اگر فردوس۔۔۔۔ : ایٹگر کیرٹ (مترجم: محمد ابراہیم)
جب میں ساتویں جماعت میں پہنچا تو سکول والوں نے ایک ماہر نفسیات کو بلا کر ہم سب بچوں کے طبعی میلانات کی جانچ کروائی۔ اس نے مجھے ایک ایک کر کے بیس تصویریں دکھائیں اور پوچھا کہ ان میں کیا مسئلہ ہے؟ اب مجھے تو سب ٹھیک ہی لگ رہی تھیں مگر وہ مان کر نہ دیا اور مجھے سب سے پہلی تصویر، جس میں ایک بچہ تھا، دکھا کر تھکاوٹ سے چور آواز میں بولا ’یہ! یہ تصویر۔ اس میں کیا مسئلہ ہے؟ ‘ ۔ میں نے پھر کہا کہ تصویر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس پر وہ تپ گیا ’ کان نہیں ہیں نا اس بچے کے، نظر نہیں آتا تمہیں؟ ‘ ۔ اب کے جو میں نے تصویر دیکھی تو سچ میں اس بچے کے کان نہیں تھے۔ مجھے تو پھر بھی تصویر ٹھیک ہی لگ رہی تھی مگر ماہر نفسیات صاحب نے مجھے ’ ضعفِ مشاہدہ سے متاثر ‘ بچوں کے زمرے میں ڈال کر چوب کاری سیکھنے کے لیے ایک اسکول بھجوا دیا۔ وہاں پہنچتے ہی پتہ چلا کہ مجھے برادے سے الرجی ہے، لہذا مجھے ڈھلائی کی جماعت میں منتقل کر دیا گیا۔ کام میں ٹھیک ٹھاک سیکھ گیا تھا مگر اس میں میرا جی کچھ لگا نہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میرا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا تھا۔ سکھلائی ختم کرنے کے بعد میں نے ایک پائپ بنانے کے کارخانے میں نوکری شروع کر دی۔ وہاں میرا افسر ایک انجینئر تھا جس نے بڑی معتبر یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہوئی تھی ۔ وہ بڑا ذہین آدمی تھا ۔ اگر اسے کسی نکٹے یا کن کٹے بچے کی تصویر دکھائی گئی ہوتی تو وہ چٹکیوں میں مسئلہ پکڑ لیتا۔
چھٹی کے بعد میں کارخانے میں رہ جاتا اور اپنے لیے ٹیڑھے میڑھے ، بل دار پائپ ( جیسے سانپ کنڈلی مارے بیٹھے ہوں) ڈھالتا اور ان میں کنچے لڑھکاتا رہتا۔ مجھے پتہ ہے کہ سننے میں یہ کافی فضول کام لگ رہا ہے اور مجھے اس میں کچھ ایسا مزہ بھی نہیں آتا تھا مگر میں پھر بھی لگا رہتا۔ایک رات میں نے ایک خاصا پیچیدہ سا پائپ ڈھالا، جس میں بہت زیادہ بل تھے اور جب میں نے اس میں کنچا لڑھکایا تو وہ دوسرے سرے سے باہر نہیں نکلا ۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ بیچ میں ہی کہیں اٹک گیا ہوگا مگر جب میں نے بیس سے زیادہ کنچے لڑھکا دیکھے اور ایک بھی باہر نہ آیا تب جا کر مجھے سمجھ آئی کہ کنچے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ میری ہر بات ہی احمقانہ لگتی ہے ۔مطلب ، سبھی جانتے ہیں کہ کنچے آپ ہی آپ غائب نہیں ہو جایا کرتے۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرے سے داخل تو ہو رہے ہیں مگر دوسرے سے نکل نہیں رہے تو مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی بلکہ بالکل عام سی بات لگی۔ تبھی میں نے ٹھان لی تھی کہ اسی شکل کا ایک بڑا سا پائپ ڈھالوں گا اور اس کے اندر تب تک رینگتا رہوں گا جب تک میں بھی غائب نہ ہو جاؤں۔ یہ خیال آتے ہی میں مارے خوشی کے زور زور سے ہنسنے لگا۔ مجھے لگتا ہے کہ تب میں عمر بھر میں پہلی بار ہنسا تھا۔
اس دن سے میں وہ بڑا پائپ بنانے میں جت گیا۔ ہر شام نہیں یہی کام کرتا اور صبح ہوتے ہی اپنے اوزار اور سارے پرزے گودام میں چھپا دیتا۔ بیس دن لگے اسے تیار کرنے میں۔ آخری رات پائپ جوڑنے میں پانچ گھنٹے لگے۔ اس نے دکان کا تقریباً آدھا فرش گھیر رکھا تھا۔
تیار پائپ کو اپنا منتظر دیکھ کر مجھے اپنے معاشرتی علوم کے استاد بہت یاد آئے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ لاٹھی استعمال کرنے والا پہلا انسان نہ تو اپنے قبیلے کا سب سے طاقتور انسان تھا نہ ہی سب سے عقلمند۔ بات اتنی سی تھی کہ دوسروں کو لاٹھی کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اسے تھی۔ اس کی طلب کسی بھی اور آدمی سے زیادہ تھی کیونکہ اس کا مقصد زندہ رہنا اور اپنی کمزوری کا ازالہ کرنا تھا۔ اسی طرح پوری دنیا میں شاید ہی کوئی اور انسان ہو جو غائب ہو جانے کا مجھ سے زیادہ خواہش مند ہو۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پائپ میں ہی ایجاد کر پایا تھا۔ یہ کام میں ہی کر سکتا تھا، میں ، نہ کہ فیکٹری چلانے والا، اعلیٰ ڈگری کا مالک ذہین انجنیئر۔
میں نے پائپ کے اندر رینگنا شروع کیا تو مجھے کوئی اندازہ نہ تھا کہ اس کے دوسرے سرے پر کیا ہوگا۔ کیا پتا وہاں کن کٹے بچے ہوں جو کنچوں کے ڈھیر پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوں۔ شاید۔ خیر اب تو مجھے ٹھیک معلوم بھی نہیں کہ اس پائپ کا ایک خاص موڑ مڑنے کے بعد کیا ہوا تھا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ اب میں یہاں ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ میں ایک فرشتہ بن گیا ہوں۔ مطلب میرے پنکھ بھی ہیں اور سر کے گرد روشنی کا ہالہ سا بھی ہے۔ یہاں مجھ جیسے سینکڑوں ہیں۔ جب میں یہاں پہنچا تو وہ انہی کنچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جو میں نے چند ہفتے پہلے پائپ میں لڑھکائے تھے۔
میں ہمیشہ سے سوچتا تھا کہ جنت وہ لوگ جاتے ہیں جنہوں نے پوری زندگی نیکی سے گزاری ہو، مگر ایسا ہے نہیں۔ خدا مہربان اور شفیق ہے، وہ ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
جنت تو بس ان لوگوں کی جگہ ہے جو دنیا میں کسی صورت خوش نہیں رہ سکتے تھے ۔ یہاں مجھے بتایا گیا کہ جو لوگ خودکشی کر لیتے ہیں انہیں زندگی لوٹا دی جاتی ہے تاکہ وہ نئے سرے سے جی سکیں۔ ضروری تو نہیں کہ جس کی پہلی باری بری گزری ہو اسے دوسری مرتبہ بھی کوئی ٹھکانا نہ ملے۔۔ مگر مجھ جیسے لوگ جن کی دنیا میں کہیں جگہ نہ بنتی ہو وہ ادھر پہنچ جاتے ہیں ۔ ہر ایک کا یہاں پہنچنے کا اپنا الگ رستہ ہوتا ہے۔
یہاں ہواباز ہیں، جو برمودا تکون کے اوپر ایک خاص نقطے کا طواف کرتے کرتے یہاں آ پہنچے۔ گرہستنیں ہیں جنہوں نے ایک دن رسوئی کی الماری کھولی اور یہاں آ نکلیں۔ یہاں ریاضی دان ہیں جنہوں نے خلا میں مقامیاتی سقم ڈھونڈے اور ان میں سے بھنچ بھنچ کر یہاں پہنچے ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہاں نیچے آپ بہت اداس ہیں اور سب لوگ آپ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ ضعفِ مشاہدہ کا شکار ہیں تو یہاں آنے کا اپنا رستہ کھوجیے۔ رستہ مل جائے تو براہِ مہربانی تاش کے پتے ساتھ لیتے آئیے گا کیونکہ ہم سب یہاں کنچے کھیل کھیل کر اوب گئے ہیں۔
ماخذ: MaterialTextual