فاؤسٹ (حصہ دوم: دوسرا باب)

 In ترجمہ

روڈا میں ایسٹر کا اتوار تھا ۔ دن روشن تھا اور سوج چمک رہا تھا ۔ مرد، عورتیں اور بچے اپنے اچھے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بازاروں  میں خوب چہل پہل تھی ۔ اطمینان و مسرت کی فضا سب پر چھائی ہوئی تھی ۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ گرجا کی طرف جا رہے تھے اور سرخ سرخ مسکراتے چہروں کے بچے للی کے پھول ہاتھوں میں لیے خوش خوش چلے جا رہے تھے ۔

دو نووارد پُل پر سے گزر شہر میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک کالے رنگ کا توانا شخص تھا جو سیاہ چُغہ پہنے ہوئے تھا ۔ سر کے لباس میں ایک لمبا سرخ رنگ کا پر لہرا رہا تھا ۔ دوسرا ایک نوجوان تھا نہایت حسین ، متناسب الاعضاء ۔ لباس ہلکا بسنتی اور نہایت قیمتی ریشمی اور مخمل کا تھا ۔ یہ دونوں بازاروں میں سے گزرے ۔ نوجوان گھروں اور باغوں کو انتہائی ذوق و شوق سے دیکھ رہا تھا گویا پرانی دوستی کی تجدید کر رہا تھا ۔

اُس نے کہا : – ’’میفسٹو ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زندگی  بالکل ساکت ہے ۔ اب بھی بالکل  وہی ہے جو پہلے تھا‘‘۔

میفسٹو نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا: – ’’ کیا اتنی جلدی سب کچھ بھول گئے فاؤسٹ!‘‘۔

پھر فاؤسٹ کو طاعون کا وہ خوف ناک زمانہ یاد آیا جس کو ایک پیڑھی (نسل ) گزر چکی تھی اور اُس کے خیال سے اُس کا دل کانپ گیا ۔ اُس نے ایک آہ کھینچی اور مسکر ا کر میفسٹو کی طرف دیکھا ۔

’’لیکن زمانے کا پہیہ الٹا گھوم گیا ہے ۔ میرے گرد ہر چیز ویسی ہی ہے جیسی میری جوانی میں یہاں تھی ، اور میں پھرکچھ اپنے آپ کو وہی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔

اُن کے قریب سے بڑوں اور بچوں کی ایک بھیڑ گزری اور انہیں تعجب کی نظروں سے دیکھتی ہوئی چلی گئی ۔ فاؤسٹ نے ایک شخص کو روکا ۔ یہ ایک موٹا خوش طبع آدمی تھا اور ایک گدھے پر ایندھن لادے جا رہا تھا ۔

’’کیوں جناب ، کیا آج کوئی تہوار ہے جو سب اس قدر خوش ہیں اور عمدہ کپڑے پہنے ، للی کے  پھول ہاتھوں میں لیے جا رہے ہیں!‘‘۔

اُس شخص کے چہرے پر تعجب کے آثار پیدا ہوئے اور حیرت سے پوچھنے لگا : – ’’ کہاں سے آ رہے ہیں آپ؟ کیا آپ ترکستان سے آ رہے ہیں جو آپ نے مقدس ایسٹر کا نام نہیں سنا؟‘‘۔

یہ کہہ کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور ہنستا ہوا آگے چل دیا اور آنے والوں کو ان کی طرف اشارہ کرکے بتاتا گیا کہ ان عجیب لوگوں کو دیکھو ، یہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ آج مقدس ایسٹر ہے ۔

اب پھر فاؤسٹ کے دل میں تکلیف دہ خیالات کا ہجوم ہوا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ فی الحقیقت اُس میں کس قدر تبدیلی ہو گئی تھی اور اپنے ہی وطن کے لوگ اس سے کس قدر ناآشنا اور ان کی ہمدردیوں سے وہ کس درجہ محروم تھا ۔ اور یہ وہی لوگ تھے جو اس کے بڑھاپے کے زمانے میں ذرا ذرا سے بچے تھے ۔ اب اسے وہ نوجوان اور جوان لڑکیاں یاد آئیں جو اس کی بزرگی و احترام کے زمانے میں زندہ تھیں ۔ وہ سب اب یا تو بڈھے ٹھڈے(بہت بوڑھے) ہو ں گے یا مرکھپ گئے ہوں گے ۔

یہ دونوں  بھی ہجوم کے ساتھ گرجا کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بچوں کی خوش خوش باتوں کو سن کر فاؤسٹ کا احساسِ غم کچھ کم ہوا اور ننھی ننھی بچیوں کو دیکھتا رہا کہ کس احترام سے اپنے مظہرِ پاکیزگی (للی کے پھول ) کو اٹھائے چل رہی ہیں ۔

تھوڑی دور چل کر وہ خوشنما چھوٹے سے گھر کے قریب سے گزرے جس کی جھکی ہوئی چھت سرخ کھپریل(چھلکے) کی تھی ۔ اس کے چاروں طرف ایک باغیچہ تھا اور پیچھے کے رخ ایک بڑا سا تاکستان تھا ۔ فاؤسٹ نے اِسے بڑی دلچسپی سے دیکھا اور میفسٹو کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ اُسے نہیں معلوم تھا کہ وہ اس ہستی سے کس قدر قریب ہے جس کی قسمت اِس کی آئند ہ قسمت سے اس قدر وابستہ ہے ۔ یہ وہ ہستی تھی جس کے لیے فاؤسٹ کی روح بھوکی تھی اور ہر لحاظ سے اس کی تشنگیِ روح کو سیراب کرنے کی اہل تھی ۔ بلکہ یہ وہ کسوٹی تھی جس پر فاؤسٹ کی روح کا آخری کَس لگایا جانے والا تھا۔

یہ حسین مارگریٹ(گریچن)  تھی جو اس گھر میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی ۔ یہ ایک خوبصورت لڑکی تھی جس کی دو لمبی لمبی سنہری چوٹیاں گندھی ہوئی تھیں ۔ شاداب چہرہ جس سے تازگی اور عمدہ صحت ظاہر ہوتی تھی ۔ شفاف نیلی آنکھیں جن میں زندگی اور زندگی کی خوشی ناچتی تھی ۔ عمر اُس کی سترہ سے زیادہ  نہ تھی اور ابھی بچپن کے الھڑ پن سے اس کا قطع تعلق نہیں ہوا تھا ۔ بچوں کے ساتھ پھرتی ، اُن کے ساتھ پھولوں کے ہار گوندھتی ۔ گھر میں چلتی پھرتی تو وہ گیت گنگناتی جاتی تھی جو اسکول میں گایا کرتی تھی ۔ اُس کے لیے زندگی کا پھول ابھی کھلنا شروع ہوا تھا ۔ جاگتے کے خواب بھی وہ اکثر دیکھا کرتی تھی ۔ اپنی کھڑکی کے پاس بیٹھی رومانی خیالات سے اپنے ذہن کو بساتی ۔

آج ایسٹر کی صبح کو وہ اپنی ماں کے ساتھ اس کمرے میں تھی جس میں سے بازار نظر آتا تھا ۔ اُس کا لباس سفید تھا اور گرجا  جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ آستینیں چست اور لمبی تھیں جن میں سے اُس کے بھرے بھرے بازوؤں کا سڈول پن ظاہر ہو رہا تھا ۔ گلے کے پاس جو جلد نظر آ رہی تھی،  ملائی کی طرح سفید تھی اور ایسی ہی پاکیزہ جیسی اس کی نیلی آنکھوں سے نکلنے والی نظر ۔

اُس کی ماں کھڑکی کے پاس بیٹھی سی رہی تھی ۔ کمرے کی فضا تازہ و معطر تھی  کیونکہ باغ کی خوشبو سے بسی ہوئی ہوا کمرے میں داخل ہو رہی تھی ۔ کمرے میں چمکدار لکڑی کا سازوسامان تھا ۔ برتن صاف ستھرے اور جگرجگر کرتے (لشکارے مارتے)۔ فرش دھلا دھلایا ، داغ دھبے کا نام تک نہیں ۔ یہ سب چیزیں ایسی تھیں کہ اس مسرور و معصوم لڑکی اور اس کی شفیق ماں کی اُفتادِ مزاج سے خاص مناسبت رکھتی تھیں ۔

کمرے طے کر کے وہ اپنی ماں کے برابر آ کھڑی ہوئی اور کھڑکی میں سے بازار میں سے گزرنے والے ہجوم کو غایت دلچسپی سے دیکھنے لگی۔ پھر بولی:- ’’ اماں ، آج صبح کو گرجا میں کتنی بھیڑ ہو گی ! دیکھئے ، وہ بڑی بی بوہمی اپنے ننھے کو لیے جا رہی ہے اور خیر سے یہ ننھا اپنی ماں سے کم از کم تین گنا بڑا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ خوش دلی سے ہنسنے لگی ۔ ’’اور اماں ، ذرا اُن دو اجنبیوں کو تو دیکھئے ۔  اُن کا لباس کس قدر قیمتی ہے ۔ دیکھئے ، وہ پرے اُس طرف جا رہے ہیں ۔ کاش ان کے چہرے نظر آ جاتے ۔ وہ نوجوان جس کا چغہ ہلکے بسنتی رنگ کا ہے ، وہ تو کچھ اس شان سے چل رہا ہے گویا کہیں کا بادشاہ ہے ۔ وہ ضرور بہت خوبصورت ہو گا‘‘۔

ماں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا :-’’ جلدی کر بیٹی ورنہ تجھے دیر ہو جائے گی ۔ پھر بھلا تجھ جیسی شرمیلی بچی گرجا میں کیسے داخل ہو گی جب سب بیٹھ چکے ہوں گے اور خطبہ پڑھا جا رہا ہو گا‘‘۔ اِتنا کہہ کر اس نے لڑکی کو پیار کیا اور بولی :- ’’ اس سکون اور پاکیزگی کے دن کی برکتیں تجھ پر ہوں‘‘۔

’’اور آپ پر بھی پیاری اماں‘‘۔  مارگریٹ  نے ماں کے قریب جو گُل دان رکھتا تھا اُس میں سے ایک لِلیّ کا پھول نکالا اور ماں کو بچوں کی طرح خیرباد کہہ کر جلدی جلدی سیڑھیوں پر سے اُتر کر بازار میں آ گئی ۔

اُسے ڈر تھا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔ اِس لیے وہ جلدی جلدی قدم اٹھاتی چلی ۔ راستہ میں اسے گزشتہ سال کا خیال آ رہا تھا جب اس کا بڑا بھائی ساتھ تھا ۔ یہ زبردست ہاڑ(ہڈی)  کا نوجوان تھا جو شاہی سپاہ میں ملازم تھا ۔ اُس کی کمر میں ایک چوڑی تلوار لگی تھی جس سے وہ اُسے ڈرایا کرتا تھا اور اس دن وہ کس قدر  فخروپندار کے ساتھ اس کے  پہلو بہ پہلو گئی تھی ۔ اس خیال کے ساتھ اسے وہ نووارد  یاد آیا جو عجیب شان سے چند منٹ ہوئے اس کے گھر کے آگے سے گزرا تھا ۔

بچپن کے ایسے ہی خیالات میں منہمک وہ گرجا پہنچی اور صدر دروازے کی سیڑھیوں کی طرف چلی ۔ اِس سوچ میں ایسی کھوئی ہوئی کہ میفسٹو سے ٹکرائی ٹکرائی بچی جو سیاہ لباس پہنے  بازار کے رُخ سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگا کھڑا تھا ۔ ایک دم سے جو اس کا آمنا سامنا ہوا تو مارگریٹ کے سارے خوش گوار خیالات یک لخت منقطع ہو ئے اور اس کے چہرے پر خوف سا طاری ہو گیا ۔  میفسٹو  کے چہرے پر حقارت کے آثار تھے ۔ وہ اُچھل کر پیچھے ہٹی اور کچھ ایسا سہم اُس پر سوار  ہوا کہ ہاتھ میں سے لِلیّ کا پھول چھوٹ کر نیچے گر پڑا ۔ فاؤسٹ جو میفسٹو کے پیچھے کھڑا تھا ، جھپٹ کر آگے آیا اور پھو ل اٹھا کر بڑے پرتپاک طریقے سے پیش کیا ۔ وہ کچھ زبان سے بھی کہنے والا تھا مگر لڑکی کے چہرے کو جو دیکھا تو اس کے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور ایسی کہ پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی ۔ اُس میں کچھ شائبہ خوف کا تھا اور کچھ وہ احساس شامل تھا جو کسی کو پہچاننے میں ہوتا ہے ۔ اُسے ایسا معلوم ہوا کہ جس چیز کی اُسے تلاش تھی وہ اُسے مل گئی ۔ جسے وہ ساری عمر  ڈھونڈتا  رہا تھا وہ ہستی اُس کے پیشِ نظر تھی ۔

مارگریٹ بھی فاؤسٹ سے کچھ کم متحیر نہ تھی ۔ ایک لمحہ پہلے وہ میفسٹو کو دیکھ کر سہم گئی تھی اور اب اُس ہیبت ناک ہستی کی بجائے ایک اور ہی دلکش ہستی سامنے آ گئے تھی —- ایک ہستیِ نور  تھی جو حُسن ، جوانی ، طاقت اور شجاعت کی مکمل تصویر تھی ۔ اِسے وہ اس طرح دیکھ رہی تھی کہ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور لب سے لب جُدا تھا ۔

اِن دونوں کے جسم میں ایک کپکپی دوڑ گئی ۔۔۔ شدید جذبات کی کپکپی ۔ چند لمحے وہ اسی طرح کھڑے رہے اور یہ لمحے اُن کے لیے پھیل کر ابدیت بن گئے ۔ پھول  پر دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کو چھو رہے تھے۔  لِلیّ کا پھول ، معصومیت کا مظہر اُن کے درمیان تھا ۔ پھر ایک سانس زور سے لے کر اُس نے اِس طلسم کو توڑا اور خوف زدہ خرگوش کی طرح وہ سیڑھیوں پر سے اُچھلتی گرجا میں داخل ہو گئی۔ فاؤسٹ بُت بنا اُسے دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ میفسٹو کی کرخت آواز نے اُس کے خیالات کا سلسلہ کاٹ دیا ۔

’’ بے وقوف، سادہ لوح چھوکری جو پادریوں کے پاس بھاگی جا رہی ہے ۔ یہ تیری محبت کے لائق نہیں‘‘۔

فاؤسٹ نے غصہ سے پلٹ کر دیکھا اور چیخ کر بولا:- ’’ دفع ہویہاں سے ۔ پیار محبت اور جسم کی خواہشات کا رونا  ختم کر ۔ مجھ میں نئی نئی آرزوئیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ دنیا میں اور طرح کی امیدوں کا رنگ جھلک رہا ہے ۔ اس میں وہ حسن ہے جو مجھ میں فنا ہو چکا ہے — معصومیت‘‘۔

میفسٹو  نے اُسے تیوری چڑھا کر دیکھا مگر اُس کا جواب گرجا کے باجے کی آواز میں دب کر رہ گیا ۔ سب مل کر حمد گا رہے تھے اور ان سب میں بچوں کی صاف معصوم آوازیں  الگ سنائی دے رہی تھیں :- ’’خدا کی  حمد و ثنا کرو جو زبردست بادشاہوں کا بادشاہ ہے‘‘۔

میفسٹو نے کانوں میں انگلیاں دے لیں  ۔ اُس کے چہرے پر نفرت اور خوف کی شکنیں پڑ گئیں اور گرجا کے قرب سے بھاگ کھڑا ہوا ۔

تیسرا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search