فاؤسٹ (حصہ اول: تیسرا باب)

 In ترجمہ

وہ کمرہ جس میں فاؤسٹ اب داخل ہوا ، نیچی چھت کا اور تنگ و تاریک تھا ۔ یہ شہر کی سب سے غریب آبادی میں تھا ۔

اس کی ہر چیز غربت و افلاس کا اعلان کر رہی تھی ۔ سامان بہت کم تھا ۔ ایک میز، دو کرسیاں ، چند برتن ، اوردو قلعی دار پتیلیاں ایک طرف سلیقے سے رکھی تھیں ۔ ایک نیچے سے جھلنگے نے آدھا کمرہ گھیر رکھا  تھا ۔ اس میں ایک عورت سیدھی اور بے حس و حرکت پڑی تھی ۔ اس کی جلد کی چمک مدھم پڑ چکی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہڈیوں کے ڈھانچے پر کھال منڈھ دی گئی ہے ۔ فاؤسٹ تو اسے دیکھ کر پہلے یہ سمجھا کہ وہ مر چکی ہے لیکن جب اس کا دل ٹٹول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ابھی دل کی حرکت سلب نہیں ہوئی ہے ۔

لڑکی نے کہا ۔ ’’صبح سے اسی طرح بے سدھ پڑی ہوئی ہیں ۔ نہ کچھ بولتی ہیں نہ ہلتی جلتی ہیں‘‘۔

فاؤسٹ اس کی پٹی کے پاس بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ مریضہ کی کمر میں ڈال کر اسے اٹھایا اور غور سے اس کی آنکھوں کو دیکھا ۔ اس میں زندگی کے آثار اب بھی ظاہر نہ ہوئے ۔

فاؤسٹ نے لڑکی سے کہا ۔ ’’مجھے ایک پیالی لا دو‘‘۔

لڑکی نے پیالی لا کر دی اور فاؤسٹ کی مسیحائی پر یقین کر کے اس کی آنکھیں امید سے روشن ہو گئیں ۔

فاؤسٹ نے اپنی تھیلی میں سے شیشی نکالی اور ڈاٹ(ڈھکن) کھول کر دس قطرے پیالی میں ٹپکائے اور بولا ۔ ’’تھوڑا سا پانی لاؤ‘‘۔

لڑکی پانی لے آئی اور اس نے دوا میں پانی ڈال کر آدھی پیالی بھر دی ۔ اس پیالی کو اس نے عورت کے لبوں سے لگا دیا ۔ مگر دانتی (بتیسی) جم گئی تھی ۔ اس کا منہ زبردستی کھولا اور تھوڑا سا پیچھے جھکا کر اس کے حلق میں دوا ٹپکا دی ۔

فاؤسٹ اسے پکڑے رہا اور اس کی آنکھوں کو دیکھتا رہا ۔ لڑکی آگے جھکی ہوئی سانس تک روک کر لے رہی تھی اور انتظار میں ہاتھ مل رہی تھی ۔ پہلے پہل تو کوئی علامت ایسی ظاہر نہیں ہوئی کہ دوا نے کوئی اثر کیا یا نہیں ۔ پھر فاؤسٹ نے لڑکی کو متوجہ کرنے کا اشارہ کیا ۔ اس کی ماں نے آہستگی سے اپنا سر ایک طرف کو پھیرا اور اتنی آہستگی سے اس کی آنکھیں کھلیں اور اس کی جمی ہوئی بتیسی کھل گئی ۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور ہوش کی ایک ہلکی سی جھلک اس کے چہرے پر دکھائی دی ۔

’’اماں ! اماں !‘‘ ۔ لڑکی نے سرگوشی کی سی ہلکی آواز میں کہا ۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں زور پڑنے سے اس کا رشتہ حیات ٹوٹ نہ جائے ۔

ماں نے اپنے ہاتھ پھیلائے گویا سنبھلنے کے لیے وہ کسی چیز کا سہارا ڈھونڈ رہی ہو ۔ اس کی آنکھیں دور جمی ہوئی تھیں ۔ اس کے لب اب اس طرح جدا ہو گئے جیسے کسی نظر نہ آنے والی ہستی سے باتیں کر رہی ہو اور ایک خفیف غم آلود مسکراہٹ نے اس کے چہرے کے خدوخال ملائم کر دیے ۔ پھر ایکا ایکی (اچانک) ایک خوفناک تبدیلی ہوئی ۔ اس کے چہرے کی روشنی گل ہو گئی ۔ پتھر جیسے سخت نقوش ابھر آئے ۔ جبڑا کھل گیا اور ہیجانی کیفیت میں کچھ اس طرح تڑپی کہ فاؤسٹ کی گرفت سے نکل گئی اور جھلنگے پر اس طرح گر کر ڈھیر ہو گئی کہ اس کے بال کھل کر فرش پر لٹک گئے ۔

’’اماں ! اماں ! اچھی اماں ! ایسا نہ کرو‘‘ ۔ لڑکی چیختی ہوئی اس کی طرف دوڑی مگر دس ہزار آوازیں بھی اب اس کو نہ اٹھا سکتی تھیں ۔ طاعون کا تریاق ، فاؤسٹ کی فراست و کشف کا نتیجہ ، اس کی نیک و صالح کوششوں کا پھل ، اپنے ہم جنسوں کو مصیبت سے نجات دلانے کی امیدوں کا سہارا ، سب کچھ خاک میں مل گیا ۔ زندگی کے پوشیدہ مرکزوں پر اس نے اثر کیا ۔ بچی ہوئی چنگاری کو ہوا دے کر اس نے بھڑکا دیا جس نے جسدِ خاکی کو پھونک کر خاکستر کر دیا ۔

’’اماں ! اماں ! اچھی ! مجھے اکیلا مت چھوڑو، یا اللہ ! میری اماں نہ مریں ‘‘۔

مگر اے بچی ، ماں تیری آواز نہیں سن سکتی ۔ وہ تیری آواز کی اب کبھی پروا نہیں کرے گی ۔ نہ تجھے چمکارے گی اور نہ پیار کرے گی ، نہ تجھے گا کر خوش کرے گی اور نہ محنت مزدوری کر کے تیرا پیٹ پالے گی ۔

فاؤسٹ سیدھا کھڑا ہو گیا تھا ۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا ۔ اور اس کے اعصاب کھنچ رہے تھے ۔ اس کی آنکھیں کبھی مردہ عورت کو گھور رہی تھیں اور کبھی بچی کو ۔

’’خدا، اگر کوئی خدا ہے تو ، بالکل بے بس ہے ۔ زمین کے کمزور بچوں کو وہ اس طرح اذیت نہیں پہنچا سکتا ۔ علم ایک دھوکہ ہے ۔ ابلیس قادرِ مطلق ہے‘‘۔

یہ الفاظ اس نے ایک خوفناک سرگوشی میں غصے سے کہے ۔ جذبات کے طوفان نے اسے ہلا ڈالا ۔ غیظ و غضب کی ایسی شدت اس نے جوانی کے گرم خون میں بھی کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔ دوا کے ناکامیاب رہنے اور اپنے عزیز ہم وطنوں کی تکلیف و موت کے خیال نے امدادِ غیبی کے اعتقاد کو کچل کر ریزہ ریزہ کر دیا ۔

اس نے شیشی کو اٹھا کر پورے ہاتھ کی طاقت سے زمین پر دے مارا اور ہانپ کر بولا ۔ ’’وہ  پڑا ہے عقیدہ ۔ وہ پڑا اعتقادِ علم ۔ جھوٹ ہے ، سب جھوٹ ہے‘‘۔

اور پھر مردہ عورت اور اس کی بلکتی بچی کو بغیر دیکھے وہ اس طرح گلی میں نکل کر بھاگا جیسے کوئی دیوانہ ہو۔

چوتھا باب

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search