جدیدیت، روایت اور ’انقطاع‘ کا سوال۔ محمد دین جوہر
گزشتہ دنوں میرا ایک مضمون ”ایک عالمِ دین کے پانچ سوال“ کے زیر عنوان ایک ویب گاہ پر شائع ہوا۔ اس میں پہلا سوال روایت کے بارے میں تھا۔ میرا جواب صحیح تھا یا غلط، یہ تو پتہ نہیں چلا لیکن ایک بات ضرور معلوم ہوئی کہ یہ ”پسند فرمود“ کا شرف حاصل نہیں کر پایا۔ زہے نصیب! خوش قسمتی سے بعض اہلِ علم کا ردعمل کچھ ’سوالات‘ کی صورت میں مجھ تک پہنچا ہے، اور اس طرح زیربحث موضوع پر مزید پہلوؤں سے گفتگو کو آگے بڑھانے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے غلط ہو لیکن میرا تاثر ہے کہ یہ سوالات خواندگیِ متن کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے نہیں آئے کیونکہ میں نے کوشش کی تھی کہ ابہام سے بچتے ہوئے اپنی گزارشات کو صراحت سے بیان کر دوں۔ بہرحال قاری کا اپنا ایک اختیار ہوتا ہے جس سے وہ متن کی معنوی تاکیدات کو ایک نئی ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سوال در سوال ایک ثمرآور سلسلہ ہے جو مصنف کے عجزِ اظہار کو نمایاں کرتے ہوئے تعینِ معنی کے امکانات روشن رکھتا ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ’روایت‘ کا سوال جدیدیت کا پیدا کردہ ہے۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ جو سوال پیدا ہی جدیدیت نے کیا ہے اس کے تلازمات خود جدیدیت سے اول ہوں گے اور کسی بھی دیگر مذہب یا ثقافت سے ثانوی ہوں گے۔ میں نے اجمالاً یہ بھی عرض کیا تھا کہ روایت، جدیدیت کا sink ہے۔ جدیدیت اپنی تعریف و تعیین کے تمام علمی اور تہذیبی وسائل اپنے اندر سے پیدا کرتی ہے، اور اپنے سے خارج میں ہر اس شے کو روایت قرار دیتی ہے جو خود اس میں صرف نہیں ہو سکتی۔ مثلاً استشراق ایک پوری تہذیب کی Othering سے پیدا ہونے والا علمی ڈسپلن ہے تاکہ ایک ایسی تہذیب کو جدیدیت کے sink میں پھینکا جا سکے جو اپنی اولیات میں اس سے متضاد و متغائر ہے۔ اس کی ایک اور بڑی مثال یہ ہے کہ جدیدیت اپنے جوہر میں نابودیت (Nihilism) ہے اور عمل میں violence ہے لیکن استعماری قوتوں نے دہشت گردی اور violence کے منابع مذاہب، خصوصاً اسلام سے منسوب کر کے سیاسی پالیسیاں وضع کی ہیں۔ سادہ لفظوں میں، روایت کا مبحث ہمارے ہاں جدیدیت کے ذرائع سے در آیا ہے اور ہماری اپنی کسی تہذیبی ضرورت سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہاں شتابی یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’روایت‘ نام کی چیز مسلم معاشروں میں عملاً ضرور موجود رہی ہے لیکن یہ موجودگی اپنا کوئی اجمالی یا مفصل ایسا علمی بیان نہیں رکھتی جو خود آگاہ (reflexively conscious) ہو اور جس پر علمی پوزیشن لے کر کوئی بات کی جا سکے۔ اس سلسلے میں علمائے کرام رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں عملاً جو روایت چلی آتی ہے اس کا علمی بیان کیا ہے یا کیا ہو سکتا ہے۔ اور اگر کوئی مبسوط علمی بیان موجود نہیں ہے تو اس کی علمی تشکیل کیونکر ہو سکتی ہے۔
میں نے اپنی گزارشات میں جدیدیت کے پیدا کردہ تصورِ روایت کو مفید مطلب بنانے کی کوشش ضرور کی تھی اور اس کا بنیادی مقصد جدیدیت کے سامنے کھڑے ہونے کی کوئی گنجائش پیدا کرنا تھا۔ ان گزارشات میں غلطی کی نشاندہی ایک اہم موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھانے میں معاون ہو سکتی ہے، اور اگر ان میں کوئی مضرت کا پہلو تھا تو اس کی تصریح سے اسے زائل کیا جا سکتا ہے۔ میں نے تو یہ بھی عرض کیا تھا کہ ”میری رائے میں روایت کا تصور مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور ہم ”اسلام یہ کہتا ہے … “ کو اپنی گفتگو کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔“ اس گزارش کے بعد تو اعتراض کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ تین سو سال میں ہم نے ”اسلام یہ کہتا ہے … “ کے بعد اپنے معاشروں اور انسانیت کے سامنے جو علوم اور مباحث پیش کیے ہیں وہ جدیدیت کے علوم کا پست ترین چربہ ہی ہیں۔ اسلام جس حق کو پیش کرتا ہے ہم اسے کسی بھی سطح پر علم کا content بنا کر انسانوں کے سامنے نہیں رکھ سکے۔ شہودی حاضر و موجود تاریخ میں ظاہر ہوتا ہے اور علم اس سے مسلسل نبردآزما رہنے سے عبارت ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں ہم نے ”دین کی خدمت“ کے جذبے سے جو علوم پیدا کیے ہیں ان پر نیک نیتی کا ثواب ملنے کی امید تو ہے، لیکن ان میں کام کی چیزیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
گزارش ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل سے آج تک اسلام کے تین بنیادی ترین عقائد یعنی توحید، جہاد اور رسالت ایک مناقشۂ عظیم سے گزر کر مختلف فرقوں میں متحجر ہو چکے ہیں۔ اس مناقشۂ عظیم سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ان صدیوں میں بنیادی نزاع دین کی مجموعی تعبیرات پر تھا، اور اس میں داخلی اور خارجی دونوں عناصر و عوامل فعال تھے۔ درست تر معنی میں اس کا آغاز بہادر شاہ اول کی تخت نشینی اور شیعہ سنی مناقشے سے ہوا تھا، اور اٹھارویں صدی کے آخر میں یہ مناقشۂ عظیم سنی وہابی صورت اختیار کر گیا۔ جنگ آزادی کے قبل ہی خارج سے اسلام اور عیسائیت کا مجادلہ اور اسلام اور ہندو مت کے مباحث بھی اس میں شامل ہو چکے تھے۔ جنگ آزادی کے بعد اس مناقشے کے کرداروں میں زبردست اضافہ ہو گیا۔ داخلی طور پر سنی، شیعہ، وہابی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، متجددین، اہل قرآن، صوفی، مہدوی، نیچری، قادیانی، لبرل اور سیکولر وغیرہ سب بڑے کرداروں کے طور پر سامنے آئے اور مذکورہ تین عقائد کے حوالے سے بنیادی سوال وہی رہا کہ ”اسلام کیا ہے؟“ ہماری موجودہ صورت حال اس لاینحل مناقشۂ عظیم کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ روایت عملاً قائم اور موجود ہوتی ہے اور ہمارے تناظر میں عملاً قائم روایت اس سوال کا وافی جواب دیتی آئی ہے کہ ”اسلام کیا ہے؟“ جہاں روایت زندہ ہو وہاں دین کی مجموعی تعبیرات کا سوال ہی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اور عین یہی وہ سوال ہے جس کا ہم سامنا نہیں کرنا چاہتے کہ اگر روایت زندہ ہے تو دین کی مجموعی تعبیرات کا نہ ختم ہونے والا کھیل گزشتہ تین صدیوں سے کیوں جاری ہے؟ روایت کی موجودگی میں تعبیر یا تعبیرات ممکن نہیں ہوتیں، یعنی عملی طور پر قائم روایت متن کو شعور پر اور شعور کو عمل پر غالب نہیں آنے دیتی۔ اس عرصے میں سامنے آنے والی اکثر تعبیرات اس قدر ریڈیکل ہیں کہ انہوں نے روایت پر بننے والے ملی ذہن ہی کو پارہ پارہ کر دیا، اور برصغیر میں ایسی مسلم فرقہ واریت کو جنم دیا جس کا کوئی حل ہمیں آج بھی نہیں سوجھ رہا۔ ہمیں یہ ماننے میں تامل ہے کہ تعبیرات صرف اسی صورت میں ممکن ہوتی ہیں جب روایت کمزور و منتشر ہو جائے، یا منہدم ہو جائے۔ مذکورہ مناقشۂ عظیم میں آقائے سرسید کا تصورِ تہذیب دیگر تمام داخلی تہذیبی تصورات اور تعبیرات پر غالب آ کر عملی صورت اختیار کر گیا، اور باقی تمام تصورات ایک غیر اہم متبادل یا آقائے سرسید کی پیدا کردہ تہذیب کی شرائط پر موجود چلے آتے ہیں۔ یہیں سے روایت کے حوالے سے بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے جس کا سامنا کرنے کی ہم کوئی فکری اور مذہبی استعداد نہیں رکھتے۔
روایت اور خاص طور پر دینی روایت کے حوالے سے ایک انتہائی اہم سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ آقائے سرسید کے تہذیبی منصوبے کی غیرمعمولی اور مکمل کامیابی کے بعد، وہ کون سی جائز اور ثقہ فکری بنیادیں ہیں جن پر کھڑے ہو کر روایت کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟ گزشتہ صدیوں نے یہ امر قطعی واضح کر دیا ہے کہ جھاڑ پھونک، فتوے یا نعرے بازی سے آقائے سرسید کے کام پر کوئی فرق پڑا ہے اور نہ آج پڑ سکتا ہے۔ اہلِ علم اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ استعمار کے حوالے سے آقائے سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، اور انہوں نے پورے دین کو جس طرح استعماری خوشنودی میں کھپا دیا اس پر تاریخ شاہد ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آقائے سرسید کا تہذیبی تصور اور تہذیبی عمل برصغیر میں مسلمانوں کی بقا کا واحد ضامن چلا آتا ہے۔ اور اس امر کے طے شدہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں کہ آقائے سرسید نے روایت کی کوئی بنیاد اپنی جگہ نہیں رہنے دی۔ لہٰذا یہ فرض کرنا درست نہیں ہے کہ روایت بھی جوں کی توں چلی آتی ہے اور آقائے سرسید کی تعبیرات اور ان کے مخالفین کی جوابی تعبیرات بھی خوب پھل پھول رہی ہیں۔ گزشتہ تین سو سال سے برصغیر کے مسلمانوں میں جو آپا دھاپی مچی ہوئی ہے اس کا نقطۂ ماسکہ عملاً چلی آنے والی روایت اور اس کی معنویت کے علاوہ اور کیا ہے؟ مناقشۂ عظیم تین سو سال سے لاینحل چلا آتا ہے، اور اس میں ہونے والی ساری بحثا بحثی روایت کے خلاف گئی ہے کیونکہ آقائے سرسید نے روایت کے علی الرغم ایک بالکل ہی نیا تہذیبی تصور عملاً قائم کر کے دکھا دیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آقائے سرسید کی فکر اپنے تہذیبی امکانات پورے کر کے اب ایک نہایت سنگین نوعیت کے بحران سے دوچار ہے۔ مدافعین مذہب کی صورت حال تو یہ ہے کہ انہوں نے آنکھیں زور سے بھینچ کر، کس کے پٹی چڑھا کر اوپر ہاتھ بھی زور سے دھرے ہوئے ہیں کہ کچھ دکھائی نہ دے جائے۔ اور کان تو تبھی سے بہرے چلے آتے ہیں جب سے مشین کی ٹھکا ٹھک شروع ہوئی ہے۔ بے دماغی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!
اب ہم ایک اور زاویے سے امورِ روایت کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ گزشتہ صدی کے شروع میں ٹی ایس ایلیٹ نے ادبی تنقید میں اپنے ایک غیرمعمولی بااثر مضمون (Tradition and Individual Talent) میں روایت کا سوال اٹھایا تھا۔ اس مضمون کی بازگشت ہمارے ہاں بھی سنی گئی اور روایت کا سوال اول اول ادبی تنقید میں ہی برگ و بار لایا۔ ایلیٹ کے بیانِ روایت کی پیدا کردہ ثقافتی فضا میں، محمد حسن عسکری نے ادبی تنقید میں رہتے ہوئے روایت کے ایک خاص اور گمراہ کن مغربی تصور، سرّیت (Gnosticism) کو براستہ فرانسیسی ’دریافت‘ کیا۔ عسکری صاحب نے سریت کے ڈانڈے شیخ اکبر ابن عربیؒ کے عرفان سے ملاتے ہوئے اسے ایک ’مذہبی‘ معنویت دے دی۔ جلد ہی ان کا دریافت کردہ تصورِ روایت کچھ اہل علم کی کوششوں سے ہمارے ہاں ایک مبینہ دبستانِ روایت کے طور پر قائم ہو گیا۔ سریت یا دبستانِ روایت چونکہ مغربی تہذیب پر ایک ’خاص تناظر‘ سے شدید تنقید کو سامنے لاتا ہے، اس لیے ہماری علمی باچھیں بھی کھل گئیں کہ چلو مغرب نصیب تو ہو ہی چکے تھے لیکن ضمیر کی خلش جاتی نہ تھی اور اب سریت کی مغرب پر تنقید سے یہ کانٹا بھی نکل گیا۔ دبستانِ روایت کے ہاں سریت کے ’اسلامی‘ ہونے کے کوئی علمی یا عرفانی دلائل تو نہ تھے لیکن فوری طور پر یہی کافی سمجھا گیا کہ اہلِ سریت روایت یعنی ٹریڈیشن کو بڑی ٹی (Capital T) سے لکھتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم سریت کی تنقیدِ مغرب کو اپنے دین کی مؤید تنقید سمجھ کر اس پر فریفتہ ہو لیے۔ سچ یہ ہے کہ اپنی فکری اولیات اور منتہائی نتائج میں ایلیٹ کا تصورِ روایت اور دبستانِ روایت دونوں اسلام سے جو نسبت رکھتے ہیں وہ باہم یک نگر (mutually exclusive) ہونے کی ہے۔ دبستانِ روایت کے مذہبی مکھوٹے کی وجہ سے روایت کی گفتگو کشاں کشاں مذہبی علوم میں بھی راہ پانے لگی اور ہماری غیرحاضر دماغی میں دبستانِ روایت اور دینی علوم میں مضبوط نسبتیں ازخود قائم ہوتی چلی گئیں تاآنکہ اس حوالے سے موجودہ بالکل منتشر صورت حال قائم ہو گئی۔ یہاں ضمناً یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ جدید عمرانیات سماجی اور بشریاتی حوالوں سے جدیدیت کو زیر بحث لاتی ہے تو وہاں بھی ’روایت‘ یا ’روایتی‘ کے تصورات برتے جاتے ہیں لیکن ان کی حیثیت to put Modernity in relief سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔
حسن عسکری میرے لیے بے پایاں واجب الاحترام ہستی ہیں، اور مجھے جو ایک آدھ بات پتہ ہے وہ انہیں کے ذریعے سے نصیب ہوئی ہے۔ اوپر ان کے تصورِ روایت کے حوالے سے جو بات عرض کی ہے وہ بہ اکراہ کہی گئی ہے۔ وہ بڑے آدمی ہیں اور میں ان سے اوقاتِ اختلاف نہیں رکھتا۔ ان سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں نے ایف ایس سی کر لی تھی اور میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا چاہتا تھا۔ ان کی کتابیں ڈھونڈھنے میں جتنی خواری اٹھائی ہے وہ الگ ایک کہانی ہے۔ مجھے کوئی پروفیسر ٹائپ ملتا یا کسی ایسے صاحب سے شرف نیاز ہوتا جو پڑھا لکھا معلوم ہوتا تو میں ایک ہی سوال پوچھتا تھا کہ کیا آپ نے حسن عسکری کو پڑھا ہے؟ برسوں میں ایک ہی آدمی ملا جو ان کو بطور مترجم اور افسانہ نگار جانتا تھا۔ چند سال بعد سنہ ۱۹۸۵ء میں جب ان کی کتاب ”وقت کی راگنی“ ہاتھ لگی تو ان کے تصورِ روایت سے تعارف ہوا۔ ہمارے ہاں جو نوجوان مذہبی بھی ہو اور ذہین بھی ہو، اس کو یہ تصورِ روایت مگرمچھ کی طرح نگل لیتا ہے۔ اس تصور روایت کا شکوہِ اظہار، ’حق آشامی‘، کمالِ ابلاغ اور کتمانِ موقف ایسا ہے کہ آدمی کے لیے اس کے سامنے کھڑے ہونا یا کھڑے رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تصورِ روایت بظاہر جدیدیت کی تنقید ہے لیکن اصلاً یہ اس کی ایک انتہائی subtle form ہے جس کی علمی تصریحات کرتے کرتے آدمی کا پتّا پانی ہو جاتا ہے۔ جب تہذیبوں کا قلب مرجھا جائے اور ذہن مرگھٹِ افکار بن جائے تو ایسی ہی صورت حال پیدا ہوا کرتی ہے۔ بہرحال میں اس تصورِ روایت کو علمی اور دینی لحاظ سے سرتا سر غلط خیال کرتا ہوں۔
ایلیٹ ایک غیرمعمولی آدمی تھا اور اس نے اپنے عہد کو اس سے الگ ہو کر ایک معروضی انداز میں دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے روایت پر جو مضمون لکھا وہ بیسویں صدی کے اہم ترین اور بااثر ترین مضامین میں سے ہے اور اس کے اثرات بھی عالمگیر ہوئے ہیں۔ ایلیٹ نے اپنے ہم عصر کلچر میں ایک گنجائش دیکھتے ہوئے روایت کو موضوع بنایا تھا۔ اس مضمون کے حوالے سے بھی چند گزارشات یہاں ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس میں پیش کردہ روایت کا تصور بالکل خام ہے اور ہمارے مفید مطلب نہیں لیکن یہ بات متن سے پیدا ہونے والے دلائل سے مؤید ہونی چاہیے جو کبھی تفصیل سے عرض کروں گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایلیٹ روایت سے ادیب یا شاعر کے شعور میں فعال اور متحرک کوئی historical sense مراد لیتا ہے جو ماضی کو دیکھنے اور تجربہ کرنے کا ایک رویہ ہے۔ ایلیٹ کا تصورِ روایت حد درجہ موضوعی ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ ماضی میں لکھے گئے ادبی شہ پاروں کو تخلیقی مقاصد کے لیے کیونکر subjectivise کر کے appropriate کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کے ہاں روایت سے مراد شعورِ انسانی سے خارج میں حق اساس کوئی تصور یا عمل نہیں ہے جو آٹونومی رکھتا ہو، اور انسان کے شعور اور ارادے کے لیے binding ہو۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس کے ہاں روایت کوئی مستقل بالذات چیز نہیں بلکہ ہر نئے شہ پارے کی تخلیق سے پوری روایت اپنی ہیئت اور معنویت کو ازسرنو متعین کرتی ہے۔ پانچویں بات یہ کہ ایلیٹ کے ہاں روایت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو فرد اور معاشرے کی داخلیت کو کسی ایک اصول اور نہج پر ہموار کرتی ہو، بلکہ جدیدیت کی پیدا کردہ داخلیت جب چاہے اور جس طرح چاہے موجود روایت کو تخلیقی لوازمے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کی تشکیل نو کر سکتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایلیٹ انتہائی ذہین شاعر و فنکار و نقاد تھا، اور روایت پر اس کا مضمون نہایت مہارت اور چابک دستی سے لکھا گیا ہے اور حد درجہ حاضر دماغی سے مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ جدیدیت کے پیدا کردہ سائنسی علوم میں اظہار حد درجہ ریاضیاتی اور تکنیکی تدقیق (precision) رکھتا ہے، لیکن سماجی اور فلسفیانہ علوم میں اس سے قطعی برعکس، اظہار حد درجہ ابہامی، ایہامی اور توریائی ہوتا ہے۔ یہ مضمون بھی مؤخر الذکر طرز اظہار کی بہت اچھی مثال ہے۔ عرض ہے کہ ایلیٹ کا تصورِ روایت ہو، یا حسن عسکری کا ’دریافت کردہ‘ تصورِ روایت، اس سے مسلم یا دینِ مسلم کا کوئی بھلا ہونے کا نہیں۔ میری گزارشات پر غضب تب قابل فہم تھا جب روایت کے ان تصورات کے سامنے کھڑے ہونے کے علمی وسائل بھی سامنے لائے جا چکے ہوں۔
ہمارے منقولہ علوم میں ’تواتر‘ کا سوال قدیم سے موجود ہے اور اس کی تعریف معروف ہے۔ ہدایت کے زمانی انتقال میں تواتر کو ایک داخلی میکانزم کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، اور اس کا تناظر ٹھیٹھ مذہبی علوم کی اندرونی بحث کا ہے۔ تواتر کی اصل معنویت ہی عملی ہے، اور اولاً یہ کوئی نظری چیز نہیں ہے۔ میں تو روایت کو موضوع بنا کر جدیدیت کے سامنے کھڑے ہونے کے نظری امکانات کی تلاش میں ہوں۔ گزارش ہے کہ جو اہلِ علم میرے بیان کردہ تصورِ روایت پر اُلل رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ جدید علوم کے تناظر میں تواتر کی بحث کو آگے بڑھائیں اور اسے نئے دلائل سے مؤید کریں۔ لیکن یہ عرض کرنا یہاں ضروری ہے کہ تواتر اور تصورِ روایت کے سوال میں تساوی فرض کرنا خلط مبحث اور سینہ زوری ہے۔ میری استعداد کم ہے، اور میں تو اتنی ہی بات عرض کرتا ہوں جتنی سوچ سمجھ پاتا ہوں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ تہذیبی سناٹے میں اہلِ علم کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور جونہی مجھ جیسا بےبضاعت آدمی کوئی تفہیمی اور استفہامی بات عرض کرتا ہے، نجوائی علوم کے جھکڑ چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
میں نے سوالات کے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”اس میں یہ ضروری امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہدایت اور روایت مساوی نہیں ہیں کیونکہ اس سے ہدایت کی خودمختار حیثیت پر حرف آتا ہے۔“ اور یہ کہ ”جب ہم یہ کہتے ہیں کہ روایت ختم ہو گئی ہے یا منتشر ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ روایت میں موجود محتوائے ہدایت گم ہو گیا ہے یا اس کے بنیادی اجزا قابلِ رسائی نہیں رہے۔ روایت چونکہ شعور اور عمل کی کل تہذیبی کائنات کو آگے منتقل کرتی ہے، تو اس سے صرف یہ مراد ہے کہ ہدایت جن تاریخی ذرائع سے اپنی توسیط کرتی ہے وہ ختم ہو چکے ہیں اور جدید عہد میں علم، عمل اور کلچر کے نئے توسیطی ذرائع ان کی جگہ نہیں لے سکے“۔ ان گزارشات کے بعد کیا بات رہ جاتی ہے؟
میں نے اپنے سابقہ مضمون میں روایت کی جو تعریف کی تھی اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے، اور یہ مفید مطلب تعریف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مذہبی آدمی کے لیے جدیدیت کے سامنے کھڑے ہونے کی کوئی گنجائش (space) پیدا کی جائے۔ میرے خیال میں جدیدیت نے روایت کے نام سے یہ گنجائش پہلے ہی مذہبی آدمی کو بخشیش کے طور پر دے رکھی ہے۔ مذہبی آدمی کے لیے جدیدیت کی گود تمام ضروری سہولتوں کے ساتھ ہر وقت کشادہ ہوتی ہے، اور مذہبی تعبیرات کا تقریباً سارا کام وہیں بیٹھ کر صدیوں سے ہو رہا ہے اور اب بھی تیز تر ہوتا ہے۔ زیادہ تر مذہبی اہلِ علم کی منزل بھی یہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جدیدیت کا بخشیش کے طور پر پیدا کردہ روایت کا تصور ہمارے کسی کام کا نہیں۔ اس میں رد و بدل کی ضرورت تھی تاکہ ایسا بیان علمی طور پر قابل دفاع بھی ہو۔ اگر اس تصور سے تائیدِ دین نہیں ہوتی تو یہ میرے نزدیک بھی قابل مذمت اور قابلِ رد ہے۔ ہمارے ہاں ذہن کی فرقہ وارانہ مذہبی تشکیل میں علم منقطع الامکان ہوتا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ قضایا کے علاوہ بنیادی موضوعات پر گفتگو کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ فرقے یقیناً ہمارے دماغ کو سلاتے اور دل کو لبھاتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ پوزیشن پر کھڑے ہو کر کوئی ایک بات بھی جدیدیت کے روبرو نہیں کہی جا سکتی۔ میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ ایلیٹ اور اہلِ سریت کا تصور روایت دینی لحاظ سے غلط اور مضرت رساں ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ دینی روایت کے اندر سے روایت کا کوئی تصور اپنی علمی تفصیلات اور تعینات کے ساتھ سامنے نہیں ہے۔ یہی وہ سیاق و سباق ہے جس میں روایت پر اپنی گزارشات پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ ہماری ثقافتی صورت حال (cultural condition) میر کے اس شعر سے واضح ہے:
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
روایت زمان پر ثبت ہونے والا نقشِ وجود ہے۔ جدیدیت نے زمان و مکاں کی پوری تقویم ہی بدل ڈالی ہے۔ اب سال مہینوں کی طرح ہیں، مہینے ہفتوں کی مانند، ہفتے دنوں جیسے اور دن ایسے جیسے چنگاری۔ وقت اب آتش پیرہن ہے اور جدیدیت کی بھڑکائی ہوئی چتا میں ستی ہو رہا ہے۔ وقت جو تاریخ، تہذیب اور روایت کا مرکَب ہے اپنی فطرت کے کواڑوں سے اکھڑ چکا ہے۔ جدیدیت اپنے تصور اور واقعیت میں انقطاع ہی انقطاع ہے، نیچر میں، تاریخ میں، معاشرت میں اور خود احوال انسانی میں، اور جدیدیت جس انقطاع کی نمائندہ ہے وہ ’خیالاتی‘ نہیں ہے ’واقعاتی‘ ہے۔ وجودِ شہودی نخچیرِ جدیدیت ہے، اور زمان و مکاں بسملِ جدیدیت۔ یہ فرض کر لینا کہ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں ہماری تہذیبی اور دینی روایت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا، محض حالتِ انکار میں رہنے کی ضد ہے اور کچھ نہیں۔
عرض ہے کہ جدیدیت کا پیدا کردہ ایک اور تصورِ روایت ’ابراہیمی مذاہب کی روایت‘ کا بیان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہماری عقیدت و محبت سے کوئی نادان ہی ناواقف ہو سکتا ہے۔ یہ کیسی شانِ عظمت ہے کہ جب بھی ہم حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کو یاد کرتے ہیں، آپ پر درود بھیجتے ہیں، آپ کی نعت بیان کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں ضرور شامل ہوتے ہیں۔ ابوالمعانی حضرت مرزا عبدالقادر بیدلؒ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے کعبہ کی حیرت انگیز تعریف بیان فرمائی ہے ”این کعبہ کہ مرکزِ سجود من و تو است/ تمثالِ حضورِ دل ابراہیم است“۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہمارا وجودی تعلق اور جدیدیت کا پیدا کردہ ’ابراہیمی مذاہب کی روایت‘ کا تصور باہم قطعی متضاد ہیں۔ ہمیں خوش فہمی ہوتی ہے کہ جب اہلِ جدیدیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتے ہیں تو کسی ایسی ہی محبت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم جدیدیت سے بے خبر لوگ ہیں ورنہ ہمیں معلوم ہوتا کہ ’ابراہیمی مذاہب کی روایت‘ کا تصور اسلام اور مسلمانوں کے لیے اتنا ہی ’مفید‘ ہے جتنا کہ ’معاہدۂ ابراہیم‘ جو کچھ عرصہ قبل صدر ٹرمپ کی زیر نگرانی اسرائیل اور یو ای اے کے مابین ہوا ہے، اور جسے ڈیل آف دی سینچری بھی کہا جا رہا ہے۔ ’ابراہیمی مذاہب کی روایت‘ کے تصور میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام ایک ہی سطح وجود پر اور ایک ہی استناد پر اس کے اجزا ہیں۔ اور یہ استناد اُن مجہول اور اَن کہی نسبتوں سے حاصل ہوتا ہے جس کا تعین جدیدیت خود کرتی ہے۔ اس تصورِ روایت میں اسلام کو یہودیت کا چربہ، اور عیسائیت کی ایک کامیاب heresy (بدعت) کے طور پر ایک جز مانا جاتا ہے، لیکن اس تصورِ روایت کے مطابق اصل مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہی ہیں۔ یہ تصورِ روایت رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر براہ راست حملہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رسالتِ حق ہیں اور اسلام بطور جزو اور کل آپ کی ذات پاک کے حوالے سے مستند اور معتبر ہے، کسی مجہول ’ابراہیمی مذاہب کی روایت‘ کے سبب سے نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شانِ عظمت ہمیں صرف اور صرف حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کے ذریعے سے عطا ہوئی ہے۔ مذکورہ تصور روایت کا مقصد بعثت محمدی کا انکار ہے اور آپ کو نعوذ باللہ ایک مصلح کے طور پر دکھانا ہے جنہوں نے یہودیت اور عیسائیت کی مشترک ’ابراہیمی روایت‘ میں رد و بدل اور اصلاح کر کے اسلام کا مذہب پیش کیا اور جس میں کچھ بھی original نہیں ہے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ اس تصورِ روایت کا مقصد اسلام کا استناد رسالت اور وحی سے منقطع کر کے مجہول تاریخی بنیادوں پر منتقل کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ پورے دین کا استناد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پاک سے ہے۔ آپ نے جس چیز کو دین کہا وہی دین ہے، اور جس چیز کو گمراہی بتایا وہی گمراہی ہے۔
روایت کی بحث میں تصورِ زماں کا ضمناً ذکر کرنا ضروری ہے۔ جدیدیت تاریخی زماں(historical time) کو ایک فطری given کے طور پر تسلیم نہیں کرتی، بلکہ یہ اس کے وسائل اور ذرائع علم کے تابع ہے۔ جدیدیت تاریخی زماں کے ساتھ انسانی شعور کے فطری تعلق کو بالکل ڈھا چکی ہے، اور وہ ماقبل جدیدیت زماں کو صرف اس زاویے سے دیکھتی ہے کہ اُس ’تاریخ‘ کے وہ کون کون سے لوازمات ہیں جو جدیدیت کے ظہور اور تشکیل میں کھپے ہیں۔ اس کے علاوہ ’تاریخ‘ کے کباڑ خانے سے جدیدیت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جدیدیت کے قلب میں مآخذ اور مآل کے گہرے مسائل کی وجہ سے اس نے زمان و مکاں کی ایک بالکل ہی نئی تشکیل کی ہے۔ مآخذ کے لیے اس نے ارضیاتی زماں (geological time) اور مآل کے لیے کونی زماں مکاں (cosmic time-space) کو انسانی شعور کی اساس بنایا ہے۔ جدیدیت تاریخی زمان و مکاں بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ جدید زمان و مکاں کے پچھواڑے میں ایک جزیرہ ہے جہاں پوری تہذیب کا سناٹا ہے۔ وہیں ہمارے بسیرے ہیں، اور آنکھوں پر بندھی کناروں پر لٹکی پٹیاں ہمارے پھریرے ہیں، اور دل کے بہلانے کو ٹٹولنے کا کھیل جاری ہے۔ کوئی آواز آئے تو ہم اسے سناٹے کا انقطاع سمجھتے ہیں۔
میں نے اپنی گزارشات میں ’انقطاع‘ کا لفظ استعمال کیا تھا اور میرا خیال ہے کہ یہی باعثِ خلجان ہوا ہے۔ اگر واقعی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو یہ مسئلہ بعد میں ہے ہمارے ملی اور قومی شعور پر تبصرہ پہلے ہے۔ عصر حاضر میں مسلم شعور مغرب اور جدیدیت کو ’اسلامی‘ قرار دے چکا ہے۔ لہٰذا مسلم شعور کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کو جز اور کل میں باطل کہا جائے اور جدیدیت کو ’غیراسلامی‘ قرار دیا جائے۔ جدید مسلم شعور اور اس کے پیدا کردہ علم میں مغرب اور جدیدیت اصل میں اسلام یا درست تر معنوں میں قرآن مجید ہی کا ’تسلسل‘ ہے۔ اس لیے ’انقطاع‘ کا سوال ہی نہایت تشویشناک اور وحشت اثر ہے۔ ہمارے ہاں تہذیبی اصول یہ ہے کہ خذ ما صفا و دع ما کدر، اور اس کا خوب تر اطلاق آقائے سرسید نے کیا کہ مغرب صفا ہی صفا ہے اور مسلمان کدر ہی کدر ہیں، اس لیے بقول ان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہر چیز (سوائے مذہب) ترک کر کے مکمل انگریز بن جائیں۔ ہمارا متداول اصولِ علم بھی یہی ہے۔ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ مغرب اور جدیدیت تو اسلام اور قرآن مجید کا تسلسل ہیں تو رابرٹ کلائیو سے آج کے بش تک سب خلافت ہی کے اعلیٰ نمونے ہوئے یا نہیں؟ اور اگر نہیں، اور یقیناً نہیں، تو پھر اس اصول کے کیا معنی ہوئے؟ اور سود پر قائم معیشت اور اباحتی قوانین پر بنا معاشرہ سب اسلام ہی کا اعلیٰ نمونہ ٹھہرے یا نہیں ٹھہرے؟ اور اگر نہیں، اور یقیناً نہیں، تو پھر اس اصول کے کیا معنی ہوئے؟
انقطاع کے حوالے سے میں نے عرض کیا تھا کہ ”جب میں انقطاع کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ: (۱) صدرِ اول کے برعکس عصر حاضر کا انسان ہدایت اور اقدار سے مجرد اور براہ راست تعلق کی استعداد نہیں رکھتا اور اس کے لیے توسیطی ذرائع درکار ہیں۔ اور یہ کہ: (۲) ہماری طویل تاریخ میں جو توسیطی ذرائع پیدا کیے گئے تھے ان کا بھی مطلق خاتمہ ہو چکا ہے۔ فی زمانہ ہدایتی اقدار اور انسان کا تعلق انفرادی اور سماجی سطح پر تو یقیناً نظر آتا ہے لیکن وہ کسی تہذیبی نظر و عمل میں اظہار نہیں پا سکیں۔ یاد رہے کہ جن اقدار کا تہذیبی اظہار مسدود ہو جائے وہ انفرادی اور سماجی مظاہر میں بھی بالآخر ختم ہو جاتی ہیں۔“ میری گزارش بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ پھر سے عرض کیے دیتا ہوں کہ اسلام بطور ہدایت اپنے اجزا میں بھی قابل رسائی ہے، اور تواتر سے عبادات میں زندہ ہے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام نے ایک تہذیب کو بھی پیدا کیا ہے۔ میں ’انقطاع‘ سے جو مراد لیتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام کے تہذیبی مظاہر کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ تہذیب، توسیطِ ہدایت کی انسانی کوشش کا نام ہے جو تاریخ میں ظاہر ہوتی ہے اور تاریخی اصول حرکت کے تابع ہوتی ہے، اور ہدایت کو لازمانی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاریخی اصول حرکت سے ماورا ہے۔ تہذیبی مظاہر کیا ہوتے ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں، یقیناً ایک بحث ہے۔ لیکن اس سے میں جو مراد لے رہا ہوں وہ عرض کیے دیتا ہوں۔ (۱) ایسے عقلی علوم جو ایمانیات کے وجودی موقف کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں اور اس سے ہم آہنگ اور خدمت گار ہوں؛ (۲) شریعت کی بنیاد پر قائم ہونے والا طاقت کا اجتماعی نظام؛ (۳) شریعت کی بنیاد پر بننے والی غیرسودی معیشت؛ (۴) تہذیب کی حدود کے اندر تشکیل پذیر کلچر جس کا جزو اعظم مکارم الاخلاق پر مرتب ہونے والی معاشرت ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ کسی بھی قسم کے ’انقطاع‘ کا سوال بجا طور پر مذہبی آدمی کے لیے شدید بے چینی کا باعث بنتا ہے کیونکہ روایت کے سوال کو علمی کہنے سے اس کے عقیدہ جاتی تلازمات سے مفر نہیں اور اسے عقیدے کا سوال بنانے سے اس کے علمی مستلزمات سے نہیں بچا جا سکتا۔ روایت میں اگر تسلسل کا مفہوم لازماً داخل ہے تو اس تسلسل سے زندہ اور فعال ہونے کا مفہوم کیونکر خارج ہو سکتا ہے؟ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں مذاہب اور مذہبی روایتوں کے ساتھ عملاً جو کچھ ہو چکا ہے، ہم اس کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے اور ان پر جو سوال اٹھائے گئے ہیں ہم ان کا جواب دینا تو دور کی بات ہے ابھی تک ان سوالات ہی کو سمجھنے کی کوئی استعداد سامنے نہیں لا سکے۔ عرض ہے کہ اگر تسلسل کا مفہوم روایت میں لزومی ہے تو میری تعریف روایت سے کیونکر خارج ہو سکتا ہے؟ میں نے بھی یہ لفظ اپنے کلچر میں رہتے ہوئے ہی بولا ہے اور میں کون سا لاطینی امریکہ میں بیٹھ کر باتیں بنا رہا ہوں۔ پھر یہ کہ میں نے کب اپنی تعریف کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے تو جدیدیت کے پیدا کردہ ایک تصور کو مفید مطلب بنانے کی کوشش کی ہے۔ گزارش ہے انسان کی حیاتِ طبعی کا مدار نیچر پر ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ تاریخ اور معاشرت کی اساس بھی نیچر ہے۔ جدیدیت نے فطرت ارضی کو اپنے پیدا کردہ عالمگیر سسٹم سے replace کر دیا ہے، اور تاریخ اور معاشرت کو بھی بالکل الٹ دیا ہے۔ اب تو عالمگیر اور علاقائی سطح پر یہ حال ہو چکا ہے کہ انسانی معاشروں میں کسی بھی طرح کے کسی ایک تسلسل کا نشان بھی ڈھونڈھے سے ہاتھ نہیں آتا۔
’انقطاع‘ کا لفظ میں نے جن تحدیدات میں استعمال کیا ہے، اس سے یہ بالکل مراد نہیں ہے کہ روایت کے اساسی اجزا کو غیرِ تہذیب سے تیز تر در آنے والے مخاصم علم اور متغائر افعال میں ٹانک دیا جائے (متداول مذہبی علوم)، یا عصر حاضر کی شرائط پر روایت کے اساسی اجزا کی تعبیر سے ان کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے (تجدد)، یا جدید سائنسی اور سماجی علوم سے ان اساسی اجزا کی جواز سازی کا کام کیا جائے (متداول مذہبی علوم) یا روایت کے اساسی اجزا جن توسیطی افکار و اعمال میں ظاہر ہوتے آئے ہیں ان کر رد کر دیا جائے (سلفیت)۔ ان طریقہ ہائے کار کا ایک ہی مقصد ہے کہ عصر حاضر کے تشکیل کردہ شعور کو ہدایت پر غلبہ دے کر حکم بنا دیا جائے۔ میں ان چیزوں سے بری ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جدیدیت کے پیدا کردہ تاریخی عمل نے مذہبی روایت کے توسیطی علوم و اعمال و کلچر وغیرہ کو ختم کر دیا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی جگہ ایسے توسیطی علوم پیدا کیے جائیں جو ہدایت کی اساسی مرادات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں اور اس سے ہم آہنگ اور مسلم معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دینی عمل کے مؤید ہوں۔
برصغیر میں گزشتہ ’تین سو سال‘ کی درست معنویت سمجھنے کے لیے جدیدیت اور اس کے عالمگیر تہذیبی مظاہر اور ان کے گہرے عالمگیر اثرات کی بنیادی معلومات اور ان کے مضمرات کا کچھ اندازہ ضروری ہے۔ اس خطرے کے باوجود کہ جدیدیت پر مذہبی پوزیشن سے گفتگو کرنا ردعمل کا باعث ہوتا ہے، بات کرنا پھر بھی ضروری ہے۔ جدیدیت جس تہذیبی منصوبے کا نام ہے اور یہ منصوبہ جو مظاہر پیدا کر چکا ہے اور اب ڈجیٹل اور سائبر سے اس کے جو احوال و حالات سونامی کی صورت اختیار کر چکے ہیں، اس میں اسلام سمیت کسی بھی مذہب کا کچھ نہیں بچنے کا۔ یہ حالات گزشتہ تین سو سال سے نموپذیر ہیں اور اب ان میں ناقابل بیان تیزی آ گئی ہے۔ مسلم ذہن نے وقت کی اس ریڈیکل کروٹ کو سمجھنے کی ہر کوشش سے مسلسل پہلو تہی کی ہے، اور ٹھٹھر کر اپنی قابل رحم داخلیت میں محبوس ہو چکا ہے۔ گزشتہ تین صدیاں مفتوح، کمزور اور محکوم معاشروں کے اپنی پرانی ہیئتوں میں خاتمے اور ان کی جگہ نئی قسم کے معاشروں کے قیام کی صدیاں ہیں۔ یہ ہر خوب کے بتدریج ناخوب ہو جانے کا عرصہ ہے۔ گزشتہ تین صدیاں مسلمانوں کے ایک فعال تاریخی عنصر کے طور پر خاتمے اور تودۂ خاک بن جانے کی صدیاں ہیں۔ اکیسویں صدی سے مسلمانوں پر جدیدیت کا طبعی غلبہ ایک نئے اور شدید مرحلے میں داخل ہوا ہے اور ڈجیٹل اور سائبر ٹیکنالوجیز کے ذریعے ان کے شعور پر مکمل کنٹرول میں ظاہر ہو رہا ہے۔ غلط فہمی تجربے سے ختم ہو جاتی ہے، لیکن حالتِ انکار خوش فہمی سے سربمہر ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ کے باوجود، ہمیں تو ’عصر حاضر‘ نام کی کوئی چیز بھی کبھی نظر نہیں آئی بھلا تین منہدم صدیاں کیسے دکھائی دے سکتی ہیں؟
یہاں تجدد اور انقطاع کے تعلق کو بھی دیکھ لینا مفید ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں امام المتجددین آۡقائے سرسید ہیں، اور انقطاع روایت کا موقف تمام متجددین کے ہاں یقیناً موجود ہے۔ موقفِ تجدد کے سب سے طاقتور نمائندے ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہیں۔ آقائے سرسید پر ہاتھ صاف کرنے کی بڑی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے سامنے تو کوئی دم نہیں مارتا۔ متجددین سے نزاع کو اس امر کے انکار پر استوار کرنا کہ تاریخ اور معاشرہ اپنی ہر ہیئت میں بدل گئے ہیں علمی طور پر قابل دفاع موقف نہیں ہے۔ گزشتہ تین صدیوں میں ظاہر ہونے والی عالمگیر تبدیلی بہت ہی بڑی ہے۔ اس صورت حال میں چہ باید کرد کے جواب میں متجددین سے ہمارا اختلاف بہت ریڈیکل نوعیت کا ہے۔ ان کا اصول سادہ ہے کہ دنیا بدل گئی ہے اس لیے دین کو بھی بدل دو، اور دنیا بدلتی جا رہی ہے تو دین کو بھی بدلتے چلے جاؤ تاکہ دونوں میں مطابقت پیدا ہوتی رہے۔ اس حوالے سے میں اقبالؒ کا پیروکار ہوں کہ مسلمان مرکب ایام نہیں، راکبِ ایام ہوتا ہے۔ اس امر واقعہ سے ہمیں کوئی انکار نہیں ہے کہ ’عصر حاضر‘ نے اسے روند ڈالا ہے۔ لیکن اس سے دین کی بنیادی معنویت تبدیل نہیں ہوتی، ایک واقعاتی سچ کی معلومات ضرور ملتی ہیں۔ مسلمان کا راکب ایام ہونا صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ ہدایت کے لازمانی، غیرمبدل اور مستقل ہونے کو مانتا ہو، اور مرکبِ تاریخ کو ’دیکھنے‘ کی آنکھیں رکھتا ہو، اور تہذیبی عمل سے اس کی باگیں پکڑنے کی فراست اور طاقت پیدا کر چکا ہو۔ اہل اسلام نے تاریخ میں جو غیرمعمولی تبدیلیاں کی ہیں وہ اسی پوزیشن پر کھڑے ہو کر کی ہیں اور ’عصر حاضر‘ کو ضروری حد تک جانتے ہوئے میری پوزیشن بھی یہی ہے۔
ہماری دینی روایت میں سب سے بڑا کھانچہ وہابیت کے ظہور سے پیدا ہوا اور جو اب سلفیت کے طور پر اپنی ایک مربوط تشکیل رکھتی ہے۔ سلفیت مغربی ثنویت کا مذہبی روایت میں اولین اظہار ہے۔ جیسا کہ میں حضرت مولانا محمد ایوب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کسی اور جگہ عرض کر چکا ہوں کہ روایتاً اسلام رسالت کا علمبردار ہے اور توحید اس میں متضمن ہے۔ سلفیت کے ہاں توحید کا تصور متون کی درست یا نادرست تعبیرات سے پیدا نہیں ہوتا۔ سلفی توحید دینی متون سے اخذ ہونے والا کوئی عقیدہ نہیں ہے، بلکہ ایک منفک نظریہ اور ’علمی ‘ اصولِ اول ہے۔ اصول اول کے طور پر اس کا اجرا متن، عقیدہ، شریعت، معاشرہ، تاریخ اور روایت پر کیا جاتا ہے۔ اصول اول ہونے کی حیثیت سے اس میں سے عقیدے کی جہت خارج ہو جاتی ہے، اور یہ ایک ’علمی نظریہ‘ بن جاتا ہے۔ ہر علمی اصول انسانی ذہن کا پیدا کردہ ہے، اور اس کے برعکس عقیدہ ودیعت شدہ ہوتا ہے۔ عقیدے کا علمی اصول بن جانا ہی اس کا positivistic ہونا ہے [ڈاکٹر فضل الرحمٰن سلفی توحید کو positivistic قرار دیتے ہیں اور میں ان کے اس قول کو درست سمجھتا ہوں]۔ مذہبی عقیدہ علمی اصول سے لازمی نسبتوں کا یقیناً حامل ہوتا ہے لیکن خود کوئی علمی اصول نہیں ہوتا۔ سلفیت متن (شعور) اور مسلم (وجود) میں ثنویت کو قائم کرتی ہے جو بہت جلد عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت میں ایک تناؤ اور بالآخر ان کے مابین ایک جدلیات پیدا کر دیتی ہے۔ اس موقف میں متن کی معنوی توسیط میں روایت غیراہم یا غیرمتعلق ہوتی ہے، اور روایت کسی معاملے میں بھی touchstone نہیں رہتی بلکہ اصول اول متن پر اور متن روایت پر حکم ہوتا ہے۔ سلفیت ’متن‘ کو مذہبی شعور میں مرکزیت اور اس کی تعبیر میں حسی وسائل کو اولیت دینے اور ہدایت کی عملی، تاریخی اور تہذیبی توسیط کو مطلق نظرانداز کرنے یا اسے ضدِ دین خیال کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ سلفیت شعور (عقیدے) اور عمل (شریعت) کے خلقی امتیازات کا خاتمہ کر دیتی ہے اور عمل کے مناہج بھی اپنے اصول اول کے ذریعے عقیدے سے اخذ کرتی ہے۔ سلفیت میں شرک حسی، آفاقی اور تاریخی ہے اور طاقت کے انتظامی ذرائع سے ’قابلِ اصلاح‘ ہے۔ سلفیت، مادیت کا مذہبی بیان ہے۔ مغربی ثنویت میں مادیت نظری ہے، اور سلفیت میں مادیت ہرمانیوٹیکل (تعبیری) ہے۔ سلفیت میں ہر قسم کی نظری سرگرمی قابل مذمت ہوتی ہے کیونکہ متن ذہن کی تعبیری حرکت کے لیے زمین کا کام کرتا ہے۔ ان گزارشات کا مطلب یہ ہے کہ میں سلفیت کے موقف کو درست نہیں سمجھتا۔
تاریخیت (Historicism) اور انقطاع کے حوالے سے بھی بہت خلجان ہے۔ یہ اہلِ دہر کا جدید موقف ہے۔ تاریخیت اصلاً انکارِ وحی کو علمی بنیادیں فراہم کرنے کی ناکام کوشش کا نام ہے۔ تاریخیت ایک خاصا سیال تصور ہے۔ مثال سے شاید زیادہ واضح ہو جائے کہ یہ دریا میں رہنے والی کسی مخلوق کا یہ تصور ہے کہ دریا سے باہر کوئی دنیا نہیں ہے اور دریا میں جو کچھ ہے وہ پانی کی حرکت کی وجہ سے ہے اور جو کچھ ہوتا ہے پانی کی اسی حرکت سے ہوتا ہے، دریا کے کنارے بھی اسی حرکت سے بنے ہیں، اور دریا کا پیندا بھی اسی حرکت سے وجود میں آیا ہے، اور دریا میں تمام تر مخلوقات بھی اسی آبی حرکت سے پیدا ہوئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دنیا اور تاریخ کا ایک closed تصور ہے جس کے مطابق حق نہ ہے اور نہ دنیا میں داخل ہوتا ہے، اور تمام افکار و تصورات تاریخی حالات و حادثات سے پیدا ہوئے ہیں۔ میری گزارشات سے تاریخیت اخذ کرنا خواندگیِ متن کے مسائل پر دلالت کرتا ہے۔ میں اس طرح کے قابل مذمت تصورات سے بری ہوں۔
جدیدیت کے پیدا کردہ علوم اور اعمال میں ”ریفارم“ ایک بہت اہم ایجنڈا ہے، جس کا اصل مطلب ماضی حال اور مستقبل کو جدیدیت کے مطابق بنانا ہے۔ اس تقدیر پر ہدایت جدید عہد سے غیرمتعلق ہے۔ میں جدیدیت کے اس موقف کو رد کرتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ دینی روایت جس تواتر سے اور جن اجزا میں جاری ہے، اسے بنیاد بناتے ہوئے اور اپنے طویل تاریخی تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے عصر حاضر میں روایت اور تہذیب کی پھر سے تعمیر نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہماری اولین دینی ذمہ داری ہے۔ یہ ناممکن نہیں ہے، کٹھن ضرور ہے کیونکہ اس کے لیے بےحمیتی سے پیدا ہونے والے افکار و احوال و اعمال کا ترک واجب ہے۔ ہمارا بنیادی ترین بحران علم کا ہے، اور جب تک اس میں استحکام کے آثار ظاہر نہیں ہوتے کوئی تہذیبی سفر آغاز نہیں ہو سکتا۔
میں نے روایت کی تعریف کرتے ہوئے چار چیزوں کو اہمیت دی ہے، اور یہ چار چیزیں ایسی ہیں جن کو جدیدیت قطعی مٹا دینا چاہتی ہے۔ میری کوشش تھی کہ جدیدیت کے پیدا کردہ ایک تصور کو جائز ردوبدل کر کے جدیدیت کے بالمقابل لایا جائے۔ یہ ایک جائز علمی مفاد ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ اس میں چوک ہو گئی ہے اور یہ تصور مذہب کے لیے مفید نہیں ہے تو اسے رد کر کے کوئی نیا تصور سامنے لانا چاہیے جو جدیدیت کے بالمقابل بھی ہو اور مذہب کا مؤید بھی ہو۔ گزارش ہے کہ جدیدیت کے علوم نے صرف حال اور مستقبل کو تبدیل نہیں کیا بلکہ جدیدیت کی اصل سرگرمی ماضی کو ’تبدیل‘ کرنا ہے کیونکہ اس کو وہیں سے نقب کا خطرہ ہے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ علوم نے ماضی کے ادراک اور اس کی معنویت کو مکمل طور پر بدل دیا ہے، اور ماضی کی کوئی خودمختار، حکمی اور تقدیسی حیثیت باقی نہیں رہی۔ جدیدیت کے پیدا کردہ ارضیاتی وقت نے تاریخی وقت کو بالکل مسل دیا ہے، اور فطری ماضی کو باقی فطرت کی طرح اپنے نظری ذرائع کا خام مال بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کا ایسا تصور مذہبی آدمی کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ میں یہ فرض کرنے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ چیزوں کی تعریفات متعین کرنے کا اختیارِ کلی صرف جدیدیت کو حاصل ہے۔ یہ تعریف جدیدیت کے روبرو اسی انکار کی نشاندہی کرتی ہے، اور میں اسے مزاحمت کا پہلا قدم سمجھتا ہوں۔ تعریف نفس الامر کے ساتھ ساتھ اپنے وجودی قضایا کو بھی نگاہ میں رکھتی ہے۔ اگر میں نے غلط تعریف کر دی ہے تو اس کو دلائل سے رد کرنا چاہیے۔ ورنہ تین صدیوں سے تو صبر نہیں ٹوٹا، اس بیچاری تعریف نے ایسی بھی کیا بےچینی پیدا کر دی!
جدیدیت کے روبرو کوئی بات کرنے، اس کے سامنے مزاحمت کے تنکوں کو جمع کرنے سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ کسی نص کی خلاف ورزی ہو گئی ہے؟ گزشتہ تین سو سال میں ہم نے جدیدیت کے اردلی بن کر اپنی نصوص کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ میری گزارشات ”يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين و انتحال المبطلين وتاويل الجاهلين“ کے خلاف ہیں؟ روایت پر میری گزارشات کو جدیدیت کے بالمقابل ایک تہذیبی تصور کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہدایت تواتر سے منتقل ہو رہی ہے اور میں تواتر اور روایت میں کوئی تساوی فرض بھی نہیں کرتا۔ یہ کہنے میں کوئی تضاد نہیں کہ روایت ختم ہو گئی ہے اور تواتر باقی ہے۔ ہمارا دین عبادات میں زندہ ہے تو یہ تواتر کی وجہ سے ہے اور اسلامی تہذیب کا خاتمہ ہو گیا ہے تو یہ روایت کے خاتمے کی وجہ سے ہے۔ میں پھر سے عرض کیے دیتا ہوں کہ عصر حاضر میں دین صرف عبادات میں جاری ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ انسانی عمل ہی کی ایک صورت ہے۔ میں نے ہیومن ایجنسی کو مغرب کے بالمقابل تہذیبی مظاہر کے لیے استعمال کیا تھا کیونکہ مغربی تہذیب کے مظاہر میں عبادت کوئی زمرۂ عمل نہیں ہے۔ میری مراد یہ تھی کہ عصر حاضر میں اسلام کے تہذیبی مظاہر کا خاتمہ ہو چکا ہے، اور تہذیبی مظاہر کا تعین بھی میں نے اوپر عرض کر دیا ہے۔
ہدایت کے قدیم توسیطی علوم کے خاتمے یا نئے توسیطی علوم کی تشکیل کے حوالے سے میری گزارش بھی احباب کی تشویش کا باعث بنی ہے۔ آخر میں اس پہلو سے کچھ کہنا مفید ہو گا۔ انسانی شعور کا ایک نہایت اہم مسئلہ یہ ہے وہ اپنے ’عقیدے‘ اور ’علم‘ کو ہر صورت میں ہم آہنگ رکھتا ہے۔ ہر تہذیب ’عقیدے‘ اور ’علم‘ میں امتیازات کو واضح رکھتی ہے اور انہیں خلط ملط نہیں ہونے دیتی۔ ہر تہذیب اپنے اہلِ علم کی خود آگاہ شعوری کوششوں سے یہ کام سرانجام دیتی ہے۔ اگر وہ اس کام سے غفلت برتیں تو متعلقہ تہذیب کا ہر فرد اپنے ذہن میں ایک خود کار اور غیرخودآگاہ ذہنی عمل سے عقیدے اور علم کا ملغوبہ ازخود تیار کر لیتا ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ تین سو سال سے عقیدے کی جو بحث چلی آتی ہے اس میں عقیدے اور علم کے امتیازات کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے اور علمی گفتگو اسی باعث نہیں ہو پاتی۔ اس مسئلے کی وضاحت کے لیے ہم معمول کے مسلمان مذہبی گھرانے سے ایک بچے کی مثال لیتے ہیں۔ درست عقیدہ بچپن ہی سے اسے تعلیم کیا گیا ہے اور وہ اس کا جزو شعور بن گیا ہے۔ پھر وہ معاشرے میں دی جانے والی معمول کی تعلیم پاتا ہے۔ جائز طور پر اسے سائنسدان بننے کا شوق ہے اور وہ اعلیٰ سائنسی تعلیم کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور ملک اور بیرون ملک اعلیٰ سائنسی تعلیم حاصل کر لیتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انسانی شعور بہت سے خانوں والی کوئی بے جان الماری نہیں ہے کہ ان خانوں کو ایک ایک کر کے بھرتے چلے جائیے اور وہ باہم غیرمتعلق بھی رہیں۔ اس بچے کے لیے بھی آگے چل کر یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے عقیدے اور اکتسابی علم کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر معمول کی زندگی گزارتا رہے۔ یہ امر قطعی لازم ہے کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ دونوں آپس میں ہم آہنگ ہوں گے اور یہ ’ہم آہنگی‘ یا تو عقیدے کی شرط پر ہو گی یا اکتسابی علم کی شرط پر سامنے آئے گی، اور یہ عمل ایک غیرمحسوس طریقے سے نتائج مرتب کرتا چلا جائے گا۔ ثقافتی وسائل کی ذرا سی آگہی سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ شعور کی داخلی ہم آہنگی کی نوعیت ہمارے ہاں کیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا عام تعلیم یافتہ آدمی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اس کا کوئی ثقہ حل تلاش کر کے اس پر کاربند ہو جائے۔ ہماری تہذیبی تاریخ میں یہ مسئلہ ایک بار پہلے بھی سامنے آ چکا ہے، اور امام عالی مقام ابوحامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے عین اسی مسئلے ہی کا حل پیش کر کے ہماری دینی حیات کے وسائل بہم پہنچائے تھے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے کلچر اور دینی روایت میں عقیدے اور سائنس کی ہم آہنگی کا عمل مؤخرالذکر کی شرائط پر اپنی تشکیل نو مکمل کر چکا ہے، یعنی اب عقیدہ ’سائنسی‘ ہے، اور سائنس ’مذہبی‘ ہے، یعنی نہ عقیدہ باقی رہا اور نہ سائنس ہی آ سکی ہے۔ تہذیبی علوم اس ہم آہنگی کو تنقیدی اور خود آگاہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماورا کا ہر تصور اب مالیکیول کی شرائط پر زندہ ہے۔ ہم نے مالیکیول کی ’خبر‘ پہنچنے کے اسالیب کا جائزہ لینے کی بھی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی بڑے دماغ کی ضرورت نہیں کہ مذہبی عقیدہ اور جدیدیت کے پیدا کردہ علوم جب بھی آمنے سامنے ہوں گے، عقیدے کو جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ یہ ہمارے ہاں اب جو ’عقل‘ کی فوجیں چڑھی آتی ہیں وہ گزشتہ تین سو سال سے جاری اسی عمل سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ فوجیں ضرور ہیں لیکن عقل کی بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ ہمارے کلچر میں جدیدیت کے علوم کے غلبے اور اس غلبے کی normalization سے پیدا ہونے والا ٹڈی دل ہے۔ ان کے ہاں جدیدیت کے علوم کا تنقیدی (critical) اور خودآگاہ (reflexive) شعور اتنا ہی ہے جیسا کہ ہمارے عام مذہبی طبقے میں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ ٹڈی دل اڑنے لگا ہے جبکہ باقی ابھی رینگ رہے ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب وہ بھی اڑان بھریں گے۔
میں صرف یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مسلم عقیدے اور جدیدیت کے پیدا کردہ علوم کو جب ایک ساتھ رکھا جائے گا تو دونوں کسی صورت علیٰ حالہٖ باقی نہیں رہ سکتے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے مطابق اپنی تشکیل نو کرے گا۔ تاریخی مؤثرات کی شدت اور ثقافتی دباؤ کی وجہ سے یہ تشکیل نو عموماً عقیدے ہی کی ہوتی ہے، اور پست ترین سطح پر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی ذہن اپنی مادی تشکیل مکمل کر چکا ہے۔ ’مذہبی ذہن کی مادی تشکیل‘ یا ’مادی ذہن کی مذہبی تشکیل‘ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے نہ انسان باقی رہ سکتا ہے، نہ علم کا کوئی امکان پیدا ہو سکتا ہے، اور نہ کوئی تہذیب باقی رہ سکتی ہے۔ معاشرہ زور سے ڈکراتے حیوانوں کا باڑہ ضرور بن جاتا ہے جیسا کہ دنیا میں ہر جگہ بن گیا ہے۔ مغرب نے مذہب کو جبراً بیدخل کر کے انسانی ذہن کی مادی اور سائنسی تشکیل پیدا کی تھی، اور ہم نے جدید علوم کی مدد سے اپنے عقیدے اور مذہب ہی کو مادی بنا لیا ہے۔ اگر ہم مذہبی ذہن کی روحانی تشکیل اور کوئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام کرائے پر نہیں ہو گا ہمیں خود ہی کرنا پڑے گا۔ جب میں عقیدے سے ہم آہنگ توسیطی علوم کی بات چھیڑتا ہوں تو اس کا نقطۂ ماسکہ بنیادی طور پر یہی مسئلہ ہے۔
میری اس گزارش کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے اساسی تہذیبی تناظر اور سائنس کے ’اندر‘ کھڑے ہو کر مغرب کی تنقید و تفہیم کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، تحصیل ضرور کی جا سکتی ہے۔ ایسی کسی علمی کاوش کے لیے ہمیں اپنے تہذیبی تناظر کو بنیاد بنانا ہو گا۔ مسلم ذہن چونکہ جدیدیت اور تہذیب مغرب کو اپنے ذہن و فہم میں مکمل طور پر Islamize کر چکا ہے اور اپنے عقیدے اور مذہب کو modernize کر چکا ہے، اس لیے ایسی کسی کوشش کی گنجائش خاصی کم ہے اور صلاحیت و استعداد کی عدم فراہمی میں اس کے کامیاب ہونے کے امکانات بھی مسدود ہیں۔ میری تحریروں پر ردعمل اسلام کے کسی ’درد‘ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ جدیدیت اور مغرب کی ’خودکار اسلامائزیشن‘ پر اٹھنے والے سوالات سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال صرف سائنس تک محدود نہیں ہے، مغرب کے تمام علوم جس حد تک مسلمانوں کو سمجھ آئے ہیں وہ بھی ازخود ’اسلامائز‘ ہو چکے ہیں۔ جدیدیت کے پیدا کردہ علوم اپنی ایک validity رکھتے ہیں، اور وہ ہماری کسی بھی تحصیل یا ججمنٹ سے اول ہے۔ مثلاً جب ہم نظریہ ارتقا یا بگ بینگ کو ’اسلامی‘ کہتے ہیں تو ہم کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم ان کی پہلے سے قائم validity کو replace کر رہے ہوتے ہیں یا ان کی validity کے بارے میں اپنے ’شکوک‘ دور فرما کر ان کی تحصیل کا راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی پوچھے نہ پوچھے اپنے ہونے کا احساس دلا رہے ہوتے ہیں؟ یا کیا؟
اگر ہم ہدایت سے ہم آہنگ نئے توسیطی علوم پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے ”قدیم علوم“ بھی زندہ ہو جائیں گے۔ ان کے احیا کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ان کو ازسرنو شائع و ذائع کیا جائے، بلکہ یہ کہ ابھی اور اس وقت نئے توسیطی علوم پیدا کیے جائیں۔ یہ وہم بھی آتا ہے کہ نئے توسیطی علوم سے ہمارے قدیم علوم کی معنویت کو خطرہ ہے، اور یہ امر بالکل فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جدیدیت نے ان کو نسیاً منسیا کر دیا ہے۔ اگر کوئی تہذیب حال میں زندہ ہو تو یہ اس کا ارادی فیصلہ ہوتا ہے کہ ماضی کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے۔ ہمارا آج مردہ ہے تو ماضی کیسے زندہ ہو سکتا ہے؟ اگر ہمارا آج زندہ ہو جائے تو ماضی بھی جی اٹھے گا۔ اس میں بنیادی پیشرفت صرف critique سے ہو سکتی ہے، مغربی علوم کے فدویانہ اکتساب سے نہیں۔