تعارف: تاریخ فلسفہ از ولہم ونڈل بینڈ (مترجم: ابرار حسین  و عاصم رضا)

 In ترجمہ

تعارف: جرمن مفکر ولہم ونڈل بینڈ (Wilhelm Windelband)نے مغربی فلسفے کی تاریخ پر 1891ء میں ’’تاریخ فلسفہ‘‘ (History of Philosophy)کے عنوان سے   دو جلدیں  پر مشتمل   جرمن زبان میں ایک معرکتہ الآراء کتاب لکھی ۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس نے فلسفے کی تاریخ لکھنے کا نیا اسلوب متعارف کروا یا ۔ ونڈل بینڈ نے اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا کہ فلسفے کے مختلف ادوار کی تقسیم ان  عمومی اور خصوصی مسائل کی بنیاد پر کی جائے  جو مختلف ادوار کے فلسفیوں کی فکر کا موضوع بنتے رہے ہیں ۔ اس کتاب کی اہمیت اور فلسفیانہ حلقوں میں اس کی غیر معمولی پذیرائی کی بدولت جیمز ٹفٹس (James Tufts) نے  1893ء میں اسے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ۔ اردو زبان  میں ترجمے کے لیے   ٹفٹس کے انگریزی ترجمہ کا  1901ء میں شائع ہونے والے دوسرے ایڈیشن کو استعمال کیا گیا ہے ۔ ولہم ونڈل بینڈ کی مذکورہ کتاب کو ابھی تک اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی کوئی کاوش   نہیں ہے (یا کم از کم مترجمین کی معلومات میں نہیں ہے )۔ 

 

تاریخ فلسفہ

فلسفہ کا مفہوم

فلسفہ کائنات اور انسانی زندگی سے متعلق سوالات کے جواب کا سائنسی انداز ہے ۔ ہر فلسفی نے اپنے مقدمات اور نتائج ِ فکر کی رعایت سے فلسفے کو متعین طور پر تعریف دینے کی کوشش کی ہے ۔ فلسفے کی تعریف کے ضمن میں فلسفیوں کے ہاں اختلافات کی بدولت یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ فلسفے کے بنیادی مفہوم پر اتفاق کی شاید کوئی صورت ہی باقی نہ رہے ۔ تاہم ہم نے جس تعریف کا ذکر کیا ہے یہ بھی یونانیوں کے تصورِ فلسفہ سے بہت کچھ مختلف ہے ۔ فلسفے کے مفہوم میں یہ تبدیلی مغرب کے روحانی اور فکری سفر کے دوران میں بتدریج پیدا ہوئی ۔

فصل اول

یونانی بھی ابتداء میں  فلسفے کے لفظ کو انتہائی سادہ اور غیر متعین مفہوم میں ہی استعمال کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ فلسفہ حصول ِ حکمت کی جستجو کا نام ہے ۔ سقراط کے بعد اور بالخصوص افلاطون اور ارسطو کے ہاں ، فلسفے کے لفظ کی دلالت بعینٰہ اس معنی کے لیے متعین ہو گئی جو معنی آج کل جرمن زبان کے لفظ( Wissenschaft) سے مراد لیا جاتا ہے ۔ اس معنی کے اعتبار سے فلسفہ  فکر کے اس باضابطہ عمل کا نام ہے جس کے ذریعے سے ہم وجودِ مطلق کی ماہیت کا علم حاصل کرتے ہیں ۔ علم کی دیگر تمام انواع موجودات کی مخصوص ماہیتوں کی تحقیق کو اپنا اپنا موضوع بناتی ہیں ۔

فلسفے کا یہ نوعی مفہوم اس کے اولین نظری تصور میں ابتدا ہی سے داخل تھا ۔ یونانی فلسفے کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جب یونانیوں کے عام فہم اور سادہ مذہبی و اخلاقی شعور میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں ۔ ایسے میں فلسفے نے نہ صرف یہ کہ انسانی مقاصد ِ حیات کے مسئلے کو عقلی تحقیق کا اہم سوال بنا دیا بلکہ اس نے انسان کے لیے اخلاقی ضابطہ ِ حیات کے تعین کو بھی اپنا بنیادی مقصد قرار دے ڈالا ۔ یوں بالآخر ، فلسفے نے اپنے  اخیر یونانی دور میں عقلی اصولوں پر مبنی ضابطہ ِ حیات کی شکل اختیار کر لی ۔ یونانی فلسفے میں اس پیش رفت کے لیے سوفسطائیوں اور سقراط نے پہلے ہی راستہ ہموار کر دیا تھا ۔

اس تبدیلی کے نتیجے میں حقیقت کے ساتھ خالص نظری دلچسپی کا معاملہ کچھ خاص علوم کو منتقل ہو گیا جنھوں نے طبیعی اور تاریخی تحقیق کو اپنا موضوع بنا رکھا تھا ۔ تاہم ، ریاضی اور علم ِ الطب اس سارے عمل میں متاثر نہیں ہوئے  ۔ بلکہ ان کی وہی آزادانہ حیثیت برقرار رہی جو انھیں دیگر عقلی علوم کی نسبت آغاز سے حاصل تھی ۔ فلسفے کا نام البتہ اب بھی انھی عقلی کاوشوں کے ساتھ وابستہ رہا جو انسان کی مجموعی علمی سرگرمی کے نتائج کی بنا پر یقینی ضابطہ ِ حیات تک رسائی کی امید رکھتی تھیں ۔ اس طرح کی تمام کوششوں کا نتیجہ بالآخر نوافلاطونیت کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ نوافلاطونیت ، فلسفے کو ایسے عقلی مذہب میں تبدیل کرنے کی کاوش تھی جو پرانے اور گم شدہ مذہب کی جگہ لے سکتا ۔

پہلے پہل ، جب کلاسیکی عقلی علم کی باقیات ، موجودہ یورپی اقوام کی ثقافتوں کو منتقل ہوئیں تو حقیقت ِ اصلیہ کی تحقیق اور نظری علوم کے مابین قائم شدہ نسبتوں میں کچھ خاص تبدیلیاں رونما نہ ہوئیں ۔ قرون ِ وسطیٰ میں فلسفے کے وہی مشمولات و مقاصد تسلیم کر لیے گئے جو متاخر کلاسیکی دور میں اس کے لیے طے کیے گئے تھے ۔ تاہم ، یہ دیکھتے ہوئے کہ مذہب نے فلسفے کے مقاصدِ اولیہ کو مکمل کر دیا ہے ، فلسفے کے معنویت میں جوہری تبدیلی پیدا ہو گئی ۔ مذہب نے انفرادی انسانی زندگی کے لیے یقینی ضابطہ ِ حیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت ِ اصلیہ کے بارے میں ایک عمومی نظری تناظر بھی قائم کر دیا ۔ مذہب کا فراہم کردہ یہ نظریہ تناظر اپنی نوعیت میں بہت حد تک فلسفیانہ تھا  کیونکہ عیسوی عقائد کی تشکیل  بھی تو کلاسیکی فلسفے کے زیرِ اثر ہوئی تھی  ۔ چرچ کے فکری استیلاء کی بدولت فلسفے کی حیثیت اب ثانوی ہو کر رہ گئی ۔ ایسی صورت میں عیسوی عقائد کا عقلی بنیادوں پر دفاع کرنا فلسفے کا واحد منصب بن گیا ۔ لیکن ، بعد ازاں  اسی منصب کی وجہ سے فلسفے اور عقائد کے طریقِ استدلال میں مغائرت پیدا ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عقائد جن حقائق کا اثبات وحی کی بنیاد پر کرتے تھے ، فلسفہ انھی حقائق کی تحصیل و اشاعت محض انسانی علم کے ذرائع سے کرنے لگا ۔

اس پیش رفت کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جیسے جیسے عقلی غوروفکر کا عمل چرچ کے تسلط سے آزاد ہوتا گیا ، ویسے ویسے فلسفہ بھی مشترک مسائل کے آزادانہ حل کی طرف متوجہ ہوتا چلا گیا ۔ فلسفے نے مذہبی عقائد کے دفاع سے دست بردار ہو کر ان عقائد پر عقلی تنقید کا آغاز کر دیا ۔ مذہب کے کلامی مفادات سے قطع نظر ، فلسفہ آزادانہ طور پر انسانی تجربے اور عقل کی روشنی میں اپنے مبادیات کا تعین کرنے لگا ۔ فلسفے اور مذہب کے مابین طریقِ استدلال کا فرق  ، ان کے اصول و فروع اور موضوعات کے اختلاف پر منتج ہوا ۔ بالآخر ، جدید فلسفے نے خود کو چرچ کے عقیدوں کے مقابل معاندانہ تصورِ کائنات کے طور پر منوا لیا ۔ بہرحال ، فلسفے اور مذہب کے مابین باہمی تعلق نے موافقت سے مخالفت تک کتنی ہی شکلیں اختیار کیوں نہ کی ہوں ، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فلسفہ اس منصب سے معزول نہیں ہو سکا جو منصب یونانیوں نے اسے بخشا تھا ۔ یعنی یہ کہ فلسفہ عقلی بصیرت کے ساتھ ہمیں زندگی اور کائنات سے متعلق وہ نظری بنیادیں فراہم کرے جو یا تو اب مذہب کے بس میں نہیں رہی تھیں یا کم از کم مذہب محض اپنے بل بوتے پر اب یہ نہیں کر سکتا تھا ۔ یونانی فلسفے کی طرح  جدید فلسفے کو بھی اٹھارویں صدی میں یہ یقین حاصل ہو چکا تھا کہ وہ زندگی اور کائنات سے متعلق یقینی نظری بنیادیں فراہم کر سکتا ہے ۔ اسی لیے جدید فلسفے نے ماہیت ِ اشیاء کے ضمن میں انسان کی رہنمائی اور فرد و اجتماع کی زندگی کی تشکیل کو اپنا استحقاق اور فرض ِ منصبی باور کر لیا ۔

ماہیت ِ اشیاء تک رسائی کے فلسفیانہ دعوی کو کانٹ نے یہ کہہ کر جھٹلا دیا کہ فلسفہ کے لیے خارجی مظاہر کی ماہیت کا علم ممکن الحصول نہیں ہے ۔ کانٹ نے کلاسیکی اور جدید تصوراتِ فلسفہ کے علاوہ اس کے دائرہ ِ علم کی بھی تحدید کر دی ۔ فلسفیانہ دائرہ ِ علم کی اس تحدید کے بعد ، فلسفیانہ سرگرمی کا مطلب یہ ہو گیا کہ عقل خود اپنی صلاحیت ِ تعقل کا تنقیدی جائزہ لیتی  رہے ۔ کانٹ کی فیصلہ کن فلسفیانہ دریافتوں کا ماخذ بھی عقل کی یہی تنقیدی خودشعوری تھی ۔ کانٹ کا خیال تھا کہ عقل کی اس تنقیدی سرگرمی کو اس آفاقی تصور کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے جو زندگی کی عملی جہتوں کا تعین کرتا ہے ۔ یہ امر  تو بعید از قیاس ہے کہ  فلسفے کے اس جدید اور بظاہر حتمی تصور کو فورا ہی عالمی قبولیت حاصل ہو گئی ہو گی ۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ انیسیویں صدی میں فلسفیانہ تحریکوں کے زبردست تنوع کی بدولت ماضی کی تقریباً تمام عقلی سرگرمیوں کا احیاء ہو گیا ۔ مابعد الطبیعیات کے نام پر کُل انسانی علم کو فلسفے میں مدغم کر دینے کا رجحان پھر سے زندہ ہو گیا اور فلسفے کو جامع العلوم فن کی حیثیت سے  قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔

(جاری ہے)

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search