منظور اعجاز کی آپ بیتی ۔ مشتاق صوفی (مترجم: کبیر علی)

 In ترجمہ

منظور اعجاز کی آپ بیتی: ہمارے ماضی قریب کی ایک داستان

پاکستان کی پہلی نسل کے افراد میں سے ڈاکٹر منظور اعجاز کی طرح کے سخت جان افراد بہت کم ہوں گے۔ اپنی معذور ی کے باوجود وہ اپنے بظاہر صحت مند ہم عصروں کی نسبت جسمانی اور فکری طور پہ کہیں زیادہ فعال ہیں۔
’’مجھے اپنے اوائل بچپن کے حالات زیادہ یاد نہیں ۔ بس اتنا یاد ہے کہ مجھے بخار ہُوا تھا اور میری ایک ٹانگ مفلوج ہو گئی تھی۔ بہت بعد میں جب میں شہر میں آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ مجھے پولیو وائرس ہُوا تھا۔‘‘ یہ باتیں ڈاکٹر منظور اعجاز نے وِچار پبلشرز ، ورجینیا/ ساہیوال سے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی آپ بیتی ’’جندڑئیے: تن دیساں تیرا تانا‘‘ میں لکھی ہیں۔
یہ بصیرت سے بھرپور عام فہم تجزیوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب ہے۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے متنوع تجربات کو خانوں میں محدود کرنے سے گریز کیا ہے؛ اُن کے نزدیک نجی زندگی اور عوامی زندگی کے مابین کوئی حد نہیں ہے۔ نجی زندگی، عوامی اور عوامی زندگی، نجی ان معنوں میں ہے کہ دونوں اٹوٹ طریقے سے جُڑی ہوئی ہیں اور بالترتیب فرد کابیان اور افراد کا مجموعی اظہار ہوتی ہیں۔ اجتماعی تجربہ بے معنی ہو گا اگر یہ فرد کو اسکی کلیت کے ساتھ شامل کرنے میں ناکام رہے اور فرد چونکہ ناگزیر طور پہ سماجی فطرت کا حامل ہے لہذا وہ اجتماعی دائرے سے باہر رہ ہی نہیں سکتا۔ اُن کی تحریر کا ایک اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی اور اس میں ملنے والے لوگوں کی زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک سماجی۔ثقافتی اور سیاسی۔معاشی تناظر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز نے اُس قلبِ ماہئیت کی تو ضیح و تشریح میں نہایت ذہانت سے کام لیا ہے جو پچھلے ساٹھ برسوں میں پنجابی اضلاع کے روایتی دیہاتوں میں واقع ہوئی ہے۔ ساہیوال میں واقع اُن کے گاؤں بُرج والا نے ایک طرح کی کیس سٹڈی کا کام دیا ہے۔ وہ دیہاتی زندگی کے تین ادوار نہایت تفصیل سے بیان کرتے ہیں: بجلی سے قبل کا دیہات، بجلی کے بعد کا دیہات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کا دیہات۔ بجلی کی آمد سے قبل کا دیہات ایک خود کفیل یونٹ ہوتا تھا جو اپنی زندگی کے ہزاروں برسوں میں بہت تھوڑی تبدیلی سے گزرتا تھا۔ یہ بنیادی ضرورتوں پہ مشتمل ایک سادہ زندگی تھی جسے بمشکل ہی ’’دیہاتی سادہ لوحی‘‘ سے باہر جانے کی ضرورت پیش آتی تھی اور جوقدیمِ طریقہ ہائے پیداوار اور پرانی توہمات پہ چلتی تھی۔ساٹھ کی دہائی میں ٹریکٹر اور برقی آلات کی آمد سے دیہاتی سماج کے صدیوں سے ٹھہرے پانی میں ہلچل پیدا ہوئی۔ اُن کے الفاظ میں یہ ’’پیداواری طریقوں میں تبدیلی‘‘ تھی جس سے وہ روایتی دیہات اپنے انجام کو پہنچا جس پر کبھی مارکس نے ہندوستانی سماج کے تجزیے کی بنیاد رکھی تھی۔ میکانکی کاشت سے دیہات شہر سے جڑنے لگے جس سے سیاسی۔معاشی تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ عمل نامختتم تھا۔ اگلا اہم مرحلہ دیہات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستیابی تھی جس سے یہ دنیا سے جڑنے لگا، نام نہاد گلوبل دنیا سے۔
ڈاکٹر اعجاز کا دیہات کا پُر بصیرت بیان ہمارے ذہن کو ویسے ہی متاثر کرتا ہے جیسے مشہور شاعر پاش کے اشعار میں دیہات کا بیان ہمارے جذبات اور تخیل کو انگیخت کرتا ہے۔
پنجاب میں طلبا سیاست اور سیاسی جدوجہد بالخصوص لاہور کے بارے میں اُن کا تجزیہ حقائق کے اعتبار سے نہایت صائب ہے اور بڑی حد تک معروضی ہے۔ کالجوں اور جامعات کی شاخوں میں دائیں اور بائیں بازو کے غلبے کی نہایت کٹھن جدوجہد میں وہ خود ایک فعال شریک رہے ہیں۔ جیسا کہ منظور اعجاز بھی بتاتے ہیں، بائیں بازو کے لیے یہ جدوجہد خاص طور پہ مشکل تھی کیونکہ دائیں بازو کے پاس بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پہ اُن قوتوں کی حمایت موجود تھی جو سٹیٹس۔کو کی حامی تھیں اور اب بھی انھیں یہ حمایت حاصل ہے۔ وہ بڑی نرمی کے ساتھ سماج کی تاریخی حقیقت پر بائیں بازو کی کمزور گرفت کی نشاندہی کرتے ہیں، وہی سماج جس میں یہ لوگ اپنے انقلابی اقدامات سے تبدیلی کے خواہاں تھے۔ بائیں بازو کا انقلابی نظر آنے والا یہ دعویٰ کہ وہ ’’ٹھوس صورتحال کا ٹھوس تجزیہ‘‘ کریں گے دراصل کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ پس تمام بائیں بازو کی طلبا تحریک سیاسی لحاظ سے ایک افسوسناک انجام کو پہنچی، یہ رجعت پسندانہ نظریات پہ پنپنے والی نہایت طاقتور روایتی سیاست کے طوفان کا سامنا نا کر سکی۔ بائیں بازو سے وابستہ طلبا تنظیموں کے حوالے سے منظور اعجاز کی تنقید بڑی مضبوط ہے کیونکہ یہ جماعتیں کوئی ایسی مضبوط نظریاتی بنیاد فراہم کرنے میں ناکام رہیں جو انقلابی قوتوں کے لیے ایک رہنما کا کام دے سکے۔
دنیا بھر میں سفر کرنے والے منظور اعجاز اس زمین کا بہت سا حصہ گھوم چکے ہیں ، یقینا اپنے امریکی پاسپورٹ کے ساتھ۔ہندوستان کے اسفار بالخصوص مشرقی پنجاب میں اُن کی آمدورفت کے باعث وہ اس قابل ہوئے کہ پنجاب کے دونوں حصوں میں ہونے والے سیاسی۔ معاشی سفر پر تبصرہ کر سکیں۔ اُن کے گہرے مشاہدات صریح طور پہ انکشاف انگیز ہیں۔
مشرقی پنجاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں، ’’وہاں کسانوں کو مفت بجلی ملتی ہے اور ان کی فصلوں کی پیداوار بہتر ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے شہروں کو دیکھیں تو صاف پتہ چلے گا کہ وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور وہاں بہت تھوڑی تبدیلیاں آ سکی ہیں۔ مثال کے طور پہ جالندھر کو لیجیے جو مشرقی پنجاب کا ثقافتی مرکز ہے۔ یہ کسی لحاظ سے ساہیوال سے آگے نہیں ہے ( اور ساہیوال مغربی پنجاب کا ایک چھوٹا سے خوابیدہ شہر ہے)۔۔۔ تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب کے دونوں حصوں کو ملتے جلتے حالات کا سامنا رہا ہے۔ دونوں میں ساٹھ کی دہائی میں سبز انقلاب آیا۔ اس سے اگلے عشرے میں مشرقی پنجاب میں نکسل باڑیوں کی موج نے جھاڑو پھیر دیا اور مغربی پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتا۔ اسی اور نوے کے عشروں میں مشرقی پنجاب میں بنیاد پرست خالصتانی تحریک نے انتشار پھیلایا تو مغربی پنجاب میں ضیاالحق نے سماج پہ ایک خاص قسم کے اسلام کو مسلط کیا جس سے فرقہ واریت اور جہادی تشدد کو فروغ ملا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ دونوں پنجاب دو مختلف ملکوں کا حصہ بنے اور دو مختلف سیاسی نظاموں کے تحت رہے مگر دونوں ایک دوسرے کا عکس رہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ عوام کا طبقہ اگر ہزاروں سال تک تاریخ، جغرافیہ اور زبان سانجھی رکھے تویہ آگے بڑھنے کے لیے محض سات عشروں میں مختلف راستوں پر گامزن نہیں ہوسکتے۔‘‘
منظور اعجاز نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر امریکہ میں پنجابی زبان ، ادب اور ثقافت کے فروغ کے سلسلے میں بڑا کام کیا ہے اس مقصد کے لیے انھوں نے کتابیں شائع کی ہیں، پنجابی ڈرامےسٹیج کیئے ہیں اور پاکستان کی بڑی سیاسی شخصیات کے ساتھ گفت وشنید کی ہے۔ البتہ ایک بات کھلتی ہے ،جو لوگ منظور اعجاز کو جانتے ہیں اور اُس زمانے کو جانتے ہیں جس کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ منظور نے قدرے ڈھکی چھپی آپ بیتی لکھی ہے؛ وہ بہت سی باتوں کو بعض لوگوں کے جارحانہ ردِ عمل کے پیشِ نظر اَن کہی چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ ایک لکھاری کا انتخاب ہوتا ہے۔ اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ جس بات کو وہ اَن کہی چھوڑنا چاہے ، چھوڑ دے۔ہمارے جیسے سماج میں ، جہاں اخلاقیات اور معاشرتی رسوم کے نام پہ منافقت کو فروغ دیا جاتا ہے، تلخ حقائق کو ہضم کرنا واقعی مشکل ہوتا ہے ۔ بلند بانگ اظہار کو پسند کرنے اور اسے ادبی کامیابی سمجھنے والے قارئین کے واسطے معروضی انداز میں لکھنے کے لیے دانشورانہ جرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نہایت ہی قابلِ مطالعہ آپ بیتی ہے جس میں سخت مشکلات سے نبردآزما ہونے والے بہادر فرد کی داستان ہی پر روشنی نہیں ڈالی گئی بلکہ یہ ہماری سیاسی وثقافتی زندگی کا بھی باریک بیں مطالعہ ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب ہر کسی کے پاس ہونی چاہیے۔

بشکریہ ڈان

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search