فن، سچ اور سیاست۔ تحریر: ہیرلڈ پنٹر (ترجمہ: اجمل کمال)

 In ترجمہ
بشکریہ: ڈاکٹر محمد خاور نوازش (ترتیب: ذوالقرنین سرور)
انگریزی زبان کے ممتاز ڈراما نگار اور شاعر ہیرلڈ پنٹر (Harold    Pinter) کو ۲۰۰۵ میں ادب کا نوبیل انعام پیش کیا گیا۔ یہ نوبیل انعام قبول کرنے کے موقع پر کی جانے والی تقریر ہے۔ تقریب میں خرابی صحت کے باعث وہ خود شریک نہ ہو سکے۔ سو اپنا یہ خطاب وڈیو پر ریکارڈ کروا کر بھیجا، جسے اس تقریب میں دکھایا اور سنوایا گیا۔

 ۱۹۵۱ء میں میں نے لکھا تھا:

”جو کچھ حقیقی ہے اور جو کچھ غیر حقیقی ہے اس کے درمیان کوئی ٹھوس امتیازات نہیں ہیں اور نہ جو کچھ سچ ہے اور جو کچھ جھوٹ ہے اس کے درمیان کسی چیز کا سچ یا جھوٹ ہونا ضروری نہیں ہوتا، وہ بیک وقت سچ بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹ بھی۔“

 میں ان باتوں کو اب بھی معقول مانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کا اطلاق فن کے ذریعے سے حقیقت کی تلاش پر اب بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک لکھنے والے کی حیثیت سے میں اب بھی ان باتوں پر قائم ہوں لیکن ایک شہری کی حیثیت سے ان پر یقین نہیں رکھ سکتا۔ ایک شہری کے طور پر میرے لیے یہ سوال کرنا ناگریز ہے کیا چیز سچ ہے؟ کیا چیز جھوٹ ہے؟

 ڈراما میں سچ کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ آپ اسے پانہیں سکتے لیکن اسے تلاش کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔ تلاش ہی دراصل کوشش جاری رکھنے کا محرک ہوتی ہے۔ تلاش ہی آپ کا کام ہے۔ بہت بار اندھیرے میں  آپ کی سچ سے مڈ بھیڑ ہوتی ہے، آپ اس سے ٹکرا جاتے ہیں یا آپ کو محض کوئی ایسی جھلک یا ایسی شکل دکھائی دے جاتی ہے جو سچ سے مماثلت رکھتی معلوم ہوتی ہے اور اکثر اس وقت آپ کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا لیکن اصل سچائی یہ ہے کہ فن ڈراما میں ایسی کسی چیز کا کبھی وجود نہیں ہوتا جو واحد سچ ہو۔ بہت سے  سچ ہوتے ہیں۔ یہ سچ ایک دوسرے کو للکارتے ہیں، ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں، ایک دوسرے میں عکس ڈالتے ہیں، ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے ہیں، ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں، ایک دوسرے کی بابت نابینا رہتے ہیں۔ کبھی کبھی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص لمحے کا سچ آپ کے ہاتھ میں آ گیا، پھر وہ آپ کی انگلیوں سے پھسل جاتا ہے اور گم ہو جاتا ہے۔

 مجھ سے اکثر یہ سوال کیا گیا ہے کہ میرے کھیل کس طرح وجود میں آئے۔ میں نہیں جانتا۔ نہ میں اپنے کھیلوں کا نچوڑ بیان کر سکتا ہوں، سوائے اس کے کہ یہ کچھ پیش آیا تھا۔ کرداروں نے یہ کچھ کہا۔ انہوں نے یہ کچھ کیا۔ 

بیشتر کھیل کسی ایک سطر، ایک لفظ یا ایک پیکر (image) سے پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر اس محفوظ لفظ یا فقرے کے پیچھے پیچھے پیکر بھی چلا آتا ہے۔ میں دو سطروں کی دو مثالیں دوں گا جو اچانک پتا نہیں کہاں سے میرے دماغ میں آ گئیں اور ان کے تعاقب میں ایک پیکر اور اس کے تعاقب میں میں۔

 یہ دو کھیل ہیں The    Homecoming اور Old    Times۔ گھر واپسی کی پہلی سطر ہے ”تم نے قینچی کیا کی؟“ پرانے دن کی پہلی سطر ہے: ”سیاہ“۔ 

دونوں موقعوں پر میرے پاس اس سے آگے کوئی اطلاع نہ تھی۔

 پہلے موقع پر ظاہر تھا کہ کوئی شخص قینچی ڈھونڈ رہا ہے اور کسی دوسرے شخص سے جس پر اسے قینچی چرا لینے کا شبہ ہے، اس کا پتا پوچھ رہا ہے۔ لیکن مجھے کسی نہ کسی طرح یہ معلوم تھا کہ وہ دوسرا شخص قینچی کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتا، یہی نہیں، اسے سوال کرنے والے کی بھی کچھ پروا نہیں۔

سیاہ  کو میں نے کسی کے بالوں کے رنگ کے بیان کے طور پر سمجھا، کسی عورت کے بال اور یہ لفظ کسی سوال کے جواب میں ادا کیا گیا تھا۔ دونوں موقعوں پر میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ معاملے کا تعاقب کروں۔ یہ بصری طور پر واقع ہوا، نہایت سست روی کے ساتھ، سائے روشنی میں ڈھلتے گئے۔

 میں ہمیشہ کھیل کا آغاز کرداروں کو الف، ب، ج کے نام دے کر کرتا ہوں۔

 جس کھیل نے گھر واپسی کی صورت اختیار کی، اس میں میں نے ایک آدمی کو ایک اجاڑ کمرے میں داخل ہوتے اور ایک نسبتاً کم عمر آدمی سے، جو ایک بد وضع صوفے پر بیٹھا گھڑ دوڑ کا اخبار پڑھنے میں مشغول تھا، یہ سوال کرتے دیکھا۔ کسی نہ کسی طرح مجھے شبہ تھا کہ الف باپ ہے اور ب اس کا بیٹا لیکن میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ تاہم اس بات کی کچھ آگے چل کر تصدیق ہوگئی جب ب (جو بعد میں لینی بنا) الف سے (جو بعد میں میکس بنا) کہتا ہے ”ڈیڈ، اگر میں موضوع بدل دوں تو تم برا تو نہیں مانو گے؟ ایک بات پوچھتا ہوں۔ ہم نے ابھی جو کھانا کھایا، اس کا نام کیا تھا؟ تم اسے کیا کہتے ہو؟ تم ایک کتا کیوں نہیں خرید لیتے؟ تم ایک کتا باورچی ہو۔ سچ۔ تم سمجھتے ہو کہ تم بہت سے کتوں کے لیے کھانا پکا رہے ہو۔“ چنانچہ، چونکہ ب الف کو’ ڈیڈ’ کہہ کر پکارتا ہے، مجھے یہ فرض کرنا معقول بات لگی کہ وہ  باپ بیٹا ہیں۔ یہ بھی ظاہر تھا کہ الف باورچی ہے اور معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پکائے ہوئے کھانے کچھ زیادہ پسند نہیں کیے جاتے۔ کیا اس کا مطلب ہےماں کا وجود نہیں؟ مجھے نہیں معلوم  تھا۔ لیکن، جیسا کہ میں نے اس وقت خود بتایا ہمارے آغاز ہمارے انجاموں سے بے خبر ہوتے ہیں۔

 سیاہ۔ ایک بڑی کھڑکی۔ شام کا آسمان۔ ایک آدمی، الف (جسے بعد میں ڈیلی بننا تھا) اور ایک عورت، ب (جو بعد میں کیٹ بنے والی تھی)، بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ موٹی یا دبلی؟ مرد پوچھتا ہے۔ یہ دونوں کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ لیکن تب مجھے کھڑکی میں ایک عورت، ج ( جسے بعد میں اینا بننا تھا)، ایک مختلف قسم کی روشنی میں، ان دونوں کی طرف پیٹھ کیے، کھڑی دکھائی دی، سیاہ بالوں والی۔ 

یہ عجیب لمحہ ہوتا ہے، ان کرداروں کو تخلیق کرنے کا لمحہ جو اس لمحے تک وجود نہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے وہ نا ہموار، غیر یقینی، یہاں تک کہ واہمہ انگیز (Hallucinatory) عمل ہوتا ہے، اگرچہ بعض اوقات یہ کسی بے قابو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ مصنف کی حیثیت عجیب ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے کردار اسے خوش آمدید نہیں کہتے۔ کردار اس کی مزاحمت کرتے ہیں، اُن کے ساتھ رہنا آسان نہیں ہوتا، ان کی تعریف متعین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ ان پر حکم تو یقیناً نہیں چلا سکتے۔ ایک حد تک آپ ان کے ساتھ ایک ختم نہ ہونے والا کھیل کھیلتے ہیں، چوہے بلی کا کھیل، بلائنڈ مین بف، آنکھ مچولی، لیکن آخر کار آپ پاتے ہیں کہ آپ کے ہاتھوں میں گوشت پوست اور خون والے لوگ ہیں، جو اپنی مرضی اور اپنا انفرادی احساس رکھتے ہیں، جو ایسے اجزا کے جڑنے سے بنے ہیں جن کو بدلنا من مانے طریقے سے برتنا، یا توڑنا مروڑنا آپ کے بس میں نہیں۔

 چنانچہ فن میں زبان ایک انتہائی مبہم کارروائی ہے، کہیں دلدلی زمین، کہیں ترپال، کہیں منجمد تالاب جس کی اوپری تہہ آپ مصنف کے، پیروں تلے کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، سچ کی تلاش بھی رک نہیں سکتی۔ اسے نہ ملتوی کیا جا سکتا ہے اور نہ موخر۔ اس کا، وہیں، اسی مقام پر سامنا کرنا ہوتا ہے۔ 

سیاسی تھیٹر کے مسائل بالکل دوسری نوعیت کے ہوتے ہیں۔ خطبے دینے سے ہر قیمت پر احتراز کرنا ہوتا ہے۔ معروضیت لازم ہے۔ کرداروں کو اپنی ہوا میں سانس لینے دینا ضروری ہے۔ مصنف اپنے ذوق یا مزاج یا تعصب کی تسکین کی خاطر انہیں محدود یا محصور نہیں کر سکتا۔ اسے تیار رہنا ہوتا ہے کہ مختلف زاویوں سے، ہر قسم کے اور بلا جھجک تناظر سے ان کرداروں تک رسائی پا سکے، شاید کبھی کبھی انہیں بے خبری کے عالم میں پکڑ بھی سکے، لیکن اس کے باوجود انہیں ان کی مرضی کی سمت میں حرکت کرنے دے۔ یہ کاروائی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی اور جہاں تک سیاسی طنز کا تعلق ہے، وہ ان میں سے کسی اصول کی پابند نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کا ٹھیک الٹ کرتی ہے اور وہی اس کا درست منصب ہے۔

 اپنے کھیل The    Birthday    Party میں، میرا خیال ہے، میں امکانات کے ایک گھنے جنگل میں بہت سے متبادلوں کو بروئے کار آنے دیتا ہوں اور آخر کار کمزور کوتابع کرنے کے فعل پر توجہ مرکوز کر دیتا ہوں۔ 

پہاڑی زبان اس پیچیدہ عمل کی متحمل ہونے کا سوانگ نہیں بھرتی۔ یہ سفاک، اکھڑی اکھڑی اور بھدی رہتی ہے۔ لیکن کھیل میں موجود سپاہی اس کے استعمال سے کچھ مزہ  یقیناً اُٹھاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کبھی کبھی بھول جاتا ہے کہ تشدد کرنے والے آسانی سے اُکتا جاتے ہیں۔ انہیں اپنا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے تھوڑا بہت  ہنسنے  کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلاشبہ اس بات کی تصدیق بغداد کے قید خانے ابو غریب میں ہونے والے واقعات سے ہو چکی ہے۔ پہاڑی زبان محض بیس منٹ چلتی ہے، لیکن یہ گھنٹوں، بلکہ متواتر جاری رہ سکتی ہے اور وہی نمونہ گھنٹوں کے عمل میں خود کو بار بار دہرا سکتا ہے۔

 اس کے برعکس Ashes    to    Ashes ، مجھے پانی کی تہہ میں وقوع پذیر ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ ایک ڈوبتی ہوئی عورت اپنا بازو لہروں میں سے اوپر اٹھائے، نظروں سے اوجھل ہوتی ہوئی، دوسروں تک پہنچ پانے کی کوشش کرتی، مگر وہاں، پانی کے اندر یا باہر، کسی کو نہ پاتی ہوئی، صرف سایوں، بکسوں کو تیرتا دیکھتی ہوئی، عورت، ایک غرقاب ہوتے منظر میں گمشدہ شبیہ؛ ایک عورت، اس نا امیدی سے فرار ہونے کے نا قابل جو دوسرے لوگوں کی نا اُمیدی معلوم ہوتی ہے۔

 لیکن جیسے وہ لوگ مرے، اسی طرح اسے بھی مرنا ہے۔ 

سیاسی زبان، جیسا کہ اسے سیاست کار استعمال کرتے ہیں، ایسے کسی خطے میں داخل نہیں ہوتی، کیونکہ ان سیاست کاروں میں سے بیشتر، ہمیں دستیاب شہادتوں کی رو سے، سچ سے نہیں بلکہ اقتدار سے اور اس اقتدار کو برقرار رکھنے سے سروکار رکھتے ہیں۔ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام بے خبر رہیں، کہ وہ سچ سے، حتی کہ خود اپنی زندگیوں کے سچ سے بھی، بے خبری کے عالم میں رہیں۔ چنانچہ جو شے ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے وہ بہت سے جھوٹ جوڑ کر بنائی گئی ہے اور ہم اسی پر جیتے ہیں۔

 جیسا کہ یہاں موجود ہر ایک شخص جانتا ہے، عراق پر حملے کا جواز یہ تھا کہ صدام حسین کے قبضے میں وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایک نہایت خطرناک تعداد موجود تھی، جن میں سے بعض کو ۴۵ منٹ کے اندر اندر فائر کیا جا سکتا تھا اور دہشت ناک غارت گری پھیلائی جا سکتی تھی۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہ سچ ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ عراق کا القاعدہ سے تعلق ہے اور وہ ا ا ستمبر ۲۰۰۱، کو نیویارک میں ہونے والی سفاکی کی ذمے داری میں شریک ہے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ عراق دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ نہیں تھا۔

 سچ اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ سچ کا تعلق اس سے ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنے کردار کو کس طرح سمجھتا ہے اور اس کی تجسیم کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔

 میں حال پر واپس آنے سے پہلے ماضی قریب پر ایک نظر ڈالنا چاہتا ہوں، جس سے میری مراد دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک کی امریکی خارجہ پالیسی سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارا فرض ہے کہ اس عرصے پر، خواہ بہت محدود طریقے سے ہی سہی کسی نہ کسی طرح ضرور غور کریں اور اس وقت اس پر محدود غور کرنا ہی ممکن ہے۔ 

ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ کے بعد کے عرصے میں سوویت یونین اور پورے مشرقی یورپ میں کیا ہوا: منظم بربریت، وسیع پیمانے پر سفاکیاں، آزاد خیالی پر بے رحم جبر۔ یہ سب کچھ تفصیلی دستاویزات کی شکل میں مرتب کردہ تصدیق شدہ ہے۔ 

لیکن میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسی عرصے میں امریکہ نے جو جرائم کیے ان کو محض سرسری انداز سے ریکارڈ کیا گیا ہے، انہیں دستاویزی صورت میں مرتب کرنے تسلیم کرنے، جرم کے طور پر شناخت کیے جانے کا قطعی سوال نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرف توجہ کی جانی چاہیے اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ سچ، دنیا اس وقت جہاں کھڑی ہے، اس پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر چہ سوویت یونین کے وجود کے باعث امریکہ پرکسی قدر قیود عا ئد رہیں، لیکن دنیا بھر میں اس کے افعال نے یہ بات قطعی واضح کر دی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اسے جو کچھ اس کے جی میں آئے وہ کر ڈالنے کی کھلی آزادی ہے۔ 

کسی خود مختار ریاست پر براہ راست حملہ کرنا درحقیقت امریکہ کا پسندیدہ طریقہ کبھی نہیں رہا ہے۔ بیشتر صورتوں میں اس نے اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے وہ ”کم شدت کے تنازعے“ کا نام دیتا ہے۔ کم شدت کے تنازعے کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں لوگ مریں لیکن اس سے کہیں زیادہ سست رفتاری سے جیسا ان پر یکبارگی بم گرا دینے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی ملک کے قلب کو مریض کر دیں، کہ آپ اس کے بدن میں ایک زہریلی بڑھوتری کا بیج بو دیں اور پھر گینگرین کو پھلتے پھولتے دیکھتے رہیں۔   جب عوام کو دبا لیا جائے۔ یا مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ جو ایک ہی بات ہے۔ اور آپ کے اپنے دوست، فوج اور عظیم کارپوریشنیں، اطمینان سے اقتدار پر قابض ہوں، جب آپ کیمرے کے سامنے جا کر کہتے ہیں کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ جن برسوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کے دوران امریکی خارجہ پالیسی میں یہ معمول کی بات تھی۔

 نکارا گوا کا المیہ ایک نہایت اہم مثال ہے۔ میں نے یہاں اس کے ذکر کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ یہ دنیا میں اپنے کردار کی بابت امریکہ کے نقطہ نظر کی، اس وقت بھی اور آج بھی، ایک بھرپور مثال ہے۔

 ۱۹۸۰ ء کی دہائی کے آخری برسوں میں میں لندن کے امریکی سفارت خانے کے ایک اجلاس  میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس اس بات کا فیصلہ کرنے ہی والی تھی کہ ریاست نکاراگوا کے خلاف مہم چلانے والے باغیوں (Contras) کو مزید رقم دی جائے یا نہیں۔ میں نکاراگوا کی طرف سے بات کرنے والے ایک وفد کا رکن تھا لیکن اس وفد کا سب سے اہم رکن جان مٹکاف (John    Metcalf) نامی ایک پادری تھا۔ امریکی ادارے کا سربر اور ریمنڈ سیٹز (Raymond    Seitz) تھا جو اُس وقت امریکی سفیر کا نائب تھا اور بعد میں خود سفیر بنا۔ فادر مٹکاف نے کہا، ”سر، میں شمالی نکارا گوا میں ایک پیرش کا نگران ہوں۔ میرے پیرش کے ارکان نے ایک اسکول، ایک مرکز صحت اور ایک ثقافتی مرکز قائم کیا ہے۔ ہم امن سے رہتے آئے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک کونٹرا دستے نے پیرش پر حملہ کیا۔ انہوں نے سب کچھ تباہ کر ڈالا: اسکول، مرکز صحت، ثقافتی مرکز۔ انہوں نے انتہائی بہیمیت کے ساتھ نرسوں اور اُستانیوں کو ریپ کیا، ڈاکٹروں کے گلے کاٹے۔ انہوں نے وحشیوں کا سا برتاؤ کیا۔ براہ کرم یہ مطالبہ کیجئے کہ امریکی حکومت اس صدمہ انگیز دہشت گرد  کارروائی کی حمایت ترک کر دے۔“

ریمنڈ سیٹر ایک معقول، ذمے دار اور نہایت مہذب شخص ہونے کی عمدہ شہرت رکھتا تھا۔ سفارتی حلقوں میں اس کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ وہ سنتا رہا، پھر کچھ توقف کر کے کسی قدر گھمبیر لہجے میں بولا۔ ”فادر“، اس نے کہا: ”میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ جنگ میں بے قصور لوگ ہمیشہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔“ اس کے بعد ایک منجمد خاموشی تھی۔ ہم اس کی طرف تکتے رہے۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

 بے قصور لوگ، بلا شبہ، ہمیشہ نقصان اُٹھاتے ہیں۔

 آخر کار کسی نے کہا، ”لیکن اس معاملے میں بے قصور لوگ ایک ہولناک سفا کی کا شکار ہوئے ہیں جسے آپ کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور اس قسم کی دیگر سفاکیوں کو بھی۔ اگر کانگریس نے کونٹرا باغیوں کو مزید رقم دی تو اس قسم کی مزید سفاکیاں پیش آئیں گی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ چنانچہ کیا آپ کی حکومت ایک خود مختار ریاست کے شہریوں کے خلاف قتل اور غارت گری کے افعال کو مدد فراہم کرنے کی مجرم نہیں ہے؟“

سینٹر کے سکون میں ذرا بھی خلل نہ پڑا۔ ”میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ پیش کیے گئے حقائق  آپ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں“، اس نے کہا۔

جس وقت ہم سفارت خانے سے باہر نکل رہے تھے، ایک امریکی مشیر نے مجھے بتایا کہ وہ میرے کھیل پسند کرتا ہے۔ میں نے جواب نہیں دیا۔

 میں آپ کو یاد دلاؤں کہ اس موقعے پر صدر ریگن نے یہ بیان دیا تھا: ”کونڑا ہمارے فاؤنڈنگ فادرز (Founding     Fathers) کے مساوی اخلاقی مقام رکھتے ہیں۔“

 امریکہ نے نکاراگوا میں سوموزا کی بہیمانہ آمریت کو چالیس سال تک حمایت فراہم کی تھی۔ نکاراگوا کے عوام نے ۱۹۷۹ ء میں، ساندینستا (Sandinistas) کی قیادت میں، اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، جو ایک دھڑکتا ہوا عوامی انقلاب تھا۔

 ساندینستا بے عیب نہیں تھے۔ ان میں رعونت کی اپنی مقدار موجود تھی اور ان کے سیاسی فلسفے میں کئی متضاد عناصر پائے جاتے تھے۔ لیکن وہ ذہین معقول اور تہذیب یافتہ تھے۔ انہوں نے ایک پائیدار، شائستہ اور کثیر خیال معاشرہ قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ سزائے موت ختم کر دی گئی تھی۔ مفلسی کے شکار لاکھوں کسانوں کو مردوں کے زمرے سے واپس نکال لیا گیا تھا۔ ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو زمین کی ملکیت دے دی گئی تھی۔ دو ہزار اسکول قائم کیے گئے تھے۔ خواندگی کی ایک غیر معمولی مہم نے ملک میں نا خواندگی کو ساتویں حصے سے بھی کم سطح پر پہنچا دیا تھا۔ مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولت رائج کی گئی تھی۔ شیر خوار بچوں کی موت کی شرح ایک تہائی گھٹائی گئی تھی۔ پولیو کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ 

امریکہ نے ان حاصلات کو مارکسی/لیننی باغیانہ کارروائی کہہ کر ان کی مذمت کی۔ امریکی حکومت کے نزدیک یہ ایک خطرناک مثال قائم کی جا رہی تھی۔ اگر نکارا گوا کوسماجی اور معاشی انصاف کی بنیادی روایت قائم کرنے دی گئی، اگر اسے علاج اور تعلیم کے معیارات کو بلند کرنے اور سماجی اتحاد اور قومی عزت نفس حاصل کرنے کی اجازت دی گئی، تو پڑوسی ملک بھی یہی سوال اٹھائیں گے اور یہی سب کام کریں گے۔ اس زمانے میں بلا شبہ ال سلوادور میں حالات کے جمود کے خلاف سخت مزاحمت جاری تھی۔

 میں نے ابھی بہت سے جھوٹ جوڑ کر بنائی گئی شے کا ذکر کیا تھا جو ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ صدر ریگن نکاراگوا کا ذکر عموماً ایک ”آمرانہ زندان“ کے لقب سے کرتا تھا۔ اس لقب کو ذرائع ابلاغ نے عمومی سطح پر اور یقینا برطانوی حکومت نے بھی، ایک درست اور منصفانہ بیان کے طور پر اپنا لیا تھا۔ لیکن در حقیقت ساندینستا  حکومت کے خلاف قاتل جتھوں کی موجودگی کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ اذیت رسانی کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ کسی منظم یا سرکاری فوجی بہیمیت کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ نکاراگوا میں پادریوں کو بھی قتل نہیں کیا گیا تھا۔ درحقیقت تین پادری، دو جیسوئٹ اور ایک میرینول مشتری، حکومت کا حصہ تھے۔ آمرانہ زندان در اصل سرحد کے پارال سلوا دور اور گواتے مالا میں تھے۔ امریکہ نے ۱۹۵۴ء میں گواتے مالا کی جمہوری منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور تخمینہ لگایا گیا تھا کہ دو لاکھ سے زیادہ افراد اس کے بعد آنے والے کئی فوجی آمریتوں کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے تھے۔

 دنیا کے چھ ممتاز ترین جیسوئٹ افراد کو ۱۹۸۹ء میں سان سلوادور کی سنٹرل امریکن یونیورسٹی میں الکاٹل رجمنٹ نے، جس کی تربیت فورٹ بیننگ، جار جیاء، امریکہ، میں ہوئی تھی، درندگی سے ہلاک کیا تھا۔ اُس انتہائی جرات مند شخص آرچ بشپ رو میرو کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ گرجا گھر میں وعظ کہہ رہا تھا۔ تخمینے کے مطابق پچھتر ہزار لوگ ہلاک  ہوئے؟ اس لیے ہلاک ہوئے کہ ان کا اعتقاد تھا کہ ایک بہتر زندگی ممکن ہے اور حاصل کی جانی چاہیے۔ اس اعتقاد نے انہیں فوری طور پر کمیونسٹ ٹھہرا دیا۔ وہ ہلاک کر دیئے گئے کیونکہ انہوں نے جامد حالات، غریبی، بیماری، ذلت اور جبر کے بے انت پھیلاؤ پر سوال اٹھانے کی جسارت کی تھی، جو ان کا پیدائشی حق تھا۔

 آخر کار امریکہ نے ساندینستا حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس میں کچھ سال لگے اور خاصی مزاحمت ہوئی لیکن متواتر اقتصادی گھیراؤ اور تیسں ہزار لوگوں کی ہلاکت نے انجام کار نکاراگوا کے عوام کی ہمت کو پست کر ڈالا۔ وہ ایک بار پھر تھکن اور غریبی کی زد میں آئے۔ کیسینو ملک میں لوٹ آئے۔ مفت علاج اور مفت تعلیم ختم ہوگئی۔ بگ بزنس پوری طاقت سے عود کر آیا۔ ”جمہوریت“ کی فتح ہو گئی۔

 لیکن یہ ”پالیسی“ صرف وسطی امریکہ تک محدود نہیں تھی۔ اس پر پوری دنیا میں عمل کیا گیا۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی شے تھی اور لگتا یوں ہے گویا اس کا وجود کبھی رہا ہی نہیں۔ 

امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عرصے میں دنیا کی ہر دائیں بازو کی فوجی آمریت کو حمایت فراہم کی اور ان میں سے بہت سی آمریتوں کو خود قائم کیا۔ میں انڈونیشیا، یونان، یورو گوے، برازیل، پارا گوے، ہائیتی ، ترکی ، فلپائن، گواتے مالا ، ال سلوادور اور، بے شک، چیلے کا ذکر کر رہا ہوں۔ امریکہ نے ۱۹۷۳ء میں چیلے میں جو ہولناکیاں نازل کیں ان کی کبھی تلافی نہیں ہو سکتی اور ان کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔

 ان ملکوں میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں۔ لیکن کیا یہ واقعی ہوئیں؟ اور کیا تمام صورتوں میں اس کی ذمے داری امریکی خارجہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، یہ ہلاکتیں واقعی ہوئیں اور ان کی ذمے داری امریکی خارجہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے لیکن آپ کو اس کا علم نہیں ہوگا۔

 یہ کبھی نہیں ہوا۔ کچھ بھی بھی نہیں ہوا۔ اُس وقت بھی جب یہ ہو رہا تھا، یہ نہیں ہورہا تھا۔ اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اس سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ امریکہ کے جرائم منظّم، متواتر، پُر کینہ اور کسی پچھتاوے سے عاری ہیں، لیکن بہت کم لوگوں نے ان کے متعلق واقعی بات کی ہے۔ آپ امریکہ کو اس کی داد دینے پر مجبور ہوں گے۔ اس نے دنیا بھر میں اقتدار کو نہایت ماہرانہ چابک دستی سے استعمال کرتے ہوئے بھی، ہمہ گیر خیر کا اپنا بہروپ قائم رکھا ہے۔ یہ تنویم کا ایک عمدہ، یہاں تک کہ پر لطف اور نہایت کامیاب عمل ہے۔

 میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکہ، کسی شک شبہے کے بغیر، سڑک پر دکھایا جانے والا سب سے بڑا  تماشا ہے۔ یہ سفاک، بے نیاز، پُرحقارت اور بے رحم چاہے ہو، لیکن یہ بڑی چالاکی کا حامل ہے۔ یہ ایک سیلزمین کی طرح ہے جو اپنے بل پر باہر نکلا ہے اور اس کا سب سے زیادہ بکنے والا مال خود پرستی (Self    Love) ہے۔ یہ ایک فاتح ہے۔ ہر امریکی صدر کو ٹیلی ویژن پر یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے دیکھئے: ”دی امیریکن پیپل“ امریکی عوام ۔۔۔ جیسے اس جملے میں: ”میں امریکی عوام سے کہتا ہوں  کہ یہ دعا کا اور امریکی عوام کے حقوق کا دفاع کرنے کا وقت ہے اور میں امریکی عوام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے صدر پر اس اقدام کے سلسلے میں اعتماد کریں جو وہ امریکی عوام کی جانب سے اُٹھانے والا ہے۔“

 یہ ایک چکا چوند کر دینے والی حکمت عملی ہے۔ یہاں زبان کو دراصل اس مقصد سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ خیالات قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ ‘امریکی عوام’ کے الفاظ تسلی کا ایک سچ مچ پر تعیش تکیہ فراہم کرتے ہیں۔ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں۔ بس تکیے پر ٹیک لگائیے۔ یہ تکیہ چاہے آپ کی ذہانت اور آپ کی تنقیدی صلاحیتوں کا دم گھونٹ رہا ہو لیکن یہ آرام دہ بہت ہے۔ بے شک اس کا اطلاق ان چار کروڑ امریکیوں پر نہیں ہوتا جو غریبی کی لکیر کے نیچے رہ رہے ہیں اور نہ ان بیس  لاکھ مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو امریکہ کے طول و عرض میں پھیلے قید خانوں کے گلاگ میں بند ہیں۔

 امریکہ کو اب کم شدت والے تنازعوں سے دلچسپی نہیں رہی۔ اب اسے رازداری، یہاں تک کہ گھنے پن میں بھی کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اپنے پتے  کسی خوف یا رعایت کے بغیر میز پر رکھ دیتا ہے۔ اور اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون یا تنقیدی اختلاف رائے کو، جو اسے بے طاقت اور غیر متعلق معلوم ہوتا ہے، دو کوڑی کا بھی نہیں گردانتا اور اس کی ایک اپنی پالتو، میں میں کرتی، بکری ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے، قابل رحم اور لدّھڑ برطانیہ عظمی۔ 

ہمار ے اخلاقی احساس کو کیا ہوا؟ کیا ہمارے پاس ایسی کوئی شے تھی بھی؟ ان لفظوں کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان سے مراد وہ اصلاح ہے جسے آج کل شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضمیر؟ ضمیر جس کا تعلق نہ صرف ہمارے اپنے افعال سے ہو بلکہ دوسروں کے افعال میں ہماری مشتر کہ ذمے داری سے بھی؟ کیا یہ سب کچھ مر چکا ہے؟ گوانتانا موبے پر نظر ڈالیے، سینکڑوں لوگ کسی الزام کے بغیر تین برس سے زیادہ عرصے سے قید ہیں، کسی قسم کی قانونی نمائندگی یا ضابطے کی کارروائی سے محروم، تکنیکی طور پر ہمیشہ کے لیے قید۔ اس قطعی نا جائز ساختے کو جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قائم رکھا جا رہا ہے۔ جس شے کو بین الاقوامی برادری کہا جاتا ہے وہ اسے نہ صرف برداشت کر رہی ہے بلکہ اس کے بارے میں سوچتی تک نہیں۔ اس مجرمانہ زیادتی کا ارتکاب ایک ایسا ملک کر رہاہے جو خو کو ‘آزادانہ دنیا کا قائد’ قرار دیتا ہے۔ کیا ہم گونتانا موبے کے باشندوں کے بارے میں سوچتے ہیں؟ ذرائع ابلاغ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ان کاذ کر کبھی کبھی آجاتا ہے۔ صفحہ ٦ پر ایک چھوٹی سی خبر کے طور پر انہیں ایک ایسے نو مینز لینڈ میں ڈال دیا گیا ہے جہاں سے ممکن ہے وہ کبھی واپس نہ آ سکیں۔ اس وقت ان میں سے بہت سے، کئی برطانوی شہریوں سمیت، بھوک ہڑتال پر ہیں، انہیں زبردستی کھلایا جاتا ہے۔ زبردستی خوراک دینے کے اس عمل میں کسی طرح کے تکلفات نہیں برتے جاتے۔ کوئی خواب آور یا بے ہوشی کی دوا نہیں دی جاتی۔ بس آپ کی ناک اور حلق میں ایک ٹیوب داخل کردی جاتی ہے۔  آپ خون کی الٹی کرتے ہیں۔ یہ اذیت رسانی ہے۔ برطانوی خارجہ سیکرٹری نے اس کے متعلق کیا کہا ہے؟ کچھ نہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس کے متعلق کیا کہا ہے؟ کچھ نہیں۔ کیونکہ امریکہ نے کہہ دیا ہے، گوانتا ناموبے میں ہمارے طرز عمل پر تنقید کرنا ایک غیر دوستانہ فعل ہوگا۔ چنانچہ بلیئر اپنی زبان بند رکھتا ہے۔ 

عراق پر حملہ ایک بدمعاشی کی کارروائی تھی، دیدہ دلیری سے کی گئی ریاستی دہشت گردی، جس سے بین الاقوامی قانون کی بابت مطلق حقارت ظاہر ہوتی تھی۔ یہ حملہ سلسلہ در سلسلہ جھوٹ کے انبار اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ اور ان کے ذریعے عام لوگوں کے ساتھ سنگین فریب کاری کی بنیاد پر شروع کی جانے والی ایک بے اصول فوجی کارروائی تھی؛ ایک ایسی کارروائی جس کا مقصد مشرق وسطی پر امریکہ کے فوجی اور اقتصادی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا اور جس نے ۔۔۔۔ آخری حربے کے طور پر ۔۔۔۔ جب سارے دوسرے جواز خود اپنا جواز پیش کرنے میں ناکام ہو چکے تھے، خود کو آزادی دلانے کے عمل کے بہروپ میں پیش کیا۔ فوجی طاقت کا ایک زبردست استعمال ہزاروں ہزار بے قصور لوگوں کی ہلاکت اور اذیت کے لیے ذمہ دار ہے۔

 ہم نے عراقی عوام پر تشدد، کلسٹر بم، ڈپلینڈ یورینیم، اندھا دھند قتل کی بے شمار وارداتیں، بربادی، ذلت اور موت نازل کی ہے اور اسے مشرق وسطی میں آزادی اور جمہوریت لانے کا نام دیتے ہیں۔

 کتنے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد کوئی شخص قتل عام کا مرتکب اور جنگی مجرم کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے؟ ایک لاکھ؟ یہ تعداد بھی، میرے خیال میں، کافی سے زیادہ ہوتی۔ چنانچہ یہ منصفانہ بات ہے کہ بش اور پلیئر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت انصاف کے رو برو حاضر کیا جائے۔ لیکن بش چالاک ثابت ہوا ہے۔ اس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت انصاف کی توثیق ہی نہیں کی۔ چنانچہ اگر کسی امریکی سپاہی نے، یا کسی سیاست کا رنے ہی، خود کو کٹہرے میں پایا تو بش نے خبر دار کر دیا ہے کہ وہ اپنے میرین سپاہی بھیجے گا۔ لیکن ٹونی بلیئر عدالت انصاف کی توثیق کر چکا ہے چنانچہ مقدمہ چلائے جانے کے لیے دستیاب ہے۔ اگر عدالت کو دلچسپی ہو تو ہم اس کا پتا بتا سکتے ہیں۔ پتا ہے 10، ڈاؤننگ اسٹریٹ، لندن۔

 اس تناظر میں موت بے معنی ہو جاتی ہے۔ بش اور بلیئر دونوں نے موت کو دور پچھلے چولھے پر رکھ دیا ہے۔ عراق میں بغاوت کے سر اٹھانے سے پہلے کم از کم ایک لاکھ عراقی امریکی بموں اور میزائلوں سے ہلاک کیے جاچکے تھے۔ ان لوگوں کی کوئی ہستی نہیں۔ ان کی موت کا کوئی وجود نہیں۔ وہ خالی ہیں۔ انہیں مُردوں کے طور پر گنا بھی نہیں گیا۔ ”ہم لاشیں گننے کا کام نہیں کرتے“ امریکی جنرل نوی فرینکس کہتا ہے۔ حملے کے آغاز ہی میں برطانوی اخباروں کے صفحہ اول پر ٹونی بلیئر کا ایک فوٹو گراف شائع ہوا تھا جس میں وہ ایک ننھے عراقی بچے کا گال چوم رہا تھا۔ چند روز بعد، اندر کے کسی صفحے پر، ایک اور چار سالہ بچے کی تصویر اور خبر شائع ہوئی جس کے دونوں بازو نہیں رہے تھے۔ اس کے خاندان کو ایک میزائل نے اڑا دیا تھا۔ صرف وہی زندہ بچا تھا۔ مجھے میرے بازو کب واپس ملیں گے؟ اس کا سوال تھا۔ اس خبر کو بس یہیں روک دیا گیا۔ آخر ٹونی بلیئر اسے اپنے بازوؤں میں تو اُٹھائے ہوئے نہیں تھا اور نہ ایک اور مسخ کردہ  بچے کی لاش کو اور نہ کسی اور خون آلود لاش کو۔ ایسا کرنے سے، جبکہ آپ ٹیلی وژن پر ایک مخلصانہ تقریر کر رہے ہوں، آپ کی قمیص اور ٹائی گندی ہو جاتی ہے۔

 مارے جانے والے دو ہزار امریکی ایک شرمندگی کی چیز ہیں۔ انہیں اندھیرے میں ان کی قبروں تک لے جایا جاتا ہے۔ جنازے اوٹ میں ہوتے ہیں، خطرے کی زد سے باہر۔ زخمی ہونے والے اپنے بستروں میں پڑے سڑا کرتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنی پوری بقیہ زندگی کے لیے۔ چنانچہ مارے جانے والے اور زخمی ہونے والے دونوں الگ الگ قسم کی قبروں میں، گلتے سڑتے رہتے ہیں۔

 پابلو نیرودا کی نظم ‘میں چند چیزوں کی وضاحت کر رہا ہوں’ سے ایک اقتباس: 

اور ایک صبح وہ سب کچھ جل رہا تھا 

ایک صبح الاؤ 

زمین سے لپک کراُٹھے 

انسانوں کو بھسم کرتے ہوئے

 اور اس کے بعد سے آگ، 

اور باردو اس کے بعد سے، 

اور اس کے بعد خون۔

بدمعاش اپنے طیاروں اور لنگروں کے ساتھ 

بد معاش اپنی انگشتریوں اور ریشمی جھالروں کے ساتھ 

بدمعاش دعائیں تھوکتے سیاہ فام راہیوں کے ساتھ 

آسمان سے اترے، بچوں کو ہلاک کرنے کے لیے

 اور بچوں کا خون گلیوں میں بہنے لگا

 بغیر کسی شور و غل کے، بچوں کے خون کی طرح

 گیدڑ جن سے گیدڑ نفرت کرتے ہیں

 پتھر جنہیں خشک کانٹے دار جھاڑی چبا کر تھوک دیتی ہے

 سانپ جن سے سانپوں کو بھی گھن آتی ہے

 تمہارے رو بہ رو میں نے دیکھا ہے خون

 اسپین کا، ایک جوار کی طرح اُٹھتا ہوا 

غرور اور چاقوؤں کی ایک لہر میں

 تمہیں ڈبو دینے کے لیے

 غدار جنرلو:

 میرے مردہ گھر کو دیکھو،

 ٹوٹے ہوئے اسپین کو دیکھو،

 ہر مکان سے جلتی ہوئی دھات بہہ رہی ہے 

پھولوں کی جگہ

 اسپین کی ہر خالی جگہ ہے

 اسپین اُبھرتا ہے

 اور ہر مردہ بچے سے آنکھوں والی ایک رائفل

 اور ہر جرم سے بندوق کی گولیاں جنم لیتی ہیں

 جو ایک دن پہنچ جائیں گی

تمہارے دلوں کے ہدف تک

 اور تم پوچھو گے؛ یہ شاعری بھلا کیوں 

خوابوں اور پتیوں کی بات نہیں کرتی

 اور اس آبائی سرزمین کے عظیم آتش فشانوں کی بات نہیں کرتی

 آؤ اور گلیوں میں بہتے خون کو دیکھو

 آؤ دیکھو 

گلیوں میں بہتے خون کو

 آؤ دیکھو خون کو

 گلیوں میں بہتے ہوئے

 میں یہ وضاحت کردوں کہ نیرودا کی نظم کے اس اقتباس کے ذریعے میں جمہوریہ اسپین کا موازنہ صدام حسین کے عراق سے نہیں کر رہا ہوں۔ میں نیرودا کا اقتباس اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ میں نے معاصر شاعری میں شہریوں پر بمباری کا اتنا طاقتور اور حساس بیان نہیں دیکھا۔

 میں نے پہلے کہا ہے کہ امریکہ اب اپنے پتے میز پر رکھ دینے میں قطعی بے باک ہے۔ معاملہ یہی ہے۔ اس کی سرکاری طور پر اعلان کردہ پالیسی اب ان الفاظ میں بیان کی جاتی ہے: فُل اسپیکٹرم ڈومینینسں۔ یہ میری نہیں، ان کی اصلاح ہے۔ اس کے معنی ہیں زمین، سمندر، ہوا اور خلا اور ان میں موجود تمام وسائل پر مکمل تصرف۔

 امریکہ اب دنیا کے ۱۳۲ ملکوں میں ۷۰۲ فوجی تنصیبات پر قابض ہے، جس میں سویڈن بے شک ایک باعزت استثنیٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ امریکی ان تمام جگہوں تک کس طرح پہنچے، لیکن وہ پہنچ ضرور چکے ہیں۔

 امریکہ کے پاس ۸۰۰۰ فعال اور مکمل طور پر قابل استعمال نیوکلیئر وار ہیڈ ہیں۔ ان میں سے دو ہزار ایسے ہیں جو فوری استعمال کے لیے تیار ہیں، یعنی جنہیں ۱۵ منٹ کے انتباہ پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ وہ نیو کلیئر طاقت کے نئے نظام تیار کر رہا ہے جنہیں بنکر بسٹر کہا جاتا ہے۔ برطانوی، ہمیشہ تعاون پر آمادہ، اپنے نیوکلیئر میزائل ٹرائیڈ نٹ کو تبدیل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، وہ کسے ہدف بنانے والے ہیں؟ اسامہ بن لا دن کو؟ آپ کو؟ مجھے؟ جو ڈ وکس کو؟ چین کو؟ پیرس کو؟ کون جانتا ہے؟ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ بچکانہ دیوانگی۔۔۔۔  نیو کلیئر ہتھیاروں کو اپنے پاس رکھنا اور ان کے استعمال کی دھمکی دینا۔۔۔ امریکہ کے حالیہ سیاسی فلسفے کے عین قلب میں واقع ہے۔ ہمیں خود کو یاد دلانا چاہیے کہ امریکا مستقل طور پر فوجی تیاری کی حالت میں ہے اور اپنی اس حالت میں نرمی لانے کا کوئی اشارہ نہیں دے رہا۔

 خود امریکہ میں، اگر دسیوں لاکھ نہیں تو ہزاروں لوگ اپنی حکومت کے افعال سے واضح طور ہے متنفر، شرمندہ اور غضب ناک ہیں ، لیکن جیسے حالات اس وقت ہیں ان میں وہ لوگ کوئی مربوط سیاسی قوت نہیں ہیں۔ ابھی تک نہیں۔ لیکن وہ تشویش، غیر یقینی پن اور خوف جسے ہم امریکہ میں روز بروز بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے کم ہونے کے امکان نہیں۔ 

میں جانتا ہوں صدر بش کے پاس بہت سے با صلاحیت تقریر نگار ہیں لیکن میں اس کام کے لیے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں مختصر خطاب تجویز کروں گا جو وہ ٹیلی وژن پر آ کر قوم کے سامنے کر سکتا ہے۔ میں اسے چہرے پر سنجید گی لیے، ہال سلیقے سے بنائے، متانت، دل جیتنے والے انداز، خلوص، اکثر لبھاؤنے پن اور کبھی کبھی ایک روکھی مسکراہٹ کے ساتھ، عجیب طور سے پرکشش، مردوں کے مرد کے طور پر تصور کرتا ہوں: 

”خدا خیر ہے۔ خدا بڑا ہے۔ خدا خیر ہے۔ میرا خدا خیر ہے۔ بن لا دن کا خدا شر ہے۔ وہ ایک برا خدا ہے۔ صدام کا خدا برا تھا، گو کہ حقیقت میں اس کا کوئی خدا تھا ہی نہیں۔ وہ وحشی تھا۔ ہم وحشی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے سر نہیں کاٹتے۔ ہم آزادی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ خدا بھی رکھتا ہے۔ میں وحشی نہیں ہوں۔ میں ایک آزادی پسند جمہوریت کا منتخب قائد ہوں۔ ہمارا معاشرہ ہمدرد معاشرہ ہے۔ ہم ہمدردی کے ساتھ بجلی کی کرسی اور زہر یلا انجکشن دیتے ہیں۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔ میں آمر نہیں ہوں۔ وہ ہے۔ میں وحشی نہیں ہوں۔ اور وہ ہے۔ وہ سب ہیں۔ میرے پاس اخلاقی حاکمیت ہے۔ یہ مگا دیکھتے ہو؟ یہ میری اخلاقی حاکمیت ہے اور اسے بھولنا مت۔“

 ادیب کی زندگی نہایت مخدوش، تقریبا برہنہ گرمی ہوتی ہے۔ ہمیں اس پر آنسو بہانے کی ضرورت نہیں۔ ادیب اپنا راستہ چنتا ہے اور اس سے جڑا رہتا ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ آپ ہر طرح کی ہواؤں کا سامنا کرتے ہیں، جن میں سے کچھ واقعی برفانی ہوتی ہیں۔ آپ اپنے بل پر نکلتے ہیں، خود کو خطروں میں ڈالتے ہیں۔ آپ کو کوئی پناہ گاہ، کوئی تحفظ مہیا نہیں ہوتا۔ جب تک آپ جھوٹ نہ بولیں۔ اور بلا شبہ جھوٹ بولنے کی صورت میں آپ اپنی پناہ گاہ تعمیر کر چکے ہوں گے اور کہا جا سکتا ہے کہ ایک سیاست کار بن چکے ہوں گے۔ آج شام میں نے موت کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ اب میں خود اپنی نظم ‘موت’ کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں: 

لاش کس جگہ ملی؟ 

لاش کسے ملی؟

 جب ملی تو کیا لاش مر چکی تھی؟

 لاش کون تھی؟

 باپ یا بیٹی یا بھائی کون تھا 

یا چچا یا بہن یا ماں یا بیٹا 

اس مردہ اور چھوڑ دی گئی لاش کا؟

 کیا چھوڑے جاتے وقت لاش مرچکی تھی؟

 کیا لاش کو چھوڑا گیا؟

 کس نے چھوڑا اسے؟ 

کیا لاش ننگی تھی یا سفر کے لباس میں؟

 کسی شے نے تمہیں لاش کو مردہ قرار دینے پر آمادہ کیا؟

 کیا تمہی نے لاش کو مردہ قرار دیا؟

 تم لاش کو کتنی اچھی طرح جانتے تھے؟ 

تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ لاش مردہ ہے؟

 کیا تم نے لاش کو دھویا

 کیا تم نے اس کی دونوں آنکھیں بند کیں

 کیا تم نے لاش کو دفن کیا

 کیا تم نے اسے چھوڑا ہوا ر ہنے دیا

کیا تم نے لاش کو چوما

 جب ہم آئینے میں دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اس میں دکھائی دینے والا عکس بالکل درست ہے لیکن ایک ملی میٹر اِدھر اُدھر سرکیں تو عکس بدل جاتا ہے۔ ہم دراصل عکسوں کے ایک بھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کسی لکھنے والے کو آئینہ چور چور کرنا پڑتا ہے کیونکہ جو سچ ہمیں گھور رہا ہے وہ آئینے کے دوسری طرف ہے۔

 میرا اعتقاد ہے کہ بڑی رکاوٹوں کے باوجود، شہریوں کے طور پر، اپنی زندگیوں اور اپنے معاشروں کے سچ کی درست تعریف متعین کرنے کا غیر متزلزل اور پختہ ذہنی عزم ایک اہم ذمے داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک فریضہ ہے۔

 اگر یہ عزم ہماری سیاسی بصیرت میں اپنی تجسیم نہ کر سکے تو ہم اس شے کو بحال کرنے کی کوئی امید نہیں کر سکتے جسے ہم قریب قریب کھو چکے ہیں۔ انسان کا وقار۔

ماخذ: ‘آج’ ، شمارہ نمبر ۶۱ ، جنوری ۲۰۰۹ ، کراچی 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search