روز ملنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف۔ تحریر: عزیز ابن الحسن
بعض لوگوں سے آپ کبھی ملے نہیں ہوتے کبھی انہیں دیکھا نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود ان سے ایک عجیب اور گہرا قلبی تعلق ہوتا ہے۔ نادر عقیل انصاری ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں ۔ 1987-88 میں میں لاہور میں تھا اور غالبا انصاری صاحب بھی وہیں تھے۔ یہ وہ دن تھے کہ برادرم جوہر صاحب سے کم و بیش روز کی ملاقاتیں تھیں۔ وہ اورینٹل کالج کے عقب کے اپنے لا کالج ہاسٹل سے آتے اور پرانی انارکلی کے شروع میں ہی واقع گوشۂ نعمت پر رات کا کھانا کھاتے (اس ہوٹل کی ایک خاص پیشکش دال ماش تھی، ویسی لذیذ دال میں نے کم ہی کہیں کھائی ہے) جوہر سے شام کی رات گئے والی ملاقات کا آغاز یہیں سے ہوتا۔ ضیاء الحق کی سیاست سے لے کر ادب اور مذہب تک دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں۔ جوہر صاحب اس زمانے میں رینے گینوں کے بہت قائل تھے اور فریتھجوف شوان کا ذکر شوان علیہ رحمۃ کے سے القاب کے بغیر نہیں کیا کرتے تھے!(مسکراہٹ)
خیر ذکر تھا نادر عقیل انصاری کا۔ جوہر صاحب ایک وسیع المطالعہ صاحب علم کے طور پر ان کا بہت ذکر کرتے تھے اتنا زیادہ کہ مجھے ان سے ملاقات کا شوق ہونے لگا لیکن چونکہ وہ سول سروس کے بہت بڑے افسر تھے اس لیے ملاقات کی خواہش کبھی زبان پر بھی نہ آسکی تھی۔ نادر صاحب کا دوسرا تذکرہ سعود عثمانی کے ساتھ رہتا تھا جن کا ادارہ اسلامیات، واقع انارکلی ہمارا روز کا ٹھکانہ تھا۔ دونوں دوستوں سے نادر صاحب کا ذکر تو بہت سنا مگر وہی بات کہ اتنے بڑے افسر سے کون ملے اور کیوں ملے! پھر یوں ہوا کہ جوہر صاحب صادق آباد چلے گئے اور نادر صاحب کا تذکرہ بھی ہماری محفل سے اٹھ گیا۔ بہت بعد میں جا کر جوہر صاحب نے جب وہیں پر ” جی “ کا ڈول ڈالا تو نادر صاحب کا نام اور، اس دفعہ انکا کام بھی، پھر سے نظر آنے لگا۔ لیکن تب نادر صاحب سول سروس کی نوکری سے، اپنی ریٹائرمنٹ سے عین چند سال قبل، استعفی دے کر کینیڈا جا براجے تھے۔ اب ملاقات یا بات ہوتی بھی تو کہاں سے ہوتی۔ لیکن گزشتہ دو سال کے دوران بالکل اتفاقیہ طور پر ایک عجیب سلسلہ گفتگو پیدا ہوگیا۔ زید سرفراز سے معلوم ہوا کچھ دوست مل کر ایک برخط (آنلائین) کلاس میں ایڈورڈ سعید کی کتاب اورینٹلزم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور اس حلقہ مطالعہ کے استاد نادر عقیل انصاری ہیں۔ کاشف علی خان شیروانی کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے بھی اس جماعت میں داخلہ دے دیا. لیکن میرے جماعت میں باقاعدہ شامل ہونے سے پہلے ہی ایک روز نادر صاحب کا فون آگیا جس سے اندازہ ہوا کہ دل سے دل کی راہ والا محاورہ کتنا سچا ہے۔ جس طرح میں نادر صاحب سے غائبانہ طور پر متعارف تھا اسی طرح جوہر صاحب نے کسی وقت کہیں میرا بھی ان سے ذکر کر رکھا تھا۔ یوں ان سے براہ راست ہمکلامی کے پہلے موقعے کے باوجود ایسا لگا کہ جیسے ہم میں کوئی انجانا پن ہے ہی نہیں۔ علمی حلقوں میں نادر عقیل انصاری کا نام بہت جانا پہچانا ہے مگر میرے بعض احباب، خصوصاً، طلبا میں جو لوگ ان سے واقف نہیں ان کے لئے عرض ہے کہ نادر صاحب اس زمانے میں واقعی نادر روزگار لوگوں میں سے ہیں۔ پاکستان کی سول بیوروکریسی کے بہت بڑے افسروں میں ان کا شمار تھا اور ایک زمانے میں وزیر اعلی پنجاب کی سرکاری افسروں کی خصوصی ٹیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اسی دوران انگریزی عربی و فارسی زبان و ادب اور مذہبی میدان میں اپنے طبعی علمی ادبی مذہبی تفسیری و کلامی ذوق کی بنا پر لاہور میں جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ احباب میں انہیں اس درجہ رسوخ پایا کہ انکے معروف ادارے ”المورد“ لاہور کے بنیاد گزاروں میں ان کا شمار ہوا۔ آج غامدی صاحب کی فکر میں جو بڑے بڑے نام دیکھنے سننے میں آتے ہیں نادر صاحب ان میں سے کچھ کی بلوغت، اور بعضوں کی پیدائش، سے بھی کہیں پہلے فکر غامدی کے بڑے علمبرداروں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ اپنے علمی پس منظر اور ایک آزاد ذہن سے سوچنے والے ایک فرد کے طور پر جب انہیں غامدی صاحب کی فکر کے کچھ خطرناک عناصر سے اختلاف محسوس ہوا تو انہوں نے اس پر ہلہ گلہ کرنے کے بجائے نہایت خاموشی سے، زبانی بھی اور تحریری صورت میں، غامدی صاحب کے تصورِ قطعی الدلالہ اور حجیت حدیث پر اپنے اشکالات ان کے سامنے رکھنے شروع کیے۔ یہ معاملات اس قدر بڑھے کہ نادر صاحب کو روز بروز بڑھتی اپنی بے اطمینانی کی بناپر المورد اور فکر غامدی سے کلیتاً اور کاملاّ لاتعلقی اختیار کرنا پڑی۔ اس کے بعد انہوں نے ان مسائل پر اپنے خاطرات اختلافات اور سوالات کا عام تحریری صورت میں اظہار کرنا شروع کیا تو، ہر قسم کے اختلاف اور موقف کو کھلے دل سے سننے کے الموردی دعویداروں نے کوئی علمی جواب دینے کے بجائے اس تاثر کا اظہار شروع کر دیا کہ ”اصل میں میں نادر صاحب کا غامدی صاحب سے کوئی جائداد و ملکیت کا جھگڑا ہے جسے انصاری صاحب دینی حمیت کی آڑ میں چھپا رہے ہیں “ ! تو یہ ہیں نادر عقیل انصاری صاحب کی شخصیت اور ان کے فکر و خیال کے چند گوشے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان میں اپنی اعلی سول سروس کے بالکل آخری سالوں میں وہ نوکری سے استعفی دے کر کنیڈا چلے گئے تھے اور وہیں پر شاید انہوں نے ڈاکٹریٹ کی اور آج کل ٹورانٹو یونیورسٹی میں تقابل ادیان کے پروفیسر کے طور پڑھا رہے ہیں۔ پاکستان میں بیسویں اکیسویں گریڈ کی نہایت اعلیٰ اور پر سہولت زندگی گزارنے یا گزار سکنے والا یہ افسر یہ ساری آسائشیں ترک کرکے اب کینیڈا میں اپنا تدریسی شوق اس طرح پورا کر رہا ہے کہ اسے گھر اور یونیورسٹی کے مابین روزانہ دو تین گھنٹے بس اور ٹرین کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے اور ریلوے اسٹیشن سے یونیورسٹی تک آدھ گھنٹہ کی پیدل سہانی سیر بھی۔ ایسی ”عیاشی “ کی زندگی پاکستان میں بیروکریٹس کے مقدر میں کہاں! یہ ہیں اس شخص کی زندگی کی کچھ جھلکیاں کہ تقریبا دو سال تک مسلسل ہر ہفتے جس سے گھنٹے دو گھنٹے ہمارے استفادے کی صورت بنی رہی۔ ان نشستوں میں ہم نے اورینٹلزم ان سے اس طرح پڑھی کہ بعض اوقات استاد ایک ایک پیراگراف جملے اور ایک ایک سطر پر گویا مورچہ جما کر بیٹھ رہتے اور اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک وہ مسئلہ پانی نہ ہوجاتا! آپ ہی فرمائیں کہ اس دور میں کون کسی کے لیے اتنا وقت نکال سکتا ہے اور کون کسی کے لیے اتنی مشقت اٹھاتا ہے اور وہ بھی بالکل بلا معاوضہ و بغیر غرض کے! نادر صاحب کا دلنشین انداز تدریس اور طرز گفتار، تسپہ ان کا ہمہ جہت علم و مطالعہ، جو کسی میدان میں بند نہ تھا، جس میں مذہب و تاریخ سے لے کر کلام و فلسفہ تک اور یونانی ادب و جدید لٹریری تھیوری سے لے کر مابعد جدیدیت تک اور سوشیور کی لسانیات اور میشل فوکو کے ڈسکورس سے لیکر لیوائی اسٹراؤس کی بشریات اور دریدا التوائے معنی تک کے لعل و گوہر، اور موتی اور کنکر بھی، شامل ہوتے، ایک دریائے پر شور کی طرح کینیڈا سے پاکستان کی طرف بہتا رہا اور ہم اس سے بقدر حوصلہ تشنگی دور کرتے رہے۔ گزشتہ 2 ،4 صدیوں کی استعماری تاریخ اور استشراق کے ”علمی“ لبادے کی آڑ میں مستشرقین کی نوآبادیات کاروں کیلئے سہولت کاری کا ”رفیع الشان“ منصوبہ، اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل پر آج نادر صاحب ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں تو غلط نہ ہوگا کہ نادر صاحب نے ایڈورڈ سعید کی یہ کتاب اور اس سے متعلقہ موضوعات کنیڈا میں سعید کے ایک شاگرد خاص سے سبقاً سبقاً پڑھے تھے اور پھر اس کا کچھ فیض مجھ جیسے کچھ نالائق طالب علموں کیلئے اس سخاوت سے عام کئے رکھا کہ جسکی کوئی مثال اس زمانے میں کم ہی نظر آتی ہے۔ سعید کی اورینٹلزم 2008 میں اپنے حسابوں کے ٹھکانے لگاچکنے اور ساری زندگی مستشرقین کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھتے کہتے سنتے رہنے کے باوجود، ان اسباق کے دوران مجھ پر پہلی دفعہ یہ انکشاف ہوا کہ مستشرقین اور استشراقیت، جس کو ہم مشرق، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے ”بےغرض اور سخی “ اہل علم کا ایک ”احسانِ عظیم “ جیسا علمی منصوبہ سمجھتے ہیں، اس کے جلو میں زہر کے کیسے کیسے پیالے بھرے اور دھرے پڑے ہیں! پندرہ بیس دن پہلے مطالعہ استشراق کا یہ سلسلہ جب اختتام کو پہنچا تو کم ازکم مجھے یوں لگا کہ نادر صاحب میری روزمرہ کی ذہنی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کلاس ختم ہونے کے بعد گزشتہ دس پندرہ روز کے دوران ان سے کوئی بات نہ ہو سکی تھی۔ سردیوں گرمیوں کی ہفتے کی رات نو بجے سے لے کر گیارہ بارہ بجے تک مسلسل ڈیڑھ پونے دو سال کی ایک مستقل مصروفیت جب ختم ہو گئی تو یوں لگنے لگا کہ ہفتے کی رات کا یہ وقت بالکل بےمصرف ہوگیا اور میں جیسے خلا میں معلق رہنے لگا ہوں۔ پچھلے پانچ سات روز سے کچھ طبیعت کی اونچ نیچ کچھ نامعلوم اسباب کی بنا پر اس حد تک اضمحلال اور انقباض طاری رہا کہ میں اس دفعہ احمد جاوید کے ایک طویل مدت بعد اسلام آباد آنے پر ان سے ڈھنگ کی ملاقات کرنے اور ان کے ساتھ ہونے والی مختلف نشستوں میں شرکت سے بھی محروم رہا۔ اسی حالتِ پژمردگی و دلگیری میں کل صبح یونہی بیٹھے بیٹھے انصاری صاحب کو ایک واٹس ایپ میسج بھیج دیا:
«جب سے اورینٹلزم والی کلاس ختم ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ خواب تھا جو گزر گیا جب آپ سے ہر ہفتے ملاقات ہوتی تھی آپ کی باتیں ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن گئی تھیں ہر وقت آپ کے اپنے ساتھ ہونے کا احساس رہتا۔ لیکن اب وہ سب کچھ ایک خیال بن کے رہ گیا۔ آپ کے ساتھ گزرا ہوا وقت زندگی کے بہترین تجربوں میں سے ایک تجربہ تھا۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی محبوب جدا ہوکر بس یادوں میں باقی رہ جائے
دور جا کر قریب ہو جتنے، ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے، وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے»
وہاں سے فی الفور جواب آیا کہ اگر آپ فارغ ہو تو بات کرتے ہیں (کینیڈا میں اس وقت رات دس ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا) ہمیں تو جیسے پیغام دیدار آ گیا۔ اور پھر یوں دس پندرہ دنوں کے بعد نادر صاحب سے تقریبا پون گھنٹہ بات ہوتی رہی۔ موضوع گفتگو چونکہ کچھ خاص نہیں تھا لہذا بچپن کے دیہاتی اسکول کے زمانوں میں ”انکا“ اور ”اقابلا“ پڑھنے کی لگی لت سے لے کر الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا تک قصے زیر بحث رہے، اگلے زمانوں کی ماؤں اور دادیوں کے سادگی سے قرآن پاک پڑھنے، نشانی کے طور پر اس میں مور پنکھ رکھنے، احترام سے قرآن کو جزدان میں لپیٹ کر نیم چھتیس پر سجانے اور عقیدت و محبت سے چومنے کی رسوم اور اسکے مقابل جدید لوگوں کے قرآن کو ”سمجھ “ کر پڑھنے پر زور لیکن کتاب اللہ سے محبت کے تعلق کے فقدان کا ذکر آیا۔ سراج منیر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی پر باتیں رہیں۔ یہ یاد کرکے ہم بہت محظوظ ہوئے کہ اگلے زمانوں میں بچپن میں ہی الم غلم کتابیں چاٹ جانے اور بے مہار مطالعے کی جو عادت ہوا کرتی تھی اس کا بعد کی زندگی میں کیا کیا فائدہ پہنچتا تھا اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی پچاسیوں باتیں کرتے کرتے پتہ ہی نہ چلا کہ میرے یونیورسٹی کیلیے نکلنے کا وقت بھی نکلا جاتا ہے! نادر صاحب نے ایک شعر بھی سنایا نہایت کمال کا، بلکہ اُس ایک شعر کے لیے پوری غزل سنائی:
محتسب نے جو نکالا ہمیں میخانے سے، دور تک آنکھ ملاتے گئے پیمانے سے
آج تو خم ہی لگا دے مرے منہ سے ساقی، میری نیت نہیں بھرتی ترے پیمانے سے
آپ اتنا تو ذرا حضرت ناصح سمجھیں، جو نہ سمجھے اسے کیا فائدہ سمجھانے سے
میں نے چکھی تھی تو ساقی نے کہا جوڑ کے ہاتھ، آپ للہ چلے جائیے میخانے سے
تم ذرا ناصح ناداں کو دکھا دو جلوہ، باز آتا نہیں ظالم مجھے سمجھانے سے
نہ اٹھے جور کسی سے تو وہ رو کر بولے، بے مزہ ہو گئے ہم اشکؔ کے مر جانے سے
جو شعر انہوں نے بہت لطف لے کر سنایا اور اس کی پہلو داری پر غور کرنے کو کہا وہ یہ تھا: میں نے چکھی تھی تو ساقی نے کہا جوڑ کے ہاتھ، آپ للہ چلے جائیے میخانے سے ۔ ان کا سوال ہے کہ قائل کے محض چکھنے میں ایسی کیا بات تھی ساقی یکایک گھبرا اٹھا یا یوں کہیے کہ ” بدک “ گیا؟ آپ بھی اس نازک پہلو پر غور کیجیے۔ کل والی گفتگو کے تسلسل میں آج صبح ان کا یہ میسج بھی آیا کہ «یہ مشہور شعر ” نواب واجد علی خان اشک رامپوری کے نام سے سنا، پڑھا اور لکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان کے بعد از مرگ شائع ہونے والے مجموعہ کلام ” رنگِ اشک “ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے وہ شعر ہے:
مَیں نے چکھی تھی کہ ساقی نے کہا جوڑ کے ہاتھ
آپ لِلہّ چلے جایئے مے خانے سے
اس شعر کو آج تک میں بھی اشک رامپوری ہی کا سمجھتا رہا مگر ممتاز نقاد، شاعر،ادیب دانشور پروفیسر سید آلِ احمد سُرور اپنی مشہور زمانہ آپ بیتی ” خواب باقی ہیں “ میں رقم طراز ہیں: رامپور کی دوسری شخصیت صاحبزادہ واجد علی خان اشک کی ہے۔ ” اچھن صاحب “ کہلاتے تھے۔ یہ نواب صاحب رامپور کے رشتے داروں میں تھے۔ پاک پتن کے پیر جماعت علی شاہ کے مرید تھے اور ہر سال وہاں کا پھیرا ضرور کرتے تھے۔ شاعری میں محمود رامپوری شاگردِ داغ (دہلوی) سے تلمذ تھا۔ انہوں نے اپنا ایک شعر ایسا سنایا کہ میں پھڑک اُٹھا۔ جب جگر [مراد آبادی] صاحب اور رشید [احمد صدیقی] صاحب کو سنایا تو وہ بھی جھومنے لگے۔ شعر یہ تھا:مَیں نے چکھی تھی کہ ساقی نے کہا جوڑ کے ہاتھآپ لِلہّ چلے جایئے مے خانے سےبعد میں معلوم ہوا کہ یہ شعر ان کے استاد کا تھا۔ یعنی محمود رامپوری اس شعرکے اصل خالق ہیں۔ [اقتباس ختم]آلِ احمد سرُور نے انھیں پاک پتن کے پیر جماعت علی شاہ کا مرید لکھا ہے جبکہ وہ پیر گولڑہ شریف کے مرید تھے اور لندن سے آ کر اُنھی کے آستانے پر رہنے لگے تھے وہیں انتقال ہوا “ »آدمی نادر عقیل انصاری جیسا خوش کلام ہو صاحب علم و ذوق بھی ہو اور سب سے بڑھ کر حلم اور کریم النفسی میں بھی اپنی مثال آپ ہو تو فون کی ہم کلامی بھی ’من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را‘ میں ڈھلنے لگتی ہے۔ میں نے عرض کیا نا کہ گزشتہ کئی روز سے طبیعت پر ایک بے نام سی اداسی اور انقباض کے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن نادر صاحب سے اس ہمکلامی کے بعد گویا سارا غبار دھل گیا اور مطلع دل پر خوش رنگ بدلیوں کی پھوار پڑنا شروع ہوگئی۔ تب سے اب تک وہی کیفیت ہے! سچ کہا شاعر نے
نہ تنـہا عشق از دیدار خیز
دبسا کیں دولت از گفتار خیزد
اور ہاں آخر میں ایک اعلان نما شے بھی سن لیجئے۔ ہماری اورینٹلزم کی دو سال مسلسل جاری رہنے والی اس کلاس کا دائرہ آٹھ دس افراد تک محدود رکھا گیا تھا۔ لیکن جلد ہی نادر صاحب ایک اور کھلا سلسلہ مطالعہ استشراق شروع کرنے والے ہیں جس میں بنیادی متن وائل حلاق کی کتاب Restating the Orientalism ہوگی۔ جو احباب اس کلاس میں شریک ہونا چاہیں وہ مراد علی سے رابطہ کریں۔