’مولانا‘ فاؤسٹ کے رامشگر کی کلپنا ۔ تحریر: محمد دین جوہر
[جناب عاصم بخشی کے ایک مضمون ”حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن“ کے جواب میں جناب محمد دین جوہر کی تحریر جائزہ کے صفحات پہ پیش کی جائے گی۔ اس تحریر کی پہلی قسط حاضر ہے۔ مدیر]
مواشی پروری اور ماہی گیری وغیرہ کے ٹیکنیکل مینول کی طرز پر لکھا ہوا جناب عاصم بخشی کا مضمون ”حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن“، جو ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر سنہ ۲۰۱۹ء کے شمارے میں شائع ہوا، اس قبیل کے لوگوں کی مکالماتی اخلاقیات، علمی دیانت اور فنی چابک دستی کی عمدہ مثال ہے۔ احتجاج یا اعتراض سے قطع نظر، یہ ریکارڈ میں لانا ضروری ہے کہ ننگی تحقیر، دشنام اور بین السطور نفرت و غضب سب ہمارے حصے میں آئے، مواشی پروری کی الفتیں اہلِ مدرسہ ڈسکورسز پر نچھاور ہوئیں اور ڈگن تھامے ماہی گیری کی مہارتیں وہ علمی جینیات اور طریقیاتی منہج میں دکھاتے پھرے۔ حیرت ہے کہ فاؤسٹ تو ابلیس سے معاہدے کے بعد اپنی انسانیت سے دستبردار ہوا تھا اور یہ محض مواشی پروری ہی میں انسانیت سے جاتے رہے۔ یہ اِدھر بیٹھے تالیاں پیٹتے رہتے ہیں کہ جنابِ ابلیس سے ایمان کے عوض وجودی معاہدے کے بعد تہذیبِ مغرب کی صورت ’مولانا‘ فاؤسٹ کا منصوبہ نہ صرف مال و طاقت بلکہ کثرتِ اولاد معنوی و احفادِ عملی میں بھی زبردست کامیاب رہا۔ مال، عہدہ، علم اور ادب اب نفخِ فاؤسٹ سے برآمد ہوتے ہیں اور یہ بیم و رجا میں بخشیش کے امیدوار رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی متبادل، مخالف یا استفہامی تنقید کی بھنک بھی مولانا فاؤسٹ کے ان جعلی ارادت مندوں کو اول حیرت، پھر بے چینی اور آخرکار برہمی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ وہ ایسی آوازوں کی طرف فاتحانہ ہمدردی، تحقیری زعم اور نفسیاتی اجارہ گردی سے متوجہ ہوتے، بھاشن شروع کرتے اور اپنی ہمہ دانی کا اعلان کرتے ہیں۔
ہمارا بیان کردہ موقف یہ ہے کہ ہم تہذیبِ مغرب کی قہاری کے روبرو بھی اس کے باطل تصورِ حیات اور علم کی کہاری کے قائل نہیں۔ باربرداری کے عادی بخشی صاحب بلا سے ہمیں ”میت“، ”نابینا“، ”خود مسمار“ اور ”بھکاری“ کہیں، اور جھوٹ کا طومار باندھ لائیں، لیکن ہمیں اس بات کا مکمل استحضار ہے کہ عصرِ حاضر کے انفس و آفاق میں ہمیں صرف سوئی کے ناکے جتنی جگہ میسر ہے اور ہم ان کی دلجوئی کے لیے بھی فی الوقت وہاں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔ ان کا پیچ و تاب اور دشنام دہی اسی وجہ سے ہے۔ میں تو یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ان کے احوال میں انسانوں اور شیطانوں کی طرح لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مغرب کی رامشگری کو ہی آدمی اپنا موقف سمجھ لے تو وہی کچھ ہو سکتا ہے جو ان سے بن پڑا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اپنی علالت کے باوجود مجھے اس دھونسیانہ، ردی اور بددیانتی بھرے مضمون کا جواب لکھنا پڑا۔ یہ مضمون بنیادی طور پر چار چیزوں پر مشتمل ہے جن کو ذیل میں بساط بھر زیربحث لانے کی کوشش کروں گا:
(۱) جدید مکالمے کی اخلاقیات کا اطلاقی اظہار تاکہ مغرب کے غالب علمی مباحث اور ان کے مقامی غلبے اور نفوذ پر سوال اٹھانے یا تنقید کرنے والوں کی تحقیر اور دشنام دہی کے اسالیب کو تازہ دم رکھا جا سکے۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد یہی اظہارِ حقارت و نفرت ہے جس کی زیریں لہر پورے مضمون میں رواں ہے۔ اگر تحریر کی بنیاد مخاطب کے موقف کی عدم معلومیت کے الزام پر رکھی جائے تو علم نمائی کے باوجود وہ صرف نفرت اور حقارت کا اظہار ہی رہ جاتی ہے، اور یہی اس تحریر کا خاصہ ہے۔
(۲) فاؤسٹ کی تمثیل صرف گریچن پروری کے تحقیری مقاصد کے لیے لائی گئی تھی، اور اس کے مصداقات اور اطلاقات محض سینہ زوری اور بددیانتی پر مبنی ہیں۔
(۳) مدرسہ ڈسکورسز کی تعلیمات و دراسات کے حق میں کچھ بے دلیل دعاوی کہ ان کی مبینہ حریف جدیدیت مذہب کی عین مراد ہے، اور یہ دعویٰ کہ ہماری تفہیمِ جدیدیت ان کی پیش کردہ علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کی شرائط پر ناقص ہے۔ ہم پر حسبِ عادت انتخابی تعصب، خطیبانہ انداز اور اخفائے موقف کا الزام بھی ہے۔ پھر وہ افادۂ محققین کے لیے علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کی مشق فرماتے ہوئے مبینہ حریف جدیدیت کو بلا تجزیہ و جواز سندِ علم عطا فرماتے ہیں اور استعماری جدیدیت کا ذکر سرے سے محذوف ہے۔
(۴) مضمون کا بڑا حصہ محققین کو مغربی علوم میں جدیدیت کی معنوی اور فکری تصریفات ’سُجھانے‘ پر مشتمل ہے تاکہ مخاطب کے اٹھائے ہوئے بنیادی اور نزاعی سوالات سے اعراض و اغماض برتا جا سکے۔
(۱) مکالمے کی اخلاقیات
(الف) جناب عاصم بخشی نے گریچن کی آڑ لے کر جو ارشادات فرمائے ہیں، اور جن تنبیہات سے نوازا ہے ان سے قارئین کی طرح مجھے بھی اس قبیل کے لوگوں کی فکر اور اخلاقیات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔ یہ مضمون میرے لیے بھی چشم کشا تھا اور ایک حسنِ ظن کے خاتمے کا باعث بنا ہے۔ میں ان کے بارے میں یہ گمان بہرحال نہیں رکھتا تھا کہ وہ کارِ علمی کو کاروکاری ہی بنا دیں گے۔ وہ چونکہ ایک مذہبی آدمی سے مخاطب ہیں، جس کی تحریروں پر ان کے تشنجی اظہارات سابق میں سامنے آتے رہے ہیں، اس لیے مکالمے کے نعرے کے علی الرغم وہ خود کو کسی اخلاقیات کا پابند نہیں پاتے۔ مخاطب کا مذہبی ہونا ان کے لیے علمی اور اخلاقی license کا کام کرتا ہے، اور موضوع زیربحث سے اعراض ان کا ”طریقیاتی منہج“ ہے۔ ان کے بھاڑے پر اٹھائے ہوئے معرِفات پر پورے نہ اترنے والے ”مایوس مذہبی ذہن“ کے حاصلات پر اس قبیل کے ”رجائیت پسند“ لوگوں کا پیچ و تاب اور غضب کیا رنگ لاتا ہے، وہ اس مضمون سے ظاہر ہے۔ مجھے تو لگا کہ بخشی صاحب علم کے الطاف حسین ہو گئے ہیں۔ میں اربابِ مدرسہ ڈسکورسز کی دور اندیشی اور حسنِ انتظام کو بھی خراج تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکا کہ انہوں نے بیرونی سرپرستی کے ساتھ ساتھ مقامی کمک کے لیے بھی سپاری تھما رکھی ہے۔ لیکن افسوس کہ بخشی صاحب نے میرے جواب سے پہلے ہی آئندہ کسی مضمون سے معذرت کر لی۔ شاید ”معاملہ“ اسی ایک مضمون کا طے پایا ہو گا۔ میں یہ جواب نہ لکھتا لیکن بخشی صاحب کی بے دلی دیکھ کر یہ مشقت اٹھانا پڑی کہ مدرسہ ڈسکورسز سے ”عملی تعلق“ نہ رکھنے کے باوجود ان کو ”فکری دفاع“ کا شاید لمبا کنٹریکٹ مل جائے۔ اس قبیل کے لوگ کافی پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کا کمال یہ ہے کہ فرمائشی ٹھیلا لگانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔
(ب) بخشی صاحب کی دیانت بھی دیکھ لینی چاہیے۔ فرماتے ہیں: ”اس منصوبے سے عملی تعلق نہ رکھنے کے باعث راقم اس منصوبے کے خدوخال اور اغراض و مقاصد کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی رائے رکھنے سے قاصر ہے۔“ اب مدرسہ ڈسکورسز اور حریف جدیدیت کے بارے میں ان کا فیصلہ بھی ملاحظہ فرمائیں: ”ڈاکٹر فضل الرحمٰن رحمہ اللہ، ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر عمار ناصر وغیرہم خالص مذہبی روایت فکر یعنی ’آرتھوڈوکسی‘ کے جزیرے میں جنم لے کر ایک ایسی حریف جدیدیت کے امکانات برپا کرنے نکلے ہیں جو فکری خود مسماریت پسندی کے برعکس ہماری خالص مذہبی (یعنی آرتھوڈوکس) روایت سے قریب تر ہے۔“ ’امکانات برپا کرنے نکلے ہیں‘ کی جلالت مآبی سے قطع نظر، کیا اس موقف کو ایک غیرواضح اور غیرحتمی رائے ہی کہا جائے گا؟ اصل میں کبر و نخوت کے بخارات آدمی کو چڑھے ہوں تو وہ اپنی تعلی کو حقائق ہی سمجھتا ہے اور نفرت و حقارت کے اظہار کو مکالمہ آرائی خیال کرتا ہے۔ ان کی گواہی کا انتظار تھا اور اب حریف جدیدیت آرتھوڈوکسی قرار پائی ہے اور ثقہ علم تو بس ان کے چھونے سے ہو گئی ہے۔
(ج) اپنے دعوے کے بموجب، بخشی صاحب کو ’خطیبانہ‘ سے چڑ ہے، اور وہ سائنسی اور علمی تجزیے کے دلدادہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ فاؤسٹ سے مانگے کی خطابت بھی نہ نبھاہ سکے۔ حیرت ہے کہ ہمیں ’تنقید کی گریچن‘ کی گالی کے لیے فاؤسٹ کی ایسی کاسہ لیسی کرنا پڑی، اور ڈسکورسی علم تک آتے آتے پوری تمثیل ہی اوندھی کر دی۔ ویسے جو بے ذوق آدمی گوئٹے سے جلبِ دشنام کرتے ہوئے تمثیلِ فاؤسٹ کی مدرسہ ڈسکورسز پر تطبیقِ معکوس کر سکتا ہے، وہی ایسا بے سروپا مضمون بھی لکھ سکتا ہے۔ فاؤسٹ تہذیبِ مغرب کے ادب اور فنون لطیفہ میں ایک archetypal motif کی حیثیت رکھتا ہے اور عقل میں ایک اساسی موقف کی۔ انسان کی ارضی تقدیر اور خیر و شر کی رزم میں فاؤسٹ کی تمثیل غیرمعمولی ہے۔ تہذیبِ مغرب کے شعوری حاصلات، نفسی تلونات اور ارادی کمالات کی تفہیم میں فاؤسٹ ایک بنیادی حوالہ ہے۔ اس تمثیل کا معنوی جزو اعظم یہ ہے علم کارِ مرداں ہے، دوں فطرت لوگوں کا کام نہیں، اور بخشی صاحب کا پورا مضمون اسی فراموشگاری سے پیدا ہوا ہے۔ بخشی صاحب تو بس کہاری علم کے خطیب اعظم ہیں۔ اگر انہیں فاؤسٹ سے کوئی تعارف ہوتا تو شاید انہیں مردوں کی طرح لڑنے اور گالی دینے کا سلیقہ ہی آ جاتا۔
(۲) فاؤسٹ کی تمثیل اور ہیراپھیری
(الف) حریف جدیدیت کا فاؤسٹ؟ چہ معنی؟ بخشی صاحب اہلِ مدرسہ ڈسکورسز کو فاؤسٹ کی تمثیل کا مصداق قرار دیتے ہیں تو ان کی ادبی تفہیم اور ذوق کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ آگے چل کر ان کی علمی جینیات اور طریقیاتی منہج کے اطلاقات سے ان کا فکری اور علمی ایجنڈا بھی ڈھکا چھپا نہیں رہتا۔ باربردار کا مسئلہ بس ڈھونے سے ہوتا ہے سچ جھوٹ سے نہیں ہوتا، اور چیونٹی کی طرح جز رسی سے اساسی مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ ادبی کاسہ لیسی اور جینیاتی خچر بازاری تو فاؤسٹی علم میں بھی مکروہات ہی شمار ہوتی ہیں۔ ’مولانا‘ فاؤسٹ کی انسانی عظمت یہ ہے کہ وہ انسانی تقدیر سے واقف ہے، خدا اور شیطان دونوں کو پہچانتا ہے، اور اپنی حریتِ فکر اور آزاد مرضی سے ایک دوٹوک فیصلہ کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس امر پر کوئی مذہبی یا غیر مذہبی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ یہ انسان کی ارضی تقدیر کا مظہر ہے۔ صاحبِ مضمون گریچن جیسی معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ ”کیا مدرسہ ڈسکورسز کا فاؤسٹ اپنی روح کا سودا کر چکا ہے؟“ حیرت ہے کہ وہ مقام آدمیت سے محروم، خیر و شر کی رزم سے غافل، اور حق و باطل کے شعور سے تہی اہلِ مدرسہ ڈسکورسز کو فاؤسٹ کی عظمت عطا فرمانا چاہتے ہیں! یا للعجب کہ یہ کوئی ”روح“ بھی رکھتے ہیں جس کے سودے کی ان میں کوئی انسانی جرأت ہے! نہ جانے بخشی صاحب کو یہ خوش فہمی کیسے ہو گئی کہ کہ ہم کسی ’مقامی فاؤسٹ‘ پر کوئی تنقید کر رہے ہیں! افسوس کہ وہ فاؤسٹ کو جانتے پہچانتے تک نہیں۔ فاؤسٹ کا تعارف مدرسہ ڈسکورسز میں بھرتی کے لیے درخواست گزاری کا نہیں ہے، بجٹ کی منظوری کے ساتھ ان کی تخلیق و تشکیل کا ہے۔ استعماری جدیدیت کی طرح، حریف جدیدیت کا فاؤسٹ مستعمِر (colonizer) کے خلف سے ہے، متجدد نہیں ہے۔ مذبذبین کبھی نہیں پوچھیں گے کہ یہ متجدد کیا مخلوق ہے؟ یہ جس جینیالوجی پر نازاں ہیں، اس میں ان دونوں کا ’علمی‘ نسب ایک ہی ہے۔ مذبذب کی طرح متجدد کا وجودی سانچہ فاؤسٹ کی غلامی کا ہے، کسی وجودی رزم کا نہیں ہے۔ فاؤسٹ، برصغیر کے مستعمِرین (colonizers) کا ’جد امجد‘ اور استشراق کی طرح مدرسہ ڈسکورسز کا خالق ہے، جبکہ ڈسکورسز کے درخواست گزار، آقائے سرسید کے قبیلۂ متجددین کے وارث ہیں۔ بخشی صاحب کی علمیت اسی التباس پر کھڑی ہے۔
مغربی ادب اور فنون میں اور علوم کی واقعیت میں، فاؤسٹ خدا اور ابلیس کی رزم گاہ کا جمالیاتی اور علمی کردار ہے، اور یہ رزم ہمارے مذبذبین اور متجددین کے لیے وراء الورا کا درجہ رکھتی ہے، اور وہ اسی پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ مغرب کی خانہ زاد جدیدیت میں ہر چیز نفخ ِفاؤسٹ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس طرح مستعمَر (Colonized) اور متجدد کا وجود بھی نفخی ہے، جسے عمرانی علوم میں mimic man کہا گیا ہے۔ ’علمی جینیات‘ اور ’طریقیاتی منہج‘ کی سینہ کوبی میں بخشی صاحب کی جعل سازی یہ ہے کہ نفخ فاؤسٹ سے پیدا ہونے والی مخلوق کو ہی فاؤسٹ قرار دے رہے ہیں۔ تنقید کے ”نادیدہ جزیروں“ کو دیکھنے والی آنکھوں کی دید کا یہ عالم ہے۔
یہ تو سچ مچ کا عجوبہ ہو گیا کہ ایک موہوم ”علمی جینیات“ کی مدد سے مدرسہ ڈسکورسز کو فاؤسٹ سے جوڑنے کی بیگار میں بخشی صاحب یہ بھول گئے کہ فاؤسٹ ان کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ مدرسہ ڈسکورسز کا۔ شاید فاؤسٹ کی ابلیسی عظمت کی للک میں انہیں یہ خوش فہمی ہو گئی ہو۔ اگر وہ ”علمی جینیات“ کے اطلاقات سے باخبر ہوتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ آنجناب اور اربابِ مدرسہ ڈسکورسز اس خمیرِ انسانی سے محروم ہیں جس سے فاؤسٹ پیدا ہوا ہے۔ اس قبیل کے لوگ تو فاؤسٹ کے پس خوردہ جات کا علمی راتب بنانے کی مزدوری میں کرائے پر بلوائے گئے ہیں۔ بخشی صاحب نے اپنی ”علمی جینیات“ اور ”طریقیاتی منہج“ کی محض نمائش کرتے ہوئے شادیوں میں شریک چموٹے والے میراثی کو تان سین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس میں بڑا مخمصہ یہ ہے کہ صاحبِ مضمون نے اپنی اخلاقیات کے مظاہر پر بساط بھر زور لگانے کے بعد جب ”علمی“ بات شروع کی تو اپنے مولانا فاؤسٹ کی وجودی اور علمی دیانت کو قطعی فراموش کر دیا۔ ’مولانا‘ فاؤسٹ خدا سے رنجش، وحی و مذہب سے بیزاری، ابلیس سے اپنے معاہدے کی مکمل تفصیلات اور اپنی بے پایاں جاہ طلبی کے احوال کی پوری نقشہ کشی کرتا ہے۔ مولانا فاؤسٹ ایک موقف رکھتا ہے، اور اس کے دوٹوک اظہار کی اخلاقی اور انسانی جرأت بھی۔ ہمارے ممدوح کی دیانت کا عالم یہ ہے کہ پہلے یہ مذبذبین (یہ لفظ ایک دوسرے سیاق میں خود انہوں نے اپنے تعارف میں برتا ہے۔) میں سے ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں، اور پھر پتلی گلی کی تلاش کرتے ہیں، اور اس کی عدم موجودگی میں سڑک کا ڈھکن اٹھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا سے معاہدہ کر سکتے ہیں اور نہ شیطان سے، اور نہ فاؤسٹ کی انسانی جرأت سے ان کو کوئی حصہ ملا ہے۔ اس قبیل کے لوگوں کی اعلیٰ انسانیت اس وقت اظہار پاتی ہے جب ان کا مخاطب کوئی مذہبی آدمی ہو، لیکن ساتھ ہی پابندی سے یہ نعرہ بھی ضرور لگائیں گے کہ مخاطب کا موقف معلوم نہیں۔ آدمیت ان کے احوال میں داخل ہے اور نہ خطاب میں شامل ہے۔
فاؤسٹ مذہبی آدمی سے ایک گہری مماثلت رکھتا ہے کہ وہ اس کی طرح دوٹوک اقرار اور انکار کی دنیا کا آدمی ہے، اور یہ انسان کی ارضی تقدیر بھی ہے اور اس کی وجودی معنویت بھی۔ اقرار و انکار سے صرف وہی بے بہرہ ہے جو اپنے انسان ہونے پر شرمندہ ہو اور آدمیت سے دستبردار ہو چکا ہو۔ مذبذب بنیادی طور پر اقرار اور انکار سے تہی ایک لنڈورے وجود کا نام ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کوئی شک نہیں کہ بخشی صاحب فخریہ اپنے مذبذب ہونے، یعنی اقرار و انکار سے تہی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مجھ جیسا مذہبی آدمی تو چلو قابل نفرت ٹھہرا، لیکن ذرا فاؤسٹ ہی سے پوچھ لیجیے کہ کیا اس طرح کی مخلوق آدمی اور انسان ہونا qualify کرتی ہے؟ جو شخص فاؤسٹ سے ذرا برابر بھی واقفیت رکھتا ہے اسے معلوم ہو جائے گا کہ بخشی صاحب تو فاؤسٹ کی تقویم شعور و وجود پر بھی انسان نہیں ہیں۔ انسان کا علم اقرار و انکار سے پھوٹتا ہے۔ یہ بخشی صاحب کس علم کی بات کرتے ہیں، اور ان کا بھاشن کس بات کا ہے؟
خدا، ابلیس اور فاؤسٹ کی تکون مجھ جیسے ناچیز اور ”خود مسمار“ مذہبی آدمی کا مسئلہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”راقم گو اپنی کم سوادی کے باعث خود کو حریف جدیدیتوں کے منصوبے کے خاطر خواہ دفاع، اور برادر بزرگ جوہر صاحب سے مکالمے اور جوابِ تنقید کا بھاری پتھر اٹھانے کے قابل نہیں سمجھتا، لیکن بہرحال اپنے جیسے طلبا اور محققین کو ان سماجی مقولات کی تعریفات میں حائل پیچیدگیوں سے مختصراً آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہے۔“ یعنی وہی موقف کہ خدا کے ساتھ ہیں نہ ابلیس کے طرفدار ہیں، اور مقام آدمیت کی علمبرداری کے باوجود فاؤسٹ کے ساتھ بھی نہیں۔ ستائش باہمی کے اصول پر مقصد مدرسہ ڈسکورسز کے شامل باجا کے طور پر علم بگھارنا ہے۔ یعنی شریک ہیں نہ تماشائی۔ بس نری تماش بینی ہے، اور وہ بھی بھاڑے کرائے کی۔
(جاری)