محمد عمر میمن، نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری۔ تحریر: سرور الہدی
محمد عمر میمن کے انتقال کی خبر سے جن لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے ان کی تعداد یقیناً مختصر ہوگی۔ جسے ہم ٹھیک سے جانتے ہی نہیں اس کے رخصت ہو جانے کا دکھ کیوں ہو۔ جو لوگ محمد عمر میمن کو جانتے ہیں ان کے یہاں میمن کے تعلق سے کچھ خاموشی بھی ہے اورکچھ گویائی بھی۔ خاموشی کا سبب غصہ بھی ہو سکتا ہے اور شکایت بھی۔ گویائی میں دونوں باتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیکن کسی اسکالر کے انتقال کے بعد عموماً جو گویائی سامنے آتی ہے اس میں تحسین کا پہلو زیادہ ہوتا ہے۔ محمد عمر میمن کے بارے میں ایسے لوگوں کے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں جنھوں نے کسی سے ان کا نام سن لیا ہے اور ان کی کوئی تحریر نہیں دیکھی ہے۔ محمد عمر میمن سے شکایت کرنے کے لیے بھی ان جیسی صلاحیت اور ذہنی سطح کے آس پاس ہونا ضروری ہے۔ محمد عمر میمن نے عمر کا بڑا حصہ ترجمے میں صرف کر دیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں جو کچھ ملا ہے ہم اس پر فخر کر سکتے ہیں۔ ان کے ہم عمر معاصرین کی تعداد بھی وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی اور بعد کے لوگوں نے مابعد جدیدیت اور دیگر نظریاتی مباحث میں خود کو اس قدر الجھایا کہ انھیں محمد عمر میمن کو پڑھنے اور سمجھنے کا خیال ہی نہیں آیا ۔
دہلی میں محمد عمر میمن کا سب سے زیادہ نام لینے اور انھیں یاد کرنے والے بلراج مین را تھے۔ انھوں نے بلراج مین را کی پانچ کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا ۔ مجھے مین را کی ذاتی لائبریری سے محمد عمر میمن کے تراجم کی کتاب ’آوارگی‘ ملی ۔
محمد عمر میمن نے صرف اتنا لکھا ہے کہ ’ بلراج مین را کے لیے‘ شکاگو 8 جون 1988۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب میرے مطالعے میں آئی لیکن اس کے دو تین مضامین میری نگاہ سے گزر چکے تھے۔ رسالہ ’آج‘ اور ’دنیازاد‘ نے عمر میمن کے ترجمے کو اگر تواتر کے ساتھ شائع نہ کیا ہوتا تو ہم ان سے اس قدر واقف نہیں ہوتے۔ ایسا کیا ہوا کہ کسی ہندوستانی رسالے میں ان کے ترجمے یا ان کی تحریریں اِکا دُکا مثالوں سے قطع نظر شائع نہیں ہوئیں۔ رسالہ ’معیار‘ جسے بلراج مین را اور شاہد ماہلی نے نکالا تھا، اس کے پہلے شمارے میں انتظار حسین پر ایک مضمون ’حافظے کی بازیافت، زوال اور شخصیت کی موت‘ اور ’شب خون‘ میں ان کے دو انٹرویوز اور افسانے شائع ہوئے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے ان کی کوئی تحریر ہندوستانی رسالے میں شائع نہیں ہوئی۔ بلراج مین را کی حمایت میں عمر میمن نے ایک مضمون ’ابلاغ کیا ہے‘ لکھا تھا جو گوپال متل کے رسالہ ’تحریک‘ میں شائع ہوا۔ پھر میں نے اپنی کتاب ’سرخ و سیاہ‘ میں اسے شامل کیا۔ مین را کا ایک افسانہ ’پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ‘ ہے۔ سردار جعفری نے رسالہ ’گفتگو‘ میں اسے شائع کرنے کے لیے مانگا تھا لیکن انھیں اور ان کے چند دوستوں کو افسانہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس واقعہ کی تمام تفصیلات مین را جنرل میں مل جاتی ہیں۔ بلراج مین را عمر میمن کا ذکر کرتے ہوئے اس مضمون کا بھی حوالہ دیتے تھے۔ اب دہلی میں ایک شمیم حنفی کی ذات ہے جو اس عہد کی تمام ادبی سرگرمیوں کی گواہ ہے۔ محمد عمر میمن کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ غیر معمولی صلاحیت کے آدمی تھے اور جلد ناراض ہو جاتے تھے۔
کیا واقعی ایسا ہوتا ہے جو گیا وہ گیا؟ کئی معنوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ میں آج محمد عمر میمن کی تحریروں کے حوالے سے انھیں یاد کر رہا ہوں تو ایک معنی میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ میں ہی نہیں اور بھی لوگ ہوں گے جن کی نگاہ میں محمد عمر میمن کی تحریریں ہوں گی اور وہ انھیں یاد کر رہے ہوں گے۔ میری نگاہ جب محمد عمر میمن کے معاصرین کی طرف جاتی ہے تو ان کی خاموشی حیران کر تی ہے۔ خاموشی کا اصل سبب کوئی کیسے بتا سکتا ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ محمد عمر میمن کی صلاحیتیں بہتوں کے لیے پریشانی کا سبب رہی ہوں گی۔ لیکن اصل سبب تو ان کے تراجم ہیں جنھیں پڑھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ ترجمے کو پڑھنے کی زحمت سے بچنے والوں نے یہ بھی سوچا ہو گا کہ وہ کوئی اپنی چیز تو پیش کرتے نہیں۔ محمد عمر میمن کو عربی، فارسی، انگریزی زبانوں پر قدرت تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے کسی بھی معاصر نقاد اور ادیب کو اتنی زبانوں پر ایسی قدرت ہوگی ۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مباحث میں انھوں نے اس طرح شرکت نہیں کی ۔ وہ اگر چاہتے تو لسانی مباحث کو بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے اور سمجھا سکتے تھے ۔ جن لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی ان کی صلاحیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر کم سے کم فکشن کے تعلق سے محمد عمر میمن کی جو نظر تھی وہ کسی کے پاس نہیں تھی۔ نئے افسانے اور نئی شاعری کی زبان کے تعلق سے جن کتابوں اور ادیبوں کا ذکر ہوتا رہا ہے ان سے میمن کی آشنائی نسبتاً زیادہ تھی۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ انھوں نے فکشن کا مطالعہ کیا تھا اور فکشن کی تنقید نے ان کے مطالعے کو خراب نہیں کیا۔ فکشن کی تنقید جن لوگوں نے لکھی وہ تنقید کو پڑھ کر زیادہ لکھی۔ ’شب خون‘ میں محمد عمر میمن کی دو گفتگوئیں شائع ہوئیں۔ دونوں کا موضوع فکشن ہے۔ ایک گفتگو میں آصف فرخی شریک ہیں اور دوسری گفتگو میں انتظار حسین۔ میں نے محمد عمر میمن کو پہلی مرتبہ آصف فرخی اور عمر میمن کی گفتگو سے جانا تھا۔ اس گفتگو میں مین را کے بارے میں ایک سخت بات کہی تھی کہ ان کے یہاں Mental block ہو گیا ہے۔ عمر میمن کے یہ خیالات میری کتاب ’بلراج مین را: ایک ناتمام سفر‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ Mental Block کا ذکر جب میں نے مین را سے کیا تو کہنے لگے کہ وہ میرے دوست ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میمن سے محبت کرنے والے لوگ ایسے تھے۔ ’شب خون‘ کی دونوں گفتگو اگر توجہ سے پڑھی جائے تو اندازہ ہو گا کہ وہ باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر صاف گو تھے۔ ان کی بہت سی باتیں اتنی اہم ہیں کہ انھیں جدید فکشن کے تعلق کا حوالہ بننا چاہیے لیکن باضابطہ نقادوں کو اپنی تنقید پڑھوانے اور اپنے بارے میں لکھوانے سے کہاں فرصت تھی۔
ان کا افسانوی مجموعہ ’تاریک گلی‘ بھی فراموش کر دیا گیا۔ اب تو یہ مجموعہ دستیاب نہیں ہے۔ محمد عمر میمن نے افسانہ نگاری ترک کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اس بات کی شکایت تھی کہ فکشن کے نقادوں نے ان کے افسانوں کو نظر انداز کیا۔ عمر میمن سے آصف فرخی نے سوال کیا تھا۔ آپ نے افسانہ لکھنا کیوں چھوڑ دیا:
’’میرے لیے یہ کہنا بڑا مشکل ہے۔ ایک وقت آیا کہ میں نہیں لکھ پایا۔ نہ لکھ سکا نہ لکھنے کی کوئی تحریک ہوئی۔ لکھنے بند کر دیے۔ تو یوں سمجھیے کہ بند کرنا تو ایک شعوری کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ میں نے نہ کسی شعوری کاوش کے تحت لکھنا شروع کیا تھا نہ بند کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا موڑ آئے کہ میں پھر لکھنے لگوں۔ تعطل کی کیفیت ضرور ہے ان دنوں۔ پھر یہ بھی کہ اگر میں منکسر المزاج نہیں تو کم از کم یہ ضرور ہے کہ جو لکھا وہ اب اتنا کوئی خاص اہم بھی نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ اگر کچھ لکھوں گا تو یہ خواہش ہو گی کہ اس نوشتے کا خود میری نظر میں کوئی مقام ہو۔ اب ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں یہ تو خدا جانے۔ فی الحال لکھنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ صرف پڑھنے کا ہے۔ ڈٹ کر پڑھنے کا‘‘۔
عمر میمن کے تعلق سے محمد سلیم الرحمٰن کی دو تحریریں مطالعے میں آئیں ۔ ایک کا عنوان ہے محمد عمر میمن اور ادیبوں کا شیش محل ۔ یہ کالم 25.12.2017 کو شائع ہوا ۔ دوسرا کالم 19.06.2018 کو شائع ہوا۔ یہ دوسرا کالم میمن کے انتقال کے بعد لکھا گیا جسے تعزیتی تحریر بھی کہا جا سکتا ہے۔ سلیم الرحمٰن کے کالمز کو پڑھ کر اس بات کی خوشی ہوئی کہ ہمارے عہد کے ایک اسکالر نے دوسرے بڑے اسکالر کو اس کی زندگی میں اور رحلت کے بعد یاد تو کیا۔ ’’محمد عمر میمن اور ادیبوں کا شیش محل‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نیر مسعود پر خاص طور پر مہربان رہے۔ پہلے دونوں سے شاکی بھی ہیں۔ سنا ہے کہتے ہیں میں نے ان تینوں کو انگریزی خواں دنیا میں متعارف کرایا لیکن انھوں نے کبھی میرے حق میں کلمۂ خیر نہیں کہا۔ نیر مسعود کچھ کہنے سننے کے قابل نہیں رہے۔ گوشہ نشیں بلکہ بستر نشیں ہو چکے۔ باقی دو حضرات اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میرا خیال نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی نے کبھی مُصر ہو کر محمد عمر میمن سے کہا ہو کہ للہ، ہمارے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کر دیجیے تاکہ ہمیں زیادہ شہرت حاصل ہو۔ میمن نے ان کے تراجم کیے تو اپنے شوق سے۔ پھر شکوہ کیسا؟ اردو میں جب افسانہ نگاروں کا ذکر آتا ہے تو عمر میمن کا نام کوئی نہیں لیتا۔ وجہ یہ کہ ان کے افسانوں کا واحد مجموعہ مدتوں پہلے چھپا تھا ۔ افسانہ نگاری سے وہ تقریباً تائب ہو چکے ہیں۔ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے اکثر حضرات زودفراموش واقع ہوئے ہیں۔ کسی کو میمن کا خیال کیوں آئے گا‘‘۔
محمد عمر میمن کو اس بات کا احساس تھا کہ انتظار حسین ، عبداللہ حسین اور نیر مسعود نے ان کے حق میں کوئی کلمۂ خیر نہیں کہا تو یہ گرفت کی بات نہیں ہے۔ عمر میمن نے گم شدہ خطوط کا انتساب نیر مسعود کے نام کیا تھا ان الفاظ کے ساتھ۔ نیر مسعود کے لیے ’جو جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ‘۔
بے شک محمد عمر میمن نے اپنے شوق سے ان فکشن نگاروں کی تحریروں کو انگریزی میں منتقل کیا۔ لیکن سلیم الرحمٰن کو اس بات سے اتفاق ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بڑے ادیبوں کا حال یہ ہے کہ وہ شکریے کے لیے زبان کھولتے نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ترجمہ نگار نے اگر ترجمہ کیا ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے اور وہ اس لائق تھے کہ ان کے فکشن کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ چپ رہنا کوئی بڑائی کی بات نہیں وہ بھی ایسے معاملات میں جن کا تعلق آپ کی تحسین سے ہے۔ یہ بات تہذیب میں شامل سمجھی جاتی ہے کہ اگر اپنے بارے میں کوئی گفتگو ہو رہی ہے تو بظاہر اس سے بے نیازی کا اظہار کیا جائے۔ یہ ایک طرح کی اداکاری ہے۔ مجھے سلیم الرحمٰن کے خیالات سے اتفاق ہے مگر یہ بھی کوئی اعلیٰ ظرفی ہے کہ آپ اپنے دوستوں کی نوازشات پر خاموش رہیں۔ اب تو چاروں حضرات رخصت ہو چکے ہیں اور کہہ سکتے ہیں ‘بہم چاروں ایک ۔
نیٹ پر نیر مسعود کا ایک خط ہے جو انھوں نے 15 جنوری 2008 کو لکھنؤ سے لکھا تھا:
’’ برادرم میمن صاحب
بہت دن سے آپ سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے۔ آپ بھی اب دنیا سے اور زیادہ الگ تھلگ رہنے لگے ہیں۔ میں پہلے ہی الگ تھلگ تھا اب اور بھی دور ہو گیا ہوں ۔
سرسوتی سمان کی خبر آپ کو یہ خط پہنچنے سے پہلے پہل مل جائے گی ۔ اصل مبارک باد کے مستحق تو آپ ہیں اور آپ کے ترجمے ۔ اس وقت یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو مبارک باد پیش کروں اور شکریہ‘‘۔
کم سے کم نیر مسعود کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے عمر میمن کے ترجموں کے لیے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا ۔
سلیم الرحمٰن نے اپنے کالم میں محمد عمر میمن کے ترجموں کو بڑا سرمایہ بتایا ہے :
’’ اب اتفاق سے جسے اردو قارئین کی خوش قسمتی ہی سمجھنا چاہیے ، ان کے کیے تراجم کا سلسلہ تین جلدوں میں سامنے آیا ہے ۔ اس میں بین الاقوامی سطح پر مشہور ادیبوں سے کیے گئے انٹرویوز شامل ہیں ۔ آخری جلد میں انتظار حسین کا انٹرویو بھی ٹانک دیا ہے‘‘۔
سلیم الرحمٰن نے انتظار حسین کے انٹرویو کے لیے ’ٹانکنا‘ لفظ استعمال کیا ہے۔ معلوم نہیں ، یہ کالم عمر میمن کی نگاہ سے گزرا کہ نہیں ۔ سلیم الرحمٰن نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
’’ اردو بھی اچھی بھلی آتی ہے ۔ نثر میں کہیں کہیں غرابت پائی جاتی ہے۔ جو بھی سہی یہ تین جلدیں نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ‘‘۔
عمر میمن نے اپنے تمام اہم معاصرین کو توجہ سے پڑھا تھا ۔ عجیب بات ہے کہ اگر کوئی تخلیق کار تنقید یا ترجمے کی طرف نکل آئے تو ہمارے بعض تخلیق کار یہ سمجھتے ہیں کہ بطور تخلیق کار اس کا حوالہ کیوں آئے ۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر محمد عمر میمن کے معاصرین نے جو رویہ ان کے تعلق سے اختیار کیا اس میں ایک سیاست بھی تھی اور شرارت بھی ۔ ہر باعلم اور باضمیر شخص کو غصہ آتا ہے اور وہ بہت دیر تک بے وقوفی کی باتیں برداشت نہیں کر سکتا ۔ دہلی میں عمر میمن کے دوستوں اور ملنے والوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد ناراض ہو جاتے تھے ۔ میرے لیے یہ بات غیر متوقع نہیں تھی ۔ عمر میمن کی فکری تشکیل میں جن متون کا اور شخصیات کا حصہ رہا ہے ان کی نشان دہی اس لیے مشکل ہے کہ عمر میمن نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کی ۔ لیکن ان کے ترجمے اور دیگر تحریروں سے ہمیں اس بات کا علم ہو سکتا ہے کہ ان کی فکری تشکیل میں کن شخصیات اور کتابوں کا اہم کردار ہے ۔ عمر میمن کے جن معاصرین کے یہاں شدید غصہ پایا جاتا تھا اور جو بہت جلد ناراض ہو جاتے تھے ۔ فکری اور ذہنی سطح پر یہ سب ایک ہی طرح کے لوگ تھے ۔ بعض شخصیات غصہ پر قابو پا لیتی ہیں اور اس سے زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔
باقر مہدی ، بلراج مین را اور عمر میمن وغیرہ نے زندگی کو آسان بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ کمال یہ ہے کہ ان تینوں کو ایسے احباب ملے جن کے یہاں علم کے ساتھ ساتھ ٹھہراؤ اور ضبط ہے ۔ مجھ سے جب شمیم حنفی یہ کہتے ہیں کہ عمر میمن غیر معمولی صلاحیت کے آدمی تھے تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ یہ کسی غیرمعمولی صلاحیت تھی جس سے ہمارا ادبی معاشرہ مجموعی طور پر بے خبر تھا ۔ جنھیں محمد عمر میمن کی غیرمعمولی صلاحیت کا احساس تھا انھوں نے یہ سوچنے میں خاصا وقت گزار دیا کہ عمر میمن پر کس زاویے سے گفتگو کی جائے ۔ عمر میمن ان حضرات کو خاموشی کے ساتھ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ آپ میرے بارے میں کیا سوچیں گے ، کب تک سوچیں گے اور کیا لکھیں گے ، میں تو چلا ۔ میں نے عمر میمن کے زیادہ تر ترجمے جو حاصل کر لیے ہیں اور انھیں پڑھا بھی ہے ۔ انھیں پڑھنا اور توجہ سے پڑھنا کیا آسان ہے؟ کہنے کو تو کسی لفظ یا جملے کے بارے میں لکھا جا سکتا ہے کہ یہاں یہ لفظ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ علم و ادب سے وابستہ ہر شخص کو ترجمے کا کام کسی نہ کسی طور پر کرنا ہی پڑتا ہے ۔ ترجمہ متن کی روح میں اترنے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو فکری سطح پر مجتمع کرنا بھی ہے ۔ محمد عمر میمن نے ترجمے پر مشتمل اپنی کتاب کا نام ’آوارگی‘ رکھا ۔ اس کا پیش لفظ اگر توجہ سے پڑھا جاتا تو یہ حقیقت سمجھ میں آتی کہ ترجمہ محمد عمر میمن کے لیے کوئی خوش گوار عمل نہیں رہا ہے ۔ ایک ادب کو دوسری زبان میں منتقل کر کے کیا ہمیں جشن منانا چاہیے ۔ اس بات کا تعلق مترجم کے علم و احسا س سے ہے ۔
محمد عمر میمن نے کتاب کا نام ’آوارگی‘ رکھا اور پیش لفظ کا عنوان ’واماندگی شوق‘ ہے۔ ’آوارگی‘ اور ’واماندگی شوق‘ میں ایک رشتہ یہ ہے کہ آوارہ مزاجی انسان کو فکری طور پر چاہے جہاں لے جائے اسے مختلف مقامات پر ٹھہرنا پڑتا ہے ۔ غالب کے اس مصرعے ’واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں‘ نے میمن کو بڑا حوصلہ بخشا ہے۔ ’آوارگی‘ کا انتساب ’بے وطنی کے نام‘ ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح عمر میمن کے لیے ترجمے کا عمل زندگی کا اسلوب بن گیا ہے۔ بے وطنی بھی ایک آوارگی ہے مگر بے وطنی عام طور پر مسافر کو وطن کے تئیں جذباتی بنا دیتی ہے ۔ خصوصاً شاعری میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں ۔ عمر میمن 1939 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور 1954 میں ان کی فیملی کراچی منتقل ہو گئی۔ میں نے عمر میمن کو کسی تحریر میں اپنے وطن کے تعلق سے جذباتی نہیں پایا ۔ وہ 1965 میں ایک فیلو شپ کے ساتھ امریکہ چلے گئے ۔ ہاورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ ان کی پوری زندگی ذہنی سطح پر آوارگی کا شکا ررہی ۔ ان کی نگاہ میں فکری و نظری مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی بہترین صورت یہ تھی کہ جغرافیائی حدود کا احترام کرتے ہوئے کسی طرح کی بندش قبول نہ کی جائے ۔ ’ آوارگی ‘ کا پیش لفظ ساڑھے تین صفحہ کا ہے لیکن میں اسے عمر میمن کی زندگی کے اسلوب کے طور پر دیکھتا ہوں ۔ اس میں عمر میمن کی شخصیت کچھ اس طرح سمٹ آئی ہے کہ جیسے یہ مختصر سی تحریر ’ آوارگی ‘ کی تحریروں کا تعارف نہ ہو بلکہ عمر میمن کی ذات کا تعارف ہو ۔ بے وطنی ایک عذاب ہے لیکن عمر میمن کے لیے نہیں ۔ عمر میمن کے بیشتر معاصرین جو ہندوستان اور پاکستان میں تھے ، مختلف علاقوں اور خطوں سے نکل کر دہلی ، لاہور اور دوسرے بڑے شہر میں آباد ہوئے ۔ عمر میمن کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جس نے اپنی غریب الوطنی کو ادبی سفر کا مسئلہ نہ بنایا ہو ۔ محمد عمر میمن نے اردو ادب کے پرانے اور نئے مسائل و موضوعات پر دوسرے نقادوں کی طرح نہیں لکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بس ان کے ترجموں کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ ترجموں کا کیا ہے وہ تو دوسروں کا مال ہے اور ایک طرح سے ہڑپنے جیسا ہے ۔ آج بھی کچھ لوگ ترجموں کے تعلق سے ایسا ہی سوچتے ہیں ۔ ’ آوارگی ‘ کے پیش لفظ سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی علمی و ادبی کام اگر شخصیت کا لازمی حصہ نہ بنے تو اس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوتے ۔ پیش لفظ کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے:
’’ آوارگی غیر عورتوں سے تاک جھانک کا نام تو خیر ہے ہی، لیکن یہ ذہنی سفر کا استعارہ بھی ہے، ایسا سفر جس پر نکلنے کا کوئی وقت مقرر نہ ہو، کسی خاص منزل پر پہنچنے کی قید نہ ہو، نہ راستے کا نقشہ ہو، حتی کہ اپنے گھر کی چا ردیواری چھوڑنے کی شرط بھی نہ ہو۔ چلیں تو مفروضوں کا پشتارہ لاد کر نہ چلیں۔ زادِ راہ کے طور پر بس صحت مند تشکیک اور جان دار تجسس کی وافر مقدار ساتھ رکھ لی جائے اور شریک سفر کے طور پر اپنی تنہائی ‘‘۔
آوارگی کی اس سے بہتر تعریف اور کیا ہو سکتی ہے ۔ اس میں اگر کوئی چیز آوارگی کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ آوارگی کا محدود تصور ہے ۔ تشکیک ، تجسس اور تنہائی کا ذکر جدیدیت کے مباحث میں بہت آیا ہے ۔ محمد عمر میمن نے جس صحت مند تشکیک ، تجسس اور تنہائی کی بات کی ہے اس کا تعلق کسی خاص وقت کی ادبی صورت حال سے نہیں ہے ۔ یہ وہ تشکیک ہے جو غالب کے یہاں تھی بلکہ ایک جگہ تو عمر میمن نے میر کے مصرع ، ’’ یہ توہم کا کارخانہ ہے‘‘ کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ محمد عمر میمن کی تنہائی کا رشتہ دنیا بھر کے ان اشخاص کی تنہائی سے ہے جنھوں نے نے علم و ادب کی دنیا میں آوارگی اختیار کی ہے ۔ ادب تخلیق کرنا یا ادب کا ترجمہ کرنا ، روح تو ایک ہی ہے ۔ تنہائی کی عزت وہی لوگ کرتے ہیں جو زندگی میں کچھ سوچنا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ محمد عمر میمن نے آوارگی کو تاک جھانک کے طور پر بھی دیکھا ہے ۔ اسے پڑھ کر میر کا شعر یاد آیا :
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
محمد عمر میمن نے ترجمہ کا جو کام کیا ہے وہ اولاً تو مطالعے کی طرف ہمارے ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مطالعہ کرنا اتنا خوب صورت عمل ہے کہ اس کے بارے میں بس یہی کہنا چاہیے کہ ’’ کہا جو کچھ تو ترا حسن ہو گیا محدود‘‘۔ عمر میمن نے متون کو جتنی بار پڑھا ہے اس بارے میں ہم اندازہ ہی کر سکتے ہیں ۔ ان مطالعات کا حاصل ترجمہ ہی نہیں بلکہ وہ فکر و بصیرت بھی ہے جو تنقید کی صورت میں ہمارے سامنے نہیں آ سکی ۔ اگر کہیں کچھ ہے بھی تو وہ بہت مختصر ہے ۔ کوئی اور ہوتا تو ترجمے کے ساتھ تنقید بھی شامل کر دیتا ۔ عمر میمن کو اس بات کا حق حاصل تھا ۔ اس طرح فکشن کی تنقید کا ایک اچھا معیارسامنے آ جاتا ۔ یہ بھی سوچیے کہ عمر میمن نے ترجمے کے لیے فکشن کی تنقید کا انتخاب کیوں نہیں کیا ۔ مظفر علی سید نے ڈی ایچ لارنس کے مضامین کا ترجمہ کیا تھا ۔ اس سلسلے میں محمد عمر میمن حسن عسکری کی روش پر قائم رہے ۔
محمد عمر میمن نے توشی ہیکو ازستو کی تصنیف Creation and the Timeless Order of Things: Essays in Islamic Mystical Philosophy کے ساتویں باب کا ترجمہ ’وجودیت : مشرق و مغرب‘ کے عنوان سے کیا تھا ۔ اخیر میں محمد عمر میمن نے لکھا ہے :
’’ آخراً ۔ اب محمد حسن عسکری تو اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اگر ہوتے تو اس اقتباس کو پڑھ کر خوش ہوتے ۔ میں اس ترجمے کو ان کے نام معنون کرتا ہوں‘‘۔
محمد حسن عسکری کی مشرقیت ایک مستقل موضوع ہے ۔ عمر میمن نے اس ایک اقتباس کے ترجمے کی اشاعت پر انھیں نہ صرف یاد کیا بلکہ اسے ان کے نام معنون کیا ۔ یہ بظاہر ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے مگر جن لوگوں کی نگاہ میں عسکری کی تحریریں ہیں ، وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عمر میمن نے اس باب کا ترجمہ کر کے محمد حسن عسکری کے خواب کو بھی ایک معنی میں شرمندۂ تعبیر کیا ہے ۔ حسن عسکری نے استاں وال اور مادام بواری کے ناول کو اردو میں منتقل کیا ۔
محمد عمر میمن کے تنقیدی خیالات جہاں سامنے آتے ہیں وہاں وہ کسی ناول نگاری کا حوالہ دیتے ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے تنقیدی خیالات بھی تخلیق کاروں کے خیالات سے تحریک پا کر وجود میں آئے ہیں ۔ ان خیالات کی حیثیت نظری بھی ہے اور عملی بھی ۔ عمر میمن نے کاش کچھ ایسے مضامین قلم بند کیے ہوتے۔ ’آوارگی‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ میلان کنڈیرا جس سے ہم آنے والے صفحوں میں بار بار ملیں گے ۔ کہتا ہے کہ ناول کا ایسی فضا میں گزارا ممکن نہیں جہاں پیر کے نیچے ٹھوس زمین اور سر کے اوپر آسمان کا سایہ ہو ۔ اس دنیا میں دھرا ہی کیا ہے جس پر یقین مطلق کے درجے کو پہنچنے کا گمان کیا جا سکے ۔ ’’ یہ توہم کا کارخانہ ہے‘‘۔ خود میرے حساب میں بھی جدید دنیا میں جو بے پناہ تضاد پایا جاتا ہے اس میں کسی عقیدے کا راسخ ہونا یا اس اعتبار سے پنپ جانا ، محض اتفاقی امر ہے ، عمومی نہیں ۔ اقدار سے بتدریج خالی ہوتی ہوئی جدید دنیا میں زندگی کرنے کی جو دو ایک شکلیں بچ جاتی ہیں ان میں ’ کلبیت ‘ اور ’ حس مزاح‘ کو امتیاز حاصل ہے۔ ہمیں آدرش کی خاطر سر کٹانے کا درس دیا جاتا ہے لیکن کسی آدرش پر جرح کرنے کی آزادی نہیں ‘‘۔
اس اقتباس کو بھی ’آوارگی‘ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے ۔ میلان کنڈیرا کا ذکر ان دنوں ایک فیشن سا بن گیا ہے ۔ عمر میمن نے جب کنڈیرا کو منتخب کیا تو وہ ان کی داخلی ضرورت تھی ۔ یہاں کنڈیرا کے جس خیال کو پیش کیا گیا ہے وہ تو ہمارے معاشرے کے لیے آج بھی اجنبی ہے ۔ اگر فکشن لکھنے والوں سے کہا جائے کہ آپ تخلیقی سطح پر اس بے پناہی کا تصور کیجیے اور محسوس کیجیے تو ان کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہو گی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین اور آسمان سے فکشن نگار کا کوئی تعلق نہیں ۔ حقیقت کا تصور اس قدر یک رخا اور عمومی ہے کہ ہمارا رائٹر کچھ مختلف نہ دیکھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے ۔ عمر میمن کی فکری بغاوت کا اظہار دوسروں کی تحریروں کے حوالے سے زیادہ ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں ایک ایسا شخص تھا جس نے دنیا کے بڑے فکشن کا مطالعہ کیا تھا اور وہ اس لحاظ سے دوسروں سے فائق تھا ۔ عمر میمن نے کلبیت اور حسِ مزاح کا جو تجزیہ کیا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے ۔ انھوں نے ایک ایسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے جس کی گرفت میں نام نہاد دانشور طبقہ ہے یعنی فکر میں گنجائش پیدا کر لینا ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عمر میمن نے جس گنجائش کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا تعلق انسان کی بڑھتی ہوئی آرزوؤں سے ہے ۔ آرزوئیں ہی انسان کو حددرجہ ذلیل بھی کراتی ہیں اور بے ضمیر بھی ۔ انسان ہر کس و ناکس کی تعریف کرنے لگتا ہے ۔ کبھی محفل میں تو کبھی خلوت میں ۔ رائٹر کا کردار اس قدر مشکوک ہو گیا ہے کہ میلان کنڈیرا کا نام لینا بھی بے شرمی اور ڈھٹائی ہے ۔ عمر میمن لکھتے ہیں:
’’ آپ ہر چیز کو سننے اور دیکھنے کے لیے اپنی فکر میں گنجائشیں پیدا کر لیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ، آپ کسی شے کو فی الفور مسترد نہیں کرتے۔ قدروں کی یہ مساوات شاید اس صدی کا نادانستہ، لیکن اتنا ہی ناگزیر، انسانی عطیہ ہے‘‘۔
آج کے ادبی معاشرے میں عمر میمن کے اس خیال کو اہمیت دینے کا مطلب اپنی حد سے بڑھی ہوئی آرزوؤں کا خون کرنا ہے ۔ ایک دم سے کسی شے کو مسترد کر دینے کی روایت باقر مہدی اور بلراج مین را کے ساتھ رخصت ہو گئی ۔ اب جو لوگ مسترد کرتے بھی ہیں تو اس میں خاصا وقت لگتا ہے اور اس درمیان وہ خاموشی کے ساتھ کوئی اور چال چل دیتے ہیں ۔ آوارگی کا یہ پہلو بھی دیکھیے :
’’ باقی رہی حسِ مزاح تو یہ مضحکہ خیزی کے مترادف نہیں ۔ اس کا صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ جب جملہ امورِ انساانی ، انتہائے کار اضافی ہیں اور ’’ جزو ہم نہیں ہستیِ اشیاء ‘‘ تو آپ کسی چیز کے بارے میں سنگین رویہ اختیار نہیں کر سکتے اور یہ ٹھیک اس چیز سے اپنے دل سوز تعلقِ خاطر کی بنا پر (ایک اور قول ِ محال) اگر سیریس ہو گئے تو اس کی زد میں آجائیں گے ۔ پھر آپ اسے دیکھ نہیں سکیں گے ۔ اسے قبول نہیں کر سکیں گے اور قبول کرنے کا مطلب صرف اس کے وجود کا اقرار ہے ۔ اس پر ایمان نہیں ۔ آپ چاہیں تو اسے رواداری کہہ لیں ۔ الغرض اشیاء کو بطور مزاح برتنے کی کوشش کریں‘‘۔
میرا خیال ہے کہ حسِ مزاح اکثر اوقات انسان کو عام گفتگو میں مضحکہ خیز بنا دیتی ہے ۔ مزاح لکھنا دوسری بات ہے۔ یوں میں لکھنے میں بھی ابتذال پیدا ہو جاتا ہے۔ سیریس تو ہونا ہی پڑتا ہے اور اس صورت میں زد میں آنا فطری ہے۔ زد میں آنے کی ایک صورت نہیں ہے۔ سنجیدگی اور مزاح کے درمیان توازن پیدا کرنے کی تو عمر میمن نے بھی شاید کوشش نہیں کی ۔ سارا مسئلہ سنجیدگی کا ہے ، حسِ مزاح کا نہیں ۔ عمر میمن کی یہ بات دلچسپی ہے کہ قبول کرنے کا مطلب وجود کا اقرار ہے ، ایمان نہیں ۔ لیکن قبولیت کی آخری منزل تو ایمان ہی ہے اور عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے ۔ ویسے قبول کرنے کے اسباب عملی زندگی میں پائے جاتے ہیں ۔ تصور کی سطح پر انسان کسی نظام کی آمریت اور کسی شخص کی حماقت کو برداشت نہیں کرتا ۔ یہ اور بات ہے کہ آمریت کے خلاف بغاوت کی بھی روایت رہی ہے ۔ حسِ مزاح اکثر اوقات اپنے ساتھ ابتذال بھی لاتی ہے ۔ انسان اچھی تحریروں کے مطالعے سے جی چرانے لگتا ہے اور ہر سنجیدہ گفتگو کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتا ہے ۔ عمر میمن کی بات نفسیاتی پہلو بھی رکھتی ہے ۔ اگر سامنے والے کو پتہ چل جائے کہ آپ سیریس ہیں یا ہو سکتے ہیں تو پھر وہ بہت سی باتیں چھپانے لگتا ہے جن کا جاننا عملی زندگی میں ضروری ہے لہٰذا بے وقوف آدمی کو بھی سنا جا سکتا ہے اور برداشت کیا جا سکتا ہے ۔ مگر جسے ایک دم مسترد کر دینا کہتے ہیں اس کا اپنا حسن اور اس کی اپنی طاقت ہے ۔ محمد عمر میمن نے اپنے آپ پر بھی قہقہہ لگانے کی بات کہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام مشکل ہے ناممکن نہیں ۔ محمد عمر میمن کے کئی ایسے احباب تھے جنھوں نے اپنا مذاق بھی اڑایا مگر وہ کسی بے وقوف آدمی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے ۔ تمام عمر ان کے یہاں ایک ایسی کیفیت رہی جو اپنی ذات اور زمانے سے برسرپیکر ہونے کا نتیجہ تھی ۔ جنگ اپنی ذات سے بھی لڑنی پڑتی ہے لیکن اس کے لیے باقر مہدی اور بلراج مین را بننا پڑتا ہے ۔ پھر زمانہ بھی اس کی زد میں آتا ہے ۔ ہمارے یہاں زیادہ تر لوگوں نے زمانے کے ساتھ جنگ لڑی ہے اور ان کی اپنی ذات داخلی سطح پر بہت آسودہ تھی ۔ عمر میمن نے یہ بھی لکھا ہے :
’’ میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے زندگی میں نظم و ضبط کے محض خیال ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے ۔ اس کی نفسیاتی وجہ شاید یہ ہو کہ میری زندگی خود بڑے جان لیوا نظم و ضبط کی پابند ہے جس سے سرمو انحراف کے بڑے خوفناک نتائج نکلتے ہیں ۔ میرے لیے بھی اور مجھ سے وابستہ دوسروں کے لیے بھی ۔ جب آپ کسی ناگزیر ذمے داری کی وجہ سے پابہ زنجیر ہو جائیں ۔ اس پر سفر مدام سفر کا بھی آپ کو ہُوکا ہو ، تو کسی صورت میں آپ اپنے اور اپنے اردگرد ایک ایسی مجرد فضا ، ایسا Inner space تخلیق کر لیتے ہیں جس میں زنجیروں کے باوصف پرواز کی آزادی ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے ، میرا اشارہ مطالعے کی طرف ہے‘‘۔
بالآخر آوارگی مطالعے کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور حاصل بھی۔ عمر میمن کے مطالعے کا رخ اس لحاظ سے دوسروں سے مختلف تھا کہ ان کے یہاں معاصرین پر لکھنے اور انھیں کسی بھی اعتبار سے خوش کرنے کی روش نظر نہیں آتی ۔ مطالعہ کی بات عمر میمن تک محدود نہیں ہے ۔ مطالعہ کرنے والے پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر یہ واقعہ ہے کہ عمر میمن کی سمتیں اور ترجیحات مختلف تھیں۔ ’ترجمہ نگاری‘ کی ترکیب عمر میمن کے لیے استعمال کرتے ہوئے مجھے الجھن سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ اس ترکیب کا ہر کس و ناکس کے لیے استعمال ہے ۔ ترجمہ تخلیق ہی کا بدل ہے بلکہ بعض اوقات مترجم مصنف اول بن جاتا ہے۔ عمر میمن کو صرف ترجمہ نگار کہنا دوسروں کے لیے آسان ہو سکتا ہے میرے لیے نہیں۔ ’تاریک گلی‘ کی موجودگی میں یوں بھی انھیں صرف ترجمہ نگار نہیں کہا جا سکتا ۔
’آوارگی‘ کے پیش لفظ کا یہ اقتباس بھی دیکھیے:
’’اس کتاب میں جو تراجم پیش کر رہا ہوں ان کے انتخاب کی کوئی وجہ جواز میرے پاس نہیں ۔ اور ان میں اگر کسی مخصوص نظم و ضبط کی کمی محسوس ہو تو اسے دانستہ سمجھیے ۔ یہ میرے سفر کے وہ مقامات ہیں جہاں شام پڑنے پر میں رک گیا تھا اور صبح کو کسی نئی آوارگی کی طرف روانہ ہوا تھا۔ میں نے یہاں یہی کوشش کی ہے کہ ہر چیز open ended ہو، کوئی خاص ترتیب نہ در آئے، کسی خاص موضوع سے میرا تعصب تو ضرور ظاہر ہو لیکن اس میں اسے دوسروں کے سر تھوپنے پر اصرار کی کیفیت راہ نہ پا جائے اور ہم رنگی ایک اور موروٹی قدر کے خلاف اپنے جہاد کے طور پر میں نے سنگین مباحث میں ایک ہلکی پھلکی عربی عشقیہ کہانی بھی ٹھونس دی ہے تاکہ کتاب ختم کرتے کرتے آپ مجھ پر ’ہرجائی‘ ہونے کا فتویٰ صادر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ میں ایک موضوع سے نہیں بلکہ مختلف موضوعات سے متعلق سوالوں کا ایک پورا قافلہ ہمہماتا ہوا محسوس کریں، کہیں خلش کا احساس ہو، کہیں آسودگی کا، کہیں حسرت کا، کہیں تجسس کا۔ اگر یہ سب ہو سکے تو میرا خیال ہے کہ گراموفومینا کے اس دور میں ترجموں کی اس کتاب کی اشاعت کا جواز نکل آئے گا‘‘۔
اگر ایک صاحبِ علم ترجمہ نگار سچا اور سنجیدہ قاری نہ ہو تو وہ قراءت کے ان تجربوں سے گزر نہیں سکتا۔ عمر میمن ایک قاری کی حیثیت سے اولاً ان تجربوں سے گزرے ہیں۔ خلش، آسودگی، حسرت، تجسس کی نعمتیں یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں اس کے لیے تو ایک قاری کے طور پر بار بار خود کو فنا کرنا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قراءت کے یہ تجربے رسمی، رواجی اور فوری مفادات کی زد میں آ گئے ہیں۔ ’آوارگی‘ کا پیش لفظ ختم کر کے میں نے سوچا کہ چلیے اب قصہ ختم ہوا اور اب ترجموں کا مطالعہ شروع کروں گا مگر اس سے پہلے ’وضاحت‘ کے عنوان سے ایک چار صفحوں کی ایک اور تحریر سامنے آ گئی ۔ اس وضاحت کا تعلق میلان کنڈیرا سے ہے ۔ اس میں کئی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر عمر میمن کے حوالے سے ضروری ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ان انٹرویوز میں کنڈیرا نے کئی فکر انگیز باتیں کی ہیں ۔ یہ باتیں ہمارے نئے اور پرانے سبھی ادیبوں کے لیے ایک سوغات سے کم نہیں ۔ اہم ترین باتوں کا تعلق بطورِ خاص دو چیزوں ہے ۔ (1) سیاسی استحصال اور نئے غیر ملکی جارحانہ قبضے کے دوران ایک ادیب کا رویہ کیا ہونا چاہیے ؟ اور (2) ناول کی ہیئت میں اتنی لچک ضرور موجود ہے کہ اس میں تقریباً ہر شے سما سکتی ہے۔ شرط بس سلیقے کی ہے۔ سرراہے، اس دوسری بات کے ذیل میں کنڈیرا نے تمثیل (Allegory) اور اسی قسم کی دیگر نہایت خفیہ (esoteric) اصناف کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت بھی کر دی ہے مثلاً تمثیل سے زیادہ کوئی اور شے میرے لیے بے گانہ نہیں۔ تمثیل یعنی محض کسی مفروضے کی تشریح کے لیے گڑھی گئی۔ انہی واقعات کو خواہ وہ حقیقی ہوں یا خیالی، اپنی ذات میں اہم ہونا چاہیے اور قاری کو تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ صما ًبکما ً نہایت سادہ لوحی سے ان کی قوت اور شعریت کی ترغیب میں آجائے ‘‘۔
میلان کنڈیرا کے وہ خیالات جن کا تعلق صنف سے ہے انھیں دہرایا تو جاتا ہے مگر کسی معاشرے میں ادیب کا کردار کیسا ہونا چاہیے اس کا ذکر کم آتا ہے۔ میں نے اردو کے بہت کم ادیبوں کو یہ کہتے سنا کہ میلان کنڈیرا کا بنیادی سروکار اپنا عہد اور زمانہ ہے اور اسے کوئی ایسا اسلوب پسند نہیں جس سے حقائق دھندلے ہو جائیں۔ میلان کنڈیرا کی جن دو باتوں کو عمر میمن نے بطور خاص اہمیت دی ہے وہ بظاہر تو عام سی معلوم ہوتی ہیں لیکن عملی سطح پر ہو کیا رہا ہے ۔ ناول کی ہیئت میں جو گنجائش ہے اس سے تو بہت فائدہ اٹھایا مگر ہمارے بہت اہم لکھنے والوں نے سیاسی استحصال کو سیاست دانوں کا مسئلہ قرار دے کر آنکھیں بند کر لیں۔ زندگی اور کائنات کے جو مسائل روزِ ازل سے سفر میں ہیں ان سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ ہماری شاعری میں ان موضوعات کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ لیکن فکشن اور جدید فکشن کو فکری سطح پر زمانے سے رشتہ قائم کرنا چاہیے تھے اور اس عمل میں وہ تمام فنی وسائل اختیار کرنے چاہییں جن سے فن پارہ میں توانائی آتی ہے ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ناول اپنے عہد سے بھی وابستہ ہو اور موقع موقع سے اس میں کائناتی اور آفااقی شان بھی پیدا ہو جائے ۔ اس کی بہترین مثال انتظار حسین اور قرۃ العین کا فکشن ہے ۔ میلان کنڈیرا اقرار کرتا ہے کہ وہ اگر کسی شے سے سب سے زیادہ بے گانہ ہے تو وہ تمثیل ہے ۔ یہ بات کوئی اتفاقی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک تصورِ ادب اور تصورِ حقیقت تھا ۔ تمثیل سے کنڈیرا کی بے گانگی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے مگر ان کے لیے جو اپنے عہد میں جینا چاہتے ہیں ۔ ہمارے یہاں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو میلان کنڈیرا کے اس خیال کو اصل سیاق میں دیکھ سکیں ۔ ادیب کا کوئی سیاسی نظریہ ہونا چاہیے یا نہیں، اس بارے میں اختلاف کی بڑی گنجائش ہے لیکن میلان کنڈیرا اس بات کا قائل ہے کہ کسی مخصوص سیاسی صورت حال میں ادیب کو کچھ ایسا لکھنا چاہیے کہ وہ پکڑا جائے ۔ اس لیے نہیں کہ اسے پکڑے جانے کی خواہش ہو، بلکہ فکر و خیال کی دنیا کا فطری اظہار ہونا چاہیے ۔ عمر میمن نے میلان کنڈیرا کے حوالے سے اپنے نظریے کا اظہار کیا ہے :
’’ ہمارے بعض ادیبوں نے ان دنوں تجریدیت، تمثیل، حکایت وغیرہ کی راہ پکڑ لی ہے جسے دیکھو اسی کی طرف بگٹٹ بھاگا جا رہا ہے ۔ ان اول جلو ل قسم کے گورکھ دھندوں کو کھنگال جائیے، مجال ہے جو سیاست کے حوالے سے ادیب کا کوئی مخصوص رویہ آپ کی گرفت میں آجائے ۔ رہی قوت اور غنائیت کی بات تو وہ فی الحال در بطنِ شاعر پر امان اپنے ڈھونڈنے والے کی منتظر ہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کا افسانہ اب گھٹ کر اپنے حجم میں کمر معشوق تک آ پہنچا ہے اور اسلام آباد، پنڈی کے بیشتر تیز گام اس دوڑ میں ڈاکٹر صاحب سے بس چند گز ہی پیچھے ہیں ۔ وہ وقت دور نہیں جب افسانے کی جگہ کورا صفحہ پیش کر دیا جائے گا اور سادہ کاپی سب سے بڑا فکشن مان لی جائے گی ‘‘۔
جدید افسانے کے ہیئتی تجربے وقت کے ساتھ سمٹ گئے مگر نئے افسانے کا خالی صفحہ بدستور فر میں ہے ۔ صفحے خالی چھوڑ دینا اب فیشن سا بن گیا ہے بلکہ صفحوں کے درمیان پینٹنگز کا التزام بھی اصل متن کے ساتھ غیر متعلق سا معلوم ہوتا ہے ۔ عمر میمن نے انور سجاد کے مختصر افسانے کو کمر معشوق تک پہنچ جانے سے تعبیر کیا ہے ۔ کچھ ایسے افسانے عمر میمن کے دوست بلراج مین را نے بھی لکھے ۔ عمر میمن نے 1986 میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ ضروری نہیں کہ آج ان کی تمام باتیں پہلے کی طرح اہمیت کی حامل ہوں ۔ اردو میں جدیدیت کے انھی عناصر کو مرکزیت حاصل ہو گئی جو ادب کے سماجی اور سیاسی رشتے کے خلاف استعمال کیے جا سکتے تھے ۔ ایک معنی میں یہ ترقی پسند فکر کی مخالفت بھی تھی ۔ عمر میمن کی ان تحریروں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ دیارِ غیر میں بیٹھا ایک صاحبِ نظر ادیب جدیدیت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا بلکہ اسے حیرانی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ حیرت کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ادب کو اور خصوصاً جدید ادب کو سماجی اور سیاسی مسائل سے الگ کے دیکھنے کی وکالت کی جانے لگی ۔ یہ اقتباس بھی دیکھیے :
’’ اس میں کلام نہیں کہ Fable, Parable, Allegory اور اس قسم کی دوسری ’اخفائے راز‘ اصناف کی ریل پیل سیاسی بحران اور آمریت کے دور میں بڑھ جاتی ہے ۔ کنڈیرا کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تجرید کی پیچیدگیوں سے بچ نکلنے کی راہ ضرور موجود ہے ۔ شخصی اور عوامی عناصر کس طرح حس لطیف کے بھرپور استعمال کے ذریعے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوصف کس طرح ایک دوسرے سے اعراض بھی کرتے ہیں ۔ یہ ہم کنڈیرا سے سیکھ سکتے ہیں‘‘۔
محمد عمر میمن تجربے کو ادب کے لیے ضروری سمجھتے ہیں مگر ان کا تعلق تخلیقی تجربے سے لازماً ہونا چاہیے ۔ محمد عمر میمن اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ بعض ادبی تجربے وقت کے ساتھ سمٹ جاتے ہیں اور کچھ میں نمو کی کیفیت ہوتی ہے ۔ جن تجربوں میں نمو کی کیفیت ہے وہ جامد تجربوں کی فضا ہی میں تشکیل پاتے ہیں لہٰذا تجربوں کے سلسلے میں ایک کشادہ ذہنی کی ضرورت ہے ۔ عمر میمن نے ناول کی صنف میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو عالمی سطح پر دیکھا ہے ۔ اردو ناول کے تجربے بھی ان کی نگاہ میں تھے ۔ پھر انھیں انتظار حسین کا خیال آتا ہے:
’’ انتظار حسین صاحب یہ پڑھ کر اطمینان کی سانس لیں گے کہ بقول کنڈیرا ناول کی ہیئت ہے ہی اتنی لچک دار کہ اس میں سب کچھ سما سکتا ہے ۔ اس قسم کی باتیں وہ اپنے ’ڈیڑھ بات اپنے افسانے پر‘ میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں ۔ وہ ناول کی مروجہ ہیئت کو ضرور توڑیں لیکن اس قسم کے بیان سے جو توقع پیدا ہوئی ہے اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کریں ۔ ان سے افسانے اور ناول کی ہیئت میں جس وسعتِ تجربہ کی امید تھی وہ بہرحال اب بھی قائم ہے‘‘۔
انتظار حسین کے یہاں وسعتِ تجربہ کا مفہوم بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔ عمر میمن کو ان سے جس وسعتِ تجربہ کی امید تھی معلوم نہیں کہ ان کی نگاہ میں وہ پوری ہوئی یا نہیں۔ میرا خیال ہے وسعتِ تجربہ کے سیاق میں انتظار حسین کے ناولوں کو دیکھا تو جا سکتا ہے مگر وہ مجموعی طور پر ناول نگاروں کو وسعتِ تجربہ کی طرف متوجہ کر رہے تھے ۔ بلراج مین را نے انتقال سے چند ماہ قبل ایک ملاقات میں مجھ سے کہا تھا کہ انتظار صاحب فکری لحاظ سے منٹو سے بڑے ہیں۔ اس ضمن میں مین را نے ان کے کسی تجربے کا ذکر نہیں کیا۔ عمر میمن نے ان مباحث میں فکر کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تجربہ فکر سے خالی نہیں ہو سکتا، بلکہ فکر تجربے کی طرف لے جائے گی :
’’میں حاشا و کلا New-novel anti-novel ، تجرید اور اس قسم کے دوسرے تجربوں کا مخالف نہیں جو چند سال پہلے تک فرانس میں ہوتے رہے ہیں اور آج جدیدیت کے نام پر ہمارے یہاں دہرائے جا رہے ہیں ۔ اگر ہیئت کی ارتقائی تاریخ کے بے پناہ اندرونی پیشہ ورانہ سنجیدگی سے برتا جائے تو پھر ان کی حیثیت مسلم ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ عام طور پر ہم خود تو کوئی نیا تجربہ کرتے نہیں، دوسروں کے تجربہ کی پیروی کرتے ہوئے اصل تجربے کی مٹی پلید کر دیتے ہیں۔ اس پر ہماری ہوش مندی اور باخبری کا عالم یہ ہے کہ ان تجربوں کی خبر بھی ہمیں اس وقت پہنچتی ہے جب یہ اپنے وطن عزیز میں دم بہ لب ہوتے ہیں یا متروک ہو چکے ہوتے ہیں‘‘۔
تجربوں کے سلسلے میں عمر میمن کے یہ خیالات بہت چونکانے والے نہیں ہیں لیکن دنیا بھر کے فکشن کو پڑھنے کے بعد اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تجربے اندرونی پیشہ وارانہ سنجیدگی کا نتیجہ ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے ایک سخت گیر ادیب کا چہرہ سامنے آتا ہے ۔ اندرونی پیشہ وارانہ سنجیدگی کا فیصلہ بھی بہت آسانی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ ضرور ہے کہ متن کی قراءت کے دوران قاری تجربے کی خارجی اور داخلی ضرورت کو الگ الگ طور پر محسوس کر سکتا ہے ۔ عمر میمن کی دوسری بات بھی اہم ہے کہ ہم خود کوئی تجربہ نہیں کرتے اور اصل تجربے کو اپنے ادب میں برت کر اس کی مٹی پلید کر دیتے ہیں ۔ کیا تجربے کو اپنے سیاق میں برتنا اصل تجربے کو نقصان پہنچانا ہے؟ اس سلسلے میں ایک رائے تو وہی ہو سکتی ہے جو میمن کی ہے مگر دوسری رائے یہ ہے کہ ہم جسے مٹی پلید کر دینا کہہ رہے ہیں وہ ہماری تخلیقی اور تہذیبی ضرورت ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی تجربے کو اسی شکل میں قبول کر لیا جائے ۔ اگر قبول کربھی لیا جائے تو تجربہ ہماری لسانی اور تہذیبی دنیا سے جب ٹکرائے گا تو اس کی داخلی اور خارجی ہیئت کچھ نہ کچھ تو تبدیل ہو گی ۔ ہیئتی سطح پر کسی ہیئت کو برتنا تو ظاہراً اس کی ہیئت کو برقرار رکھتا ہے لیکن داخلی سطح پر جو فضا قائم ہو گی اسے ہم اپنی تہذیبی دنیا کا نام دے سکتے ہیں ۔ تجربے کی اسی منطق کو سنجیدہ قاری بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے ۔ ادبی تجربہ اسی صورت میں دوسروں کے لیے اہم بنتا ہے کہ اسے اپنی تہذیبی ضرورت کے سیاق میں استعمال کیا جائے ۔ عمر میمن کی البتہ یہ شکایت فطری ہے کہ ہم خود کوئی تجربہ کرتے نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ فکری سطح پر ہمارے یہاں بہت سے ادبی و تنقیدی خیالات تھے جنھیں دنیا نے بعد کو منظم طور پر پیش کیا ۔ اس سلسلے میں ضمیر علی بدایونی کے کئی مضامین دیکھے جا سکتے ہیں ۔ عمر میمن کی یہ شکایت بھی بجا ہے کہ ہمیں ان تجربوں کا علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے وطن میں سمٹ چکے ہوتے ہیں ۔ لیکن کوئی فکر اگر کہیں سمٹ گئی ہے تو یہ ممکن ہے کسی دوسرے خطے کے حالات ایسے ہوں کہ وہاں اسے نئی زندگی مل جائے ۔ ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ عمر میمن اپنے بعض موقف کے سلسلے میں نہایت سخت ہیں اور وہ یہ بھی اور وہ بھی کے قائل نہیں ہیں ۔
(2)
عمر میمن کے تراجم کو بہت سے لوگوں نے پڑھا ہوگا لیکن ان سے متعلق خیالات کا اظہار جس طرح محمد حمید شاہد نے کیا اس کی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ ماریوبرگس یوسا کی ایک مختصر سی کتاب Letters to a Young Novelist کا عمر میمن نے ترجمہ کیا جسے ’ دنیازاد‘ نے شائع کیا ۔ اس کتاب میں بارہ خط ہیں ۔ یہ پہلے پہل سمبل (راولپنڈی) میں شائع ہوئے ۔ یوسا کے دو خطوط کی روشنی میں حمید شاہد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ خیالات خطوط کی شکل میں ظاہر کیے گئے تھے ۔ عمر میمن نے ان کی اہمیت کے پیش نظر دوسرے قارئین تک بھی انھیں پہنچانے کی کوشش کی ۔ یہ خطوط اب کہانی اور یوسا سے معاملہ، ’نوجوان ناول نگار کے نام خطوط اور اردو فکشن کے حوالے سے ایک مکالمہ‘ کے عنوان سے موجود ہیں۔ عمر میمن کو حمید شاہد کی اس علمی و ادبی دلچسپی سے بڑا حوصلہ ملا۔ یوسا کے تعلق سے حمید شاید نے کچھ نئی اطلاعات بھی فراہم کیں۔ ان اطلاعات کے سلسلے میں عمر میمن نے دو خطوط میں اپنی رائے بھی دی ہے ۔ ہمارے ادبی معاشرے میں عام طور پر خاموشی پائی جاتی ہے ۔ کچھ بھی لکھ دیا جائے تو لوگ خاموشی ہی میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں حمید شاہد کا یوسا میں دلچسپی لینا ایک واقعہ ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ حمید شاہد کے خط عمر میمن کے ترجمے کا ایک حصہ ہیں اور بجا طور پر اس کا سہرا عمر میمن کے سر باندھنا چاہیے۔ عمر میمن نے حمید شاہد سے کہیں کہیں اختلاف بھی کیا ہے مگر مجموعی طور پر حمید شاہد کے خط عمر میمن کے لیے علمی سطح پر خوش گوار تجربہ ہیں۔ ’نوجوان ناول نگار کے نام خطوط‘ کا پیش لفظ مختصر ہے مگر اسے ’ نوجوان ناول نگار کے نام خطوط ‘ کا فیضان سمجھنا چاہیے۔ عمر میمن نے ابتدا میں یوسا کے ان خطوط کے تعلق سے کچھ وضاحتیں پیش کی ہیں۔ اس کا آخری حصہ نہایت ہی فکر انگیز ہے۔ اسے پڑھ کر خواہش ہوتی ہے کہ عمر میمن نے کاش کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہوئے ہوتے۔ پیش لفظ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ ناقدوں کی عام بیماری ان کا ایک زعم قادر المطلقی ہوتا ہے ۔ وہ یہ اکثر بھول جاتے ہیں غالباً دانستہ بھلا دیتے ہیں کہ کسی تخلیق کی تفہیم کے سارے رموز خود تخلیق ہی میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس کی بابت کوئی کلیہ باہر سے وضع نہیں کیا جا سکتا ۔ تنقید صرف اتنا ہی کرتی ہے کہ جو تخلیق میں وجدانی طور پر موجود ہے اسے عقلی طور پر منظم کر دے لیکن یہ عدم کو وجود میں نہیں بدل سکتی ۔ یہ کام تو تخلیقی ادیب کا ہے وہی لوگ جو ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہیں اور کہتے وہ ہیں جو خود کرتے نہیں ۔ خوابوں کے اقلیم کے یہ بادیہ پیما عدم کی دھندلاہٹوں میں ایک موہوم لیکن دل پذیر دنیا کو جھجکتے ہوئے مجسم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور اپنی بے پنا ہ قوت ارادی سے اس کے ورود کو ناگزیر بنا دیتے ہیں ۔ یہ انسانی زندگی میں توازن کی وہ جستجو ہے جو تاریخ کے جبرکو بلکہ انسان کے انسان پر جبر کو قابل برداشت بناتی ہے۔
یہ چند باتیں جن سے متاثر ہو کر میں نے اس کتاب کو ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
محمد عمر میمن تخلیقی ادیب کو اگر تنقیدی ادیب سے بالاتر سمجھتے ہیں تو اس سے انکار مشکل ہے ۔ اگر تنقیدی ادیب کسی مقام پر تخلیقی ادیب کا کردار ادا کرتا ہے تو اس کی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے ۔ ایسا نقاد بظاہر تخلیقی ادب سے گریزاں نظر آئے گا مگر داخلی سطح پر اس کے یہاں تخلیقی لہر پائی جاتی ہے ۔ وہ تخلیقی متون کو پہلے ہی کچھ اس طرح جذب کر چکا ہوتا ہے کہ اس کے تنقیدی افکار کو تخلیقی ادب کی روشنی زیادہ روشن اور تابناک بنا دیتی ہے ۔وہ نقاد کے یہاں انکسار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں تنقید کے فرائض کا خیال نہیں ہے ۔ اس اقتباس میں کئی فکر انگیز جملے ہیں جو ایک دو قراءت کے بعد یاد ہو جاتے ہیں ۔ تنقید عدم کو وجود میں بدل نہیں سکتی ۔ یعنی تخلیق میں جو نہیں ہے اس کی تلافی بھی کوئی تخلیق کار ہی کر سکتا ہے ۔ تنقید تو عقلی طور پر چیزوں کو منظم کر کے دکھا دیتی ہے ۔ تنقید پر یہ اعتراض آج بھی ہے کہ یہ اکثر کسی متن میں وہ بات تلاش کر لیتی ہے جو اس میں ہے ہی نہیں ۔ گویا عدم کو وجود بخشتی ہے ۔ عمر میمن نے یہاں سنجیدہ اور ذہین قاری کے تعلق سے لکھا نہیں ۔ وہ اس مسئلے سے بحث کر سکتے تھے کہ جسے ہم معنوی خلا کہتے ہیں قاری اسے پر کرتا ہے ۔ پر کرنے کے عمل میں نئے مفاہیم نکل آتے ہیں ۔ ان مفاہیم کی برآمدگی ذہانت کے بغیر ممکن نہیں ۔ بہرحال اس مقام پر تو عمر میمن کو وہی لکھنا تھا جو تخلیق کار کے حق میں جاتا ۔ اس سیاق میں مجھے سودا کا شعر یاد آتا ہے:
تیرے سمجھ کے آگے ناقص نہیں عبارت
گوہم سے حرف مطلب لکھنے میں رہ گیا ہے
ان تمام خیالات کا رشتہ چوں کہ یوسا کے خطوط سے ہے لہٰذا یہ تقاضہ بھی غیر مناسب ہے کہ عمر میمن کو ان خیالات کے بالمقابل دوسرے خیالات بھی پیش کرنے چاہییں تھے ۔ عمر میمن نےحمید شاہد کو جو دوسرا خط لکھا تھا اس کا آخری حصہ توجہ طلب ہے :
’’ میں نے یوسا کے ان خطوط کا ترجمہ کس نیت سے کیا تھا؟ سامنے کی بات اس سے زیادہ نہیں کہ مجھے یہ پسند آئے تھے۔ بس (ہمارے یہاں فکشن پر اس طرح کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گووہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں، کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جا سکتے ۔ سو مجموعی طور پر یوسا کے خطوط کی علم خیز شگفتگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن کیا میں یوسا پر فکشن کے خاتم النبی کے طور پر آمنا و صدقنا کہہ چکا ہوں۔ ہرگز نہیں، سو میرا مقصد کبھی یہ نہیں تھا کہ اگر اس کی فکر میں کوئی جھول ہے تو اس پر بحث شروع کر دوں۔ اصل میں یوسا کے ان خطوط کے محتویات پر تنقید میرا منشا کبھی نہیں رہا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یوسا کا فکشنی تفکر کسی قسم کی تنقید سے بالاتر ہے۔ بس یہ تنقید یہاں میرا مقصد نہیں۔ سو مجھے نہ یوسا کی حمایت کرنی ہے نہ مذمت ۔ میں تو بس اتنا ہی چاہتا ہوں کہ ایک چیز جو مجھے پسند آئی ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک کر لوں‘‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ وارث علوی کی نگاہ میں عمر میمن کا یہ اقتباس تھا یا نہیں ۔ لیکن یوسا کی فکشن تنقید کے ساتھ وارث علوی کا خیال آنا بھی ایک واقعہ ہے اور اس میں عمر میمن کی ادبی دیانت داری کا بڑا دخل ہے ۔ دوستی کے باوجود یہ لکھنا مشکل ہے کہ جو عمر میمن نے وارث علوی کی تنقید کے بارے میں لکھا ہے ۔ وارث علوی کے تنقیدی اسلوب کے لیے غلبہ آور کی ترکیب بہت بامعنی ہے ۔ انھیں شکایت ہے کہ ان کی باتیں کلیہ کی پابند نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی اصول وضع کیے جا سکتے ہیں ۔ عمر میمن کی اس رائے سے تھوڑا اختلاف تو کیا ہی جا سکتا ہے ۔ وارث علوی کی تنقید میں طوالت کے سبب اکثر اوقات قاری اسلوب کے ساتھ اس طرح آگے بڑھتا جاتا ہے کہ بہت سی فکر انگیز باتیں بھی نگاہ سے اوجھل ہو تی جاتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کوئی اصول وضع نہیں کر سکتے ۔ پھر یہ کہ یوسا کے خط کی روشنی میں عمر میمن تخلیق کی اولیت اور تخلیق ہی سے تنقیدی اصول وضع کرنے کی بات لکھ چکے ہیں ۔ ایسے میں ان کی رائے سے یہ مطلب نکالنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ تنقید تخلیق سے آزاد ہو کر آزادانہ طور طور پر اصول وضع کر سکتی ہے۔ ہم اسے عمر میمن کی تنقیدی فکر کے تضاد کا نام نہیں دے سکتے۔ تنقید میں دونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وارث علوی نے اپنی کتاب ’جدید افسانہ اور اس کے مسائل‘ کو عمر میمن کے نام کیا ہے۔ ایک قاری کی حیثیت سے مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کم سے کم، ہمارے عہد کے ایک بڑے نقاد نے عمر میمن کے نام کوئی کتاب تو معنون کی۔
(3)
محمد عمر میمن نے آصف فرخی کے سوالات کے ضمن میں جو جوابات دیے ہیں انھیں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے عمر میمن خود بھی افسانے اور جدید افسانے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ اول تو آصف فرخی نے فطری انداز میں اہم سوالات کیے ۔ جہاں کہیں انھیں عمر میمن کے خیال سے اختلاف کرنا تھا اس کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں عمر میمن کی انتظار حسین سے گفتگو اور پھر آصف فرخی کی عمر میمن سے گفتگو، ہمارے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ اگر یہ دونوں گفتگوئیں سامنے نہ آتیں تو افسانے سے متعلق عمر میمن کے خیالات سے ہم اچھی طرح واقف نہیں ہو پاتے۔ انتطار حسین سے عمر میمن نے جو سوالات کیے وہ خالص ادبی نہیں ہیں۔ ستمبر 1975 میں یہ گفتگو ’شب خون‘ میں شائع ہوئی۔ لیکن اس گفتگو میں جو مسائل زیرِ بحث آئے ہیں وہ ہندوستان اور پاکستان کی تہذیبی زندگی کا حصہ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ عمر میمن کے علاوہ کسی اور نے انتظار حسین سے اس قسم کے سوالات کیے یا نہیں؟ میں یہ سوچنے لگا کہ عمر میمن خود بھی ان سوالات سے الجھتے رہے ہوں گے۔ عام طور پر سوالات رسمی قسم کے ادھر ادھر سے جمع کر لیے جاتے ہیں ۔ انتظار حسین نے جتنا کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اس میں عمر میمن کی شخصیت کا بھی اہم کردار ہے ۔ میں یہاں عمر میمن کے کچھ سوالات درج کرنا چاہوں گا:
’’ انتظار صاحب، آپ کے بیشتر افسانے پڑھتے ہوئے مجھے عام طور پر یہ بات محسوس ہوئی ہے کہ آپ ان کے ذریعے مسلمانوں کی گم شدہ تہذیب کو determine کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد غالباً یہ ہے کہ آپ اس واسطے سے اپنے آپ کو سمجھیں، اپنے حال کو سمجھیں اور اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ لیکن جب آپ مسلمانوں کے کلچر اور تہذیبی ورثے کی بات کرتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے؟ یعنی کہ مسلمانوں کے کلچر اور تہذیبی ورثے کی حد بندی کس طرح ہوگی‘‘۔
’’ انتظار صاحب، ابھی آپ نے وحدت کا ذکر کیا تھا اس سے یہاں ایک بڑا نازک سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے بن جانے کے بعد ہم جیسے یعنی ایک No-man’s law میں نہیں پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب واپسی ناممکن ہے ۔ یعنی واپسی اصل وحدت کی طرف جس کو قائم رکھ کر ہی ہم اپنی تہذیبی شخصیت کو پا سکتے تھے؟ گویا بالفاظِ دیگر، 47 کا سانحہ اور اس کے بعد ملک کی تقسیم، ایسا واقعہ نہیں جو ہماری اس آرزو کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا؟ ‘‘
’’ہم نے ادھر پچھلے چند برسوں میں دو زبردست جنگیں لڑیں ہندوستان سے۔ ایک تو 1965 کی جنگ تھی، دوسری 1971 کی۔ کیا آپ ان کے حوالے سے کچھ گفتگو کر سکیں گے؟ مثلاً یہی کہ ان دونوں میں فرق کیا تھا، فرق اس اعتبار سے کہ ان کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کا کیا ردعمل رہا۔ دوسری بات، کیا ہم نے ان دو جنگوں کے سانحے یا واقعے کو کسی تخلیقی سطح پر استعمال کیا؟‘‘
’’ اگر انور سجاد شاعر بنتے بنتے رہ گئے تو آپ شاعر بھی بن گئے اور افسانہ نگار بھی ۔ آپ نے اپنے اسی مضمون میں جس کا حوالہ اوپر کئی بار آ چکا ہے، لکھا ہے کہ کرکٹ کی طرح افسانہ بھی ہم لوگوں کے لیے ایک درآمدہ یعنی imported چیز ہے اور کہ ہم اپنی شخصیت یعنی تہذیبی شخصیت کا اظہار محض داستان کے حوالے ہی سے کر سکتے ہیں ۔ یہ کیوں؟ اور یہ کیوں اس لیے ضروری ہے کہ اب اگر معاشرہ اس انداز پر ڈھل بھی جائے جس انداز پر آپ اس کو دیکھنے کے متمنی اور کوشاں ہیں تو ایک خود تاریخ کا دباؤ ہوتا ہے جو ایسا نہیں ہونے گا ور میرے خیال میں آپ پہلے شخص ہوں گے جو اس کے خلاف احتجاج کریں گے ۔ یہ درست ہے کہ ہماری تہذیب کا مخصوص انداز ہاتھ سے جا رہا ہے لیکن اب ہم اس کی بازیافت کے عمل میں سے بالکل recreate تو نہیں کرنا چاہیں گے بلکہ evolution کے انداز میں دیکھیں گے ‘‘۔
ان سوالات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عمر میمن پاکستان منتقل ہونے کے بعد فکری سطح پر کیا محسوس کر رہے تھے ۔ وحدت کا تصور انھیں پاکستان بننے کے بعد کیوں کر محض ایک تصور کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ انتظار حسین اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہیں ۔ جواب سے وہ مطمئن بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی بے اطمینانی ختم نہیں ہوتی ۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عمر میمن انتظار حسین سے اس وقت ہجرت اور ماضی سے متعلق ہی سوالات کرنا مناسب سمجھتے تھے ۔ 65 اور 71 کی جنگ کون جیتا کون ہارا، اس مسئلے پر سیاسی حلقے میں اب بھی گفتگو ہوتی ہے ۔ مجھے حیرانی ہے کہ عمر میمن کو ہجرت اور ماضی کے مسائل کے درمیان 65 اور 71 کی جنگوں کا خیال کیوں آیا ۔ عمر میمن اگر چاہتے تو اس گفتگو میں تحفظات کی روش اپناتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی دوستی کی بات کرتے ۔ انھیں معلوم تھا کہ ان ہی کی طرح انتظار حسین نے بھی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا مستقر بنایا ہے ۔ عمر میمن یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تخلیق کاروں نے ان جنگوں سے کیا کچھ حاصل کیا ۔ اس سلسلے میں انتظار حسین نے ملک کے ایک شہری کی حیثیت سے ان جنگوں پر رائے دی ہے اور ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے ۔ عمر میمن انتظار حسین کے ماضی کو جلد بازی میں اپنا اور پوری قوم کا ماضی قرار نہیں دیتے ۔ ادبی سطح پر وہ داستانوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ انھیں پریشانی یہ ہے کہ عہد جدید میں اس صنف کے ساتھ کس طرح ہماری حسّیت کا رشتہ قائم ہو گا ۔ عمر میمن داستان کو رد کرنے کے یا اس سے غیر ضروری طور پر اجتناب برتنے کے بجائے انتظار حسین سے سمجھنا چاہتے ہیں ۔ داستان سے انتظار حسین کی دلچسپی انھیں اس معنی میں پریشان کرتی ہے کہ جدید حسّیت سے اس کا رشتہ کس طرح قائم ہو گا ۔ باقر مہدی نے تو اس حد تک لکھ دیا تھا کہ جدید افسانے کو سب سے زیادہ خطرہ انتظار حسین کی داستانوی کہانیوں سے ہے ۔ عمر میمن اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنی تہذیبی شخصیت کا اظہار داستانوں کے حوالے سے ہی کر سکتے ہیں ۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ داستان سے وابستہ تصورات کو recreate تو نہیں کیا جا سکتا ۔ ان مسائل کا بنیادی رشتہ انتظار حسین کے فکشن سے تو ہے لیکن آزادانہ طور پر بھی ہم ان پر غور کر سکتے ہیں ۔ انتظار حسین کے جواب کا وہی انداز ہے جسے ہم ایک تخلیق کار کی تخلیقی ضرورت اور تخلیقی ترجیحات کا نام دیتے ہیں یعنی اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میری کہانیاں قصۂ پارینہ ہیں اور وہ جدید کہلانے کی مستحق نہیں ہیں تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ۔ عمر میمن نے اسی انداز کے سبب ایک جگہ کہا ہے کہ آپ تو پٹھے پر ہاتھ رکھنے ہی نہیں دیتے۔ عمر میمن نے داستان، تہذیب، تاریخ وغیرہ سے انتظار حسین کو گھیرنے کی کوشش کی مگر یہ بھول گئے کہ وہ تو پہلے ہی سے ان کے درمیان ہیں۔ سوال چاہے جتنا بھی سخت اور مشکل کرنے والا ہو، وہ اپنے مخصوص انداز میں جواب دیں گے ۔ اس میں شک نہیں کہ انتظار حسین کی تخلیقی ضرورت منطقی طور پر بھی اپنا اظہار کرتی ہے مثلاً یہ کہ ناول اور افسانہ ہمیں مغرب سے ملا، ہم ان اصناف کو اسی طرح قبول نہیں کر سکتے، ہمیں تو اپنی تہذیب کے ساتھ برتنا ہے ۔ محمد عمر میمن نے انور سجاد کا اسی درمیان ذکر چھیڑ دیا ۔ آپ کے بعد آنے والی جو نسل ہے جس میں انور سجاد کا بھی شمار ہوتا ہے، اس کے کیا موضوعات ہیں؟ یہ کس دنیا کی بات کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انتظار حسین نے جو کچھ کہا ہے اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ محمد عمر میمن کو بالآخر انتظار حسین سے جو کچھ سننا تھا یا وہ جو ان سے کہلوانا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے۔ انتظار حسین کے جواب سے عمر میمن کی پریشانی ختم تو نہیں ہوئی مگر یہ تو واضح ہو گیا کہ انتظار حسین 1975 تک جدید افسانے سے خود کو ایک قاری کے طور پر قریب نہیں کر سکے۔ انھیں بھی بہت سے لوگوں کی طرح جدید افسانے میں ابلاغ کی کمی نظر آتی ہے۔ انتظار حسین کا جواب دیکھیے:
’’ جو ایک concrete reality ہوتی ہے اس پر گرفت اس قوم کی روز بروز ڈھیلی ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی نمائندگی شاید یہ افسانہ کرتا ہے ‘‘۔
انتظار حسین نے جدید افسانہ نگاروں کو بیرونی حقیقت کو فراموش کرنے والا بتایا ہے اور یہ عمل شاعر کا ہو سکتا ہے ، افسانہ نگار کا نہیں:
’’ انور سجاد اس قبیلے سے ہیں جو کہ شاعر بنتے بنتے رہ گیا اور شاعر نہ بن سکا تو افسانہ نگار بن گیا‘‘۔
آصف فرخی اور عمر میمن کی گفتگو میں بھی جدید افسانہ بطور خاص زیربحث آیا ہے ۔ انتظار حسین نے انور سجاد وغیرہ کے افسانوں سے فکری سطح پر بے گانگی کا اظہار کیا اور مرکز میں داستانیں آ گئی تھیں ۔ عمر میمن نے آصف فرخی کے اس سوال ’’جدید افسانہ کیا چیز ہے بلکہ کوئی چیز ہے بھی کہ نہیں یا محض واہمہ ہے‘‘ کے جواب میں کتنی اچھی بات کہی ہے:
’’ اگر آنے والی ہر تحریر اپنے سے پہلے جو تحریریں گزر چکی ہیں انھیں اپنے میں سمیٹ کر نئے امکانات کی طرف بڑھتی ہے، تو وہ ضرور جدید ہے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ جدید افسانے کی اصطلاح کو اس سے بہتر انداز میں عملی سطح پر سمجھا یا نہیں جا سکتا۔ سارا مسئلہ تو امکانات کا ہے اور اس نظر کا بھی کہ ہم کسی رویے یا رجحان کو تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ عمر میمن نے انور سجاد کے ساتھ خالدہ حسین کا ذکر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جدیدیت کے بعض عناصر پہلے پہل خالدہ حسین کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں عمر میمن جدید افسانے کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ اسے روایتی افسانے سے الگ کر کے سمجھا جا سکے۔ مثلاً یہ کہ جدید افسانے میں بیانیہ کا زمانی تسلسل خلط ملط ہو گیا:
’’ میری اپنی definition کے حساب سے مختلف النوع چیزیں کسی افسانے کو جدید بنا سکتی ہیں۔ احمد علی کے جن افسانوں کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ بہت جدید ہیں حالانکہ وہ بالکل ترقی پسند تحریک کے دورِ عروج میں لکھے گئے ہیں۔ تو بھئی، میں تو خالدہ حسین کو جدید کہوں گا بلکہ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں تو سلیم الرحمٰن کے افسانے سائبیریا کو بھی جدید کہوں گا‘‘۔
بعض لوگوں نے غیاث احمد گدی کا افسانہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ سے خالدہ حسین کے افسانے ’سواری‘ کا رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ عمر میمن نے خالدہ حسین کے یہاں اولاً جدیدیت کے عناصر کا سراغ لگایا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ہندوستان میں خالدہ حسین پر پہلا مضمون شمیم حنفی نے لکھا، جو رسالہ ’معیار‘ (مارچ 1977) میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے ساتھ خالدہ حسین کے پانچ افسانے سواری، ایک رپورتاژ، شہر پناہ، ہزار پایہ اور آخری سمت بھی شائع ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ بلراج مین را کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ عمر میمن کے بعد شمیم حنفی نے خالدہ اصغر (خالدہ حسین کا پیدائشی نام) کو اتنی اہمیت دی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اردو کے بعض اہم ادیبوں پر ایک دو لوگوں کی نگاہ جاتی ہے اور یہی لوگ موقع بہ موقع سے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ خالدہ حسین بہت اچھی لکھنے والی ہیں اس معنی میں کہ زبا ن کا تخلیقی استعمال آتا ہے اور وہ اس ابہام کو پیدا کرنے میں کامیاب ہیں جو عمر میمن کی نگاہ میں جدیدیت کی پہچان ہے۔ لیکن عام کیا ، خاص قاری بھی خالدہ حسین کے ان افسانوں کے تعلق سے گفتگو مشکل ہی سے کر پائے گا۔ جسے ہم افسانے کی سمجھ کہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ انتظار حسین کو انور سجاد کے افسانے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتے۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ میں انھیں نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ وہ مجھ سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔ یہ بات وہ خالدہ حسین کے بارے میں کیوں نہیں کہتے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ آصف فرخی نے عمر میمن سے یہ کہا کہ:
’’آپ کی اس تعریف کے تحت خالدہ حسین جدید افسانے کی پیش رو ٹھہرتی ہیں۔ لیکن ان کے افسانے اپنی تکنیک کے لحاظ سے کسی بغاوت یا انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ معلوم نہیں ہوتے۔ موضوعات کے لحاظ سے ان میں جدت ضرور ہے‘‘۔
عمر میمن اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ میں خالدہ حسین کو جدید کہوں گا۔ آصف فرخی کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے یہ بھی کہا :
’’ اب رہیں خالدہ، تو بھئی مجھے تو وہ بالکل جدید نظر آتی ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ان کے یہاں جو جدت ہے وہ ویسی نہیں جیسی ہمیں انور سجاد کے یہاں ملتی ہے لیکن انور سجاد کی جدت بھی محض جدت کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے، وہ کاملاً جدت تو نہیں۔ یعنی نئے افسانے کو رشید امجد اور انور سجاد صاحبان کے افسانے بالکلیہ identify کرنا، یہ تو کبھی میرا مؤقف نہیں رہا‘‘۔
عمر میمن نے یہ کہہ کر مشکل پیدا کر دی ہے کہ انور سجاد کی جدت میں محض جدت کا ایک ٹکڑا ہے۔ انھیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔ اگر کاملاً ان کے یہاں جدت ہوتی تو کیا وہ ان کے افسانوں کو بطور افسانہ قبول کرتے۔ وہ خود ہی لکھ رہے ہیں کہ انھیں انتظار حسین کے جواب سے پورا اتفاق تھا کہ انور سجاد شاعر بنتے بنتے رہ گیے ، گویا ان کا افساانہ شاعری کی خصوصیات کا حامل ہے۔ جہاں تک ابہام کا تعلق ہے تو وہ خالدہ حسین کے یہاں بھی ہے اور انور سجاد کے یہاں بھی ہے۔
آصف فرخی سے گفتگو کرتے ہوئے کئی حوالوں سے انتظار حسین کا نام آیا ہے۔ انتظار حسین کے معترضین کے خیالات بھی زیر بحث آئے ہیں۔ ’ بستی‘ کے بارے میں سلیم الرحمٰن کی رائے سے بھی بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں عمر میمن نے جو کچھ کہا ہے اس کا مطالعہ فکشن کے قاری اور ناقد کو ضرور کرنا چاہیے۔ عمر میمن کو سلیم الرحمٰن کی اس بات میں صداقت نظر آتی ہے لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک قاری صرف ’بستی‘ کو پڑھتے ہوئے ’بستی‘ ہی پر توجہ مرکوز کرے۔ مجھے امید تھی کہ عمر میمن اس مسئلے پر گفتگو کریں گے کہ اگر ’بستی‘ کے مسائل اور موضوعات ان کے افسانوں میں زیادہ بہتر طور پر آچکے ہیں تو اس سے ’بستی‘ کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ بات اب پرانے ذہن کی معلوم ہوتی ہے کہ ایک افسانہ نگار ہمیشہ نئی بات کہے۔ عمر میمن اس اہم مسئلے کو چھوڑ کر سلیم الرحمٰن کے اس اعتراض کا جواب دینے لگا کہ وہ صنف نازک کے بارے میں کھل کر نہیں لکھتے۔ اس تعلق سے عمر میمن کے خیالات بہت توجہ طلب ہیں خصوصاً ’بستی‘ کے کردار ذاکر کا انھوں نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔ عمر میمن کی یہ بات یاد رکھنے کی ہے:
’’میں نے اس ناول پر غور کرتے وقت خود پر یہ شرط عائد کی کہ میں اسے ایک نامیاتی وحدت کے طور پر دیکھوں گا کہ اس کی منطق کیا ہے۔ اس کے بعد اس کے مختلف حصوں کی اس منطق سے مطابقت دیکھوں گا یعنی میں اس پر کوئی نظام ِ فکر باہر سے مسلط نہیں کروں گا‘‘۔