استاذ الاساتذہ، میاں شوکت حسین خاں ۔ علی عدنان (مترجم: کبیر علی)
(علی عدنان معروف ماہرِ موسیقی ہیں اور ان کا شمار پاکستان میں موسیقی پہ لکھنے والے ان کم یاب لوگوں میں ہوتا ہے جو موسیقی کے اسرار ورموز سے علمی اور عملی دونوں نوعیت کی گہری شناسائی رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے اردو میں موسیقی پر اس طرح کے مضامین آج کل پڑھنے کو نہیں ملتے۔ لہذا علی عدنان صاحب کے اس انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ان کے شکریے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون پاکستان کے معروف ہفتہ وار جریدے “فرائیڈے ٹائمز” سے لیا گیا ہے۔ مترجم: کبیر علی)
استاد شوکت حسین کی چال شاہانہ، وضع شاندار اور چھب جادوئی تھی۔ ان کی شخصیت کا ہالہ چھا جانے والا تھا۔ تاہم وہ معروف معنوں میں وجیہ نہ تھے۔ مختصر قد، رنگ گہرا سانولا اور نقوش کھردرے تھے مگر ان سے ملنے والے لوگوں نے ہمیشہ ان کے اندر ایک پُروقار کشش محسوس کی۔ اپنی بارعب موجودگی سے وہ سٹیج پر ایک شاہانہ انداز کے ساتھ دکھائی دیتے اور ان کی مقناطیسی قوت دلوں کو حرارت بخشتی اور انھیں تسخیر کر لیتی۔ جب میں نے انھیں پہلی بار سٹیج پر دیکھا تو وہ “پنج تال کی سواری” کا سولو آئٹم پیش کر رہے تھے جو پندرہ ماترے کا تال ہے۔ میں ان سے پھوٹنے والی دمک کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بھرپور شان اور اعتماد کے ساتھ ایک شانت انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب انھوں نے طبلہ بجانا شروع کیا تو ان کی شخصیت کا رعب بڑھتا ہوا محسوس ہوا اور جیسے جیسے ان کامظاہرہ ِفن آگے بڑھا، ویسے ویسے ان کے شکوہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ جتنا زیادہ بجاتے گئے اتنا ہی وہ شاندار ہوتے گئے حتیٰ کہ ایک ایسا وقت آیا کہ جب انھوں نے گت پرن (پکھاوج سے ماخوذ ٹکڑے) کا سولو حصہ پیش کیا تو یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے شہنشاہِ طبلہ سٹیج پر پندرہ ماترے کا تال بجا رہے ہوں۔ استاد شوکت حسین مجھے اسی انداز میں یاد آتے ہیں۔ بلاشبہ وہ “شہنشاہ ِ طبلہ “تھے۔
میری خوش قسمتی تھی کہ 1984ء سے 1989ء تک کے پانچ برسوں میں مجھے شوکت صاحب کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اسی دوران میں انھوں نے مال روڈ لاہور پر الحمرا آرٹ سنٹر میں طبلہ کی تعلیم دینا بھی شروع کر دی تھی۔ ان کے بھائی، بھلے مانس اور گرم جوش استاد جان الحسن، ان کے تدریسی کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مجھے ان دنوں گاڑی چلانا نہیں آتی تھی اور نہ ہی میرے پاس کار تھی لیکن میں ہمیشہ بس،ٹیکسی ، رکشہ ، ویگن اور موٹرسائیکل کے ذریعے باغبان پورہ میں واقع اپنی یونیورسٹی سے الحمرا پہنچ جایا کرتا تھا۔ لاہور کی گرمی، ناگفتہ بہ عوامی ٹرانسپورٹ کی بے آرامی،تعلیم کے مسائل، بے شمار سماجی ذمہ داریاں،پنجابی لڑکے کے ضروری رومانوی رشتے؛ ان میں سے کوئی بھی چیز مجھے شوکت صاحب کو دیکھنے سے کبھی دور نہ رکھ سکتی تھی۔ میرا نہیں خیال کہ اس عرصے میں شوکت صاحب کا ایک بھی مظاہرہ ِفن مجھ سے چھوٹا ہو گا۔ اور یہ کام ان درست کاموں میں سے سرِ فہرست ہے جو میں نے اپنی زندگی میں سرانجام دیے۔
میں نے سب سے پہلے شوکت صاحب کو لاہور ریڈیو اسٹیشن پر دیکھا تھا۔ میں وہاں ایم۔اے شیخ (ایک نہایت عمدہ انسان) اور سعید قریشی ( بہت اچھے تو نہیں تاہم وہ اپنےدفتر کے ذخیرے سے مجھے اس قیمت پر موسیقی کی چیزیں بیچنے پر تیار رہتے جو ان دنوں میرے لیے کافی زیادہ ہوتی تھی) سے ملنے کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل میں پہنچا تھا۔ شوکت صاحب ایک ہلکے پیلے رنگ کی بوسکی کا ریشمی کرتا ، سفید لٹھے کی شلوار اور چمکتے ہوئے بھورے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ان کا مخصوص لباس ہے البتہ وہ بعض اوقات نکٹائی کے ساتھ سوٹ پہننا بھی پسند کرتے ہیں۔ وہ آہستگی کے ساتھ ایک پُر اعتما د چال چل رہے تھے جو بہ یک وقت پُر سکون اور قوت بخش تھی۔ میں نے ان سے پوچھا” آپ استاد شوکت حسین خان ہیں؟”، انھوں نے جواب دیا “جی خادم کو شوکت کہتے ہیں۔ کہیے بیٹا! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟”۔ انھوں نے مجھے “بیٹا” کہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد ہونے والی گفتگو میں میں نے کیا کہا البتہ اتنا یاد ہے کہ میں کوئی برمحل اور مربوط بات نہ کہہ سکا تھا۔ جلد ہی ہم کینٹین پہنچے جہاں انھوں نے چائے کا آرڈر دیا۔ اس وقت میری جیب میں سو روپے کا نوٹ تھا ( جو میں اس لیے ساتھ لایا تھا کہ روشن آراء بیگم کے شدھ سارنگ اور بھیم پلاسی کی ریکارڈنگز کے لیے سعید قریشی کو ادھوری ادائیگی کر سکوں)، میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس پر اپنے دستخط فرما دیں۔ انھوں نے کہا” بیٹا! کیوں نوٹ ضائع کرتے ہو” پھر انھوں نے اپنی پسندیدہ گولڈ لیف سگریٹ کی ڈبیا سے کاغذ کا ایک پنا نکالا اور اس پر مجھے دستخط کر کے عنایت کیے۔ انھوں نے چائے کی ادائیگی کے لیے اصرار کیا کہ یہی ان کا انداز تھا۔ وہ ہروقت مناسب وضع اختیار کیے رہتے اور کسی سے بلاوجہ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرتے۔ میں نے اہلِ موسیقی میں زندگی گزاری ہے اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ ان کی اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا خرچہ اٹھانے کے لیے کوئی طالب علم، مداح، گورنمنٹ ، جاگیردار یا کوئی اور شخص موجود ہو۔ مگر ہمارے شوکت صاحب ایسے نہ تھے۔ جب بھی ان سے ممکن ہوتا ، اور اکثر ناممکن بھی ہوتا، وہ بل ادا کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا پسندیدہ ریستوراں لکشمی چوک لاہور میں واقع “طباق” تھا۔ ان دنوں وہاں سے ایک کھانے کی قیمت سو روپے سے کچھ زیادہ پڑتی۔ میں 1986 ء میں ایک اخبار اور بعض رسالوں میں لکھنے لگا تھا اور وقتاً فوقتاً شوکت صاحب کو کھانے کے لیے لے جا سکتا تھا۔ تاہم انھیں اس بات پہ آمادہ کرنے کے لیے ہمیشہ جھگڑا ہوتا کہ ان کے کھانے کے پیسے میں ادا کروں گا۔ انھیں اپنے ساتھ “طباق” لے جانے کے لیے مجھے باقاعدہ زور آزمائی کرنی پڑتی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی خورد بالخصوص کوئی شاگرد اُن پہ رقم خرچ کرے۔ درحقیقت ہوتا کچھ یوں تھا کہ میں جب بھی انھیں طباق پہ کھانا کھلانے پر اصرار کرتا تو وہ متبادل تجاویز پیش کرنے لگتے جن میں وہ چھولے والا بھی شامل ہوتا تھا جو ریڈیو پاکستان کے باہر ایک ریڑھی پر بقول ان کے نہایت لذیذ چھولے فروخت کرتا تھا۔ جب ہم کسی طرح سے طباق پہنچ ہی جاتے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کم از کم اپنے حصے کا بل تو ادا کر ہی دیں۔
شوکت صاحب اس بات سے واقف تھے کہ میں طبلہ کیوں سیکھنا چاہتا ہوں یعنی میں صرف لے اور تال کو سمجھنا چاہتا تھا اور لازمی طور پہ ایک باقاعدہ فنکار بننا میرا مسئلہ نہ تھا۔ انھوں نے میرے لیے خاص طور پر اپنے سکھانے کا طریقہ تبدیل کیا۔ وہ میرے ساتھ اکثر طبلے کی تاریخ، گھرانوں، اپنے پسندیدہ مثالی فنکاروں، اپنے تجربات اور درست سنگت کے متعلق اپنے خیالات کے حوالے سے گفتگو کرتے تھے جبکہ ان کے دیگر شاگرد نسبتا زیادہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے۔ جب انھیں کسی شاگرد کے متعلق یہ اطمینان ہو جاتا کہ اس کا ہاتھ طبلہ پہ ٹھیک بیٹھ گیا ہے تو وہ اسے قاعدوں کی تعلیم کے لیے جان صاحب کے سپرد کر دیتے یا اگر شاگر د زیادہ ہی ہونہار ہوتا تو اسے اپنے پسندیدہ شاگرد تاری خان کو سونپ دیتے۔
شوکت صاحب اپنے آپ میں رہنے والے آدمی تھے۔ وہ زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک شرمیلے آدمی تھے اور ان کے زیادہ دوست بھی نہیں تھے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ فطری طور پہ پُرسکون آدمی ہیں اور انھیں کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف تاری خان کے ساتھ ان کا رشتہ ایسا تھا کہ جسے میں دوستی کے زمرے میں شمار کروں گا۔ وہ تاری خان سے اپنے بیٹے اور دوست کی طرح سے محبت کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کبھی اس بات کا اظہار تو نہیں کرتے تھے مگر وہ ہر روز لاہور ریڈیو اسٹیشن پر تاری خان کی آمد کا انتظارکیا کرتے۔ پابندیٔ وقت کبھی بھی تاری خان کا شیوہ نہیں رہی۔ مجھے ایسے کئی واقعات یاد ہیں جب تاری خان کو بہت زیادہ دیر ہو گئی تو شوکت صاحب اس کے انتظار میں واضح طور پہ بے تاب ہو گئے۔ جیسے ہی وہ اپنے منظورِ نظر شاگرد کو دیکھتے تو اپنی مخصوص پُرسکون وضع میں لوٹ آتے۔ میری معلومات کی حد تک تاری خان وہ واحد آدمی تھا جس کی رفاقت سے شوکت صاحب لطف اندوز ہوتے۔
جب غلام علی ایک شکایت کے لیے شوکت صاحب کے ہاں پہنچے:
جب تاری خان مشہور ہوا تو وہ بتدریج غیرپیشہ ورانہ ہوتا گیا اور جنون کی حد تک دوسرے طبلہ نوازوں کے متعلق مالیخولیا کا شکار ہو گیا۔ وہ محافل پہ دیر سے پہنچنے لگا اور جہاں اسے شک پڑتا کہ ادھر حریف طبلہ نواز اور ان کے چیلے موجود ہیں تو وہ بجانے سے انکار کر دیتا۔ شوکت صاحب ہمیشہ اپنے شاگرد کی حمایت کرتے اور اس کے ناقابلِ فہم رویے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے۔ جب غلام علی اور تاری خان میں چپقلش پیدا ہوئی تو غزل گائیک غلام علی، تاری کے رویے کی شکایت کرنے شوکت صاحب کے گھر آئے۔ شوکت صاحب خوش نہ ہوئے جب غلام علی نے انھیں بتایا کہ تاری خاں ان کی پیٹھ پیچھے ان کی شکایتیں کرتا پھرتا ہے اور جب وہ غزل اور گیت گاتے ہیں تو اسٹیج پر غیر ضروری طور پہ طبلے کے طویل ٹکڑے بجا کر ان پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ شوکت صاحب کو معلوم تھا کہ شکایت درست تھی مگر وہ پھر بھی تاری خان کا دفاع کرتے رہے۔ ان کا جواب یہ تھا۔ ” بچہ ہے ابھی۔ جوان ہے اس لیے ذرا شوخا ہو رہا ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔ آپ اُس سے دل خراب نہ کریں۔ میں سمجھاؤں گا اس کو۔” شوکت صاحب نے اپنی بات کو پورا کرتے ہوئے اگلے ہی روز تاری سے اس سلسلے میں بات کی۔ بدقسمتی سے تاری خان نے شوکت صاحب کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ بعد میں غلام علی اور تاری خان کی یہ عظیم جوڑی ٹوٹ گئی اور ان دونوں نے پھر کبھی اکٹھے سنگت نہیں کی۔
میں ذاتی سطح پر شوکت صاحب کے قریب ہونے میں کبھی کامیاب نہ ہوا۔ یہ تو لگتا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں مگر ایک خاص طرح کی دوری اور کئی طرح کی رکاوٹیں تھیں جنھیں میں کبھی عبور نہیں کر سکا۔ مجھے اچھا تو نہیں لگتا تھا کہ یہ سوچا سمجھا فاصلہ رہے مگر میں نے اس کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھ لیا۔ یہ شوکت صاحب کا خاص انداز تھا۔ انھوں نے شاید ہی کبھی اپنی ذاتی معلومات مجھےبتایٔ ہوں مگر وہ اپنے والد میاں مولا بخش خاں کا کافی تذکرہ کیا کرتے تھے۔شوکت صاحب سے ہونے والی گفتگوؤں سے میں نے یہ جانا کہ ان کے والد ایک سیدھے اور وضع دار آدمی تھے جو چاہتے تھے کہ ان کے بچے سنجیدگی سے موسیقی سیکھیں۔ وہ خود ایک دھرپد گائیک تھے اور پکھاوج اور طبلے کا اچھا علم رکھتے تھے۔ شوکت صاحب کو دھرپد گانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور انھوں نے تال کے سازوں میں زیادہ دلچسپی دکھائی۔ ان کے والد نے فیصلہ کیا کہ انھیں گانے پر مجبور نہ کیا جائے اور انھیں اجازت دی کہ وہ اپنی دلچسپی کا کام کر سکیں۔ شوکت صاحب نے پہلے تو اپنے والد سے پکھاوج اور طبلے کی تعلیم لینا شروع کی اور بعد میں اپنے چچا استاد غلام محمد سے بھی سیکھا۔ شوکت صاحب نے 1944ء میں چودہ برس کی عمر میں پنڈت ہیرا لال کی شاگردی اختیار کی جو دلی گھرانے کے استاد گامے خان کے شاگرد تھے۔ ایک سال بعد شوکت صاحب آل انڈیا ریڈیو دلی سے وابستہ ہو گئے اور اس اسٹیشن پر باقاعدگی سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ شوکت صاحب مجھے اکثر بتایا کرتے کہ ان دنوں کون کون سے فنکار آل انڈیا ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور انھوں نے شوکت صاحب کی شخصیت اور فن پر کیاکیا اثرات چھوڑے۔ وہ خاص طور پہ استاد احمد جان تھرکوا، استاد حبیب الدین خاں، استاد امیر حسین خاں، استاد اللہ رکھا خاں اور استاد کرامت اللہ خاں کا تذکرہ نہایت اچھے لفظوں میں کرتے تھے۔ وہ تھرکوا خاں صاحب کو “بڑے میاں” کہہ کر یاد کرتے اور اس عظیم استاد کے لیے ان کے دل میں بہت ستائش اور عزت تھی۔
تقسیم کے تھوڑے ہی عرصے بعد شوکت صاحب پاکستان منتقل ہو گئے اور ریڈیو پاکستان لاہور میں ملازم ہو گئے۔ وہ 43 برسوں تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ ایک دفعہ جب میاں قادر بخش ریڈیو پاکستان تشریف لائے تو انھوں نے نام لے کر شوکت حسین کا پوچھا اور شوکت صاحب کے اس مظاہرہ ِفن کی تعریف کی جو انھوں نے پچھلی رات ریڈیو سے سنی تھی۔ شوکت صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ لمحہ ان کی زندگی کے سب سے زیادہ خوشی بھرے لمحات میں سے ایک تھا۔ میاں قادر بخش نے شوکت صاحب کو دعوت دی کہ وہ اگلے ہی روز موچی دروازے میں ہونے والی ان کی پرفارمنس سننے آئیں۔ شوکت صاحب نے مجھے بتایا کہ اس روز میاں قادر بخش کے مظاہرۂ فن نے ان کے اندر گویا بجلی دوڑا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ” میاں قادر بخش نے ایک گت تو ایسی بجائی کہ جو میری سمجھ سے بہت بلند تھی اور اس نے گویا مجھے شکار کر لیا”۔ اس روز شوکت صاحب نے عزم کیا کہ وہ میاں قادر بخش کی شاگردی اختیار کریں گے۔ میاں قادر بخش ہزاروں شاگردوں کو طبلہ کی تعلیم دے چکے تھے اور اس وقت انھیں لوگوں کو اپنا شاگرد بنانے میں زیادہ دلچسپی نہ رہی تھی لہذا ابتدا میں تو انھوں نے شوکت صاحب کی طرف سے شاگردی کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں جب بھائی لعل امرتسری اور بھائی نصیرا نے میاں قادر بخش سے درخواست کی انھوں نے شوکت صاحب کو باقاعدہ اپنی شاگردی میں لے لیا۔
شوکت صاحب پنڈت ہیرالال کے بارے میں بہت کم بات کرتے لیکن جب بھی بات کرتے تو بہت تکریم کے ساتھ کرتے۔ میرے ایک دوست اور شوکت صاحب کے ایک مشہور شاگرد اپنے دورہء ہندوستان کے دوران پنڈت ہیرالال سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ پنڈت جی شوکت صاحب کی بہت قدر کرتے ہیں اور اس بات کی بڑی تعریف کرتے ہیں کہ شوکت صاحب ہمیشہ اپنے دو اساتذہ میں سے ایک کے طور پہ پنڈت جی کا نام بھی ضرور لیتے ہیں۔ پنڈت جی کا مزید کہنا تھا” شوکت ایک استاد طبلہ نواز ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ نہ تو میرا طبلہ بجاتا ہے اور نہ ہی میاں قادر بخش کا۔ اس کا اپنا ایک انداز ہے۔ میں تو شوکت کو سن کر مزا لیتا ہوں اور ریڈیو پاکستان اس لیے سنتا ہوں کہ صبح کے وقت وہاں سے “سُر سویرا” اور شام کے وقت “سُر ساگر” نشر ہوتا ہے اور مجھے امید ہوتی ہے کہ مجھے شوکت کا طبلہ بھی سننے کو ملے گا۔”
اسی کی دہائی میں استاد طالب حسین نے یہ دعویٰ کیا کہ شوکت صاحب ان کے چچا بابا ملنگ خان تلونڈی والے کے شاگرد ہیں۔ یہ بات درست نہ تھی۔ شوکت صاحب اس غلط افواہ سے پریشان تھے تاہم انھوں نے عوامی طور پہ اس افواہ کی تردید نہ کی۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھاتو ان کا جواب سادہ اور منطقی تھا۔ انھوں نے فرمایا” بابا ملنگ ایک بڑے طبلہ نواز تھے۔ وہ اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ مجھے ان کے شاگردوں کی جماعت میں شامل کر کے بہ طور استاد اُن کا قد اونچا کیا جائے۔ اگر وہ واقعی میرے استاد ہوتے تو میں انھیں اپنا استاد تسلیم کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ جھجکتا۔ پندٹ ہیرا لال ایک دوسرے ملک سے ہیں اور ان کا مذہب بھی مجھ سے مختلف ہے۔ اس کے باوجود میں نے انھیں اپنا استاد تسلیم کرنے میں کبھی جھجک نہیں دکھائی حالانکہ میں نے ان سے تھوڑا ہی عرصہ تعلیم لی تھی۔ لہذا اگر طالب حسین کا دعویٰ سچا ہے تو مجھے کیا پڑی تھی کہ اس بات سے انکار کرتا پھرتا؟”
اگرچہ شوکت صاحب کو سکھانے میں بظاہر اتنا مزا نہیں آتا تھا مگر پھر بھی انھوں نے پاکستان کے چند بہترین طبلہ نواز وں کو تیار کیا۔ استاد تاری خان تو بلاشبہ ان کے سب سے مایہ ناز شاگرد ہیں اور شہباز حسین بھی ان کے انداز کے صحیح نمائندہ ہیں مگر ان کے شاگردوں کی فہرست میں اور بھی کئی نمایاں نام شامل ہیں۔ ان میں استاد جان الحسن، جمی مسیح، سجاد علی خان، غلام صابر خان، رضا شوکت، واجد خان، شبیر حسین جھاری، پیٹرک انتھونی، پپو خان، شاہد علی، لاویل لےبارجر اور دیگر کئی باصلاحیت طبلہ نواز شامل ہیں۔ تعلیم دیتے وقت شوکت صاحب کی توجہ اس بات پہ مرکوز رہتی کہ شاگرد کے ہاتھ طبلے کے صحیح مقام پر ہوں اور وہ ہر وقت طبلے ہی کے بارے میں سوچے۔ ان کا ماننا تھا کہ تمام عظیم طبلہ نوازوں نے اپنے فن کے اندر اپنی سوچ شامل کی تھی۔ وہ قاعدوں کی تعلیم کے لیے اکثر اپنے شاگردوں کو کسی دوسرے کے حوالے کر دیتے تھے اور یوں لگتا تھا(اگرچہ ایسا تھا نہیں) کہ وہ اپنے طلبا کے کام پر بس سرسری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ ذہین طلبا کو پسند کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ طبلہ سیکھنے کے لیے اولین شرط ذہانت ہے، ریاضت کی حیثیت ثانوی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ” روشن دماغ ہونا ضروری ہے وگرنہ سب محنت رائگاں جاتی ہے”۔
شوکت صاحب کو دو طبلہ نواز بہت پسند تھے۔ استاد احمد جان تھرکوا اور اپنے گرو بھائی استاد اللہ رکھا خان۔ وہ تھرکوا خان صاحب کے طبلے کی صوتی خاصیت کے مداح تھے اور محسوس کرتے تھے کہ اس عظیم استاد نے گویا سولو پرفارمنس پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے۔بعض اوقات تعلیم دیتے ہوئے انھیں تھرکوا خان صاحب کی بنائی ہوئی کوئی چیز یاد آ جاتی تو وہ اپنے طلبہ کو بجا کر سناتے۔ صاف نظر آتا تھا کہ وہ اُن چیزوں کو بجا کر کتنا لطف لیتے ہیں۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ “اللہ رکھا خان وہ آدمی ہے کہ جس نے نہایت دقتِ نظر کے ساتھ طبلے کے خزانے کو بڑھایا ہے نیز لے کاری، ماتروں کی کٹائی اور تال کی نئی تقسیم اور نئے سانچے بنانے میں بھی سنجیدگی سے کام کیا ہے”۔ وہ بہت ہی کم کسی دوسرے موسیقار کی برائی کرتے تھے اور میرے سامنے تو شاید کبھی نہیں کی؛ تاہم وہ ایک کھرے آدمی تھے۔ جو فنکار تعریف کا حق دار نہ ہوتا وہ اس پر تعریف کے الفاظ ضائع نہیں کرتے تھے۔ ان دنوں لاہور میں ایک شخص طبلہ اور پکھاوج بجاتا تھا، عمر میں شوکت صاحب سے سینئر تھااور اس نے پنجاب گھرانہ کے بابا ملنگ خاں سے سیکھا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی تعریف کرتے تھے لیکن مجھے اس کے فن بالخصوص طبلے نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ طبلے کے متعلق میرا علم بہت محدود تھا (اور آج بھی ہے) اس لیے میں ایک ایسے فنکار کے بارے میں تبصرہ کرنے سے گھبراتا تھا جسے بہت سے اہلِ علم اچھا کہتے تھے۔ ایک روز میں نے جرات کرکے شوکت صاحب کو یہ بات بتا ہی دی کہ مجھے اس استاد کا طبلہ اچھا نہیں لگتا اور ان سے پوچھا کہ کچھ لوگ اس شخص کی اتنی تعریف کیو ں کرتے ہیں؟ مجھے اس وقت تک معلوم ہو چکا تھا کہ شوکت صاحب اس استاد کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ تاہم انھوں نے کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہیں نکالی اور خاموش ہو گئے۔ جب میں نے اصرار کے ساتھ پوچھا تو انھوں نے فرمایا” کیا تمھیں یاد ہے کہ میں نے تمھیں طبلے کی آواز کے متعلق کیا کہا تھا؟” میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انھوں نے مزید کہا” اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ میں نے تمھیں طبلہ اور پکھاوج بجانے کے طریقوں میں فرق سمجھایا تھا”۔ میں نے دوبارہ ہاں میں سر ہلایا۔ ” اور تم اچھی سنگت کے اصولوں سے بھی واقف ہو؟”میں نے فرض شناسی کے انداز سے پھر “ہاں” کہا۔ اس پر شوکت صاحب نے یہ کہتے ہوئے بات کو ختم کیا کہ ” پھر تم مجھ سے ان صاحب کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو؟ میں نے تمھیں معیار سمجھا دیا ہے۔ اب یہ فیصلہ تم خود کرو کہ کون اچھا ہے اورکون اچھا نہیں ہے۔ ”
استاد سلامت علی خاں نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ ” شوکت خاں سے بڑا طبلہ نواز دنیا میں نہیں ہے”۔ انھوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ اپنے بھائی نزاکت علی خاں کے ساتھ پچاس کی دہائی میں ہندوستان کے دورے پر تھے تو انھوں نے ممبئی کی ایک محفل میں سندھی بھیرویں میں ایک کافی “سانول موڑ مہاراں” گانے کا فیصلہ کیا۔طبلے والا اگرچہ ایک مشہور فنکار تھا مگر اتفاق سے کہروا تال (چار ماترے کا ایک خاص تال) کا وہ ٹھیکہ نہ بجا سکا جو شوکت صاحب نے ملتانی کافی کے لیے تیار کیا تھا۔ استاد سلامت علی خاں کو مجبورا تین تال میں کافی گانا پڑی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ اس شام ان کا موڈ تباہ ہو گیا اور انھوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ انھیں شوکت صاحب کے بغیر کبھی دورہ نہیں کرنا چاہیے۔ان دنوں غلام عباس طبلہ نواز(استاد اللہ رکھا خاں کا شاگرد اور غلام حسن کک طبلہ نواز کا بیٹا) استاد سلامت علی خاں کے ساتھ رہتا تھا اور خاں صاحب کی بیٹی رفعت سلطانہ کے ساتھ منسوب بھی تھا۔ مجھے استاد سلامت علی خاں کے گھر کی ایک شام یاد ہے جب انھوں نے طبلے کی سنگت پہ گفتگو شروع کی اور کہا” یہ بچہ غلام عباس دن رات میرے ساتھ رہتا ہے اور ہر وقت میرے ساتھ بجاتا ہےپر پھر بھی شوکت صاحب اس سے سو گنا زیادہ جانتے ہیں کہ سلامت کیا مانگتا ہے۔اور یہ کبھی وہ جان بھی نہیں پائے گا نہ ہی کوئی اور طبلے والا۔شوکت پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ وہ گویوں کے دلوں کی بات بوجھ لیتا ہے۔”
استاد فتح علی خاں بھی اسی طرح شوکت صاحب کے مشتاق تھے۔ ایک دفعہ ماہنامہ ہیرالڈ کے لیے انٹرویو لیتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ “گانے والے طبلے والے کے ساتھ جو “سوال جواب “کرنے لگتے ہیں، اس بارے میں کچھ بتائیے۔” انھوں نے بتایاکہ سب سے پہلے یہ کام انھوں نے اور انکے بھائی استاد امانت علی خاں نے پاکستان منتقل ہونے کے بعد شروع کیا تھا۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ شوکت صاحب وہ طبلہ نواز تھے جو سوال جواب کے دوران دوسرے فنکار کا ذہن پڑھ لیتے تھے اور ان میں یہ خاص خوبی تھی کہ اس مکالمے کے دوران وہ خود پر پورا قابو رکھتے ۔ انھوں نے مزید کہا” اگر شوکت صاحب یہاں (پاکستان میں) نہ ہوتے تو شاید یہ کام شروع ہی نہ ہو سکتا”۔ استاد فتح علی خاں اکثر کہا کرتے کہ شوکت صاحب ساتھی فنکاروں کی اچھی پرفارمنس کے لیے سہولت پیدا کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کسی بھی تال کو بجاتے ہوئے شوکت صاحب کا خالی، سَم اور تالی کا بیان ایسا واضح ہوتا تھا کہ ساتھی فنکار کو اس بات پہ ذہن مرکوز نہیں رکھنا پڑتا تھا کہ وہ تال کے چکر میں اس وقت کہاں ہے۔انھوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ شوکت صاحب خوب جانتے تھے کہ کب صرف ٹھیکہ بجانا ہے اور کب پیچیدہ انداز کی چیزیں بجانی ہیں۔
جب فتح علی خاں نے خود کو پیش کی جانی والے “نذر” کے تمام پیسے شوکت صاحب کی جانب بڑھا دیے:
1988 میں استاد فتح علی خاں نے جلال پور جٹاں کی ایک محفل میں مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے بلایا۔ یہ محفل قصبے کی مسیحی برادری کی جانب سے ایک مقامی چرچ میں منعقد کی گئی تھی۔استاد شوکت حسین اور استاد ناظم علی خاں بھی ہمارے ساتھ ہی اس قصبے میں پہنچے۔ چرچ چھوٹا تھا اور اس میں بہ مشکل تین سو سامعین کی گنجائش تھی۔ استاد فتح علی خاں نے اس محفل میں جے جے ونتی گایا۔ انھوں نے ایک تالہ (بارہ ماتروں کا تال) میں بڑے خیال (دھیمی لے میں گایا جانے والا خیال کا حصہ) کی بندش “پیا گھر نہ آئے” گائی جس میں اتی ولمبت (بہت ہی دھیمی ) لے رکھی یعنی ایک منٹ میں تقریبا آٹھ ماترے ۔ اس کے لیے نہ صرف فنکاروں کو بہت توجہ سے گانا بجانا پڑتا ہے بلکہ سامعین کو بھی بہت دھیان دینا پڑتا تھا مگر محفل میں ہر کوئی تیار بیٹھا تھا اور سبھی سامعین نے بھرپور تال میل سے شرکت کی۔ استاد فتح علی خاں نے اطمینان سے جے جے ونتی کو کھولنا شروع کیا اور نہایت مہارت سے اس راگ کے اسرار منکشف کرنے لگے۔ایک گھنٹے بعد استاد جی سکون کے ساتھ بہلاوے لے رہے تھے کہ جب ایک لمحے کے لیے ان کی توجہ چُوک گئی۔ وہ سہو سے “تُو” (پانچواں ماترہ) کو “دِھن” (گیارواں ماترہ) سمجھ بیٹھے اور تِیا استعمال کر کے غلط طور سے سَم پر آنے لگے تھے کہ شوکت صاحب نے بھانپ لیا کہ کیا ہونے لگا ہے انھوں نے استاد کو درست ماترے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے فوری طور پہ “ڈگی “(بڑا طبلہ) کی ایک خاص ضرب لگائی۔ کبھی بے تال نہ ہونے والے استاد فتح علی خاں کا یہ پہلا موقع تھا کہ جب وہ عوامی محفل میں ٹھیکہ بھلا بیٹھنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ استاد فتح علی خاں نے استاد شوکت حسین خاں کی طرف سے ملنے والی مدد کا یہ کہتے ہوئے اعتراف کیا کہ “یہ مجھے بچا گئے ہیں” اور اپنے سامنے پڑے ہوئے نذر کے تمام پیسے شوکت صاحب کی جانب بڑھا دیے۔لاہور واپسی کے سفر کے دوران انھوں نے مجھے بتایا کہ اگر کوئی چھوٹا طبلہ نواز ہوتا تو وہ مجھے غلطی کرنے دینا اور پھر سارے ملک میں اس کی مشہوری کرتا پھرتا مگر شوکت صاحب ایک شریف آدمی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا” شوکت نے برسوں میرے ساتھ سنگت کی ہے۔وہ جانتا ہے کہ کس طرح میرا ذہن پڑھنا ہے اور کس طرح میرے من بھائے طریقے سے میرے ساتھ سنگت کرنی ہے۔ آج جتنی دھیمی لے پہ میں گایا ہوں شوکت کے علاوہ کوئی بھی سنگت نہیں کرسکتا تھا۔ کوئی بھی نہیں۔ دنیا میں اس سے اچھا طبلہ نواز کوئی نہیں ہے”۔
ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم اپنی پرفارمنس کے لیے ہمیشہ شوکت صاحب کو ساتھ رکھنے پر اصرار کرتی تھیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ جب وہ لالہ موسیٰ سے راگ گورکھ کلیان ریکارڈ کروانے کے لیے لاہور تشریف لائی تھیں اور شوکت صاحب اس روز استاد فتح علی خاں کے ساتھ سنگت کرنے کے لیے جلال پور جٹاں میں تھے۔ وہ راضی نہ ہوئیں اور انھوں نے (غالبا) ایوب رومانی کو بتایا کہ وہ کسی قسم کی ریکارڈنگ کے بغیر واپس اپنے گھر لالہ موسیٰ جا رہی ہیں۔ ایوب صاحب نے ان سے درخواست کی کہ اتنا سخت فیصلہ کرنے سے قبل وہ ایک دفعہ شوکت صاحب کے اس سینئر شاگرد کو سن تو لیں جسے اس روز ان کی سنگت کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ کوئی معمولی شاگرد نہیں تھا اور اس کا ٹھیکہ سن کر وہ اس کے ساتھ گانے پر رضا مند ہوئیں۔ پرفامنس بہت اچھی ہوئی، بیگم صاحبہ حسبِ معمول شاندار طریقے سے گائیں اور شوکت صاحب کے شاگرد نے بھی بے عیب طریقے سے سنگت کی۔ وہ اس کی سنگت سے اتنی خوش ہوئیں کہ انھوں نے اسے پانچ سو روپے کا نوٹ بہ طور انعام دیا۔ اس وقت یہ بڑی رقم ہوتی تھی۔ طبلہ نواز خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا اور جشن منانے اپنے دوستوں کے ساتھ کینٹین کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ سٹوڈیو سے باہر نکل گیا تو بیگم صاحبہ نے ایوب رومانی کو تنبیہ کی کہ انھیں دوبارہ ایسی صورتحال میں نہ ڈالا جائے۔ “میں شوکت صاحب کے ساتھ گاتی اچھی لگتی ہوں، بچوں کے ساتھ نہیں”۔ اس بات سے قطع نظر کہ دوسرے طبلہ نواز کتنا اچھا بجاتے ہیں وہ بہترین کی خواہشمند تھیں۔
شوکت صاحب بہ طور طبلہ نواز اپنے قد سے واقف تھے۔ چھوٹے بڑے، سینئر جونیئر سبھی فنکار ان کی سنگت کے خواہشمند تھے۔ 1981 میں استاد نصرت فتح علی خاں کے والد کی برسی (جو پاکستان میں موسیقی کی معتبرترین محفل ہے) کے موقع پر لائل پور میں ہندوپاک کے سینئر فنکاروں نے شوکت صاحب کو “میاں” کا خطاب دیا، اس سے پہلے یہ خطاب صرف میاں قادر بخش کو ملا تھا۔ یہ سب سے اعلیٰ اعزا ز ہے جو پنجاب گھرانے کے کسی بھی طبلہ نواز کو مل سکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1985 میں انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی ملا۔ اس کے علاوہ بھی انھیں بے شمار انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ تاہم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ شوکت صاحب نے ذرا بھی تکبر کا مظاہرہ کیا ہو۔ وہ پُر اعتماد، خود پہ کامل یقین رکھنے والے اور اپنی عظمت کے ساتھ سہولت سے رہنے والے تھے مگر کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔
عظیم فنکارہ رسولن بائی 1961 میں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ طبلے پہ سنگت کرنے کے لیے شوکت صاحب کا انتخاب ہوا۔ بعد میں ایک دفعہ میں نے وہ ریکارڈنگ شوکت صاحب کو سنائی تو انھیں کچھ زیادہ پسند نہ آئی اور انھوں نے مجھے یہ ریکارڈنگ کسی اور کو دینے سے روک دیا۔ کچھ روز بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ریکارڈنگ میں کوئی مسئلہ ہے؟ انھوں نے بتایا کہ رسولن بائی نے ان سے “پنجابی تین تال” بجانے کو کہا تھا اور انھیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ آخر یہ “پنجابی تین تال” کیا چیز ہے لہذا انھوں نے اس کے بجائے “ستارخانی” تال بجا دی (یہ بھی سولہ ماتروں کا تال ہے)۔”مجھے لگتا ہے کہ میں نے غلط بجایا تھا ان کے ساتھ” انھوں نے عاجزی سے کہا۔ کئی برس بعد اس کانفرنس کے منتظمِ اعلی ٰ حیات احمد خان نے مجھے بتایا کہ انھیں رسولن بائی نے کہا تھا کہ انھیں کسی طبلہ نواز کے ساتھ گانے میں اتنا مزا نہیں آیا جتنا شوکت صاحب کے ساتھ۔انھوں نے حیات احمد خان سے یہ بھی کہا کہ وہ صرف اس شرط پہ دوبارہ گانے کے لیے پاکستان آئیں گی کہ ان کے ساتھ سنگت کے لیے شوکت صاحب بھی ہوں گے۔
شوکت صاحب کے طبلے کی جوچیز مجھے سب سے زیادہ متحیر کرتی ہے وہ ان کے طبلے کی آواز ہے۔ میں نے جتنا بھی طبلہ سنا یہ اس میں سے سب سے زیادہ سُریلی آواز تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ بعض طبلے والے “لے” پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور “سُر” کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن طبلے کے استاد اس امر سے اچھی طرح واقف ہیں کہ طبلے کے لیے “لے” او ر”سُر” دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔جب میں نے پہلی دفعہ شوکت صاحب کو براہِ راست سنا تو انھوں نے اپنا طبلہ “پہلے کالے” کے ساتھ ملایا ہوا تھااور “پانچ تال کی سواری” پیش کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس سُر کی ایک خاص اور واضح آس ساری پرفامنس کے دوران سنائی دیتی رہی۔ “پُڑے” (طبلے کی کھال) پر ضرب لگنے کے کافی دیر بعد تک شوکت صاحب کے طبلے کے “بول” فضا میں ارتعاش پیدا کرتے رہتے۔ان کا کہنا تھا کہ اگلے ماترے کی آواز پچھلے ماترے کی آواز کا ارتعاش ختم ہونے سے قبل آجانی چاہیے۔ پس ان کے معیار کے حساب سے اس بات کا فیصلہ کہ کوئی طبلہ نواز ولمبت ٹھیکہ (دھیمی لے) کس حد تک کم رفتار لے میں بجا سکتا ہے اسی بات سے ہو گا کہ جس دورانیے تک ضربوں کی آواز سنائی دیتی رہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ “بول” صاف ہونے چاہئیں اور آدمی کو اتنی تیز لے نہیں بجانی چاہیے کہ “بولوں” کی صفائی اور صحیح پن ہی غائب ہو جائے۔یہ گویا “دُرُت” (تیز لے) کو محدود کرنے والا عنصر تھا۔
شوکت صاحب کا ماننا تھا کہ طبلہ نواز کا کردار ایک مددگار کا سا ہوتا ہے جو مرکزی فنکار کو اچھےمظاہرہ ِفن پیش کرنے میں سہولت دیتا ہے۔ وہ اپنے انداز میں دوسرے فنکار کے حسبِ ضرور ت تبدیلیاں پیدا کرے گا۔ ملکہ موسیقی اپنی پرفارمنس کے دوران طبلہ نواز کی فنکارانہ برجستگی زیادہ پسند نہیں کرتی تھیں اور ٹھیٹھ مگر سادہ ٹھیکہ پسند کرتی تھیں۔ شوکت صاحب ان کے ساتھ اسی انداز سے سنگت کرتے۔ دوسری جانب استاد سلامت علی خاں طبلہ نواز کے ساتھ سوال جواب اتنے پسند کرتے تھے کہ طبلہ نواز کے ساتھ ان کی پرفارمنس ایک قسم کی جگل بندی بن جایا کرتی تھی، خاص طور پہ جب وہ “دُرت خیال” (تیز لے کا خیال) پیش کرتے۔ سلامت علی خاں “سُول فاختہ” (پانچ ماتروں کا تال) ،”فرودست” (چودہ ماتروں کا تال) اور اسی قسم کے دیگر نایاب تالوں کو پسند کرتے تھے اور ان کے اندر بھی پیچیدہ نقشے پیدا کر لیتے تھے۔ ان کے ساتھ بجاتے ہوئے شوکت صاحب ایسے پیچیدہ نقشے بناتے کہ جو سولو طبلہ پرفارمنس میں ہی بجائے جا سکتے تھے۔ مہدی حسن خاں طویل اور ڈرامائی انداز کی “ٹھاہ دونی” (ہر شعر کے بعد تال کی ایسی اختراع جو بالعموم دگنی رفتار کی ہوتی تھی) پسند کرتے تھے جبکہ فریدہ خانم سادہ سنگت کو ترجیح دیتی تھیں اور شوکت صاحب ایسا بجاتے تھے کہ دونوں عظیم غزل گائیک اطمینان اور مسرت محسوس کرتے۔ شوکت صاحب کو فنکاروں کی محدودات کا بھی دھیان رہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ انھیں سائیں دتہ قادری کے ساتھ بجاتے ہوئے سنا، اور میں نے یہ بات نوٹ کی کہ “گجری ٹوڑی” کی ساری پرفارمنس کے دوران انھوں نے صرف ٹھیکہ بجایا۔ بعد ازاں انھوں نے مجھے بتایا کہ (پھونک والے) سازوں کے ساتھ بجاتے ہوئے طبلہ نواز کو آمرانہ انداز سے نہیں بجانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سائیں قادری ایسے بانسری نواز کے ساتھ نا انصافی ہو گی کہ طبلہ نواز اپنی فنکاری دکھاتا پھر ے اور وہ استھائی کو دہرانے پہ اپنی سانس ضائع کرتے رہیں۔ میں اکثر حیران ہوتا تھا کہ شوکت صاحب سٹیج پہ فنکارانہ شیخی کا مظاہرہ کرنے سے مکمل طور سے بے نیاز ہیں۔ میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ مزاج کامل خود اعتمادی اور (اپنے فن پہ ) بھروسے سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے فن اور اپنی عظمت کے ساتھ بڑی سہولت سے رہتے تھے۔ انھیں دکھاوا کر کے اپنا آپ منوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اگر انھوں نے اپنے پورے کیرئیر میں صرف ایک “نا” (طبلے کے کنارے سے پیدا ہونے والا ایک بول) بجایا ہوتا تو بھی وہ اتنے ہی عظیم طبلہ نواز ہوتے کیونکہ کسی نے بھی ان کی طرح “کِنار” (طبلے کا کنارہ) نہیں بجائی۔
دو خواتین فنکاروں سے گریز:
شوکت صاحب ہمیشہ میری دو پسندیدہ خواتین فنکاروں یعنی فریدہ خانم اور میڈم نور جہاں سے گریز کرتے تھے۔ سماجی محفلوں اور موسیقی کی محفلوں میں جہاں تک ممکن ہوتا وہ ان دونوں پیاری خواتین سے دور رہتے۔ میں نے ان سے اس رویے کے بارے میں کئی دفعہ پوچھا مگر انھوں نے کبھی جواب نہ دیا۔ کئی سال بعد میں نے اس راز کو پا لیا۔ دراصل شوکت صاحب ایک شرمیلے آدمی تھے اور اس بات سے بہت گھبراتے تھے کہ یہ دونوں عظیم خواتین، جو اپنے اندازِ دلبری کے لیے مشہور ہیں ، انھیں دوسروں کے سامنے خجالت میں مبتلا نہ کر دیں۔ ایوب رومانی نے مجھے بتایا” وہ فریدہ جی کے ساتھ بیٹھنے سے گھبراتے ہیں۔وہ ان کے لباس کے کھلے گلے کو ہینڈل نہیں کرسکتے۔ وہ ایک شرمیلے اور سیدھے سادے آدمی ہیں۔ میرا خیال ہے وہ خوبصورت خواتین سے ڈرتے ہیں”۔
دراصل ریڈیوپاکستان لاہور میں ایک پُرمزاح واقعہ ہوا تھا جس کے بعد شوکت صاحب میڈم جی کے قریب ہونے سے گھبرانے لگے تھے۔ ان کی شوخ حسِ مزاح نے انھیں پریشان کر دیا تھا۔ انھوں نے ایک گانے “اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے” کی ایک براہ ِ راست پرفارمنس میں طبلہ بجایا تھا۔ شوکت صاحب کی پہلی بیگم میں سے کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اور اس گانے نے انھیں جذباتی طور پہ افسردہ کر دیا تھا۔ وہ رونے لگے اور ساتھی فنکار بھی بہت افسردہ ہو گئے۔ گانے کے بعد میڈم جی نے ماحول کو خوشگوار بنانے کی غرض سے کہا “شوکت صاحب! آپ کیوں رو رہے ہیں۔ میں بہت زرخیز ہوں اور میں آپ کے ساتھ ایک بچہ پیدا کروں گی بلکہ میں تو کہتی ہوں ابھی کرتے ہیں”۔ اس کے بعد انھوں نے مذاق میں سبھی سے کہا کہ وہ سٹوڈیو سے نکل جائیں تاکہ وہ شوکت صاحب کے ساتھ تنہائی اختیار کر سکیں۔ وہاں موجود سبھی لوگ ہنسنے لگے مگر ہر وقت اپنے آپ میں رہنے والے شوکت صاحب کے لیے اس مذاق کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ انھیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس طرح کا ردِ عمل دکھائیں اور وہ کافی شرمندہ ہوئے۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے میڈم جی کے ساتھ زیادہ میل جول سے گریز کرنا شروع کر دیا۔
شوکت صاحب “ڈگی” (طبلے کا بڑا ڈرم) اور “دھاواں” (طبلے کا چھوٹا ڈرم) دونوں پر یکساں زور دیتے تھے۔ ان کی “ڈگی” ہمیشہ کھرج کی طرح بولتی جبکہ ان کا “دھاواں” اوپر کے سُروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ انھوں نے کئی انگلیوں سے ڈگی بجانے کا طریقہ اختراع کیا جو آج ایک معروف طریقہ ہے ، اس طرح وہ صرف اپنی ہتھیلی کے نچلے حصے کے دباؤ کو بدلنے سے ڈگی کی آواز کو مدھم کر سکتے تھے۔ میری معلومات کی حد تک وہ واحد طبلہ نواز ہیں جو ایک سپتک سے بھی زیادہ ڈگی کا دورانیہ تبدیل کر سکتے ہیں۔
کاغذ کا وہ ٹکڑا آج بھی میری سب سے قیمتی متاع ہے:
شوکت صاحب کی سولو پرفارمنس بڑی منضبط، خوب سوچی سمجھی ، منظم اور مسحور کر لینے والی ہوتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے “اٹھان” (بعض طبلہ نوازوں کی طرف سے آغاز میں پیش کیا جانا والا زور دار ٹکڑا) سے آغاز کیا ہو۔ وہ بالعموم “تِرکِٹ پکڑ” سے اپنی سولو کا آغاز کرتے اور پھر “پیش کارے” (طبلہ سولو کا تعارفی ٹکڑا) کی جانب بڑھتے۔ سولو کا یہ حصہ شوکت صاحب مزے سے بجاتے۔ پہلے وہ لے کو قائم کرتے اور پھر پیش کارے کے اندر فنکارانہ چابکدستی دکھاتے۔ وہ دلی گھرانے کے بولوں یعنی “دھا، کِر، دھا، دھا تٹ، تی،نا “اور پنجاب کے بولوں یعنی “کِر، نگ، تِرکٹ، ترکٹ ترکٹ، دھاگے تری کا، تِٹ کاتا ، گی رے گی نا” کو ملا کر پیش کار ا بجاتے جو خاص انھی کی اختراع تھی۔ وہ ریاضی کا گہرا شعور رکھتے تھے؛ اگرچہ میں انجینئرنگ کا ایک طالبعلم تھا مگر اس کے باوجود تال کے جو نقشے وہ بناتے اور مختلف تالوں میں طرح طرح کی جو تقسیم کرتے انھیں سمجھنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ان کی سولو میں قاعدے (طبلے کی بندھی ہوئی دھنیں) کا حصہ بڑا سنجیدہ ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ دلی اور پنجاب گھرانوں کی طرز کے قاعدے بجاتے مگر یہ ان دونوں گھرانوں میں پائے جانے والے قاعدوں سے زیادہ طویل اور پیچیدہ تر ہوتے تھے۔ وہ اکثر کنار (طبلے کا کنارہ) بجاتے اور کچھ اس شان سے کہ ایک مستقل گونج پیدا ہوتی رہتی۔ اگرچہ وہ تِرکٹ اور ترکٹ ترکٹ کے بولوں کے استاد تھے تاہم وہ قاعدوں میں تٹ دھٹ کے بولوں سے بھی لطف اندوز ہوتے اور اپنی سولو کے دوران طویل دورانیوں کے لیے ان بولوں کو کنگھالتے رہتے۔ جو بھی قاعدہ شوکت صاحب بجاتے اس کی ایک اندرونی فضا بھی ہوتی تھی جو ہر نئی لڑی (قاعدوں میں رنگا رنگی) کے ساتھ برقرار رہتی تھی۔ لڑی در لڑی وہ نئے نقشے بناتے جاتے مگر قاعدے کی روح اور اس کی فضا برقرار رہتی اور اس کی منفرد شناخت کبھی مجروح نہ ہوتی۔ شوکت صاحب اپنے قاعدوں اور دیگر چیزوں کو بڑی کراری اور واضح تہائیوں (ایسی بندھی ہوئی دھن جسے تین بار مسلسل اس طرح بجایا جاتا ہے کہ تیسری بار سَم پر ختم ہو) پر ختم کرتے تھے۔ یہ تہائیاں نہایت واضح طور سے پنجاب انگ کی تھیں اور ان میں دہلی گھرانے کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اپنی تمام سولو میں مشر (سات کا سانچہ)، تِشر (تین کا سانچہ) اورچترش (چار کا سانچہ) جاتی کے سانچوں کو استعمال کرتے تھے۔ جب وہ گت اور گت پرن (پکھاوج سے ماخوز دھنیں) بجاتے تو اپنا پکھاوج کا علم اور شکوہ استعمال میں لاتے تاہم اپنی مخصوص آواز اور بولوں کی صفائی پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ وہ “دِھرے دِھرے” کے بول تو گتوں تک میں کم استعمال کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق یہ ایسے بول تھے جو طبلے کا سُر پیدا نہیں کرتے تھے۔ ان کے بجائے وہ کھلی “تِرکٹ” بجانے کو ترجیح دیتے۔ بلاشبہ بعض محفلوں مثلا پاکستان ٹیلیویژن کے پروگرام نکھار میں انھوں نے “دِھرے دِھرے” کے بول بھی خوب بجائے ہیںَ۔ اور یہ “دِھرے دِھرے” بھی کیا خوب تھی! مترنم اور سُریلی۔ شوکت صاحب اردو شاعری کے شوقین اور علامہ اقبال کے بڑے مداح تھے۔ وہ طبلے کو بھی ایک قسم کی شاعری سمجھتے تھے اور واقعی ان کے طبلے میں قافیے اور ردیف اسی طرح استعمال ہوتے تھے جیسا کہ اردو شاعری میں۔ میں نے کسی دوسرے طبلہ نواز کے طبلے میں اس معیار کی شاعری نہیں سنی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نجی محفل میں وہ “پنجابی لکشمی (ساڑے گیارہ ماترے کی ایک نایاب تال) بجارہے تھے اور اس کے اندر انھوں نے “چار درجے کی گت ” بجائی تھی جس نے میری روح کھینچ لی تھی اور کئی دنوں تک میرے ہوش اڑائے رکھے ۔ میرے لیے “پنجابی لکشمی” تال کو گننا ایک مشکل کام تھا لیکن جب شوکت صاحب نے اس کی گت بجائی تو میں گنتی ونتی بھول گیا اور گت کا مزا لینے لگا، اس لیے نہیں کہ میں اسکے سانچے کو سمجھ رہا تھا بلکہ اس لیے کہ یہ بہت مترنم اور خوبصورت تھی۔ یہ گت میرے ذہن سے نکلتی ہی نہ تھی اور میں اگلے دن ریڈیو سٹیشن جا پہنچا تاکہ انھیں یہ گت دوبارہ بجاتے ہوئے سنوں۔ شوکت صاحب نے بھانپ لیا کہ اس گت نے مجھ پر کیا اثر کیا ہے ۔ انھون نے گت بجانے کے بجائے مجھے لکھ کر عنایت کی۔ کاغذ کا وہ ٹکڑا میری سب سے قیمتی متاع ہے اور ہمیشہ سے رہا ہے۔
گت اور گت پرن بجانے کے بعد شوکت صاحب “ریلے” (تیز اور زوردار ٹکڑے) کی جانب بڑھتے۔ ان کے ریلے منفرد ہوتے تھے اور ان پہ پنجاب یا دہلی کا اثر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ایک ریلا جس سے میں بہت لطف اندوز ہوتا تھا ، یوں ہے۔
Dhi۔Te۔Na۔Na۔Ke۔Ti۔Te۔Ta
Te۔Te۔Na۔Na۔Ke۔Dhi۔Te۔Ta
یہ وہ واحد ریلا تھا جو انھوں نے استاد جان الحسن کے بجائے مجھے بہ نفسِ نفیس سکھایا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مجھے اس ریلے سے کتنی محبت ہے۔ان کی سولو پرفارمنس کا اختتام تقریبا ہر دفعہ بڑی پیچیدہ اور پُر شکوہ “چکردار” (تہائی کے اندر تہائی) پر ہوتا تھا۔ یہ پنجاب گھرانے کی انتہائی ترقی یافتہ دھنیں ہوتی تھیں جو سامعین کو مسحور کر دیتی تھیں۔
شوکت صاحب کا ایک خاص رعب تھا جس سے شروع میں تو ڈر لگتا تھا مگر بتدریج بڑا گرم جوش اور شفقت بھرا لگنے لگا۔ ان سے اپنے سارے تعلق کے دوران میں نے انھیں کبھی ایسی بات کہتے یا کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو ان کے شایانِ شان نہ تھی۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اکثر فنکاروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ شوکت صاحب اپنے شاگردوں کے ساتھ ایماندار تھے اور جو بھی سیکھنے کے لیے تیار ہوتا اور قابلیت بھی رکھتا ، وہ اسے بڑی دیانت اور خلوص سے سکھاتے تھے۔ سٹیج پر وہ بہترین سنگت کرنے والے تھے یعنی مددگار، ذہین، درک رکھنے والے، موسیقی سے بھرے اور پُر اعتماد۔ جب وہ سولو بجاتے تھے تو وہ سٹیج کے بادشاہ ہوتے تھے اور سامعین کو اپنی تال و سُر کی دنیا میں کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی سولو سے لطف اندوز ہونے کے لیے موسیقی کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ شوکت صاحب ایک سچے بے نیاز آدمی تھے۔ انھیں پیسے کی پروا ہ نہیں تھی، خوشامد کو ناپسند کرتے، کبھی نخوت نہ دکھاتے، خواہ مخواہ نوازے جانے سے بچتے اور کمینے پن سے نفرت کرتے تھے۔ مجھے یہ بات سمجھنے میں برسوں لگے کہ ان سے میری محبت کی وجہ صرف ان کا طبلہ ہی نہیں تھا بلکہ بہ طور ایک شخص بھی ان سے محبت تھی۔ ایمانداری، دیانت، خودداری،شفقت، گرمجوشی، فیاضی ایسی سب صفات اس ایک شخص میں گویا مجسم ہو گئی تھیں۔ میں نے شوکت صاحب کو قریب سے دیکھا تھا اور انھی کی طرح بننا چاہتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ میں ایسا طبلہ نواز نہیں بن سکا کہ جو ان کا شاگرد کہلانے کے لائق ہو تاہم مجھے امید ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اس زندگی کے خاتمے تک میں کچھ ایسی خوبیوں کا عشرِ عشیر اپنے اندر پیدا کر سکوں کہ جو میرے پیارے شوکت صاحب کے اندر تھیں۔
ماخذ: فرائیڈے ٹائمز
ترجمہ پڑھا، اصل مضمون دیکھا اور اب سمجھنے سے قاصر ہوں کہ استاد شوکت حسین کے عشق میں گرفتار ہؤا ہوں، علی عدنان کے پاک باطن کا اسیر ہؤا ہوں کہ کبیر علی کی محبت کا معترف ہؤا ہوں۔ اس تثلیث سے ذرا دور حسن رحمان بھی کھڑے ہیں جو ایسے ادب پارے کی پرکھ کر کے ہم جیسوں پر نظرِ کرم کر چکے ہے۔
میری خواہش تھی کی مختلف مقامی فنون پر تذکرہ نویسی سے بات کو آگے بڑھایا جائے اور طالبانِ فن کو تکنیکی مواد کے ساتھ ساتھ اس مواد کا تجزیہ بھی میسر آئے۔ یہ تحریر تذکرے کا حق ادا کرتی ہے۔
بہت شکریہ! باقی حسن رحمان ذرا نہیں، کافی دور کھڑا ہے! یہاں تعریف کے مستحق علی عدنان اور کبیر علی ہیں۔