چاچا بلّو: پچھلے سرما کے الاؤ کی ایک چنگاری ۔ اسد فاطمی
پچھلا موسم سرما میرے لیے آسمان کی چھت اور زمین کے بستر والے جینے کے ڈھنگ میں گزاری ایک پوری فصل سے گریز پائی کی رُت تھی۔ سمجھیے میرا آدھا دھڑ لاہور کے کھلے زمینے پہ تھا اور آدھا دھڑ اپنے لیے اسلام آباد میں اپنی چھت اور فرش کی جگہ گھیر چکا تھا۔ تب تک چوک پہ چرسیوں کی جامہ تلاشیاں کرنے والے سپاہیوں کو میں نے اپنا پریس والا کارڈ دکھانا ترک کر دیا تھا اور یہ بتانے لگا تھا کہ میں آرٹسٹ ہوں۔ یاروں میں بھی یہی تعارف ہونے لگا، بھلا ہو، کہیں سے مجھے امن، رواداری اور حب وطن کے پیغام پر مشتمل کچھ رکشوں کی تزئین کا ایک آرڈر مل گیا۔ ادھر گڑھی شاہو اور سوامی نگر کے درمیان ریل کی پٹری کے اوپر سے گاڑیوں کا ایک پُل گزرتا ہے۔ پُل کے نیچے رکشوں کی ورکشاپیں ہیں، انجن شیڈ ورکشاپیں۔ ایک دوست کو بطورِ بندوبست مینیجر ساتھ ملایا اور یہاں ایک ورکشاپ کرائے پہ لے لی۔ ساز و سامان لیا، کام چل پڑا۔ ورکشاپ کے ایک کونے پہ رکشے کی نشست والے ریگزین کے دو گدے جوڑ کے بستر بنایا، دو کھیس مل گئے، شب بسری کی صورت نکل آئی۔ دن کے وقت یہاں ہتھوڑیوں کی ٹھک ٹھوں، اور مشینوں کے شور سے کان پڑی سنائی نہیں دیتی۔ رات کو چندے خموشی ہوتی ہے، تاوقتیکہ ورکشاپ کی چھت پر سے، جو کہ ایک بڑی سڑک کا زمینہ ہے، کوئی بھاری سی گاڑی فراٹے سے نہ گزر جائے۔ پہلی ہی رات شٹر گرا کے سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ باہر درے میں مستانہ نعروں کی آوازیں کان پڑیں۔ ولی را ولی می شناسد، باہر نکلا تو ایک درویش اینٹوں کے چولھے میں سرما کے ہیزم پر جلالی پھونکیں برسا رہا تھا۔
چاچے بلّو سے تعارف ہوا۔ اس کوچہ نما درے کا ایک کونہ کئی سالوں سے اس کی کل کائنات تھی۔ اینٹوں کے فرشے پہ بچھا بستر، ساتھ دیوار پہ کیل سے ٹنگے تھیلے میں پہننے کا ایک اضافی جوڑا، چائے کی کیتلی، چار کپ اور پتی چینی کی تھیلیاں، یہ اس کا ساز و برگِ حیات تھا۔ کام مل جائے تو رکشہ چلا لیا، یا کوئی نذر نیاز کہیں سے مار لی، جوڑا بھر سگریٹ کا مال نکل آیا۔ پھر جب تک میں رہا، چائے کا سامان میرے ذمے رہا۔ دن کو وہ باہر سے لکڑی کے گُٹکے سمیٹ لاتا، رات کو الاؤ جلتا، چائے پکتی اور دیر تک بلّو بزم آرا رہتا۔ اردو ہندی گانوں میں امیر بائی کرناٹکی کے عہد سے لیکر کمار سانو تک، کسی بھی معروف یا غیر معروف گانے کے بول اٹھائیے، بلو منہ سے تان چھین لیتا اور اول تا آخر پورا ریکارڈ سنا کے دم لیتا۔ اس کے اس جناتی حافظے اور گانوں کے ذخیرے کا مآخذ میں نے اس سے بارہا پوچھا، کہتا، بس مالک کی دین ہے۔ یہاں وہاں کی باتیں، بہوؤں کی نامہربانی، مارکیٹ کی چہ مگوئیاں، فلمی دنیا کے اسرار، نشے کے فضائل، صوفی سنتوں کی حکایتیں، معاشرے کی ناہمواریاں، بلّو کے ہوتے میرا اس سے اور اس کا مجھ سے دل لگ گیا۔ میں بھی زندگی کے مصائب سے حسینوں کے فریبوں تک سبھی دکھڑے اسے سناتا۔ اس کا سماجی شعور منفرد تھا، عورتوں کے جذباتی عدم استحکام کے بارے میں اس کا کہنا تھا؛ عورت ذات دا کیہہ بھروسا، اک منٹ وچ سنٹی منٹل آف دی کانٹی نینٹل ہو جاندیاں۔۔۔
ایک شام میں گھوم گھما کے ورکشاپ پہنچا تو دیکھا کہ میرے بالشت بھر کشادہ بستر پر کوئی اور کھیس اوڑھ کے سو رہا تھا۔ میں چکرا گیا۔ یہ ایک اور بے گھر تھا، دوہرے قتل اور عمر قید سے گزر کر ایک عرصہ داتا صاحب کے قرب و جوار میں آوارہ پھر رہا تھا۔ میرا بندوبست مینیجر قیدیوں کی بحالی کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ اسے یہاں چھوڑ گیا تھا۔ میری جیب میں سگریٹ کے دو پیکٹ تھے، میں نے نکال کے اس کے آگے دھرے۔ بھائی یہ دو ہیں، ایک تمہارا ہوا۔ اس سے آگے میرا ایثار ختم ہوتا ہے۔ سونے کا گدا تو ایک سے بھی کم ہے۔ یہ بحث سن کے چاچا بلّو آ پہنچا، اس نے اپنے گدے کے نیچے سے ایک گرم چادر نکالی اور اس نئے مہمان کو دے دی۔ نذیر بھی ہیروئن اور ٹیکے کا عادی تھا۔ پھر اس کے خصیوں پر سوزش تھی، آدھی رات کو اچانک اس کا شور بلند ہوتا، ہر رات اسے موٹرسائیکل پہ ڈال کے میو ہسپتال لے جانا، اس کا کھانا پینا، یہ ایک نئی مصیبت تھی جو میرے سر تھی۔ بات بات پہ راہگیروں سے جھگڑنا، اس کے پورے جسم پہ مار پٹائی کے زخم تھے، اس کی پٹیاں بدلوانا بھی میرا ہی فریضہ طے پایا۔ وہ نارووال کے کسی گاؤں سے تھا۔ اسے گانوں سے کوئی شغف تھا، نہ اسے کوئی لطیفہ آتا تھا۔ نہ ہی عمر قید کے دنوں سے کوئی اچھی بری یاد اس کے ذہن میں تھی۔ وہ اندر ورکشاپ میں میرے برابر سوتا تھا۔ رات بھر ہم ایک دوسرے سے بیزار شٹر گرائے تغارچے میں رکھے انگاروں کو باری باری پھونکیں مارتے رہتے۔ رات کے وقت وہ اکثر سوتے میں اچانک اٹھتا اور آسمان کیطرف منہ کر کے اونچے سے کہتا؛
ایہنوں کہندے شُوں شڑکّا شا۔۔۔
پھر وہ ایک بوالعجب سا قہقہہ لگا کے پھر سے لیٹ کے سر ڈھانپ لیتا اور میں اسے تکتا رہ جاتا۔ یہ اس کے غیر دلچسپ سے کردار کی وہ واحد جھلک ہے جس میں اس کی کم مایہ زندگی کا بوجھل پن مجھے کچھ ہلکا لگنے لگتا ہے۔ نذیر نے اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے ورکشاپ کی چیزیں کباڑ پہ بیچنی شروع کر دیں۔ کباڑیہ گھاٹے کا بیوپاری نکلا اور اس نے ورکشاپ پہ مخبری کر دی۔ ایک دو بار تنبیہہ پہ نذیر باز نہیں آیا۔ آخر ایک دن اس کی بحالی سے ناامید ہو کر اسے ورکشاپ چھوڑنے کا کہنا پڑا، اور وہ پھر سے داتا صاحب کے جوار میں کھلے آسمانوں کی بھل بھلیوں میں غائب ہو گیا۔
پھر ایک شام یوں ہوا کہ میں گھوم گھام کے واپس پہنچا تو پورے درے میں دھواں ہی دھواں تھا۔ ایک طرف چاچا بلّو بیٹھا روتا چلاتا کسی کو بددعائیں دے رہا تھا۔ محلے میں ایک دو لوگ نشے میں اس کے ہم مشرب تھے۔ کسی ایک کا بھائی ان دنوں دبئی سے لوٹا تھا، جسے معلوم ہوا کہ اس کا بھائی ادھر درے میں بلّو سائیں کے پاس بیٹھ کے ٹیکے بازی کرتا ہے۔ اس دبئی پلٹ مجاہد نے برائی کو اس کی ’’جڑ‘‘ سے مارنے کی ٹھانی اور درے میں آ کے بلّو کے بستر، پہننے کے کپڑوں اور باقی سامان کو ایک جگہ رکھ کے آگ لگا دی اور اس کے شعلوں کے آگے کھڑے ہو کے نشے کی لعنت پر ایک دھواں دھار خطبہ دے کے چل دیا۔ میں پہنچا تو پہلے جہاں بلّو کی گدی سجی ہوتی تھی، وہاں راکھ کا ڈھیر تھا۔ اور اب بلّو اپنی رقت آمیز تقریر کر رہا تھا؛
’’جب میں نہیں تھا تو درے میں رات کو تمہاری دکانوں کے آگے لوگ آ کے ہَگ جاتے تھے، میں آیا ہوں تو رات بھر یہاں جھولے لال کے نعرے گونجتے ہیں۔ یوں نہیں ہے کہ وہ میرے پاس آیا اور نشے پہ لگا، بلکہ یوں ہے کہ وہ نشے پہ لگا اور میرے پاس آیا۔۔۔‘‘ اور وہ اپنے سامان کی راکھ اچھالتا زار و قطار رو رہا تھا۔ مارکیٹ میں کسی نے چادر عطیہ کی، کسی نے کپڑوں کا جوڑا، اور رات تک بلّو کا تکیہ پھر سے سج گیا۔
چاچا بِلو مجھے پینٹر بابو کے نام سے پکارتا تھا۔ لاہور سے نکلتے ہوئے میں نے اس کے تکیے کی سرآویز کے طور پہ اس کا یہ پورٹریٹ بنا کے اسے دیا تھا۔ اور اس نے مجھے شکریے کے طور پر گلابی فریم اور سنہرے شیشوں والا ایک چشمہ تحفے میں دیا۔ انہی دنوں میں داتا صاحب کیطرف آوارگی کرنے ایک دو بار گیا، ایک راہگیر پر نذیر کا دھوکا ہوا، میں نے پلٹ کے آواز دی، وہ نذیر نہیں تھا، نہ ہی وہ بعد میں کبھی ملا۔
آج لاہور سے ایک دوست نے فون پہ خبر دی ہے کہ بلّو مر گیا ہے۔ شاید نشے کی اوورڈوز سے مرا ہے۔ اس کے بیٹے اس کے گدے سے میت اٹھا کے لے گئے ہیں، اور یہ پورٹریٹ ابھی تک راہگزار کی دیوار پہ اسی جگہ ٹنگا ہے جہاں بلّو کا خالی بستر بچھا ہوا ہے۔
(لکھاری کی فیسبک پروفائل سے ماخوذ)