جناب زاہد مغل کے ارشاداتِ مزید کا جواب۔ محمد دین جوہر
(نوٹ: میری پندرہ جون، 2021ء کی فیس بک پوسٹ پر محترم جناب زاہد مغل نے کمنٹس میں طویل تبصرہ فرمایا تھا۔ میرا یہ مضمون ان کے ارشادات اور اسی دن ان کی اپنی وال پر شائع شدہ فیس بک پوسٹ کے جواب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔)
عرض ہے کہ ہمارے درمیان زیرِ بحث آپ کا اٹھایا ہوا یہ سوال ہے کہ ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے میں شرعاً کیا غلطی ہے؟“ میں نے اپنی جوابی گزارش میں بڑے امام صاحبؒ کا ایک قول نقل کیا تھا جو شعور اور عمل کی غیریتِ کلی پر دلالت کرتا ہے اور ان دونوں کی عینیت کو قطعی رد کرتا ہے۔ آپ نے ”تعلیم الاسلامی“ معلومات سے احناف کے فقہی مواقف پیش کیے ہیں جو ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہیں اور نہ زیربحث مسئلے سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ مسئلہ عینیت اور غیریت کا ہے جو علمی ججمنٹس سے براہِ راست جڑا ہوا ہے اور آپ اس کو register بھی نہیں کر پائے۔ آپ کی سہولت کے لیے زیربحث مسئلے کو مزید سادہ کر لیتے ہیں: ”سائنسی استشہاد سے فزکس مثلاً بوزون کا وجود ثابت کر سکتی ہے تو کیا سائنسی اور طبیعاتی استشہاد سے فرشتوں کا وجود ثابت کیا جا سکتا ہے؟“ ہم بذریعہ ایمان بن دیکھے فرشتوں کا وجود ثابت مانتے ہیں۔ تو اگر یہ کام فزکس سے ہو سکتا ہے تو میری بات غلط ہے اور اگر نہیں ہو سکتا تو آپ کی بات غلط ہے۔ عقیدے کا عقلی استشہاد اور فزکس کے ذریعے فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ایک ہی بات ہے۔ آپ جو فرما رہے ہیں اس کی بنیاد پر یا سائنس مکمل طور پر تبدیل کرنی پڑے گی یا عقیدے کو بدلنا پڑے گا، اور مسلمان سائنس کے بالمقابل اب تک اپنے عقیدے کو out of recognition بدل چکے ہیں۔ آپ کا نیا علمی اصول یہ ہے کہ سائنس غیرمدرکات پر بھی حکم ہے۔ آپ کی طرح، ہمارے سائنسی ایمانیات والے زیر بحث سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ فزکس چونکہ کافروں نے بنائی ہے اس لیے وہ فرشتے نہیں دکھواتی، حالانکہ وہ دکھا سکتی ہے۔ تو عرض ہے کہ آپ اپنی سائنس سے پہلے فرشتے دکھوا لیں تو استشہاد کا مسئلہ از خود حل ہو جائے گا۔ اول الاوائل اور آخر الاواخر عقل کا مسئلہ وجود و عدم ہے اور عقلی استشہاد براہ راست وجود پر ہی ہوتا ہے یا وجود کی نسبتوں پر ہوتا ہے۔ مبحثِ وجود میں غیب و شہود کے احکام الگ ہیں اور ان احکام کی باہم غیریت شعور اور منہج علم میں بھی براہ راست در آ کے قائم ہو جاتی ہے، یعنی کسی اصول پر ایسا عقلی علم ممکن ہی نہیں ہے جو غیب و شہود پر بیک آن دلالت کرتا ہو، اور موجودات غیبی اور شہودی پر بیک وقت وارد ہو۔ مادی علوم کا استدلال اگر غیب میں مؤثر ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ وجود و شہود کے تصورات و احکام کی غیریت تامہ کے قائل نہیں ہیں۔ عینیت اور غیریت ایک عالم (یعنی ایک سطح وجود) میں قائم ہوتی ہے، اس لیے ہم غیب و شہود کو ایک دوسرے کا عین یا غیر نہیں کہہ سکتے۔ آپ کا موقف خلط مبحث نہیں ہے، یہ خلطِ بدیہات ہے جو اس سے کہیں بدتر ہے۔ شہود بدیہی ہے اور غیب محسوس ہے، اور دونوں معقول نہیں ہیں۔ اگر آپ غیب و شہود کے تصورات و احکام میں بدیہی غیریت کو بھی نہیں مانتے اور ان کی عینیت پر اصرار کرتے ہیں تو پھر آپ ہی فرمائیے کہ سفسطہ کسے کہتے ہیں؟ علم کا دعویٰ صرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب آدمی بدیہات کو معقول کیے بغیر ان پر قائم ہو۔ بہرحال ”تعلیم الاسلام“ کو سفسطہ کی بھینٹ چڑھانے پر میں احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ آپ نے عقل، وحی، عقیدہ، فزکس، فقہ، علم الکلام، مابعدالطبیعات، تصوف، سلوک، عرفان، جدیدیت، معیشت، اخلاقیات، اسطوریات، تاریخ، سیاسیات، وحدت الوجود، واجب الوجود، اشاعرہ، ماتریدیہ، معتزلہ وغیرہ وغیرہ کا جو ملیدہ بنایا ہوا ہے اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا، صرف ملیدہ اور صاحبِ ملیدہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ ہند ایسے ملیدے بنانے کا تین سو سالہ شاندار تجربہ رکھتی ہے، اور آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ روایت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
عقیدے کا عقلی استشہاد اور فزکس کے ذریعے فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ایک ہی بات ہے۔
آپ نے مطالبہ کیا ہے کہ میرے نزدیک ”شرع کا دائرہ کیا ہے؟“ یہ میرا موضوع نہیں، کیونکہ میں مذہبی عالم نہیں ہوں، عام مقلد مسلمان ہوں۔ میں تو معروف شرائط پر اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود چند ایک موضوعات پر بات کرتا ہوں، اور آپ جیسے مجتہدین سے توقع رکھتا ہوں کہ غلطی کی نشاندہی فرمائیں گے۔ لیکن درستی کا شوق ادراکِ حقائق سے بڑھ جائے تو ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس سوال کے لیے آپ اپنی پسند کے کسی مذہبی عالم سے رجوع فرمائیے تو وہ شاید دائرہ کھینچ کر بھی سمجھا دیں گے۔ ان سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ”مادی امور کے تجربات سے استشہادِ عقیدہ“ اس دائرے کے اندر پڑتا ہے یا باہر، اور اس طرح گفتگو کی کوئی نئی جہت بھی منکشف ہو سکتی ہے۔ کوشش کر کے دیکھ لیں۔
آپ فرماتے ہیں ”بگ بینگ کی مثال صرف سمجھانے کے لیے عرض کی تھی، آپ اس کی جگہ کوئی بھی مظہر شامل کر لیں۔ میرا استدلال کائنات کے قدیم ہونے کا نہیں تھا بلکہ وہ گفتگو صرف یسین صاحب کے ساتھ گفتگو کے نتیجے میں زیر بحث آ گئی تھی۔“ اس جواب سے مجھے ایک بات کا یقین ہو گیا ہے کہ آپ متون وظیفے کی طرح ثواب کے لیے پڑھتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ مظہرِ فطرت سے سائنس کیا مراد لیتی ہے؟ میں تو یہ عرض کر رہا تھا کہ بگ بینگ مثلاً مادے اور حرکت کی طرح کا کوئی فطرتی مظہر نہیں ہے، origin کے مسئلے کا حل ہے، اور آپ اسے مظہر فطرت قرار دے رہے ہیں۔ آپ کو مظہر فطرت کے بارے میں تو کچھ معلوم نہیں ہے اور مسند ارشاد پر قناتیں واجب الوجود، وحدت الوجود اور تفہیم مغرب کی لگا رکھی ہیں۔ آپ ہی فرمائیں ہم جیسے سادہ دل بندے اب کدھر جائیں؟ بگ بینگ ”سائنسی ایمانیات“ کی بنیاد پر مظہر فطرت ہے، مدرکات کی بنیاد پر نہیں، اور مظہرِ فطرت، حسی ادراک کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔ اس طرح اگر آپ چاہیں تو ”مذہبی ایمانیات“ کی بنیاد پر جنت کو مظہر فطرت قرار دے کر ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد“ بھی کر سکتے ہیں! علوم کی بنیاد امتیازات پیدا کرنے والی عقل ہوتی ہے اور جب ذہن امتیازات ہی کو پکڑنے کے قابل نہ ہو تو پھر کچھ بھی کیا اور کہا جا سکتا ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ امتیازات پیدا کرنے والی عقل کے بھی قائل ہیں یا نہیں؟
آپ کا ارشاد ہے کہ ”اصل بات یہ تھی کہ ’حوادثات سے اس کے بنانے والے کے استدلال میں عقلاً کیا خرابی ہے‘ اس پر آپ نے کوئی روشنی نہیں ڈالی“۔ اب میں کیا عرض کروں؟ عقل ہو تو خرابی نظر آ سکتی ہے، اس کے بغیر اس خرابی کو دیکھنے کی اخلاقی طلب بھی پوری نہیں ہو سکتی۔ عرض ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ تو ممکنات میں ہے، اور آپ اس کو غیب تک توسیع دینا چاہتے ہیں۔ آپ استشہاد والے مسئلے کو دھوتی پہنا کے یہاں بھی گھسیٹ لائے ہیں۔ اگر ہمارا خدا بھی نعوذ باللہ ماؤنٹ ایورسٹ پر معتکف کوئی جٹا دھاری دیوتا ہے تو ایسی تزویرات سے شاید اس کی کوئی لٹ ہاتھ لگ جائے۔ ہم تو اُس خدا کو بلا استدلال مانتے ہیں جس کی تعلیم ہمارے پیارے نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمائی ہے۔ آپ نے مجھے ”ناسمجھی“ کا طعنہ بھی دیا ہے۔ تاریخی حالات نے مسلمانوں کی سمجھ اور ناسمجھ کا مسئلہ حتمی طور پر فیصل کر دیا ہے اور اب تفویضِ الزام کے معاملے میں آپ مجھ پر جتنا بوجھ ڈالیں گے میں آمین ہی کہوں گا کیونکہ آپ مجھ سے ناقابل موازنہ طور پر متقی اور نیک آدمی ہیں۔ آپ نے از راہ بندہ نوازی ناسمجھی کے نتائج کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ ”اسلامی علم کلام کی پوری تاریخ کی بیخ کنی کا پراجیکٹ کھڑا کیا جا رہا ہے“۔ یہاں عقل اور اخلاق دونوں بیک وقت ضروری تھے۔ ایک تو آپ کو مجہول کی بجائے معروف میں براہ راست بات کہنی چاہیے تھی کیونکہ الزام کے لیے بھی اخلاقی جرأت درکار ہوتی ہے، چلیے وہی دیکھنا نصیب ہو جاتی۔ دوسرے ”اسلامی علم کلام“ کے کھنڈر کے ادراک کے لیے تھوڑی سی، اگرچہ تھوڑی سی عقل بھی چاہیے ہے۔ آپ جس چیز کی بیخ کنی کا الزام مجھ پر رکھ رہے ہیں اس کی تو کوئی اینٹ بھی باقی نہیں رہی، اور آپ کو ڈان کیوہاٹے کی طرح وہاں ہیکل ہائے کلام دکھائی دیتے ہیں۔ علم الکلام کے حوالے سے میں اپنا موقف بہت وضاحت سے عرض کر چکا ہوں کہ ہم علم الکلام سے خاطر خواہ آگہی کے بغیر قرون وسطیٰ کی اسلامی تہذیب کو نہیں سمجھ سکتے، اور اس لحاظ سے یہ غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ ہم عصر علوم کے روبرو اس کی یہ اہمیت ضرور ہے کہ اگر اس کی نسوار بنا لی جائے اور کسی طرح مسلمان اہلِ علم کی خاک میں غلطاں ناک کے قریب لائی جائے تو کثرت ہائے چھینک سے ان کے دماغ میں امکانِ جنبش ہو سکتا ہے۔ آپ نے کسی جگہ یہ فرمایا تھا کہ علم الکلام نے ہمارے سارے عقلی مسئلے حل کر دیے ہیں۔ اگر اس میں سے ’عقلی‘ حذف کر دیں تو پھر فقرہ درست ہے کیونکہ ہم عصر ملت اسلامیہ میں کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا اس لیےکہ اب ہم خود اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مسئلہ ہیں۔ آپ بیچ میں عقل کہاں سے لے آئے؟ آپ جو ملیدہ بنا رہے ہیں اس سے امید ہے کہ شاید مقوی ہو۔
آپ روایتی علم الکلام اور شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے نظریۂ وحدت الوجود کا مطالعہ اور ان سے اکتساب فیض فرما کے ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے“ کے جس مقام پر فائز المرام ہوئے ہیں، اس میں اگر تھوڑی سی عقل بھی استعمال فرما لیتے تو یقین ہے شرعاً غیرمباح نہیں تھا۔ آپ کے اس موقف سے ہی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ نے علم الکلام اور وحدت الوجود سے جو استفادۂ جدید فرمایا ہے اس سے مسلمانوں کے موجودہ مسائل کس منہج پر حل ہوں گے۔ آپ جس منہج کی تبلیغ فرما رہے ہیں اس کے لیے اسلامی علم الکلام اور نظریۂ وحدت الوجود کی رسوائی ضروری تو نہ تھی۔ عقیدے پر سائنسی استشہاد کا منہج آقائے سرسید قائم کر کے اپنی وراثت میں آگے منتقل کر چکے ہیں۔ اگر آپ حالتِ انکار میں نہ ہوتے تو یقیناً آپ کو بھی معلوم ہوتا کہ یہ وہی معجون مرکب ہے اور آپ کے ملیدے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنے ملیدے میں کوئی کمی دیکھتے ہیں جو کسی مجہول استشہاد سے پوری کرنا چاہ رہے ہیں اور جو علم الکلام میں ہے اور نہ وحدت الوجود میں۔ اسی سبب سے سائنسی استشہاد پر رالیں ٹپک رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کے بقول علم الکلام نے سارے عقلی مسئلے حل کر دیے ہیں تو پھر فزکس کی یہ گدائی کیوں ہے؟ عرض ہے کہ سائنسی استدلال و استشہاد کو عقیدے پر لاگو کرنے سے پہلے اگر تجربے کے طور پر اسے خود علم الکلام اور وحدت الوجود پر بھی اطلاق فرما کے دیکھ لیں تو کچھ پریکٹس ہو جائے گی اور تینوں کی بیک وقت تدفین سے کام بھی جلدی نمٹ جائے گا۔ اس معاملے پر میری پوزیشن بیان شدہ ہے کہ مسلمان اپنے دینی تناظر میں ابھی تک مسئلے کا درست تعین بھی نہیں کر پائے، حل تو بہت دور کی بات ہے۔
آپ نے عقلِ محض اور عقلِ تسلیم کے فرق کو جعلی قرار دیا ہے۔ عقل تسلیم کی بات کرنے کی غلطی تو چلیے معاف فرمائیے گا، لیکن عقل محض پر جو یقیناً عقل تسلیم نہیں ہے تو پوری ایک تہذیب کھڑی ہے جس کی تفہیم آپ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ اس ارشاد سے آپ نے اس تفہیم کا حق ادا کر دیا ہے۔ تفہیم مغرب میں رسوخ پر عقل سے دستبرداری ملت اسلامیہ ہند کے شاندار مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر عقل کی حمایت میں مغرب وحی کا انکار کر سکتا ہے تو ہم انتقاماً اور جواباً عقل کا انکار تو کر ہی سکتے ہیں، اور آپ کے ہاں تو یہ شاید حمیت دینی کا تقاضا بھی ہے کہ عقل ہو ہی ناں۔ اس طرح فزکس اور وحی کو ایک ہی طرح کا علم قرار دینے کا آپ کا منصوبہ یقیناً اور فوراً کامیاب ہو جائے گا، اور ہم نہایت کامیابی سے وحی سے فزکس پر فزکس سے وحی پر استشہاد کیا کریں گے۔ یہ قضیہ کہ ”کفار نے ساری سائنس قرآن مجید سے نکالی ہے“ قائم کرنے کے بعد بیچارے مسلمان تو انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کسی ایسی ہی دلیل سے فزکس بھی وحی کے درجے پر فائز ہو جائے جیسی اس قضیے میں کارفرما ہے، اور جیسی آپ کی فکر میں مضمر ہے۔ آپ مذہب کو عقل کے خلاف اور عقل کو مذہب کے خلاف جس طریقے پر deploy کرتے ہیں، وہ اسلامی تو دور کی بات ہے کوئی انسانی پوزیشن بھی نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ کے گڑھے پہلے کون سا کم تھے کہ آپ ایک اور کھود رہے ہیں۔
ہمارے روایتی علم الکلام کی کوشش یہی رہی ہے کہ عقلی علم عقیدہ نہ بن پائے، اور عقیدہ اپنے عقلی استشہاد سے شہودی اور مادی چیز نہ بن جائے ایمان بالغیب ہی رہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ”حادث کے عقلی طور پر معلوم ہو جانے سے عقیدے کا یہ مفاد وابستہ ہے کہ اثبات خالق کی دلیل پر نبوت پر ایمان کی ایک ھم آھنگ دلیل قائم ہے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ یہ غیر ضروری ہے لیکن پھر ہم پوچھیں گے کہ آپ کے نزدیک اس سے بہتر دلیل کیا ہے، امید ہے اس کے جواب میں rhetoric پیش نہیں کیا جائے گا۔“ میری تو آرزو ہے کہ آپ پوچھیں ہی نہیں کچھ بتائیں بھی۔ میں بار بار یہی تو عرض کر رہا ہوں کہ عقیدے کا مفاد کسی عقلی دلیل سے وابستہ نہیں ہے، اگر ہے تو وہ عقیدہ نہیں ہے بس صرف دلیلِ بے عقیدہ ہے۔ کیونکہ جب عقیدہ کسی عقلی دلیل پر قائم ہی نہیں ہے تو اس پر عقلی استشہاد کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ہمارے روایتی علم الکلام کی کوشش یہی رہی ہے کہ عقلی علم عقیدہ نہ بن پائے، اور عقیدہ اپنے عقلی استشہاد سے شہودی اور مادی چیز نہ بن جائے ایمان بالغیب ہی رہے۔ دلیل ہم آہنگ تو تب ہو گی جب دونوں ایک ہی درجے کی چیز ہوں گے۔ آپ اگر غور فرمائیں تو فوراً واضح ہو جائے گا کہ عقیدہ اور سائنس اپنی سطح وجود ہی میں متغائر ہیں۔ عقیدے پر مادی استشہاد کا مسئلہ فوراً حل ہو جائے گا جب آپ یہ واضح کر دیں گے کہ علماً وحی اور فزکس ایک چیز ہیں، اور فزکس سے فرشتے شہود میں ویسے ہی ثابت ہیں جیسے کہ ایمان سے غیب میں ثابت ہیں کیونکہ فزکس چیزوں کو شہود میں ثابت کرتی ہے۔ دلیل عین اس امر کی مطلوب ہے۔ اور اگر فزکس سے فرشتے شہود میں ثابت ہیں تو پھر ایمان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ اگر آپ یہ فرمائیں کہ فزکس بھی ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے“ فرشتوں کے وجود (یعنی عقیدے) کو غیب میں ثابت کرے گی تو آپ کی عقلِ عالیہ کے بارے میں میرا شبہ یقین میں بدل جائے گا۔
آپ نے اشاعرہ و معتزلہ وغیرہ کے حوالے سے ایک پوسٹ بھی شیئر کی ہے۔ گزارش ہے کہ اشاعرہ و معتزلہ کا مباحثۂ عظیم ہماری تہذیبی روایت کا ایک درخشندہ باب ہے۔ عقلی اور علمی کارگزاری درپیش اور زندہ مسائل پر واقع ہوتی ہے۔ روایتی علم الکلام کی مدد سے ہم اپنے جدید مسائل کا درست تعین بھی نہیں کر سکتے کجا یہ کہ ان کا حل پیش کیا جا سکے۔ ہم عصر دنیا میں عقل اور علم کے تصورات میں جو تحول عظیم واقع ہوا ہے اور سائنس نے دنیائے فطرت کو جن نئے وجودی احوال پر قائم کر دیا، ان میں اشاعرہ و معتزلہ کے عقلی اور علمی تصورات قطعی غیرمتعلق ہیں، اور ان کی موجودہ حالات سے نسبتیں قطعی مجہول ہیں۔ جدیدیت، استعماری جدیدیت اور نام نہاد مسلم جدیدیت کے کسی بھی پہلو کو اشاعرہ و معتزلہ وغیرہ کے علمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش بکری اور ہاتھی کی دم آپس میں باندھنے کے مترادف ہے۔ علمی کاوش کے طور پر یہ اپروچ ہی لغو ہے۔ علم الکلام اور عرفانی مابعد الطبیعات کو علیٰ حالہٖ موجودہ حالات پر تطبیق دینا ظلم ہے۔ ہمارے سامنے سائنس اپنے پورے علمی موقف اور نتائج کے ساتھ موجود ہے، اور اول کام اس سے علمی تعرض کا ہے۔ دوسرا مرحلہ تاریخ اور معاشرے پر جدید سماجی علوم کے مشاہداتی اور تجربی استشہاد پر قائم نظری مقدمات کا سامنا کرنے کا ہے۔ ہم قدیم علم الکلام کی آڑ اس لیے لیتے ہیں کہ سوچنا نہ پڑے اور کام بھی کوئی نہ کرنا پڑے۔
آپ کے ارشادات کا آخری پیراگراف (نمبر ۵) بالکل غیرضروری ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ علمی گفتگو کریں، مذہبی فتوے کی طرف پیشرفت نہ کریں۔ اس سے غیرضروری رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ جب بحثا بحثی ہو رہی ہو تو مشورہ کوئی نہیں سنتا۔ میں تفہیم مغرب کے حوالے سے آپ کے کمالات سے واقف ہوں اور جو مسلمانوں پر علمی شب خون کے مترادف ہے۔ دست بستہ درخواست ہے کہ آپ کو فکری اور علمی موضوعات سے کوئی طبعی مناسبت نہیں ہے، آپ کوئی اور دینی کام مثلاً وعظ فرما لیا کریں اور میں آپ کا پہلا سامع بنوں گا۔ یا آپ عقل کے خلاف مذہبی بنیادوں پر تحریک منظم کریں۔ میں اس تحریک کا ادنیٰ کارکن بننے کا سوچ سکتا ہوں یقین دہانی کوئی نہیں۔ آخر میں دیانت داری سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے نتائج فکر ملت اسلامیہ ہند، خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک مضمرات کے حامل ہیں۔ آپ تو نام نہاد علمی کاوشوں سے مسلمانوں کا ہر راستہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ خدارا مسلمانوں پر رحم فرمائیں!