9/11 کے بھولے ہوئے اسباق: نوم چومسکی (ترجمہ: طارق عباس)
تعارف: امریکہ کے مشہور اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ نے 70 کی دہائی میں ایڈیٹوریل صفحے کے بالمقابل ایک صفحہ متعارف کرایا تھا جو کہ اب Op-Ed یعنی opposite-to-editorial کے نام سے جانا جاتا ہے، Op-Ed میں عوامی تحریرات چھاپی جاتی تھیں ، اور ان تحریرات کے منشور اور دلائل سے اخبار کا متفق ہونا ضروری نہیں تھا۔ اب یہ صفحہ قریب قریب تمام اخبارات کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ نوم چومسکی کے بہت سے مضامین Op-Ed کی اسی سیریز میں شائع ہو چکے ہیں اور ’جائزہ‘ پر ان مضامین کے تراجم کے سلسلہ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں نوم چومسکی کے کم و بیش پچاس Op-Ed مضامین کا ترجمہ کیا جائے گا۔ چومسکی یقیناً کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن اس کے با وصف ان کے Op-Eds کا مختصر تعارف ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ،اگرچہ چومسکی کے Op-Eds بین الاقوامی سطح پر اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ لیکن امریکی اخبارات نے ان کے مضامین کو شائع کرنے سے اکثر پس و پیش سے کام لیا۔ چومسکی کے Op-Eds کو کتابی شکل میں مرتب کرنے والے پیٹر ہارٹ کے مطابق ایک وقت ایسا آیا جب امریکہ کے سب نامور اخبارات نے چومسکی کے مضامین کو شائع کرنے سے معذرت کر لی۔ نیو یارک ٹائمز کے ذیلی ادارے Syndicate کے distribute کردہ Op-Eds مشہور ترین امریکی اخبارات نیو یارک ٹائمز، لاس اینجلس ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، بوسٹن گلوب وغیرہ نے کبھی بھی شائع نہیں کئے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ امریکی مین اسٹریم میڈیا چومسکی کے سیاسی افکار اپنے ملک میں شائع کرنے سے احتراز کرتا ہے جبکہ انہی افکار کو اپنی جغرافیائی حدود سے باہر باقاعدہ مارکیٹ کرتا ہے۔ طارق علی کا کہنا ہے کہ اگر چومسکی اٹلی، جرمنی، فرانس، یا برطانیہ کے شہری ہوتے تو ان کا کالم ان ممالک کے اہم ترین جرائد میں باقاعدگی سے شائع کیا جاتا۔ بلکہ برطانیہ کے اہم ترین اخبارات جن میں گارڈین، اور انڈی پینڈنٹ وغیرہ شامل ہیں، چومسکی کی تحریرات اکثر و بیشتر شائع بھی کرتے ہیں، لیکن وہ ملک جہاں چومسکی کی تحریرات شائع نہیں ہوتیں وہ اُن کا اپنا ملک ہے۔اس استبداد اور امتیاز کے با وجود چومسکی یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک، اُن کا معاشرہ اب بھی دنیا کی سب سے زیادہ آزاد فضاء ہے اور اب بھی وائٹ ہاؤس، پینٹاگان، اور ان کو sponsor کرنے والے کارپوریٹ اداروں کو چیلنج کرنے والے موجود ہیں۔ وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ طاقت کو چیلنج کرنے کی آزادی محض ایک opportunity نہیں بلکہ ایک اہم ذمہ داری ہے۔تاریخ، خصوصاً حالیہ تاریخ کا یہ واضح ترین سبق ہے کہ حقوق کبھی بھی دئیےنہیں جاتے، چھینے جاتے ہیں۔ لہذاٰ میڈیا کا ہم پر پابندی عائد کرنا، خبروں کو فلٹر کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ہمارا فرض کوشش کرنا ہے جو کہ ہم اپنے حقوق حاصل ہونے تک کرتے رہیں گے۔ ذیل میں چومسکی کی Op-Ed سیریز کا پہلا مضمون ’’9/11 کے بھولے ہوئے اسباق‘‘ (مطبوعہ ستمبر 2002)کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
9/11 کے بھولے ہوئے اسباق: نوم چومسکی
گیارہ ستمبر سے بہت سے امریکیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ امریکی حکومت دنیا میں کیا کرتی رہی ہے اوراسکے بارے میں کیسے تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے موضوعات پر بات چیت کا دروازہ کھل گیا ہے جو پہلے بند تھا اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔یہ گفتگو اس لیے بھی ضروری ہے اگر ہم 9/11 جیسے مظالم کا اعادہ نہیں چاہتے۔ اس طرح کے خوش کن خیالات سننے میں تو اچھے لگتے ہیں جیسےصدر بُش کے الفاظ ’’دنیا ہماری آزای سے حسد کرتی ہے۔‘‘ لیکن حقیقی دنیا کے تحفظات، جو ہمیں ایک بالکل مختلف تصویر دکھاتے ہیں، کو نظر انداز کرنا نا سمجھی ہو گی۔
’’وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں‘‘ کا سوال سب سے پہلے صدر بُش نے نہیں اٹھایا۔ چوالیس سال پہلے امریکی سابق صدر آئزن ہاور نے اپنے دفتری ساتھیوں کو بتایا ’’عرب دنیا میں ہمارے خلاف نفرت کی لہر وہاں کی حکومتوں کی جانب سے نہیں، بلکہ عوام کی جانب سے ہے۔‘‘ اسکی نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اس نفرت کی بنیادی وجوہات یہ بیان کیں ’’ امریکہ کرپٹ اور مطلق العنان حکومتوں کا حامی ہے، سیاسی اور معاشی ترقی کا دشمن ہے، اور ہمارے تیل کے ذخائر پر بُری نگاہ رکھتا ہے۔‘‘
گیارہ ستمبر 2000کے بعد بھی عرب میں کئے گئے سروے ہمیں چوالیس برس پرانی کہانی سنا رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں کچھ مزید امریکی پالیسیوں سے نفرت بھی شامل ہو چکی ہے۔ اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ وہاں کا سیکولر اور ایلیٹ طبقہ بھی وہاں کی عوامی رائے کا حامی ہے۔ صرف ایک مثال دینا یہاں کافی ہو گی کہ Far-Eastern-Economic-Review میں بین الاقوامی شہرت یافتہ علاقائی تخصص رکھنے والے احمدرشید نے لکھا تھا کہ پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ جنرل مشرف کی فوجی آمریت کی حمایت کر رہا ہے اور جمہوریت کو ملک میں واپس آنے میں مانع ہے۔
ہمارے لیئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ سے وہ لوگ نفرت کر رہے ہیں جو امریکہ اور امریکیوں، دونوں کو ان کی آزادی سمیت پسند کرتے ہیں۔ اُن کی نفرت امریکی حکومت کی ان پالیسیوں سے ہے جو انہیں اسی آزادی سے دور رکھے ہوئے ہے، جس کے ہماری طرح وہ بھی خواہشمند ہیں۔
اسامہ بن لادن سے نفرت کرنے والے اور خوف کھانے والے بھی اُس کے غم و غصے میں اُس کے شانہ بشانہ ہیں جب وہ کہتا ہے کہ امریکہ کرپٹ اور ظالم حکومتوں کا محافظ ہے، اور سعودی عرب پر ’’قابض ‘‘ ہے۔ امریکہ کے خلاف پایا جانیوالا غم و غصہ ہی دہشت گردوں کو استعانت اور جوان خون مہیا کرتا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ دنیا کا زیادہ تر حصہ واشنگٹن کو ایک دہشت گرد ریاست سمجھتا ہے۔ ماضی قریب میں امریکہ نے کولمبیا، وسطی امریکہ، پانامہ، سوڈان اور ترکی میں ایسے اقدامات کیئے ہیں جو امریکی حکومت کی دہشت گردی کی خود وضع کردہ تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ اقدامات بعض اوقات اس تعریف پر بھی پورے اترتے ہیں جو امریکہ اپنے دشمنوں کے ہتھکنڈوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔
سیموئل ہنٹنگٹن نے امریکی اسٹبلشمنٹ کے سب سے سنجیدہ رسالے Foreign-Affairs میں 1999 میں لکھا ”جہاں امریکہ بہت سی ریاستوں کو بدمعاش ریاست( rogue-states )کہتا ہے، وہاں بہت سے ممالک امریکہ کو rogue سپر پاور کہتے ہیں، جو کہ ان کی سالمیت کو واحد اور سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔‘‘
یہ خیالات محض اس وجہ سے تبدیل نہیں ہو سکتے کہ 9/11 کو ایک مغربی ملک کے علاقے میں پہلی بار ایک اس طرح کا ظالمانہ حملہ ہوا جس طرح کے مصائب سے مغربی طاقت کے متاثرین خوب واقف تھے۔ یہ حملہ ریڈ بریگیڈ (اٹلی)، آئرش ریپبلکن آرمی اور FLN (الجیریا) کے چھوٹے چھوٹے دہشت گرد حملوں کی نسبت بہت بڑا واقعہ تھا۔
9/11 کے واقعہ کی پوری دنیا نے مذمت کی اور بیگناہ متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا مگر یہ جذبات مشروط تھے۔ستمبر 2011 کے آخر میں کیے جانیوالے ایک بین الااقوامی گیلپ پول میں امریکہ کے افغانستان پر فوجی حملے کی بہت تھوڑی حمایت پائی گئی۔ سب سے کم حمایت لاطینی امریکہ میں دیکھی گئی، وہ خطہ جسے امریکی فوجی مداخلت کا سب سے زیادہ تجربہ ہے (مثال کے طور پر میکسیکو میں صرف 2 فیصد۔)
عرب خطے میں امریکہ کے خلاف پائی جانے والی نفرت کی لہر کو بڑھانے کی وجہ امریکہ کا وہ طرز عمل بھی ہے جو اس نے عراق اور فلسطین۔ اسرائیل تنازعے پر اختیار کیا ہے۔ فوجی مدد کے ذریعے اسرائیلی جابرانہ قبضے کو تقویت پہنچاتے ہوئے امریکہ کو مسلسل 35 برس بیت چکے ہیں۔
اسرائیل فلسطین کے مابین تنازعے کو کم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اسے مزید بڑھاوا نہ دیں، جو کہ ہم ہمیشہ ہی دیتے ہیں۔ نہ صرف اُن تمام ممالک کے مشترکہ فیصلے میں شامل نہ ہو کر جو اس خطے کی تمام ریاستوں کی آزادی اور سالمیت پر متفق ہیں بشمول ریاستِ فلسطین کے (جو اُن علاقوں پر مشتمل ہوگی جو ابھی اسرائیلی قبضے میں ہیں، شاید جس کے لیے سرحدی لکیروں میں باہمی رضامندی سے تھوڑا بہت ردوبدل کرنا پڑے) بلکہ اسرائیل کی اُن متواتر کوششوں کو سیاسی، مالی، عسکری، سفارتی اور نظریاتی تعاون مہیا کر کے بھی جو ایسے کسی فارمولے کو ناممکن بنا دیتی ہیں۔
عراق میں امریکی دبائو میں نافذ کردہ ایک دہائی پر محیط تجارتی پابندیاں لاکھوں عراقیوں کی موت اور صدام حسین کو مزید مستحکم بنانے پر منتج ہوئی ہیں۔ عسکری تجزیہ نگار جان اور کارل ملرُ نے 1999 میں Foreign-Affairs میگزین میں یہ دعویٰ کیا کہ جتنے عراقی ان پابندیوں سے مارے گئے ہیں، اتنے شاید تمام انسانی تاریخ میں نام نہاد weapons-of-mass destruction سے بھی ہلاک نہیں ہوئے۔
امریکہ کے عراق پر حملے کی حالیہ توجیہ اس وقت سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے جب صدر بش اول ، صدام حسین کو اس کے بد ترین جرائم Halabja-gassing اور Al-Anfal-massacres کے بعد بطور تجارتی ساتھی خوش آمدید کہ رہا تھا۔ اس وقت لندن اور واشنگٹن کا چہیتا قاتل صدام حسین آج کے صدام حسین سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔
جہاں تک امریکہ کے عراق پر حالیہ حملے کا تعلق ہے، ڈانلڈ رمزفیلڈ سمیت کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے جو عراق پر موجودہ حملے کی مستقبل میں ادا کی جانے والی قیمت اور اسکے مضمرات کا درست ادراک کر پائے۔
مسلم انتہا پسند یہ یقین رکھتے ہیں کہ عراق پر حملہ نہ صرف کئی عراقیوں کی موت اور کئی علاقوں کی تباہی کا سبب بنے گا بلکہ انہیں بہت سے تازہ سپاہی بھرتی کرنے کا موقع بھی مہیا کرے گا جن کی مدد سے وہ مستقبل میں دہشت گردی کاروائیاں کر پائیں گے۔ وہ صدر بش کے اس نظریے کو بھی غالباًخوش آمدید کہتے ہیں کہ آپ کو جس سے خطرہ محسوس ہو، اس پر پہلے ہی حملہ کر دو۔ بالفاظ دیگر یہ نظریہ لامتناہی حملوں کا باقاعدہ ایک لائسنس یا اجازت نامہ ہے۔ صدر بش کا کہنا ہے ’’ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں اپنے طرزِ زندگی اور ملک کو محفوظ بنانے کیلئے کتنی جنگیں لڑنا پڑیں گی۔‘‘ وہ ٹھیک کہتا ہے۔
خطرات تو ہر جگہ موجود ہیں، حتّی کہ ملک کے اندر بھی۔ لامتناہی حملوں کا یہ نسخہ امریکہ کے لیے اُن دشمنوں سے زیادہ نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے جو ہم نے تراشے ہوئے ہیں، اور دہشت گرد تنظیمیں اس کی وجوہات بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔
آج سے بیس برس قبل، اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کا سابق صدر ہرکابی یہوشافات جو عرب تہذیب کا ایک معتبر ماہر بھی تھا، نے ایک نکتہ اٹھایا جو آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا تب تھا، کہ ”دہشت گردی کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ایک باعزت راستہ مہیا کیا جائے جو اُن کے حقِ خود ارادیت کا احترام کرتا ہو۔ جب کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ختم ہو جائے، مچھر خود بخود غائب ہو جائیں گے۔ “اور یہ تب کی بات ہے جب اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں کسی جوابی کاروائی سے تقریباً مکمل چھوٹ حاصل تھی جو اب نہیں رہی۔ لیکن ہرکابی کا انتباہ بہت واضح تھا اور اس کی سچائی آج بھی مسلّم ہے۔
گیارہ ستمبر سے بہت پہلے یہ امر یقینی ہو چکا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے وجود میں آنے سے متمول اور طاقتور طبقہ تشدد کے ذرائع پر اپنی تقریباً مکمل اجارہ داری کھو بیٹھے گا اور اسے اپنی ہی سر زمین پر حملے کا نشانہ بنایا جانا ممکن ہو جائے گا۔ اگر ہم کوڑے کے مزید ڈھیر کھڑے کرتے جائیں گے، تو مچھروں کی تعداد اور اُنکی تباہ کن طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور اگر ہم اپنے وسائل کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو ختم کرنے کیلئے استعمال میں لائیں ، بالفاظ دیگر، نفرت کی اس لہر کو جڑوں سمیت ختم کر دیں، تو نہ صرف ہم خود کو لاحق خطرات گھٹا سکتے ہیں بلکہ اُن نظریات کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہو سکتے ہیں جن کے مطابق زندگی گزارنے کے ہم داعی اور خواہشمند ہیں۔ اور اگر ہم ان آدرشوں کے ساتھ واقعتاً سنجیدہ ہیں تو یہ ہماری پہنچ سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
چومسکی کی یہ تحریر اپنے اندر ایسے نظائر رکھتی ہے جن کی وجہ سے مین سٹریم امریکی جرائد اس سے خائف تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ جرائد کا حد تک آزاد تھے۔