آشفتگی اور فضائلِ آشفتگی۔ تحریر: بیکا روتھفیلڈ (ترجمہ: اسد فاطمی)

 In ترجمہ

ہمیں ننگی عورتوں سے کوئی تکلیف نہیں۔ مریل عورتوں سے۔ وہ عورتیں جو بستر پر بدسلوکیوں یا کام کی جگہ پر پیش قدمیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں، وہ عورتیں جنہوں نے اپنی کمر کو آپریشن کے ذریعے چھیل کے ٹھیک جگہ پر ٹکایا ہو۔ لیکن ایک ناخوش عورت سے ہمیں ڈر لگتا ہے، خصوصاً اگر وہ اس بات پر ہاں میں ہاں نہ ملائے کہ اس میں نقائص اور کوتاہیاں ہیں۔ تمام خوش عورتیں ایک سی ہوتی ہیں، لیکن ہر ناخوش عورت اپنی سی ہی سرکشی کے ساتھ ہمیں جھنجھوڑے مارتی ہے۔ ہر وہ عورت جو مسکرانے کی تاکید کو نظر انداز کر کے تصویروں میں پیچھے الگ تھلک روکھا سا منہ لیے کھڑی ہوتی ہے۔ ہر عورت جو اس بات پر مُصر ہو کہ وہ ناراض نہیں ہے، یا کم از کم، اس بات سے پہلے تک کہ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ ناراض تو نہیں، جس سے وہ ناراض ہو گئی، نیز اس کی وجہ کیا تھی۔

لیکن، اس بات پر اتفاق ہے کہ، ایک ناخوش عورت، نامعقول ہے یا وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی ناخوشی ایک بیماری ہے جس کا علاج ہونا چاہیے، تھراپی سیشنوں کی گوشہ نشینی میں بٹھا کر، یا گھریلو قیدخانے میں پوری جانفشانی سے اپنی مدد آپ کے کتابچوں کی حاشیہ نشینی میں ڈال کر – بہر صورت – جسے پردے میں بھیجا جائے، جہاں اس کی ناراحتی، اضطراب دید کا باعث نہ ہو۔ اور اسی طرح ہم نظم ”کامل کیسے بنیں“ میں خود کو بجا طور پر اندر، درون خانہ بیٹھا ہوا پاتے ہیں، جہاں شاعر رون پیجٹ تاکید کرتا ہے کہ،

کسی شے پر ایک ہفتے سے زیادہ ناراض مت رہو،

لیکن یہ مت بھولو کہ تم کس بات پر ناراض ہوئے۔

اپنے غصے کو ایک ہاتھ کی دوری پر رکھو

اور اسے دیکھو، جیسے وہ مستقبل دکھانے والی شیشے کی گیند ہو۔

پھر اسے اپنی گیندوں کے ذخیرے میں رکھ دو۔

وہ لکھتا ہے،

جتنا ہو سکے، پلاسٹک یا دھات کی بجائے لکڑی کی چیزیں استعمال کرو۔

وہ پرندے کی طرف دیکھو۔

شام کے کھانے کے بعد ، برتن دھوؤ۔ 

اور ٹھنڈ رکھو۔

ٹھنڈ رکھو! کامل ہونا تبھی آپ کی پہنچ میں ہو گا جب آپ خوش ہونے پر راضی ہوں – اگر آپ اپنی ناراضی کو الماری میں رکھنے پر آمادہ ہوں۔ ” گھبرانا نہیں،“ پیجٹ صلاح دیتا ہے، ”اس چیز سے جو تمہارے بس سے باہر ہو۔ مثال کے طور پر اس عمارت سے نہیں گھبرانا جو سوتے میں تمہارے اوپر آن گرے گی، یا اس سے کہ تمہارا کوئی پیارا اچانک موت کے منہ میں چلا جائے گا۔“ بے ثباتی اور بے معنی پن سے مت گھبرانا۔ اپنے جسم کے فانی پن کا رونا مت رونا، جو صبح چار بجے کی سست رو ڈھلان اترتے ہی تمہارے سانسوں کو مہیب اندیشوں سے بھر دیتا ہے۔ اس کی بجائے، ٹھنڈ رکھو- اور شام کے کھانے کے بعد والے برتن مانجھنا مت بھولنا۔

ایسا نہیں ہے کہ ٹھنڈ رکھنے یا برتن دھونے میں، یا مراقبے کی تکنیکوں اور مثبت خود آگاہی کے طریقوں میں برائی ہے جن کا اکثر لوگ (زیادہ تر مرد حضرات، اکثر بغیر مانگے) مشورہ دیتے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے کسی کی کسی ایسی سجاوٹی تدبیر سے کوئی رنج ہے جو کارگر ہوتی ہو، خواہ وہ کوئی ٹوٹکا ہو یا نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ تھراپی اور خود امدادی (اپنی مدد آپ یا self    help) والے بابا لوگ نامساوی تقاضے مسلط کرتے ہیں، جن لوگوں کے پاس ناخوش ہونے کے سب سے بڑے جواز ہوں اور خوشی کے سب سے کم وسائل ہوں ان سے اعلانیہ اور واضح ترین خوشی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ افاقے کے منتر اور امید پسندی کی مبہم نصیحتوں سے کہاں کہاں پالا نہیں پڑتا جو بہتری کا بوجھ معاشرے کے کاندھوں سے اتارنا چاہتے ہیں، اور مردوں کی اس ثقافت کے کاندھے ہلکے کرنا چاہتے ہیں جو دکھاوے کی مسکراہٹ کے ساتھ آپ سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ آپ ناخوش تو نہیں، شائستگی کے قوال و ہمنواؤں کے کاندھوں کو ہلکا کرنے کے لیے جو مصنوعی وقار کے ساتھ ٹھنڈ رکھو کی راگنی گاتے پھرتے ہیں، کرب کی ہر اس انسانی ٹیس کے جواب میں، اور ان سب کے آگے جو اپنی ناراضی کو شیشے کی سوہنی موہنی گیندوں میں نہیں ڈھال پاتے۔

مردانِ آشفتگی شکن

خود امدادی – بے چینیوں کی دشمن – کوئی تعجب نہیں کہ ایک امریکی مظہر ہے۔ یہ ایک ایسی حساسیت جتاتا ہے جو کہ ایک ایسے ملک کو بہت جچتی ہے جہاں اپنی ذات سب سے معتبر اکائی ہے۔ اس کی بجا آوری کرنے والے پہلے پہلے لوگوں میں ایک بنجمن فرینکلن بھی تھا، جس کا 1758 کا جھٹ پٹ امیر بننے والا کتابچہ، ’دی وے ٹو ویلتھ‘، غربت کا علاج مشقت بتاتا ہے اور بدحالی کا علاج معاملہ فہمی بتاتا ہے۔ ”کاہلی، زنگ کی طرح، اس سے زیادہ جلدی کھاتی ہے اور گھولتی ہے جتنا جلدی مشقت تھکتی ہے، جبکہ استعمال ہوتی رہنے والی چابی ہمیشہ چمکتی رہتی ہے،“ وہ لکھتا ہے۔ ”جب آپ کو پارس پتھر مل جاتا ہے، تو آپ یقیناً برے وقتوں کا رونا نہیں روئیں گے، یا ٹیکس ادا کرنے کی مشکلات کا۔ “ فرینکلن کی نصیحت جتنی دل کو لگتی ہے اتنی ہی غلط بھی ہے – خود میں بہتری کے غیر مختتم سکوں میں ٹیکس ادا کرنے کو کون ترجیح نہیں دے گا؟ – اور اس سے اس ڈھکوسلے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کام کاج کرنے والے پیشہ ور امریکیوں کو تیاگ یا فرار کی راہ ملنا مشکل ہوتی تھی۔

1800 کے اواخر اور 1900 کے اوائل میں، پروٹسٹنٹ مسیحی محنت کش طبقہ نے ’آگے بڑھتے جانا‘ اور ’جیت کا راستہ‘ جیسے ناموں والی کتابوں کا ایک بھرپور ذوق پیدا کر لیا تھا، جن کا مشورہ یہ تھا کہ مضبوط کردار اچھی توانا قسمت کی کنجی ہے۔ امریکہ کے عہد زریں میں اپنی بڑھوتری کے عملیات نے جیتنے کے بارے ان صحیفوں کو نیا راستہ دکھایا جو ساٹھ کی دہائی کے اواخر اور ستر کی دہائی کے اوائل میں منظر عام پر آئے، اپنی مدد آپ کو، جس طور سے ہم اسے جانتے ہیں، اس عہد میں پورے جوش و خروش سے پھلنے پھولنے لگی۔ ’جو جیت کے لیے پیدا ہوئے‘ (1971)، ’جیتنے والے اور ہارنے والے‘ (1973)، ’ڈرا دھمکا کے جیت جانا‘ (1974)، ’جیتنے والوں کی نوٹ بک‘ (1967)، جیسی کتابوں نے پھوکٹ گھاس پھونس اور توڑی سے بھرپور گندم ملنے کا جھانسہ دیا – اور یوں ٹرمپ کے اس شاہکار کے لیے میدان سج گیا، جس کے مطابق جو جیتا وہی سلطان۔ ’سوچ بڑی رکھو اور زندگی اور دھندے میں سب کا بے دردی سے استعمال کرو‘ (2007)، جو کہ 2015 میں امازون کی ذاتی مالیات کے زمرے میں بیسٹ سیلر رہی لیکن جو خود میں گھٹتے ہوئے چھوٹے سے طبقۂ اشرافیہ کا حصۂ محفوظ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، ٹرمپ کا بھاڑے کا مصنف لکھتا ہے،

کامیاب ہونے کے لیے آپ کو باقی دنیا کے 98 فیصد سے الگ تھلگ بنانا ہو گا۔ ہاں، آپ چوٹی کے ان 2 فیصد خواص تک میں پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے صرف پھرتیلا ہونا، محنت کرنا، اور سمجھداری سے سرمایہ کاری کرنا کافی نہیں ہے۔ اس کا ایک کلیہ ہے، چوٹی کے وہ 2 فیصد جس کلیے کے تحت جیتے ہیں اور آپ بھی اس پر عمل کر سکتے ہیں۔

اگر دنیا کے باقی 98 فیصد وہ فارمولا استعمال کریں، کیا وہ کسی طرح آبادی کے باقی صرف 2 فیصد میں شامل ہو سکیں گے؟ ویسے بیوپاری مہاجنوں کے ہدایت نامے میں ایسا مسلمہ ریاضیاتی امر محال کیا کر رہا ہے؟

اپنی مدد آپ روایت کی دوسری کئی کتابوں کی طرح، سوچ بڑی رکھو ایک ہمہ گیر اثر کے وعدے اور جھانسہ دینے والی انفرادی ترغیب کا ایک امتزاج ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی – سمجھیے آپ ہی، تاکہ آپ کادل نہ ٹوٹے – ایک جیتنے والا بن سکتا ہے، لیکن کچھ لوگ – سمجھیے آپ ہی، تاکہ آپ اپنی یکتائیت کا مزا چکھ سکیں – اس طرح سے خاص ہوتے ہیں کہ دوسرے نہیں ہوتے۔ اپنی ذات اور دوسروں کے بارے میں یہ الجھن، کہ کس کی مدد ہو رہی ہے اور کون مدد کر رہا ہے، محض ٹرمپ کی نامنصفانہ کاوش سے مخصوص نہیں ہے۔ جیسا کہ کامیڈین جارج کارلین نے بڑی مناسب بات کی ہے، ” اگر آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، تو دوستو، یہ کوئی خود امدادی نہیں ہے۔ یہ امداد ہے۔“ سوچ بڑی رکھو کا مرکزی دعوی یہ ہے کہ آپ، یا کم از کم آپ جن کو ٹرمپ کی بزرگانہ مالیاتی تاکیدات کے ذریعے اٹھاوا ملنے والا ہے، غیر کامل ہیں۔ صرف زیر نظر مصنوعہ مال کی مدد سے ہی آپ اپنی مدد کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔

اوائل ساٹھ کی دہائی میں خود امدادی نے اپنی ڈھکی چھپی سی ایثار پسندانہ نوعیت کا قریب قریب اعتراف کیا، اور اسی زمانے میں اس پر عہدﹺ نو کے گُرووں نے قبضہ کر لیا، جنہوں نے مشترک خدشات کے حامل لوگوں کے لیے ”مشترکہ تھراپی گروہ“ (encounter    groups) متعارف کروائے تھے۔ اس صنف (self    help) کے ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں، جو بہت جلد نسوانی معارف(Feminine    Mystique) اور ہمارے جسم، ہماری مرضی (Our    Bodies,    Ourselves) جیسے کلاسیکی فیمینسٹ کاموں کی شکل میں سامنے آئے، نے ہر اس شخص کو پوری طرح مسحور کیا کہ انہیں عام معمول میں خود امدادی کتابیں سمجھا جاتا تھا۔ مدد کی پیشکش – یا اسے دوسروں کی مدد کہہ لیں – نے تنہا ذاتوں کو جوڑا، یگانگت کو فروغ دیا، ایسی خوبی جو آج کے ناشروں کے مارکیٹنگ کے شعبوں میں مطعون ہے۔

لیکن ستر کی دہائی کے اواخر اور اسّی کے اوائل میں، خود امدادی بڑی بے مروتی کے ساتھ اپنی انفرادیت پسندانہ جڑوں کی طرف پھر گئی – اور ہنوز غیر مستحق لوگوں کی ایک نئی منڈی تک رسائی کے لیے وسیع تر ہو گئی۔ امریکی عہد زریں (1870 تا 1900) کے فصیح و بلیغ ناشروں نے ہمیشہ روزی کمانے والوں اور متوقع گاہکوں کو تاڑ میں رکھا، کہنے سے مراد، مردوں کو۔ مزید یہ کہ ان کے مصنفوں نے مردانگی کو کامیابی کا مساوی قرار دیا۔ جیسا کہ ’کردار ہی سرمایہ ہے: امریکی عہد زریں میں کامیابی کے کتابچے اور مردانگی‘ میں جوڈی ہِکلے لکھتی ہیں، ”مردانہ پن، یا مردانگی یا سچی مردانگی کے تصور نے ایک نئے خطرناک صنعتی دور میں فتحیاب ہونے کے مسئلے کا حل پیش کیا۔ ایک لفظ ’مردانگی ‘ میں کامیابی پانے کے لیے درکار انفرادی خوبیوں، کردار اور قوت ارادی کو مجتمع کر دیا گیا۔ “

ستر کی دہائی میں ابھرنے والے تحکمانہ ادب نے دولت کی پجاری اسّی کی دہائی میں اس بات کی راہ ہموار کی کہ نوکری کی نامساعد جگہوں پر چار و ناچار اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے عورتوں پر بات کی جا سکے – لیکن اس سے مردانگی کو کامیابی کے ساتھ خلط ملط کرنے کی تباہ کن روایت ختم نہیں ہوئی۔ الٹا، اس سے عورتوں کو مزید شہ دی گئی کہ وہ مردوں جیسی بنیں۔ جین بائر کی کتاب ’ زندگی، محبت اور نوکری میں ایک تحکمانہ (نہ کہ جارحانہ) عورت کیسے بنیں‘ (1976) جیسی کتابوں میں دلیل دی گئی کہ ”عورتیں مردوں کے برابر اپنے بارے نہیں سوچتیں اس لیے وہ برابر عمل بھی نہیں کرتیں؛ نتیجے کے طور پر مرد، آجر، رشتہ دار، معاشرہ ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ نہیں کرتا۔ “ دوسرے لفظوں میں، عورتوں کو دبایا جانا مرد کی غلطی نہیں ہے، بلکہ یہ عورتوں کی غلطی ہے کہ وہ مردوں کے اشاروں پر چل کر اپنے آپ کو دباتی ہیں۔ اگر عورتیں بھی مردوں کی طرح برابری کا مطالبہ کرتیں، تو انہیں مل جاتی۔ کھانے کے بعد برتن مانجھو۔ ’جیتنے والے اور ہارنے والے‘ میں مشورہ دیا گیا ہے، ”اگر مرد طلاق کے کسی شعبے میں بہتر ہیں، تو وہ اس لیے کہ انہوں نے خود کو بہتر بنایا، اگر عورتیں ابتر ہیں، تو اس لیے کہ انہوں نے خود کو ابتر بنایا۔“ لو جی ٹھنڈ رکھو!

جبکہ ذاتیت کے بیان نامے اب پلٹا کھا چکے ہیں، یہ ٹھیٹ امریکی قضیہ بدستور قائم ہے کہ ذات اپنے معاملگی امور سے ماورا ہو سکتی ہے۔ کتاب ’ بلند درجہ مؤثر لوگوں کی سات عادات‘ ، جو کہ تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی خود امدادی کتابوں میں سے ہے، میں سٹیفن کووے نے زور دیا ہے کہ کامیابی ہمارا اپنا انتخاب ہوتی ہے۔ وہ ایک عورت کا ذکر کرتا ہے جو ایک اکھڑ اور ظالم آدمی کے پاس آیا کا کام کرتی تھی اور شروع میں سٹیفن کی باتوں کے بارے میں اسے شکوک تھے۔ ” چونکہ آپ کے پاس اتنا دل گردہ ہے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور کہیں کہ کوئی مجھے گزند نہیں پہنچا سکتا، کہ کوئی میری مرضی کے خلاف مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور یہ کہ آشفتہ حال رہنے والی جذباتی زندگی خود میرا اپنا انتخاب ہے – خوب، ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں ایسا مانتی،“ اس نے اعتراض کیا۔ ٹھنڈ رکھو، سٹیفن نے سوچا ہو گا۔ لیکن پھر اس عورت پر یہ بلند درجہ مؤثر الہام اترا:

میں اس بارے سوچتی رہی۔ میں سچ میں اپنے اندر جا کر خود سے پوچھنے لگی، ”کیا میرے پاس اپنا ردعمل چننے کا اختیار ہے؟“ جب مجھ پر بالآخر یہ کھل گیا کہ میں نے بدحال ہونا اپنے لیے خود چنا تھا، مجھ پر یہ بھی عیاں ہو گیا کہ میں اپنے لیے آشفتہ حال نہ رہنے کا انتخاب بھی کر سکتی تھی۔ اس لمحے میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے لگا جیسے میں ساں کوئنتین کے جیل سے باہر آ گئی ہوں۔ میرا جی چاہا کہ پوری دنیا کے آگے چلّاؤں، ”میں آزاد ہوں! میں قید خانے سے باہر آ گئی ہوں! میں اب کسی اور شخص کے سلوک کے قابو میں نہیں رہی۔“

لیکن کیا وہ تھی نہیں؟ کیا وہ اس شخص کے سلوک کے قابو میں نہیں تھی، ایسا شخص جو روزی روٹی کے لیے دوسروں کا خیال رکھتا ہے، جس نے اس کو یہ بتانے کی جسارت کی تھی کہ اسے اپنی مدد آپ کرنی چاہیے – کہ اصل مسئلہ اس اکھڑ اور ظالم آدمی کا برا سلوک نہیں تھا بلکہ اس کا اپنا رویہ تھا؟ اور کیا وہ ایسے شخص پر معاشی طور پر انحصار نہیں کر رہی تھی جو بلا شک و شبہ اس کی تحقیر کرتا رہتا تھا؟ اور کیا یوں اس کی اور بھی زیادہ تحقیر نہیں ہوئی، اب جبکہ اس کے اپنی تحقیر کیے جانے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے کہ جب کبھی وہ خود کو تھوڑا بہت ناخوش کرنے کے لیے اپنی تحقیر کی اجازت دیتی تھی؟   

شاید اس پورے ناچ گانے کا مقصد،  پسے ہوئے لوگوں کو یہ بات منوانا ہے کہ اپنے پسنے پر قصوروار وہ خود ہیں – بدسلوکی کا شکار خاتون آیاؤں (اور واقعتہً بیشتر آیائیں خواتین ہیں اور ان میں اکثر بدسلوکی کا شکار ہیں) کو خیالات کے تبادلے سے باز رکھنا ہے۔ یا شاید خود امدادی، نسوانی بے چینی کی ناگوار نمائش سے مردوں کا دامن بچانا چاہتی ہے۔ ”اکثر دبے ہوئے لوگوں سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ مسکرانا اور خوش نظر آنا چاہیے، “ فلسفی مارلن فرئے لکھتی ہے ”صرف ہشاش بشاش چہرہ بشرہ ہی ہمیں اس قابل بنا سکتا ہے کہ ہمیں کمینہ، کڑوا، غصیلا یا خطرناک مت سمجھا جائے۔ “ چاہے یہ اداس عورتوں یا ناراحت گزین مردوں کو دلاسا دینے کے لیے ہے، شادمانی کی صنعت، مصیبت اور آشفتگی کا کھلے عام اعتراف کرنے پر کلنک ملنے کی جانب بہت آگے تک نکل آئی ہے۔ اپنا خود حتیٰ کہ وہ بھی نہیں ہے خود امدادی جس کی مدد کر رہی ہے: یہ اپنے نام پر تبھی پورا اترتی ہے جبکہ یہ اس فریب پر بدستور قائم رہے کہ سماجی مسائل محض فرد کی سطح پر جاگزین ہوتے ہیں – صرف تبھی جب یہ پسے ہوؤں کو تنہا کرے، اور سماجی ڈھانچے سے نکال باہر کرے۔

تنہائی کی کوٹھڑی

تھراپی ہمیشہ خود امدادی میں ہی مسلسل امر نہیں ہوتا – اس میں سے کچھ کو، بہرحال سائنس کی سرپرستی بھی حاصل ہے، بہرحال ایک وقت تھا جب میں ایک ماہر نفسیات (تحلیل نفسی) کے پاس گئی جس نے مجھے ایک بیہوشی کے صوفے پر لٹا دیا اور میرے پیروں پر ایک نرم کمبل ڈال دیا – لیکن بسا اوقات یہ ایک جدا کن کردار بھی ادا کرتا ہے۔ تھراپی اور اپنی مدد آپ کے مختلف مشمولات اور بہت ہی مختلف کوائف ہو سکتے ہیں، لیکن یہ دونوں جلاوطنی کے منطقے ہیں، ایسی جگہیں جہاں ہم اُن لوگوں کو قرنطینہ میں بند کر دیتے ہیں جن کے شکووں کو ہم نظرانداز کرنے پر آمادہ ہیں اور ان کے حل میں ہچکچاتے ہیں۔

شاید خود کو عرصہ قائم و دائم رکھنے کی ضمانت کے طور پر، خود امدادی اور تھراپی دونوں نے ایسی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں کہ ناخوشی کی نمائش کو زندگی سے محفوظ فاصلے پر رکھا جا سکے۔ اپنا آپ خود سے ٹھیک کر پانے میں ناکامی عین وہی ناکامی ہے جس پر سٹیفن کووے اور اس انقلابی ذمہ داری کے دوسرے علمبرداروں نے روشنی ڈالی ہے۔ مقبول عام کتاب ’آئی ایم اوکے – یو آر اوکے‘ کے مصنف تھامس ہیرس کے ہاتھوں مقبولیت پانے والے شروع شروع کے خودامدادی کے رجحان پرستانہ چلن ”تفاعلی تحلیل “ (Transactional    Analysis)  میں یہی درج ہے کہ ”مریض ۔۔۔ اپنے ساتھ آئندہ ہونے والے سب کچھ کا ذمہ دار خود ہے، اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا تھا“، اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اسے کتنے ناقابل عبور معاملوں یا ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا رہا، کچھ سروکار نہیں کہ اسے کتنی شدت اور مذموم طریقے سے نشانۂ ستم بنایا گیا ہو۔ اگر طلاق کے قوانین عورت کے ساتھ غیر منصفانہ ہوں، اگر آپ کا آجر آپ کی میز کے نیچے سے آپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہو، خوب، سب آپ کی غلطی ہے۔ (ایک منصفانہ  نظریے میں یہ ہو گا کہ ایک آیا کا اکھڑ مالک اپنے رویے کا ذمہ دار خود ہو گا – پر مجھے لگتا ہے کہ کووے اور ہیرس کے نزدیک ہراسانی میں غلطی پوری طرح ہراساں کرنے والے کی تو ہے، لیکن کچھ یوں ہے کہ، یہ پوری طرح نشانہ بننے والے کی غلطی بھی ہے۔) دوسروں سے مدد مانگنا، وہ محض ہمت افزائی اور دلجوئی کی سادہ ترین شکل میں ہی کیوں نہ ہو، ایک طرح سے دوسروں پر انحصار کرنے کے مترادف ہے جس سے کمزوری، بہانہ سازی اور ناروا فراریت کی بو آتی ہے۔ تھامس اور کووے اس کا جو متبادل مسلط کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بک بک بند کریں اور ”کامیابی کی راہ چنیں۔“  

اگر تھراپی سے بات کچھ آگے نہ بڑھتی ہو، جونہی ہو پائے ہم دو ہاتھ آگے بڑھ کر ایک بڑی پُر کار سی توبہ گزاری کے عمل کی خوبی پیدا کرتے ہیں۔ ”میں اس کا تھراپسٹ نہیں ہوں،“ کوئی جاننے والا پھٹ پڑے گا، جس سے مراد یہ ہو گی کہ آشفتگی اور بے چینی کی ایک شائستہ مکالمے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ارشاد یہ ہے کہ تکلیف کا مقام تھراپی ہے، جسے سکون بخش مصوری فنپاروں سے فصیل بند اور مسطح دیواروں سے آواز بند کیا گیا ہوتا ہے۔ تھراپسٹ کا دفتر بالکل رسوماتی طور پر، پادری کے حجرے کی طرح مخفی اور پردے میں ہوتا ہے، مجوزہ اعمالِ توبہ البتہ دعائیں وظائف نہیں بلکہ خاموشی ہوتی ہے۔ یہ دوسرے ڈاکٹروں کے دفاتر کی صف میں ایک بااحترام سی عمارت کے اندر ڈھانپا اور گھات میں بنایا ہوا ہوتا ہے اگر آپ کا برآمدے یا ڈیوڑھی میں کسی سے آمنا سامنا ہو جائے، آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ دندان ساز یا قلبی معالج کے پاس جا رہے ہیں۔ آپ خود بھی کم و بیش یہی چاہتے ہوں گے کہ یونہی ہوتا۔ یہ بتانے میں نسبتاً کم خفت ہوتی کہ آپ دل کا بائی پاس یا روٹ کینال علاج کروانا چاہتے ہیں۔

 ناخوشی کبھی بھی کھلے عام نہیں ہوتی، کیونکہ اسے امراضیاتی شکل دے دی گئی ہے، کیونکہ الگ تھلگ ہونا باعث رسوائی ہے۔ مجھے جہاز کے اڑان بھرنے سے سخت خوف آتا ہے، اور جب جہاز کے نیچے سے زمین گرتی ہوئی لگتی ہے، میں آس پاس کے مسافروں کو دیکھتی ہوں، جو گتھیوں میں الجھے ہیڈ فونوں کو سنبھال رہے ہوتے ہیں یا کب کے سو چکے ہوتے ہیں۔ کوئی اور بدحواس معلوم نہیں ہو رہا ہوتا، سو مجھے اس سے یہ پتہ چلا کہ میرا اضطراب بلاجواز ہے۔ لیکن اس اصول کے دو پہلو ہیں۔ آپ ارد گرد دیکھیں اور کوئی بھی بے چین نہیں یا کھلے عام رو نہیں رہا، تو آپ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ کا دماغ چل گیا ہے۔ لیکن اگر آپ کا ردعمل معقول ہوتا، کیا باقی سب اسی طرح محسوس کرنے کا کوئی اشارہ دیتے؟

راز کی بات یہ ہے: وہ ایسا کرتے ہیں۔ در حقیقت ان میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو اصل میں کوئی دل کا بائی پاس یا روٹ کینال نہیں کروا رہے پھر بھی بند دروازوں کے پیچھے بیہوشی کے صوفوں پر پڑے، چھوٹے سے قالینوں پر پاؤں پسارے، سبھی آہیں کراہیں بھرتے ہوئے، سبھی اسی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے اور شاید انہیں محسوس ہونا بھی چاہیے۔ شاید ان کی ناراضگی کوئی کردار کا نقص یا کسی مرض کی علامت نہیں بلکہ ایک بگڑی ہوئی اور بے مہر دنیا کے آگے مناسب، عقلی اور انسانی ردعمل ہے۔ جیسا کہ آدرے لورد (Audre    Lorde) ’دی کینسر جرنلز‘ میں لکھتی ہیں،

سطحی روحانیت کی طرح، چیزوں کے روشن پہلو کو ہی دیکھنا ایک ایسی بھلی کہی بات ہے جو زندگی کی حقیقتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جن پر کھلے عام بات کرنا بدستوریت (status    quo) کے لیے خدشات یا خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔ فریب نظر کو مان لینا اور اسے حقیقت سمجھنا بھی ہمارے اپنی زندگیوں کی حقیقتوں کو پرکھنے سے انکار کی علامت ہے۔ آئیے ایک رہنے کے قابل زمین پر ایک سیانے ویانے مستقبل اور حقیقی کھانے اور صاف ہوا کی بجائے ”سرخوشی“ ڈھونڈیں! جیسے کہ محض خوشی ہی ہمیں منافع کے خبط کے نتائج سے بچا سکتی ہو۔

۔۔۔اس تباہ کن زمانے میں، جب کہ چھوٹی لڑکیوں کو ان کی ٹانگوں کے درمیان سے سی دیا جاتا ہے، جب کینسر کا شکار عورتوں کو مردوں کے آگے مزید پرکشش بننے کی غرض سے مزید کینسر کو دعوت دینے کی طرف دھکیلا جاتا ہے، جب بارہ سالہ سیاہ فام لڑکے کو یونہی راہ جاتے گلی میں ان وردی پوش آدمیوں کے ہاتھوں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، جو اپنی تمام بداعمالی سے بری الذمہ ہوں، جب بوڑھے اور معزز شہری کچرے کے ڈھیروں کو الٹ پلٹ کے کھانا ڈھونڈتے پھرتے ہوں، اور اس سب کا ابھرتا ہوا جواب میڈیائی سنسنی یا دماغی فص شگافی (lobotomy) ہو؛ جب ساحل بہ ساحل روزانہ عورتوں کو بیدردی سے قتل کیا جائے اور یہ  نیویارک ٹائمز میں ایک سرخی کی جگہ بھی نہ پا سکے، جب مزید بلین ڈالروں کے جہاز خریدنے کے لیے معذور بچوں کو پڑھانے کی گرانٹ میں کمی لائی جائے، جب امریکہ میں زندگی کا سامنا کرنے کی بجائے نو سو افراد اجتماعی خودکشی کر لیں، اور ہمیں یہ بتایا جائے کہ افراط زر کی روک تھام کرنا غریبوں کا کام ہے؛ کون بدخصلت بلا ہو گی جو کسی طرح ہر وقت خوش رہ سکے۔

لورد کو چھاتی کا کینسر تھا، اور وہ بجا طور پر لکھتی ہیں، اس کے پاس شکوہ کناں ہونے کے کئی جواز تھے: وہ گہری نسل پرستی کی زد میں آنے والوں میں سے تھیں؛ خود اپنے جسم کی زد میں آئی ہوئی تھیں، جو کہ بہت ہی برا رہا؛ ایک گمراہ عقیدے جو یہودیوں مسیحیوں میں رائج رہا، کی زد میں آنے والی، کہ بیماری کسی بدعملی یا گناہ کا ثبوت ہے؛ اور بلاشبہ طبی مسلّمات کے اس تکلیف دہ میلان کی بلاشبہ بھینٹ چڑھی ہوئی کہ عورت کی تکلیف کے اظہارات نرا مبالغہ ہوتے ہیں، ان پر کان نہ دھرا جائے۔ (ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں معدے کی درد کی شکایت کے ساتھ آنے والے مردوں کو درد کش دوا پانے کے لیے اوسطاً اُنچاس منٹ تک انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ عورتیں اوسطاً پینسٹھ منٹ تک انتظار کرتی ہیں۔) یہ صرف تھراپی اور خودامدادی ہی نہیں جن میں عورتوں کو دوسری عورتوں سے الگ کیا جاتا ہے: تمام امتیاززدہ گروہوں، وہ سبھی جن پر پاگل ہونے کا ٹھپہ لگایا جاتا ہے (”ناراض“ سیاہ فام عورتیں، ”بددماغ“ یہودی)، کو بھی الگ کیا جاتا ہے تاکہ وہ مل بیٹھ کر دکھڑے نہ بانٹ سکیں۔

میں ٹھیک نہیں ہوں – آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی دن ہم سبھی اجتماعی طور پر ٹھیک نہ رہیں۔

 آشفتگی ڈھارس بندھانا مانگتی ہے

ہم اس بات کو ایک اور طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ”خود“ کا تعلق خود امدادی سے کیوں بنتا ہے۔ خود امدادی، ہمارے خود کے متعلق ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسروں کو منہا کرتی ہے –کیونکہ یہ دخل اندازی اور دلجوئی کی بھرپور حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ خود امدادی اپنے آپ کے لیے ہے کیونکہ دینے والا ہاتھ خودغرض ہوتا ہے (جوکہ، دینے والا ہاتھ ہوتا ہی نہیں) اور لینے والا ہاتھ تنہا ہوتا ہے (جو کہ، لینے والا ہاتھ ہوتا ہی نہیں)۔ یہ دیکھنا کچھ مشکل نہیں کہ نسوانی ناخوشی پر لگنے والا ننگ و عار ابتدائی ناخوشی کو بڑھاوا دیتا ہے، جو کہ پھر بھی برداشت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ تو برا تھا ہی کہ آسمان میں بل کھاتے جہاز میں بیٹھ کے ڈرا جائے، یا پہاڑ سے اترتے ہوئے ڈرنا بھی برا تھا، لیکن یہ اور بھی برا ہوا جب مردوں نے مجھے بتایا کہ میں اپنی بے چینی کو نکال پھینکوں۔ یوں میں صرف بے چین رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی بے چینی کے بارے میں بھی بے چین ہو گئی۔ اس طرح میری ناخوشی صرف ناخوشگوار نہیں تھی بلکہ ناگفتنی بھی ہو گئی، اور جب کبھی میں نے اس کا کڑوا گھونٹ بھرنا چاہا، مجھے اس پر گلے کو گھونٹنا پڑا۔

مجھے خوشی پر کوئی اعتراض نہیں، حتیٰ کہ اس بات پر بھی کہ خوشی کس مول پڑتی ہے، لیکن مجھے خوشی کے ساتھ شہوانی قسم کا خبط ہضم نہیں ہوتا: جس طور سے اسے ”پگلی و آشفتہ حال“ عورتوں اور غیر سفید فام ”ناراض“ لوگوں کے سر منڈھا جاتا ہے، جس طور سے اسے عدم تسلی کے جذبے سے کہی گئی کسی بات پر سے سر جھٹکنے کے لیے برتا جاتا ہے۔ خوشی ایک ایسا قانون ہے جسے سختی سے نافذ کیا جاتا ہے، اور قطعی بدمعاشانہ مسرت سے کوئی بھی انحراف ایک شرمندگی بھرا راز رہنا چاہیے۔

ذرا نسائیت کے کلاسیکی ادب کو ذہن میں لائیے: مسز راچسٹر چھوٹے کمرے میں گل سڑ گئی، اور ”پیلا وال پیپر“ کی راوی کے پاس اپنے شکوک کی تصدیق کے لیے فرنیچر کے سوا کوئی نہ تھا۔ اس کا کمرۂ بیماری اس قدر بے ہوا تھا کہ وہ اس میں پڑے بے جان ساز و سامان کو ادھر ادھر حرکت دے کر اس سے سنگت کر لیتی تھی۔ عورت کا زندان، یوں ظاہر ہوتا ہے کہ، تنہائی ہے۔ اگر ہم نے اسے چھوٹے کمرے سے باہر یا ماہر تحلیل نفسی کے صوفے سے پرے جانے دیا، تو ہمیں کسی اجتماعی سوچ میں پڑنے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لوگ یہ سوچنا شروع کر سکتے ہیں کہ ان کی کچھ مشکلات مشترک ہیں۔ اور اگر انہوں نے اپنی جدوجہد کی سانجھ کا نشان پا لیا – اگر انہوں نے صرف ”میں“ نہیں بلکہ ”میں بھی“ کہنا شروع کر دیا – وہ اس بات سے بھی آگاہ ہونے لگ سکتے ہیں کہ انہیں جن مسائل کا سامنا تھا وہ شخصی نہیں تھے۔

نسوانی ناخوشی کی زیرک وقائع نگار، لیڈیہ ڈیوس،  آشفتہ  حالی کو اس کی جکڑبندی سے آزادی دلاتی ہیں۔ ایک افسانہ ”منفی جذبات“ (Negative    Emotions) ایسا برمحل ہے کہ اسے پورے کا پورا نقل کیا جانا چاہیے، وہ عوامی، گروہی انتقام کی ایک موج خیال میں بہہ جاتی ہے۔ ایک دن، ”ایک نیک نیت استاد“ سکول میں اس کے ہمکاروں کو ایک بدھ فقیر کا قول بھیجتا ہے:

جذبہ، کہا فقیر نے، ایک طوفان کے جیسا ہوتا ہے: یہ کچھ دیر مچا رہتا ہے پھر چلا جاتا ہے۔ جذبے کا ادراک ہو جانے پر (ایک آتے ہوئے طوفان کی طرح)، خود کو ایک مستحکم حالت پر کر لیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے دل گردے کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ ہمیں خاص طور پر ناف کے نیچے کے علاقوں پر دھیان رکھنا چاہیے، اور ہوش مندی کے سانس جینے چاہئیں۔ اگر جذبے کو جذبے کے طور پر ہی شناخت کیا جائے، اس کو سنبھالنا آسان تر ہوتا ہے۔

دوسرے استادوں کو ناگوار گزرا۔ انہوں نے ” سوچا کہ انہیں منفی جذبات کا حامل سمجھا جا رہا ہے اور ان جذبات کو سنبھالنے کی نصیحت کی جا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ تو کافی ناراض بھی ہوئے، “ اور وہ حق بجانب بھی تھے۔ آخر میں، انہوں نے بدھ فقیر کی نصیحت کے الٹ کرنے کی ٹھانی:

استادوں نے اپنے غصے کو ایک آتا ہوا طوفان نہ سمجھنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے دل گردے پر دھیان نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے زیر ناف علاقوں پر دھیان نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے الٹا جواب میں یہ لکھ بھیجا کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ انہیں یہ پیغام کیوں بھیجا گیا، اس کے پیغام نے انہیں منفی جذبات سے بھر دیا ہے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ اس پیغام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات سے نمٹنے کے لیے انہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ اپنے منفی جذبات سے پریشان ہوئے بغیر، انہوں نے کہا، انہوں نے اس کے اور اس کے پیغام کے بارے میں منفی جذبات قائم کر لیے ہیں۔

2010 میں چھپنے والی کتاب ’مسرت کے فضائل‘ (Promise    of    Happiness) میں، فلسفی سارہ احمد لکھتی ہیں کہ ” مسرت سماجی مسلمات کی بطور سماجی نیکی تاویل نو کا نام ہے۔ “ فیمینزم نے اس لیے ”مسرت کی خاطر جدوجہد کی بجائے اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ “ دوسرے لفظوں میں، نسوانی کرب کا نظارہ الہامی ہو سکتا ہے۔ مجھے یہ بڑا پرکیف لگتا ہے، کیونکہ میں ایک ناخوش عورت ہوں: ایسی عورت جس کی آشفتگی کے بارے کچھ جھلائے ہوئے ہم سخن فرماتے ہیں کہ یہ اپنی رضا کے تحت ہے۔ میرے ساتھ ویسا معاملہ رہا ہے جسے اکثر ” پریشان رہنا “ کہتے ہیں۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ میں نے کھلے عام ایسی جگہ آنسو بہائے ہیں جہاں یہ مناسب نہیں تھا۔ مجھے خود کو سونے کے کمرے سے اٹھا کر غسلخانے تک لانے یا اس ریفریجریٹر کے سامنے آنے میں مشکل پیش آتی رہی ہے جس میں پڑی قلیل سی چیزوں کا مجھے پتہ تھا کہ سڑ رہی ہیں۔ اور کسی دن کامرانی کے کسی ثبوت یا دکھاوے کے بغیر جیے جانے کے سادہ عمل سے ایک تازہ خراش زدہ گھٹنے کی طرح ٹیس اٹھتی رہی ہے۔

1937 میں رومانیائی فلسفی ایمل سیوران نے ” اشتہائے مصیبت “ کو بیان کیا، ایک ایسا آفاقی طور پر نمایاں، اہم  اور جگ حاضر مظہر کہ پچاس سال پہلے برازیل کے ناول نگار ماچادو دی آسیس نے ”اشتہائے آشفتگی“ کی مدح و ثنا لکھ دی۔ (”اس جملے (اشتہائے آشفتگی) کو رٹ لیں“ وہ تاکید کرتا ہے، ”اگر آپ اس کو نہیں سمجھ پائے، آپ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ آدمی جن لطیف ترین جذبات کا اہل ہے، ان میں سے ایک آپ سے چھوٹ رہا ہے۔“) ہو سکتا ہے یہ اپنی مرضی سے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس سب کچھ کی کج روی کے بارے کچھ نہ کچھ بہت ہی وجد آور ہو۔

آپ کو پتہ ہے جو شے زیادہ شفا بخش ہے – چھت کو تاکتے ہوئے بے دھڑک ”آزادانہ“ ربط بنانے کی تان گھڑنے سے بھی زیادہ شفا بخش، ایسی کتاب پڑھنے سے بھی زیادہ شفا بخش جو اس مفاد کے تحت آپ کی غیرموزونیت ثابت کرے تاکہ آپ اسی کتاب کے ناشر کا مجوزہ ساز و سامان اور سلسلہ وار اشاعتیں خریدیں؟ اس جگہ جا کے چیخنا جہاں لوگ آپ کو سن سکیں۔ ریل  گاڑی میں رونا۔ مل جل کے بوئی گئی آزردگی کا مزہ چکھنا۔ اپنے اس شبے پر نظر ڈالنا کہ آپ ایک خود ترسی کی مصدقہ خبطی نہیں ہیں۔

سو برتنوں کو پھوڑ ڈالو۔ گیندوں کا ذخیرہ اجاڑ دو۔ مراقبے کو چھوڑو۔ جتنا اکثر ہو سکے انکار کرو۔ جڑی بوٹی مار دوا کو پھولوں پر انڈیلو۔ اور سب سے بڑھ کر، اطمینان والی ٹھنڈ مت رکھو۔ اپنے غصے اور تنفر کو ابال کھانے دو تاوقتیکہ تم دوسرے کئی مٹکتے ہوئے کیڑوں کی طرح مثبتیت کے علم برداروں کو زندہ پکا دو۔  اور جب تم اپنےغصے کو تڑکا لگا رہی ہو، جب وہ ایسی مثبت خودکلامی میں لگے ہوں جس کا کوئی یقینی فائدہ نہیں ہے، جب تم ان کے ٹینٹووں پر خنجر جھکائے ہوئے ہو، ان سے پوچھو کہ کیا وہ خوش ہیں۔ پھر مؤثر ترین لوگوں کی حیرانی دیکھنا کہ کامیابی کو چننا ان کے لیے ایک دم کتنا مشکل ہو گیا ہے۔

بیکا روتھ‌فیلڈ، ہارورڈ میں فلسفے میں پی‌ ایچ‌ ڈی کی امیدوار ہیں۔ 

ماخذ: The Baffler

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search