تلاش ِ حق: مذہب و فلسفہ کا مشترکہ مقصود (ترجمہ: عاصم رضا)
تعارف: زیرِ نظر اقتباس، سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے معروف فلسفی سر ولیم ہملٹن (March 1788 – May 1856) کے دروس برائے مابعد الطبیعیات اور منطق (جلد اول ، ص 58) سے لیا گیا ہے ۔
بے ادبی نہ جانیے تو میں یوں کہوں گا کہ امور انسانی اور امور ربانی کے حوالے سے عیسائیت اور فلسفے کے مابین اتفاق پایا جاتا ہے کہ دونوں کا منتہا و مقصود تلاش حق ہے ۔ ہمارے مسیحاکو اپنے پیروکاروں سے کون سی بنیادی شرط مطلوب ہے ؟ یہی کہ وہ اپنے جمے جمائے تعصبات کو ترک کریں اور ایمان کے لیے مطلوب علم و فہم کے لیے قلب کی آمادگی کے ساتھ آئیں ۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب تک تم چھوٹے بچوں کی مانند نہیں ہو جاتے ، تم آسمانی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتے‘‘۔ یہی سچا مذہب ہے، یہی سچا فلسفہ ہے ۔ فلسفہ بیرونی حاکمیت کے جوئے سے آزادی چاہتا ہے ، ملکی اور عصری آراء سے اندھی وابستگی سے نجات کا خواہاں ہے اور مفروضوں پر اعتقاد سے عقل کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے ۔ تاوقتیکہ ہم بڑے آدمی کے تعصبات سے کنارہ کش نہیں ہو جاتے اور بچوں کی مانند اصلاح پذیر اور بگاڑ سے آزاد نہیں ہو جاتے ، اس وقت تک ہمیں کبھی فلسفے کے مندر میں قدم دھرنے کی امید نہیں کرنی چاہیے ۔
اس بنیادی شرط کو نظر انداز کرنے کے کارن ہی انسان زیادہ تر وحدت حق سے دور رہا ہے اور یہی غفلت لامتناہی انواع و اقسام کے مذہبی و فلسفیانہ فرقوں کو جنم دینے کی وجہ بنی ہے۔