نیلی بار: طاہرہ اقبال (تبصرہ: بلال حسن بھٹی)
طاہرہ اقبال پاکستانی ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، محقق اور نقاد ہیں۔ وہ گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی، فیصل آباد میں بطور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ اب تک وہ چار افسانوی مجموعے اور ’ مٹی کی سانجھ‘ کے نام سے ناولٹس کی ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ”زمین رنگ“ کو بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ مل چکا ہے۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ اور ناول ’نیلی بار‘انڈیا میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کا پہلا ناول نیلی بار حال ہی میں لکھے گئے اردو کے چند بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ نیلی بار کراچی ادبی میلے اور یو بی ایل ادبی انعام کے لیے نامزد بھی ہوا۔
’بار ‘ نہری نظام سے پہلے پنجاب میں موجود جنگلی علاقوں کو کہتے ہیں۔ مغربی پنجاب میں دریائے ستلج اور دریائے راوی کے درمیان ضلع ساہیوال، ضلع اوکاڑہ اور پاکپتن کے درمیانی حصے کو ملا کر بننے والے علاقے کو نیلی بار کہتے ہیں۔ رائے احمد خان جیسے ہیرو کا تعلق بھی نیلی بار سے ہے۔ ”نیلی بار“دس ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں ہر باب پچاس کی دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پر پھیلی سیاسی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی اور شعوری ارتقا کی ایک طویل داستان ہے۔ طاقتور اور غریب یا مقامیوں پر قبضہ گیروں کی نفسیات کا بہت گہرائی سے تجزیہ کرنے کی جو بنیاد اردو ناول میں اس صدی کے آغاز میں ’غلام باغ‘ اور ’خس و خاشاک زمانے‘ نے رکھی، نیلی بار اسی کا ایک تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ اردو ادب کے بڑے ادیبوں نے اپنے کینوس کو وسیع کرنے کی لالچ میں کہانی اور اس کے کرداروں پر کس طرح سمجھوتا کیا، یہ ناول اس پر ایک مضبوط حوالہ کی حثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ عورت ذات کے دکھ، پریشانیوں اور جسمانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے بار کے علاقے میں دودھ دینے والی گائے سے کم حثیت ہونے یا ایک جنسی مفعول ہونے کے پہلو کو بہت نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ غریب اور امیر طبقے کی زندگیوں کی رنگینیوں اور بے رنگے پن کو قاری کے سامنے لانے اور خاص کر امیر طبقے کی عورتوں کی جنسی نا آسودگی، کھوکھلا پن اور غریب طبقے کی عورتوں کو جنسی آلے کے طور پر استعمال کرنے کی جو تصویریں ناول نگار نے پیش کی ہیں، وہ پچھلی صدی کے پنجاب میں عورتوں کی حیثیت کی عمدہ مثال ہیں۔
ناول کا پہلا باب مقامیوں اور باہر سے آنے والوں کے بعد ہونے والی تبدیلیوں پر لکھا گیا ایک کلاسک بلکہ شاہکار کام ہے۔ بطور اردو ادب کے قاری، پنجاب اور خصوصاً بار کی رہتل (ثقافت) اور زبان پر اس سے مضبوط اور مٹی میں گندھا ہوا ادبی فن پارہ اب تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ ان سو صفحوں میں ناول نگار نے پنجاب میں نہری نظام کے آغاز کے ساتھ پوٹھوہار کے پہاڑوں سے شلواروں اور اچکنوں کو زیب تن کیے اتر کر آنے والے یا تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجروں اور مقامیوں کے درمیان موجود ثقافتی، تہذیبی، سماجی بلکہ زندگی میں ہر سطح پر موجود فرق کو بہت خوبصورتی سے قاری کے سامنے رکھا ہے۔ مقامیوں پر باہر سے آنے والے طاقتور طبقے کس طرح اپنا طرز زندگی مسلط کرتے ہیں یا کس طرح مقامیوں کو باہر سے آنے والے لوگ اجڈ، گنوار، تہزیب و شعور سے عاری ڈھور، ڈنگر سمجھتے ہیں، پہلے باب میں یہ سب یوں بیان کیا گیا ہے کہ ناول پڑھتے ہوئے بطور قاری مقامیوں کی تہذیب پر حملہ آوروں یا باہر سے آنے والوں کے رویے اور تہذیبی اثرات جیسے بین الاقوامی موضوع کی کئی کہانیاں ساتھ ساتھ ذہن میں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بار میں جالندھر، امرتسر اور گرداس پور سے آنے والے مہاجرین، اور سیالکوٹ، چکوال اور پنڈی سے آنے والے جٹ،ملک، گکھڑ، آرائیں، زیلدار اور چوہدری کہلانے لگے جب کے بار کے مقامی اپنی مذہبی شناخت کی بنا پر مسلی، چمار اور چوڑے کہلائے گئے۔
باقی ناول کے نو باب پاکستان کی سیاسی تاریخ یا شہری و دیہی زندگی کے ارتقا کو بیان کرتے ہیں۔ کینوس کی اس وسعت کے ساتھ کہانی اور کرداروں پر جو گرفت پہلے حصے میں ایک سنجیدہ قاری کو بھی حیران کر دیتی ہے وہ آخر تک پہنچتے پہنچتے اس قدر ڈھیلی محسوس ہوتی ہے کہ بس کہانی ختم کرنے کی ہی دلچسپی باقی بچتی ہے۔ شاید اگر یہی کہانی محدود کینوس کے ساتھ لکھی جاتی تو یہ اردو کی چند مضبوط اور طاقتور کہانیوں کے طور پر ابھر کر سامنے آتی۔ کینوس کی وسعت پر آگ کا دریا اردو ادب میں سب سے زیادہ تصور تو کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی مستنصر حسین تارڈ کا ناول خس و خاشاک زمانے اردو میں کینوس کی وسعت کے باوجودا سلوب کی انفرادیت، کہانی اور لینڈسکیپ کو یوں پینٹ کرنے کا سب سے مضبوط حوالہ ہے کہ قاری خود کو آخر تک کرداروں کے ساتھ ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔
ناول کے مرکزی کردار زارا اور پاکیزہ نامی دو خواتین ہیں جو کہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے دو الگ الگ زندگیاں گزارتی ہیں۔ ایوب کی زرعی اصلاحات، بھٹو کے سوشلزم، ضیا کے جہاد اور اس کے بعد اس جہاد سے ہمارے معاشرے میں پھیلی دہشتگردی کے ناسور کا ذکر کرتے ہوئے عبدالرحمن جیسے وڈیرے، علی جواد جسیے متوسط طبقے کے موقع پرست انقلابی اور جہادی یا خانقاہی نظام کے ایک مہرے پیر اسرار احمد جیسے مردانہ کردار بھی ناول کا حصہ ہیں۔ لیکن ان مردانہ کرداروں سے صرف اور صرف شر پھیلتا دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس معاشرے میں مرد کا بس ایک بھیانک نظر آنے والے ہی روپ ہے۔ علی جواد کے کردار سے شہری زندگی میں سوشلزم اور جہاد پر تنقید یا زارا کی جنسی ہوس بجھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں لیا گیا۔ جب بھی کہانی میں علی جواد آتا ہے تو اس کا واحد مقصد زارا کی جنسی ہوس مٹانا ہے۔ علی جواد کے کردار کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ منٹویت کی ایک محقق ہونے کے ناطے ناول نگار جنسیت کو انسانی زندگی کا اہم حصہ تو سمجھ کر اپنی فکشن میں شامل کر رہی ہیں لیکن علی جواد کے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتی۔ علی جواد کو یک رخا یا جامد کردار بنا دیا جاتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہو سکتا تھا۔
زارا فلک شیر کی زندگی میں داخل ہونے والا دوسرا مرد پیر اسرار ہے۔ جس سے زارا کی شادی ناول نگار نے اس طرح اچانک اور عجیب انداز سے کروائی کے ناول کا یہ حصہ انتہائی مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے۔ آکسفرڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والی ایک فیشن ایبل نوجوان خاتون جس کا تعلق ملک کے بڑے سیاسی گھرانے سے ہے، جو بچے کے لیے شادی کرتی ہے اور اپنے پاس بے شمار آپشن موجود ہونے کے باوجود ایک پیر سے شادی کرتی ہے جس کی پہلی تین شادیاں ہو چکی ہیں، یہ اپنے کرداروں کا رخ چابک سے موڑنے کی واضح مثال ہے۔ خانقاہی نظام پر بطور قاری پاکستان ادب میں جو تنقید یا تصویر کشی تہمینہ درانی نے اپنے ناول ”کفر“ میں کی ہے وہ ایسی لاجواب ہے کہ نیلی بار میں خانقاہی نظام پر موجود تنقید یا منظر نگاری اس کی نسبت کچھ ہلکی لگنے لگتی ہے لیکن ظاہر ہے یہ ناول نگار کی کمزوری نہیں کہی جا سکتی۔
ہاں لیکن کہانی کی اصل روح کے ساتھ پاکیزہ کا کردار کہیں توانا، مضبوط اور ہر لحاظ سے مکمل نظر آتا ہے۔ پاکیزہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اونچے زمینداروں کی خواتین کی زندگیوں میں پائی جانے والی محرومیوں کی زندہ مثال ہے۔ ایک ایسی عورت جو نوخیزی کی عمر سے ہی گھر سے باہر قدم نہیں نکال پاتی۔ جس پر کسی غیر مرد کا سایہ نہیں پڑتا۔ جو باہر کی دنیا کو سنی جانے والی کہانیوں کے ذریعے ہی دیکھتی ہے۔ پاکیزہ کے کردار میں دکھائی جانے والی ہر محرومی ان وڈیروں کی لڑکیوں کی محرومیاں ہیں جو ہر وڈیرہ اپنی زمینوں کو بچانے اور نام نہاد عزت کے نام پر اپنی لڑکیوں کے نام لکھ دیتا تھا۔ وہ نام نہاد عزت جس میں اپنی عورت کے علاوہ ہر عورت ان کی جنسی تسکین کا سبب بننے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اگر ناول کا کینوس محدود کر کے بس پاکیزہ کے کردار کا ارتقا ہی دکھا دیا جاتا تو یہ ناول کہیں زیادہ مضبوط ہوتا۔
ناول کی زبان اور ڈھنگ طاہرہ اقبال کا اپنا اسلوب ہے۔ اس اسلوب پر کسی کی چھاپ نظر نہیں آتی اگر کوئی تھوڑا بہت رنگ نظر آئے گا تو وہ خس و خاشاک زمانے کا ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ تارڈ صاحب سے وہ ضرور متاثر ہیں۔ ناول میں پنجابی کے ماہیے دوھڑے اور ٹپوں کا برمحل اور خوبصورت طریقے سے یوں استعمال کیا گیا کہ پنجاب کی رہتل کا ہر رنگ نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔ ٹھیٹھ پنجابی کو اردو کے ساتھ گوندھ کے اردو پڑھنے والے کے لیے قابل قبول بنانا اس ناول کی بہت بڑی خوبی ہے۔ ناول کی منظر نگاری بہت جاندار اور مٹی کا حقیقی رنگ لیے ہوئے ہے، لیکن بعض موقعوں پر اس کا وزن کہانی کو روک کر قاری کو لینڈسکیپ میں الجھا دیتا ہے۔
ناول کے بعض واقعات شاید میرے پلے نہیں پڑے یا واقعی ان میں کچھ تکنیکی خرابیاں تھیں یا یہ فکشن کا کمال تھا، اس کا فیصلہ تو قاری کریں گے لیکن چند واقعات جو مجھے عجیب محسوس ہوئے ان کا ذکر کرنا لازم ہے۔
زارا کا علی جواد کی پیش قدمی کے ہاتھوں بے بس ہو کر صرف اس لیے علی جواد سے شادی کر لینا بڑا عجیب لگا۔ کیونکہ اول زارا اس سے نفرت کرتی تھی یا اس کے ساتھ اس کا لو ہیٹ کا تعلق تھا۔ ایوب دور کی اصلاحات میں اسقاط حمل کی گولیاں پاکستان میں ملنا شروع ہو چکی تھی اور ملک کے طاقتور گھر سے تعلق رکھنے والی زارا جیسی آزاد خیال عورت کا گولی کے استعمال کی بجائے بس بچے کی پیدائش کے دورانیے تک شادی کرنا بھی تھوڑا عجیب محسوس ہوا۔
پیر اسرار کی حویلی میں رہنے والی ہر عورت ایک دو ماہ بعد حاملہ ہوتی ہے لیکن زارا کا حاملہ نہ ہونا ہم قدرتی امر سمجھ بھی لیں تو زارا کی پیر صاحب سے شادی کے دوران اس کے بعد ایک سال تک منظر سے غائب رہنے والا علی جواد یکدم حرم تک اسی وقت کیسے رسائی حاصل کرتا ہے جب بڑی صاحب زادی نے بدلہ چکانا ہوتا ہے۔ یا گھر میں رہنے والی بڑی صاحبزادی کو علی جواد کا زارا کے ساتھ تعلق کا کیسے پتہ چلتا ہے یا وہ علی جواد کو کس طرح گھر پر بلا لیتی ہے اس سب کی تفصیل کے باوجود محض بدلہ چکانے اور زارا کو علی جواد کے تخم سے حاملہ کروانے کی جلدی کے علاوہ کوئی دیگر وجہ نظر نہیں آتی۔
آخری چیز جو حیران کن یا مضحکہ خیز لگتی ہے وہ علی جواد کی موت کے بعد اس کے بیٹے کی دستار بندی ہے۔ وہ بیٹا جس کا ذکر پورے ناول میں کہیں نہیں آتا۔ علی جواد کی اپنی گھریلو زندگی کو دکھائے بغیر یکدم اس کا بیٹا سامنے لے آنا قاری کے لیے عجیب یا حیران کن چیز بن جاتی ہے۔
نیلی بار شناخت، سیاست، مذہب، دہشت گردی، دیہی و شہری زندگی میں فرق، امیروں کا غریبوں پر ظلم، عورتوں کے حقوق ، پنجابی زبان اور پنجاب کے رنگوں کو اجاگر کرتا ایک عمدہ ناول ہے۔ ایسا ناول جو قاری کو کئی دہائیوں کی سیر کرواتے ہوئے مختلف سیاسی منظرناموں اور نظاموں کے ساتھ ساتھ نیلی بار کی رہتل کے قدیم و جدید حقائق کا بہتر ادارک دیتا ہے۔
اس وقت طاہرہ اقبال صاحبہ اپنے نئے ناول ’گراں‘ پر کام کر رہی ہیں۔ امید ہے کہ اپنے مخصوص اسلوب اور انداز بیان کے ساتھ وہ اپنے موضوع کو مزید گہرائی میں جا کر ہمیں دکھا سکیں گی۔ اردو ادب کے قارئین کو اسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔