غلام باغ: مرزا اطہر بیگ (تبصرہ: بلال حسن بھٹی)
مرزا اطہر بیگ کی پیدائش ضلع شیخوپورہ کے ایک قصبے شرقپور میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم شرقپور سے حاصل کی اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایف ایس سی کی۔ وہ 1980 سے لے کر 2010 تک اسی درس گاہ میں بطور فلسفے کے معلم کام کرتے رہے ہیں بلکہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد اب بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ مرزا اطہر بیگ ایک ناول نگار، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار اور فلسفی ہیں۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے لیے پندرہ ڈرامے لکھے جو کئی اقساط پر مشتمل تھے جن میں دلدل، پاتال، نشیب اور حصار زیادہ مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک قسط پر مبنی پچاس سے زیادہ ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’غلام باغ ‘ کے نام سے 2006 میں چھپ کر داد اور شہرت سمیٹ چکا ہے۔ اس ناول نے اردو ادب میں تجربیت کی ایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے جو اس سے پہلے اس خلاقی سے اردو ناول میں موجود نہ تھی۔ ان کا دوسرا ناول ’صفر سے ایک تک‘ 2009 جبکہ ’حسن کی صورتحال؛ خالی جگہ پُر کرو‘ 2014 میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ 2014 میں ’بے افسانہ‘ کے نام سے شائع ہوا۔
غلام باغ اپنی تخلیقیت، تجربیت اور زبان کے حوالے سے اردو ادب میں اس صدی کا بہترین ناول بلکہ اردو ناول کی سو ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں موجود ’اداس نسلیں‘ اور ’آگ کا دریا‘ جیسے عظیم ناولوں کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ ناول 878 صفحوں اور 30 ابواب پر مشتمل ہے۔ اپنی تمام تر فلسفیانہ شہرت اور ضخامت کے باوجود اس ناول کے پاکستان میں اب تک پانچ، اور بھارت میں ایک ایڈیشن چھپ چکا ہے جبکہ اس کو پڑھنے والے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں محض میرے جاننے والوں میں سے ایک بی ایس کا طالب علم، ایک نقاد، ایک شاعر، ایک استاد اور ایک خاتون خانہ شامل ہیں جو اس ناول کے مداح ہیں، اور یہ تنوع اس فن پارے کی ہر عمر اور پیشے کے لوگوں میں مقبولیت اور پزیرائی کا ایک اور ثبوت ہے۔
غلام باغ اردو ناول میں ایک ایسا اضافہ ہے جو اداس نسلیں کے عروج سے شروع ہوا اور غلام باغ کی ارزل نسلوں تک پہنچتا ہے۔ جی ہاں، ارزل نسلیں جن کے نام پر اس ناول کا انتساب ہے، جن کا ذکر اس ناول کے شروع سے آخر تک موجود ہے۔ ارزل نسلیں وہ نسلیں ہیں جن کی اپنی کوئی اساطیر نہیں ہیں۔ وہ اسی لیے بھی ارذل نسلیں کہلاتی ہیں کہ وہ اپنی کہانی خود نہیں سنا سکتیں۔ اساطیر گزرے زمانوں کی داستانیں ہوتی ہیں۔ یہ ناول کلونیل دور میں ارذل بنا دی گئی نسلوں کو اپنی تاریخ دوبارہ لکھنے کی طرف اکساتا ہے۔ اپنی تاریخی حقیقت کو پہچاننے اور اسے کھنگال کر دوبارہ لکھنے کی یہی کوشش ہم شعوری سطح پر اس ناول میں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ ناول نگار فلسفے کے استاد ہیں لہذا اس سے یہ تاثر لیا گیا کہ مذکورہ ناول میں بھی انہوں نے فلسفیانہ انداز میں کچھ مسائل سلجھائے ہیں لیکن یہ خیال ایک ظاہری تاثر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ یہ ناول بے ہیت، علامتی اور تجریدی ہونے کی وجہ سے منفرد ہے۔ شاید اس لیے سپاٹ کہانیاں پڑھنے کے عادی اردو قارئین کے لیے اس سے خود کو جوڑے رکھنا تھوڑا مشکل ہے، ورنہ تمام تر تجریدیت، علامتی انداز اور تجربیت کے باوجود یہ ناول اپنے اندر ایک تسلسل رکھتا ہے اور اسکی قرات میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ تعلقات کی پچیدگی، غلبے کے اثرات، نیلے رجسٹر، لالکھائی جیسی لایعنی بک بک اور گنجینہ نشاط سے خصی کلب جیسے گینگ کی گتھیاں سلجھاتا یہ ناول موضوع، ہیت، نئے اسلوب و زبان، طویل مکالموں اور منفرد تکنیک کی وجہ سے نہ صرف اردو ناولوں کی صف میں منفرد مقام پر کھڑا نظر آتا ہے بلکہ بقول عبداللہ حسین کے تکنیک کا یہ منفرد انداز ہمیں انگریزی ناولوں میں بھی ناپید نظر آتا ہے اور اس کے ڈانڈے یورپی اور پوسٹ ماڈرن فرانسیسی ناولوں سے ملتے ہیں۔
ناول میں موجود جس فلسفے کا تذکرہ کیا گیا ہے اصل میں وہ غلبے کا فلسفہ ہے۔ ارزل نسلیں جن کے نام اس ناول کا انتساب کیا گیا ہے وہ مانگر یا پونگر جاتی یا پکھی واس یا سونسی کہلائی جانے والی نسلیں نہیں ہیں بلکہ ارذل نسلوں میں ہر وہ نسل شامل ہے جن کو زندگی جینے اور اپنا آپ ثابت کرنے کے لیے اپنے معاشرے میں ہر طرح کے نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان نسلوں کے ساتھ یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ ساری عمر اپنی محنت کے زریعے اور حلال روزی کما کر عزت دار بننے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں لیکن آخر کار وہ طاقتور لوگوں کے غلبوں سے ہار جاتی ہیں۔ بالکل جس طرح مانگر جاتی کے ڈاکیے خاور حسین کے بیٹے یاور حسین نے خصی کلب جیسے امیروں پر اپنی افادیت ثابت کر دی تھی لیکن آخر کار وہ اس امیر طبقے کے امبر جان کی خباثت کا صدمہ نہ برداشت کر سکا اور اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ یا جس طرح کبیر مہدی اور زہرا جیسے آزاد منش اور خودسر بھی خصی کلب کا مقابلہ کرتے ہوئے ہار جاتے ہیں۔ طبقاتی کشمکش یا ارذل نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کی کوشش جو وہ اعلی نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کرتے ہوئے ہار جاتے ہیں، صرف اس ناول کی کہانی نہیں نا ہی یہ محض انعام گڑھ کے ڈاکیے خاور حسین کے بیٹے یاور حسین اور رحیم کاچھر جیسے وڈیرے کی ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی لڑائی ہے بلکہ یہ کم تر نسلوں سے برتر نسلوں کی وہ جھڑپ ہے جو اپنی شناخت حاصل کرنے کے لیے روز اول سے ارذل نسل کے لوگوں کی طرف سے لڑی جاتی ہے۔ اور اس کشمکش کو بین الاقوامی سطح پر تقویت کلونیل دور میں ملی۔ جب ایک ہی نسل نے کئی نسلوں پر اپنا غلبہ جمایا اور مختلف علاقوں اور خطوں میں بٹی یہ ارذل نسلیں خود کو جسد واحد محسوس کرنے لگیں۔ یوں ظلم و جبر کی یہ داستان انفرادی نسل یا جاتی کی کہانی سے نکل کر بہت سی مغلوب نسلوں کی اجتماعی داستان بن گئی۔ یہ کبیر مہدی کے ذریعے لکھوائی جانے والی ارذل نسلوں کی وہ تاریخ ہے جسے اس سے پہلے ہمیشہ طاقتور قومیں اپنی ضروریات اور حساب سے لکھتی آئی ہیں۔
غلام باغ میں غلبے کے فلسفے کے علاوہ انسانی تعلق پر بحث کی گئی ہے۔ اگر زہرہ کی زبان میں کہا جائے تو ”غلام باغ میں موجود مدتوں پر مشتمل مکالمہ تعلقات کو سمجھنے کا مکالمہ ہے۔“ انسانی تعلقات کا وہ فلسفہ جو ہمیں غلام باغ کے چار بڑے کرداروں کبیر مہدی، زہرا، ڈاکٹر ناصر اور ہاف مین کے تعلق میں نظر آتا ہے۔ زہرا کے نزدیک وہ تینوں مرد ایک ہیں۔ ” تم تینوں اپنی اپنی جگہ۔۔ اپنی اپنی مردانگی میں سمجھتے ہو کہ میرے لیے کافی ہو، مگر میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ تم تینوں کی مثال کسی مشترک وجود سے ہے جو کہیں بھی نہیں ہے ۔ بس ایسا ہی ہے، میں مانتی ہوں۔۔۔ جیسا بھی ہے مگر یہی ہے۔۔۔ محال ہے تو پھر بھی ہے۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ اگر یہ مریضانہ ہے۔۔۔ تو پھر بھی ہے۔۔۔ میں تم تینوں کو۔۔۔ ایک بنا کر ہی سوچ سکتی ہوں“۔ لیکن یہ صرف کہنے کی حد تک ہوتا ہے جو ہم ناول میں آگے چل کر دیکھتے ہیں۔
زہرا اور کبیر کا تعلق ایک معمہ ہے۔ ایک خاص قسم کا تعلق جو چار لوگوں میں سے دو کی نفی کرتا ہے اور بچ جانے والے دو بھی ایک ہو جاتے ہیں۔ جو جس قدر قریب آتے ہیں ان کے درمیان موجود خلا ختم ہو جاتا ہے۔ یہ تعلق جو آغاز میں بھی موجود تھا لیکن کئی طرح کی رکاوٹوں اور اندرونی کشمکش کی بنا پر زہرا اور کبیر کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا اور قریب بھی لاتا تھا۔ اس تعلق میں تو مسکراہٹ بھی مخصوص ہو جاتی ہے۔ اس تعلق کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباس دیکھیۓ ”پھر وہی زہرا خود سے سوال کرتی ہے کہ کیا تعلق میں آزادی سے محروم ہونا پڑتا ہے؟ کیا چار کی غلامی ختم ہونے کے بعد دو کی غلامی شروع ہو گی؟ تعلق میں کچھ نا کچھ تو اپنے آپ سے محروم ہونا ہو گا ورنہ زبردستی کی یک طرفہ قربت ٹھونسنے بن جاتی ہے۔ لیکن وہ سوچتی ہے کہ یہ اسے کبیر کے لیے ہی کیوں محسوس ہوتا ہے۔“ تعلق کے اس فلسفے پر ہمیں کبیر باقی تینوں مرکزی کرداروں پر حاوی ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی باتوں سے دوسروں کی سوچوں پر اس قدر قابو پا لیتا ہے کہ جو وہ چاہتا ہے دوسرے بھی وہی سوچتے ہیں۔ دوسری طرف وہ تعلقات ہیں جو کسی نہ کسی ضرورت کے تحت بنتے ہیں۔ ضرورت کے تعلق کا یہی فلسفہ ہمیں گنجہ نشینہ والے یاور حسین اور خصی کلب ممبران کے درمیان نظر آتا ہے۔ خصی کلب اور یاور حسین کے درمیان تعلق اس ضرورت پر مبنی ہے جو طاقت کے سرچشموں کے خشک اندرونی چشموں کو بحالی کے نسخوں کی ہوتی ہے۔ یاور حسین ہر طرح کے منجمد چشموں کو رواں کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کی یہی خوبی اسے مانگر جاتی سے اٹھا کر ایک امیر و کبیر عطائی بناتی ہے، اور اس کے نسخے اسے طاقت کے سرچشموں کا پسندیدہ آدمی بناتے ہیں۔ یہ تعلقات یاور حسین کے مرنے کے بعد ختم تو ہو جاتے ہیں لیکن یاور حسین یا اس کے کسی متبادل کی خصی کلب کو ضرورت پھر بھی باقی رہتی ہے۔
انداز بیاں، اسلوب اور تکنیک کا اتنا خلاق تجربہ اردو ناول کی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سالٹ رینج کی پہاڑیوں، سنمیال اور انعام گڑھ جیسے قصبوں کے ساتھ ساتھ بڑے شہر کے متمول علاقوں کی منظر نگاری تمام مقامات کو واضح کر کے قاری کو دکھاتی ہے۔ یہ منظر نگاری قاری کے تخیل کو اپنے قابو میں کر لیتی ہے۔ مختلف مباحثوں پر مشتمل طویل مکالمے، نیلے رجسٹر جیسی منفرد اور مشکل تکنیک اور لمبے لمبے خط ناول کی کہانی کے اندر بہت خوبصورتی سے سموئے گئے ہیں۔ یہ انداز قاری کو منفرد ہونے کا احساس تو دلاتا ہے لیکن قرات میں بوریت پیدا نہیں کرتا ۔ مختلف ناقدین کی آرا میں ناول کی زبان ایک الگ کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جب کہ بعض لوگوں نے شکایت کی ہے کہ اردو اور انگریزی کے مشکل الفاظ استعمال کر کے نثر کو خوامخواہ ثقیل بنایا گیا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس ناول میں ناقابل اشاعت الفاظ اور دماغی خلل کا نتیجہ سمجھے جانے والے فقروں کو خوبصورتی سے استعمال کر کے اردو ناول کو بےباکی اور اظہار کی وسعت بخشی گئی ہے۔
وہ الفاظ یا فقرے جو ایک ادیب صرف سوچ تو سکتا ہے لیکن لکھنے کی ہمت نہیں کرتا اس ناول میں بہت غیر معمول انداز میں برتے گئے ہیں۔ وہ خیالات جو لایعنی سمجھ کر انسان خود اپنے اندر پیوست اخلاقی چھلنی کی وجہ سے بیان نہیں کر پاتا، ان لایعنی خیالات، نظریات اور تصورات کا اظہار ہم کبیر مہدی سے پورے ناول میں سنتے ہیں۔ کبیر کی بک بک یا لفظوں کی جگالی زبان کو مشکل نہیں منفرد بناتی ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو اور انگریزی کے ایسے بہت سے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا معنی سمجھنے کی خاطر قاری کو دسیوں بار اردو اور انگریزی کی لغات سے مدد لینی پڑے گی لیکن یہ الفاظ اس قدر ثقیل نہیں ہیں کہ ساری نثر انکے بوجھ تلے دب جائے اور اصل مفہوم کہیں غائب ہو جائے۔ کبیر کی بے وقت کی جانے والی لفظوں کی تکرار ایسی مضحکہ خیز صورتحال پیدا کر دیتی ہے جو لسانی فلسفے کو سچ ثابت کرتی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول خود اپنے اندر موجود نئے لفظوں کی لغت بھی ہے۔ ایک جگہ کبیر لفظ ”بھوگ بلاس“ استعمال کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس کے ”معنی ہیں عیش و عشرت، سروروانبساط، حظوظ نفسانی، رنگ رلیاں، جشن شادمانی، لطف زندگانی، آنند اور مزہ، زندگی کے مزے، خواہشات کا پورا کرنا، راگ رن، گانا ناچنا، سر و تماشا، کھیل کود، لہو ولعب اور تعیش“۔ زبان کے اسی استعمال سے ناول میں ایک لطیف مزاح پیدا ہوتا ہے جسے ناول نگار کامیکل ریل ازم کا نام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کا یہ طاقتور استعمال ایک کردار کی سی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جو اپنے اندر زندگی کی تمام تر رنگینیاں سجائے ہوئے ہے۔ ناول کی لفظی بنت کو سمجھنے کے لیے ایک جگہ کبیر مہدی کی خودکلامی کو دیکھنا بہت اہم ہے۔ ”کبیر مہدی کی دنیا میں لفظ کہیں بھی دنیا سے جڑے نہیں ہوئے۔ لفظوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہے اور اپنے ہی کھیل تماشے ہیں۔ سب نظریے، سب سچ، سب جھوٹ، سب یقین، سب ایمان، سب علم، سب آرٹ، سب فن، سب فلسفے بس کھیل تماشے ہیں“۔ گیگلے اور بیت الققنس جیسے لفظ بیک وقت اجنبی اور پر لطف لگتے ہیں۔ ناول نہ صرف مکالمات سے بھرپور ہے بلکہ آپ اس میں جابجا بکھرے نئے واقعات سے بھی متعارف ہوں گے جو چونکانے کی بجائے کہانی کو ایک نیا موڈ دینے کے کام آتے ہیں۔ ڈرائنگ روم، اورجی اور زہرہ کے خواب جیسے چار ابواب پڑھتے ہوئے بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ صرف ایک رات کی محفل کو اسی سے زائد صفحات پر پھیلانا ایک تخلیقی اور تخیلاتی خوبی ہے جس کو پڑھتے ہوئے دوستووئفیسکی اور فلابیئر کی یاد آتی ہے۔
ناول بہت سے چھوٹے بڑے کرداروں پر مشتمل ہے لیکن یاور حسین، ڈاکٹر ناصر ہاف مین، زہرا اور کبیر مہدی ناول کے مرکزی کردار ہیں جو کہانی کے شروع سے آخر تک کہیں نا کہیں اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ یہ کردار زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر کردار اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے جسکے گرد ایک مختلف کہانی گھومتی ہے۔
یاور حسین مانگر جاتی سے تعلق رکھنے والے ڈاکیے خادم حسین کا بیٹا ہے۔ خادم حسین جو سوکڑ نہر کے کنارے پر تپڑیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح رہتا تھا اور پھر عزت حاصل کرنے کے لیے وہاں سے اٹھ کر انعام گڑھ آیا تھا۔ لیکن اسے عزت نہ مل سکی بلکہ وہ نکھ، نیچ اور ذلیل ذات کی نسبت ہی جانا جاتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا یاور حسین جو گنجینہ نشاط نامی نسخہ ہاتھ لگنے کے بعد انعام گڑھ سے شہر آ جاتا ہے اور یہاں آ کر ایک عطائی بن جاتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص نسخے صرف امیر لوگوں کو بیچتا تھا جن میں بڑے بڑے تاجر، وڈیرے، وزیر، بیوروکریٹس، مولوی اور صحافی شامل تھے۔ اس نے اپنی گولیوں کی وجہ سے ان سب کو اپنا محتاج بنایا اور ہر طرح کا معاشی اور معاشرتی فائدہ اٹھایا۔ اسی کی بدولت اس کے دو بیٹے اپنا اچھا کاروبار چلا رہے تھے۔ لیکن اس تمام تر شہرت کے باوجود اسے بیٹوں اور بیوی کی جانب سے نفرت اور تنہائی کا تحفہ دیا گیا۔
ڈاکٹر ناصر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی رہائش اندرون لاہور کے ایک خستہ حال قدیم گھر میں ہے جس میں تھوڑی سی بارش بھی ہر طرف پانی بھر دیتی ہے۔ وہ اپنے پیشے سے پوری سچائی کے ساتھ وابستہ ہے لیکن کبیر کا بہترین دوست ہونے کے ناطے اس کی ہر طرح کی نظریہ بازی اور بک بک کو مکمل توجہ کے ساتھ سنتا ہے۔ ناول میں زہرا کے بعد وہ کبیر کا سب سے قریبی ساتھی ہے۔ ناصر ناول کے آغاز سے ہی زہرا کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس عشق میں ناکامی کی وجہ سے اس کی شخصیت اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔ آخر کار وہ اپنے وارڈ میں غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے اور لمبا عرصہ جیل میں گزارتا ہے۔ ناصر کے بعد کبیر کا دوسرا دوست ہاف مین ایک جرمن آرکیالوجسٹ ہے۔ وہ پاکستان میں غلام باغ جیسے تاریخی مقام پر ایک تھیسز لکھنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ چونکہ ناصر اور کبیر غلام باغ میں اکثر بیٹھے رہتے ہیں لہذا ہاف مین کی ان سے دوستی ہو جاتی ہے۔ ایک غیر ملکی ہونے اور نواب یار جنگ بہادر سے راہ و رسم کی بنا پر اس کی رسائی حلقۂ اقتدار تک ہو جاتی ہے۔ اپنی تاریخی کھوج کو چھوڑ کر وہ بھی نظریاتی بحث میں باقی تینوں کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آخر کار وہ اپنی تاریخی کھوج کا شکار ہو کر کہیں غلام باغ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
زہرا ناول کا مرکزی نسوانی کردار ہے جو ہر طرح سے ایک مضبوط کردار ہے، ایک باغی کردار جو معاشرے کے ہر فرد سے لڑنے کو تیار رہتا ہے، جو کسی جنسی امتیاز کا قائل نہیں ہے۔ زہرا تینوں مردوں میں بیٹھ کر بلاجھجھک ان کا ہر طرح سے مقابلہ کرتی اور ساتھ دیتی ہے ۔فکری مباحث ہوں یا کوئی جسمانی مدد، وہ ہر سطح پر برابری کی قائل ہے۔ یاور حسین کے بیٹوں اور بیوی کے گھر چھوڑ جانے کے باوجود زہرا اپنے والد کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہے اور آخری دم تک اس گھر کی ملکیت کے لیے ہر ایک سے لڑتی ہے۔ وہ اپنی شناخت کی تلاش میں انعام گڑھ کا کٹھن سفر اختیار کرتی ہے۔ کبیر سے اس کی وابستگی جب بڑھتی ہے تو وہ بااختیار ہوتے ہوئے بھی بے اختیار محسوس کرتی ہے۔ وہ کبیر کے ہی جسم کا ایک حصہ بن کر اس کے لکھنے میں اس کی مدد کرتی ہے۔ اس کی ہمت اس وقت مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب وہ آگ میں جھلستے اولڈ بک سٹور میں گھس کر کبیر کو بچا لیتی ہے۔ معاشرتی اخلاقیات اور روایات سے بے خوف و خطر تین مردوں اور پھر ایک مرد کے ساتھ گھومتا دیکھ کر پولیس والوں سے لے کر عام گھریلو نوکرانی تک ہر فرد اس کے کردار پر انگلی اٹھاتا ہے۔ ناول کے شروع سے آخر تک وہ کبیر کی ٹکر کا واحد کردار ہے جو اکثر کبیر جیسے نظریہ باز اور لایعنی باتوں کے بادشاہ کو بھی اپنے جوابات اور سوالات سے خاموش کروا دیتی ہے۔
ناول کے مرکزی کردار کا نام کبیر ہے جو سنمیال کے ایک دیہات سے اٹھ کر بڑے شہر میں شام سندر روڈ پر موجود اولڈ بک سکالر نامی ایک گھونسلے میں رہتا تھا۔ گھونسلہ جس میں پرانی، بوسیدہ، سیلن زدہ کتابیں ہر طرف بھری پڑی تھیں اور ان کتابوں کے درمیان موجود تھوڑی سی جگہ میں کبیر سوتا تھا۔ کبیر جو ایک قلمی طوائف تھا۔ جو سارنگ، ابن بشیر، آدم زاد جیسے قلمی ناموں سے مختلف رسائل میں تحقیقی مضامین لکھتا تھا اور اس کے مضامین تحقیقی شہکار ہوتے تھے۔ اسے ہر موضوع پر یکساں گرفت تھی گویا وہ ہر فن مولا ہو۔ لیکن اس سب سے ہٹ کر اس کے کردار میں کچھ اور بھی ہے۔ اپنی لایعنیت اور بک بک کے باوجود وہ اردو ادب کا سب سے مضبوط کردار نہ بھی ہو تو بھی طاقتور ترین کرداروں میں سے ایک ہے، جو غیر سنجیدہ تو محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی نظریہ بازی کے پیچھے مکمل ہوم ورک موجود ہوتا ہے، جو ہم اس کی جانب سے ہر نئی تاریخ پر گھڑے جانے والے نئے نظریے میں دیکھتے ہیں۔ وہ اس قدر نپے تلے انداز سے کہانی کو آغاز سے انجام تک چلاتا ہے جیسے وہ ہی فکشن کا خالق ہے۔ بلکہ وہ ایک چھوٹا سا فکشن خدا بھی ہے جو لکھاری سے بھی زیادہ طاقتور ہے، جس سے تعلق میں آنے والے ہر شخص چاہے وہ جتنا بھی طاقتور اور ذہنی طور پر مضبوط ہو، اس کا قیدی ضرور بنتا ہے، اس کی نظریہ بازی اور لایعنی بک بک کا قیدی۔ وہ بک بک جو اپنے اندر معنویت کا جہاں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کا نیلا رجسٹرڈ ہو، لالکھائی ہو، ناصر کو لکھے طویل خط ہوں یا بیت الققنس میں لیٹے لکھی اور کاٹی گئی تحریریں ہوں، سب اپنے اندر ایک الگ جہاں آباد کیے ہوئے ہیں۔ وہ جو آخری سانس تک مکالمہ کرتا رہتا ہے اور اگر اسے کوئی دوسرا نہ ملے تو وہ اپنی خودکلامی سے کہانی کو آگے بڑھاتا رہتا ہے۔ وہ اپنے لکھے کا خود ہی خالق اور نقاد ہے۔ دیکھیے ناول میں موجود یہ فقرہ کس قدر گہرا اور وسیع معنی رکھتا ہے جس کا اطلاق ناول اور غیرناول ادب پر بھی ہوتا ہے۔ ”میں خدا نہیں ہوں میں شیطان بھی ہوں۔ خدا تخلیق کرتا ہے اور شیطان تنقید کرتا ہے۔“ اس کی روزی روٹی کا بندوبست اخبار میں لکھے گئے کالموں سے ہوتا ہے جبکہ کرائے کے طور پر وہ اولڈ بکس سٹور میں آنے والی سینکڑوں نئی کتابوں کی چھانٹی کرتا ہے اور انہیں مضامین کے مطابق الگ الگ رکھ دیتا ہے۔ کبیر کے کردار میں پائی جانے والی ذہنی کشمکش، اضطراب اور انتشار صرف ایک ادیب یا لکھاری سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آج کے نوجوانوں کا اہم مسئلہ ہے خاص کر وہ نوجوان جو ہر وقت کچھ نا کچھ نیا سوچنے اور کرتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر آخر کار یہی لاپرواہی اور لایعنیت ان کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔
غلام باغ ایک ایسی دنیا ہے جس میں داخل ہونے کے لیے جتنی قوت متخیلہ درکار ہے اس سے کہیں زیادہ احساس محرومی یاکھوکھلاپن اس ناول کو ختم کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ عام طور یہ روایت ہے کہ ہمارے لکھاری اپنا کوئی بڑا تخلیق کام آخری وقت میں کرتے ہیں لیکن مرزا اطہر بیگ نے اپنا آغاز ہی ایک اعلی تخلیقی فن پارہ لکھ کر کیا اور ان کا یہ تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے جو ہم ان کے بعد والے ناولوں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔