے مولوی فاضل وغیرہ؟
محمد عمر میمن: جی! جس مدرسے میں وہ ہوتے تھے، وہاں نہیں، یہاں ہوتے تھے۔ پنجاب میں۔ مشہور ہوگی کوئی جگہ۔ وہ کرتی ہو گی۔ مستند ادارہ ہو گا کوئی۔ تو وہ یہاں آئے اور کہنے لگے۔۔۔
نجیبہ عارف: دلی سے۔
محمد عمر میمن: دلی سے۔ تو وہ کہنے لگے کہ مجھے کوئی امید ہی نہیں تھی۔ جب اس کا رزلٹ آیا تو میں اتنا کوئی Enthusiastic بھی نہیں تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ میری حالت بھی بڑی تباہ تھی۔ بہرحال انھوں نے ٹاپ کیا اور ٹاپ ایسا کیا کہ نہ پہلے کبھی کسی کو اتنے نمبر ملے تھے اور نہ بعد میں ملے۔ Unbeatable۔
نجیبہ عارف: واہ!۔۔۔۔ دلی میں یہ کس مدرسے میں رہے؟ یہ نہیں پتا؟
محمد عمر میمن: یار، مجھے کچھ نہیں پتا اس لیے کہ یہ چیزیں۔۔۔۔ دیکھیں نا۔
نجیبہ عارف: مطلب کہ کوئی معروف مدرسہ تھا یا بس یو نہی۔ یہ میں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ اس زمانے کا جو نظام تعلیم تھا وہ کتنی پختہ تعلیم دیتا تھا۔
محمد عمر میمن: [تیز لہجے میں] نہیں۔ انھوں نے کوئی پختہ تعلیم نہیں دی۔ یہ سب انھوں نے خود کیا۔ وہ جو’’پختہ‘‘ تعلیم دی تھی، اور جو تین سال پڑھا تھا، اس کے بعد جو سوال پوچھے گئے تھے تو ان سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔ اورانھوں نے اس سے زیادہ پڑھ رکھا تھا۔ یہ جناب ہمیشہ اپنی۔۔۔۔ بس ٹیچر کا کام یہ ہے کہ آپ کو ایک راہ پر لگا دیتا ہے۔ وہ آپ کے اندر پیدا نہیں کر سکتا کوئی چیز۔ وہ تو آپ میں ہوتی ہے۔ تو وہ ہوگی ان میں صلاحیت۔ مگر یہ کہ نہ انھیں پتا اس صلاحیت کا، نہ ماحول اس کو Support کر رہا ہے۔ بس ایک طعنہ جو تھا کسی کا، وہ کام کر گیا۔ پھر انھوں نے خود ہی کیا جو کیا۔
نجیبہ عارف: اس پہ تو ناول بنتا ہے۔
محمد عمر میمن: تو آپ لکھیں۔
نجیبہ عارف: میمن صاحب، اس پہ بنتا ہے ناول۔
محمد عمر میمن: نہیں آپ لکھیں، بالکل لکھیں۔ تو وہ اسی طرح ہے۔ اسی لیے ان کے معیار وعیار جو تھے، وہ کسی دفتری معیار یا کسی نصابی معیار والے نہیں تھے۔
نجیبہ عارف: اچھا پھر؟ پھر کیا ہوا؟
محمد عمر میمن: پھرکیا ہوا ہو گا، ظاہرہے کہ وہ۔۔۔۔ اس کے بعد جو مجھے معلوم ہے کہانی، وہ یہ ہے کہ وہاں گئے تھے کیا نام ہے کہ، ایڈورڈزکالج میں نوکری ملی۔
نجیبہ عارف: [حماقت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے] کہاں؟ دلی میں؟
محمد عمر میمن: [شدید طیش کے عالم میں، سر پھوڑ دینے کی خواہش کے ساتھ چلّا کر] ایڈورڈز کالج پشاور میں۔
نجیبہ عارف: نہیں وہ تو بعد میں ملی نا۔
محمد عمر میمن: توجب پڑھ لیا ہو گا تو اس کے بعد ہی تو گئے ہوں گے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم ہے کہ انھوں نے اِس سال کیا کیا اور اُس سال کیا کیا! میں تو بغیر کسی Embellishment کے، جوخود ان کی زبانی سنا، وہ بتا رہا ہوں۔
نجیبہ عارف: ویسے ان کا سارا ریکارڈ تو ہوگا ۔ ان کے کاغذات وغیرہ بھی ہوں گے۔
محمد عمر میمن: نہیں نہیں، کوئی کاغذ۔۔۔۔ [پھر قدرے سوچ کر] اب اگر ہوں گے تو مجھے پتا نہیں کہاں ہیں۔ اس لیے کہ کہاں انھوں نے رکھے ، یا نہیں رکھے ،میں نے تو کبھی نہیں دیکھے ۔
نجیبہ عارف: ظاہر ہے انھوں نے ماشااللہ اتنی بڑی بڑی نوکریاں کی ہیں، سب جگہ۔ تو ان کے پیپرز تو ہوں گے نا۔ سارے Documents ہوں گے۔
محمد عمر میمن: بھئ! مجھے پتا نہیں۔
نجیبہ عارف: آپ کے پاس ہونے چاہییں تھے۔
محمد عمر میمن: مجھے پتا ہی نہیں۔ [سوچتے ہوئے] کچھ چیزیں ملی تھیں، میں جب گیا تھا ان کے انتقال کے بعد۔۔۔
نجیبہ عارف: کچھ چیزیں تو ہونی چاہیے تھیں ۔
محمد عمر میمن: میں جا کر دیکھوں گا، اگر آپ کہہ رہی ہیں ۔ کچھ چیزیں جو مجھے ملی تھیں، ایک کیس تھا، ہمارے برابرحبیب الرحمن صاحب جو ہسٹری کے تھے، عرفان حبیب کے والد، ان کے ساتھ کچھ اراضی کا معاملہ تھا۔ ہماری پراپرٹی اور ان کی پراپرٹی۔ اس کا کچھ کیس ویس تھا۔ اس کے کچھ کاغذات تھے۔ پھر ان کے ساٹھ ہزارروپے جو تھے، جوالہ بنک تھا، اس میں مارے گئے تھے۔ تو لوگ مذاق اڑاتے تھے ان کا۔ اور ان کے بچے میرا بھی مذاق اڑاتے تھے کہ تمہارے باپ کا تو یہ ہو گیا۔ تو میں نے ابا سے روتے روتے کہا کہ میرا مذاق اڑاتے ہیں تو کہتے ہیں، ٹھیک ہے ان سے کہنا کہ تمھارے باپ کا ہوتا تو ہارٹ فیل ہو چکا ہوتا اب تک ان کا۔ [یادوں سے محظوظ ہوتی ہوئی ہنسی کے بعد] بلکہ میں آپ کو بتاؤں، ۴۷میں، riots ۔۔۔ فسادات کا چکر تھا تو ہمارے محلے بدر باغ میں ایک صاحب تھے، منظور، ان کے گھر کی چھت پر Search Lightلگائی گئی تھی اور یہ طے تھا کہ جب سائرن بجے گا تو سارے لوگ ان کے گھر آ جائیں گے۔ مجھے یاد ہے ایک رات سائرن بجا تھا۔ سردیوں کا زمانہ۔ اتنا وقت تھا نہیں۔ تو ا یک میرا اوورکوٹ۔۔۔ وہ ڈال کے، میں اور والدہ۔۔۔۔ نہیں، والدہ تو تھیں نہیں، بس صفیہ تھیں اور میں اور ابا۔ کیوں کہ ہم لوگ تو آ گئے تھے ۴۷ میں راج کوٹ سے۔ کیونکہ یونی ورسٹی کھل رہی تھی ۔ اور والدہ کا آپریشن ہونے والا تھا، تو وہ راجکوٹ میں تھیں اور یہ دونوں بیٹیاں وہاں پہنچی ہوئی تھیں۔ اور ہماری خالہ جوناگڑھ سے۔۔۔ جوناگڑھ نہیں، گونڈل سے آ گئی تھیں۔ یہ سب عورتیں بھری ہوئی ہیں۔ تو پھر ہمارے بڑے بھائی نے اجمیر سے منجھلے بھائی کو بھیجا کہ یہ عورتیں وہاں اکیلی ہیں ۔ تم جاؤ اور ان کولے کے پاکستان آؤ۔ ہماری والدہ جو ہیں، ان کو زبردستی میں۔۔۔ اورمیں وہاں بغیر ماں کا رہ گیا۔ تو والد پھر ملاقات کے لیے ہمیں لے گئے تھے ۴۸ میں۔ تو یاد ہے مجھے، ہم امرتسر کی طرف سے آئے تھے۔ پھر والد ہمیں چھوڑ کے چلے آئے اور ۔۔۔۔ اور جو ہے۔۔۔۔[سوچتے ہوئے] صفیہ رہ گئیں وہاں ۔۔۔ کیا چھوڑ کر چلے آئے یا۔۔۔ کیا ہوا تھا۔۔۔[یادداشت کریدتے ہوئے]۔۔۔ ہاں ۴۸ءمیں وہ ہمیں لے کے گئے پاکستان ۔ والدہ سے ملانے۔ اور وہاں مجھے اور صفیہ کو چھوڑ کے، والدہ کو لے کے وہ چلے آئے۔ پھرکیا ہوا کہ ہماری بڑی بہن جو تھیں، جو آ گئی تھیں پاکستان، راجکوٹ سے منجھلے بھائی کے ساتھ، اورہماری بانو آپا جو تھیں، ہوائی جہاز کے ذریعے ان کے شوہر نے ان کو کراچی بلا لیا تھا۔ باقی سب یہ پانی کے جہاز وغیرہ پر بیٹھ کر آئے۔ اور ہمارے جو منجھلے بھائی تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب ہم ریل گاڑی میں راجکوٹ سے بمبئی تک کا جو راستہ ہے، احمد آباد سے ہوتی ہوئی گاڑی جاتی تھی۔ کہنے لگے کہ مجھے اتنا ڈر لگا ہوا تھا کیونکہ میں نےاپنے کو ہندو ظاہر کیا تھا ٹرین میں ؛لیکن ہوتا یہ تھا کہ جب صبح کا وقت آتا تھا تویہ ہندو سب نہاتے ہیں، وہیں ٹرین میں۔ ڈر یہ لگا ہوا تھا کہ اگر انھوں نے مجھ سے کہا، نہانے کے لیےتو۔۔۔ اجمیر میں تو ہندو بھرے ہوئے تھے ظاہر ہے، راجپوتانہ کا علاقہ ہے۔یہ راشنی آفس میں کام کرتے تھےتو ہندو وندوبھی دوست تھے تو کسی کا بھی نام جو تھا انھوں نے بتا دیا مسلمان نام کے بجائے۔توکہنے لگے کہ مجھے ڈر یہ لگا ہوا تھا کہ اگر انھوں نے مجھے نہانے وہانے کے لیے کہا اور کہیں انھیں پتا چل گیا کہ میری ختنہ ہوئی ہوئی ہے، تو مار ڈالیں گے مجھے۔ لیکن وہ بچ گئے۔ کوئی ایسا ہوا نہیں سانحہ۔ لیکن انھوں نے مجھ سے خود کہا تھا کہ یہ حالت تھی، میں خوف زدہ بہت تھا۔ تو جناب! پھر جناب! ہوا یہ کہ ہماری جو بڑی بہن تھیں، انڈین گورنمنٹ ان کے شوہر کی تنخواہ لائیڈز بنک کو بھیجتی تھی پاکستان۔ پھر انھوں نے کہا کہ بھئی تم تو Indian Citizen ہو، تمہا را شوہر گیا ہوا ہے، ہماری طرف سے۔ تمھارا کیا کام پاکستان میں؟ تو انھیں پھر واپس آنا پڑا ہندوستان۔ تو اب ہندوستان میں جائیں کہاں؟ تو وہ علی گڑھ۔اورہمارے والد نے جانے کیا ترکیب چڑھائی کہ ان کے ساتھ ہمیں بھی بلوا لیا۔ صفیہ نہیں آئیں۔ وہ وہیں رہیں پاکستان میں۔ اورمجھے بڑی بہن اور ان کے بچوں کے ساتھ علی گڑھ۔ یہاں آ کے کسی طرح انھوں نے مجھے شہریت واپس دلوا دی انڈین۔ اور والدہ کا بھی بعد میں ہو گیا تھا۔ تو یہ تماشے ہیں ۔۔۔۔ توجناب، یہ عالم ہے ہماری زندگی کا۔
نجیبہ عارف: نہیں، آپ یہ بتائیں آپ کے والد صاحب جب ایڈورڈز کالج میں رہے، کتنا عرصہ؟ پانچ سال؟
محمد عمر میمن: آٹھ سال۔
نجیبہ عارف: آٹھ سال پشاور میں رہے؟ اس وقت شادی شدہ نہیں تھے؟ شادی کب ہوئی؟
محمد عمر میمن: [سوچتے ہوئے] یہ مجھے پتا نہیں ہے کہ ہمارے والد کی شادی کس سال میں ہوئی۔
نجیبہ عارف: لیکن آپ کی والدہ رشتے دار تھیں؟ کیسے شادی ہوئی؟
محمد عمر میمن: نہیں نہیں رشتے دار نہیں تھیں ۔
نجیبہ عارف: یعنی وہ پلٹ کے کبھی اپنے باپ کے پاس نہیں گئے پھر؟
محمد عمر میمن: یارمجھے یہ نہیں پتا کہ اس تمام عرصے میں وہ راجکوٹ۔۔۔ لیکن ہمارا مکان تھا راجکوٹ میں۔ تو یہ کب خریدا گیا یہ بھی مجھے پتا نہیں۔
نجیبہ عارف: تووہ دادا کا مکان ہو گا نا؟
محمد عمر میمن: نہیں نہیں دادا سے کوئی تعلق نہیں۔ دادا کا اپنا مکان تھا۔
نجیبہ عارف: دادا تو نہیں دیکھے ہو ں گے آپ نے۔
محمد عمر میمن: نہیں بالکل دیکھے ہیں۔ آخری بار ۵۴ میں دیکھا تھا۔ یہ سڑک تھی، صدر بازار کہلاتا تھا۔ [ہاتھ سے ہوا میں اشارہ کرتے ہوئے] توہمارے چچا کا مکان یہاں تھا اور ہمارا مکان یہاں تھا۔ اورہمارے ایک چچا جوتھے، سب سے چھوٹے بھائی جو تھے ہمارے والد کے۔ یہاں کہیں تھا ان کا مکان۔ وہ بہت مالدار تھے۔اورادھر ہماری پھوپھی کا تھا۔ اچھا تو یہ مکان جو تھا، اس میں ہم ٹھہرتے تھے۔ تو ہمارے دادا کا مسجد کے پاس تھا اور اسی میں ہماری دادی بھی۔ اورمیں نے اپنی دادی کو بھی دیکھا تھا۔ اورکیا کہتے ہیں یار۔
نجیبہ عارف: وہاں گھر کیسے ہوتے تھے گجرات میں؟
محمد عمر میمن: یار، ہمارا گھر تو بہت اچھا تھا ۔ دادا کا توسب سے پھٹیچر تھا ۔
نجیبہ عارف: مطلب کس طرح کے گھر ہوتے تھے ؟
محمد عمر میمن: [جھلا کر] اب میں کیا بتاؤں آپ کو ؟
نجیبہ عارف: یعنی پیچھے کمرے، آگے برآمدہ ، صحن ،اس طرح ؟
محمد عمر میمن: [غصے سے] نہیں یہ تو آپ کا تصور ہے، وہ تو مکان ہی کچھ اور تھے۔ اب میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ ہمارا جو مکان تھا بلکہ بہت سے مکان۔۔۔ ہمارے چچا کا جو سامنے تھا ۔۔۔ وہ ۔۔۔ یہ ہے کہ سڑک سے اوپر ہوتا تھا۔ دونوں طرف چھوٹے سے پانچ، پانچ، چھ، چھ Steps کے زینے تھے اور کرسی اونچی ہوتی تھی ۔ اس میں آپ داخل ہوئے تو ایک کمرہ وہاں تھا اور اسی کمرے کے پیچھے جو ہے ایک کمرہ تھا اور اس کے پیچھے برآمدہ تھا۔ اس کے پیچھے جو ہے آگے جا کر ذرا دور باتھ روم تھا۔ اور یہ جو فرنٹ کا تھا کمرہ، وہ کمرہ کیا تھا۔
نجیبہ عارف: ڈیوڑھی جسے کہتے ہیں؟
محمد عمر میمن: جسے ڈیوڑھی کہہ لیں۔ تو وہیں سے اوپر جاتا تھا زینہ، لکڑی کا اور اوپر جو ہے ہمارے، پہلے تو آتا تھا برآمدہ اور وہ برآمدہ جو تھا اس کا جو فرنٹ تھا ۔۔۔ وہ جو سڑک کی طرف۔۔۔ وہ کسی کھپریل کی ایسی چیز تھی کہ آپ آر پار دیکھ سکتے تھے لیکن لوگ آپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ کھپریل تھی، کیا تھی؟ پتا نہیں۔ تو وہ تھا اوراس کے پیچھے ایک کمرہ تھا اس کمرے کے اوپر، مڑھا کہتے تھے ہم۔
نجیبہ عارف: کیا چیز؟
محمد عمر میمن: مِڑھا کہتے تھے۔ وہ یہ تھا کہ آپ ۔۔۔یایوں سمجھیے کہ اگر یہاں سے ہم چھوٹی سی سیڑھی لگائیں اور اسے کھول دیں تو ایک چھت کے نیچے جو ہے اتنا حصہ جو ہے، وہ پاٹ دیں۔
نجیبہ عارف: اچھا اچھا نیم چھتی سی؟
محمد عمر میمن: ہاں نیم چھتی سی۔ وہاں پر والدہ سامان رکھتی تھیں۔ اس کا ایک دروازہ بھی تھا جسے آپ لاک بھی کر سکتے تھے۔ بھرا ہوا تھا سامان سے۔
نجیبہ عارف: اس کو آپ کیا کہتے تھے؟
محمد عمر میمن: بھائی وہ پتا نہیں مِڑھا کہلاتا تھا یا کیا ۔۔۔۔تو اس کے پیچھے جو ہے پھر چھوٹا سا ایک برآمدہ تھا اس کے بعد جو ہے، کیا کہتے ہیں وہ ہی Repeat ہوا تھا باتھ روم ادھر، اور کچن وچن بھی۔ اور یہیں سے ایک اور جاتی تھی کیا کہتے ہیں، سیڑھی۔ اور وہ کوئی کمرہ نہیں تھا۔ وہ ایک چھت تھی جو Main مکان سے الگ تھی اور ہم اسے آگاسی کہتے ہیں اور لفظ آگاسی گجراتی میں اس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کا مقصد کیا تھا یہ ہی سمجھ میں نہیں آتا تو یہ۔۔۔۔ اور ہمارے جو چھوٹے چچا تھے ان کا مکان زیادہ ماڈرن تھا۔ بعد میں بھی بنا تھا۔ یہ تو پرانے زمانے کے مکان تھے لیکن بہت مضبوط اور بڑے اچھے بنے ہوئے تھے۔
نجیبہ عارف: وہاں سب مکان اسی طرح بنتے تھے؟
محمد عمر میمن: [تیزی سے] بھئی میں نہیں جانتا سب مکانوں کو ۔
نجیبہ عارف: اچھا یہ بتایئے کہ اینٹوں سے یا کس چیز سے بنے ہوتے تھے؟ یا مٹی سے؟
محمد عمر میمن: نہیں کچھ پتھر بھی لگا ہوا تھا ۔ پتا نہیں مجھے اینٹیں تھیں یا نہیں اس لیے کہ وہ دیواروں میں ہوں گی۔ کیا کہتے ہیں جو اندر کے کمرے تھے اس میں تو خاصی پتھر کی سلیں تھیں۔ نہیں، واقعی بتانا بہت مشکل ہے۔ [ہنس کر] اگر آپ نے اس وقت لکھ دیا ہوتا تو میں سب لکھ کر نوٹ کر لیتا۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ہمارے دادا جو ہیں، دادی کے انتقال کے بعد پتا نہیں بیچ دیا مکان انھوں نے یا کیا کیا۔
[ اچانک گفتگو میں گھریلو مداخلت کے سبب کچھ وقفہ اور رخنہ آ گیا تو میمن صاحب کو ایک واقعہ یاد آ گیا۔ وہ سنانا شروع کر دیا]اچھا ہوا یہ کہ ایک میٹنگ تھی دہلی میں۔ ابوالکلام آزاد نے والد کو بلایا ہوا تھا اس میٹنگ میں۔ اب مشکل یہ تھی کہ انھوں نے کہا کہ میں وہ میٹنگ Attend کرنے جا رہا ہوں اورہمیں، بہن اورمجھے، اسٹیشن پر دہلی کے چھوڑ دیا۔
نجیبہ عارف: دہلی اسٹیشن پر؟
محمد عمر میمن: ہاں، اب وہ گئے اور ہم بڑے ڈرے ہوئے تھے۔ اچھا۔۔۔۔ وہ جب آئے واپس۔ پھر گاڑی آئی اس میں ہم بیٹھے۔ تو وہ گاڑی جو علی گڑھ۔ بھئی بہت قریب ہے علی گڑھ اس سے، یعنی جتنا حیدر آباد کراچی سے دور ہے اس سے بھی کچھ کم۔
نجیبہ عارف: علی گڑھ اور دلی۔
محمد عمر میمن: ہاں ۔
نجیبہ عارف: اچھا اور لکھنؤ کتنا دور ہے؟
محمد عمر میمن: بھئی لکھنؤمیں گیا نہیں، مجھے پتا نہیں، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں نے توبہت کم دیکھا ہے ہندوستان، موقع ہی نہیں ملا۔ میں توبہت چھوٹا سا تھا پھر ہم لوگ آ گئے یہاں پاکستان۔ تو۔۔۔ اس میں کچھ دنگا فساد تو ہوا تھا ایک کمپارٹمنٹ میں لیکن کوئی خون وون نہیں ہوا لیکن ہم بچ گئے۔ اس لیے کہ اگلی گاڑی جو آئی ہے علی گڑھ، اس میں جناب قتل ہو گئے تھے کئی۔ تو یہ ہے۔ اب مجھے پتا نہیں کہ والد صاحب کی شادی کب ہوئی؟
نجیبہ عارف: رشتے دار تھے آپس میں؟
محمد عمر میمن: ناں۔
نجیبہ عارف: آپ کے امی اور ابا؟
محمد عمر میمن: نہیں میرا خیال ہے ہو نہیں سکتے، اس لیے کہ یہ لوگ سوداگر تھے، ہماری والدہ جو ہیں۔
نجیبہ عارف: پیشہ تو کوئی بھی ہو سکتا ہےنا!
محمد عمر میمن: نہیں، بتا رہا ہوں۔ تو ان کا سارا کاروبار جو ہمارے نانا کا تھا، برما میں تھا۔ بہت مال دار لوگ تھے یہ۔ اورہماری والدہ جو ہیں ان کی ایک بہن تھیں جو ان کی ایک اور بیوی کی بیٹی تھیں۔
نجیبہ عارف: کیا مطلب؟
محمد عمر میمن: مطلب یہ ہے کہ ہمارے نانا کی ایک شادی کسی اور سے ہوئی ہو گی۔
نجیبہ عارف: اچھا اچھا سوتیلی بہن۔
محمد عمر میمن: ہاں۔ مگر یہ کہ محبت بہت تھی دونوں میں۔ وہ آخر تک Support کرتی رہیں ان کو۔
نجیبہ عارف: وہ جو آپ کی خالہ پونا میں ہیں۔
محمد عمر میمن: میری کون سی خالہ پونا میں ہیں؟
نجیبہ عارف: آپ نے بتایا تھا کہ میری ایک خالہ پونا میں ہیں۔
محمد عمر میمن: پونا میں کوئی بھی نہیں۔ میری بہن تھی پونا میں۔
نجیبہ عارف: نہیں نہیں خالہ کا بھی آپ نے بتایا تھا۔
محمد عمر میمن: [غصے سے] نہیں خالہ کیسے ہو گئیں پونا سے۔ میری کون سی خالہ؟ ایک ہی خالہ تھیں میری۔
نجیبہ عارف: وہ کہاں تھیں؟
محمد عمر میمن: [زور دے کر] بھئی گونڈل میں تھیں وہ۔
نجیبہ عارف: اچھا اچھا! گونڈل میں تھیں۔ سوری۔
محمد عمر میمن: اوروہی آ گئی تھیں وہاں پر راجکوٹ میں جب یہ ہلڑ بازی ہوئی ۔
نجیبہ عارف: اچھا اچھا، ہاں ٹھیک ہے۔
محمد عمر میمن: ہمارے نانا تو مر چکے تھے۔ کوئی تھا نہیں۔ ان کے دو سوتیلے بھائی بہن ہوں گے گونڈل وونڈل میں پتا نہیں۔ توکمال کی بات یہ ہے کہ ان کا گھر بھرا ہوا تھا اس قدر اعلیٰ چیزوں سے۔ گلاس ورک سے۔ اوریہ جو ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جو پردے ہوتے تھے نا، جن میں بڑی خوبصورت گلاس کی چیزیں لٹکتی رہتی تھیں سریے سے۔ اوربہت مال دار تھے یہ لوگ۔ اچھا مجھے یاد ہے کہ پھر تو یہ سب چھوڑ چھاڑ کر، تالا لگا کے، چابی دے کے کسی کو، چلی آئی تھیں پاکستان۔ تومجھے یاد ہے کہ جب ہم ۵۴ میں گئے ہیں تووالدہ نے ہمیں اور والد کو کہا کہ مجھے گونڈل جانا ہے مکان میں۔ ہم وہاں گئے۔ وہ چابیاں لے گئیں۔ جب وہ کھولا تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ پٹا پڑا تھا۔ اور میری ماں کا عالم یہ ہے کہ مجھے ایک چیز پسند آئی، تو کہنے لگیں کہ تم یہ لے کے نہیں جاؤ۔
نجیبہ عارف: واہ!
محمد عمر میمن: [یاد اور جذبے کے جوش سے مغلوب ہوتے ہوئے] ارے بھائی! اب وہ گھر بھی پتا نہیں کہاں گیا، وہ سارا سامان بھی کہاں گیا، لیکن یہ امانت ہے۔ تو یہ عالم ہے بھائی ان لوگوں کا پرانے جو تھے۔تویہ۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں؟ پھر۔۔۔ ہماری یہ جو خالہ تھیں، انھی نے ہمارے بڑے بھائی کی شادی، اجمیر میں ایک میمن خاندان تھا بہت امیر،اسحاق سیٹھ کہلاتے تھے وہ لوگ، تو ان کی لڑکی سے رشتہ کروایا۔ حلیمہ ہماری بڑی بھابھی کا نام ہے۔ اور وہاں ہمارے بڑے بھائی کی شادی ہوئی تھی۔ ہم لوگ گئے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کا جو شو روم تھا، ان کے خسر کا ہمارے بھائی کے، اس کو آگ لگا دی گئی تھی۔ وہ میں نے دیکھا ہے ان کا شوروم جو تھا۔
نجیبہ عارف: کہاں؟ اجمیر میں یا گونڈل میں؟
محمد عمر میمن: وہاں، اجمیر میں۔ [زچ ہو کر] یہ دیکھیں، اپنی طرف سے گھسیڑ رہی ہیں آپ بمبے ومبے، پھرآپ کہیں گی کہ آپ نے کہا تھا۔۔۔۔ [حالانکہ میں نے تو گونڈل کہا تھا، بمبے کا نام بھی نہیں لیا تھا] [لمبی سانس لے کر] تو یہ جو چکر ہے۔۔۔ عجیب سلسلے ہوتے ہیں۔
نجیبہ عارف : اچھا تو پھر آپ کی اماں کی ایک بہن تھیں جو سوتیلی تھیں۔ اور بھائی؟
محمد عمر میمن: مجھے کچھ پتا نہیں۔
نجیبہ عارف: ماموں نہیں آپ کے تھے؟
محمد عمر میمن: [اچانک کچھ آنے پر، جوش سے] ہاں ہاں ماموں ایک۔۔۔۔ یار پتا نہیں ہمارے نانا نے کتنی شادیاں کی تھیں، اب میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ ایک ہمارے بڑے پیارے ماموں تھے۔ انہیں ہم پھُگے والا کہتے تھے، پھُگا کہتے ہیں غبارے کو۔
نجیبہ عارف: اچھا۔۔۔! یہاں پنجابی میں اسے کہتے ہیں پگُانہ۔[اس وقت یاد نہیں آیا تھا، پنجابی میں اسے پھُوکا بھی کہتے ہیں]۔
محمد عمر میمن: آپ کو میں بتاؤں، آپ کی پنجابی اور ہماری مَیمنی کے بےشمارلفظ Common ہیں ۔اسے پھگا کہتے ہیں۔ پھگے والے ماموں بڑا پیارکرتے تھے ۔ Partitionسے پہلے کا مجھے کچھ یاد ہے، وہاں راجکوٹ کا۔لیکن پھر یہ لوگ کراچی آگئے تھے اور ان کی جو ایک بیٹی ہے وہ ہمارے منجھلے بھائی کی بیوی تھی۔ اس بیچاری کا انتقال ہو گیا۔ بھائی کا بھی ہو گیا تووہ ہمارے انھی ماموں کی بیٹی تھیں اور حاجرہ ان کا نام تھا۔ تویہ مجھے بہت زیادہ نہیں ۔۔۔اس لیے کہ ہم بالکل کٹے ہوئے تھے علی گڑھ میں ۔
نجیبہ عارف: لیکن آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کے امی اور ابا کی شادی کیسے ہوئی تھی؟ [شکایت کے انداز میں، جیسے یہ معلوم کرنا فرض ہو]
محمد عمر میمن: یہ بھی نہیں معلوم ۔بھئی میں سب سے چھوٹا تھا۔
نجیبہ عارف: یہ تو معلوم ہونا چاہیے تھا آپ کو۔ [کیسے احمقانہ سوالات کا سامنا تھا بیچارے میمن صاحب کو!]
محمد عمر میمن: اصل میں کوئی اس قسم کی کوئی بات تو ہوتی نہیں تھی ہمارے سامنے۔ اورہمارے والد اور والدہ جو تھے ان میں کوئی Communication بھی بہت زیادہ نہیں تھا۔
نجیبہ عارف: یعنی پسند کی شادی تھی یا Arranged Marriage تھی؟ [یقین نہیں آتا کہ یہ سب سوال میں ہی پوچھ رہی تھی]
محمد عمر میمن: نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تھی یا نہیں تھی۔
نجیبہ عارف: آپ کے والد صاحب زاہد خشک تھے؟
محمد عمر میمن: کیا مطلب؟
نجیبہ عارف: مطلب یہ کہ خشک مزاج تھے یا خوش مزاج تھے؟
محمد عمر میمن: نہیں وہ Reserve تھے اور خواہ مخواہ تفریح بازی کی باتیں، یہ سب نہیں کرتے تھے۔ ان کا تو ملنا جلنا بھی بہت کم تھا لوگوں سے، اپنا پڑھتے رہتے تھےاور و ہی ان کی زندگی تھی۔ جیسی بھی ہمارے والد، والدہ نے زندگی گزاری، یعنی میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی بہت ہی کامیاب Couple کی زندگی ہوگی اوراس میں میرا خیال ہے کہ قصورزیادہ ہمارے والد کا تھا لیکن ایک لحاظ سے قصور ان کا بھی نہیں تھا یہ اس لیے کہ جو بھی معاشرت تھی اس زمانے کی جہاں سے وہ آ رہے تھے، یہی سب تھا۔ تو کیا وہ ۔۔۔ ان کے پاس کوئی ایسی مثال بھی نہیں تھی۔
نجیبہ عارف: آپ کی والدہ پڑھی لکھی تھیں؟
محمد عمر میمن: یہ مجھے یاد ہے وہ اردو لکھ لیتی تھیں اور بولنے میں میں نے دیکھا ہے کہ آخرعمر تک بعض الفاظ کے تلفظ میں گڑبڑ تھی۔ مثلاً وہ ’’ز‘‘ کو ’’ج‘‘ کہتی تھیں، ’’وجن‘‘، ’’وزن‘‘ کے بجائے۔ ’’ز‘‘ ہے بھی نہیں گجراتی اورمیمنی میں۔ روزانہ نماز پڑھتی تھیں، قرآن پڑھتی تھیں۔ مگر یہ نہیں مجھے پتا کہ سکول میں کتنی جماعتیں پڑھی تھیں یا نہیں پڑھی تھیں یہ بھی نہیں معلوم ۔
نجیبہ عارف: توآپ لوگ گھر میں کون سی زبان بولتے تھے؟
محمد عمر میمن: اردو۔
نجیبہ عارف: حالانکہ آپ کی مادری زبان تو گجراتی تھی۔
محمد عمر میمن: ہاں، لیکن کوئی بولتا نہیں تھا۔ لیکن ہمارے بڑے بھائی اور بڑی بہن جانتے تھے گجراتی۔ وہ بولتے بھی تھے۔
نجیبہ عارف: آپ کو نہیں آتی؟
محمد عمر میمن: ناں۔
نجیبہ عارف: بالکل نہیں آتی؟
محمد عمر میمن: میں سمجھ لیتا ہوں لیکن بول نہیں سکتا اوراب سمجھنے میں بھی یہ کہ اتنا وقت گزرگیا ہے تومیرا خیال ہے کہ جتنی پہلے سمجھتا تھا اس سے کم ہی اب ہو گی۔ ہم لوگ توکسی اعتبار سے میمن نظرنہیں آتے۔ بلکہ لوگ جو ہیں، انھیں حیرت ہوتی ہے کہ میں کیسا مَیمن ہوں میری زبان جو ہے وہ انھیں۔۔۔۔
نجیبہ عارف: بہت صاف زبان ہے۔ اردو۔
محمد عمر میمن: بھئی توعلی گڑھ میں پلے بڑھے۔ اردوبولی جاتی ہے گھر میں۔ اگر والدہ نہ بھی ٹھیک بولتی ہو، والد توٹھیک بولتے تھے۔ والد کا جو اردو کا۔۔۔۔
نجیبہ عارف: وہ تو دلی میں پڑھے تھے ۔
محمد عمر میمن: نہیں مگر اس کے علاوہ، جناب وہ عجیب ہی آدمی تھے۔ ان کی اگر کبھی آپ کوئی عبارت پڑھیں نا، بہت کم لوگ اتنی اچھی اردو لکھ سکتے ہیں۔
نجیبہ عارف: اچھا؟ انھوں نے اردو میں کچھ لکھا ؟
محمد عمر میمن: لکھا ہو گا لیکن یہ کہ وہ کہاں ہے، یہ مجھے معلوم نہیں۔ وہ تو عربی میں تھا ان کا سارا کام۔ ’’برہان‘‘ میں ان کے کچھ آرٹیکلز ہوں گے تو وہ ظاہر ہے اردو میں ہی ہوں گے۔ لیکن ان کا سارا کام تو عربی میں تھا۔ وہ فارسی بھی جانتے تھے۔ بولتے بھی تھے۔
نجیبہ عارف: تو آپ اپنے والد کے جو اردو کے آرٹیکلز ہیں وہی جمع کر لیں۔
محمد عمر میمن: بھئی مجھے پتا نہیں کہاں ہیں؟ یہ بھی نہیں معلوم۔ ہم لوگ اس بری طرح بکھرے ہیں۔اوراب کیا بچا اور کیا نہیں بچا یہ بھی نہیں پتا۔
نجیبہ عارف: لیکن کتابیں تو آپ کے پاس گئی ہیں۔ تو کتابوں کے ساتھ۔۔۔
محمد عمر میمن: نہیں کتابیں کہاں گئی ہیں۔ ساری کتابیں تو انھوں نے دے دی تھیں سندھ یونی ورسٹی لائبریری کو۔ یہ تو وہ تھیں جو وہ استعمال کر رہے تھے مرتے دم تک۔ زیادہ تر وہ ڈکشنریاں تھیں جن پر ان کے حواشی ہیں اورجو انھوں نے Correct کیے ہوئے ہیں۔ ’’لسان العرب‘‘ وغیرہ۔ اب میں وہ لے آیا ہوں اور میں بڑا پریشان ہو رہا ہوں کہ کیا کروں؟ کہاں دوں؟ اوران کی ہاتھ کی لکھی ہوئی اپنی کتابیں، چھپنے سے پہلے کے مسودے، وہ ہیں۔ وہی مسودے جب چھپے ہیں، اورساری کتابیں توان کی مڈل ایسٹ میں چھپی تھیں۔ یہ چیزیں تو میوزیم کو دینے کی ہوتی ہیں لیکن نہ انھیں پروا تھی اور نہ ہماری قوم کو کوئی پروا تھی۔ ورنہ یہ چیزیں تو ۔۔۔ قوم کو جو ہے پہلے سے خیال رکھنا چاہیے کہ بھئی اس کے دن قریب آ رہے ہیں، جا کے بات کریں ان کی اولاد سے کچھ کہیں، کہ بھئی جو ۔۔۔ لیکن یہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ اب انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی ان چیزوں سے۔ بلکہ اب تومجھے یہ بھی نہیں پتا کہ ان کی قبرجو ہے، وہ گئی کہاں کراچی کے قبرستان میں؟ ۔۔۔ جب تک بہن زندہ تھیں، جب میں آتا تھاتو وہ لے آتی تھیں۔ اب میں گیا دو تین دفعہ وہاں قبرستان میں اورمیں نے تخمینے سے ۔۔۔۔ وہاں وہ بیچ دیتے ہیں زمین یا کچھ اور کر دیتے ہیں۔ تواس جگہ جومیرے خیال میں۔۔۔ جہاں میں نے گھنٹوں گزارے تھے اور وہاں تختی بھی لگوائی تھی بہن نے۔۔۔ وہ کچھ ہے نہیں۔ ہوا یہ کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ بہت دن تک کوئی آ نہیں رہا تو وہ قبر ۔۔۔۔ یارہم لوگ اس بری طرح بکھرے ہیں اوریوں تباہ ہوئے ہیں کہ بتا نہیں سکتا۔ میری والدہ کا یہ ہے کہ ۔۔۔ بڑے بھائی نے خواہ مخواہ جو ہے ان کو۔۔۔۔ اچھا اب کمال یہ ہے کہ یہ بےوقوفی ہماری بہن نے کی تھی کہ زبردستی ان کو وہاں سوسائٹی کے قبرستان میں دفن کیا کیونکہ وہ طارق روڈ پر خود رہتی تھیں اور انھیں قریب پڑتا تھا۔ وہ جو ہے رشید احمد صدیقی کا لڑکا ۔۔۔ کیا نام ہے۔۔۔ احسان ۔۔۔ وہ وائس چانسلر تھا کراچی یونی ورسٹی کا۔ اس نے بہن سے بہت کہا کہ یونی ورسٹی میں جو جگہ ہے وہاں آپ دفن کیجیے۔ نہیں کیا، کیوں کہ وہ دور تھی۔ ورنہ وہاں ہوتی نا، تو ایک چیز رہ جاتی۔
نجیبہ عارف : بالکل، نام رہتا، کوئی تختی لگی ہوتی۔
محمد عمر میمن : ایک سے ایک بقراط لوگ ہیں۔ نہ مجھ سے کسی نے پوچھا نہ کچھ۔ سب اپنی اپنی Convenience میں رہے۔ ہماری والدہ کا انتقال ہوا تو یہ ہمارے بھائی صاحب جو ہیں ان کی ۔۔۔ یہ جو ہماری بھابی ہیں سارا کاروبار ان کے والد کا، اس کا مین Headquarter حیدر آباد میں تھا۔ Partition کے بعد سے، جب سے یہ لوگ آئے تھے۔ اچھا توان لوگوں نے وہاں پر، پھلیلی جو ہے حیدر آباد میں، اس کے پل کے پاس قبرستان ہے، وہاں ایک چھوٹی سی جگہ Compound سا بنا لیا ہے۔ دیوار سی کچھ کھڑی کر دی ہے۔ وہاں ہمارے خاندان کے لوگ دفن ہیں۔ اچھا جب میری خالہ جو تھیں گونڈل والی، ان کا انتقال ہوا وہ تو اس کے باہر دفن ہوئی ہیں۔ میں وہیں تھا۔ والدہ کا انتقال ہوا تو وہ بھی۔۔۔ اس زمانے میں کیونکہ ان کو Paralysis ہو چکا تھا تو وہ بھائی کے ساتھ ہی رہتی تھیں حیدرآباد میں۔ بھائی صاحب نے زبردستی جا کے، اسحاق سیٹھ کا جو Compound ہے، اس میں دفن کروایا۔ اب خود بعد میں Move ہو گئے حیدر آباد سے۔جب تک حیدر آباد میں وہ تھے تو میں ان کے ساتھ جاتا تھا اماں کی قبر پر کیونکہ اس کے لیے چابی لینی پڑتی تھی۔ اس Compound کوکوئی تالا والا لگا ہوتا تھا۔ چھت نہیں تھی اس کی۔ اب وہاں جب ایک دفعہ میں گیا تو میں نے دیکھا یہ کہ وہاں پر چرسی کود کے آتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر چرس پیا کرتے تھے۔ اب جناب، یہ سب دیکھنے کے بعد مجھے آپ یہ بتایئے کہ آدمی کس چیز کے اوپر اعتماد کرے؟ اور کس چیز پر فخر کرے؟ اور کس چیز کے لیے اپنی انا کومشٹنڈہ کرے؟ کہ کتنا بڑا آدمی جو تھا، جو قوم کے لیے فخر تھا، جسے پوجتے تھے مڈل ایسٹ کے لوگ، قوم نے اسے اس طرح بھلا دیا۔ تو اب میں جناب، کیا سنبھال کر رکھوں اور کیا نہیں۔ اس لیے کہ سب چیزیں جو ہیں، جو چلا گیا اس کو کیا غرض ہے کہ آپ یاد رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ یہ تو بھائی، جب مل بیٹھ کر آپ کام کرتے ہیں نا، تو اس میں یہ چیزیں۔۔۔۔ Ultimately تو ان کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے، لیکن کچھ دن تک وہ اس Pretence میں رہتے ہیں کہ کوئی چیز ہے جو قائم ہے، چل رہی ہے۔ مگرکب تک چلے گی۔ مجھے بھی اس کے بعد بہت زیادہ یہ نہیں رہا ہے کہ کون یاد رکھتا ہے۔ اچھا، ان کا بھی عالم یہ تھا کہ ان کا علم اتنا تھا کہ وہ دوتین ہزار سال تک مستقل لکھ سکتے تھے۔ اتنا علم تھا۔ انھیں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ بس پڑھتے رہتے تھے۔ جو کچھ لکھ دیا شروع میں لکھ دیا مگر اس کے بعد انہیں کوئی ایسا شوق نہیں تھا کہ بیٹھ کر کتابیں لکھتے رہیں حالانکہ اگر وہ لکھتے تو ان کے پاس اتنا علم تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو، جو آگیا اس کو، دے دیا کرتے تھے۔
نجیبہ عارف: ویسے ایک بات ہے، جو لوگ لکھتے ہیں، چاہے کم علم ہی سے لکھتے ہیں، وہ کچھ عرصہ تو لوگوں کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ چلو، ہمیشہ کے لیے نہ سہی، لیکن پھر بھی وہ ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے۔ ایک بیج بوجاتے ہیں۔ درخت بنتا ہے۔ پھر اس کے بیج ہوتے ہیں۔
محمد عمر میمن: ہاں تو وہ کر دیا انھوں نے۔ وہ جوڈاکٹر سید محمد یوسف تھے، وہ بھی بہت قابل آدمی تھے، Top کے سٹوڈنٹ تھے، ان کو بہت دیا انھوں نے اپنی علمیت۔ وہ آخر تک۔۔۔ صرف ڈاکٹر یوسف تھے، کراچی میں، یونی ورسٹی میں۔ جب والد ریٹائر ہوئے وہاں سے توان کو بلا لیا سیلون سے۔ وہ آخر تک آیا کرتے تھے ہمارے گھر میں، حالانکہ وہ میرے والد کی زندگی میں مر گئے تھے۔
نجیبہ عارف: اچھا آپ کے والد کے جو باقی بھائی تھے، انھوں نے کیا کیا؟ چچا وغیرہ؟
محمد عمر میمن: بھئی میں نے بتایا ناکہ یہ لوگ جوہیں، پڑھنے کی توروایت نہیں ہے، ایک چچا میرے کچھ پڑھے تھے تو وہ گالیاں دیتے تھے میرے والد کو۔ کیونکہ میرے والد ہی نے ان سے پڑھنے کے لیے کہا تھا اور وہ کچھ خاص ہو نہیں سکا۔ اور باقی جوتھے، والد کے بعد تھے ان کا موٹر کا کوئی سلسلہ تھا۔ کافی مالدار تھے۔ لیکن ہمارے سارے خاندان میں ایک بیماری ہے کہ خوب بڑھ بڑھ کر بات کرتے ہیں۔ یعنی Criticize کر دینا، یہ، وہ۔ توہوا یہ کہ ایک نیلام کے سلسلے میں ایک ہندو نے بولی لگائی۔ تو ہمارے چچا صاحب جو تھے، ’’ابے تیری کیا مجال! تیری کیا حیثیت ہے!‘‘ کچھ ایسا کہہ دیا ہو گا۔ تو وہ خاموش ہو کر پی گیا۔ اچھا، ان کا ایک ہندو دوست تھا۔ اوریہ دونوں جایا کرتے تھے شکار پر۔ عبدالرحمٰن نام تھا ہمارے چچا کا۔ اور ہمارے والد کے بعد وہ تھے نمبر دو پہ۔ توکیا کہتے ہیں کہ اس کو پٹی پڑھا دی اس ہندو نے۔ تو اس نے ایک جگہ چائے پلوائی شکار سے پہلے۔ اس میں زہر ملا دیا۔ تویہ سننے میں آیا کہ جب ہمارے چچا نے نشانہ باندھا تو ان کا ہاتھ ہل رہا تھا اور وجہ اس کی۔۔۔۔ اب یہ بھی پتا نہیں کہ یہ رپورٹ کس نے کی۔ اس لیے کہ کوئی اور تیسرا بھی تو ہونا چاہیے نا۔ مجھے پتا نہیں۔ اب وہ کہنے لگے کہ آج کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ جو زہرتھا اس کا کچھ ہو رہا ہوگا اثر۔ پھر وہ مر گئے تو اس نے انہی کی بندوق لے کر ناف کے اوپرمار دی گولی اور کہہ دیا کہ غلطی سے انھیں کا فائر غلط ہو گیا۔ ہمارے والد اس پر کیس کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے دادا نے اسے معاف کر دیاہندوکو۔ کہتے ہیں یہ تو خدا کی طرف سے ہوا ہے۔ اب چلیے کیا کریں گے آپ۔ وہ تو ختم ہو گئے۔ اس کے بعد تھے احمد کاکا۔ آپ کے ہاں بھی کاکا کہتے ہیں؟
نجیبہ عارف : کچھ علاقوں میں۔
محمد عمر میمن: احمد کاکا جو ہیں، ان کی خاصی اولاد تھی۔ اس کے بعد رحیم، وہ جو سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اچھا ہمارے احمد کاکا، کا جو کارو بار تھا، وہ سائیکل کا تھا۔ پنکچرلگانا، کرائے پر بائیسکلیں دینا، ان کی مرمت کرنا۔ اورعبدالرحیم جو ہیں ان کا پورا گیراج تھا۔ کافی مالدار تھے۔ تویہ سب تھا۔ کوئی پڑھنے کی روایت نہیں تھی، لیکن سب مذہبی لوگ تھے۔ پنج وقتہ نمازی اور۔ بس یہ ہے۔
نجیبہ عارف : اور پھوپھیاں؟
محمد عمر میمن : پھوپھی تو ایک ہی تھی۔ وہ تو کراچی آگئی تھیں Partition ہی کے زمانے میں۔ اور ان کی ایک جوبڑی لڑکی ہے وہ ڈاکٹر ہے۔ اور ہمارے پھوپھاکی پہلی بیوی سے جو لڑکا تھا وہ ۔۔۔ یہ لوگ حکیم تھے ہمارے پھوپھا۔۔۔۔ تووہ۔۔۔ بھیجا تھا ان کو دہلی حکمت پڑھنے، پتا نہیں کیسے بعد میں پاکستان میں وہ ڈاکٹر بنے ہوئے تھے۔ کماتے وہی تھے اور انھوں نے Support کیا پوری فیملی کو۔ اور بہت سارے بچے تھے ہماری اپنی پھوپھی سے پھوپھا کے۔ اچھا یہ جو تھے ستار، ان کا تو انتقال ہو چکا ہے۔ اس کے بعد لڑکا جو تھا سب سے بڑا ہماری پھوپھی کا ۔۔۔ امین۔۔۔ وہ گیا تھا انگلینڈ وہا ں سے واپس نہیں آیا ہے۔ وہیں رہ گیا وہیں شادی کر لی۔ اس کے بعد جو بچے تھے ان میں سے ایک ایک کر کے سب مر گئے ہیں، بس اب ایک لڑکا بچا ہے۔اوران کی تین لڑکیاں ہیں۔ جو سب سے بڑی ہے، وہ ڈاکٹر ہے۔ اس کے بعد جو ہے لڑکی اس نے ایم۔اے کیا عربی میں۔ اس کی شادی ہوئی ہے کسی سندھی سے۔ کراچی میں رہتی ہے۔ اورچھوٹی جو ہے اس کی شادی ہوئی ہے کسی سے جو افریقہ میں کام کرتا ہے۔ تو یہ ہے۔ ان لوگوں کا بھی جو اب آہستہ آہستہ۔۔۔ اب دیکھیے نا یہ سب اس قدر یکجہتی کے ساتھ رہتے تھے۔ کوئی ایک لفظ نہیں کہہ سکتا تھا کسی کے خلاف۔ سارے جو ہیں سینہ سپر ہوتے، تان کر کھڑے ہو جاتے تھے لیکن اب کیا ہوا؟ ایک ایک کر کے سب ختم۔
نجیبہ عارف: ظاہر ہے یہ تو ہوتا ہی ہے۔
محمد عمر میمن: یہی ہے نا Ultimately۔
نجیبہ عارف: ہر چیز آخر بکھر جاتی ہے۔
محمد عمر میمن: آپ کب تک کریں گے؟ جب کوئی بچے گا ہی نہیں تو کون قبر پہ آئے گا؟
نجیبہ عارف: لیکن ایک بات ہےآپ کے دادا نے جو بات سوچی ۔۔۔ وہ کیسے اس دور میں وہابی ہوئے اور انھوں نےاپنے بیٹے کو پڑھایااور کیا چیز وہاں سے نکالی ۔
محمد عمر میمن: بھئی انھوں نے کیا نکالی یہ تو ہمارے والد میں کوئی ہو گی چیز ایسی۔
نجیبہ عارف: بہرحال نیت تو وہاں سے شروع ہوئی نا۔
محمد عمر میمن: نیت ہے، تو آپ نیت کو کریڈٹ دے دیجیے لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ یہ شخص جو ہے ۔۔۔۔ لیکن ہمارے والدصاحب جو تھےان کو مذہب سے اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ جانتے وہ سب سے زیادہ تھے۔ حدیث ہو ،قرآن ہو سب کچھ۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کبھی قرآن حفظ نہیں کیا لیکن مجھے قرآن پڑھنا پڑھتا تھا۔ یہ ناشتہ کر لیتے تھے مجھے نہیں کھانے دیتے تھے، کہ جب تک قرآن نہ پڑھ لوں۔ اب قرآن پڑھنا ہے تو۔۔۔ کہیں غلطی کر دی تو یہ وہیں سے شروع ہو جاتے تھے۔ اب پڑھا ضرور لیکن حفظ کبھی نہیں کیا۔ بڑا زبردست حافظہ تھا میرے والد کا۔
نجیبہ عارف: مگرحفظ کرنا تو ضروری نہیں ہے اسلام میں۔
محمد عمر میمن: نہیں نہیں، مگر یہ ہے کہ اردو کا بھی یہی معاملہ تھا کہ جب گرمیوں میں اوپر جناب اپنے پنکھا چلایا، نیچے اپنی چارپائی کی اور کہنے لگے کہ میں نے اردو کے سارے دیوان پڑھ لیے۔ میر کا، اس کا، اُس کا اور غالب کا، اور شعر یاد ہیں سب کے۔ حالانکہ انہیں دلچسپی اردو سے کچھ نہیں تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ فضول چیزیں ہیں فارسی اور اردو۔ یہ تو عربی ہے جو کچھ ہے۔ وہ بھی ماڈرن نہیں، کلاسیکل۔ تو اب جس شخص کا یہ آئی کیو ہو۔ اچھا یہ بات بڑے مزے کی ہے کہ مولوی فاضل میں ایک فلسفے کی کتاب تھی جو انھیں بالکل پسند نہیں تھی مگر اب امتحان کے لیے کیا کریں۔ کہتے ہیں وہ میں نے تین چار دفعہ پڑھی اور مجھے حفظ ہو گئی تھی۔
نجیبہ عارف: اگلے زمانے میں لوگوں کی یاداشتیں بہت اچھی تھیں۔
محمد عمر میمن: نہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ جو ہیں یہ کمپیوٹراور 4/2 کارڈ اور یہ سب چیزیں ان پر آپ کوئی اعتماد نہیں کرتے تھے۔
نجیبہ عارف: اچھا یہ بتائیے کہ آپ کے والد، والدہ، سب بہن بھائی اتنے اسلامی تھے پھرآپ کیسے نکل گئے اس میں سے؟
محمد عمر میمن: میں بھی اسلامی تھا۔ جتنا میرے دل میں احترام ہے اسلام کا۔ وہ جو ۔۔۔ اینڈ کمپنی جو ہے نا۔ یہ شاید اس لیے مجھے پسند بھی نہیں کرتے۔ لیکن چکر یہ ہے کہ مجھے اسلام سے کوئی کد نہیں ہے جیسی ان لوگوں کو ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے کچھ پڑھا نہیں ہے اور نہ ہی زبانیں جانتے ہیں۔ مولویوں کی حرکتیں دیکھ کر وہ اسلام کوجو ہے سنا رہے ہیں۔ سمجھے نا آپ۔ تومجھے تو کوئی کد ہے نہیں۔ پھریہ کہ مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوا ۔۔۔۔ لیکن ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ نماز روزہ ہمارے ہاں لوگ ،اس کی جو Spirituality ہے، اس کے ساتھ نہیں کرتے۔ بس اٹھک بیٹھک کی۔ ایک Ritual بن جاتا ہے کہ بس ایک بلا ٹالنی ہےاور ہو گیا ۔آپ کی زندگی میں کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی میں جو ہے، نماز روزے سے جو اندرونی تبدیلی آنی چاہیے، وہ آتی ہے۔ بس یہ معاملہ ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ جو ہیں وہ ہیں۔ [اس پر مجھے یاد آیا کہ میمن صاحب ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ان کا مکمل نام ’’محمد عمر میمن ‘‘ہے لہٰذا اسے یونہی لکھا جائے۔ صرف عمرمیمن لکھنا یا کہلوانا انھیں ناپسند تھا۔ ان کی جاپانی بیگم ناکاکو بھی انھیں عمر کے بجائے محمد کہہ کر پکارتی تھیں۔]
نجیبہ عارف: آپ کی شادی ہوئی جاپانی خاتون سے، تو ہندوستانی روایت بھی نکل گئی آپ کی زندگی سے؟
محمد عمر میمن: ہاں وہ تو ہے۔ ان کا توکوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ ویسے ان کے گھر والے شنٹو ہیں۔ Buddhist ہیں۔ انھیں کوئی دلچسپی نہیں کسی بھی مذہب سے۔ لیکن اچھا مگر۔۔۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ جب عاصم چھوٹا تھا تو مجھ سے کہنے لگیں، اسے لے جاؤ تم کسی مسلمانوں کے مدرسے میں۔ اس لیے انھیں یہ تھا کہ After all میں مسلمان ہوں تو یہ بھی مسلمان ہی ہے۔ تھوڑا بہت تو اسے پتا چلنا چاہیے۔ تو ایک دفعہ میں وہاں کمیونٹی سنیٹر میں لے گیا تھا اس میں یہ لوگ اتوار کے روز کچھ مسلمان بچوں کو پڑھاتے تھے ۔۔۔۔
نجیبہ عارف: [صریحاً دخل در معقولات کرتے ہوئے] عاصم وغیرہ گھر میں کون سی زبان بولتے تھے؟
محمد عمر میمن : انگریزی۔
نجیبہ عارف: جاپانی نہیں سیکھی انھوں نے؟
محمد عمر میمن: وہ کیا سیکھیں گے؟ اس لیے کہ میں تو نہیں بولتا تھا اور ایک سے تو بات بنتی نہیں ہے اور وہ بھی ان سے نہیں بولتی تھیں۔ جب چھوٹے تھے، توجومحبت کی باتیں ہوتی ہیں بچوں کی اور ماں کی، وہ ۔۔۔ بچے تو پھر بھی نہیں بولتے تھے۔ کچھ جاننے لگے تھے۔ انیس نے تو پڑھی بھی تھی سکول میں لیکن یہ کہ وہ کوئی بولنے وولنے کی نوبت۔ بھئی Reinforcement کی ضرورت ہے۔ آپ ہواس ماحول میں تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر ہم دونوں ایک ہی زبان رکھتے ہوتے تو بچے وہ زبان سیکھ جاتے۔ لیکن دو زبانیں ہوں اور سوسائٹی کی زبان کچھ اور ہو تو اس میں پھربہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارا جو پوتا ہے چھوٹا، اس کی ماں اٹالین ہے۔ انیس بھی اٹالین بولتا ہے۔ وہ دونوں اس سے اٹالین میں بات کرتے ہیں۔ بات چیت بن گئی، اب کیا کریں۔ [پچھلی بات کا سرا پکڑتے ہوئے] لیکن میں بتا یہ رہا تھا کہ میں نے جا کر دیکھا وہاں۔ تو وہی جو ہمارے ہاں ہوتا ہے نا، کہ بچوں کی جو حیرت ہے اورCuriosity ہے، اسے ختم کر دیتے ہیں۔ کوئی سوال پوچھے، جواب دے نہیں سکتے تو اسے چپ کروا دیتے ہیں۔ ہمارے بچوں میں عاصم جو تھا اسے ہم نے اس طرح نہیں پالا تھا۔ لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ دونوں بچے جو ہیں، اسلام میں جو ایک مثالی نمونہ ہو سکتا ہے انسان کا، اگر اس پر پورے نہیں اترتے ہیں تو کسی حد تک قریب ہیں، اَور لوگوں کے مقابلے میں۔
[اس کے بعد میمن صاحب نے اپنے بچوں کی نجی زندگی کے بارے میں گفتگو کچھ دیر اور جاری رکھی۔ جس کے بعد یہ طویل نشست رات کے کھانے پر ختم ہوئی۔ ]ماخذ: ’’مکالمہ‘‘ کراچی
نجیبہ عارف صاحبہ کی عقیدت اس حد تک ہے کہ عمر میمن صاحب کی کہیں کہیں بے ربط اور غیر رسمی گفتگو کو سپردِ قلم کر کے ہم سب کے لیے قیمتی مواد جمع کر دیا۔