مجازی حقیقت: ڈیرک سٹانووسکی (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ
نوٹ:    2004ء میں بلیک ویل پبلی کیشنز کے زیر اہتمام لوسیانو فلوریڈی (Luciano    Floridi) کی زیرِ ادارت    ’’ بلیک ویل گائیڈ  برائے  فلسفہ کمپیوٹنگ اور انفارمیشن ‘‘   (The    Blackwell    Guide    to    the    Philosophy    of    Computing    and    Information) شائع ہوئی ۔ڈاکٹر ڈیرک سٹانووسکی (Derek    Stanovsky)  ،بون شمالی کیرولینا کی پبلک یونیورسٹی میں مطالعات برائے انٹرنیٹ  پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں نیز شعبہ  بین الکلیاتی مطالعات  میں ا  سسٹنٹ  پروفیسر ہیں جنھوں نے بلیک ویل گائیڈ  کے لیے مجازی حقیقت (Virtual    Reality) کے موضوع پرایک قیمتی  مضمون لکھا ۔ کمپیوٹر سائنس ، مصنوعی ذہانت  اور سائبر ورلڈ  کے پس منظر میں مذکورہ مضمون کی بیش بہا اہمیت کے پیش ِ نظر اس مضمون کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق مجازی حقیقت  کے موضوع پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔

تعارف

’’مجازی  حقیقت‘‘  (مخفف: وی آر)  ، تضاد پر مبنی ایک  بے جوڑ اصطلاح ہے ۔’’ مجازی ‘‘(virtual) کے لفظ  کو ’’ناموجود ‘‘(not-actual)کے معنوں میں لیتے ہوئے  ’’حقیقت ‘‘  اور اس کے مقابل  ’’موجود ‘‘ کی ترکیب کو استعمال کرتے ہوئے ایک  بھدے   تال میل کی بنیاد رکھی جاتی  ہے  ۔   بلا شبہ ،  اس  اصطلاح کی مقبولیت میں کچھ نہ کچھ عمل دخل اس   دلفریب تاثر کا بھی ہے    ۔ آج کل ’’مجازی  حقیقت‘‘   کی اصطلاح کمپیوٹرکے ذریعے وجود میں آنے والی   دنیا   ،  تجربات  اور افعال پر مشتمل  فہرست   کو بیان کرنے کی خاطر استعمال ہوتی  ہے   جس میں شبانہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس فہرست میں  ہر طرف دکھائی دینے والی کمپیوٹر گیمز سے لے کر نت نئی ٹیکنالوجیز شامل ہیں،مثلاً  فاصلاتی انہماک(tele-immersion) اور  کچھ دیگر  ایسی  ٹیکنالوجیز جن کا خواب تاحال صرف سائنس فکشن میں  ہی دیکھا جا سکتا ہے   ،  یا پھر   ولیم گبسن (   William Gibson)  اور  آرسن سکاٹ  کارڈ    (Orson Scott    Card)کے ناولوں میں اُن سےآمنا  سامنا ہوتا ہے  ، ٹی وی ڈرامہ ’’ ستارے کا سفر‘‘ (Star   Trek)کے مشہورسٹیج  (Holodeck)  پر دکھائی دیتی ہیں،   یا پھر   واچووسکی برادران(Wachowski   brothers) کی  فلم (The   Matrix)  میں نظر آتی ہیں ۔ ناولوں ، ڈراموں اور فلموں میں   ’’مجازی  حقیقت‘‘     کے حوالے سے دستیاب  ٹیکنالوجیز   مستقبل کی  ’’مجازی  حقیقت‘‘  پر مبنی ممکنہ ٹیکنالوجیز سے متعلق ایک بیانیہ  ترتیب دینے میں مدد فراہم کرتی ہیں ۔ اس سارے پھیلاؤ کو ’’مجازی  حقیقت‘‘   کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا جاتا ہےجس میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔

’’مابعد الطبیعیات‘‘  بھی ایک  جامع  اصطلاح ہے ۔ وجود کی بنیاوی ماہیت کا سراغ لگانے جیسے عظیم الشان کام  کا بار اٹھاتے ہوئے  مابعد الطبیعیات اس امر کی چھان بین کرتی  ہے کہ حقیقت کی بنیادوں اور تعمیر میں کون سے اصول کارفرما ہیں ۔ مابعد الطبیعیات کے تناظر  میں  مجازی  حقیقت سے   جڑے ہوئے چند ممکنہ  سوالات   شاید یوں اٹھائے جائیں  :    مجازی  حقیقت  کا تعلق کس  نوع  سے ہے ؟  کیامجازی حقیقت کی ایجاد  سے تصور حقیقت میں   توسیع ، نظرثانی  ، بڑھوتری یا اضافہ ہوا ہے ؟ یعنی  کیا  مجازی حقیقت ،حقیقی ہے ؟ یا چونکہ مجازی حقیقت ،حقیقی  کے مقابلے میں نسبتاً  زیادہ مجازی  ہے لہذا  فی نفسہ  ایک  قابل ذکر  جدید مابعدالطبیعیاتی   مسئلہ نہیں ہے ؟  ’’حقیقت ‘‘  اور ’’مجازیت ‘‘   (virtuality) کے مابین روابط کو کسی دوسرے انداز سے کیسے سمجھا جائے نیز  ان پر کلام کیسے ہو ؟    غالبا ً اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے  : کیا   مجازی حقیقت کی بدولت سامنے آنے والی  ممکنہ مابعد الطبیعیاتی چنوتیاں(چیلنجز)   ہمارے موجودہ مابعد الطبیعیاتی نظریات  میں  کسی قسم کی تبدیلیوں کو لازم قرار دیتی ہیں یا دوسرے مابعد الطبیعیاتی مسائل پر کسی قسم کی روشنی ڈالتی ہیں ؟

مابعد الطبیعیات اورمجازی حقیقت کے مابین مشترکہ تحقیق و تفتیش کے  وسعت پذیر  کشادہ منطقے کے اندر موجود   تین  اہم موضوعات کے پیش ِ نظر ، زیر ِ نظر باب  محولہ بالا سوالات میں سے چند  تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش   کرتا ہے  ۔ اول ، مجازی حقیقت کی ٹیکنالوجی اور اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ابھرنے والے چند مسائل  کو قدیم سے جدید اور پھر مابعد جدید  مغربی   مابعد الطبیعیاتی  فلسفیانہ  روایت کے تحت پرکھا جائے گا ۔ بعد ازاں ، مجازی حقیقت کی وجہ سے انسانی شناخت  اور ذات کے متعلق پیدا ہونے والے مسائل کو کارتیسی موضوعیت (Cartesian    Subjectivity)  اور پھرفاعل /موضوع  (Subject)سے متعلق مابعد ساختیاتی نظریات اور مجازی  حقیقت سے وابستہ ان کے بے شمار مضمرات کو کھنگالا اور پرکھا جائے گا ۔اخیر میں ان مابعد الطبیعیاتی  تفکرات اور قیاس آرائیوں کے ثمرات کو  عالمگیریت (Globalization) اور ابھرتی ہوئی انفارمیشن  اکانومی  کے تناظر میں  سامنے لایا جائے گا    جس  کے اندر معاصر  مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات اور سیاست   دونوں کو انتہائی پیچیدگی سے  باہم جوڑ دیا گیا ہے ۔

چونکہ مابعد الطبیعیات  فی نفسہ   وسیع و عریض  مضامین میں سے ایک  ہے ، تویہ امر قدرے بے جوڑ/فضول   دکھائی دیتا ہے کہ    مجازی حقیقت پر ہونے والی بحث کو مابعد الطبیعیات کے  ایک مختصر حصے تک محدود کر دیا جائے۔ چنانچہ  ہر ممکن حد تک مجازی حقیقت  (کے مفہوم و معانی کو ) زیادہ سے زیادہ کھولا  جائے گا نیز  اس کو کسی ایک مخصوص  ٹیکنالوجی  ،   خواہ  موجود ہو  یا موہوم (تخیلاتی)  ، کےدائرے تک محدود نہیں  رکھا  جائے گا۔ تاہم ،اس طور سے حاصل ہونے والے مجازی حقیقت کے حاصل ہونے والے   معارف  کے اطلاقات کو   اس کی متنوع  ذیلی  حدود و قیود  اور مخصوص  ذیلی شعبوں  کے اندر بھی دیکھنا چاہیے   ۔اس حوالے سے  ایک آخری شرط  یہ ہے : چونکہ مابعد الطبیعیات حقیقت کی بنیادی ساخت کا سراغ لگاتی  ہے اور اس مرحلے پر  یہ امر واضح  نہیں ہے کہ کس طرح  مجازی حقیقت  کو حقیقت کے تحت  رکھا جائے ،لہذا   مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات سے متعلقہ زیر نظر تفتیش  کو ’’ مجازی مابعد الطبیعیات ‘‘   کی ایک مشق کہنا شاید زیادہ موزوں قرار پائے   ۔ عین ممکن ہے  کہ مجازی حقیقت  کو  مغربی  مابعد الطبیعیات کی تاریخ میں اپنے لیے  کوئی مقام درکار نہ ہو  بلکہ یہ اپنی الگ مابعد الطبیعیات  کی حامل  ہو ۔

٭٭٭٭٭٭٭

فصل  اول  : مجازی حقیقت

مجازی حقیقت کو بے شمار طریقوں سے بیان کیا جا چکا ہے ۔مجازی حقیقت پر لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب میں ہاورڈ رائن گولڈ (Howard    Rheingold) لکھتا ہے : ’’مجازی حقیقت کو دیکھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ  یہ دوسری دنیاؤں  میں  کھلنے والی ایک طلسمی کھڑکی ہے۔  مجازی حقیقت کو دیکھنے کا دوسرا طریقہ اس امر کے ادراک پر مشتمل ہے کہ  بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں حقیقت ایک سکرین کے پیچھے گم ہوتی جا رہی ہے‘‘  (رائن گولڈ  ،  1999 :  ص 19) ۔ مجازی حقیقت کو بیان کرنے کا یہ انداز ہمارے مقاصد کےلیے  مفید ہے کہ یہ زیرِ بحث معاملے کے ایک اہم جزو  کو اجاگر کرنے اور اس کی وضاحت کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ کیا مجازی حقیقت ہمیں حقیقت کی توسیع  ، بڑھوتری  اور اس کے زندہ تجربے   کی خاطر نئے راستے فراہم کرتی ہے یا  پھر اُسی  حقیقت کو کمزور کرتی ہے اور  خطرے سے دوچار کرتی ہے؟ مجازی حقیقت    کو دیکھنے کے دونوں طریقے ہو سکتے ہیں یعنی  روشن آدرشی امکانات کی علمبردار   یا  پھر تاریک ناخوشگوار ڈراؤنے خوابوں کی صورت گر،  نیز یہ دونوں زاویہ ہائے نگاہ اپنے اپنے استناد  کی کوئی نہ کوئی  بنیاد رکھتے ہیں ۔ ان معاملات کو مزید کھنگالنے سے بیشتر  اس امر کو بیان کرنا  نیز  اس کی وضاحت کرنا مفید ثابت ہو گا کہ مجازی حقیقت کے منابع کیا ہیں ، مجازی حقیقت کی موجودہ صورتحال اور  اسکا مستقبل کیا  ہے  ۔

مجازی حقیقت کا ظہور فوجی وخلائی ، ہالی وڈ اور کمپیوٹر انڈسٹری کی خاطر بننے والی غیر متوقع مخلوط(hybrid) ٹیکنالوجی   کی بدولت   ہوا،   نیز اس  کی تخلیق  سرد جنگ  سے لے کر سائنس فکشن کے  زیر اثر کمپیوٹر سے متعلق  تصوراتی  داستانوں کی حامل ذیلی ثقافت (cyberpunk    subculture) کے تناظر میں  ہوئی ۔ مجازی حقیقت کی اولین صورتیں  امریکی فوج اور ناسا  کے ہوابازوں  کی تربیت  کی غرض سے کمپیوٹر پر مبنی بناوٹی  ماحول   (Flight    Simulator)   کی صورت  وجود میں آئیں  ۔ مذکورہ  ٹیکنالوجی، بصری اظہار کے واسطے   کنٹوپ  (head-mounted    display)اور ہوائی جہاز کے کاک پٹ(Cockpit) سے مشابہ مجازی ماحول کوتخلیق کرنے  کی جانب لے گئی ۔ عصر حاضر کے جنگی  ہواباز کنٹوپ اور کاک پٹ کو     حقیقی ہوائی جہاز کو قابو کرنے کی خاطر استعمال کرتے ہیں ۔ مجازی حقیقت کا ایک دوسرا ماخذ  تفریح سازی کی صنعت(انٹرٹینمنٹ انڈسٹری )  کے تحت حقیقت سے قریب تر  فلمی تجربے کی کھوج  میں  ہے،  جس میں  فلم سازی کے ابتدائی طریقوں   ، سٹیریو ساؤنڈ  اور سہ جہتی  (3D)فلموں  سے لیکر    حقیقت سے  قریب ترتصویروں  اورآوازوں کی مزید تخلیق  بھی شامل ہے۔اس  ترقی پذیر فہرست  میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تمام   پیش رفت  کو بھی  شامل کر لیجئے ۔ مثال کے طور پر ، نقشہ نویسی کے آ ٹو کیڈ (AutoCAD) جیسے کمپیوٹر سافٹ ویئرنے اشیاء کی  سہ جہتی   نمود کی تخلیق اور ان کے استعمال  کو ممکن بنا دیا ۔ زیروکس (Xerox) کمپنی کے بنائے ہوئےنیز   ایپل (Apple)اور مائکروسوفٹ (Microsoft) جیسی کمپنیوں کی بدولت مشہور ہونے والے بصری ذریعہ تعامل   (Graphical    User    Interface) نے  حروف پر مبنی تمام تر ذرائع ِ  تعامل  (text-based    user    interface) کی جگہ لیکر  مشینوں اور انسانوں کے مابین رابطے کی  صورتوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ ان تمام رجحانات اور ٹیکنالوجیز نے باہم مل کر اس ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی جو    ’’مجازی  حقیقت‘‘ کے نام سے معروف ہے (مجازی حقیقت کی ابتداء اور ارتقاء سے متعلق مزید معلومات کے لیے رائن گولڈ ، 1991؛ اور چیشر، 1994ء ملاحظہ کیجیے )۔

مجازی حقیقت کی  واضح تعریف  کے لئے  کوئی ایک مخصوص  معیار  نہیں ہے  یا کم از کم فی الوقت موجود نہیں  ہے۔ مائیکل ھیم (Michael    Heim) اپنی کتاب ’’مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات ‘‘  (Metaphysics    of    Virtual    Reality)  میں ’’  مجازی حقیقت  کی رہنمائی کرنے والے مختلف تصورات ‘‘ کے ایک سلسلے کی نشان دہی کرتا ہے جن  میں سے ہر ایک کے تحت  ’’ایسے مکاتب ِ  فکر قائم ہو چکےہیں جو  مجازی حقیقت کی تشکیل سے متعلق شدید اختلاف کا شکار ہیں ‘‘  (ھیم : 1993، ص 110)۔ زیرِنظر  فصل میں زیرِبحث مجموعہ خصائص  کمپیوٹر  کے ذریعے وجود میں آنے والی  متعامل بناوٹی / جعلی  دنیا  (سیمولیشن) سے متعلقہ  ہیں  جن کی بابت امکان ہے کہ ان  جعلی دنیاؤں  کو بیک وقت کئی افراد استعمال کر پائیں  نیز  جو کامل اورحقیقی  حسی انہماک   فراہم کرپائیں   اور جو فاصلاتی موجودگی   (telepresence) کی  خاطر مختلف صورتوں کے استعمال   کی اجازت دیتی ہوں تاکہ دور دراز رہنے والے افراد ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور تعامل کے اہل ہو جائیں ۔ اگرچہ مجازی حقیقت کی ہر صورت میں یہ تمام عناصر ایک ساتھ  موجود نہیں ہوتے   ، مذکورہ خصائص ہی مجازی حقیقت کی شناخت کا سبب بن چکے ہیں  ۔

طیف (Spectrum) کے ایک سرے پر وہ ٹیکنالوجیز  براجمان ہیں جوکسی صورت ِ نمود  یا اسالیب اظہار کے ساتھ  تعا مل   یا  کمپیوٹر کی بدولت وجود میں آنے والی جعلی دنیا     کو بطور  مجازی حقیقت  بیان کرنے کی اہل ہیں  ۔ چنانچہ کنگ فو پانڈا (Kung-Fu    Panda)کی  لڑائی پر مبنی ویڈیو گیم کا بناوٹی ماحول   یا   کسی بناوٹی ماحول میں دکھائے جانے والے کمپیوٹر کےڈیسک ٹاپ ( Desktop )  پر دستاویزات  (Documents)  کے آئیکان  (Icons)، دونوں   ہی ممکنہ صورتوں  میں  کمپیوٹر  ایک ایسی مجازی حقیقت کو جنم دیتا ہے  جس کے ساتھ افراد  مختلف طریقوں سے تعامل کر سکتے ہیں۔ مجازی حقیقت کے لئے ان دونوں صورتوں کو امیدوار بنانے کی  غرض سے  صرف  یہی ایک   دلیل نہیں ہے کہ وہ حقیقت کی نمائندگی کر رہی  ہیں۔مصوری ، عکسی تصاویر ،  ٹیلی ویژن اور فلم بھی حقیقت  کو  پیش کرتے ہیں۔   کمپیوٹرکی مدد سے اظہار و  نمائندگی  کی صورتیں  اس لیے مختلف ہیں کیونکہ  لوگ ان کے ساتھ اصلی اشیاء کی مانند ہی تعامل کرنے کے اہل ہیں۔ مختصراً، لوگ کمپیوٹر کے ذریعے بننے والی جعلی دنیا  سے مختلف کام لے  سکتے  ہیں ۔  یہ وہ کام ہے جو  نمائندگی کی دوسری صورتوں کے ساتھ نہیں ہوتا (یا دیگر اسالیبِ اظہار کے ذریعے نہیں ہوتا )۔ معاصر کمپیوٹر ٹیکنالوجی مجازی حقیقت کی  مذکورہ نوع کو  پہلے ہی سے مہیا کر سکتی  ہے  اور روز بہ روز ان کے عام استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔

طیف (Spectrum) کے دوسرے  سرے پروہ ٹیکنالوجیز براجمان ہیں   جو کامل حسی انہماک کو ہدف بناتی ہیں ۔  بصری کنٹوپ  ،مجازی حقیقت کے تحت استعمال ہونے والے دستانوں (datagloves) اور دیگر آلات،   جسم ، آنکھ اور ہاتھ کی حرکات  کو کمپیوٹر اِن پُٹ (Input) میں منتقل کر دیتے ہیں نیزبصری  ، صوتی اور   حتیٰ کہ قوت لامسہ کے ذریعے صارف کو   جوابی تعامل (Feedback)فراہم کرتے ہیں ۔  مجازی حقیقت کی یہ نوع ہماری حسی کائنات کے ہر پہلو  کو  جنم دینے اورپھر اسی  پہلو کی  ازسرنو  تخلیق کو  اس طرح  سے ہدف بناتی ہے کہ صارف  حقیقی کائنات  کی مانند مجازی حقیقت سے تعامل کر سکیں جیسا کہ  حقیقی کائنات میں دیکھنے ، بولنے ، سننے ، چھونے  اور حرکت کی بدولت  ہوتا ہے ۔ ( حتی کہ  کسی دن مجازی حقیقت میں سونگھنا اور چکھنا بھی ممکن ہو جائے گا )۔ اس اعتبار سے مجازی حقیقت  کمپیوٹرکے ذریعے ایک دنیا (سیمولیشن ) کو  بنانے  کا قصد کرتی ہے  جوکہ نہ صرف دیکھنے اور سننے میں اصلی معلوم ہوتی ہیں بلکہ قوت لامسہ  (Haptically)اور عضویاتی (proprioceptively) حوالوں سے بھی صارفین کو      اصلی محسوس ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ مجازی حقیقت تخلیق کرنے والوں میں سے ایک رینڈل والسر (Randel    Walser )  نے لکھا ہے : ’’چھاپہ خانے اور ریڈیو بتاتے ہیں ؛  سٹیج اور پردۂ سیمیں دکھاتے ہیں ‘‘    جب کہ مجازی حقیقت ’’مجسم کر کے دکھاتی ہے ‘‘ (منقول از رائن گولڈ، 1991: ص 192) ۔ ان  وحدانی نظاموں/سسٹمز  کی تخیلاتی سرحد  پر  سائنس فکشن   میں سامنے آنے والی  مجازی حقیقت پر مبنی مشینری براجمان ہے  جو ’’ستارے کا سفر‘‘ (Star Trek)   کے  سٹیج  (Holodeck)   اور فلم    The Matrix کے اندر   کمپیوٹر  سے تخلیق شدہ کائنات میں ایسی مجازی حقیقتیں پیدا کر رہی ہے جنھیں ادراکی اور تجربی لحاظ سے اصلی حقیقت سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ابھی تو  ایسی ٹیکنالوجی وجود دنہیں رکھتی  ہے تاہم اس کے چند اجز ا پہلے ہی سے کارآمد  ہیں ۔

کمپیوٹر  کے ذریعے  وجود  میں آنے والی  متعامل دنیاؤں (سیمولیشنز)  کی مجازی حقیقت کے علاوہ ایسے دیگر عناصر بھی  وجود رکھتے ہیں جو مجازی حقیقت  میں ایک کردار ادا کر سکتےہیں  خواہ وہ دو جہتی  پردۂسیمیں  (ویڈیو سکرین )تک محدود ہوں یا  وہ ایسی ٹیکنالوجیز ہوں  جو زیادہ  عملی اور قوی انداز میں صارف کوخود  میں مشغول  کر لیں  ۔ غالباً ، ان میں اہم ترین   ٹیکنالوجی  کو کمپیوٹرکی اس صلاحیت کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ ایک کمپیوٹر نیٹ ورک  کی صورت اختیار کر لیتے ہیں،  تاکہ مختلف افراد مجازی حقیقت میں شریک ہو کر  اس کے   تجربے سے گزر سکیں   نیز   ایک ہی وقت میں کمپیوٹر  کے ذریعے وجود میں آنے والی دنیاؤں    کے ساتھ تعامل میں حصہ لے سکیں  ۔ مجازی حقیقت کےایک مشترکہ  تجربےکا امکان ان بنیادی خصائص میں سے ایک ہے جس کی بدولت مجازی حقیقت کو فنطاسی (Fantasy) سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔ حقیقت کی ایک کسوٹی   یہ ہے کہ یہ کئی لوگوں کو دستیاب ہو سکے ۔ چنانچہ فنطاسی کو  غیر  حقیقی قرار دینے  کی وجہ  لازمی طور پر یہ نہیں ہے  کہ تخیل میں آنے والا تجربہ حقیقی نہیں ہے  بلکہ  اس کا سبب  یہ ہے کہ یہ کسی اور شخص کے لیے وجود ہی نہیں رکھتی ۔ خواب نجی تجربات ہیں ۔  اس کے برعکس ، مجازی حقیقت کے حصول میں اشتراک  اس بات کو ممکن بناتا  ہے جس کو ولیم گبسن نےاپنے ابتدائی  تصوراتی ناولوں میں کمپیوٹر پر مبنی ’’اجتماعی (بااجازت)   فریب نظر ‘‘ (Consensual    Hallucination)  کو بیان کرتے ہوئے نہایت وضاحت کے ساتھ پیش  کیا (گبسن ، 1984: ص 51)  ۔ مجازی حقیقت  میں شریک کر لینے کی صلاحیت انسانی تعاملات کے ایک وافر حصہ کی  مجازی حقیقت  کے اندر  پیوند کاری کو ممکن بنا دیتی ہے اور نئی راہوں پر انسانی سرگرمی کے لیے امکانات  کے در کھول دیتی ہے ۔ مواصلات ، آرٹ ، سیاست ، رومان  حتی کہ جنس اور تشدد   وہ تمام انسانی سرگرمیاں ہیں  جنھوں نے مجازی حقیقت میں اپنے  لیے نئے گھروں کو تلاش کر لیا ہے   ۔  انسانی تعاملات اور عادات کی یکسر نئی انواع کی تخلیق کے  درِ امکان ہمیشہ  کھلے  رہیں گے    جن کی نظیر یا    پیش رو مجازی حقیقت سے باہر نہیں ہے ۔

مجازی حقیقت میں   سامنے آنے والا ایک دوسرا جزو ’’ فاصلاتی موجودگی ‘‘ (telepresence)ہے جس کو اب عام طور پر ’’موجودگی ‘‘ ہی کہا جاتا ہے ۔ ای میل ،  ویڈیو کانفرنس، فاصلاتی تعلیم حتی کہ فون ، سب ہی  فاصلاتی موجودگی   کی صورت گری کرتے  ہیں ۔ ان تمام صورتوں میں  ٹیکنالوجیز لوگوں کو دُور دراز رہنے والوں سے  رابطہ کی سہولت فراہم کرتی ہیں جیسے کہ وہ لوگ  بالمشافہ ایک دوسرے سے  بات چیت کرتے تھے ۔ آج کل  کی بیشتر معاصر دنیا میں ایسے رابطے روزمرہ کا معمول ہیں  ۔ اور شاید ہی یہ بات  حیران کن لگے  کہ ہزاروں میل دور  رہنے والے انسانوں کے ساتھ یوں بات چیت کرنا ممکن ہے ۔ نسبتاً زیادہ پیچیدہ ، حقیقت سے قریب تر اور خود میں غرق  کر لینے والی ٹیکنالوجی وجود بھی رکھتی ہیں اور تخیل میں بھی لائی جا سکتی ہیں  جو نہ صرف طویل فاصلے پر تحریری یا صوتی رابطے  کی اجازت دیتی ہیں بلکہ تعامل  کی  دیگرصورتوں  کو بھی  ممکن بناتی  ہیں ۔ مثال کے طور پر فاصلاتی نگہبانی کے تحت  ہوائی جہاز اور میزائل کا فوجی استعمال  یا نظام شمسی  کے دور دراز کے مقامات کی تحقیق کی خاطر بنا آدمی کے  چلنے والے خلائی جہاز  ، دونوں ہی مجازی معنوں میں انسانی موجودگی کی مثالیں ہیں ۔ دیگر مثالیں  طب  کے میدان میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں کمپیوٹر کی مدد سے چلنے والے آلات کی مدد سے عمل  جراحی سر انجام  دیا جاتا ہے اور جراح  براہ راست مریض کی بجائے  پردۂ سیمیں  کے ذریعے تعامل کرتے ہیں ۔ یہ مثالیں ان طریقوں کی  وضاحت کرتی ہیں جن کے ذریعے انسانی موجودگی ،فعل  اور تعامل  کو  مجازی اعتبار سے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور  کم ہونے کی بجائے دن بہ دن ایسی مثالوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

مجازی حقیقت نہ صرف رہنے اور کھوجنے کے  نت نئی  مجازی مقامات (virtual    spaces) کی تخلیق کرتی ہے بلکہ مجازی زمانوں  (virtual    times)کے امکانات کو بھی پیدا کرتی ہے ۔ کمپیوٹر کی مدد سے بننے والی بناوٹی دنیاؤں  کی تخلیق  کے ذریعے زمانہ کچھ اس طریقے سے دو لخت ہو جاتا ہے کہ آدمی کو مجازی ، تمثیلی دنیا کے زمان اور حقیقی  دنیا کے زمان میں فرق کرنے کے واسطے جدوجہد کرنا پڑتی  ہے   ۔ چنانچہ مجازی حقیقت کی خاطر تخلیق ہونے والی مصنوعی دنیا کی ایجاد  کے ساتھ ہی  (کمپیوٹر کے تحت)  ’’حقیقی زمانہ ‘‘ (   real time)(مخفف: آر ٹی)   کا تصور   عام محاورے میں چلن پکڑتا  ہے۔(حقیقی دنیا کے برعکس) مجازی حقیقت میں  اس بات کا امکان ہے کہ ذرائع ابلاغ  اور  باہمی رابطے    بیک وقت  (Synchronous)     (جیسا کہ بصری اجلاس اور چیٹ رومز میں ہوتا ہے ) اور (کمپیوٹر کے تحت ) حقیقی زمانہ  (مخفف : آر ٹی) کے ساتھ باہم پیوست  (coincide)ہوں یا  بالترتیب (Asynchronous ) ہوں (جیسا کہ برقی خطوط   میں ہوتا ہے )، اور لہذا دیگر مجازی تعاملات  میں کار فرما وقت کے بہاؤ   ، یا پھر کمپیوٹر تماثیل سے باہر  کے حقیقی زمانے سے بے حد اور ناقابلِ بیان طور پر گریز پا ہوں  ۔حتی کہ مجازی  حقیقت میں  یہ ممکن ہے کہ وقت کا دھارا تھم جائے   یا  پیچھے کو چل پڑے ۔  مثال کے طور پر ،ایسا ہو سکتا تھا کہ   غیر متعینہ مدت کے لیے ایک کمپیوٹر  کے ذریعے بننے والی دنیا (سیمولیشن)  کو ایک جگہ پر  روک  دیا جائے  یا گزری ہوئی چند حالتوں(تصویری فریموں )  کی طرف  لوٹا دیا جائے  تاکہ صارفین اس کے کسی حصے کا دوبارہ تجربہ کر لیں ۔ زیرِ استعمال ایجاد کی بدولت وقت کے پیمانوں میں تبدیلی کا امکان بھی ہے ۔  یہ بات اس وقت  ممکن ہو سکتی تھی   جب تیز رفتار مشین  اور نسبتاً سست رفتار  مشینوں کے  مابین  ایک کمپیوٹر نیٹ ورک قائم  ہو یا جب انٹرنیٹ سے جڑنے کے لئےسست  رفتار والے آلات (Modems)کو استعمال میں لائیں ۔ ایسے واقعات  میں اس سے مراد ہو سکتا  ہے کہ حیرت انگیز طور پر  جداگانہ  شعورِ وقت کے ساتھ  کچھ اشیاء کو دوسروں کی نسبت تیز رفتاری سے تصویری قالب میں ڈھالا (Rendering)جا سکتا ہے  ، ایک صورت سے دوسری صورت میں  تبدیل  کیا جا سکتا ہے اور اکثر اوقات ان اشیاء میں  ترمیم و تجدید کی جا سکتی  ہے    جیسے   کمپیوٹر کے ذریعے بننی والی   دنیا (سیمولیشن )  میں اشیاء وقت کے مختلف پیمانوں کی نسبت سے حرکت کرتی ہیں ۔زمانے میں یہ  تغیرات  اور پیچیدگیاں مجازی حقیقت کے ذریعے اور اس کے ساتھ   ہی سامنے آتی ہیں ۔

مجازی حقیقت کی ہر جنس میں یہ تمام عناصر ظہورپذیر نہیں ہوتے   ۔ تاہم ، مجموعی طور پر سب مل کر ایک پس منظر فراہم کرتے ہیں جس کے تحت مجازی حقیقت پر مبنی معاصر وحدانی  نظام (سسٹمز) بارہا   ایجاد ہوتے ہیں۔ یہی عناصر اس افق کی  صورت گری کرتے ہیں جس کے تحت  مجازی حقیقت  کے ہمراہ ایک   مابعد الطبیعیات کو لازماً  ہونا چاہیے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

فصل دوم  مجازی مابعد الطبیعیات

مجازی حقیقت  کے زاویہ نگاہ سے مغربی مابعدالطبیعیاتی تاریخ   کے بیشتر حصہ کی تلخیص ِ نو  ممکن ہے ۔   عقلیت ، تجربیت ، حقیقت پرستی ، مثالیت  ،  مادیت  ، اسمائیت ، مظہریات  ، ممکنہ کائناتیں (possible    worlds) ،ناگہانی ظہور ( supervenience)، زمان و مکان کے تمام مباحث کو کمپیوٹر پر مبنی  جدید اور بے باک مجازی حقیقت کے باب میں  نئے  حاصلات اور پیچ و خم    مل سکتے ہیں ۔ زیرِنظر فصل  ،موجودات اور حقیقت کے مابین تعلقات سے متعلق  مغرب کے چندموثر ترین     مابعد الطبیعیاتی نظریات  کا سراغ لگاتا  ہےنیز ان کے اور   مجازی حقیقت کے مابین  ممکنہ مطابقت  کی کھوج لگاتا ہے ۔ یقیناً، اس  بحث سے   مجازی حقیقت کے مابعد الطبیعیاتی امکانات ختم نہیں ہو جاتے   ۔ مغربی مابعد الطبیعیات کے بہت سے  ان چھوئے گوشوں کے ساتھ ساتھ  مابعد الطبیعیات کے کچھ دیگر  وسیع و عریض گوشے ایسے بھی ہیں جن کی کھوج ثمر مند ہو سکتی تھی   ۔ ایسے    زاویہ ہائے نگاہ میں  افریقی ، چینی ، ہندی اور لاطینی امریکہ کی قدیم اورشاداب   مابعد الطبیعیاتی روایات  کے بیشتر حصے شامل ہیں ۔

موجودات  (appearances)    اور حقیقت کے مابین امتیاز غالباً مابعد الطبیعیات کی چند بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور تھیلیز    کے زمانے  سے تعلق رکھنے والا قدیم ترین سوال بھی ہے  جب اس نے اعلان کیا کہ ظاہری اشیاء میں حیرت انگیز تنوع کے باوجود حقیقت میں’’ہر شے پانی سے بنی ہے ‘‘۔  موجودات کی چلمن کے پیچھے  جھانکنے اور شے فی الذات تک پہنچنے  کی ایسی خواہش مابعد الطبیعیات کے چند مستقل موضوعات  میں سے ایک ہے ۔ مجازی حقیقت مابعد الطبیعیاتی تخیل کی انتہائی حدوں کو چھوتی ہے اور   اس  قدیم سوال  کو    مزید  الجھا  دیتی ہے کہ اشیاء  بظاہر کیسی دکھائی دیتی ہیں او ر ان کی اصل کیا ہے۔ مثال کے طور پر ، آئینوں  و  خوابوں سے  جڑے  عقدے اورحقیقت  سے متعلق ہماری  فہم میں ان کا حصہ ایک طویل تاریخ کا حامل ہے اوربہت سے  مابعد الطبیعیاتی مفکروں  کی تحریروں میں بارہا اس کا ذکر ملتا ہے ۔ مجازی حقیقت ان عقدوں کی الجھن کو  مزید بڑھا دیتی ہے ۔

’’تاہم  فرض کیجئے کہ آئینے پر عکس تو موجود ہوں اور خود آئینہ دکھائی نہ دے    ،تو  ہم ظاہر ہونے والی ٹھوس  حقیقت پر کبھی شک نہ کریں گے ‘‘  (فلاطینوس ،التسع :  تیسرا رسالہ، چھٹا  جزو) ۔ فلاطینوس کا یہ اقتباس معاصر  مجازی حقیقت کو  نہایت خوبی سے  بیان کرنے   کے قریب  پہنچ جاتا ہے ۔ مجازی حقیقت بھی بہت حد تک سرِ آئینہ اس تصویر کی مانند ہے جو آئینے کے غیاب کے بعد بھی باقی ہو ۔ آئینوں کی مثال میں ایسا امکان صرف فرضی ہوتاہے ۔ فلاطینوس کا گمان ہے کہ بیشتر صورتوں میں حقیقت اور اس  کے عکس   کے مابین فرق کو آئینے کی مثال کے ذریعے سمجھنا    آسان ہے۔ بہرحال ، لیوس کیرول (Lewis    Carroll)کی ایلس (Alice) ہی ہے جس کو آئینے میں جھانکنے پر  ایک کمرہ دکھائی دیتا ہے  جو ’’ہمارے مہمان خانے کی مثل ہے لیکن ہر شے الٹے رخ پر ہے ‘‘   (کیرول، 1871: ص 141) ۔ ایسی  الجھن  حیرت انگیز طور پر  بچگانہ اور معصومانہ  دکھائی دیتی ہے ۔  فلاطینوس حقیقی اشیاء اور ان کی غیرحقیقی  پرچھائیوں کے مابین امتیاز کے بارے میں اس قدر پراعتماد ہے کہ وہ اس  بات کو  بطور مثال اپنے دعوے کے جواز میں استعمال کرتا ہے کہ حقیقت مادے کی بجائے صورت میں مستور رہتی  ہے ۔ تاہم ،  اس سے بھی زیادہ انوکھی بات یہ ہے کہ فلاطینوس  اس  امر کو تسلیم کر تا  ہے کہ   خاص حالات میں  ایسی پرچھائیاں ہمیں  فریب دےسکتی ہیں   (اگر آئینے میں دکھائی دینے والےپرچھائی  نے مستقل حیثیت اختیار کر لی اور اگر آئینہ بذات خود  اوجھل ہو   جائے)۔ لاریب ، حقیقت  سےپرچھائی  کو الگ کرنے  میں ہماری نااہلی کی بدولت ہی   تماشا گھروں  کے آئینہ خانوں اور جادوگروں کے کرتبوں  جیسے نظارے توجہ کو کھینچ لیتے ہیں ۔  ایسی صورتوں میں ہم وہی غلطی کرتے ہیں جو ایلس سے سرزد ہوئی ۔ حقیقت اورپرچھائی یا مظہر کو باہم ملا دینے کی بنیادی غلطی کا امکان ہی آئینوں  کو   مابعد الطبیعیاتی مقام عطا کرتا ہے ۔

شاید  مجازی حقیقت   ہمیں ایک نئی قسم کے آئینہ کے روبرو کر دے ، ایک ایسا آئینہ  جو بہترین  شیشوں  سے فائق ہو ۔ اگر ایسا   ہی ہے  تو اس بات کا امکان ہے کہ مجازی حقیقت ، حقیقت اورپرچھائی   نیز شے اور مظہر  میں امتیاز کے روایتی طریقہ کار کو مہلک حد تک الجھا  دے  ۔ فلوطینوس کے نزدیک ، یہ آئینے میں دکھائی دینے والی پرچھائی کی محدودیت ہے   جو ا س کو حقیقت کے پرتو کی حیثیت سے  آشکار کرتی ہے ۔ ایسا محض اس کارن ہے  کیونکہ آئینے میں دکھائی دینے والی پرچھائیاں  ناپائیدار (مختصر ، عارضی ، متغیر  یا ہمارے دیگر  ادراکات کے ساتھ ہم آہنگی میں ناکام   )  ہیں    اور آئینہ چونکہ بذاتہ  مخفی نہیں رہ  پاتا ہے   جو ہمیں حقیقت اور پرچھائی   کے مابین تفریق  کے قابل بناتا ہے  (اس  کے کنارے دکھائی دیتے ہیں ، چمکنے والی روشن سطح  میں نقص  ہوتا ہے ،  یا  پھر کسی دوسری صورت براہ راست قابل ِ ادرا ک   ہوتا ہے )   ۔ کسی بھی آئینے کی  ایک داخلی  مجبوری  یہ ہے کہ اس کو عکسی مظاہر   تک ہی محدود رہنا لازم  ہے۔ آئینے میں نظر آنے والی کسی شے کو چھونے سے ہمیشہ فریب  ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ تاہم مجازی حقیقت کے تحت    اپنے آپ  میں غرق  کر لینے والی صورتوں (immersive    versions) میں  پرچھائی کو بصارت تک پابند رہنے کی ضرورت  نہیں ہوتی ہے ۔ مجازی حقیقت  کے تحت  مظہر کسی  بھی زاویے اور کسی بھی حس کی چھان بین سے شاید  گزر جائے۔ ناپائیداری کے ضمن میں مجازی حقیقت کی    تصویر شاید کسی لمحے غائب ہو جائے  ، لیکن  کسی حقیقی شے یا واقعہ کی مانند  ان کے  مستقل اور  زیادہ عرصہ تک  برقرار رہنے کا امکان  بھی ہے  ۔ مزید براں ، آئینے پہلے سے موجود اشیاء  ہی  کی پرچھائی دکھا سکتے ہیں ۔ مجازی حقیقت  پر ایسی کوئی پابندی نہیں  ۔   مجازی حقیقت میں  دوسری  اشیاء کی نقول بھی ہو سکتی  ہیں  تاہم   یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ  میں یکتا ، منفرد  اور مستند اشیاء ہوں جو اور کہیں پائی نہ جاتی ہوں  ۔  اس آخری نکتے کا معنی یہ نکلتا ہے کہ حقیقت  اورپرچھائی  کے مابین امتیاز کے لیے درکار بنیادیں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ محض ایسا نہیں ہے کہ مجازی حقیقت کے مظاہر  ، آئینے میں دکھائی دینے والی پرچھائیوں کی مانند جھوٹے  (یا کھوٹے ) ہیں   ۔ حتی کہ یہ افلاطون کے نظریۂ  تھیٹر (Plato’s    view    of    theater)کے مماثل بھی نہیں ہے جس کے مطابق یہ حقیقت کو مسخ کرتا اور اس کی  غلط نمائندگی  کرتا ہے لہذا وہ اپنی کتاب ’جمہوریت‘ (Republic)میں اس پر پابندی کا خواہاں تھا   ۔ اس کے برعکس ،  مجازی حقیقت  شاید  خارجی کائنات سے الگ تھلگ یکسر  ایک نئی کلی حقیقت کا پروانہ طلب کرتی ہو  نیز سچ و جھوٹ میں امتیاز اور بناوٹی و بے بنیاد سےکھرے اور معتبر کو جدا کرنے  کی خاطر اپنے داخلی طریقہ ہائے کار کی متقاضی ہو ۔

خواب بھی ایسےمواقع   فراہم کر سکتے ہیں جہاں  ادراک اور حقیقت  حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور مجازی حقیقت سے تقابل کی خاطر شاید  سب سے زیادہ عام فہم اور بہترین  ہوں ۔ خواب،  مجازی حقیقت کی   بیشتر خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں   ۔  خواب حسی وضاحت اور امتیاز سے متعلق مجازی حقیقت کے سب سے زیادہ رجائی    سائنسی ادب  میں پائے جانے والا بیانیوں  سے مشابہت رکھتے ہیں نیز  خواب خود میں غرق   کر لیتے ہیں (immersive)۔  ڈیکارٹ(Descartes) اپنی کتاب ’تفکرات ‘ (Meditations)میں اس امکان کو عمدگی سے زیرِ بحث لاتا ہے کہ حقیقت سے خوابوں کو جدا کرنے کا شاید کوئی  یقینی  طریقہ  نہ ہو ۔ وہ لکھتا ہے : ’’ رات کو نیند  کے دوران ، کتنی ہی دفعہ میں ایسے ہی جانے پہنچانے واقعات میں اپنی موجودگی کا یقین کرتا ہوں یعنی    گاؤن پہنے ہوئے ، میں  آگ کے نزدیک بیٹھا ہوں جبکہ  درحقیقت میں اپنے بستر میں عریاں لیٹا  ہوں ‘‘    نیز وہ ایسے واقعات کوکافی حد تک قابل یقین سمجھتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’مجھے واضح دکھائی دیتا ہے کہ کبھی بھی ایسے آثار نہیں ملتے جن کی  بدولت  سونے سے جاگنے کی حالت کے مابین تمیز کی جائے ‘‘   (ڈیکارٹ ، 1641: ص 77) ۔ یہاں ، ڈیکارٹ  فلاطینوس کے برعکس،  مشورہ دیتا ہوا   دکھائی دیتا  ہے کہ  خواب اور حقیقت  کو دراصل گڈ مڈ کیا جا سکتا ہے  ،جو  آئینے میں دکھائی دینے والی پرچھائیوں  کے حقیقت کے ساتھ اختلاط کو زیادہ سے زیادہ ایک فرضی امکان ہی دیکھتا تھا ۔تاہم ڈیکارٹ اپنے فلسفیانہ نظام میں اس قدر غیر یقینیت کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے  لہذا تفکرات کے آخری باب کے آخری اقتباس میں خواب کے مسئلہ   کا درج ذیل  عجیب و غریب  حل پیش کرتا ہے ۔’’ تاہم جب میں  واضح طور سے دیکھتا ہوں کہ اشیاء کب اور کہاں سے میرے پاس آتی ہیں  نیز جب میں  ان سے وابستہ اپنے ادراکات کو  اپنی بقیہ کل زندگی  کے ساتھ  بلا تعطل جوڑ سکتا ہوں  ،تب میں بالکل پراعتماد  ہوتا ہوں کہ    جب میں ان   اشیاء کے روبرو ہوتا ہوں تو میں سو نہیں رہا ہوں بلکہ جاگ رہا ہوتا ہوں ‘‘   (ڈیکارٹ ،1641:  ص 122 )۔وضاحت اور امتیاز کے علاوہ  ڈیکارٹ،       یقین حاصل کرنے کے لیے  مطابقت کو ایک آخری معیار کے طور پر شامل کرتا ہے    تاکہ خواب  کے مسئلے  کی بدولت اٹھنے والے اشکالات کا حل نکالا جا ئے ۔  یہ اس حقیقت کے باوجود  ہے کہ مسئلہ خواب  کی ایک مرکزی قوت  اس امر میں ہے کہ اکثر و بیشتر  خوابوں کو جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ  کیا جا سکتا  ہے  جیسا کہ ڈیکارٹ  نے پیش کیا ۔

مجازی حقیقت بھی  توضیح ، امتیاز اور مطابقت  کےان  امتحانات پر پورا اتر سکتی ہے ۔ علاو ہ ازیں  خواب کے برخلاف ، مجازی حقیقت  اذہان کے مابین  باہمی اتفاق رائے کی دستیابی(intersubjective    availability) کی ضرورت کو پورا کرنے کی اہل  ہے جس کو عموماً  ’’حقیقی ‘‘ حقیقت کی خوبی تصور کیا جاتا ہے ۔جس کا مطلب یہ ہےکہ خواب کا تجربہ صرف اکیلے شخص ہی کو ہو سکتا ہے ،  مجازی حقیقت ہر ایک  کے لیے دستیاب  ہے ۔ اس نکتے پر ڈیکارٹ کے مسئلہ خواب  کو نئی زندگی مل جاتی ہے ۔ جیسا کہ آئینہ  میں دکھائی دینے والی پرچھائیوں  کے ساتھ  اس کاتقابل درست تھا  ، مجازی و غیر مجازی حقیقت کے مابین امتیاز کرنے کی حاجت مٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔  اگر مجازی حقیقت ’’حقیقی ‘‘  نہیں ہے تو اس کو مذکورہ بالا نکات کی بجائے کوئی دوسری بنیاد لازماً درکار ہے  ۔ تصویر اور حقیقت میں امتیاز کرنے کے لیے فلاطینوس کی مانند   ، ڈیکارٹ کے نزدیک  حقیقت سے خوابوں کو جدا کرنا   اس لیے اہمیت کا حامل بن  جاتا ہے  کیونکہ  معتبر  ذرائع ِ امتیازات کے بغیرایسا اختلاط   آسانی سے شناخت ہو جانے والی حقیقت اور غیرحقیقی  نمونوں کی ملاوٹ کے  خدشے کو جنم دیتا ہے  ۔ یہ  امر  حقیقت کو ایک مشتبہ افادیت کا روپ بخش  دے گا  کیونکہ اس کو اپنے   مخالف   ، غیر حقیقی ، ظاہر ،پرچھائی اور خواب  سے زیادہ دیر تک جدا نہ  رکھا جا سکتا  تھا ۔ ڈیکارٹ اور فلاطینوس دونوں ہی دوام اور وحدت کو حقیقی اور ناپائیداری کو محض ظاہری   کے لیے ایک معیار  کی صورت میں شناخت کرتے ہیں ۔  تاہم مجازی حقیقت کے ضمن میں ایسے جوابات زیادہ کارگر نہیں ہوتےہیں ۔ اس نقطہ پر ’’مجازی حقیقت‘‘    کا عنوان اسم بامسمی محسوس ہونے لگتا ہے ۔ مجازی  حقیقت خوابوں ، پرچھائیوں   اور نمودِ محض کی  دوسری اشکال  کی نسبت ایک  منفرد اور متفرق خوبی کے ساتھ وجود رکھتی ہے ۔

دوسرے مابعد الطبیعیاتی نظام حقیقت اور موجودات کے مابین  نسبتاً زیادہ لطیف اور پیچیدہ تعلقات  کی خاکہ بندی کرتے  ہیں  ۔  کانٹ  کی مابعد الطبیعیات  کو  مابعدالطبیعیاتی تاریخ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لیتی  ہے کہ یہ قدیم مباحث کے  اہم  دھاروں کو تسلسل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے بے شمار نزاعات کو نقطہ عروج عطا کرتی ہے نیز اس دائرے کے بےشمار عصری مباحث کی ابتدا  بھی اسی سے ہوتی ہے ۔ کیا کانٹ کا فکری نظام   مجازی حقیقت کے مقام  کو متعین کرنے کے لیے نسبتا ً بہتر بیان فراہم کرنے میں مدد دے سکتا ہے ؟

کانٹ کی ماورائی عینیت (transcendental    idealism)  اس تصور کے گرد گھومتی ہے کہ  اصولی اعتبار سے شے فی الذات کا علم  حاصل نہیں ہو سکتا اور انسانی علم صرف موجودات پر مبنی ہے ۔   ڈیکارٹ کی مانند ، کانٹ  اس رائے کا حامل  ہے کہ علمیاتی  اعتبار سے   ہم صرف اپنے  ہی ادراکات سے آگاہی رکھتے ہیں ۔  تاہم  ڈیکارٹ کے برخلاف  ،کانٹ کے نزدیک    ادراک میں آنے والی اشیاء ذہن کے مقابل  آنے والے   اسالیبِ نمود  یا نمائندگی (patterns    of    representation) کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔  چنانچہ کانٹ یقین رکھتا ہے کہ حقیقت اور موجودات کے مابین قائم کی جانے والی تقسیم کی بدولت وجود میں آنے والے  علمیاتی مسائل  پر قابو پا لینا ممکن ہے ۔ کانٹ کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ حقیقت  کی  تخلیق کے دوران ذہن ایک فاعل  کی حیثیت سے تعمیری کردار ادا کرتا ہے ۔ اس ضمن میں زمان و مکان کے وجدان  مرکزی حیثیت سے شامل ہیں ۔ زمان و مکان بذات خود براہ راست قابل ادرا ک  ’’اشیاء ‘‘ نہیں ہیں  اور پھر بھی  انسانوں کے لیے ناممکن ہے کہ زمان و مکان سے ماورا کسی شے کا تجربہ کر لیں۔ کانٹ  ، اس سے یہ مراد لیتا ہے کہ ’’ زمان و مکان دونوں صرف ہمارے  ہی اندر موجود ہیں ‘‘ (کانٹ ، 1781: اے   373)۔اس انداز سے  کانٹ علم کو تجربے میں آنے والی اشیاء تک محدود کرتے ہوئے اختباریت (empiricism)اور عقلیت  پرستی (rationalism) کے مابین  علمیاتی تقسیم کو عبور کرلینے کی امید کرتا ہے جب کہ  اسی دوران ، کانٹ  ذہن کو تجربے کی ساخت  کو ترتیب دینے میں ایک فعال کردار دینے کی کاوش کرتا ہے ۔

کانٹ کے نظریے کے تناظر میں اس بات کا امکان ہے کہ  مجازی حقیقت میں پائے جانے والی اشیاء  کوئی نئی قابل ِ ذکر مابعد الطبیعیاتی چنوتی (چیلنج )  نہ دے پائیں  ۔ چونکہ انسانی علم شے فی الذات کو براہ راست اپنی گرفت میں  کبھی نہیں  لیتا   ، یہ امر  کہ مجازی حقیقت کے تحت    تجربات  ، ذہن سے خارج  اشیاء کے ساتھ کسی قسم کی سادہ اور  براہ راست مطابقت قائم کرنے میں ناکام رہتا ہے ،  ایک مسئلے کو لازمی طور پر جنم نہیں دیتا ہے ۔ انسانی علم کا ہر جزو خواہ اصلی ہو یا مجازی ، عقلی اظہار (perceptual    representation)کے ایک منظم مجموعہ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔  اس   سے مراد ہوتا ہے کہ تجربے کی عام پائی جانے والی صورتوں  کے ساتھ  کم و بیش یکساں مقام پر  رکھتے ہوئے ،  مجازی حقیقت کو اختباری انسانی  تجربے   کی دنیا  کے سامنے  پیش کیا جا سکتا ہے ۔ اس بات کو کہنے کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا  کہ کانٹ کے نزدیک  تما  م تر  تجربہ بنیادی طور پر مجازی ہے ۔ذہن سے آزاد حیثیت کی مالک  اشیاء  کے ساتھ کوئی علمیاتی رابطہ نہیں ہے ، یا ان کا علم نہیں ہے جو کسی انسانی تجربے کا وصف ہوتا ہے  ۔جو معلوم ہے وہ صرف اتنا ہے کہ ذہن کے روبرو اشیاء کا اظہار کیسے ہوتا ہے ۔ اس کو قبول کرتے ہوئے ، یہ امر کہ مجازی حقیقت صرف ذہن کے لیے موجود ہوتی ہے (اور اس کو دوسرے اذہان کے لیے بھی وجود  میں لایا جا سکتا ہے ) ، ایسے تجربات کو’’حقیقی ‘‘  قرار دینے کے لیے کافی ہے ۔بہرحال اس بات کی ضرورت  ہے کہ مجازی حقیقت کے ذریعے  حاصل ہونے والے تجربی  علم کو بروئے کار لانے میں  آدمی کسی قسم کی احتیاط کرے ۔  بعینہ ، ایسے علم کی بنیاد پر ہونے والے استدلالات  کو لازماً ان کے دائرے تک ہی محدود رہنا چاہیے ۔  تاہم یہ بات اختباری یا  تجرباتی علم کے ہر حصے پر لاگو ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو ۔

عین ممکن ہے  کہ کانٹ کی مابعد الطبیعیات اس بات کو کھولنے میں بھی  مدد فراہم کرے کہ   کمپیوٹر کے ساتھ انسانی تعاملات  نے مجازی زمان و مکان  کی ایسی  انوکھی سرحدوں   کو  کیونکر متعارف کروا یا ہے ۔ اگر کانٹ کا مفروضہ درست ہے کہ ذہن ، زمان و مکان سے خارج اشیاء کا تجربہ نہیں کر سکتا  لہذا کسی بھی نئے تجربے کو انہی سانچوں میں ڈھلنا ہو گا ۔ اگرچہ ذہن خلقی  تصورات  یا کسی دوسرے مخصوص مواد  کا حامل نہیں ہوتا ہے  لیکن یہ    کائنات کے کسی  تجربے کو ممکن بنانے کی خاطر ایک رسمی(فارمل) ساخت  (structure)  مہیا کرتا ہے ۔ غالباً، یہی بات کمپیوٹر کی بدولت تخلیق ہونےوالی دنیاؤں کے لیے بھی درست   رہتی ہے ۔ ایک دفعہ کمپیوٹر پر مبنی تجربات ایک تکنیکی امکان میں ڈھل جاتے ہیں تو ذہن   کسی ناگزیر تناظر کے تحت ان تجربات کو ایک ساخت دیتا ہے  ، ترتیب  میں لاتا  ہے ، اور ان کی تعبیر کرتا ہے  ۔ پس ،  ہو سکتا ہے کہ مجازی حقیقت  کمپیوٹر کی بدولت ہونے والے تجربات کی  خاطر ذہنی اسلوب    (mental    ordering)کا ایک ممکنہ نقش (predictable    artifact)ہو ۔ ممکن ہے  کہ  مجازی زمان و مکان  مجازی حقیقت کی تفہیم کی خاطر ناگزیر صورتیں  ہوں جیسا کہ  زمان و مکان ، ادراک ِ حقیقت کے لیے لازمی ہیں ۔  مجازی حقیقت کے معاملے میں  یہ دعوی کہ زمان و مکان’’صرف داخلی  ہیں ‘‘ (   found only    in    us)   نسبتاً کم متنازع فیہ  دکھائی دیتا ہے ۔  ان امکانات اور نسبتوں کو تسلیم کرتے ہوئے  اس بات کا امکان ہے کہ مجازی حقیقت  کانٹ کی مابعد الطبیعیات کو کھوجنے کی خاطر ایک تجربہ گاہ کی صورت  مہیا کر دے ۔

اس موقع پر شاید  ایک   کلی مادیت پرستانہ  نظریے کی محفوظ  جائے پناہ میں لوٹ جانے کا  متمنی ہو   جس کے مطابق   مجازی حقیقت کو پیدا کرنے والی تاریں اور برقی حلقے (circuits) ہی  حقیقی  ہیں ۔ تاہم اس حرکت کی قیمت کل تجربے کی حقیقت سے ہاتھ دھونا ہو گی ۔ یہ صرف ڈیکارٹ اور کانٹ نہیں ہیں جو امثال  اورادراک کو ایک  اضافی  مقام دینے کی ضرورت  کے خواہاں ہیں ۔ حتی کہ ہائیڈیگر کی وجودی مابعد الطبیعیات میں ہمیشہ محض  شے نہیں ہوتی ہے بلکہ شے  کا سامنا بھی ہوتا ہے اور یہ دونوں لمحات جدا رہتے ہیں نیز  اپنی جداگانہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ مجازی حقیقت کا یہ تجربی پہلو (experiential    aspect)ایک ایسی شے ہے جو   ایک وسیع مظہریاتی زاویہ نگاہ  کو دعوت دیتا ہے ۔ اس بات کا امکان ہے کہ مجازی حقیقت کو  افلاطونی مابعد الطبیعیات کی  تائید  میں دیکھنا نہایت  دلچسپی کا حامل ہو  جس کے تحت   جسم اور مادے کی نامکمل کائنات   کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تصورات کی دنیا  کو بارآور کیا جاتا ہے ۔ دیگر لوگ استدلال کرتے ہیں کہ افلاطونی عینیت کی صداقت  کی  گواہی دینے یا ذہن سے جسم کو جدا کرنے کے  کارتیسی منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے  کی بجائے  مجازی حقیقت ، ذہن و جسم کی  باہم پیوستگی (inseparability)  کی توضیح کرتی ہے نیز انسانی تجربے اور علم کی تمام انواع کے لیے تجسیم کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے ۔ آخرکار ، مجازی حقیقت کی غیرمادی (noncorporeal) کائنات  میں ، مجازی ابدان کو داخل اور  ازسرنو خلق کرنا پڑا نیز اس بات  پر مجبور ہونا پڑاکہ اس نئی مجازی کائنات میں انسانی تعامل کو  ممکن بنایا جائے ۔ یہ   (نکتہ) مزاحمت کی بجائے ،  تجربے اور علم کی خاطر  تجسیم کی ضرورت کو ایک اولین شرط کی حیثیت سے لینے کی جانب اشارہ کرتا ہے(ہائٹ ، 1999)  ۔

مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات کو دیکھنے کے بے شمار دوسرے طریقہ ہائے کار ہیں ۔  مثال کے طورپر ، جین بودلیئر (Jean    Baudrillard) کے نظریات برائے بناوٹی دنیا  (سیمولیشن )اور  بالائے حقیقت (hyper reality)، مجازی حقیقت(کی تفہیم) کے واسطے پہلے ہی سے  گھڑے گھڑائے   (readymade)دکھائی دیتے ہیں  ، ایک ایسی مابعد الطبیعیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  نظر آتے ہیں  جس کے تحت عصری سماجی حقیقت کو اس انداز سے سمجھا جا سکتا تھا  کہ وہ پہلےہی سے مجازی حقیقت  کے ذریعے شبانہ روز زیادہ سے زیادہ  بننے والی جعلی دنیاؤں  (سیمولیشنز ) کا شکار ہوتی جا رہی ہے  ۔ بودلیئر  کے زاویہ نگاہ سے ، مجازی حقیقت کی طرح   جعلی دنیائیں (سیمولیشنز)   ہر ایک  شے کو ایک اتھاہ بالائے حقیقت (depthless    hyper    reality)  میں پابند کرتے ہوئے ، حقیقت اور موجودات کے مابین امتیاز کرنے کی ہماری صلاحیت کے خاتمے کی نشان دہی کرتی ہیں (بودلیئر ، 1983)۔ ایک دوسرا امکان یہ ہو گا کہ ژاک دریدا (Jacques Derrida) کی تنقید برائے مابعد الطبیعیاتِ موجودات (critique    of    metaphysics    of    appearance) کو مجازی حقیقت کی اقلیم پر لاگو  کیا جائے   جس کے تحت موجود (presence)کے  غائب ہو جانے کی نشاندہی جدید ترین تکنیکی طریقہ ہائے کار سے ہو سکتی  ہے  ۔ تاہم ، اضافی مثالیں  دینے کی بجائے  موضوع    کی شناخت سے متعلقہ  ایک دوسری قسم کے  متفرق لیکن   قریبی نسبت رکھنے والے  مابعد الطبیعیاتی مسائل  کی تفتیش کرنا بہتر ہے  ۔

٭٭٭٭٭٭٭

فصل  سوم : مجازی شناخت

خارجی حقیقت کی ماہیت اور مقام کے بارے میں سوالات اٹھانے کے علاوہ  مجازی حقیقت ،فاعل یا موضوع  کی ماہیت کے بارے میں گھمبیر سوالات کو چھیڑتی ہے ۔ محولہ بالا  مابعد الطبیعیاتی نکات کے مابین  تمام تر اختلافات کے باوجود ایک حوالے سے  عمومی اتفاق بھی ہے ۔ افلاطونی ، کارتیسی یا کانٹ  سے پھوٹنے والے ان تمام فکری نظاموں  کے ہاں    ایک مربوط اور مکمل موضوع  (unified    and    unifying    subject) کا ایک تصور ملتا ہے جس کی موجودگی علم ، عمل اور انسانی شناخت کو جواز فراہم کرتی ہے ۔ حالیہ برسوں میں ایسے تصور موضوع /فاعل   کو الجھا  دیا گیا ہے ۔ خاص طورپر ، ایک  کسریت زدہ  اورامکانی موضوع کے بارے میں پس ِ ساختیاتی  (poststructuralist) بیانیوں نے قدیم زاویہ ہائے نگاہ کی موزونیت کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ مجازی حقیقت  بھی  باہم مربوط موضوع (پورے آدمی )  سے متعلقہ مفروضات کوالجھا دیتی  ہے ۔ گزشتہ صفحات میں  مذکور  آئینے میں پرچھائی  کی مثال ، موضوع  سے متعلق سوالات   کو ازسرنو اٹھانے  کے لیے استعمال ہو سکتی ہے  تاہم اس دفعہ ژاک لاکاں (Jacques    Lacan) کے فکری کام کے تناظر میں ۔

لاکاں کے ہاں  ’’عکسی مقام ‘‘ (mirror    stage) نامی تصور کی  معروف  تشکیل  (formulation)باخبر   موضوع  (knowing subject) کے تصور کو انتہائی حد کی جانب دھکیلتی ہے ۔ روایتی کارتیسی علمیات کو الٹاتے ہوئے ،  پہلی اور سب سے زیادہ قطعی معلوم شے کی بجائے،موضوع  بذات خود او لین  شے بن جاتا ہے  جس کی تفہیم اور شناخت ناقص ہے ۔یہ ،  آئینہ کے ذریعے اپنے سفر کے دوران ا یلس  سےسرزد ہونے والی خطا سے کہیں زیادہ بڑی   ایک بنیادی  غلطی ہے  ۔ کم از کم  جب ایلس نے آئینہ میں  خود سے مشابہ  ایک لڑکی دیکھی  ، اس نے یہی سوچا کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے ، نہ  کہ وہ خود ۔ ڈیکارٹ کے نزدیک ، یہ اس امر میں فریب کھانے کے مترادف ہو گا   جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ حتمی ہو سکتا تھا یعنی شعور ِ ذات (cogito)۔ لاکاں کے زاویہ نگاہ کے تحت ، جب آئینہ میں دیکھتے ہوئے    ’’اثبات وجود بربنائے فکر‘‘ (I    think,    therefore    I    am)  کہا جائے تو  ایسا کہنا ہی  غلطی کا مقام بن ٹھہرتا ہے  ۔ اس معاملے میں  ،  متفکر  ’فاعل/موضوع   ‘،    موجود ’فاعل/موضوع  ‘سے مختلف ہو سکتا ہے  ( شعور ِ ذات  کی حامل ’’ میں/انا ‘‘ سوچتی ہے ، لہذا آئینے میں موجود ’’میں ‘‘ وجود رکھتی ہے) ۔ لاکاں اس قول کو  نئے سرے سے پڑھنے کو دیتا  ہے کہ ’’ میں وہاں سوچتا ہوں جہاں میں نہیں ہوتا ، لہٰذامیں اس  جگہ موجود ہوں  جہاں  میں نہیں سوچتا ‘‘ (I    think    where    I    am    not,    therefore    I    am    where    I    do    not    think)   (لاکاں ،1977:  ص 166)۔ ایک دفعہ فاعل/موضوع  میں اس کسریت کو متعارف کروانے کے بعد ایسی تشکیل ڈیکارٹ کے لیے  بنیادِ علم کی حیثیت سے   کبھی بھی بروئے کار نہیں آ سکتی تھی   ۔

فاعل/موضوع  میں ایسی داخلی  دولختی   ٹھیک ٹھیک وہی شے ہے جو لاکاں کے ہاں ’’عکسی مقام ‘‘ (mirror    stage)  والی بحث میں اجاگر ہوتی ہے ۔ لاکاں لکھتا ہے : ’’ہمیں اس  لفظ کے تجزیے کے نتیجے میں عکسی مقام کو  صرف بطور عینیت  ہی    کلی معنوں میں سمجھنا ہے یعنی فاعل /موضوع   میں ہونے والی داخلی تبدیلی  جب وہ ایک تصویر کے بالمقابل آتا ہے ‘‘  (لاکاں ،1977:  صفحہ 2) ۔ اس  طرح فاعل/موضوع  ایک پرچھائی  کے ساتھ  عینیت کے سبب  وجود میں آتا ہے، یعنی ایک ایسی پرچھائی جو   فاعل/موضوع  نہیں ہے تاہم پھر بھی  اس کو  غلطی سے ہوبہو وہی (فاعل/موضوع  ) سمجھا جاتا ہے ۔  اگر شناخت (identity)عینیت  پر مبنی ہوتی ہے اور عینیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی ایسی شے کا عین ہونا جو ہم نہیں ہیں ، گویا کسی کی شناخت ہمیشہ  اس کی مخالف شے کی بدولت ہی ہو  پائےگی ۔ کسی دوسری جگہ، انسانی فاعل /موضوع کی صورت حال کو دکھانے کی خاطر  لاکاں آئینوں کے ساتھ  ایک کرتب کی   مثال پر صاف  بھروسہ کرتا ہے   ۔ جس  میں ، پھولوں سے بھرے ہوئے ایک گلدان کا سراب پیدا کیا جاتا ہے ۔ لاکاں کے نزدیک ، یہ سرابِ ذات ہے جو پیدا کیا جاتا ہے (تصویر ملاحظہ فرمائیے)۔

اس تصویر میں ، فاعل/موضوع   ناظر  کی کرسی پر قبضہ جما لیتا ہے  (فاعل / موضوع کو درپیش اس تقسیم  پر زور ڈالنے کے لیے خالی ‘S’ کی علامت استعمال کی گئی ہے )  اور انا (ایگو)  کی نمائندگی  آئینے میں دکھائی دینے والے الٹے گلدان کی مجازی پرچھائی  کے ذریعے ہوتی  ہے  ۔ لاکاں سجھا رہا ہے کہ آئینہ کے روبرو  ایلس کی  غلطی سے بڑی خطا  صرف ایک معمولی غلطی   نہیں ہے بلکہ انسانی موضوعیت  کا خمیر (constitutive)ہے۔فاعل /موضوع  ، جو دوسروں کے ساتھ ایک سلسلۂ عینیت کے نتیجے میں بتدریج ابھرتی ہے ، آئینے میں موجود گلدان کے عکس کی مانند ہے ، حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے ۔

مجازی حقیقت  اس  المیے کو جنم دیتی ہے ۔ اگر حقیقت میں فاعل  پہلے سے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں ہے جہاں اس کو ہونا چاہیے ،  تو مجازی حقیقت میں صورت حال مزید بدتر ہو جاتی ہے ۔ مجازی حقیقت     بے شمار متفرق  شناختوں اور عینیتوں   کےلیے ایک وسیع میدان مہیا کرتی ہے ۔ مجازی ماحول میں افراد کسی ایک  مستقل وحدانی  (unified) حیثیت تک محدود نہیں   رہتے  ہیں بلکہ وہ  ایک سے زیادہ شناختوں کو اختیار کر سکتے ہیں  خواہ مرحلہ وار یا بیک وقت ۔ مجازی ماحول میں صارفین کی نمائندگی کرنے والے  تصویری اوتار وں (graphical    avatars)  سے لیکر  انٹرنیٹ کی  چوپالوں (chat rooms) میں استعمال ہونے والے  صارفین کے اسماء  (handles: usernames)  اور ایک سے زیادہ ای میل اکاؤنٹس   جیسے سادہ افعال  تک ، ہر ایک  کو مجازی شناختوں کوجنم دینےاور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مجازی حقیقت میں  شناخت ،اصلی دنیا  کی نسبت  کہیں زیادہ مومی حیثیت(malleable) کی حامل  ہو جاتی ہے  اور موخر الذکر کی  طرح  خالص اور موضوع  کی تشکیل کار بھی ہو سکتی ہے ۔ جنسی اور نسلی شناختیں  بدلی جا سکتی ہیں ،ان کی  کانٹ چھانٹ ہو سکتی ہے  ، گھڑی جا سکتی ہیں یا یکسر بھلائی جا سکتی ہیں ۔ شناختیں مسلسل  یا محض وقتی ہو سکتی ہیں ۔ پس ، مجازی حقیقت نہ صرف زمان و مکان کی تخلیقِ نو کا امکان پیدا کرتی ہے   بلکہ موضوع  کے امکانات کو بھی  کھول دیتی ہے ۔  موضوع  کو اس نئی دنیا میں وارد ہوتے ہی  ازسرنو خلق  کیا جاتا ہے ۔ اپنی موثر کتاب  ’ سکرین   پر زندگی ‘ (Life    on    the    Screen) میں شیری ترکل (Sherry    Turkle)  استدلال کرتی ہے کہ انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی شناختیں ،   فرانسیسی مفکرین  مثلاً لاکاں   کی ’’تجریدیت ‘‘ (Gallic abstractions) کو ’’نسبتاً زیادہ ٹھوس‘‘ افکار بنا دیتی ہے ۔ وہ لکھتی ہے : ’’ کمپیوٹر پر مبنی  میری دنیاؤں میں ،فاعل کثیر اور سیال  ہے اور مشینی رابطوں کے ساتھ تعامل سے مرکب ہے  ۔ اس کو زبان کے ذریعے وجود میں لایا  اور تبدیل کیا جاتا ہے ‘‘ (ترکل ،1995:  ص 15)۔ ترکل کے نزدیک ، ہر شناخت کی نشان دہی کرنے والی کسریت اوراجزاء  (fragmentations)   انٹرنیٹ پر مبنی معاشرے (online    society) کی مجازی حقیقت میں  ظہور کی  جدید  صورت اور نت نئے  مصارف (uses) کو تلاش کر لیتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭

فصل  چہارم : معاشی حقیقت

بعض افراد کو مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات شاید  روزمرہ زندگی اور عملی انسانی معاملات سے  بعید باطنی موضوعات کی مثل محسوس ہو۔ تاہم مابعد الطبیعیاتی نکات  اکثر اوقات  حیرت انگیز رسائی کے حامل ہوتے ہیں اور غیرمعمولی انداز میں  اپنے نفوذ کو محسوس کرنے پر مجبوکر  سکتے ہیں ۔ مجازی حقیقت کےضمن  میں  ایسی مابعد الطبیعیاتی وابستگیا ں اس وقت ہماری سماجی حقیقت کے وسیع حصوں کی   تخلیق ِ نو اورازسرنو صورت گری  کے عمل میں مصروف  ہیں ۔  اگرچہ مجازی حقیقت کو ابھی تک   مادی دنیا ، اپنے آپ اور ایک دوسرے کے ساتھ انسانی تعامل کے روایتی  طریقوں سے آگے بڑھنا  باقی ہے   تاہم ایک میدان میں مجازی حقیقت حیرت انگیز تیز رفتاری دکھا چکی ہے  اور وہ ہے ا قلیمِ معیشت ۔  اے ٹی ایم مشینوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے رقوم کی  ترسیل سے لیکر ڈاٹ کام کی گرم بازاری و کساد بازاری  تک ، عالمی سرمائے نے برقی تجارت  (e-commerce)  کی مجازی دنیا میں داخل ہونے سے کسی قسم کی جھجک کا مظاہرہ نہیں  کیا ہے ۔ عالمی سرمایہ اس مجازی معاشی کائنات میں اتنی آسانی اور تیزرفتاری سے جگہ بنانے کے قابل کیونکر  ہوا ہے ؟ مجازی حقیقت   کے اس استعماری قبضہ سے مجازی حقیقت  کے دیگر غیر تجارتی امکانات کی خاطر کیا علامت بنتی ہے ؟

عالمگیریت ایک عمل ہے جس کو ڈیجیٹل زمانے کی انفارمیشن  اکانومی نے بہت زیادہ سہارا دیا ہے ۔ مارک پوسٹر (Mark    Poster) نے اس صورتحال کو  ’’سرمایہ دارانہ نظام کے لسانی گھماؤ‘‘ (Capitalism’s    linguistic    turn) سے تعبیر کیا ہے جیسے صنعتی معیشت نے  انفارمیشن اکانومی  میں  چھلانگ  لگا دی  (پوسٹر،2001:  ص 39)۔ اس عمل کو ممکن بنانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کی تخلیق اور ترویج کا موجب سرمایہ   ہے ۔ ’’مجازی حقیقت‘‘  کی اصطلاح کو گھڑنے کا سہرا عام طور پر  مجازی حقیقت پر مبنی وحدانی نظاموں کے خالق اور کاروباری اختراع کار (entrepreneur)  جیرون لینئر  (Jaron    Lanier)  کے سر باندھا جاتا ہے    جس نے اس کو اپنی سافٹ ویئر کمپنی کی تشہیری حکمت عملی  میں ایک جزو کے طور پر استعمال کیا۔تشہیری مقاصد کی غرض سے  ای میل    کو استعمال کرنے کا راستہ  پہلے پہل اس وقت کھلا تھا جب 1994ء میں  براہ راست تشہیر کے لیے گرین کارڈ کمپنی کے دو  قانونی نمائندوں نے  ای میل کو سب سے پہلی مرتبہ استعمال کیا ۔ انٹر نیٹ کے پھیلاؤ کی بدولت کمپیوٹر کے ذریعے خریداری  نے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کو اس حد تک    تیزی مہیا کر دی کہ امریکہ میں انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنی امریکہ آن لائن   (America Online)   ایک بہت بڑی  میڈیا کمپنی  ٹائم وارنر (   Time Warner) کو خرید سکتی تھی ۔ مجازی حقیقت نے نت نئی اجناس کو جنم دیا جن کو  کچھ ہی عرصے میں نئی معاشی حقیقت کا درجہ مل چکا ہے ۔اس نئی مجازی کائنات میں  سرمایہ پہلے سے موجود سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو    ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے  نیز جدید ناہمواریوں کو پید اکرنے کی صلاحیت کا حامل بن چکا ہے ۔ مثال کے طور پر ، عالمی انفارمیشن نیٹ ورک تک دسترس  رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے مابین ’’ڈیجیٹل تقسیم‘‘ (digital    divide) کے ضمن میں بیشتر مباحث  نے جنم لیا  ہے  ۔  یہ تقسیم جنس و نسل  اور  حتی ٰ کہ طبقاتی خطوط    پر استوار ہوتی ہے ۔ قوموں کے مابین اور ایک ہی قوم  میں امیر و غریب  کی تقسیم کو   معلومات کی اس دنیا (information    age) کی  بنیادوں پر منضبط (mapped) کر دیاگیا ہے ۔ مجازی حقیقت کی  ایسی سرمایہ دارانہ بنیادوں کو فراموش نہیں کر نا چاہیے۔

سرمایہ  ، اجناس کی پیداوار اور صرف   کے گرد معاشی اور سماجی حیات کو ترتیب دیتا ہے ۔ مارکس(Marx) لکھتا ہے کہ   اشیائے صرف (جنس ) ’’ مابعد الطبیعیاتی لطائف  اور کلامی امتیازات‘‘ کے ایک انبوہ کو جنم دیتی  ہے (مارکس ، 1867: ص 163)  ۔ اجناس کے مابین تعلقات، ان کے  تنوع اور نمو    کے باعث آنکھوں کو چکاچوند کر دیتے ہیں جبکہ آجروں اور صارفین کے مابین سماجی تعلقات  ، اجرت اور  قیمتوں کی شکل کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ مارکس کے نزدیک ، ایک جنس کی قدر  صرف مجازی معنوں میں سامنے آتی ہے ۔ ایک جنس کی قدر ، کسی دوسری جنس کے ساتھ اس کے تبادلہ کی نسبت کے ذریعےمتعین ہوتی  ہے ۔ پس  ایک گھڑی کی قدر ، ایک سیل فون کے بدلے میں شاید  بیان ہو پائے ۔ تبادلے کا یہ نظام ، نقدی کی صورت میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے  یعنی ایک ایسی شے جو کسی دوسری شے کی قدر کی خاطر ایک آئینہ کا وظیفہ سرانجام دیتی ہے ۔  زمانی اعتبار سے  ایک مخصوص جنس کا بطور نقدی استعمال ، سونے اور چاندی سے لیکر کاغذ اور پلاسٹک  تک تبدیل ہوتا رہتا ہے جیسا کہ نقدی   ایک انتہائی محتاط تخمینہ (asymptotically) میں ، فلوطینوس کے بتائے ہوئے  ایک کامل آئینہ  کی سطح تک پہنچ جاتی ہے جہاں صرف پرچھائی  برقرار رہتی ہے اور آئینہ غائب ہو جاتا ہے ۔ حالیہ زمانے میں  انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں  رقوم کی منتقلی،   اس منزل کے حصول کے  قریب  پہنچتی  ہے  ( معلومات کے اس زمانے میں ’’ڈیجیٹل گولڈ‘‘  پر مزید بحث   کے لیے ملاحظہ فرمائیے ، فلوریڈی ، 1999) ۔  نقدی کی اس طیفی ماہیت  کا  مطلب شاید یہ ہو کہ   سرمائے کو مجازی حقیقت کے لیے خاص طور پر ڈھالا جاتا ہے ۔ نقدی پہلے ہی سے   قدر کا مجازی اظہار ہے ۔

سرمائے کے باب میں ، مجازی  حقیقت  کے ذریعے اضافی’’مابعد الطبیعیاتی لطائف ‘‘  کی بابت  گفتگو شاید برائے نام ہی اہمیت  کی حامل ہو ۔  نقدی کے موجودہ مجازی وجود نے   بغیر کسی ردوبدل کے مجازی حقیقت میں سرمائے کی  منتقلی کو آسان بنا دیا ہے ۔    کسی زمانے میں  ا نٹرنیٹ کی بدولت وجود میں آنے والی مجازی حقیقت   چھوٹی چھوٹی   متفرق  لیکن ایک دوسرے میں پیوست مجازی گروہوں  کا گھر تھی ۔  اب یہ تبدیل ہو چکی  ہے ۔ اب انٹرنیٹ کا کردار اور فعلیت ایک مجازی شاپنگ مال سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ اشتہارات ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں اور صارف کی شناخت   انٹرنیٹ پر پائی جانے والی ہر دوسری شناخت پر حاوی ہو جاتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ فی الوقت ہم مجازی ڈھیر لگانے کے  ابتدائی    (virtual    primitive accumulation) عمل   کے تحت  زندگی بسر کر رہے ہوں  یا   انٹرنیٹ کی بدولت  ایک قسم کی تحریک برائے احاطہ بندی (kind    of    electronic    enclosure    movement) سے گزر رہے ہوں  جیسا کہ انٹرنیٹ کی بدولت وجود میں آنے والی مجازی حقیقت  کے پیش کردہ مثالی امکانات اور آزاد تلازمے (free    association)عالمی سرمائے کے بل بوتے پر  تجارتی  مال بن جانے والی اشیائے جنس کی بدولت بروئے کار لائے جاتے  ہیں ۔ سماجی تعلقات کی خاطر ایک قسم کاآفاقی محلول (universal    solvent) یعنی سرمایہ   ، فی الوقت  انٹرنیٹ پر مبنی حیات کے  مجازی سماجی تعلقات کو حیرت انگیز رفتار پر تبدیل کر رہا ہے ۔ تاہم یہ عمل جاندار مزاحمت (active    resistance) کے بغیر واقعہ نہیں ہوتا ہے  (ملاحظہ فرمائیے  ، چیشر 1994 اور ڈائر وِدفورڈ ، 1999) ۔ اسی مقام پردیگر   تجریدی مابعد اطبیعاتی افکار کی شدید اہمیت کو  محسوس کیا جا سکتا ہے ۔  مجازی حقیقت کی مابعد الطبیعیات وہ افق مہیا کرتی ہے جس پر جدید اخلاقی اور سیاسی سوالات کا ایک انبوہ     تشکیل پائے گا اور اسی کے تحت ان کے جوابات دینا لازم ہو گا ۔

کتابیات

1۔ Baudrillard,    J.    1983.    Simulations,    tr.    P.    Foss,    P.    Patton,    and    P.    Beitchman.    New    York:    Semiotext (e).

(مترجم:1983ء میں   بودلیئر کی دو  فرانسیسی کتابوں ’’علامتوں کی ادلا بدلی اور موت‘‘ L’Echange    Symbolique    et    la    Mort (مطبوعہ 1977)  اور  ’’سیمولیشنز کا ظہور‘‘ Simulacre    et    Simulations  (مطبوعہ 1981)  کو باہم  جوڑ کر انگریزی خواں دنیا  کے لیے  ایک کتاب  مرتب بنائی گئی  ۔اول الذکر کتاب میں بودلیئر  نے  مشل فوکو کی معروف کتاب (Order    of    Things)  اور  تاریخ ِ صداقت  پر مشل فوکو کے تبصرات سے استفادہ کیا ہے ؛  ثانی الذکر میں فکشن کی تھیوری زیرِبحث آئی ہے ۔ دھیان رہے کہ انگریزی کتاب ’’سیمولیشنز‘‘ میں ثانی الذکر کتاب کو پہلا  اور اول الذکر کتاب  کو دوسر ا حصہ بنایا گیا ہے ۔  بودلیئر اور مثل فوکو کی متذکرہ کتابوں کے اردو ترجم ہنوز عنقا ہیں ۔)

2۔ Caroll, L. 2000 [1871]. The    Annotated    Alice:    Alice’s    Adventures    in    Wonderland    and    Through    the    Looking-glass.    New    York:    W.    W.    Norton.    Original    works    published    1865    and    1871.

(مترجم:    1980ء  میں جناب محمد خالد اختر صاحب نے ’’ایلی کا خواب نگر ‘‘اور ’’ایلی کا آئینہ گھر‘‘کے عنوان سے برطانوی مصنف لوئس کیرول کی پہلی کتاب (Alice    in    Wonderland)کو دو حصوں میں ترجمہ کیا ۔)

3۔ Chesher, C. 1994, Colonizing    virtual    reality:    construction    of    the    discourse    of    virtual    reality,  1984 – 1992.    Cultronix    1    (Fall    1994). http://eserver.org/cultronix/chesher

4۔ Descartes,    R.    1988    [1641].    Descartes:    Selected    Philosophical    Writings,    tr.    J.    Cottingham,    R.    Stoothoff,    and    D.    Murdoch.    Cambridge:    Cambridge    University    Press.    Meditations    on    First    Philosophy    originally    published    1641.

(مترجم:  مولوی عبدالباری ندوی نے 1936ء میں  رینے ڈیکارٹ کی مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ ’’طریق اور تفکرات ‘‘ کے عنوان سے کیا ۔)

5۔ Dyer-Witheford, N. 1999. Cyber-Marx:    Cycles    and    Circuits    of    Struggle    in    High-Technology    Capitalism.    Urbana:    University    of    Illinois    Press.

(مصنف: مذکورہ کتاب عالمی سرمایہ دارانہ  انفارمیشن اکانومی  میں طبقاتی کشمکش کے نشیب و فراز کی بابت  خودمختا ر ی کے حمایتی مارکسسٹ نقطہ نگاہ کے تفصیلی  بیانیے پر مشتمل ہے )

6۔ Floridi, L. 1999. Philosophy and Computing: An Introduction. London: Routledge. [This textbook provides a clear and accessible

(مصنف: درسی نوعیت کی مذکورہ کتاب  کمپیوٹر اور انفارمیشن تھیوری سے وابستہ جملہ فلسفیانہ مسائل  کا ایک عمدہ احاطہ کرتی ہے ۔ )

7۔ Gibson, W. 1984. Neuromancer. New York: Ace Books

8۔Heidt, S. 1999. “Floating,    flying,    falling:    a    philosophical    investigation    of    virtual    reality    technology”.    Inquiry:    Critical    Thinking    Across    the    Disciplines    18(4):    77 – 98

9۔ Heim, M. 1993. The    Metaphysics    of    Virtual    Reality.    New York:    Oxford    University    Press.

(مصنف: ہیم کی مذکورہ کتاب مجازی حقیقت کی بدولت جنم لینے والے فلسفیانہ مسائل سے نہایت سہل انداز میں  تعارف کرواتی ہے ، اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت حقیقت میں آنے والی تبدیلیوں کا سراغ لگانے کی سعی کرتی ہے ۔)

10۔ Kant,    I.    1996    [1781].    Critique    of    Pure    Reason:    Unified    Edition,    tr.    W.    S.    Pluhar.    Indianapolis:    Hackett.    Original    works    published    1781    and    1786

(مترجم: سید عابد حسین نے کانٹ کی مذکورہ کتاب کو ’’تنقید ِ عقل محض‘‘ کے عنوان سے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے ۔ تاہم اس اردو ترجمے کو کانٹ کے جدید ترین انگریزی ترجموں کی روشنی میں نظرثانی کی شدید ترین ضرورت ہے ۔ )

11۔ Lacan,    J.    1977.    Ecrits:    A    Selection,    tr.    A.    Sheridan.    New    York:    W.    W.    Norton.

(مترجم:غالب قیاس ہے کہ  ژاک لاکاں کے مضامین اور کتابوں کو ہنوز اردو زبان کے قالب میں نہیں ڈھالا گیا ہے ۔)

12۔ Lacan,    J.    1978.    The    Four    Fundamental    Concepts    of    Psycho-analysis,    tr.    A.    Sheridan.    New    York:    W.    W.    Norton

13۔ Marx, K. 1977 [1867]. Capital,    Volume    One,    tr.    B.    Fowkes.    New    York:    Vintage    Books.    Original    work    published    1867.

14۔ Plotinus. 1992    The    Enneads,    tr.    S.    MacKenna.    Burdett,    NY:    Paul    Brunton    Philosophic    Foundation

(مترجم: مکمل اردو ترجمہ دستیاب  نہیں ہے ۔بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب  ’’تاریخ تصوف ‘‘ میں چند اقتباسات کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔)

15۔ Poster,    M.    2001.    What’s    the    matter    with    the    Internet?    Minneapolis:    University    of    Minnesota    Press.

(مصنف: مارک پوسٹر کی مذکورہ کتاب انٹرنیٹ کے کلچر و سیاست  کے علاوہ مابعد جدیدیت ، عالمگیریت اور جمہوریت کے حوالے سے  ایک عمدہ تعارف فراہم کرتی ہے ۔)

16۔ Rheingold,    H. 1991.    Virtual    Reality.    New    York:    Summit    Books.

(مصنف: مذکورہ کتاب  مجازی حقیقت کی ٹیکنالوجی کے ابتدائی ارتقاء کے پس پردہ لوگوں اور تاریخ کا ایک سہل اور صحافتی انداز میں تعارف کرواتی ہے ۔ )

17۔ Turkle, S. 1995.  Life    on    the    Screen:    Identity    in    the    Age    of    the    Internet.    New    York:    Touchstone. (مصنف: شیری ٹرکل کی مذکورہ کتاب مطالعات انٹرنیٹ کے حوالے سے کلاسک کا درجہ رکھتی ہے ۔آن لائن شناختوں کو  تحلیل نفسی اور فرانسیسی نظریات    کی مدد سے کھنگالتے ہوئے ٹرکل  ، مابعد جدید کلچر میں کسریت زدہ  ذات کا تجزیہ کرتی ہے۔)

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search