قصہ ہمارے عربی سیکھنے کا: قدسیہ جبین

 In یاد نگاری

دوسری یا تیسری جماعت کا قصہ ہے امریکا میں مقیم ہمارے چچا نے بڑی بہن اور چچازاد ،جو پرائیویٹ ہی ایف اے کی تیاری کر رہی تھیں ، کے لیے انگریزی کے کچھ اسباق کیسٹ میں ریکارڈ کر کے بھیجے ۔ غالبا کیسٹ پر دعوہ اکیڈمی کے کسی لیکچر کا لیبل لگا تھا اور مقرر کا نام ڈاکٹر کمال تھا ( اللہ کرے یہی نام ہو ) یہ اسباق گھر میں بار بار سنے گئے ۔ سبق اور اسکی حل کردہ مشق سے تو ہمیں چنداں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن جونہی سبق ختم ہوتا یکدم ڈاکٹر صاحب کے انگریزی لیکچر کا تھوڑا سا اختتامیہ اور اسکے بعد ایک بہت ہی خوبصورت عربی لحن میں گایا ہوا گیت شروع ہو جاتا ۔ یوں لگتا جیسے کسی پروگرام کے آخر میں چند نوجوان سٹیج پر آئے ہوں اور یہ نشید گایا ہو ۔
عربی نشید کو سننے کے شوق میں کیسٹ کی دوسری سائیڈ شروع ہوتے ہی ہم ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے ۔ پھر صبر سے اس ناقابل فہم سبق کو سنتے رہتے ۔
سُر اور لَے سے دلچسپی ہونے کے باعث ہم نے دو چار بار سننے پر ہی اسکی طرز کو تو ذہن نشین کر لیا ۔ لیکن ایک ناقابل فہم زبان ہونے اور بیشتر الفاظ کا ٹھیک ٹھیک تلفظ سمجھ نہ آنے کے باعث ہم نے سُر کے وزن پر ان الفاظ میں اپنی جانب سے تصرف کر لیا ۔ یوں چند دنوں کی مشق سے وہ نشید ہماری زبان پر تھی اور ہم اسے گھر اور مختلف اجتماعات میں اعتماد سے پڑھ کر داد وصول کرنے لگے ۔ بعد ازاں یونیورسٹی جانے پر ان تصرفات کا پول ہم پر اس طور کھلا کہ ابتدائی ایام میں ہی ایک روز ہاسٹل میں کسی مہرجان کے موقع پر چند عرب لڑکیاں گروپ میں اچانک وہی گیت گانے لگیں۔ سُر اتنا خراب ۔۔۔ ہمارا دل چاہا کہ مائیک چھین کر ذرا انہیں گا کر دکھائیں کہ اسکی اصل طرز کیا ہے مگر جونہی وہ پہلے مصرعے کی تکرار کے بعد دوسرے مصرعے پر آئیں ہمارا ارادہ زمین بوس ہو گیا کہ یہاں تو پورا مصرعہ ہی الگ تھا ۔ غلطی اگرچہ واضح ہوگئی مگر آج بھی ہم نشید گانے لگیں تو وہی بچپن والی اپنی شاعری زبان پر آ جاتی ہے ۔
یہ قدیم عربی نشید ” لا شرقیة لا عربية اسلامية إسلامية“ تھی ۔
پہلے مصرعے ”افلا ياتى يوم نحيا فيه حياة اسلامية“ تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اگلے مصرعے ” یھتف کل الکون یغنی لا شرقية لا عربية“ کو ہم نے ” یحسب کل الجون اغنی“ بنا ڈالا تھا ۔
اسی زمانے میں ایک دوسرے کیسٹ کے آخر میں چھوٹی بچیوں کی آواز میں گایا ہوا گیت بھی آج تک یاد ہے جسے اسکے بعد کبھی سننے کا موقع نہ ملا ۔ بول تھے”بالتعاون بالمحبة . كلنا يملأ قلبا. يملأ قلبا. بالتعاون بالمحبة“
اسکے بعد عربی زبان سننے کا ایسا چسکا ہمیں لگا کہ ریڈیو پر جب کبھی ابا بی بی سی لگانے کے لیے اسکی فریکوئنسی سیٹ کرتے اور بہت سے سٹیشن باہم خلط ملط ہونے کے بعد کسی عربی سٹیشن کی آواز ابھرتی تو ہم ہمہ تن گوش ہو جاتے۔
کویت ریڈیو کی فریکوئنسی تو ہم نے خود ہی ڈھونڈ نکالی تھی سمجھ میں کچھ آئے یا نہ آئے لہجہ ہی ایسا پیارا لگتا کہ مختلف تکرار شدہ جملوں کو زیر لب دہراتے اور لطف لیتے۔ خاص طور پر ” ايها المستمعون الكرام ! هذه اذاعة دولة الكويت حان الآن وقت صلاة المغرب حسب التوقيت المحلى لمدينة كويت ونواحيها“ جیسے جملے تو باقاعدہ یاد ہو گئے تھے ۔
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تا آنکہ ہماری بہن نے اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ وہ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتیں ہم حال چال پوچھنے سے بھی پہلے بیگ کی تلاشی لے کر عربی گیتوں کے کیسٹ تلاش کرتے جو بحمداللہ ان سے کبھی قضا نہ ہوئے تھے۔
اس زمانے میں اردو زبان کی سُر ہمیں نہایت دقیانوسی ، عجیب و غریب اور معلوم نہیں کیا کیا محسوس ہوتی ۔فہم میں البتہ یہ بہتری آ گئی تھی کہ جو نیا گیت سنا جاتا اسکے چند الفاظ سے ہم خود اندازہ لگاتے باقی خلاصہ کلام بہن سے سننے کے بعد اپنے ذہن میں مفہوم کا ایک ربط خود ہی پیدا کر لیتے اور سُر اور الفاظ کا یکساں لطف لیتے ۔
کیا زمانہ تھا !!! گھر میں زیادہ وقت عربی نشید گونجتےاور ہم اس پر سر دھننےکے ساتھ ساتھ نقالی کی ناکام کوشش کیا کرتے۔ دو کیسٹ اس زمانے میں بہت سنے ۔ایک میں ”مولانا مولانا یا مولانا
یا مجیب دعانا یا مولانا“
اور
” الہجرة رحلة هادينا
حمل الاسلام لنا دينا“
جیسے آسان نغمے تھے اور دوسرے میں ” خوبصورت شاعرانہ استعاروں سے سجے آزادئ فلسطین کے نغمات“ (جن میں زیادہ تر فصیح اور چند ایک عامی میں تھے)۔
”لعيون القدس نغنى“
”الارض لنا ، والقدس لنا ، والله بقوته معنا“
” بارودتى والروح والاشواق حرى
يا قدس جئت بها اليك اليوم مهرا“جیسے خوبصورت گیت تھے۔ اسی اثنا میں ہمارے چچازاد بھائی نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگوئجز میں عربی زبان کے کسی مختصر دورانیے کے کورس میں داخلہ لے لیا ۔ ایک کیسٹ جو انکے توسط سے ملا اس نے بھی عربی محاورہ سمجھنے میں بہت مدد کی۔ اسکی نظمیں ہمارے اباجی کو بہت پسند تھیں۔
”الانبیاء کلهم نحبهم نجلهم“
ان عربی نغموں کا ہی اثر تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ دینے کے بعد پاس ہونے پر عربی زبان سیکھنے کیلیے ہمیں درجہ ”ادنی“ کی بجائے ”متوسط“ میں بھیج دیا گیا ۔ درجہ متوسط سے آغاز کا مطلب تھا کہ ہمیں صرف دو سمسٹر ( آٹھ ماہ) زبان پڑھنا ہو گی اور اسکے بعد مضامین پڑھنے کا آغاز ہو جائے گا۔ قسم البنات میں طالبات کی تعداد کے اعتبار سے متوسط کے تین یا چار سیکشن تھے یہ سراسر خدا کا فضل اور اسکی رحمت تھی کہ اس سمسٹر میں عربی زبان کے جو اساتذہ طالبات کو پڑھانے کے لیے متعین ہوئے ان میں سے بہترین ہمارے سیکشن کے حصے میں آئے۔
قرآت اور زبان دانی کی مشق کے لیے ایک کلاس مصری خاتون مادام ایمان کے پاس تھی جو بالکل ہمارے ساتھ ننھے بچوں کی طرح شفقت فرماتیں اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بیٹھی طالبات میں سے فرداً فرداً سب کو کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے ابھارتیں (خدا انکو غریق رحمت کرے بہت دن ہوئے انکی وفات کی خبر سننے کو ملی تھی) اور دوسری استاد حبیب الرحمن عاصم کے پاس۔
لکھائی کی مہارت ( تعبیر ) اور قواعد کے لیے استاد محترم اکرم غراب( سینیر مصری استاد) تھے ہر کلاس کا دورانیہ کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے ہوا کرتا تھا۔ لیکن آغاز میں سمجھ نہ آنے کے باوجود یہ وقت پَر لگا کر اڑ جاتا تھا گویا ابھی بیٹھے ہوں اور ابھی کلاس ختم بھی ہو گئی۔ سب اساتذہ کا انداز جدا تھا لیکن طلبہ کو متحرک رکھ کر کلاس میں ذہنی طور پر شامل رکھنا اور تھوڑی سی پیش رفت پر بہت سی حوصلہ افزائی سب میں امر مشترک تھا۔
بالکل آغاز سمسٹر کی بات ہے استاد اکرم نے ہمیں ایک ورڈ پزل بنانے کا ہوم ورک دیا ۔ ہوسٹل جا کر ہم نے جو بہن سے مدد لینا چاہی تو انہوں نے جھٹ ہری جھنڈی دکھا دی کہ ”خود کرو ، نہ کرو گی تو بس بیساکھیاں ہی تلاشتی رہو گی“ غالباً عصر سے بیٹھے مغرب ہو گئی مگر ایک چھوٹا سا ہوم ورک نمٹنے میں نہ آ رہا تھا ذہن میں اس پزل کو بنانے میں وقت اور دماغ کی کھپائی آج بھی تازہ ہے ۔ بہر حال جیسا تیسا اگلی کلاس میں کام جمع کروا دیا۔ سر اکرم کی عادت تھی کہ کلاس میں ہی چیکنگ نہیں نمٹادیتے تھے بلکہ چیک کرنا بھی انکے نزدیک عرق ریزی کا کام تھا۔ کوئی ہفتہ بھر بعد جب انکی کلاس ہوئی تو دیکھا ہاتھ میں چیک شدہ ورقے پکڑے اندر آ رہے ہیں۔ بیٹھتے ہی پرچے اوپر نیچے کرنے لگے پھر طالبات پر نظر ڈالی پھر پرچے اوپر تلے۔ اس اثنا میں ہم سانس روکے اتھل پتھل ہوتے دل کو سنبھالے بیٹھے تھے کہ اچانک انہوں نے کلاس کی خاموشی توڑ کر پوچھا ”من قدسیہ؟“ دل گویا اچھل کر حلق میں آ گیا۔ پاس بیٹھی تیمیہ نے ٹہوکا دیا۔ آگے بیٹھی لڑکیاں مڑ کر ہمیں دیکھنے لگیں ۔ لرزتی کانپتی ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہو کر منمناتی آواز میں بولے ”انا“
انہوں نے ایک نظر پھر پرچے پر ڈالی اور پوچھا :”عشت اي بلد عربي؟“
ہم نے اندازہ لگاتے ہوئے قدرے توقف سے ”لا“ کہہ دیا ۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک لمبی تقریر کی ۔ لب لباب جسکا جو بھی تھا ہمارے کام کے الفاظ دو ہی تھے ”احسنت ماشاءاللہ، احسنت ماشاءاللہ“۔ پھر ہمیں بلا کر ہمارا ورق ہمارے ہاتھ میں تھمایا، جس پر سرخ روشنائی سے کوئی آدھ صفحے کا نوٹ لکھا تھا ۔ یہ ورق ہم نے ایک عرصے تک سنبھال کر رکھا ۔ نوٹ کے آخر میں لکھا یہ جملہ آج بھی یاد ہے ہمیشہ یاد رہے گا : ”امید ہے کہ تم امت کے لیے مفید ثابت ہو گی۔“ اسکے بعد کیا پڑھا کیا نہ پڑھا کس کی پزل غلط ہوئی کس کی ٹھیک ۔ کچھ ہوش نہیں تھا بس اتنا یاد ہے کہ کلاس ختم ہوتے ہی ہم تیر کی طرح لائبریری گئے اور جب دن ڈھلے ہاسٹل کے لیے آخری بس نکلی تو ہم عربی کی بچوں کے لیے لکھی گئی رنگین تصویروں والی کہانیوں والے ریک کے سامنے سے اس حالت میں اٹھے کہ اگلے دن پڑھی جانے والی کہانیاں الگ کر کے رکھ لی تھیں۔ اگلے آٹھ ماہ لائبریری اور ہم پکے والے دوست بننے جا رہے تھے ۔ اب زبان سیکھنے کے مرحلے میں سب سے طاقتور محرک اندرونی شوق تھا ۔ جسے استاد کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے پر لگا دئیے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ مناسب رہنمائی نے پر پیچ راستوں کو ہموار کر دیا تھا۔
ہماری زبان کی کلاس پھلجڑیوں کا گلدستہ ہوا کرتی تھی۔ استاد گندم سے متعلق سوال کر رہا ہے اور شاگرد چنے کے فوائد پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ کئی کئی جگہوں پر آدھا آدھا گھنٹا اٹک گئے تو اٹک گئے۔ نہ گاڑی آگے بڑھ رہی ہے نہ پیچھے ہٹنے پر تیار ہے۔ ایک بار ہماری ایک چینی ہم جماعت لفظ ”ندامت“ پر ایسا اٹکی کہ پوری جماعت مع استاد طرح طرح کے حربے استعمال کر کے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے اور محترمہ ہر دفعہ ایک نیا مطلب سمجھ رہی ہیں جس کا ندامت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ آخرکار کوئی آدھ پون گھنٹے کی مشقت کے بعد بیچاری نے سمجھانے والوں کی بےچارگی اور مشقت دیکھ کر کہہ ہی دیا کہ اب سمجھ آ گئی حالانکہ استاد صاحب ہنوز غیر مطمئن تھے کہ سمجھی ومجھی کوئی نہیں بس ہماری حالت پر ترس آ گیا ہے ۔ اس ضمن میں کئی لطیفے کمرہ جماعت سے نکل کر چار دانگ جامعہ میں پھیل چکے تھے اور سینئرز اپنی اپنی محفلوں میں ان سے حظ اٹھایا کرتی تھیں۔
ہماری ایک دوست کا لطیفہ تو بہت ہی مشہور ہوا ۔ محترمہ نئی نئی یونیورسٹی میں وارد ہوئی تھیں اور اپنی بہن ،جو کہ کافی سینئر تھیں، کےہمراہ فیکلٹی ڈین استاد عبدالتوب کے دفتر گئیں۔ استاد صاحب نے طالبہ کا مسئلہ سن کر ”تفضلی“ کہہ کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے بہن کے ہمراہ بیٹھتے ہی ان سے کان میں پوچھا: ”تفضلی کا کیا مطلب ہے ؟“ بہن نے حسب موقع مفہوم گوش گزار کیا: ”بیٹھ جائیے“۔ اب انہوں نے ذہن نشین کر لیا۔
کچھ ہی دن گزرے تو محترمہ کو خود کسی کام سے دفتر جانا پڑ گیا۔ اتفاق سے دفتر کے اوقات اور انکی عربی کلاس کے اوقات ایک ہی تھے۔ پہلے استاد سے اجازت حاصل کرنے کے لیے جملہ رٹا گیا ۔ جب اجازت لینے کا وقت آیا تو وہی جملہ جو صبح سے زیر لب دہرا رہی تھیں اونچی آواز میں استاد کے قریب جا کر کہہ دیا۔ وہ غالبا کسی کام میں مشغول تھے سو اسی مصروف انداز میں انہوں نے انہیں ”تفضلی“ کہہ کر اجازت مرحمت فرمائی۔
اور یہ محترمہ جلدی سے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ اندر ہی اندر پیچ و تاب بھی کھا رہی ہیں کہ مین کیمپس والی گاڑی نکل جائے گی کیا کروں ۔ دوبارہ جی کڑا کر کے اپنی نشست سے اٹھیں اور ڈری سہمی آواز میں پھر وہی رٹا ہوا فقرہ دہرایا۔استاد نے پھر وہی ”تفضلی“ کہا اور بقیہ طالبات کی جانب متوجہ ہو گئے ۔ محترمہ دوبارہ بیٹھ گئیں۔ آخر تیسری بار جب یہی عمل دہرایا گیا تو استاد صاحب نے ذرا ڈپٹ کر دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں نکال باہر کیا۔
بے ساختہ لطیفوں پر گو کمرہ جماعت میں طالبات خوب ہنس لیتی تھیں لیکن استاد صاحب بالکل سنجیدہ مشکل میں پڑی طالبہ کی ہمت بندھانے اور مدد کرنے کو مستعد۔ اس وجہ سے کلاس کا ماحول بہت حوصلہ افزا ، فرحت بخش اور ہلکا پھلکا ہوتا تھا۔ البتہ لطیفوں اور اٹکنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ وہ لفظ ، جملہ یا ترکیب اپنے درست استعمالات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہو جاتا۔
دوسرے سمسٹر میں استاد عطیہ نے تعبیر اور تلخیص کی بہت ہی عمدہ مشق کروائی جو آج بھی کئی امور میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ ۔
زبان ختم ہوئی تو مختصر سا سمر سمسٹر آ گیا۔ اب ہم نے مضامین کا چناو کرنا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ اس سمسٹر میں بہت ہی کم مضمون آفر ہوتے تھے ۔ اس لیے اکثر لوگ یہ دورانیہ آرام سے گھر گزارتے ۔ ہماری بہن چونکہ اس بار یہ سمسٹر لے رہی تھیں اس لیے ہم نے بھی دو مضمون رکھ لیے۔ جن میں سے ایک عربی زبان و ادب سےمتعلق تین لازمی مضامین میں سے ایک تھا۔
عمومی طور پر ان مضامین کی ترتیب یوں ہوا کرتی تھی یا ہونی چاہیے تھی: پہلے گرامر کے قواعد یعنی النحو الواضح ، پھر بلاغہ اور پھر النصوص الادبیہ ۔
اس سمسٹر میں چونکہ بہت سی سینئرز نے خاص طور پر النصوص الادبیہ آفرکروایا تھا اس لیے ہم نے بھی مجبورا نحو و بلاغہ سے گزرے بغیر وہی رکھ لیا۔ شریعہ اور اصول الدین کی سینئرز سے بھری کلاس میں ہم اکیلے نو آموز تھے ۔ شروع کلاسز میں کچھ اجنبیت کا احساس ہوا لیکن ہماری مصری استانی مادام زبیدہ نے بہت جلد اپنی محبت و شفقت سے اس احساس کو رفع کر دیا۔ نصوص پڑھتے ہوئے ہمیں حقیقی معنوں میں بہت لطف آیا۔ مختلف ادبی تحریروں کے ٹکڑے ، شعر اور قصیدے اور آیات قرآنی۔ اس مضمون کو پڑھنا ایک پرکیف احساس کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گا۔خصوصاً حطیئة کا مشہور قصیدہ ” قصة كرم“
” و طاوى ثلاث عاصب البطن مرمل
ببيداءلم يعرف بها ساكن رسما“
چالیس پینتالیس طالبات کی کلاس میں سے ہم واحد طالبہ تھے جس نے اسے پڑھنے کے بعد یاد کر لیا اور اگلی کلاس میں کھڑے ہو کر درست لب و لہجے اور تلفظ سے سنانے پر استانی کی جانب سے بہت سی شاباش اور نقد انعام کے حقدار ٹھہرے ۔ مادام زبیدہ بعد میں بھی جہاں ملتیں ، ہمارا کندھا تھپتھپا کر یہی کہا کرتیں : ”میں پھر تم سے حطيئة کا قصیدہ سننا چاہتی ہوں۔“ سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے قیمتی اساتذہ ملے لیکن مصر کی سرزمین سے آنے والے کبھی نہ بھولیں گے۔ کہ انہیں بنجر زمین پر پھول کھلانے کا کیا خوب ہنر آتا تھا۔
زبان صرف الفاظ ، جملوں ، محاوروں اور ضرب الامثال وغیرہ کا مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک پورے تمدن ، ایک مکمل ثقافت کی ترجمان بھی ہوا کرتی ہے۔ اور یہ سب جاننے کے لیے کسی حد تک اہل زبان کے ساتھ تعامل اہم ہوتا ہے ۔ اسلامی یونیورسٹی کی صورت حال اس زمانے میں یہ تھی کہ اساتذہ کی اکثریت عرب تھی ۔ لہذا کمرہ جماعت میں تو اہل زبان کی صحبت میسر تھی ۔ البتہ گپ شپ کے لیے عرب لڑکیاں جو تعداد میں بہت زیادہ نہ تھیں آسانی سے میسر نہ ہوا کرتیں۔ ہاسٹل میں دو تین سوڈانی سینئر طالبات اور ایک عمانی تھیں۔ باقی ایک دو عراقی و اردنی اور مصری سب ڈے سکالر ۔
سوڈانیوں کے سوا عرب طالبات کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ بس آپس میں ہی گھلتی ملتی ہیں یا ان عجمی طالبات کے ساتھ جو عرب سکولوں سے فارغ التحصیل ہوا کرتی تھیں۔ معلوم نہیں یہ انکے عرب قوم پرستانہ تعصب کا شاخسانہ تھا یا بقیہ طالبات کی جھجک ۔ بہرحال یہ تعلق بس دعا سلام ، اسباق کے متعلق اہم گفتگو تک ہی محدود ہوا کرتا۔
مضامین شروع کیے ہوئے کوئی سال بھر بھی نہ گزرا تھا کہ ہماری بہن یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ہری پور میں قائم یتیم بچوں کے ایک عربی سکول میں بطور معلمہ منتقل ہو گئیں۔ اور ہم ہفتے دو بعد چھٹی منانے وہاں جا دھمکتے۔ افغانی پختون اور فارسی ثقافت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہاں شامی ، عراقی اور سوڈانی عرب ثقافت کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
بچوں کی کتابوں ، رسالوں اور اناشید سے ہم تھوڑا تھوڑا عربی محاورہ سمجھنے کے قابل ہونے لگے تھے۔ اور آٹے میں نمک کے برابر عامی زبان بھی مگر اسکے مختلف لہجے ایک تو ہری پور میں سننے کو ملے دوسرا مضامین کے دوسرے سال رجسٹریشن کے دنوں میں جب اچانک ایک فلسطینی لڑکی ہماری ہم جماعت بن گئی۔ عمر میں ہم سے کافی بڑی ، یونیورسٹی کی سب عرب لڑکیوں سے بالکل مختلف ، ہر شعبے ، ہر ملک اور ہر عمر کی طالبات میں یکساں مقبول ، اسلامی یونیورسٹی کی واحد ہر دلعزیز طالبہ جس سے ہمارا دلی تعلق آج تک قائم ہے۔ جہاں ہم کسی کیسٹ میں کوئی نیا اور نامانوس لفظ سنتے جھٹ اس سے پوچھ لیتے اور وہ پورے تفصیلی پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ اس پر روشنی ڈالتی۔ دوسروں کا دل بڑھانے اور حوصلہ افزائی کرنے میں ایسی ماہر کہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات اور موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔ ایک کلاس میں ہم سے استاد کے استفسار پر اتفاقا ایک مشکل لفظ کا مطلب ‘ تُکّے سے’ درست صادر ہو گیا ۔ تو اس نے جھٹ پہلے کاپی پر پھر بورڈ پر جلی حروف میں لکھ دیا :”الیوم یوم قدسیہ“کبھی ہم سے کوئی نشید سنتی تو گلے لگا کر ”العرب باللسان و ليس بالدم“ جیسے کلمات کہہ کر بلائیں لیتی۔ ہم تو اسکے سامنے اتنے جرات مند ہو گئے تھے کہ ٹوٹی پھوٹی عربی میں عربوں کے خوب خوب لتے بھی لے لیتے اور وہ سر ہلاتی رہتی ۔ زغارید ، سبوع وغیرہ کا ثقافتی پس منظر اسی نے پہلی بار سمجھایا تھا۔
عرب لڑکیاں جب کبھی کسی تقریب کے موقع پر عبایہ اتار کر ہمیں ثقافتی جھٹکے دیتیں تو انکے بھی خوب لتے لیتی۔ جس کلاس میں ہوتی ۔ اس میں سبق کے ساتھ ساتھ کسی موضوع پر بحث مباحثہ بھی چل نکلتا۔ اور خوب رونق لگتی۔ صحیح معنوں میں روزمرہ عربی کا تھوڑا بہت محاورہ مجھے وفاء اور اسکی بچیوں کی صحبت ہی میں ہوا۔ جو بعد ازاں قیام لیبیا کے دوران بہت کام آیا۔ اسکی صحبت کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ دوسری زبان کا جو عمومی لاک پاکستانی طالبات کو رواں بول چال سے روک دیتا تھا وہ ہم نے توڑ کر پھینک دیا۔ لوگ باگ بلا تکان جب عبداللہ عزام کو دہشت گردوں کا سرغنہ کہہ کر ہاتھ جھاڑتے اٹھ بیٹھتے ہیں تو دور کہیں اردن کے کسی گھر میں بیٹھی وفاء عبداللہ عزام کا پیارا سا چہرہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ بولنے لگتا ہے ”العرب باللسان و ليس بالدم“ ۔ تصور میں پھر سے وہ اور اسکی بیٹیاں کسی ٹرپ سے واپسی پر بس میں پاکستانی طالبات کے جلو میں بیٹھی جھوم جھوم کر گانے لگتی ہیں :
” یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے“

Recommended Posts
Comments
  • ABDULLAAH
    جواب دیں

    ماشاءاللہ، اک خوبصورت تحریر۔

    لڑکوں کے سیکشن میں بیٹھنے والے کو بھی ماضی کی یاد آپ نے ایسا دلادی کہ۔۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ آپ کا انداز بیاں اور بہت ہی مشتبہ باتوں سے واقعی میں ماضی کی یادیں تازہ ہوگئیں

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search