خواجہ غلام فریدؒ اور عظمتِ انسان- تحریر: محمد دین جوہر

 In تنقید

نوٹ: اس مضمون کی حیثیت ایک خاکے کی ہے، کیونکہ شدید عدیم الفرصتی کی وجہ سے اس میں کئی ایک ضروری حوالہ جات نہیں دیے جا سکے۔ امید ہے کہ  آئندہ مطالعہ جات میں یہ کمی دور کی جا سکے گی۔

آج کی اس باوقار نشست میں خواجہ غلام فریدؒ کے شعری تناظر میں عظمتِ انسان کے تصور کا مختصر جائزہ مقصود ہے۔ اول ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ عظمتِ انسان کے تصور کا شجرہ نسب کیا ہے؟  اس اہم تصور سے کیا مراد ہے؟ اور جو انسان اس عظمت کا حامل ہے اس کے وجودی اور تہذیبی خدوخال کیا ہیں؟ بعد ازاں، ہم خواجہ صاحب کے فیضِ معنی سے ان کے ہاں کارفرما تصورِ انسان سے آگہی حاصل کریں گے۔ اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ خواجہ صاحب کے ہاں ظاہر ہونے والے انسان کے تعینات کیا ہیں، اور انہیں کیونکر سمجھا جا سکتا ہے۔ اور ان کے ہاں انسان کی عظمت سے کیا مراد ہے؟

گزارش ہے کہ  ’انسان‘ کا لفظ ان معدودے الفاظ میں سے ہے جو مکمل طور پر خالی ظروف کی طرح ہیں، اور جن کو ہر تہذیب اور علمی روایت اپنے ہی معنی سے بھرتی ہے۔ ہر تہذیب اپنے بنیادی تصورات کے لیے جو الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتی ہے، وہ بین التہذیب بظاہر مشترک ہوتے ہیں لیکن ان کا بطونِ معنی قطعی مختلف ہوتا ہے۔ تہذیبوں کا باہمی لین دین ایک معمول کا مشاہدہ  ہے لیکن جس طرح ہمسایوں سے بچے ادھار لے کر کوئی کنبہ نہیں بنایا جا سکتا اسی طرح کوئی تہذیب اپنے بنیادی تصورات ادھار پہ نہیں اٹھاتی۔ وہ اس کے خانہ زاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ ایک تہذیب کا بنیادی تصورِ انسان دوسری تہذیب کے تصور انسان سے مماثلت رکھتا ہو۔

’عظمتِ انسان‘ کی ترکیب dignity               of               man کا ترجمہ ہے اور اس سے جس تصور کا اظہار مقصود ہے وہ مکمل طور پر جدید اور مغربی ہے، اور ہمارے ہاں کئی دیگر بنیادی تصورات اور اداروں کی طرح درآمد شدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس تصور کو اس کے اپنے تہذیبی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عظمتِ انسان ظاہر ہے کہ انسان سے مشروط اور اس پر منحصر ہے، یعنی انسان ہو گا تو اس کی عظمت یا عدم عظمت کا سوال پیدا ہو گا۔ اس لیے ’انسان‘ اور اس کی ’عظمت‘ کو الگ الگ جاننا نہ صرف زیادہ بامعنی اور مفید ہے بلکہ علمی دیانت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ 

انسان کے جدید تصور کی ابتدائی اور قدرے واضح تشکیل یورپی نشاۃ الثانیہ (The               Renaissance) میں سامنے آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تصور کے اولین آثار تحریکِ اصلاحِ مذہب (The               Reformation) میں ظاہر ہو چکے تھے۔ تحریک اصلاح  مذہب دراصل یورپی انسان کے اس فیصلے کا اعلان تھا کہ مذہبی ہدایت تو بلاشک الوہی ہی ہے، لیکن اس کے سارے مطلب اور معنی زمینی ہوں گے۔ نشاۃ الثانیہ کے اگلے تہذیبی مرحلے میں جدید انسان کا تصور زیادہ مربوط انداز میں سامنے آیا۔ ان تحریکوں سے پہلے، انسان کو عالم شہود میں وجود اور اس کے تمام مدارج کا نمائندہ خیال کیا جاتا تھا۔ نشاۃ الثانیہ نے کائنات میں ہر شے کی معنویت کا پیمانہ انسان کو قرار دیا، یعنی اب ہر شے کی حقیقت اور معنویت وہی ہو گی جو انسان بتائے گا۔ یعنی

 Man               became               the               measure               of               all               things.

نشاۃ الثانیہ کے آرٹ، ادب، سیاسی اور فلسفیانہ فکر، اور سب سے بڑھ کر اس دور میں سامنے آنے والی مذہبی تعبیرات کے پس منظر میں یہی تصور کارفرما ہے اور پیش منظر میں نئے انسان کے خدوخال ابھر رہے ہیں۔ آگے چل کر، تحریک تنویر (The               Enlightenment/The               Enlightenment               Project) نے اس انسان کو جو اب مکیالِ وجود و شہود ہے، ایک ایسی dignity یعنی عظمت کا حامل قرار دیا جو نہ صرف اس کا خلقی وصف تھا بلکہ اس کا حق بھی تھا۔ تحریک تنویر کے ساتھ عظمت، جدید تصور انسان کا لاینفک حصہ قرار پائی۔  جیسا کہ معلوم ہے کہ تحریک تنویر کو عہد روشن خیالی یا عہد عقل و خرد بھی کہا جاتا ہے۔  اس تحریک کا پیش کردہ عظمتِ انسان (dignity               of               man) کا تصور بالکل عقلی اور مجرد تھا، اور انسان کی عملی زندگی میں بہت زیادہ مفید اور مؤثر نہیں تھا۔ اس تصور میں سارے رنگ تحریک تنویر کے ردعمل میں سامنے آنے والی رومانوی تحریک نے بھرے۔ رومانوی تحریک کے اثرات سے تجلیلِ ذات کو اس تصورِ انسان میں مرکزیت حاصل ہو گئی۔ تنویری اور رومانوی افکار کے تحت سامنے آنے والے تصور میں جدید انسان کوئی مخلوق نہیں رہا بلکہ دیوتاؤں سے مشابہ ایک وجود کا نام قرار پایا۔

گزارش ہے کہ تحریک احیائے علوم سے شروع ہو کر بعد کی تحریکوں تک، اس تصور کو تمام تر فکری غذا یونانی افکار سے فراہم ہوئی ہے۔ یونانی تہذیب میں تصورِ انسان بہت واضح اور مفصل ہے، اس کا عنوان ہیرو ہے، یعنی ہیرو یونانی تہذیب کا بنیادی تصور انسان ہے۔ یونانی تہذیب میں انسان اور عظمتِ انسان کا تصور اس کے آرٹ میں بھی ظاہر ہوا، لیکن فلسفے اور شعر و ادب میں فلاسفر کنگ اور ہیرو کے طور پر سامنے آیا۔ تہذیب مغرب میں ظہور پانے والا تصورِ انسان یونانی ہیرو کی جدید فکری اور عملی تشکیلات ہیں۔ یونانی افکار کے تتبع میں جدید انسان اور اس کی عظمت کے تصورات تحریک احیائے علوم سے مغرب میں داخل ہوئے اور نشوونما پا کر وہیں انیسویں صدی تک پوری طرح بارآور ہوئے۔ استعماری دور میں دیگر جدید تصورات اور اداروں کی طرح یہ تصورات بندوق سوار مسلم اور دیگر محکوم معاشروں میں داخل ہوئے۔ اور آج ہم انہی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

گزارش ہے کہ یونان کے فکری تناظر میں ہیرو سے مراد ایسا شخص ہے جو عظمت یعنی nobility اور بڑا مقام  رکھتا ہے۔ عظمت یعنی nobility کے اس تصور میں صلاحیت غالب ہے اور اخلاقیات ضمنی ہے۔ ہیرو ایک ایسا شخص ہے جو برتر صلاحیت کا مالک ہے اور صلاحیت کی یہی اونچائی اسے عظمت کا حقدار اور حامل بناتی ہے۔ ہیرو کی بڑائی کی وجہ اس کی صلاحیت ہے اخلاقی فضائل نہیں ہیں۔ اپنی بے پناہ صلاحیت، پختہ ارادے اور عملی قوت سے ہیرو تاریخ کی قوتوں پر غالب آ جاتا ہے۔ ’تاریخ کی قوتوں‘ سے مراد دوسرے انسان اور معاشرے ہیں۔ ہیرو تاریخ کا فاتح ہے۔ وہ کوئی اخلاقی اور روحانی وجود نہیں ہے، بلکہ طاقت کی ایسی انسانی تشکیل کا نام ہے جو اپنے مقاصد قوت سے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہیرو جس عظمت کا نمائندہ ہے وہ اس سے باہر کسی تصور یا حقیقت کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی تجلیل ذات ہے۔

 لیکن یونانی ہیرو کی vision میں ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ تاریخ اور تقدیر میں امتیاز نہیں کر پاتا اور ان کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں ایک ہی فرض کر لیتا ہے۔ یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اس کی فنا پر منتج ہوتی ہے۔  ہیرو اپنے تاریخی تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے تقدیر سے تعرض کرتا ہے۔ اور نتائج نہ صرف اس کے تاریخی تجربے سے برعکس ہوتے ہیں بلکہ اس کی مکمل فنا کا سامان بن جاتے ہیں۔ تاریخ سے پنجہ آزمائی ہیرو کو فاتح بناتی ہے اور تقدیر سے چھیڑ چھاڑ اسے راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ یونانی تناظر میں المیہ، ارادے اور تدبیر کی ایسی نارسائی کا نام ہے جو تقدیر کی اقلیم میں ظاہر ہو کر ایک المناک حقیقت بن جاتی ہے۔  ہیرو عظمتِ انسانی کا ایسا نمائندہ ہے جو اپنے تاریخی تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے دیوتاؤں کی دنیا میں بالجبر داخل ہونا چاہتا ہے اور فنا سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اور یہ فنا، کسی بقا کا مرحلہ نہیں ہے بلکہ حتمی ہے، اور اسی لیے اسے المیے کا نام دیا گیا ہے۔

ہیرو کی سادہ تعریف یہ ہے کہ وہ تاریخ کا فاتح اور تقدیر کا باغی ہے۔ تاریخ میں بغاوت کامیابی کے امکانات رکھتی ہے لیکن تقدیر بغاوت کی اجازت نہیں دیتی اور یہی ہیرو کا بنیادی مسئلہ ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں ظاہر ہونے والے انسان اور اس کی عظمت کا تصور ہیرو سے نوعاً مختلف ہے۔ یعنی ان دونوں میں فرق کلی ہے، جزئی نہیں ہے۔ ہیرو کا منتہائی مقصود تجلیل ذات ہے بھلے اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینی پڑے، بھلے ساری دنیا کو اس کا ایندھن بنانا پڑے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کا بنیادی مقصد تکمیلِ ذات ہے، اور اس کے لیے وہ  اپنی ذات سے خارج میں موجود تاریخی اور روحانی وسائل پر انحصار کرتا ہے۔ ہیرو کائناتِ وجود سے ہم آہنگ نہیں اور اسے اپنی تجلیل ذات میں رکاوٹ سمجھتا ہے، جبکہ خواجہ صاحب کا شعری کردار عین اسی کائنات وجود میں اپنے مقام کی تلاش کر کے اس سے ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کا مسئلہ انسان رہنا ہے، جبکہ ہیرو کا مسئلہ دیوتا بننا ہے۔  ہیرو پوری کائنات کو خود پر قربان کر دینے کی لاحاصل سعی میں ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار خود قربان ہو کر بامراد ہو جاتا ہے۔  خواجہ صاحب کا شعری کردار اصلاً ایک اخلاقی اور روحانی وجود ہے جو معاشرتی، کائناتی اور الوہی رشتوں میں گندھا ہوا ہے، جبکہ ہیرو کے نزدیک انسانی رشتے پاؤں کی زنجیر ہیں۔ ہیرو اور اس کی جدید اولاد عظمت کی تلاش میں ہے جو مکمل طور پر دنیاوی اور مقصود بالذات ہے۔ خواجہ صاحب کے شعری کردار کی جدوجہد ”آپنا آپ سنجان“ ہے اور اسی کاوش میں وہ اپنے وجود کی معنویت دریافت کرتا ہے اور اپنی ذات کو حضور حق کا آئینہ بنا دیتا ہے۔ جدیدیت عظمت انسان کی بات کرتی ہے اور خواجہ صاحب شرف انسان کو سامنے لاتے ہیں۔ 

ہماری کلاسیکی شعریات اور مابعد الطبیعیات کے تناظر میں ہیرو، ابلیس کا ہم منصب و ہم معنی ہے اور جدید انسان اسی ہیرو کے نمونے پر ڈھلا ہوا ہے، اور یہی تصورِ انسان مغرب کے پورے شعر و ادب، آرٹ اور علم میں ساری ہے۔ ہیرو، عظمتِ انسانی اور المیہ ایک ہی شعریات کے اجزائے ترکیبی اور بنیادی تصورات ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری کو مغربی شعریات کے کلبوت میں ٹھونس کر اس کے فکری تعینات کو تلاش کرنا ہمارے نزدیک ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔

گزارش ہے کہ انسان اور عظمت انسانی کا جدید اور مغربی تصور خواجہ صاحب کے تصورِ انسان سے نہ صرف متضاد ہے، بلکہ اس کی مکمل نفی کرتا ہے۔ خواجہ صاحب کی شعریات وہی ہے جو رومی اور بیدل کی ہے، جو میر اور غالب کی ہے، جو اقبال اور راشد کی ہے، جو بلھے شاہ اور لطیف بھٹائی کی ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری جس تہذیبی شعریات میں جلوہ آرا ہوئی ہے، اسی میں بامعنی بھی ہے۔ ہر تہذیبی شعریات خاص اور exclusive ہے۔ اپنی شعریات سے زندہ تلازمات ہی شاعر کے جمالیاتی تجربے اور احساس کو بامعنی بناتے ہیں، اور یہ کمالات خواجہ صاحب کی شاعری میں جا بجا ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری کو سمجھنے کا درست تناظر ہماری تہذیب کی کلاسیکی شعریات ہے، اور یہی وہ چشمہ ہے جہاں سے فارسی اور اردو شاعری بھی سیراب ہوئی ہے۔

واجب الوجود ہماری فلسفیانہ روایت تھی، وحدت الوجود ہماری عرفانی روایت کا نام تھا اور جمالِ وجود ہماری شعریات رہی ہے۔ انسان کی رسائی جمالِ وجود کے مظاہر تک ہے، اور اس کا یہی  تجربہ شاعری، ادب اور آرٹ میں ظاہر ہوتا ہے۔ بے محابہ جمال کا تجربہ انسان میں وصل کی وجودی آرزو کو جنم دیتا ہے جو عشق ہے۔ عشق کے احوال جوالا مکھی ہیں اور ان کا نام ہجر ہے۔ ہم عظمت کے حامل جس انسان کا ابھی ذکر کر رہے تھے، اس کے ہاں عشق اور ہجر کا کوئی گزر نہیں۔ خواجہ صاحب کے ہاں عشق، نینھ، برہوں، بےقراری، جدائی، رسوائی ان کے شعری کردار  کا نصیب ہے اور وہ انہی احوال میں زندگی کرنے کی سعی میں ہے۔  ہیرو کے نزدیک عظمتِ انسان یہ ہے کہ وہ خود خدا بن جائے، اور خواجہ صاحب کے ہاں شرفِ انسان یہ ہے کہ وہ خدا کی نشانی بن جائے۔ یہ درجے کا فرق نہیں ہے، نوع کا فرق ہے، اور یہ فرق اس وقت معلوم ہوتا ہے جب شاعر کو اور خاص طور پر خواجہ صاحب جیسے بڑے شاعر کو اس کی اپنی شعریات میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔

خواجہ صاحب کے ہاں ”آپنا آپ سنجان“ کی بہت تاکید ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ مغرب سے درآمد شدہ عظمتِ انسان کے تصور کی صحبت میں اس کا ادراک ممکن نہیں۔ انسان کے تقدیری احوال کچھ ایسے ہیں کہ خالق و مخلوق کا ادراک بیک آن اور خالق کے اول ادراک پر منحصر ہے۔ خالق کو بھول کر مخلوق کا ادراک ممکن نہیں، اور مخلوق سے فراموشگاری میں خالق نامعلوم ہے۔ عظمتِ انسان کا بنیادی تصور ہی خدا سے فراموشگاری میں تشکیل پاتا ہے۔ ”آپنا آپ سنجان“ کا آغاز ہی نہیں ہو سکتا اگر اس میں اپنی مخلوقیت کا ادراک شرط اول کے طور پر داخل نہ ہو۔ ہیرو ایک ایسے وجود کا نام ہے جو اپنی مخلوقیت کے ادراک ہی سے قاصر ہے۔

یہاں اس امر کا اعادہ کرنا شاید ضروری نہیں کہ مغرب میں عظمتِ انسانی کا ہر تصور خدا کی بالفعل نفی پر کھڑا ہے۔ شاید ہمیں یہ بھی یاد رہ گیا ہو کہ انیسویں صدی میں نطشے نے خدا کی موت کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ ہم ابھی تک اس کی معنویت سے باخبر نہ ہو سکے ہوں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ نطشے اپنے اعلامیے کی معنویت سے واقف نہ ہو۔ یونانی ہیرو تو کوئی مذہبی پس منظر نہیں رکھتا تھا، لیکن نطشے کی تہذیب عیسائیت کی وجہ سے خدا شناس تو تھی۔ نطشے اس حقیقت کا درست ادراک رکھتا تھا کہ مذہبی تصورِ خدا کے ہوتے ہوئے سپرمین کا تصور کوئی معنویت کا حامل نہیں ہو سکتا۔  نطشے کا سپرمین یا فوق البشر یونانی ہیرو کا جڑواں بھائی ہے۔ دونوں عظمتِ انسان کے حامل ہیں اور ان کے نزدیک عظمتِ انسان خدا کے ملبے پر استوار ہوتی ہے۔

خواجہ صاحب کی شاعری میں عظمتِ انسان سے مراد یونانی ہیرو یا مغربی سپرمین کی طرح خدا بننا نہیں ہے، بلکہ ”آپنا آپ سنجان“ کے تحت اپنے جوہرِ انسانیت کو پا لینا اور اسے اپنی ذات میں actualize کر لینا ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں یہ جوہرِ انسانیت بندگی ہے۔ جیسا کہ شیخِ ربانی مجدد الف ثانی نے فرمایا تھا کہ ”انسان خلاصۂِ موجودات ہے“۔ یہ انسان کی کلی اور وجودی شناخت کا عرفانی ادراک ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ  انسان اپنی خلقت میں ایک ایسی مخلوق ہے جو نہ صرف تمام مدارجِ وجود کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے بلکہ ان کا نمائندہ بھی ہے۔ بندگی اس ادراک کو حال بنا لینا ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار ان سارے دکھوں کا ذائقہ چکھتا ہے جو حیاتِ ارضی کا لازمہ ہیں۔ وہ انسانی رشتوں کی آبیاری سے پہلو تہی نہیں کرتا اور خوب جانتا ہے کہ ان رشتوں کی اساس تسلیم و رضا اور ایثار ہے۔ وہ اپنی ذات سے ہم آہنگ ہے، اپنے معاشرتی ماحول میں دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا اور ہم آہنگ ہے۔ وہ کائنات سے ہم آہنگ ہے، اور وہ خالق کائنات سے اصول بندگی پر جڑا ہوا اور ہم آہنگ ہے۔ اخلاقی سطح پر جو چیز ایثار ہے وہ روحانی سطح پر فنائے ذات اور بندگی ہے۔ خواجہ صاحب کا شعری کردار human               condition میں رہتے ہوئے تاریخی اور وجودی جبر کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔  تاریخی اور وجودی جبر ہی کا دوسرا نام تقدیر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہیرو کے برعکس خواجہ صاحب کا انسان اس تقدیر سے تعرض کرنے اور اس سے نبھاہ کے پورے وسائل بھی فراہم رکھتا ہے۔ 

یورپی استعمار کے سیاسی جبر کی کوکھ سے پیدا ہونے والے استشراقی علم میں ایک بات خاص تھی کہ محکوم انسان اظہارِ ذات کی بنیادی لیاقت سے عاری ہے کیونکہ اس کے پاس اظہار کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ ذات، نہ مقام، نہ تاریخ۔ پورا استشراقی علم، استعماری حاکم کی شرائط پر محکوم انسان کے لیے بنایا جانے والا علم ہے، جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ:

The               colonized               man               is               unable               to               re-present               himself,               because               he               has               nothing               to               represent.

یہ علم کیا تھا، راتب ہی تھا  اور استعماری جبر سے مل کر اس نے مقامی اور محکوم انسان کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا، نہ ذات، نہ مقامیت، نہ کلچر، نہ تہذیب۔ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں کہ استشراقی علم کی بنیادی منہج appropriation یعنی کھسوٹ ہے۔ اس میں محکوم انسان نہ صرف اپنی تمام چیزوں کی معنویت کے لیے استشراق کا دریوزہ گر ہے، بلکہ وہ اپنی سیلف سے آگہی کے لیے بھی استشراق پر متوسل ہے۔ جب تک استعمار کے جبڑے کچھ ڈھیلے پڑے تب تک ہماری تہذیب کے ساتھ ساتھ اس کے سارے فکری اور جمالیاتی تناظر بھی گم ہو چکے تھے۔ مغرب نے اپنی تہذیب کی آفاقیت کے جو راگ الاپے ان کا ایک مقصد ہماری تہذیبی آفاقیت کی نفی تو یقیناً تھا ہی، لیکن دوسرا اہم مقصد ہماری تہذیب کی بوقلموں مقامیت کی تحقیر اور اسے لایعنی قرار دینا بھی تھا۔ مقامیت کے جدید سیاسی اور ثقافتی تصورات جغرافیے اور کلچر کے اقتصاری تصورات پر اساس رکھتے ہیں، اور مقامی ثقافتی تجربے کو تہذیبی شعور پر غلبہ دینے کی مہلک تزویرات سے عبارت ہیں۔ ہر جغرافیہ محض ایک کشکول ہے جو تاریخ سے عدل کی، فطرت سے فراوانی کی اور نظام افکار سے اپنی شناخت کی بھیک مانگتا ہے۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے شاعر کی تحسین کا پیمانہ علاقائی یا عالمی نہیں ہوتا۔ ہر بڑے شاعر کی سیر انفس و آفاق تہذیب کی کائنات کے اندر رہتے ہوئے سرانجام پاتی ہے اور اس سیر کے مقامات اور سنگ ہائے میل اسی تہذیب سے فراہم ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شاعری اپنے آپ میں اتنی ہی آفاقی ہے جتنی کہ رومیؒ کی شاعری ہے، اور اتنی ہی مقامی ہے جتنی نظیر اکبر آبادی کی ہے۔ اس شاعری کی کل معنویت اسی تہذیب اور اس کی شعریات سے متعین ہو گی جس کی یہ خبر لاتی ہے۔

خواجہ صاحب کی شاعری میں حسنِ فطرت اور محبوب کے پیکرات کی فراوانی ہے۔ اسی طرح برہوں کے رنج و محن اور تھل بیلے، دشت اور سنگلاخ پہاڑوں کی سفاکی بھی ہمقدم ہے۔ محبوب کی مشاطگی، حلیہ آرائی اور بدن کی نازکی اس کے حسن کی کاٹ کو دوچند کر دیتی ہے۔ جمال یار ہر گھڑی نظر میں ہے۔ اس کے ساتھ ان کی شاعری میں زہد یعنی دنیا سے لاتعلقی اور اللہ سے لو لگانے کا مضمون بھی طاقتور اظہارات رکھتا ہے۔ ہجر کی ناصبوری و خوں افشانی میں محبوب کے وصل کا شدید داعیہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اور خواجہ صاحب کی شاعری میں وحدت الوجود کی گونج  صور اسرافیل کی ہم زباں اور ہم آواز ہو کر ’’کل شیء ھالک‘‘ کا اعلان کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں بدن سے زہد کی نفی ہوتی ہو، اور محبوب سے ملنے کی تڑپ اللہ سے تعلق کو کمزور کر دیتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی نادان یہ اعتراض بھی کر بیٹھے کہ میہندی، مساگ اور بدن کی خوشبوؤں میں وحدت الوجود محض زیبِ داستان کے لیے ہے۔ بینائی کی کمزوری، اظہار کی منہ زوری اور نظریے کی سینہ زوری خواجہ صاحب کی شاعری کے ایسے ہی پہلوؤں کو اپنا ایندھن بنا سکتی ہے۔ لیکن ان سب اور بظاہر ان مل بے جوڑ پہلوؤں کو یہاں مذکور کرنے کا مقصد خواجہ صاحب کی شعری عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ بڑے شاعر کی طرح، خواجہ صاحب بھی ہر درجہ  وجود کے تجربے کو اپنی شاعری میں سمو دیتے ہیں۔ ان کا تخیل مساگ، بولے، بینسر سے وحدت الوجود تک کو سمیٹے ہوئے ہے، اور اس کی پہنائی تحت الثرا سے  سدرۃ المنتہی تک ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری پورے انسان کی شاعری ہے، ایسے انسان کی جو خلاصہ موجودات ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری میں جسم بھی ہے، جند جان بھی ہے، جی بھی ہے، جہان بھی ہے، اور جہان والا بھی ہے۔  جسم انسان کی ہستی کا تہہ خانہ ہے۔ بڑا شاعر وہی ہے جو سیر انفس اور سیر آفاق میں اپنے خاکی الاصل ہونے کو فراموش نہ کر دے۔ خواجہ صاحب کا بیکراں تخیل اور زندہ تجربہ  انسان کی ہستی اور حیات کے ہر گوشے کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ 

اب آخر میں خواجہ صاحب کے اپنے الفاظ میں ان کے تصور انسان سے آگہی حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ کافی نمبر 76 کے تیسرے شعر میں فرماتے ہیں۔

عرش وی تیرا فرش وی تیرا

توں عالی اَن مُل

اس شعر میں ’’عالی‘‘ کے لفظ سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ خواجہ صاحب بھی عظمت انسان کی بات کر رہے ہیں۔ عظمت انسان تاریخ میں ظاہر ہوتی ہے جبکہ خواجہ صاحب جس علویت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں وہ مراتب وجود کا خاصہ ہے۔ عرش و فرش کے سنگ میل ’’احسن تقویم‘‘ کی شاہراہ پر آتے ہیں جہاں خواجہ صاحب محو سفر ہیں۔ جب انسان بندگی میں آئینۂ وجود بن جائے، تو وہ عالی بھی ہے اور ان مُل بھی ہے۔  اس کو ایک اور زاویے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ مومن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ اس حدیث مبارکہ سے استنباط اور علمی مفاد یہ ہے کہ مومن ایک ایسے انسان کا نام ہے جو اپنی ذات میں علامت بن جائے۔ اور علامت اس لفط یا چیز کو کہتے ہیں جس کا ہونا اپنے لیے نہ ہو بلکہ کسی اور کے لیے ہو کیونکہ علامت کسی دوسرے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس شخص کو دیکھ کر اللہ یاد آ جائے، وہ اللہ کے ہونے کی گواہی اور علامت بن گیا۔ یہی شرفِ انسان ہے اور یہی انسان کی علویت ہے۔ یعنی جب تو اس کا ہو گیا جس کے لیے تجھے خلق کیا گیا ہے، تو یہ کون و مکاں سب تیرے ہو گئے۔

خواجہ صاحب اسی کافی کے پہلے شعر میں فرماتے ہیں۔

کیوں توں فرد تے جزو سڈاویں

توں کلی توں کل

اس شعر میں خواجہ صاحب کا ارشاد ہے کہ انسان کو منطق کی اصطلاحوں میں ’’فرد‘‘ اور ’’جزو‘‘ قرار دے کر نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ وہ ایک ایسا ’’کلی‘‘ ہے جو جزو کی پوری معنویت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ خواجہ صاحب نے انسان کو کلی فرمایا ہے، اور اس تصور کو واجب الوجود کے عقلی اور نظری تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی خواجہ صاحب انسان کو ’’کل‘‘ بھی فرما رہے ہیں اور یہ وحدت الوجود کا تناظر ہے۔ اس شعر میں خواجہ صاحب نے اپنے روایتی عقلی اور عرفانی تناظر میں رہتے ہوئے انسان کی تعیین کی ہے۔ ”کلی“ ان کے تصور انسان کی آفاقیت کی طرف اشارہ ہے جبکہ ”کل“ یعنی انسان کا microcosm ہونا ان کے عرفانی تناظر کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ شعر ایک طرف سہل ممتنع اور قادر الکلامی کی اعلیٰ مثال ہے اور دوسری طرف ان کے تعقلاتی اور عرفانی تخیل کی قوت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ انسان نہیں جو تاریخی عظمت کی تلاش میں سرگرداں ہو، بلکہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو پوری کائنات کا معنی ہے۔ اور اس کے بغیر کائنات کی معنویت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

 اسی کافی میں خواجہ صاحب فرماتے ہیں:

روح، مثال، شہادت توں ہیں

سمجھ، سنجان نہ بھُل

اس شعر میں خواجہ صاحب اپنے مخاطب کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو، کائنات کو اور دنیا کو دیکھنے کا ایک جامع تناظر رکھتا ہے، اور اس کے ہر تصور اور عمل کی معنویت اسی سے کشید ہوتی ہے۔ اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔  یہ تناظر اصلاً مذہبی اور بعدہ تہذیبی ہے۔  خواجہ صاحب اس امر کی تاکیدِ اکید فرماتے ہیں کہ باطن اور ظاہر کو دیکھنے کا یہ تناظر ہر لمحہ مستحضر رہنا چاہیے۔ ”سمجھ“ انسانی شعور کی ایک داخلی سرگرمی ہے۔ فلسفیانہ مباحث میں جس چیز کو understanding کہتے وہ اس سے قطعی مختلف چیز ہے۔ جدید فلسفیانہ مباحث میں understanding کلام کے ایسے محاصر کا نام ہے جس میں وہ اپنے ہر الوہی معنی سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ خواجہ صاحب کے ہاں سمجھ، انسانی شعور کا عرفانی تناظر ہے، جبکہ ”سنجان“ ہستی اور کائنات کو دیکھنے کا وجودی تناظر ہے۔ سمجھ شعور کی داخلی حرکت ہے اور سنجان اسی شعور کی خارجی حرکت ہے۔ خواجہ صاحب نے اس شعر میں شعور اور وجود  کو جمع کر کے عرفانی تناظر کو مکمل کر دیا ہے۔ 

خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ انسان، کائنات اور خالق کائنات میں قائم مراتب وجود میں خلط مبحث اپنے آپ سے دست برداری ہے۔ عالم جبروت، عالم مثال اور عالم شہود، سب انسان میں جمع ہیں۔ ”نفخت فیہ من روحی“ سے معلوم ہوا کہ نور خداوندی اور حیات ابدی انسان کی خلقت میں گندھی ہوئی ہے۔ ”مثال“ سے مراد وہ عالم ہے جو تنزلات اور تعینات وجود کا مرحلہ ہے۔  شہادت وہ عالم ہے جس میں رہتے ہوئے انسان نے ’’حبل متین‘‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے اور آئینہ وجود بن جانے میں بامراد ہونا ہے۔ خواجہ صاحب کی تاکید یہ ہے کہ انسان کہیں ’’بھل‘‘ کا مرتکب نہ ہو جائے کیونکہ یہ بھولنا اپنے آپ کو بھولنا ہے، اور اپنے آپ کو بھولنا اپنے خدا کو بھولنا ہے اور یہی انسان ہونے سے دست برداری ہے۔ اگر خالقِ کل انسان کی نگاہ میں رہے، تو انسان آئینہ وجود بن کر ہر گھڑی خالق کی نگاہ میں رہتا ہے۔ 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search