مطربِ سوز: ایک سُرخ ہندی کہانی ۔ ترجمہ : قیصر شہزاد

 In افسانہ, ترجمہ
(نوٹ: یہ کاوش جان نائیہارڈٹ کی کتاب ’’INDIAN   TALES   AND   OTHERS‘‘ میں شامل کہانی ’’The   Singer   of   The     Ache‘‘ کا آزاد ترجمہ ہے ۔از قیصر شہزاد)

اچھا بھائی  ، یہ کہانی ایسے شخص کی ہے  جو  لوگوں کے ساتھ چلنے کی بجائے  ایک سپنے کے پیچھے بھاگتا رہا۔ میں تمہیں یہ کہانی سنا تورہا ہوں لیکن  تم گوروں کی سمجھ میں یہ  آنے والی نہیں ۔  اسے  وہی سمجھ سکتا ہےجو بھوک   پیاس کے اس کٹھن راستے پر چلا ہو جو نہ تو  کسی آبادی  پر ختم ہوتا ہے نہ ندی یا  ریگستان پر۔ جو دُکھتی، ریت بن چکی آنکھیں لیے  ایسے  بے انت راستے پر  نہیں چلا  اور اپنے نیچے اپنے خچر کو روز بروز  مریل ہوتے  اور بالآخر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتے  دیکھ  نہیں چکا اسے  یہ کسی نرالی دنیا کی داستان لگے گی۔

چاند کے عشق میں مارا مارا پھرتے رہنے کی وجہ سے لوگ اسے ‘ چندا رؔاہی’ کہا کرتےتھے۔

لیکن ایساوہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ کبھی وہ بھی  ہنسی مذاق کیا  کرتا اور بچوں کے ساتھ کھیل تماشوں میں حصہ لیا کرتا،  تب وہ بھی انہی کی مانند نادیدہ دشمنوں کے ساتھ ، بے خون  جنگیں لڑنے کی اداکاری کرتا دیکھا جاتا تھا۔

اس کے کئی اورنام بھی تھےلیکن مطلب سب کا ایک ہی تھا: ‘خوش باش’!

جب اس کے ماں باپ نےاس کی آنکھوں  کے پیچھے پورا مرد جھانکتے دیکھا  اور اس کی آواز انہیں  جوانوں کی سی لگنےلگی تو انہوں نے کہا: ”اب یہ اس قابل ہوگیا ہے کہ خواب دیکھے!” چنانچہ رات پڑتے ہی رسم ورواج  کی    رو سے  اسے ‘خواب پربت’ بھیج دیا گیا۔

ٹیلے پر کئی ناموں والے نے خواب دیکھا کہ عجیب و غریب ہواؤں کی لائی  دھند میں سے اچانک سفید روشنی کا ایک  جھماکا ہوا اور چاند ایک دم اس قد ر بڑا ہوگیا کہ  اس سے افق تا افق آسمان بھر گیا اور ستاروں کے لیے جگہ ہی نہ بچی!  لیکن پھر روشنی کے اس سمند ر پر اس نور سے بھی روشن  تر ایک چہرہ تیرتا دکھائی دیا۔ وہ چہرہ  اتنا سندر تھا کہ کئی ناموں والے کا ریشہ ریشہ درد سے  بھر گیا۔

ایک چیخ  کے ساتھ  اس کی آنکھ کھل گئی۔

اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر اس نے  ارد گرد دیکھا تو  اسے یوں لگا گویا ساری دنیا سکڑ گئی ہو۔ ستارے پہلے سے کہیں زیادہ چھوٹے لگ رہے تھے اور اسے اپنی نظر پر بہت زور دینا پڑ رہا تھا۔یہ سب اتنا  عجیب و غریب تھا کہ وہ خوفزدہ ہوکر ٹیلے سے بھاگ کھڑا ہوا ۔

گاؤں پہنچ کر اس نے اپنی  تندوتیز چیخوں سے ماں باپ کو جگا دیا۔

انہیں آواز بلند کرتے ہوئے جھجک محسوس ہونے لگی تھی کہ خواب دیکھنے انہوں نے جس لڑکے  کو ٹیلے پر بھیجا تھا  اس کے چہرے پر  کئی برس بیت چکے تھے اور اس کی آنکھوں میں ایک  انوکھی چمک  آ چکی تھی۔

”خواب میں کیا دیکھا؟” انہوں نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔

” چہرہ!میں نے خواب میں چندر ناری کا چہرہ دیکھا۔ وہ چہرہ برف سے زیادہ سفیداور ایک شعلہ  لیے ہوئے تھا۔ اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھا،  اس چہرے  میں بجلی کی سی  چمک تھی۔ اگر وہ مجھ سے مخاطب ہوتا تو اس کی آواز میں  آسمانی بجلی جیسی گرج ہوتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ  اس چہرے پر مجھے  تپتی بلتی دھرتی پربرسنے والی بارش جیسی نرمی اور مہربانی بھی محسوس ہوئی ۔ اس کی نظریں  بہت دور ،بہت اوپر شمال کی جانب مرکوز تھیں جہاں ایک اکیلا ستارہ  نہایت تحمل  کے ساتھ معلق  رہتا ہے۔ اس کے نیچے  سفید دھندکی باریک چادر  میں نیم پوشیدہ سفید چھاتیوں کی چکا چوند تھی اور سر پر سنہرے بالوں کی لٹیں ،لیکن  ماں،  وہ  تمہارے بالوں   کی طرح لٹکتی نہ تھیں بلکہ سورج کے اوپر جلتے ہوئے بادلوں کے ڈھیر کی مانند لگ رہی تھی۔

ماں ، میرا دل کسی بے نام  کسک سے دکھتاہے ۔ اب میں کبھی خود کو کھیل کود  میں مگن نہ کرپاؤں گا۔”

یہ باتیں سن کر خیمے  والے افسوس کناں ہوگئے۔ انہیں یہ سب اچھا نہیں لگ رہا  تھا۔  بہت سے  سورما اس سے پہلے خواب پربت سے ہو آئے تھے لیکن ایسا سپنا کسی نے نہ دیکھا تھا۔ اُن لوگوں   کو ہمیشہ  کوئی پرندہ،درندہ  یا  نرالے  بھید بھرے لفظ بولتا کوئی اژدہا وغیرہ  ہی دکھائی دیا تھا  یا پھر انہوں نے مصروفِ پیکار لوگوں کی چیخ وپکار، خچروں اور گھوڑوں کے سموں کی آوازیں یا  تِیروں کے سرسراتے گیت  اپنے خواب میں سنے تھے۔ لیکن  اس کےساتھ تو ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔

اس کی ماں کہنے لگی:” کئی لوگوں کو پہلی  مرتبہ جھوٹے خواب دکھائی دیتے ہیں لیکن  پھربالآخر سچا سپنا بھی نظر آ ہی جاتا ہے۔ شاید اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔” با پ نے اپنی بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی۔

وہ ایک بار پھر خواب دیکھنےچل پڑا ۔  وہ روتاجاتا  اور اپنے چہرے پر خاک ڈالتا جاتا تھا کہ ماں باپ کے الفاظ سے اس کا دل جل گیا تھا ۔پھراپنے خاک آلود ہاتھو ں کو ستاروں کی جانب اٹھاتے ہوئے وہ بولا:

”واکنڈا! میں اپنے گاؤں والوں کی نگاہ میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ جنگ اور شکار میں شامل ہونے کے قابل   بننا چاہتا ہوں۔ مجھے مردوں جیسا کوئی سپنا بھیج۔ ہاں، وہ نسوانی چہرہ بہت دلفریب تھا، لیکن خدایا! مجھے مردوں والا کوئی خواب دکھا!”

پھر وہ سو گیا اور آدھی رات کو جب    بے صورت چیزیں پہاڑ سےبرآمد ہونے  لگیں اور پرندے آپس میں انسانی بولی بولنے لگے تو اس کا سپنا لوٹ آیا:

بالکل پہلے کی مانند چاند چہرہ،  ستاروں کو ڈبودینے والی سفید ٹھنڈی آگ کی جھیل میں تیر رہا تھا۔

لڑکا اسے پرے دھکیلنے کے لیے آگے بڑھا تو  اچانک  اس چہرے کے نیچے یوں جسم  ظاہر ہونا شروع ہوگیا جیسے کسی پھول سے  نیچے کی جانب ڈنڈی اگنے لگے۔ پھر روشنی کے ایک جھماکے کے ساتھ  وہ عورت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ بازو کھولے وہ لڑکے کی جانب بڑھی تو اس کی رگوں میں خون جلنے لگا ۔ اسے یوں لگا گویا وہ نور کے ہالے میں لپٹ گیا ہو۔اس ہالے سے  جھکے چہرے کے سرخ ہونٹوں نے اس کے ہونٹوں کو ہلکے سے چھو کرگویا  جلا ڈالا اوراس کے بدن میں بجلیاں سی کوند گئیں!

جیسے ہی خواب شہزادی پھر سے ستاروں کی گزرگاہ  سے آکاش راہ کو  بھاگی خواب دیکھنے والے نے اپنے بازو پھیلا دیئے  اور لبادہ ء نور کو گرفت میں لینا چاہا۔ و ہ جانے والی کو روکنا چاہتا تھا کہ  اب وہ اس کےلیے زندگی سے بھی عزیز تر بن چکی تھی۔

لیکن  اس کی آنکھ کھل گئی۔

آنکھ کھلی تو اس نے  اپنا چہرہ خاک آلود اور  بند مٹھیوں کی گرفت میں مٹی  کو پایا!

ہائے!  تلخ خوابوں کا پربت! مگر، گوری چمڑی والو، تم کیا جانو! میری طرح کبھی تم وہاں گئے ؟

گھر پہنچ کر اس نے باپ کو اپنا خواب سنایا تواُس نے تیوری چڑھا لی۔

پھر اپنی ماں کوخواب  سنایا تو وہ رونے لگی۔

وہ دونوں کہنے لگے:” یہ کسی جنگجو سورما کا سا خواب  ہے  نہ کسی نیک ہستی کا۔ مگر ایسے خواب تو شکاریوں کو بھی نہیں دکھائی دیتے۔ یہ لڑکا ضرور کوئی نیا ، انوکھا، پراسرار راستہ چنے گا ۔ لیکن اسے ایک بار پھر بھیج کر دیکھ لیتے ہیں، شاید حقیقی خواب اسے  اب کے دکھائی دے جائے۔ ”

چنانچہ وہ لڑکا پھر سے خواب پربت چل دیا۔اس کے قدم نہایت ہلکے پھلکے تھے اور دل گیت گارہا تھا کیونکہ اسے پھر سے چندر ناری کے دیدار کی امید تھی۔

لیکن اس بار  اسے کوئی خوا ب نظر نہ آیا۔

سویرے جاگا تو  غم کا سایہ اس کے چہرے پر صاف دکھتا تھا۔ اس نے اپنی مٹھیاں لہرا کر ہنستے ہوئے  دن پر اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کی۔

پھر وہ ٹیلے سے اترنے لگا تو ایک کربِ عظیم اس کے  جلو میں  تھا۔ا س کی نظروں میں اب سب کچھ  بے وقعت ہوچکا تھااور اس کادل کسی شے میں نہیں لگ رہا تھا۔

دھوپ آسمان کی جڑاؤ ٹی پی{خیمے}  کو جلائے دے رہی تھی، آخر کاروہ جلتے جلتے  سیاہ ہوگئی۔

کسی بخارزدہ مریض کی طرح جلتی  آنکھیں لیے وہ اپنے لوگوں میں پہنچاتو اس کا ہمراہی بس  ایک سپنے کے سوا کوئی نہ تھا اب وہ بہت تنہا اور  اجنبی لگ رہا تھاکہ اسے لوگوں  کے رسم و راہ سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی تھی۔ اس کی اکلوتی خوشی بس ہمہ وقت چاند کو تکتے رہنا تھی اور جب کئی راتوں اور کئی دنوں تک وہ اسے دکھائی نہ دیتا  تو سرجھکائے اداس آنکھوں کے ساتھ بھٹکتا  پھرتا اور وحشت بھرے گیت بناتا رہتا۔

خوش باش لوگ کبھی  گیت بنا نہیں سکتے، وہ تو صرف گیتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں!

ایسے گیت پہلے کبھی  کسی نے  سنے بھی نہ تھے۔ یہ گیت ویسے نہیں تھے جو بھنا گوشت بٹنے کی گھڑی الاؤ کے گرد منڈلاتےمفلس گایا کرتے ہیں ۔ ان میں تھکا دینے والے رستوں کی  کثیف اور گرم دھول گندھی ہوئی  محسوس ہوتی تھی۔  ان میں آخری سانسیں لیتے سورماؤں کےنعرے، بیواؤں کے بین، بچوں کی کراہیں سنائی دیتی تھی۔ان میں  بڑے  اور حساس دلوں  کی کسک، زندگی کی کٹھنائیوں سے چُور عورتوں کے دکھ، بھوک اور پیاس، جینے کی تمنا ، مرنے کا خوف سب کچھ تھا۔

لوگ پوچھتے: ” یہ نوجوان آخر ہے کون؟ یہ ان دشوار گزار راستوں کے گیت گاتا ہے جن پر اس نے کبھی قدم نہیں رکھا؛ ان جنگوں کے ترانے گنگناتا پھرتا ہے    جن میں اس نے کبھی حصہ نہیں لیا۔  باپ تو یہ ابھی بنا نہیں لیکن اس کے گیت سنو تو لگتا ہے کہ اس کا  کوئی بچہ بچھڑ گیا ہو! یہ عشق کے آزار کا ذکرکرتاہے حالانکہ اس نے کبھی کسی دوشیزہ کے چہرے پر نگاہ تک نہیں ڈالی۔”

جواب  میں بس وہ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتا:”جس کی مجھے تلاش ہے وہ ملنے والا نہیں ۔ ”

رات دن گزرتے چلے گئے ،کئی جاڑے اور کئی گرمیاں  آ کر چلی گئیں اور وہ بڑا ہوگیا۔ لیکن پھر بھی لگتا نہیں تھا کہ  وہ مرد بن چکا ہے ، کہ اسے شکار سے دلچسپی تھی نہ جنگ و جدل سے۔الاؤ کے گرد گپ شپ   لگانے  اور ہنسی مذاق میں وقت گزارنے والوں میں بھی اسے کبھی نہیں دیکھا گیا نہ کبھی اس نے کسی دوشیز ہ کو میٹھی نظروں سے ہی دیکھا۔

جب اس کے ماں باپ نے اپنے بالوں پر برف گرتی دیکھی تو کہنے لگے: ”ہمار ا بیٹا اب مرد بن چکا  ہے۔ کیا اب اسے اپنا گھر آباد نہیں کرنا چاہیے؟  کیا ہم ننھے بچوں کی کلکاریاں سنے بغیر  ہی تاریک راستے پر قدم رکھ دیں گے؟”

اس کا با پ بے شمار مال مویشیوں کا مالک  تھا۔ چنانچہ اس کے حکم پر بیٹے کے  سامنے بہت سی کنواری دوشیزائیں لائی گئیں کہ وہ ان میں سے کسی کو چن لے  لیکن اس نے ایک سرد مہر نظر ان پر ڈالی اور کہا: ”ستارے میرے بہن بھائیوں کی جگہ لے چکے اور چاند بیوی کی ۔ مجھے اولاد کی حاجت نہیں کہ  بچوں کی جگہ اس سے مجھے گیت ملتے ہیں ۔ جلد ہی میرے سامنے ایک طویل راہگزر نمودار ہونے والی ہے۔”

یہ سن کر لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور وہ  ان کے درمیان پہلے سے بھی زیادہ اجبنی بن کر اپنے خواب کے ساتھ تنہا دردناک گیت گاتا رہ گیا۔

باپ  نے  اسے سخت سست کہا:” کیا تم  سمجھتے ہو کہ قبیلہ  تمہارے گیتوں کامحتاج ہے؟  کبھی کسی بھوکے کا پیٹ  ایسے احمقانہ الاپ سے بھر پایا ہے؟ تم دشمنوں کا مقابلہ گیتوں سے کرو گے کیا؟”

پر اس کی ماں روتے ہوئے کہنے لگی: ” نہیں  اسے  ایسے نہ کہو۔ دیکھتے نہیں اس کے  حیرت انگیز اور شیریں گیت کس طرح لوگوں کو رلادیتے ہیں۔دیکھو  اگر کسی کا میٹھے پانی کا برتن ٹوٹ کر بے کار  بھی ہو جائے تو وہ اسے کبھی بر ا بھلا نہیں کہتا یہ تو آخر تمہارا بیٹا، تمہارا سہارا ہے۔”

باپ نے چیں بہ جبیں ہوکر جواب دیا: ”میرے پاس ہنسنے کھیلنے والے  خوش باش  لوگ ہوں تو ان کی مدد سے میں اپنے دشمنوں پر غلبہ پاسکتا اورجشن کے لیےدسترخوان سجا سکتا ہوں لیکن رونے رلانے  والے تو عورتوں کے ساتھ لکڑیاں اکٹھی کرنے اور پانی لانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔میری ساری زندگی جنگوں اور شکار میں گزری میں اسے اپنا بیٹا کیسے مان لوں۔۔۔!”

ایک رات وہ لوگوں  کے بیچوں بیچ تنہا   چاند پر نظریں جمائےکھڑا تھا کہ   اچانک اس سے ایک چہرہ نمودار ہواجس نے بڑھتے بڑھتے ٹیلوں اور وادیوں کو اپنے نور سے معمور کردیا۔ خیمے سے سج سنور کرنکلتی اپنی محبوبہ کے لیے گانے والے کسی عاشق  کی مانندوہ مطرب اپنے بازو اس کی جانب پھیلائے گیت  گانے لگا۔

لوگ  اس پر ہنسنے  اور  اس کا مذاق اڑانے لگے:”بھلا یہ احمق کس کے لیے گیت گار ہا ہے؟ ”

اپنی روشن ، نرم نگاہیں ان پر ڈالتے ہوئے اس نے جواب دیا:” چندر ناری کے لیے گارہاہوں، اور کس کے لیے؟ ذرا دیکھو تو سہی وہ کیسے  شمال میں معلق قطبی ستارے پر نظریں مرکو ز کیے ہوئے ہے!”

”یہ سب پاگلوں کی باتیں ہیں۔ ہمیں کوئی ناری نظرنہیں آتی۔”

پھر  وہ ایک نیا گیت گانے لگا  جس کا ٹیپ کا مصرعہ ” آنکھوں والے ہی دیکھ سکتے ہیں” تھا۔

یوں وہ  پاگلوں کی طرح اپنے لوگوں کے درمیان درد بھرے گیت گاتا گیا۔

ہائے۔ پاگل ہونا کتنا دردناک ہےمیرے بھائی، لیکن دانائی بھی  پاگل پن کا مزا چکھنے والوں کو ہی ملتی ہے۔

گرمیوں کے موسم میں ایک مرتبہ  یوں ہوا کہ دریا کنارے آبا د گاؤں  میں اچانک گوروں کی  دھواں اگلتی جادوئی کشتی آ پہنچی ۔ چلانے والوں نے اسے کنارے  پر لگے ایک  درخت کے ساتھ باندھ دیا۔ ان کی کشتی کی آگ نگلتی تھی اور ہماری زمینوں پر ایندھن کی کمی نہ تھی۔ گوروں کو دیکھنے سارا گاؤں امڈ آیا اور ان سب کے ساتھ تنہا پاگل گوّیا بھی آگیا۔

پھر کشتی میں سے ایک گوری نکل کر ہماری جانب بڑھی اور اونچے پورے قد سے کھڑی  ہوگئی۔ وہ مسکرا کرہمیں دیکھ رہی تھی اور  اس کا چہرہ اواخرِ بہار کی برف جیسا  اور اس کے بال بادلوں پر پڑتی دھوپ کے سے تھے۔  ہم سب منہ کھولے اسے تکے جارہے تھے کہ اس سے قبل ہم نے اس جیسی کوئی عورت نہ دیکھی تھی۔

پاگل بھی اسے تک رہا تھا۔ لوگوں کے چلے جانے کے بعد بھی دیر تک  اُسی جانب گُھورتا رہا۔ بلکہ کشتی کے دخانی سانسوں کے کسی سیاہ سانپ کی طرح غائب ہوجانے کے بعد بھی وہ اسی سمت  تکتا رہا۔  پھر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر وہ رودیاکہ اب  اس کے سینے میں جینے کی خواہش اور مرنے کے خوف سے بڑا ایک جذبہ جنم لے رہا تھا۔

اگلے دن صبح سویرے جب سب لوگ گہری  نیندکے مزے لے رہے تھے  وہ اپنے بے خواب بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ چراگاہ سے اس نے اپنے خچر کو آواز دی اور ایک لمبے سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ شمال کی طرف جارہا تھا اور جیسے جیسے اس کی سواری آگے بڑھتی جاتی تھی وہ اپنے اور اردگرد چھائی خامشی سے کلام کرتا جاتا تھا: ”وہ چندر ناری شمال کو چلی گئی، وہیں جہاں قطبی ستارہ رہتا ہے۔ میں بھی وہیں جا کر دم لوں گا میرے  سارے گیتوں کی اڑان وہیں تک  ہے ۔وہیں پہنچ کر مجھ پر ان کے بھید کھلیں گے۔ میں وہیں جاکر دم لوں گا!”

اب دن کی  آگ  ستاروں کو دھندلا دینے کے بعد خود بھی دم توڑ چکی تھی اور  رات کی سیاہ راکھ ہر جانب پھیلتی جا رہی تھی ۔

مگر وہ شمال کو چلتا گیا۔

دن خیمے  کے سوراخ سے  جھلکتی مشعل کی  روشنی کی مانند تیزی سے چمکتے  اور گزرتے گئے۔

مگر اس کا سفر جاری رہا۔

وہ بہت سے پرائے دیہاتوں سے گزرتا  اور ہر جگہ انوکھی زبانوں اور سوالات  کا سامنا کرتا رہا”میں چندر ناری کی تلاش میں شمال کو جارہا ہوں۔”اس کے پاس ہر سوال کا بس ایک ہی جواب تھا۔لوگ اس پر ترس کھاتے کہ اس پر انہیں کسی آسیب کا سایہ محسوس ہوتا تھا۔ پھر بھی اس کی خاطر مدارات میں وہ کوئی کسر نہ چھوڑتے۔

اپنے جانور کو بیابانوں میں دوڑاتا  اور ویرانوں میں  اپنے گیتوں سے شیرینی  اور اداسی  پھیلاتا    وہ یوں ہی آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔

پھر جاڑ ا آگیا۔

اب وہ دبلا پتلا اور مہین ہوچکا تھا اور اس کا خچر بھی لاغر  اور مریل  ہوگیاتھا۔ برفستانوں کے بھوت اور  غصیلی روحیں ان دونوں کے گرد منڈلانے لگیں۔ برفانی بھوت  تھوڑی تھوڑی دیر بعد زمین سے برآمد ہوتے، بل کھاتے، چیختے چلاتے  اور پھر چندر ناری کا روپ دھار لیتے۔ وہ ان کے پیچھے دوڑ پڑتا  تو وہ زمین  میں غائب  ہوجاتے۔

دنیا بہت تلخ  ،  بہت سرد  ہوچکی تھی!

ہائے ہائے ، ہم  کیسی کیسی برفانی روحوں کا پیچھا کرنے میں زندگیا ں گزاردیتے ہیں!

پھر وہ  وقت  آگیا کہ اس کا خچر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا، اور چاند کا متلاشی اس ڈھانچے پر بیٹھا رہ گیا۔

اب اس کی ہمت جواب دے چکی تھی اس لیے  اس نے اپنا  تُند چہرہ جنوب کی طرف موڑ لیا۔کئی روز تک اس نے کوئی گیت نہ گایا کہ اس کا بدن اب    عشقِ لاحاصل کا ویران مقبرہ بن چکا تھا ۔

پھر اسے ہوش آیاتو خود کو اس نے  اجنبی لوگوں کے پاس پایا۔

اور جب سبزے نے  پھر سے سراٹھایا اور ہریالی چار سو پھیلنے لگی تو  جھکی کمر ، سوکھے چہرے  او ر بڑی بڑی آنکھوں سے بہت بوڑھا دکھائی دینے والا ایک  نوجوان لڑکھڑاتا ہوا اپنےگاؤں میں داخل ہوا۔

وہ اپنے ڈیرے   پر پہنچا تو اسے خالی پایا۔ اس کا باپ اپنی تیوریوں  اور ماں اپنے آنسوؤں سمیت  اس طویل راہگزر پر روانہ ہوچکے تھے، جس پر نہ تو سورج چمکتا ہے نہ چاند۔۔۔ ہاں بس ہر طرف ستارے ہی ستارے پائے جاتے ہیں۔

وہ  کئی روز اجاڑ ڈیرے پر  پڑا رہا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک دوشیزہ جسے وہ ماضی میں مسترد کرچکا تھا اس کے لیے گوشت اور  پانی لے آئی۔

اس نے سوچا:”مجھے جس کی تلاش تھی  اسے تو میں پا نہیں سکا۔ اب میں بھی دوسروں جیسا بن جاؤں گا اور اس ڈیر ے  کو آباد کروں گا ، اسی عورت کے ساتھ۔ اب اپنا وہ خواب فراموش کردوں گا جس کی انگلی پکڑے میں اب تک  پھر تا رہا۔ اب میں بھی جنگلی بھینسوں کا شکار اور دشمنوں کو ہلاک کروں گا۔ اور میں کر ہی کیا سکتا ہوں؟”

اور اس نے یوں ہی کیا۔

گاؤں کے لوگ اب  بڑھ چڑھ کر اس کی تعریفیں کرنے لگے:”دیکھو یہ دیوانہ اب  بالکل ٹھیک ہوگیاہے۔”

جیسے جیسے موسم گزرتے رہے چاند کی تلاش ترک کردینےوالے شخص کا ڈیرہ بچوں کی آوازوں سے معمور ہوتا گیا۔

مگر اس کے چہرے پربدستور ایک اداسی کا سایہ تھا۔

اور پھر ایک روز اس کا خواب  لوٹ آیا اور اپنے ساتھ وہی گیت بھی لے آیا۔

اب وہ اپنے بیوی بچوں پر نظر کم ہی ڈالتا۔

شکار کے لیے بھی وہ کم ہی جاتا۔

لوگوں کی وہی پرانی شکایت پھر سنائی دینے لگی: ” دیوانے کی دیوانگی برقرار ہے۔  اس کے خیمے میں بھوک کار ا ج ہے پر وہ اپنےگیتوں میں مگن رہتاہے۔ اس کی بیوی اس کے لیے اجبنی بن چکی ہے اور بچے یوں ہیں گویا وہ کسی اور کے ہوں۔ بھلا سوچو تو، کیا  وہ بس یوں گاتا ہی رہے گا؟”

پھر ایک پھنکار بلند ہوئی  اور لوگوں میں پھیلتی چلی گئی: ” دیوانے کو نکال باہر کرو!”

اور پھر ایک دن پتھروں کی بارش سے لہولہان  سر کے ساتھ   مطربِ سوز اپنے گاؤں سے لڑکھڑاتا ہوا  نکل رہا  تھا۔ اگرچہ ابھی اس پر چند ہی سال گزرے تھے مگر وہ بہت بوڑھا دکھائی دیتا تھا ۔

وہ شمال کو چلا گیا اورپھر لوگوں کو اس کا چہرہ کبھی نظر نہ آیا۔

لیکن سنو! بے شمار موسم گزر جانے کے بعد بھی وہ زندہ   سلامت اور اپنے لوگوں کے بیچ تھاکیونکہ کئی مرتبہ گرد و غبار میں اٹے راستوں پر  تھکے ماندے لوگ بیٹھے اس کے گیت گایا کرتے۔ اور مردہ سورماؤں پر روتی عورتوں کے ہونٹوں پر بھی اسی کے گیت سنائی دیتے۔ اور جب قحط کا زمانہ آتا تو لوگ اس کے گیتوں سے سکون پاتے ۔

تویہ تھی چاند کے دیوانے کی کہانی!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search