ایک سچے استاد: فتح علی خاں ۔ علی عدنان (مترجم: کبیر علی)

 In ترجمہ

(علی عدنان    معروف ماہرِ موسیقی ہیں  اور ان کا شمار   پاکستان  میں موسیقی  پہ لکھنے والے   ان    کم  یاب     لوگوں   میں  ہوتا ہے جو موسیقی کے اسرار ورموز سے  علمی اور عملی دونوں    نوعیت کی  گہری شناسائی رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے اردو  میں  موسیقی  پر اس طرح کے مضامین   آج کل    پڑھنے کو نہیں ملتے۔ لہذا   علی  عدنان صاحب   کے اس انگریزی  مضمون کا اردو ترجمہ ان  کے شکریے کے ساتھ  پیش کیا جا رہا ہے۔   یہ مضمون   پاکستان  کے معروف ہفتہ وار جریدے  “فرائیڈے ٹائمز”  میں  تین   قسطوں  میں شائع ہوا تھا ۔ اُس وقت  استاد فتح علی خاں  حیات تھے۔ مترجم: کبیر علی)

استاد فتح علی خاں سے میری پہلی ملاقات اسی کی دہائی میں ہوئی۔ یہ ملاقات لاہور ریڈیو اسٹیشن کی کینٹین پر ہوئی تھی۔ چند گھنٹے قبل ہی  میں کلاسیکل گلوکار ریاض علی خاں سے ملا تھا جو کہ شام چوراسی  کی فنکار جوڑی امتیاز علی، ریاض علی  کا حصہ تھے۔  ریاض علی کے ساتھ ملاقات  خوشگوار نہ رہی تھی۔ لاہور ریڈیو نے مجھے ایک ہفتہ وار پروگرام میں بلایا تھا جس میں  پاکستان کے  با  صلاحیت نوجوان شرکت کیاکرتے تھے۔  اگرچہ مجھے  میری تعلیمی قابلیت کی وجہ سے بلایا گیا تھا جو کہ اچھی تھی، مگر میں  طبلہ بجانے کی مہارت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا جو کہ اتنی اچھی نہیں تھی۔  پروگرام کے پروڈیوسر انتہائی شفیق  صوفی صاحب ( ہر کوئی انھیں صوفی صاحب ہی کہتا تھا اور میرا خیال ہے بہت ہی کم لوگ ان کے اصلی نام سے واقف ہوں گے) نے مجھے شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور ریاض علی کو میرے سولو طبلہ کے ساتھ نغمہ بجانے کی ذمہ دار ی دی گئی۔  ریہرسل کے دوران ریاض علی نے راگ چندر کونس میں  بڑا خوبصورت نغمہ شروع کیا  لیکن میری سنگت میں تال کے کچھ ہی چکر بجا کر بند کر دیا۔   ” منڈے دا طبلہ پورا نئیں اے” اس نے صوفی صاحب کو بتایا۔  اسے میرا طبلہ پسند نہیں آیا، وہ اٹھا  اور کمرےسے نکل گیا۔ یہ  پروگرام میرے طبلے کے بغیر ہی ریکارڈ ہوا۔  شاید میں نے پھر اپنی تعلیم، دلچسپیوں اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق کچھ بات کی تھی۔  ریاض علی کا رویہ اگرچہ قابلِ فہم تھا مگر اس  سے میرا دل ٹوٹ گیا۔

پروگرام کے بعد میں کینٹین کی جانب روانہ ہو گیا تاکہ  تیز “دودھ پتی” میں اپنے غم ڈبو سکوں  ( ان دنوں اس کینٹین پر اس سے زیادہ تیز مشروبات فروخت نہیں ہوتے تھے)۔ کینٹین پر  استاد فتح علی خاں  گھر کے افراد، مداحوں اور موسیقاروں پہ مشتمل مصاحبین  میں گھرے بیٹھے  تھے۔ اس طرح کی بیٹھک   استاد فتح علی خاں کو بہت پسند تھی۔  موسیقی کے پریمیوں اور  موسیقاروں  میں گھِر کر باتیں  کرنا انھیں بڑا اچھا لگتا تھا جس میں وہ  داستان گوئی کی بھرپور صلاحیت، نقل اور گانے کے ساتھ اپنے  سامعین کو محظوظ کرتے رہتے  تھے۔ میں اس نشست میں شامل ہوا اور  بہت مگن ہو کر عظیم استاد کو   جون پوری، درباری، اڈانا او ر آساوری راگوں کے مابین فرق سمجھاتے ہوئے سنا۔  کچھ گھنٹوں کے بعد اذان کی آواز کے بعد محفل بکھرنی شروع ہوئی تو مجھے موقع مل گیا کہ میں استاد جی سے اپنا تعارف کرواؤں۔ عظیم استاد بڑے مہربان اور گرم جوش تھے۔  میں نے انھیں ریاض علی والا واقعہ بھی بتایا۔  انھوں نے کسی  تبصرے کے بغیر اپنے ایک عزیز کو ہارمونیم  اور طبلہ لانے کا کہا۔ “بیٹا! کیا بجا رہے تھے ریاض کے ساتھ؟” انھوں نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے جواب دیا کہ   “تین تال(سولہ ماتروں کا ایک تال) ، اس کے  علاوہ مجھے کچھ اور بجانا نہیں آتا “۔ انھوں نے مجھے کہا کہ میں بجاؤں جبکہ وہ ٹھیکہ ( کسی بھی خاص تال کو متعین کرنے والی بنیادی ضربیں) پڑھنے لگے۔

دھا۔۔دِھن۔۔دِھن۔۔دھا

دھا۔۔دِھن۔۔دِھن۔۔دھا

دھا۔۔تِن۔۔تِن۔۔تا

تا۔۔دِھن۔۔دِھن۔۔دھا

انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سَم (کسی بھی تال کا پہلا ماترہ)،  تالی اور خالی   بتایا اور  کچھ ہی منٹوں بعد میں ٹھیک تال   بجا رہا تھا۔  جب انھیں تسلی ہو گئی کہ میں تین تال ٹھیک بجا رہا ہوں تو استاد جی نے  راگ جون پوری میں اپنی مشہور بندش “موری لگن لاگی”  میری سنگت میں گانا شروع کی۔  میرے دوست حامد محمود نے جو اس روز موٹرسائیکل پر مجھے ریڈیو لے گیا تھا، وقت  ضائع کیے بغیر چھوٹے ڈکٹافون سے ریکارڈنگ شروع کر دی جو میں   انٹرویوز  کے لیے ساتھ رکھتا تھا۔ چند منٹ کے بعد  استاد جی نے گانا بند کر دیا اور کہا “جاؤ اور یہ ریکارڈنگ ریاض کو سناؤ اور کہو کہ ایک استاد اور گویے کا فرق دیکھے”۔ استاد جی نے اسی پر بس نہ کی۔ چند منٹ بعد انھوں نے ایک تالہ (بارہ ماترے کا تال) کا ٹھیکہ پڑھنا شروع کیا۔

دِھن۔۔دِھن

دھاگے۔۔تِرکِٹ

تُو۔۔نا

کَت۔۔تا

دھاگے۔۔ترکٹ

دِھن ۔۔نا

پھر انھوں نے مجھے یہ ٹھیکہ بجانے کا اشارہ کیا۔  تھوڑی ہی دیر میں ، میں ان کے ساتھ  درباری کی ایک بندش “نین سو نین بجائی رکھنے کو” بجا رہا تھا (یہ بندش زاہدہ پروین کے ساتھ ایک  دوگانے کے طور پہ فلم میں بھی ریکارڈ ہوئی تھی)۔ اس کے بعد انھوں نے اسی طرح راگ شاہانہ  کی ایک بندش “لگن لاگی” میرے ساتھ گائی جو کہ جھپ تال  (دس ماترے کا تال) میں تھی:

دِھن۔۔نا

دِھن۔۔دِھن۔۔نا

تِن۔۔نا

دِھن۔۔دِھن۔۔نا

وہ بھی کیا دوپہر تھی! چند ہی گھنٹوں میں استاد فتح علی خاں نے نہ صرف مجھ سے تین تال بجوائی بلکہ  ایکتالہ اور جھپ تال بھی بجوائی۔

میں نے ساری زندگی موسیقی کو  محبت، توجہ اور سنجیدگی سے سنا  تھا مگر اس روز سے قبل مجھے  لفظ “استاد” کے صحیح معنی معلوم نہ تھے۔  میں اس لفظ کو علم، مہارت اور ہنرمندی کے ساتھ جوڑا کرتا تھامگر  میں غلط تھا۔ ایک استاد اپنے سامعین کی مسرت اور سرخوشی کے لیے  محبت، گرم جوشی اور انبساط بانٹتا ہے۔ اسے باقاعدہ تعلیم دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی؛ ایک استاد کے ساتھ  گفتگو بجائے خود ایک تعلیم ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ایک استاد اپنے گرد موجود لوگوں کو محسوس کرواتا ہے کہ وہ  پراعتماد، قابلِ قدر اور خاص ہیں۔ اس دن کے بعد سے  میں سبھی  موسیقاروں کو اسی معیار پر پرکھتا آیا ہوں۔  جو اس معیار پر پورا نہیں اترتے وہ محض گویے ہیں، استاد نہیں۔

آج استاد فتح علی خاں   جنوبی ایشیا کی  گلے کی موسیقی کے سب سے بڑے استاد ہیں جو حیات ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں جنکا نسبی سلسلہ پٹیالہ گھرانے  کے بانیوں سے براہِ راست ملتا ہے۔  پٹیالہ گھرانہ ،گلے کی موسیقی  کے  گھرانوں میں سے نمایا ں ترین گھرانہ ہے۔ اس کی بنیاد میاں کالو خاں نے رکھی تھی  جو استاد دِتے خاں کے بیٹے اور استاد جَسے خاں  کے پوتے تھے۔  میاں کالو نے  ابتدا میں تو اپنے والد سے تعلیم لی پھر “دُھرپد گائیکی” کی تعلیم کے لیے  جے پور کے استاد بہرام خاں ڈاگر  کے پاس گئے اور “خیال گائیکی” کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے  آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے درباری گویے میاں تان رَس خاں کے پاس گئے۔ میاں کالو خاں کے شاگردوں یعنی بیٹے “جرنیل” علی بخش خاں (1920-1850)اور  بھتیجے  “کرنیل  “فتح علی خاں  (1909-1850)نے پٹیالہ گھرانے کی بنیاد رکھی۔

استاد فتح علی خاں کہتے ہیں ” پٹیالہ کی داستان  طویل اور دلچسپ ہے اور اسے ایک ہی دفعہ  بھرپور طریقے سے لکھے جانےکی ضرورت ہے کیونکہ اس کے متعلق بڑی غلط معلومات بھی پھیلائی گئی ہیں”۔ کہانی کا آغاز موسیقی کی ایک کانفرنس سے ہوتا ہے جو اٹھارویں صدی کے آخر میں مہاراجہ پٹیالہ کے دربار میں منعقد ہوئی تھی۔  مہاراجہ اپنی ایک دربارن  گوکھی بائی سے محبت کرتا تھا جو اس کے  محل میں اعزازی مہارانی کے طور پہ رہتی تھی۔  گوکھی بائی نے سکھ ہونے سے انکار کر دیا تھا اور مہاراجہ مسلمان نہیں ہو سکتا تھا لہذا  ان کی  شادی تو ناممکن تھی۔  گوکھی بائی   مہاراجہ  کی  ملازمہ کے طور پہ  محل میں بڑی سہولت اور آرام سے رہتی تھی ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مہاراجہ کے دربار میں خیال گائیکی کو متعارف کروایا۔  مہاراجہ کے بیٹے کو موسیقی سے پیار نہیں تھا اور وہ  گوکھی بائی سے بہت نفرت کرتا تھا۔  اعزازی مہارانی اس لڑکے کے اپنے بارے میں نفرت آمیز  جذبات سے واقف تھی اور ہر وقت   بے یقینی کی صورتحال میں رہتی تھی کہ مہاراجہ کے بعد اس کا مستقبل کیا ہو گاکیونکہ مہاراجہ اس سے عمر میں کافی بڑا تھا۔  وہ ایک  ناخوش خاتون تھی۔

میاں کالو خاں کو کانفرنس کے آخر میں  گانے کے لیے بلایا گیا۔  انھوں نے  راگ  بلاس خانی ٹوڑی پیش کیا جو تان سین کے بیٹے بِلاس خاں نے اختراع کیا تھا۔ اس راگ میں  بھیرویں  کے سُروں  سے ٹوڑی  کی شکل پیدا کی جاتی ہے۔ پٹیالہ کے موسیقی کے پریمی اس مظاہرہ ِفن کو  عشروں بعد تک یاد کیاکرتے تھے۔  میاں کالو خاں کے فن نے  گوکھی بائی کو موہ لیا۔  وہ اسے اور اس کی موسیقی کو اپنے دماغ سے باہر نہ نکال سکی اور  اس نے محسوس کیا کہ مہاراجہ کے بجائے کالو خاں کے ساتھ اس کا مستقبل زیادہ بہتر ہو گا۔  اگلی شام  گوکھی بائی نے محل کو الوداع کہا، ایک نوکرانی کا لباس پہنا اور سیدھا میاں کالو کی رہائش گاہ پر پہنچی۔ وہاں پہنچ کر اس نے  زور سے دروازے پر دستک دی اور میاں کالو کو جگایا جو مہاراجہ  کی محبوبہ  کو اپنے دروازے پر دیکھ کر پریشان اور حیران تھا۔

گوکھی بائی نے میاں کالو سے کچھ اس قسم کی بات کی ہوگی”میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ میں تمھارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ بلکہ تمھارے بغیر اب میری کوئی زندگی ہی نہیں ہے۔ اگر میں تمھارے گھر وقت گزار کر اب محل واپس جاتی ہوں تو مجھے یقین ہے کہ قتل کر دی جاؤں گی۔ اب میری زندگی تمھارے ہاتھوں میں ہے”۔ میاں کالو مہاراجہ کو اچھی طرح جانتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ اب ان کے پاس بھی   اور کوئی چارہ نہیں۔ جیسے ہی مہاراجہ کو معلوم ہوگا کہ اس کی  محبوبہ  نے آدھی رات کو  موسیقار کے ساتھ وقت گزار اہے  تو وہ کالو کو بھی قتل کر دیں گے۔ سراسیمہ  و پریشان میاں کالو نے اسی رات گوکھی بائی کے ساتھ پٹیالہ چھوڑا جبکہ ان کے بیٹے علی بخش خاں اور نبی بخش خاں  ان کی بیگم کے ساتھ پٹیالہ ہی میں رہ گئے۔  میاں کالو اور گوکھی بائی گوالیار کی جانب روانہ ہوئے جہاں میاں کالو کئی موسیقاروں اور موسیقی سے محبت کرنے والوں کو جانتے تھے۔

میاں کالو کے اچانک پٹیالہ چھوڑ جانے پر  علی بخش خاں اور نبی بخش خاں کو ان کے  خالو  نے  گود لے لیا۔  دونوں بھائی اپنے   خالو  ہی کو اپنا  حقیقی باپ سمجھنے لگے۔  نبی بخش خاں چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے۔  اس سے علی بخش خاں کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا جسے ان کے  چچازاد اور زندگی بھر کےرفیق  فتح علی خاں نے  پورا کیا۔ ان دونوں کو ابتدائی طور پہ گیارہ سال تک اپنے  خالو  سے تعلیم ملی۔اپنے لڑکپن میں علی بخش خاں کو معلوم ہوا کہ اسے  ا س  کے  حقیقی والد کے بجائے اس  کے  خالو  نے پالا ہے۔  اس  عجیب رشتے پر اسے  پٹیالے میں  بہت اہانت کا سامنا کرنا پڑا۔  حرام زاد ہ ہونے کے الزامات سن کر اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ اداس  ہو گیا اس نے   اپنے خالو کو آمادہ کیا کہ وہ  اسے اس کے حقیقی والد سے ملوانے کے لیے گوالیار لے چلیں۔  اس سفر میں فتح علی خاں نے بھی ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔  دونوں چچازاد اس کے بعد پھر کبھی جدا نہ ہوئے۔

 

میاں کالو کو پٹیالہ چھوڑے  پندرہ برس ہو چکے تھے ، اس دوران گوکھی بائی کا ایک بیٹاپیدا ہوا جس کا نام عبداللہ خاں تھا۔  میاں کالو نے اپنے بیٹے کو موسیقی کی تعلیم نہایت  شوق سے دی کیونکہ اس کا مستقبل روشن نظر آتا تھا۔ جب علی بخش خاں  اپنے والد کے گھر پہنچا تو عبداللہ خاں خوش نہ ہوا۔ وہ اپنے والد کی محبت اور توجہ میں کسی دوسرے کو حصے دار نہیں  بنانا چاہتا تھا۔  اس نے اپنے والد کو علی بخش خاں کو تعلیم دینے سے روکا اور دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے سوتیلے بھائی کو موسیقی سکھانا شروع کی تو وہ  خود موسیقی چھوڑ دے گا۔  آنے والے دن  جذبات اور  تناؤ سے بھرپور تھے۔ میاں کالو،  عبداللہ خاں کی محبت اور  علی بخش خاں کے لیے اپنے احساسات کے درمیان  بکھر کر رہ گئے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عبداللہ خاں پر ان کی کی گئی ساری محنت بے کار جائے اور نہ ہی وہ یہ چاہتے تھے کہ علی بخش خاں  کو ایک بار پھر سے   دھتکار دیں۔   گوکھی بائی ان دنوں اپنے خاندان سے ملنے انبالے  گئی ہوئی تھی لہذا وہ  میاں کالو کو وہ مدد اور مشور ہ فراہم نہیں کر سکیں جو انہیں اپنی بیوی سے  درکار تھا۔  اس صورتحال سے  علی بخش خاں بہت  غم زدہ ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد  اس کا اپنے والد کے ساتھ بہت جھگڑا ہوا اور اس نے  اداسی اور غصے میں  گوالیا ر چھوڑ دیا۔  جب گوکھی بائی  گوالیار واپس آئی تو  اسے اپنی غیر موجودگی میں ہونے والے تمام واقعات پر افسوس ہوا۔  اس  نے  اپنے بیٹے کو حاسد اور تنگ ذہن ہونے کا طعنہ دیا اور میاں کالو کو کہا کہ اپنے اس بیٹے سے  اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں جسے انھوں نے  اس کے بچپن میں چھوڑ دیا تھا اور اب پندرہ سال بعد بھی  اسے اچھے طریقے سے خوش  آمدیدکہنے میں ناکام رہے تھے۔  گوکھی بائی نے علی بخش خاں کو  سارے خاندان کی طرف سے معذرت  کے لیے قاصد  بھیجے،  اسے  گوالیار واپس آنے  پر ابھارا اور وعدہ کیا کہ اسے  محبت کے ساتھ ساتھ  موسیقی کی تعلیم بھی   ملے گی۔  کچھ  ہی ہفتوں بعد علی بخش خاں ، فتح علی خاں کے ساتھ گوالیار لوٹے اور  اپنے والد سے تعلیم لینا شروع کی۔  علی بخش اور فتح علی خاں کی قابلیت نے  عبداللہ خاں کی صلاحیت کو گہنا  دیا۔  کچھ برس کی تعلیم کے بعد میاں کالو دونوں موسیقاروں کو  ڈاگر خاندان کے مشہور دھرپد گائیک اور  جے پور کے مہاراجہ رام سنگھ کے درباری گویے استاد بہرام خاں کے پاس لے گئے ۔ جب استاد بہرام خاں سے دونوں کی تعلیم مکمل ہوئی تو میاں کالو نے  استاد نتھن پیر بخش  کے پوتوں  استاد حدوخاں اور حسوخاں  سے درخواست کی کہ وہ  علی بخش خاں اور فتح علی خاں کو   اپنی سرپرستی  میں لے لیں۔  میاں کالو ابھی تک اپنے  ذہین  ترین شاگردوں کی تعلیم سے مطمئن نہ ہوئے تھے۔  دھرپد گائیکی کے زوال  کے پیشِ نظر وہ چاہتے تھے کہ ان  کے دونوں شاگرد خیال گائیکی  سیکھیں۔ استاد مبارک علی خاں  رِیوا والے  اس زمانے کے  معروف  خیال گائیک  تھے۔  میاں کالو کی ہدایت پر  علی بخش اور فتح علی خاں  ، استاد مبارک  علی خاں کے شاگرد ہوگئے  اور ان سے خیال کی تعلیم لینا شروع  کی۔  برسوں کی کڑی تپسیا کے بعد  دونوں کو عزت و شہرت  نصیب ہوئی اور وہ علیا۔فتو کے نام سے معروف ہوئے۔

چند سال بعد مغل دربار کے معروف گائیک  میاں تان رس خاں  نے  اپنی زندگی ہی میں اپنی برسی  منانے کا فیصلہ کیا۔  اس زمانے میں برسی  کے موقع پر  بہت  بڑی بڑی محافلِ موسیقی ہوا کرتی تھیں۔ میاں تان رس خاں چاہتے تھے کہ  وہ  اُس  موسیقی  کو  اپنے کانوں سے سنیں جو  ان کی  برسی  کے موقع پر بجا کرے گی۔  وہ نہیں چاہتے تھے کہ  اپنی وفات کے باعث  اپنی برسی میں شرکت سے محروم رہیں۔  علیا-فتو  اس محفل میں شرکت کے لیے  میاں کالو خاں اور  استاد حدو خاں وحسو خاں کے ساتھ  دہلی روانہ ہوئے۔ اس برسی پر دونوں  کا مظاہرہء فن  یاد گار   تھا اور  باقی سب  موسیقاروں  کا  مظاہرہء فن ان کے سامنے پھیکا پڑ گیا۔ میاں کالو خاں جانتے تھے  کہ ان دونوں نے استاد حدو، حسو  خاں اور استاد مبارک علی خاں سے جو  سیکھنا تھا وہ سیکھ چکے  ہیں۔  اب  وہ چاہتے تھے  کہ دونوں  میاں تان رس خاں کے شاگرد ہو جائیں۔  انھوں نے  بڑے طریقے اور مہارت کے ساتھ  حدو، حسو خاں سے اجازت لے لی کہ علیا-فتو کو  تان رس خاں کی شاگردی   کرنے دی جائے۔ اگلی صبح ، میاں کالو دونوں نوجوان  موسیقاروں کو   میاں تان رس خاں  کے گھر لے گئے  اور  دیکھا کہ  وہ  چاندی کے  اس  پلنگ پر  آرام کر رہے ہیں جو بہادر شاہ ظفر نے اپنے اس سب سے  بڑے  درباری گائیک کو تحفہ دیا تھا۔  علی بخش خاں اور فتح علی خاں نے  تان رس خاں  کے پاؤں  چھوئے  اور ان سے درخواست کی وہ  کچھ گا کر عنایت کریں۔  استاد نے علی  بخش  اور فتح علی خاں سے کہا  کہ وہ ان کے تانپورے “ساون ” اور “بھادوں” بجائیں۔یہ نام دو موسموں کے نام پر رکھے گئے تھے۔  جبکہ استاد نے  راگ پوریا گانا شروع کیا۔  اگرچہ یہ صبح کا وقت تھا  مگر  تان رس خاں   نے شام کا یہ راگ کچھ ایسے زور  دار طریقے سے گایا کہ  ان کے گانے کے دوران  دن کی روشنی  غائب ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دونوں نوجوان قائل ہو گئے کہ  تان رس خاں  ایک استاد ہیں   کہ جن کا علم ان دونوں کے علم  سے کہیں بڑھ کر  ہے اور وہ  ان کے شاگرد ہو گئے۔ آئندہ   برسوں میں  میاں تان رس خاں نے  دونوں موسیقاروں کو اپنی بنائی ہوئی بندشیں سکھائیں  جن کی تعداد بعض لوگوں کے دعوے کے مطابق پانچ ہزار  سے بھی زیادہ تھی۔ دونوں کا فن  پہلے ہی  معتبر  تھا  مگر میاں تان رس خاں کی تعلیم  نے  اس میں ایسا نکھار  پیدا کر  دیا کہ   وہ دونوں   شمالی  ہندوستانی موسیقی کے  عظیم  ترین  فنکار  قرار پائے۔  علیا-فتو کی  شہرت دور دور تک پھیل گئی۔  وہ  سارے ملک  کے  محلات  اور درباروں میں  گانے لگے۔  موسیقی کی  کوئی  بھی بڑی محفل ان دونوں کے بغیر   مکمل نہ سمجھی جاتی تھی اور  نواب  اور مہاراجے ان دونوں  کا  گانا اپنے محلات میں سننا  اپنی شان سمجھتے تھے۔

موسیقی میں بیس برس  تک تعلیم  حاصل کرنے کے بعد  علیا-فتو نے  موسیقی کا پٹیالہ گھرانہ  قائم کیا جس میں  گوالیار، جے  پور، دہلی  اور رِیوا گھرانوں  سے حاصل شدہ علم کے علاوہ ان دونوں کی  اپنی  ذہانت  اور اُپج  بھی شامل تھی۔ ان کے طرزِ گائیکی کو   ہر طرح کے  سامعین  میں  مقبولیت ملی۔ اس میں استاد حدو خاں  اور حسو خاں کا الاپ ( تال کے بغیر گایا جانے والا راگ کا  ابتدائی حصہ) اور سلسلہ وار بڑھت؛ استاد مبارک علی خاں کی تیزی  اور تان کاری ؛ استاد  بہرام خاں  کی صحیح خوانی (راگ کو  درست طریقے سے گانا)  اور   میاں تان رس خاں  کی  ولمبت گائیکی  (دھیمی لے کی گائیکی) اور  لے کاری  شامل تھی ۔

بالآخر  علیا-فتو  پٹیالہ  میں  سکونت پذیر   ہوئے  جہاں وہ  مہاراجہ راجندر سنگھ  کے درباری گویے بن گئے اور  پھر   یہ ریاست   انھوں نے مہاراجہ  کی وفات کے بعد  ہی چھوڑی۔  جرنیل علی بخش  خاں  ٹونک  چلے گئے جہاں  وہ نواب کے  درباری گویے بن گئے۔  نواب   ، موسیقی سے محبت کرنے والا ایک صاحب ِ ذوق  شخص تھا   جس نے  علی بخش خاں کو جرنیل  اور فتح علی خاں کو کرنیل کا  خطاب  دیا۔  کرنیل فتح علی خاں  کشمیر چلے گئے جہاں وہ  مہاراجہ پرتا پ سنگھ کے درباری گائیک بن گئے  جبکہ جرنیل علی بخش خاں ، مہاراجہ بھوپندر سنگھ  کے دور میں پٹیالہ واپس   آ گئے  اور پھر اپنی وفات تک وہیں رہے۔

جرنیل علی بخش کے ایک ہی  بیٹے  استاد اختر حسین خاں  (1972-1900) تھے  جو  1947 ء تک  پٹیالہ میں رہے اور پھر  لاہور  آ گئے۔  ان کے تین بیٹے  استاد  امانت علی خاں  (1974-1931)، استاد فتح علی خاں  (2017-1933) اور استاد  حامد علی خاں (پیدائش 1953ء) تھے  جو تینوں کے تینوں  پاکستان   کے  ہردلعزیز  گائیک بنے۔  جبکہ  کرنیل  فتح علی خاں کے ایک ہی بیٹے  استاد عاشق علی خاں  (1949-1890) تھے   ، جنھوں نے شادی نہ کی  اور لہذا ان کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔

استاد فتح علی خاں افسوس  سے کہتے  ہیں کہ ”  لوگ اپنے ذاتی مقاصد  کے لیے تاریخ کو  بدل ڈالتے ہیں۔  حالیہ برسوں میں  استاد بڑے غلام علی خاں  کے خاندان  والوں نے پٹیالہ گھرانہ  کی تاریخ کے متعلق  بہت ساری غلط  معلومات پھیلائی ہیں۔  استاد بڑے غلام علی  خاں   سبھی زمانوں کے عظیم ترین  اساتذہ میں سے ایک تھے اور پٹیالہ گھرانہ کے شاگرد تھے۔ ان کے والد  علی بخش قصور والے  اور ان کے  چچا میراں بخش ( جو کالے خاں کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں) دونوں  کرنیل فتح علی خاں کے شاگرد تھے۔  بڑے غلام علی خاں نے پہلے اپنے چچا  اور  پھر اپنے والد سے  سیکھا۔  1932ء میں وہ لاہور کے   تکیہ میراثیاں  میں ہونے والی  ایک  بہت بڑی محفل میں  استاد اختر حسین خاں  اور استاد عاشق علی خاں کے  گنڈا بندھ  شاگرد ہوئے۔  وہ ایک  ایماندار  شخص اور ایک عظیم فنکار تھے۔  وہ جانتے تھے کہ  کس طرح اپنے استادوں اور اپنے استاد خانہ ( استاد کا خاندان) کی عزت کرنی ہے۔ ہماری موجودگی میں جب بھی  وہ   کسی محفل میں گاتے  تو نذر (سینئر  موسیقاروں اور اساتذہ کو دی  جانی والی رقم) دینا  نہ بھولتے  حالانکہ وہ ہم سے سینئر تھے۔  وہ ایمانداری  کے فوائد اور دعاؤں  کی قوت  کو سمجھتے  تھے۔  دیکھیے انھوں نے  اس ادب کا کیسا پھل پایا۔  ان کے حصے میں آنے والی  شہرت  و عظمت  کم ہی  فنکاروں کو نصیب ہوئی اور  وہ اس کے حقدار بھی تھے۔  ادھر ان کی آنکھیں بند  ہوئیں  اور ادھر  ان  کی  نئی پود نے   اس دعوے کے ساتھ  خود کو پٹیالہ گھرانے  سے دور کرنا شروع کر دیا کہ وہ  “قصور-پٹیالہ” گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قصور-پٹیالہ نام کا کوئی گھرانہ  نہیں ہے اور اگر تھا تو   کم ازکم استاد بڑے غلام علی خاں تو اس سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے “قصور-پٹیالہ” کے  الفاظ ایک بار بھی اپنی زندگی میں استعمال نہیں کیے۔ ان کے بیٹے  منور علی خاں نے  قصور-پٹیالہ کا سارا جھگڑا شروع کیا اور  اس  بات سے  انکار کرتے رہے کہ ان کے والد  استاد اختر حسین خاں  اور  استاد عاشق علی خاں کے شاگرد ہوئے تھے  حالانکہ  1932ء  میں ہونے والی اس رسم  کے  بیسیوں گواہوں کو یہ واقعہ یاد ہے۔ اور پھر نتیجہ کیا نکلا؟ خدا نے  ان کی  بے ایمانی  کی سزا یوں دی کہ ان کے گانے  سے  تاثیر   اور  روح  غائب ہو گئی۔  استاد بڑے غلام  علی خاں کا پوتا  رضا علی خاں تو اس سے بھی  آگے  نکل  گیا  اور   قصور-پٹیالہ گھرانے سے متعلق  ایسے  دعوے کر دیے کہ جن کا حقیقت سے  کوئی تعلق  نہیں  تھا۔ اور  آج آپ  اس کی گائیکی  کو دیکھیں؟ نہ کوئی  علم ،نہ کوئی  خوبصورتی اور نہ کوئی  تاثیر۔  موسیقی  صرف ایمانداری ، محبت اور دعا سے عبارت ہے۔  جو لوگ ایمانداری سے  موسیقی سیکھتے ہیں ،  اس سے محبت کرتے ہیں  اور  بڑوں کی دعائیں لیتے ہیں،  وہی اس میدان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ باقی سب ناکام رہتے ہیں۔ ”

استاد فتح علی خاں نے  اپنا فن باقاعدہ  طور پہ    پہلی بار  اپنے  بڑے بھائی  استاد امانت علی خاں کے ساتھ  گیارہ برس کی  عمر میں  کلکتہ کی آل انڈیا  میوزک کانفرنس میں  پیش کیا۔ انہوں نے راگ ایمن  گایا  جبکہ طبلے پر  پنڈت کنٹھے مہاراج اور  سارنگی  پر  پنڈت گوپال مشرا  سنگت کر رہے تھے۔ بڑے غلام علی خاں  محفل میں موجود تھے  اور انھوں نے   اپنے استاد خانہ  کے خلیفوں  کو  نذر پیش کی  اور   پیشگوئی  کی    کہ دونوں لڑکے  بہت  ترقی کریں گے۔

اگلی بڑی پرفارمنس پنڈت  جیون لال مٹو نے لاہور کے  وائی۔ایم۔سی۔اے ہال  میں منعقد کی۔ پنڈت روی  شنکر، استاد  حافظ  علی خاں اور استاد  بسم اللہ خاں  بھی محفل میں موجود تھے اور  دونوں  بھائیوں  نے  راگ باگیشری   پیش کیا جبکہ  طبلے  پر گورمکھ سنگھ   اور  سارنگی پر  حیدر بخش فلوسہ  نے  سنگت کی۔  مہاراجہ پٹیالہ کا  بھائی  بھی محفل میں موجود تھا۔  وہ  پٹیالہ سے  تعلق رکھنے والے  ان  نوجوانوں کی صلاحیت  سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے انھیں دعوت دی کہ وہ  مہاراجہ پٹیالہ  کی سالگرہ کے موقع پر گائیں۔  پٹیاجہ کے دربار میں  اپنی پہلی بڑی پرفارمنس  کے لیے  استاد امانت علی اور فتح علی خاں نے راگ درباری تیار  کیا۔ یہ پرفارمنس  نصف شب  سے ذرا دیر بعد شروع ہوئی۔ ایک طویل  اور پرسکون الاپ کے بعد، انھوں نے ایکتالے  میں   “بڑے خیال ” ( دھیمی لے میں گایا جانے والا  خیال کا حصہ) میں  مشہور بندش گانا شروع کی ” مبارک  بادیاں شادیاں، توہے  دینی اللہ رسول” اور  اختتام  “چھوٹے خیال ” (تیز لے میں گایا جانے والا خیال کا حصہ) ” کچھ  عجب کھیل کرتار  کے” کے ساتھ کیا جو دُرت  (تیز)  تین تال میں تھا۔  مہاراجہ نے اسی وقت انھیں  اپنے درباری  گویے مقرر کر دیا۔  کچھ ہی ہفتوں میں  استاد امانت علی اور فتح  علی خاں  کو سارے ملک کے درباروں  سے  شرکت کے دعوت نامے ملنے لگے  اور  وہ موسیقی کی  بڑی محافل  میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ  ریڈیو سٹیشنز  پر بھی گانے لگے۔  اس زمانے میں  درباری موسیقاروں  کو  دعوت  دینے  کا   صحیح طریقہ  یہ ہوا کرتا تھا کہ  سب سے پہلے   متعلقہ  مہاراجہ اور  نواب سے  اس کے درباری  فنکاروں سے رابطہ کرنے کی اجازت لی جاتی تھی۔  جب اجازت مل جاتی تو   فنکاروں کے پاس قاصد  بھیجے جاتے  جو  بیعانہ  (کچھ پیشگی  معاوضہ)، تحائف اور مٹھائی پیش کرتے ۔ یہ ان دونوں  بھائیوں کے لیے سنہرے  دن تھے جب وہ غیر منقسم  ہندوستان کے طول و عرض  سے   شہرت،   نام  اور  داد وصول کر رہے تھے۔

مگر یہ دن زیادہ  عرصہ تک برقرارنہ رہ سکے۔1947ء کے لگ بھگ  پٹیالہ میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل  کے بعد  اس خاندان کا  وہاں  رہنا ناممکن ہو گیا اور وہ  1948ء میں لاہور ہجرت کر آئے۔ اگلے کچھ برس اس خاندان کے لیے بڑے مشکل  تھے۔ انھیں مجبوراً  استاد ناظم علی خاں سارنگی نواز کے گھر مہمان بن کر  رہنا پڑا تاوقتیکہ انھوں نے  اپنا ذاتی گھر خریدنے کے لیے پیسے اکٹھےنہ کر لیے۔  استاد فتح علی خاں کہتے ہیں ” صرف ہم جانتے ہیں کہ  تقسیم  کے دنوں میں  ہم پر کیا بیتی۔  یہ بہت بڑا المیہ تھا۔  ہمارے دوست،  خاندان والے، ہمارے گھر اور ہماری  جاگیر چھن گئی۔ لاہور پہنچنے پر ہمارے پاس صرف موسیقی رہ گئی تھی۔یہ ایسا وقت نہیں تھاکہ لوگ  موسیقی سننے میں دلچسپی دکھاتے۔  ہر کسی نے  جذباتی  اور مادی ہر طرح کے بڑے مصائب جھیلے  تھے،  اور  غم میں ڈوبا ہوا تھا۔  یہ ایسا وقت نہیں تھاکہ  فنکار  لوگ  گا بجا کر  اپنی روزی کما سکتے۔ ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑی۔”

استاد فتح علی خاں محسوس کرتے ہیں کہ  انھیں اور ان کے   خاندان  کو  درپیش مشکل وقت نے  انھیں ایک بہتر فنکار بننے میں مدد دی۔  وہ کہتے ہیں ” ایک اچھے  گائیک  اور ایک عظیم فنکار میں  فرق ہے۔  ایک اچھے فنکار میں یہ چار خوبیاں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ وہ کہ و ہ  جانکار (صاحبِ علم)  ہوتا  ہے؛ دوسری یہ کہ وہ سُر   اور لے میں گاتا ہے؛ تیسری یہ کہ وہ راگ اور تال   کو سمجھتا ہے  ؛ اور  چوتھی یہ کہ  وہ جانتا ہے کہ  سامعین  سے کس طرح ناتا  پیدا کرنا ہے۔ہر اچھے فنکار کے لیے لازم ہے کہ اس میں یہ چاروں خوبیاں ہوں  اور اگر ہزاروں نہیں تو سیکڑوں گانے والے تو ایسے ہوں گے جن میں یہ  خوبیاں موجود ہیں۔  لیکن صحیح معنوں میں  عظیم فنکار چند ایک ہی ہوں گے۔ ایک “عظیم فنکار” وہ ہوتا ہے جس نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہوں؛ ایک ایسا  شخص  جس نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں، محبت اور بے وفائی  کا  تجربہ ہوا ہو،دوستوں اور دشمنوں  کا سامنا کیا ہو، غربت اور  تونگری  میں سے گزرا ہو، اور  زندگی کے سبھی رنگوں  کو  سمجھنے کی کوشش کی ہو۔  جب ایک “عظیم فنکار”  گاتا  بجاتا ہے تو  اس کی زندگی کے سارے  تجربے  اس  کے فن میں اترآتے ہیں۔  جب وہ کسی  ایسے  احساس  کو اظہار کی شکل  دیتا  ہے  جو  سامعین کا بھی  احساس   ہو تو دونوں   کی سانجھی  گونج سے  پھر جادو  تخلیق ہوتا ہے۔ ہم ایک لمحے کے لیے میڈم نور جہاں  کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے گھرانے کی  شاگرد تھیں۔ جب میں انھیں سنتا ہوں  تو میں  راگداری، لے کاری، سُر اور تال کو نہیں دیکھ رہا ہوتا کیونکہ یہ تو موجود ہوتے ہی ہیں،  بلکہ میں  ان جذبات اور احساسات کو  دیکھ  رہا ہوتا ہوں  جو ان کے تجرباتِ زندگی کے طفیل ان  کی موسیقی میں  درآتے ہیں۔  اور جب میں  ان کے گانے  میں  کسی ایسے جذبے کا اظہار دیکھتا ہوں جس کا مجھے ذاتی طور پہ تجربہ ہوا ہو، تو   میری  آنکھوں میں  آنسو  آ جاتے ہیں۔  یہ ایک  عظیم فنکار  کی طاقت ہے۔  اس کے تجربات، احساسات  اور جذبات ، موسیقی کی شکل میں اپنا اظہار  پا کر سامعین کی انھی کیفیات  سے اتصال کرتے ہیں۔”

استاد فتح علی خاں کی گائیکی میں پٹیالہ گھرانے  کے سبھی منفرد خواص اور اجزا  پائے جاتے ہیں۔  وہ ان  خوبیوں پر  فخر کرتے ہیں  جو  پٹیالہ گھرانے کو دوسرے گھرانوں  سے  امتیاز بخشتی ہیں۔  “ہمارے گھرانے میں آواز  کو بنانے پر  بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔  ہمارے گائیک  تین مکمل  سپتکوں  میں گاتے ہیں   اور اس  دوران اپنی آواز کی  صوتی خوبیوں کو  بھی برقرار رکھتے ہیں۔  آواز   کھلے گلے  سے نکلتی ہے اور زور دار ہوتی ہے مگر  اس میں  کرختگی نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ  میٹھی  اور تقریبا  ناک سے  نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔  ہمارے گائیک  تال اور لے  پر مکمل  قابو رکھتے ہیں۔  ہم بہت زیادہ پیچیدہ  تالوں میں نہیں گاتے کیونکہ یہ عمل  سامعین کے لیے  مشکلات پیدا کرتا ہے۔  ہم تال کی معروف اقسام  کو ترجیح دیتے ہیں  مثلا دادرا  (چھ ماترے کا تال)، کہروا (آٹھ ماتروں کا تال)، جھپ تال ، ایکتالہ اور تین تال ۔ پیچیدہ  تالوں  کے جھنجھٹ   میں پڑنے  کے  بجائے  ہم اپنی توجہ  تال کو  درست  طور پہ قائم رکھنے میں صرف کرتے ہیں۔  پٹیالہ میں ہم   النکار( زیوراتِ موسیقی) پر  بہت زور دیتے ہیں  مگر یہ کام ایک حد میں رہتے ہوئے  بڑی احتیاط سے  کیا جاتا ہے۔  مینڈھ، گمک ، کھٹکا (سُروں کا ایک گروہ  جو تیزی سے  اس طرح گایا جاتا ہے کہ  ہر سُر  واضح طور پہ الگ سنائی  دیتا ہے)، مُرکی (کھٹکے کی ایک  لطیف قسم)، زمزمہ  (پنجاب میں مستعمل  کھٹکے کی ایک  قسم جس میں سُروں کو ترتیب  وار  لگایا جاتا ہے) اور  موسیقی  کے دوسرے  النکار   مہارت سے استعمال کرنا  ہماری  خاصیت ہے۔  جو تانیں ہم ولمبت ( دھیمی لے) میں استعمال کرتے ہیں وہ  خیال کے اس حصے  کے لیے  خاص ہوتی ہیں۔  جبکہ دُرت  (تیز لے) میں ہم  مختلف تانیں استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح ترانے کی تانیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔  خیال میں  استعمال ہونے  والے بہلاوے  (سُروں کا  آہستہ  رو برتاؤ) ٹھمری کے بہلاوں سے مختلف ہوتے ہیں۔  النکاروں   میں مہارت  ہی کافی نہیں  بلکہ  فنکار کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ   کوئی النکار  کب اور  کہاں  استعمال کرنا ہے۔ پٹیالہ میں  ہم  ہرقسم کی تانیں  درست  وقت اور  موقعے پر استعمال کرتے ہیں ۔ ان میں پھرت، بول تان، سپاٹ، کومل تیور، گمک، آکار، سَری، کُوٹ، لڑنت اور  گیت کاری کی تانیں شامل ہیں۔  ہم اپنے ساتھ سنگت کرنے والوں کے ساتھ   “سوال جواب”   سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔  ہم نہیں چاہتے کہ طبلہ نواز صرف ٹھیکہ بجاتا رہے یا  سارنگی والا    ہمارے  گانے کی  محض پیروی کرتا رہے۔  ہم چاہتے  ہیں کہ وہ بھی موسیقی  کے مظاہرے میں شامل ہوں۔ قدیم  اور مستند بندشوں کا  ہمارا   خزانہ ہی ہمارا اصل ورثہ  ہے۔ ہماری بندشوں کی وراثت پر کوئی دوسرا  دعوی نہیں کر سکتا۔ ”

استاد فتح علی خاں   دہلی، گوالیار، جے پور اور پٹیالہ  کی  خیال  کی بندشوں کا ایک  انسائیکلوپیڈیا ہیں۔  استاد جی  کہتے ہیں”  مجھے سیکڑوں ایسی  بندشیں یاد ہیں  جو  میرے  بچے  بھی نہیں جانتے۔ میں اپنے  شاگردوں اور  اپنے  خاندان کے افراد کو بڑی ایمانداری کے ساتھ  سکھاتا ہوں۔  خدا نے مجھے  اس قدر وسیع  خزانہ بخشا ہے کہ  میرے حافظے میں موجود  ان سب چیزوں کی    آگے منتقلی  میں  زمانے  بیت جائیں گے۔”

1980ء کی دہائی  میں  ، میں لاہور کے علاقے کریم پارک میں  استاد جی کے گھر   جایا کرتا تھا۔  جب کبھی  وہ موج میں ہوتے ، اور خاص طور پہ جب ان کا بھتیجا اسد امانت علی  خاں  ان کے قریب ہوتا تو وہ  ایسی بندشیں سنایا کرتے  جن کے متعلق  وہ کہا کرتے تھے کہ  پچھلے سو سال میں یہ کسی کو  سننی  نصیب نہیں ہوئیں۔ مختلف مواقع پر انھوں نے    108 ایسی بندشیں   مجھے ریکارڈ کرنے کی  اجازت  دی۔ میں نے اپنی ساری  زندگی میں  (80000 ) اسی ہزار  گھنٹوں سے زیادہ  کی موسیقی اکٹھی کی ہے اور  میں نے یہ بندشیں کسی دوسرے  گائیک  سے کبھی نہیں سنیں۔  شاید استاد جی وہ  واحد زندہ شخص ہیں جنھیں   یہ  بندشیں یاد ہیں۔

استاد فتح علی خاں  صرف اپنے مخلص  شاگردوں   اور کچھ   خاص لوگوں  کے معاملے ہی  میں  فیاض ہیں وگرنہ وہ     مستند  بندشوں کے اس وسیع خزانے  کی سختی سے حفاظت کرتے ہیں۔ استاد جی فخر کے ساتھ  اعلان کرتے ہیں کہ ” ہم خیال کے لیے نئے بندشیں نہیں بناتے ۔ ہم خیال میں  صرف پرانی  بندشیں گاتے ہیں۔  بعض اوقات ہم  ٹھمری کے لیے  بندشیں  بناتے ہیں  مگر خیال کے لیے   ہمیں  نئی چیزیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔  مجھے اپنے استادوں سے  سیکڑوں بندشیں عطا ہوئی ہیں۔  جو ایک زندگی کے عرصے کے لیے  بہت زیادہ ہیں۔ ”

استاد جی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ  ان بندشوں کا مکمل متن  عوامی محفلوں میں نہیں گاتے۔ وہ کہتے ہیں ”  مجھے اپنے  ورثے کی حفاظت کرنی ہے۔ اگر میں  ان چیزوں کا  مکمل  متن گانے لگوں تو   کمتر درجے کے گانے والے  بھی وہ گانے لگیں گے  اور دعویٰ کریں گے کہ یہ ان کا ورثہ ہے۔ میں اس   کی اجازت نہیں دے سکتا۔ صرف  مخلص شاگرد اور  موسیقی  سے محبت کرنے والے لوگ ہی  گوالیار، دہلی، جے پور اور پٹیالہ  کی  ان روایتی بندشوں  کا مکمل  متن سن سکتے ہیں۔ میں ان چیزوں کو اپنے شاگردوں سے نہیں چھپاتا۔ ایک اچھی طرح بنی ہوئی  بندش،  ایک راگ کی آروہی، امروہی اور پکڑ(سُروں کے ایسے  مجموعے جن سے راگ کی شکل واضح ہوتی ہے) سے زیادہ  اہم ہوتی ہے۔  یہ کسی بھی راگ کی مکمل  شکل دکھاتی ہے  اور  اس راگ کا وادی (کسی بھی راگ کا سب سے اہم سُر)،  سم وادی (راگ کا  دوسرا اہم سُر) ظاہر کرتی ہے اور  راگ  کو درست طور پہ گانے میں  فنکار کی  رہنمائی کرتی ہے۔اگر بندش اچھی طرح کمپوز شدہ نہیں ہے تو  موسیقار کو  سُر اور لے  کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مشکل ہو گی۔ کوئی راگ اس وقت تک درست طریقے سے نہیں گایا جا سکتا جب تک کہ  بندش بے عیب نہ ہو۔ ”

ان کے شاگرد عباس علی خاں ، استاد جی کی اپنے  شاگردوں کے ساتھ  فیاضی کی قسم کھاتے ہیں۔ عباس کہتے ہیں” میں ایک اتائی  (غیر میراثی فنکار) ہوں مگر  استاد  جی نے ہمیشہ  مجھے اپنا سمجھا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ  انھوں نے  مجھے میرے  حق سے زیادہ  بتایا ہے۔  جب میں قریبا ً دس سال قبل  اپنے پہلے البم پر کام کر رہا تھا تو انھوں نے  مجھ سے فرمایا کہ  بھوپالی کو  جدید انداز میں ریکارڈ کروں۔  میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا اور  وہ گانا اس  البم  کا سب سے مقبول  گانا تھا ، اور  یہی  میرے موسیقی کے سفر میں ایک مثبت موڑ تھا۔”

بہ طور ایک استاد ، استاد فتح علی خاں  کا اخلاص  پوری دنیا میں معروف ہے۔مشہور ستار نواز استاد ولایت خاں نے   امریکہ میں  مقیم اپنے ایک افغانی شاگرد ہمایوں  خان کو  برسوں تک تعلیم دی  اور پھر  اسے کہا کہ  گائیکی کی تعلیم کے لیے   پاکستان میں استاد فتح  علی خاں کے پاس  جاؤ۔  ہمایوں کہتے ہیں ، ” استاد جی کے ساتھ میرا  تجربہ بڑا جادوئی رہا۔ جب میں ان کا شاگرد ہوا تو  مجھے اردو نہیں آتی تھی اور انھیں  انگریزی    بہت تھوڑی آتی تھی۔ تاہم وہ  بڑے  موثر طریقے سے مجھے تعلیم دینے میں  کامیاب ہوئے۔ کوئی ایسا سوال نہیں تھا جس کا وہ جواب نہ دیں اور کوئی ایسا راز نہ تھا جسے وہ نہ کھولیں۔  وہ ایک مثالی استاد ہیں۔”

استاد فتح علی خاں  کی فراخ دلی  صرف اپنے  محبت کرنے والے مخلص لوگوں  تک  علم پہنچانے تک محدود نہیں ہے؛  وہ ایک شفیق اور بڑے دل والے انسان ہیں۔  وہ نہ صرف  پٹیالہ گھرانہ بلکہ  حریف گھرانوں کے  اچھے گانے والوں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ استاد جی تسلیم کرتے ہیں کہ ” میں  بہت سے گویوں کا گانا سنتا  ہوں۔ بڑے غلام علی  خاں، نصیر احمد خاں، امیر خاں، سلامت علی خاں اور روشن  آراء بیگم۔ بڑے فنکاروں  کا گانا سننے اور اس سے سیکھنے میں کوئی برائی نہیں۔ اگر وہ اچھے ہیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ آپ کے گھرانے سے ہیں یا کسی دوسرے گھرانے سے۔ یہ ایسا شعبہ نہیں ہے کہ جس میں آدمی  تنگ ذہن  ہو اور کامیاب بھی ہو جائے۔  میں نے استاد گویوں کو سن کر بہت کچھ  حاصل کیا ہے۔”ــ

“روشن آراء بیگم   بیسویں صدی کے عظیم  ترین فنکاروں میں سے ایک تھیں۔ وہ موسیقی  کا گہرا علم رکھتی تھیں۔ وہ صحیح  خوانی کی  امام تھیں۔  وہ راگ کو بڑے صبر،  مہارت اور  قاعدے میں رہتے ہوئے کھولتی تھیں۔ ان کی تیاری  شاندار تھی۔ مگر وہ  اس کے باجود بڑی عاجز تھیں اور ہر وقت سیکھنے کو تیار رہتی تھیں۔ بیگم صاحبہ  ان بندشوں کی  بڑی قدردان تھیں جو  جرنیل علی بخش  خاں کے شاگرد  اللہ دیا خاں مہربان نے بنائی تھیں۔ وہ  یہ  بندشیں سیکھنے کے لیے باقاعدگی  سے عاشق علی  خاں کے پاس آتی تھیں  اور ان میں سے تین  انھوں نے ریکارڈ بھی کروائیں۔تین تال میں کیدارا راگ کی ایک  مشہور  بندش انھیں خاص طور پہ  پسند تھی۔

ہند میں نام  کیو فتح علی خاں نے

کیا فرق ہے جرنیل کپتان میں

اللہ مہربان، کانٹ ایسو دِیئو

جس کی دھوم  مچی سارے جہان میں

تان کپتان

جگ میں کہلا گئے فتح علی خاں

تان بلونت کی ایسی پھرت ہے

جیسے ارجن  جی کے بان

حتیٰ کہ ہمیں  محسوس ہوا کہ ان کی بندش تو  کئی پٹیالہ والوں سے  بھی بڑھ کر ہے۔

“میری باقاعدہ تعلیم تو میرے والد  سے اور استاد عاشق  علی خاں سے ہوئی مگر میں نے بڑے غلام علی خاں اور استاد امیر خاں کو سن کر بھی بہت کچھ  سیکھا۔ بڑے غلام علی خاں کا سُر  کا لگاؤ  بہت شاندار تھا۔ ان کا انداز سمجھنے کے لیے  میں انھیں  بڑے غور سے سنتا تھا۔استاد امیر خاں  کا گانا  سن کر میں نے راگ کی  بڑھت  کا مطالعہ کیا۔اچھے فنکار ہمیشہ سیکھنے  پر آمادہ رہتے ہیں۔ سیکھنا کبھی  ختم نہیں ہونا چاہیے۔”

استاد  امید علی خاں کا بھی استاد فتح  علی خاں کے گانے  پر بڑا اثر  تھا۔ استاد جی کہتے ہیں” وہ میرے  ماموں تھے اور  گوالیار گھرانہ کے شاگرد  تھے۔ وہ استاد عاشق علی خاں پٹیالہ والوں کے ساتھ  جگل بندی  گایا کرتے تھے۔ کم ہی فنکار ہوں گے جو  ان کی راگ داری (راگ کو درست طریقے سے گانا) کا مقابلہ کر سکیں۔وہ راگ کی مکمل فطرت کو  الاپ  کے دوران  دکھا سکتے تھے۔وہ بہت استادی  سے  بہلاوے اور مرکیاں استعمال کرتے  تھے۔ مجھے ان کے گانے سے بڑی محبت تھی  جو ان  کی بیٹی سے  میری  شادی پر منتج ہوئی ، اگرچہ ہماری عمر وں میں بڑا  فرق تھا۔ میں بس  اس عظیم استاد  سے  جُڑے  رہنا چاہتا تھا۔”

پٹیالہ گھرانے نے  کسی بھی دوسرے گھرانے سے زیادہ تعداد میں  مشہور  فنکار پیدا کیے ہیں۔ استاد عاشق  علی خاں، بڑے غلام علی خاں، استاد برکت علی خاں، استاد امانت علی خاں، استاد فتح  علی خاں، محمد حسین سرہنگ، اختری بائی فیض آبادی، غلام علی، پنڈت اجے چکربرتی، فریدہ خانم، زاہدہ پروین، حسین بخش ڈھاڑی، پروین سلطانہ، میرا بینرجی، حسین بخش گلو، نرملا دیوی، حامد علی خاں، اسد امانت علی خاں، کوشکی چکربرتی اور بلاشبہ ملکہ ترنم  نور جہاں۔ اس متاثر کن فہرست میں خیال، ٹھمری، ترانہ،  دادرا، غزل، گیت، کافی، چیتی، ٹپہ، سادرااور بہت سی دیگر  اصنافِ گائیکی  کے ماہر فنکار شامل ہیں۔ کسی دوسرے گھرانے نے  گائیکی کی سبھی  اصناف  میں مہارت سے گانے والے اتنے فنکار پیدا نہیں کیے۔

استاد فتح  علی خاں  بڑے فخر سے  دعویٰ کرتے ہیں کہ ، “ہمارا واحد  گھرانہ ہے جو موسیقی کی تعلیم پر  زور دیتا ہے۔ ہم خیال ، یا ٹھمری،  یا غزل  یا کوئی دوسری   مخصوص صنف نہیں  سکھاتے۔ ہم اپنے شاگردوں کو موسیقی  کی خالص ترین شکل  سکھانے پر توجہ دیتے ہیں۔  پٹیالہ کے گائیک جو چاہیں  گا سکتے  ہیں۔  برکت علی خاں  نے غزل گائیکی کی  بنیاد  رکھی اور وہ  ٹھمری  کے بھی استاد تھے۔  فریدہ خانم اور  غلام علی سبھی زمانوں کے  دو عظیم  ترین   غزل گائیک ہیں۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو زاہدہ پروین اور  حسین بخش ڈھاڑی  کی طرح کافی گا  سکیں۔ بیگم اختر نے وہ  معیار مقرر  کیا جس پر  آج غزل، دادرا اور  ٹھمری  کو جانچا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک  نورجہاں  سبھی زمانوں کی عظیم ترین  گلوکارہ تھیں، اگرچہ انھوں نے  اپنے  کیرئر میں  زیادہ  تر غزل اور گیت ہی گائے ہیں۔عاشق علی خاں، بڑے غلام علی خاں اور امانت علی خاں خیال کے استاد تھے۔ہم مرثیہ خوانی  بھی کرتے ہیں، جسے چھونے سے بھی بہت سے  فنکار  ڈرتے ہیں۔ امانت علی خاں نے  مشہور مرثیہ، “مجرئی خلق میں ان آنکھوں سے  کیا کیا دیکھا” کو پہاڑی میں  کمپوز کیا۔”یہ سوچتا ہوں  عابد کا حال کیا ہو گا” ٹوڑی میں  میری  کمپوزیشن ہے۔ ہمارے مرثیے اس صنف کا معیار بن گئے ہیں۔ آج میں خیال، ترانہ، ٹھمری، دادرا، غزل،  کافی، گیت، نعت، مرثیہ، سوز اور نوحے  گاتا ہوں۔ اکثر  موسیقار یہ  دعویٰ نہیں کرسکتے۔ جب  کوئی درست طریقے سے  گائیکی  جانتا ہے  تو پھر اصناف   کی بات نہیں ہوتی؛ صرف موسیقی  کی بات ہوتی ہے۔یہ ہے وہ چیز جو  پٹیالہ  گھرانہ سکھاتا ہے۔”

دنیائے موسیقی میں  بے  پناہ  صلاحیت اور مقام  رکھنے کے باوجود ، استاد  جی  بہت زیادہ  عاجز ہیں۔ وہ ساتھی  فنکاروں اور  سنگت کرنے والوں،   منتظمینِ سٹیج، آڈیو انجینئرز اور پروگرام کے منتظمین  سے   بہت تھوڑے مطالبات  رکھتے ہیں۔ استاد فتح  علی خاں کاکہنا ہے”موسیقارکو سب سے پہلے  تو ایک اچھا انسان ہونا چاہیے۔ وہ موسیقار جو دوسروں کی زندگی  مشکل کرتا ہے   ، ایک عظیم  فنکار نہیں ہے۔ اپنے فنی سفر کے دوران   عظیم ترین طبلہ نوازوں نے میرے ساتھ سنگت کی ہے مثلا  احمد جان تھرکوا، اللہ رکھا خاں، شوکت حسین خاں، چتر لال، کنٹھے مہاراج، اللہ دتہ بہاری پوریا، کریم بخش پیرنا اور اسی طرح سبھی  بڑے سارنگی نوازوں نے  بھی میرے ساتھ سنگت کی ہے مثلا  نتھو خاں، ناظم علی خاں، نبی بخش خاں، گوپال مشرا، رام نارائن، بندو خاں، حامد حسین خاں۔ اس کے باوجود میں نے کبھی اس بات کا بُرا نہیں مانا کہ   نوجوان  ابھرنے والے فنکار میرے ساتھ سنگت کریں۔ یہ میرا فرض ہے کہ  نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کروں اور  انھیں سنگت کا فن سکھاؤں۔ کسی بہت  بڑی توپ چیز  ہونے کی اداکاری کرنے پر میں یقین نہیں رکھتا۔ اپنے علمِ موسیقی کے متعلق مجھے  غیر محفوظ ہونے کا احساس نہیں ۔”

دراصل، استاد  فتح علی خاں ان چند فنکاروں میں سے  ہیں جو سارنگی اور طبلے پر    اپنے ساتھ سنگت کرنے والوں  کو خالص جگل بندی انداز میں   بجانے  کی اجازت دیتے ہیں۔ امانت  علی-فتح علی اور سلامت-نزاکت  وہ جوڑیاں ہیں جنھوں نے  ہماری موسیقی میں  طبلے اور سارنگی  والے کے ساتھ  “سوال جواب” پر مشتمل  مکالمہ  متعارف کروا یا ہے۔  یہ  رجحان ، جو ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان میں زیادہ پایا جاتا ہے،  ساتھی فنکاروں  کو  ایسی  پہچان دلاتا ہے جو  انھیں صدیوں تک  زندہ رکھتی ہے۔

سات عشروں  پر پھیلے  شاندار فنی سفر کے  دوران  استاد فتح علی خاں نے  پوری دنیا میں  اپنا فن دکھایا ہے، تاہم وہ ہندوستان اور  افغانستان میں  گا کر سب سے زیادہ لطف لیتے ہیں۔  ان کا ماننا ہے کہ” پاکستان میں   عظیم گائیک تو   موجود  ہیں مگر  یہاں بہترین سامعین  موجود نہیں ہیں۔  میری بہترین پرفارمنس   کلکتہ اور کابل میں ہوا کرتی ہے۔ پاکستان میں ایک ہی جگہ ہے جہاں  گانا گا کر میں واقعی لطف لیتا ہوں اور وہ جلال پور جٹاں کا گاؤں ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کے سامعین  اس ملک  کے بہترین سامعین ہیں۔”

1988ء میں استاد فتح علی خاں نے جلال پور جٹاں کی ایک محفل میں مجھے  اپنے ساتھ  لے جانے کے لیے بلایا۔  یہ محفل قصبے کی مسیحی برادری  کی جانب سے ایک مقامی  چرچ میں منعقد کی گئی تھی۔استاد شوکت حسین اور استاد ناظم علی خاں بھی ہمارے ساتھ ہی  اس قصبے میں پہنچے۔ چرچ چھوٹا تھا اور اس میں بہ مشکل تین سو سامعین کی گنجائش تھی۔ استاد فتح علی خاں  گاؤں جاتے ہوئے راگ درباری گانے  کا سوچ رہے تھے مگر جب وہ  سٹیج پر گئے تو انھوں نے ارادہ بدل لیا اور  راگ  جے جے ونتی گانا شروع کیا۔  ان کا الاپ 20 منٹ تک جاری رہا جو  گوالیار کے  رنگ میں تھا۔اس میں انھوں نے ایک تالہ  (بارہ ماتروں کا تال) میں بڑے خیال (دھیمی لے میں گایا جانے والا خیال کا حصہ) کی بندش “پیا گھر نہ آئے” گائی جس میں اَتی وِلمبت (بہت ہی  دھیمی ) لے رکھی یعنی ایک منٹ میں تقریبا آٹھ ماترے ۔ اس کے لیے نہ صرف فنکاروں کو بہت توجہ سے  گانا بجانا پڑتا ہے بلکہ سامعین  کو بھی بہت دھیان دینا پڑتا  ہے  مگر  محفل میں ہر کوئی  تیار بیٹھا تھا اور سبھی سامعین  نے   بھرپور  تال میل سے  شرکت کی۔ استاد فتح علی خاں نے  اطمینان  سے جے جے ونتی کو کھولنا شروع کیا اور نہایت مہارت سے اس راگ کے اسرار منکشف کرنے لگے۔ایک گھنٹے بعد  استاد جی  سکون کے ساتھ بہلاوے لے رہے تھے کہ جب ایک  لمحے کے لیے ان کی توجہ چُوک گئی۔  وہ سہو سے  “تُو” (پانچواں ماترہ) کو “دِھن” (گیارواں ماترہ) سمجھ بیٹھے اور  تِیا استعمال کر کے غلط طور سے سَم پر آنے لگے تھے  کہ شوکت صاحب نے بھانپ لیا کہ کیا ہونے لگا ہے انھوں نے استاد کو درست ماترے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے فوری طور پہ  “ڈگی  “(بڑا طبلہ)  کی ایک خاص ضرب لگائی۔اگرچہ  استاد فتح علی خاں بے تال تو نہ ہوئے مگر یہ ان    کا  پہلا موقع  تھا کہ جب وہ  عوامی محفل میں  ٹھیکہ بھلا بیٹھنے  کے قریب پہنچ گئے تھے۔ بہت سے گائیک اس موقع پر  طبلہ نواز کو صورتحال کا الزام دیتے  مگر  استاد فتح علی خاں نے  استاد  شوکت حسین خاں کی طرف سے ملنے والی مدد کا یہ کہتے ہوئے اعتراف کیا کہ “یہ مجھے بچا گئے ہیں” اور اپنے سامنے پڑے ہوئے نذر کے تمام پیسے شوکت صاحب کی جانب  بڑھا دیے۔لاہور واپسی کے سفر  کے دوران  انھوں نے مجھے بتایا کہ اگر  کوئی چھوٹا طبلہ نواز ہوتا تو  وہ مجھے غلطی کرنے دینا اور پھر سارے ملک میں  اس کی مشہوری کرتا پھرتا مگر شوکت صاحب  ایک  شریف آدمی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا” شوکت نے برسوں میرے ساتھ سنگت کی ہے۔وہ جانتا ہے کہ  کس طرح میرا ذہن پڑھنا ہے اور کس طرح میرے من بھائے طریقے سے میرے ساتھ سنگت کرنی ہے۔ آج جتنی دھیمی لے  پہ میں گایا ہوں شوکت  کے علاوہ کوئی بھی سنگت نہیں کرسکتا تھا۔ کوئی بھی نہیں۔ دنیا میں اس سے اچھا طبلہ نواز کوئی نہیں ہے”۔

استاد فتح علی خاں کی  استاد سلامت علی خاں کے ساتھ عمر بھر کی دوستی اور  پیشہ ورانہ  مقابلے بازی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کا گہرا  احترام کرتے  تھے۔  مجھے 1989ء میں لاہور قلعے کا ایک واقعہ یاد ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے  بہار کی آمد  منانے کے لیے  “جشنِ بہاراں” کے نام سے ایک شو کا  انتظام کیا تھا۔ دونوں  استاد ، پچاس دوسرے فنکاروں کے ساتھ  پروگرام   میں بلائے گئے تھے۔ ہماری روایتِ موسیقی  میں اس بات کا سختی سے دھیان رکھا جاتا ہے کہ سینئر فنکار، جونئیر  فنکار  کے بعد  گائے۔  پروگرام کے پروڈیوسر  ز، دونوں  استادوں کے درمیان ہونے والے ممکنہ جھگڑے  پر پریشان تھے کیونکہ  جس ترتیب  میں وہ  گاتے اس سے  ان کے سینئر جونئیر ہونے کی  نشاندہی  ہوتی۔  جب سب  گائیک گا چکے تو  گرین روم میں تناؤ مزید واضح ہو گیا۔دونوں استاد اس بات سے واقف تھے کہ  کیا ہو رہا ہے اور ان دونوں  میں سے ہر ایک نے   اپنے طور پر    فیصلہ کر لیا تھا  کہ   وہ  صورتحال  کے  تناؤ کو ختم کرنے کے لیے   پہلے گانے کی  پیشکش کرے گا ۔ وہ کچھ بھی  ثابت کرنا نہیں چاہتے تھے ؛ دونوں کو  اپنی اپنی مہارت پر  پورا بھروسہ تھا اور دونوں ہی پہلے  پرفارم کرنے پر یکساں طور پر رضا مند تھے۔ خیر،  پہلے استاد سلامت علی خاں نے درباری   راگ پیش کیا اور بعد میں استاد فتح علی خاں نے  محفل کا شاندار اختتام  مالکونس گا کر کیا۔ میں ایک ماہانہ رسالے کے لیے  محفل  کا حال قلمبند  کر رہا تھا۔  استاد جی نے مجھے ہدایت دی کہ   اپنی رپورٹ میں   اس ترتیب کا ذکر نہ کروں جس ترتیب سے دونوں استاد اس رات گائے تھے۔  انھوں نے مجھے مزید بتایا کہ ، ” ہم میں سے کوئی  بھی دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ اس ترتیب کے بارے میں لکھنا کہ جس سے ہم  گائے ہیں، ہماری دوستی  کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گا۔ ”

اب استاد فتح علی خاں کا کہنا ہے  کہ  ” میری اور  سلامت علی خاں کی پیشہ ورانہ رقابت کے  بارے میں  بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ یہ رقابت تو موجود ہی نہیں تھی بلکہ  معاملہ اس کے الٹ تھا۔  ہم ایک دوسرے کا بہ طور انسان اور بہ طور  فنکار  بہت احترام کرتے  تھے۔  موسیقی کے میدان  میں میرے طویل اور کٹھن سفر  میں  وہ  میرے واحد ساتھی تھے۔ ہم دونوں نے اپنے  گانے کا آغاز اپنے اپنے بھائی کے ساتھ جوڑی کی شکل میں کیا اور ہم دونوں نے  اپنے سفر کے بالکل  عروج میں اپنے  ان بھائیوں کو کھو دیا۔ ہم ایک دوسرے کی موسیقی سمجھتے تھے۔ ہم ایک دوسری  کی  معیت  سے لطف اندوز ہوتے  تھے۔  ہم موسیقی،  زندگی، مذہب  اور سیاست کے متعلق  گفتگو کرنا پسند کرتے تھے۔  کچھ ایسی چیزیں تھیں جن کے متعلق  میں صرف  سلامت علی خاں کے ساتھ  گفتگو کر سکتا تھا۔ صرف وہی اس بات کو سمجھتے تھے کہ پاکستان میں استاد ہونے کا کیا مطلب ہے۔  میں  انھیں بھی اسی طرح سے یاد کرتا ہوں جس طرح سے  امانت علی خاں کو یاد کرتا ہوں۔ ”

استاد فتح علی خاں  بہت دکھ سے کہتے ہیں کہ” میں نے اپنی زندگی میں  بہت دکھ  سہے ہیں۔  میں نے اپنے بھائی کو اس وقت کھود یا جب میں فقط چالیس برس کا تھا۔  میرے والد نے ہماری   تعلیم کچھ اس طرح کی  تھی کہ ہم خیال  گائیکی کے حصوں میں ایک دوسرے کا  سہارا تھے۔ امانت علی خاں الاپ اور بہلاوں  پر توجہ دیتے تھے۔   جبکہ  تان اور تیاری  میری   خاصیت تھی۔ ان کی موت سے   مجھے دہرا نقصان ہوا۔  میں نے ایک بھائی کے ساتھ ساتھ  موسیقی کا  ایک ساتھی  بھی کھو دیا  تھا۔  یہ  میرے والد کی وفات کے فقط دو برس بعد  ہوا تھا۔  ان  کی موت نے مجھے جذباتی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا  اور میں ایک لمبے عرصے تک گانا نہ گا سکا۔ میری والدہ ،جو مشہور استاد ، پیارے خاں کی صاحبزادی تھیں ،نے مجھے  اس گہرے  ڈپریشن سے نکالا  کہ جس میں میں  لگاتار دو  اموات  کے باعث چلا گیا  تھا۔  انھوں نے میری مدد کی کہ میں خیال کے اس حصے کا ریاض کروں کہ جو امانت علی خاں کا تھا۔ ان کی حوصلہ افزائی، رہنمائی اور دعاؤں سے میں دوبارہ گانے کے قابل  ہو سکا۔

میں نے  امانت علی خاں کے بیٹے اسد کو اپنے بیٹے کی طرح پروان چڑھایا اور  ایک باپ کی طرح اسے موسیقی کی تعلیم دی۔  اسد چاہتا تھا کہ  وہ میرا باقاعدہ شاگرد ہو  جائے مگر میں نے  انکار کر دیا کیونکہ کوئی بھی اپنے بیٹے کو اپنا  “شاگرد’ نہیں بناتا۔ وہ میرے لیے ایک بیٹا  ہی تھا۔  کچھ  سال پہلے میں نے اسد کو بھی کھو دیا۔  وہ بھی بڑا  نقصان تھا  مگر  میرا سب سے بڑا نقصان  میرے چھوٹے بھائی حامد علی خاں کے ساتھ میرے تعلقات کا تھا۔  وہ زندہ ہے  مگر ایسی زندگی گزارتا ہے جس میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔  میں نے اسے ایک باپ کی طرح پروان چڑھایا تھا۔  میں نے اسے ایک استاد کی طرح سکھایا تھا۔ اور ایک روز وہ آرام سے مجھے چھوڑ گیا۔ زندگی بڑی مشکل ہے۔”

شراب اور دیگر منشیات  اس خاندان پر کبھی بھی مہربان نہیں رہیں۔  استاد عاشق  علی خاں  افیون کے عادی تھے۔ استاد امانت علی خاں کی شراب سے محبت نے  ان کی زندگی  چھین لی۔ نشوں نےاسد کی زندگی اور  میوزک  پر قبضہ کر لیا جب وہ  تیس سال سے بھی کم عمر تھا۔استاد فتح علی  خاں اعتراف کرتے ہیں  کہ، ”  مجھے شراب سے ڈر لگتا ہے۔  شراب نے مجھ سے  اتنا کچھ چھین لیا ہے کہ مجھے اس کے پینے سے نفرت ہو گئی ہے۔  لوگوں نے  شراب اور دوسری منشیات  سے مجھے متعارف کروانے کی کوشش کی ہے مگر میں نے ہمیشہ  مزاحمت کی۔ شراب نوشی سے کچھ  حاصل نہیں ہوتا ۔ بس آدمی  کا بہت کچھ چھن جاتا ہے۔”

استاد فتح علی خاں  اب اسلام آباد میں رہتے ہیں جہاں وہ ایک اکیڈمی اور اپنے گھر پر  موسیقی کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ پاکستان میں  موسیقی کی صورتحال پر  خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ” انڈیا میں کچھ اچھے گویے  ابھر رہے ہیں۔ استاد نصیر احمد خاں کے خاندان کے کچھ لوگ انڈیا میں اچھا گا رہے ہیں۔  مگر پاکستان میں صورتحال اچھی نہیں ہے۔ میرا بیٹا رستم فتح علی خاں اچھا گا رہا ہے مگر اسے  سخت محنت، بہت زیادہ  محنت کی ضرورت ہے۔ سلامت علی خاں کا بیٹا شفقت  سلامت علی خاں  ایک باصلاحیت اور  علم والا  فنکار ہے  مگر  وہ  سُروں پر   درست طریقے  سے ٹھہرنہیں   پاتا ۔ آج پاکستان میں کوئی  شخص ایسا نہیں ہے جس میں ایک بڑا فنکار     بننے کے آثار نظر  آئیں۔ اب تو یہ  خدا کے ہاتھوں میں ہے۔  صرف وہی پاکستان میں موسیقی کو واپس لا سکتا ہے۔ ”

 

ماخذ: فرائیڈے ٹائمز

https://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20130308&page=16

 

Recommended Posts
Comments
  • محمد
    جواب دیں

    سبحان اللہ ۔ یہ اپنا راحت فتح علی خان کہاں سے ہے ؟

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search